AIOU Course Code 4602-1 Solved Assignment Autumn 2022

تاریخِ اسلام۔۱۱. 4602

مشق۔1۔

 

سوال نمبر 1۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد حکومت کی اصطلاحات پر روشنی ڈالیں

جواب

عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر ممتکن ہوئے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔حضرت عمر بن عبد العزیز مشہور اموی فرمانروا مروان حکم کے پوتے تھے جبکہ آپ کی والدہ حضرت عمر فاروق کی پوتی تھیں، اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں فاروقی خون بھی شامل تھا۔ آپ کے والد عبد العزیز مصر کے گورنر تھے جس کی وجہ سے آپ نے شاہانہ ماحول میں پرروش پائی۔ آپ اموی خلیفہ عبد الملک کے بھتیجے اور داماد ہونے کی وجہ سے مختلف عہدوں اور مناصب پر فائز رہے تھے۔ شروع ہی سے آپ کی طبیعت میں شاہانہ وقار تھا، آپ بے حد نفیس لباس پہنتے اور خوشبویا کا کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ خلافت کا بار اٹھانے کے بعد آپ کے تمام معمولات میں تبدیلی آ گئی، تمام شاہانہ ٹھاٹھ ختم کر دیئے اور شاہی لباس اتار کر فقیرانہ لباس زیب تن کر لیا۔ کنیزوں کو آزاد کر دیا اور اپنے لئے انتہائی سادہ اور عسرت کی زندگی کو پسند کیا۔ الغرض آپ فقر و استغناء کا پیکر ہو کر رہ گئے تھے۔ آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ خلفائے راشدین کی پیروی کریں۔

03038507371

سوال نمبر 2 ۔ اموی عہد حکومت میں معاشرتی سرگرمیوں کی تفصیلات درج کریں

جواب۔

علم و ادب

اسلام نے حصول علم کی جس طرح حوصلہ افزائی کی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اموی قوم کے افراد نے پڑھنا لکھنا سیکھا۔ قرآن و حدیث کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا۔ ان کی تعلیمات کو سمجھا اور دنیا بھر کے معلم قرار پائے۔ انہوں نے دوسری قوموں کے عوام سے بھی فائدہ اٹھایا اور حقائق کو قصے کہانیوں سے الگ چھانٹ کر ان کو نئے اسلوب سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ جس کا آغاز نبوت اور خلافت راشدہ میں ہوا اور جس کے بھرپور مظاہر خلافت عباسیہ میں سامنے آئے۔ عہد بو امیہ میں یہ ارتقا غیر محسوس طریقے سے جاری رہا

قرآن

اموی دور کی فتوھات نے ان علاقوں کی تعداد میں بہت اضافہ کر دیا جہاں اسلام کی تبلیغ ہو سکتی تھی۔ چنانچہ مفتوحہ قوموں کے بے شمار افراد نے قرآن پاک لکھنا شروع کیا لیکن ان کے لیے اعراب کے بغیر کتاب کو پڑھنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے عبد الملک بن مروان نے اپنے دور حکومت میں قرآن پاک پر اعراب لگوائے اور ایک جیسے حرف کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کے لیے نقطے لگائے گئے۔ عبد الملک خود قرآن پاک سے گہرا شغف رکھتا تھا اور عمر بن عبد العزیز کی دینی ذوق کے بارے میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں۔ ان دونوں خلفاء کے زمانوں میں قرآن پاک کے حفظ کے بارے میں تفسیر لکھنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ اموی دور کے مشہور مفسرین قرآن میں عکرمہ، قتادہ بن دعامہ سروسی، مجاہد بن جبیر، سعید بن جبیر اور حسن بصری معروف ہیں اور بعد کے مفسرین انہی کی آراء کے حوالے دیتے ہیں۔ حضرت علی کے ایک رفیق اور حمزہ اور امام باقر نے بھی تفاسیر لکھی تھیں۔

حدیث

حدیث کی تدوین کے نقطہ نظر سے بھی اموی دور بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دور میں بعض صحابہ تابعین کی کثیر تعداد اور تبع تابعین موجود تھے۔ اس لیے فطری طور پر یہ روایات جمع کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا دور تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس شعبہ کی طرف توجہ فرمائی اور احادیث کے مجموعے مرتب کروائے اور ان کی نقول دور دراز کے علمی مراکز کو بھجوائیں۔ خالد بن معدان، عطا بن ابی رباح اور عبد الرحمن ( جو حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پوتے تھے) کے صحیفے اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ثمرہ بن جندب اور وہب بن منبہ کی بیاضیں ان کے علاوہ تھیں۔ ہشام بن عبد الملک نے امام زہری سے چار سو احادیث کا مجموعہ مرتب کروایا۔

,

,

,

,

سوال نمبر 3 بنو عباس کے زوال کے اسباب بیان کریں۔

جواب۔

واقعہ کربلا میں نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کو ان کے 72 اہل بیعت سمیت جس بے دردی سے شہید کیا گیا ؛اس بربریت کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اس واقعہ نے عالم اسلام کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا ۔ اس کے بعد بنو امیہ نے 100سال تک عالم اسلام پر حکومت کی لیکن ان کے دور میں خاندان علیؓ کو حکومت میں لانے کے تحریکیں چلتی رہیں ۔

 

اس تما م دور میں شیعان حضرت علی ؓ نے اموی خلفاء کا ناک میں دم کئے رکھا۔ جیسے جیسے عوام کو علم ہوتا گیا تواموی سلطنت بھی کمزور ہوتی چلی گئی اور یہ تحریکیں زیر ِزمین پھلتی پھولتی گئیں تا آنکہ ان کی باگ دوڑ خاندان حضرت علی ؓ سے نکل کر ڈرامائی انداز میں خاندان بنو عباسؓ کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ یوں ایک طویل جد جہد کے بعد بنو عباس کے پہلے خلیفہ ابوالعباس السفاح نے چودھویں اور آخری اُموی خلیفہ مروان ثانی بن محمد بن مروان الحکم کو دریائے ژاب(عراق میں واقع ہے ) کے کنارے شکست دی ۔ اس نےخلافت بنی عباسیہ کی داغ بیل ڈالی جو 1258ء تک قائم رہی اور بالاخر چنگیز کے خان کے پوتے ہلاکو خان نے عباسی خلیفہ مستعصم بااللہ اور اس کے بیٹوں کے قتل کے بعد ملت اسلامیہ سے خلافت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔

03038507371

سوال نمبر 4 عہدے بنو عباس میں مذہبی علوم میں جو نمایاں کام ہوا اس کا جائزہ لیں۔

جواب۔

اموی عام طور پر بہترین منتظمیں ثابت ہوئے اور انہیوں نے اپنی سلطنت کو سیاست اور اپنی جنگی قوت کے امتزاج کے بل بوتے پر قابو میں رکھا۔ تاہم، مختلف عرب اور عجمی قبائل، جن میں سے شعوں اور ایرانیوں، کا وفاق سے علیحدہ ہونا ایک ایسا سنگین مسلئہ تھا جسے وہ دائرہ اختیار میں نہ لا سکے۔ مزید برآں، اپنے دور کے خاتمے تک، شاہی خاندان کا اندرونی حلقہ بھی منتشر ہو گیا تھا، ان کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا تھا اور ریاست پر ان کا تسلط کمزور ہو گیا۔ آخری اموی مقتدر اعلیٰ، مروان ثانی ( ۷۴۷ تا ۷۵۰ء) نے ایک واضع بغاوت کی صورت میں اپنے عوام کی سرکشی، تنفر اور ہنوز دبائی جانے والی آگ کا سامنا کیا۔

 

بغاوت عباسیہ

عباس بن عبد المطلب (۵۶۸ تا ۶۵۳ء) محمدﷺ کے چھوٹے چچاوں میں سے ایک تھے، اور ان کی اسی نسبت نے ان کی آل اولاد کی اس بغاوت کو ہوا دی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ باغیوں نے کبھی اہل بیت کی اصطلاح کی کبھی وضاحت نہیں کی: شیع مسلمانوں کے مطابق اہل بیت خاندان علی تھا،جبکہ عباسی اس اصطلاح کو اپنے لیے استعمال کرتے تھے۔

 

.

.

……………………

…………..

سوال نمبر 5۔ عہد عباسی کی اصلاحی و عسکری تحریکات پر روشنی ڈالیں۔

جواب۔

عہدِ عباسی میں علوم و فنون کا ارتقاء-

اسلام نے شروع ہی سے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی پہلی آیت جو نبی کریمﷺ پر نازل کی ،اس کی شروعات علم سے ہوتی ہے:

”پڑھو(اے نبی )اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو،اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا“(العلق:۱،۵)

مختلف احادیث میں بھی علم حاصل کرنے اور اس کو پھیلانے کی تاکید کی گئی ہے۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مر داور عورت پر فرض ہے“(ابن ماجہ:۴۲۲)

یہاں علم سے مراد صرف حلال و حرام یعنی علوم شرعیہ ہی نہیں ہیں،بلکہ ہر وہ علم ہے جس کے ذریعے انسان اپنے فرائض اور ذمے داریوں کو کما حقہ ادا کر سکے، جس کے لیے اسے زمین کا خلیفہ بنا یا گیا ہے۔

نبی کریم کی بعثت کے وقت کل ۷۱ لوگ ہی مکہ مکرمہ میں پڑھنا لکھنا جانتے تھے ۔اسی لیے آپ نے شروع ہی سے اس پر توجہ دی ۔غزوات میں جب عربوں کی ایسی جماعت گرفتار ہوئی جو لکھنا پڑھنا جانتی تھی تو ان کا فدیہ یہی ہوتا تھا کہ وہ دس مسلمانوں کو تعلیم دیں۔ آپ کی اس خصوصی توجہ سے صحابہ کرام میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔اس کو خلفاءراشدین نے مزید آگے بڑھایا(بلاذری :انساب الاشراف)۔

اسلام کے آغاز میں صرف دینی و شرعی علوم ہی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن سکے، لیکن جب اسلامی حکومت وسیع ہوئی اور اموی دور (۱۶۶-۰۵۷ئ)شروع ہوا تو علوم عقلیہ و نقلیہ دونوں طرف بھرپور توجہ دی گئی۔اس کے بعد عباسی حکومت (۰۵۷-۸۵۲۱ئ) ابوالعباس السفاح کے ذریعے قائم ہوئی، جس میں کل اکیس خلیفہ ہوئے ۔ اس کا خاتمہ ۸۵۲۱ءمیں تاتاریوں کے ہاتھوں ہوا۔اس دور میں علمی و تعلیمی تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ جرجی زیدان نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:03038507371

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *