AIOU Tareekh Urdu Adab 5601-2 Solved Assignment Autumn 2022

 

سوال نمبر 1

    اردو زبان و ادب کے حوالے سے مسعود سعد سلمان کی اہمیت اور امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کی خدمات پر روشنی ڈالی ہے  

Ans.

           برصغیر پا ک وہند میں بادشاہوں کے دربار ادبی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیو ں کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتے تھے ۔مگر ان درباروں تک رسائی عوام کی بجائے چند مقربین اور حاشیہ نشینوں کو میسر تھی ۔جن کی سرپرستی میں شاعر وں اور ادبیوں کا ایک مخصوص حلقہ علم و ادب کی آبیاری میں مصروف رہتا۔ ادب کے اس اشرافیہ دائرے میں رہنے والے ادیب اور شاعر معاشی حوالوں سے فوائد بٹورتے رہتے تھے لیکن ادب کی صحیح معنوں میں آبیاری ان درباروں سے ہٹ کر بھی ہو رہی تھی اور ایسے عوامی دربار موجود تھے ،جہا ں ہر ملک اور ہر خطے کے انسان باآسانی رسائی حاصل کرسکتے تھے ۔ یہ صوفیائے کرام کے آستانے اور خانقاہیں تھیں جہاں سے تما م انسان روحانیت، صبر و سکون ،قنا عت اور توکل کا عملی درس حاصل کرتے رہتے تھے۔ اور جن کی مبلغانہ کوششوں اور کاوشوں کی وجہ سے زبان و ادب کو بھی فروغ مل رہاتھا۔
صوفیا ئے کرام برصغیر پاک وہند کی عوامی فضاؤں میں جہاں زبان کو تنومند بنارہے تھے اور ادب کے پودے کی آبیاری میں مصروف تھے تہاں انہوں روشنی کے پھیلانے کی اہم ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھارکھی تھی۔انہوں نے اپنے خلوص ،حسن اخلاق اور بے لوث خدمت کے ذریعے بر صغیر کی رو حانی فضا میں انقلاب بر پا کردیا ۔ان بزرگو ں نے برصغیر کی علمی، ادبی، تہذیبی اور ثقافتی زندگی کو توہمات سے نکالنے اور زمینی حقائق کے ساتھ آنکھیں چار کرنے کے قابل بنانے کی کوشش کی۔ اس طرح برصغیرمیں اسلامی تصوف کی عالمگیر تحریک شروع ہوئی اور شعر و ادب ،فلسفہ اور روحانیات کو یہاں ایک ایسی سازگار فضا ہاتھ آئی جس کی بدولت زندگی کو ایک نئے نقطۂ نظر سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔

سوال نمبر2 گوجری ادب کے اہم شعرا کے بارے میں تفصیل سے لکھیے

Ans.


