AIOU Course Code 4602-2 Solved Assignment Autumn 2022

تاریخِ اسلام۔۱۱. 4602

مشق۔2۔

 

سوال نمبر ایک برصغیر میں برطانوی عہد کے آغاز و ارتقاء کی تعریف بیان کریں

جواب۔

ہندوستان میں برطانوی راج: مہاراجے اور حکمران جنھیں انگریزوں نے ’زوال پذیر‘ شخصیات کے طور پر دیکھا

ادھے پور کے فتح سنگھ نے اپنے جاہ و جلال کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا

آزادی سے قبل ہندوستان کے مہاراجوں یا شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کے بارے میں ہاتھیوں، رقص کرتی لڑکیوں اور عظیم الشان محلات جیسے تصورات عام رہے ہیں لیکن تاریخ دان منو پلئی نے ان مہاراجوں یا حکمرانوں کی میراث پر نظرثانی کی ہے۔

اگر آپ ان کے زیورات، محلوں اور عالیشان درباروں سے ہٹ کر دیکھیں تو آپ ایک بات ضرور نوٹ کریں گے کہ ان کو بڑے پیمانے پر طعنے دیے گئے، ان کا مذاق اڑایا گیا یا پھر ان میں عیب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔

انگریز اپنے دور میں ہندوستان کے ’مقامی‘ شہزادوں کو زوال پذیر شخصیات کے طور پر دیکھتے تھے جو حکومت کی بجائے سیکس اور زرق برق ملبوسات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

مثال کے طور پر ایک سفید فام آفیسر نے مہاراجوں کو ’ہیبت ناک، گھناؤنا اور ظاہری شکل و صورت میں قابل نفرت‘ قرار دیا، جو کسی رقاصہ کی طرح ’بالیاں اور ہاروں سے آراستہ‘ ہوتے تھے۔

سفید فام آفیسر نے یہ بھی کہا کہ ’سفید فام مردوں کے برعکس یہ مہاراجے مردانہ وجاہت نہیں بلکہ زنانہ صفات کے مالک احمق لوگ ہیں۔‘

مہاراجوں کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی کوشش

مہاراجوں کے بارے میں یہ دقیانوسی خیالات دہائیوں تک قائم رہے۔ سنہ 1947 میں لائف میگزین نے بھی کچھ اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق ایک مہاراجہ کے پاس اوسطاً ’11 خطاب، تین یونیفارم، 5.8 بیویاں، 12.6 بچے، پانچ محل، 9.2 ہاتھی اور کم از کم تین رولز روئس گاڑیاں ہوتی تھیں۔‘

میسور کے چمرجندر وڈیار نے صنعتی منصوبوں پر کام کی گمراہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعدا و شمار مضحکہ خیز بھی تھے کیونکہ یہ کل 562 ریاستوں پر مشتمل تھے جن میں زیادہ تر چھوٹی ریاستیں شامل تھیں اور ان کی سیاسی اہمیت بہت ہی 03038507371کم تھی۔

سوال نمبر2 خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب بیان کریں

جواب۔

خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب

علامہ ابو الحسن علی ندویؒ خلافت عثمانیہ کے زوال کی تاریخ اور وجوہات کوبیان کرتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ:

“کہ سب سے بڑا مرض جو ترکوں میں پیدا ہوا تھا وہ جمو دتھا اور جمود بھی دونوں طرح کے علم وتعلیم میں بھی جمود اور فنون جنگ اور عسکری تنظیم وترقی میں بھی ۔۔۔ علمی جمود اورذ ہنی اضمحلال اس وقت صرف تر کی اور اس کے علمی اور دینی حلقوں کی خصوصیت نہیں تھی ، واقعہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلامی مشرق سے مغرب تک ایک علمی انحطاط کا شکار تھا ، دماغ تھکے تھکےسے تھے اور طبیعتیں بجھی بجھی سی نظر آتی تھیں اور ایک عالمگیر جمود اور افسردگی چھائی ہو ئی تھی ،اگر ہم احتیاطًا آٹھویں صدی سے اس ذہنی اضمحلال کی ابتدا ء نہ کریں تو اس میں شبہ نہیں کہ نویں صدی وہ آخری صدی تھی ،جب جدت فکر ،قوت اجتہاد اور ادب وشاعری ،حکمت وفن میں ندرت اور تخلیق کے آثار نظر آے ہیں ، یہی وہ صدی ہے جس میں مقدمہ ابن خلدون جیسی مفکرانہ تصنیف عالم اسلام کو حاصل ہو ئی ،دسویں صدی سے بہت واضح طور پر افسردگی ، شدت تقلید اور نقالی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ، یہ افسردگی اور اضمحلال کسی خاص شعبہ اور کسی خاص فن کے ساتھ مخصوص نہیں تھا ، دینی علوم ، شعر وادب ،انشاٗ وتاریخ تعلیمی نصاب ونظام سب کے سب کم وبیش اس سے متا ثر نظر آتے ہیں ، پچھلی صدیوں کے علماء کے تذکرے اور کتب وسوانح پڑھئے ، سینکڑوں ناموں میں ایک ایسے شخص کا ملنا مشکل ہو گا جس پر عبقری کے لقب کا اطلاق کا لقب درست ہو یا جس نے کسی موضوع پر کوئی نئی چیز پیش کی ہو ، یا کسی خاص علم میں اس نے کو ئی گرانقدر اضافہ کیا ہو ۔۔۔۔ سوائے مجدد الف ثانی کے مکتو بات اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البا لغہ ۔شاہ رفیع الدین کی تکمیل الاذہان ،شاہ اسماعیل شہید کی چند ایک تصانیف۔۔۔۔

…………….

…….

….

سوال۔3۔ عالم اسلام کے اہم مسائل کون کون سے ہیں تفصیل سے بیان کریں

جواب۔

    موجودہ وقت میں مسلمانوں کے لیے جس قدر سنگین یہ مسئلہ ہے کہ وہ ہر سطح پر اور ہر علاقہ میں مشکلات کا شکار ہیں اسی قدر؛ بلکہ اس سے بڑھ کر خطرناک، وہ صورتِ حال ہے جو مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی مذموم مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے؛ بلکہ درحقیقت پہلا مسئلہ بڑی حد تک اسی صورتِ حال کا نتیجہ اور اس کا شاخسانہ ہے۔ یہ واضح کرنے کے لیے کسی دلیل وحجت کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ صورتِ حال کن طاقتوں کی پیدا کردہ ہے۔

          حالات پر سرسری نظر رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ تازہ صورتِ حال، جن واقعات وحادثات کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ان کا واضح طور پر آغاز، اکیسویں صدی عیسوی کے پہلے سال ۲۰۰۱/ میں پیش آنے والے نائن الیون کے حادثہ سے ہوا ہے، جس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے مضرثابت ہونے والا کوئی دوسرا واقعہ گذشتہ چوتھائی صدی میں پیش نہیں آیا۔ اس سے قطع نظرکہ اس واقعہ اصلی ذمہ دار کون ہے اور اس کے پس پشت کن لوگوں کا کردار ہے، اس سے زیادہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ اور امریکہ ومغربی طاقتوں اور صہیونیت کے لیے فائدہ مند کوئی دوسرا واقعہ ملنامشکل ہے۔ اس واقعہ کے بعد ہی اسلام دشمن طاقتیں اپنی اس خواہش کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکیں کہ مسلمانوں کو برملا دہشت گرد کہیں، اسلام کو دہشت گردی کامنبع قرار دیں اور ہربرائی کا انتساب مسلمانوں کی جانب کردیا کریں۔

          اور اس کے بعد تو پھر بہت کچھ ہوا، کتنے ہی اسلامی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، کتنی قانونی حکومتوں کا تختہ الٹاگیا، کتنی سازشیں بروئے کارلاکر مسلمانوں اور ان کے ممالک کو طرح طرح کے معاہدوں کا پابند کیاگیا اور اس طرح ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے اور کس کس طریقہ سے عالم اسلام کو میدان جنگ بناکر اپنے اسلحہ کی کھپت کا انتظام کیاگیا۔ مسلم ممالک کے حصے بخرے کیے گئے یا اس کی کوشش کی گئی اس احتیاط کے ساتھ کہ اس سے مسلمانوں کے کسی فریق کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوجائے۔ مسلمانوں کی دینی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی دینی تعلیم پر قدغن لگانے کے انوکھے طریقے ایجاد کیے گئے اور آزمائے گئے۔

03038507371

سوال نمبر۔4 برصغیر میں مغل عہد حکومت کے نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالیں

جواب۔

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اور ان کے رویے کے بارے میں یہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی اردو پر چار مارچ 2018 کو شائع کی گئی تھی جسے اب قارئین کے لیے دوبارہپیش کیا جا رہا ہے۔

مغل بادشاہوں میں صرف ایک شخص انڈیا کی اکثریتی برادری میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس شخص کا نام اورنگزیب عالمگیر تھا۔ انڈین افراد کے درمیان اورنگزیب کی تصویر ایک سخت گیر مذہبی ذہنیت والے بادشاہ کی ہے جو ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا اور جس نے اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کو بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے نہیں بخشا۔علاوہ ازیں اس نے اپنے معمر والد شاہجہاں کو ان کی زندگی کے آخری ساڑھے سات سال تک آگرہ کے قلعے میں قید رکھا۔

پاکستان کے ایک ڈرامہ نگار شاہد ندیم نے لکھا ہے کہ ’تقسیم ہند کے بیج اُسی وقت بو دیے گئے تھے جب اورنگزیب نے اپنے بھائی دارا کو شکست دی تھی۔‘

’انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے بھی سنہ 1946 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘ڈسکوری آف انڈیا’ میں اورنگزیب کو ایک مذہبی اور قدامت پسند شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔

لیکن حال ہی میں ایک امریکی تاریخ داں آڈرے ٹرسچکی نے اپنی تازہ کتاب ‘اورنگزیب، دا مین اینڈ دا متھ’ میں بتایا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگزیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیونکہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا

ٹرسچکی نیوارک کی رٹجرس یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ پڑھاتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کی اس شبیہ کے لیے انگریزوں کے زمانے کے مؤرخ ذمہ دار ہیں جو انگریزوں کی ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلم مخاصمت کو فروغ دیتے تھے۔

اس کتاب میں وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اگر اورنگزیب کی حکمرانی 20 سال کم ہوتی تو جدید مؤرخوں نے ان کا مختلف ڈھنگ سے تجزیہ کیا ہوتا۔

لال قلعہ ہندوستان میں مغل سلطنت کی تاریخ کا امین ہے

سوال نمبر 5 درج ذیل پر نوٹ لکھیں

۔1کر بلا

2۔ حضرت عبداللہ بن زبیر

جواب۔

سانحہ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء ) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں مشہور عام تاریخ کے مطابق اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی فوج نے رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام عالی مقام حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام،22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی خواتین و بچے شامل تھے۔

اسباب

شخصی حکومت کا قیام

اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا ان کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

03038507371

Leave a Comment