گوجری

گوجری (انگریزی: Gujjari) زبان پاکستان، بھارت افغانستان اور کشمیر میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔عہد وسطیٰ میں ہندوستانی گجرات اور راجھستان وغیرہ میں یہ لوگ بڑی بڑی سلطننتوں کے حاکم تھے ۔گیارہویں ,بارہویں اور تیرہویں صدی میں ہندوستان پر حملہ کرنے والے عرب اور ترک حملہ آوروں نے ان کی ان عظیم ریاستوں کو ختم کیا جس سے یہ زبان سرکاری سرپرستی اور گجر قوم اپنی مرکزیت سے محروم ہوگٸ۔اس کے بعدان لوگوں نے کشمیر کا رخ کیا اور وہاں جاکر آباد ہوگیۓ۔کشمیر ہی سے یہ لوگ ایک طرف پنجاب میں دریاۓ جہلم کے دونوں اطراف میں پھیل ہوگیۓ اور دوسری طرف ہزارہ ڈویژن,ملاکنڈ ڈویژن اور افغانستان کی طرف نکل گیۓ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے سندھ ,بلوچستان اور گلگت بلتستان کا رُخ کیا ۔عرب اور ترک حملہ آوروں کے ہاتھوں اپنا اقتدار گنوانے کے بعد اس قوم کی دربدری کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔اس دوران کشمیر اور پنجاب میں تو یہ لوگ ہمیشہ مستحکم و خوشحال رہے لیکن پختونخواہ,گلگت بلتستان,سندھ,بلوچستان اور افغانستان میں ان پر جو بیتی وہ ناقابل بیان ہے۔کہاں وہ وقت کہ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک تھے اور کہاں ایسا وقت کہ دوسروں کے باج گزار بن گیۓ۔چترال,انڈس کوہستان,ملاکنڈ ڈویژن,ہزارہ ڈویژن,سندھ,بلوچستان,گلگت بلتستان اور افغانستان غرض ہر جگہ مختلف قوموں نے ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھاۓ اور عملاََ ان کواپنا غلام بناۓ رکھا۔انیس سو اسی کے بعد قاٸدِ قوم فانوس گجر کی قیادت میں انجمن گوجراں ,گجر یوتھ فورم اور اسی طرح کے دیگر پلیٹ فارمز سے اس قوم نےاپنے حقوق کےلیۓ آٸینی وقانونی جدوجہد کا آغاز کیا۔اس جدوجہد کے انتہاٸ مثبت اثرات مرتب ہوۓ۔اب ان علاقوں میں آباد گجر سماجی,معاشی اور سیاسی طور پرماضی کی بنسبت زیادہ مستحکم اور خوشحال ہیں۔اپنی کھوٸ ہوٸ مرکزیت کو دوبارہ حاصل کرنے کےلیۓ یہ قوم پاکستان میں اپنے لیۓ الگ صوبے کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں گجرستان کے نام سے یہ اپنا ڈویژن بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔پاکستان میں صوبہ گجرستان ,صوبہ گجر دیس ,صوبہ ہزارہ گجرستان صوبہ گوجرانوالہ-گجرات وغیرہ کے نام سے مختلف تحریکیں الگ صوبے کے قیام کا مطالبہ کررہی ہیں جس میں گوجرانوالہ ڈویژن,گجرات ڈویژن ,خطہ پوٹھوہار کےاضلاع,ہزارہ ڈویژن اور ملاکنڈ ڈویژن پر مشمتل علاقوں کو ایک صوبہ بنانے کا مطالبہ ہے جس کانام صوبہ گجرات ,صوبہ گوجرانوالہ ,صوبہ گجردیس ,گجرستان رکھا جاۓ یا پھر ملاکنڈ گوجرانوالہ,ہزارہ گجرستان,پوٹھوہار گردیس ,پوٹھوہار گوجرانوالہ ,ہزارہ گجرات وغیرہ رکھاجاۓ۔ مزید برآں تیرہویں صدی میں اپنی کھوٸ ہوٸ مرکزیت کو دوبارہ حاصل کرنے کےلیۓ کشمیر کو ایک الگ آزاد و خودمختار ریاست بنانا بھی گجر نیشلسٹوں کا مشن ہے۔واضح رہے کہ گجر قوم ہندوستانی کشمیراور پاکستانی کشمیر کی جموعی طور پر چار بڑی قوموں میں سے ایک ہے۔باقی تین بڑی قومیں کشمیری,ڈوگری اور پہاڑی ہیں۔کشمیر کا ایک آزاد و خودمختار ملک بن جانا بالعموم کشمیر کی تمام قوموں اور بالخصوص گجر قوم کے مفاد میں ہے۔اسلیۓ پاکستان ,انڈیا ,افغانستان اور کشمیر کے گجر قوم پرست مثلاََ گل رحمان ہمدرد وغیرہ کشمیر کوآزاد ریاست بنانے کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں

سوال نمبر3

بہمنی سلطنت میں ہونے والی شاعری میں اردو کے ابتدائی نمونے ملتے ہیں مثالوں سے وضاحت کریں

شمس قیس رازی لکھتے ہیں ”غزل اس درد ناک چیخ کا نام ہے جو ہرن کے منہ سے اس وقت نکلتی ہے جب اسے شکاری کتوں سے بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی“

جب کہ علامہ شبلی کہتے ہیں ”غزل کی تحریک عشق و محبت سے ہوتی ہے“ ۔

ہیiت کے اعتبار سے غزل ایک خاص صنف سخن کا نام ہے۔ جس میں مطلع، مقطع، قافیہ، ردیف کا ہونا ضروری ہے۔ غزل کے اشعار زیادہ سے زیادہ سترہ اور کم سے کم پانچ ہو سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غزل کب پیدا ہوئی؟ اور اسے یہ نام کب ملا؟ اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ غزل کی ابتدا ایران سے ہوئی اور فارسی غزل نے عربی قصدے سے جنم لیا۔ رود کو فارسی شاعری کا باوا آدم تصور کیا جاتا ہے اور عورتوں میں رابعہ بن قز دادی پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں سنائی، عطارد اور رومی نے غزل کی عاشقانہ بات چیت کو تصوف کی نئی کیفیت سے آشنا کیا۔

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ خود سنائی کی غزل میں ایک قسم کی غرابت محسوس ہوتی ہے۔ تیسری یا چوتھی صدی عیسوی میں ہندو ستان پر سب سے پہلے صفاریوں نے حملہ کیا۔ یہ ایران سے آئے تھے وہ اپنے ساتھ فارسی تہذیب کے ساتھ فارسی ادب بھی لائے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہندوستان کے لوگوں پر ایرانی تہذیب و ادب کا اثر ہونا لازمی بات ہے۔

محمد عوفی نے اپنی کتاب ”لباب الباب“ میں خواجہ ابن سعد سلیماں کو اردو کا پہلا شاعر قرار دیا ہے۔ جو فارسی زبان کے صاحب دیوان شاعر تھے۔ اس بات کا اقرار امیر خسرو نے ”، غرةالکمال“ میں بھی کیا ہے۔ خواجہ ابن سعد کے ہاں فارسی اور عربی کے علاوہ ہندی کلام بھی موجود ہے۔

03038507371

سوال نمبر4 قطب شاہی دور میں ہونے والی شاعری اردو زبان کے ارتقا میں ایک سنگ میل ہے وضاحت کریں

ادب کا دکنی دور

علاؤ الدین خلجی کے حملے نے دکن کی زبان اور تہذیب و تمدن کو بہت متاثر کیا۔ مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے علاؤ الدین خلجی نے یہاں ترک سرداروں کو حکمران بنا دیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دیو گری کو دار السلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کووہاں جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھرانے وہاں آباد ہوئے۔ ان کے ساتھ ہی نئی زبان و تہذیب بھی دکن پہنچی۔ مقامی باشندوں اور اہلیانِ دلی کے ملاپ سے ہندوی زبان وجود میں آئی جسے قدیم اردو بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے صوفیا نے اس زبان کو تبلیغی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اسکے بعد اس زبان نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ جب دکن میں مستقل تصانیف ملتی ہیں اسوقت شمالی ہندوستان میں سوائے امیر خسرو کی خالق باری، سید اشرف سمنانی کے رسالہ نثر اور افضل جھنجھانوی کی مثنوی کے کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ سلطان محمد تغلق کی سلطنت کمزور ہوئی تو دکن میں آزاد بہمنی سلطنت قائم ہوئی اور دکن، شمالی ہندوستان سے کٹ کر رہ گیا۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد پانچ آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ریاستوں کے حکمران ادیب اور ادب پرور تھے۔ ابراہیم عادل شاہ نے اردو کو شاہی زبان کا درجہ دے دیا۔

بیجا پور کی عادل شاہی حکومت

عادل شاہی حکومت کی بنیاد 895ءہجری میں پڑی۔ یہاں کا پہلا حکمران یوسف عادل شاہ تھا۔ بہمنی ریاست کے زوال کے بعد یوسف شاہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی۔ یہ حکومت دو سو سال تک قائم رہی اور نو بادشاہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے۔ ابتدائی صدی میں دکنی زبان کی ترقی کے لیے کچھ خاص کام نہیں ہوا اور ایرانی اثرات، شیعہ مذہب اور فارسی زبان دکنی زبان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنے۔ لیکن اس کے برعکس دور عادل شاہی کی شاہی سرپرستی دوسری صدی میں اردو و ادب کی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی اور ان کے جانشین محمد عادل شاہ نے اس سلسلے میں دکنی زبان کی جانب خصوصی توجہ دی۔ محمد عادل شاہ کے جانشین علی عادل شاہ ثانی نے دکنی کو اپنی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس صدی میں شاہی سرپرستی کی وجہ سے ادب میں درباری رنگ پیدا ہوا۔ اصناف سخن کی باقاعدہ تقسیم ہوئی۔ قصیدے اور غزلیں کہی گئیں اور شاعری کا ایک اعلیٰ معیار قائم ہوا۔ اس کے علاو ہ صوفیا نے بھی یہاں کی زبان پر گہرے اثرات چھوڑے۔
عادل شاہی دور میں اردو کے فروغ و ترویج کے مختصر جائزے کے بعد آئیے اب اس دور کے شاعروں کا مختصر تذکرہ کریں تاکہ زبان و ادب کے ارتقاءکا اندازہ ہو سکے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *