AIOU Arabic Zaban-o-Adab (Al-Quran Hadith) Code 4639-2 Solved Assignment Autumn 2022

کورس کوڈ۔4639

مشق نمبر۔2.

سوال نمبر 1۔c

جواب۔

حدیث کا تعارف

 

لفظ حدیث کے بارے میں ہماری اکثریت اتنا توجانتی ہے کہ اس کا تعلق رسول اللہ ﷺ سے ہے۔ مگر اس کی روحانی و علمی حیثیت کیا ہے؟ اس سے وہ ناآشنا ہے۔حدیث کے معاملہ میں لادینی حلقوں نے بھی عامیانہ پن کو اپنا یا اوراس سے کورے و پرے رہے۔ بہت سے اسلامی علوم کی دل چسپی جس طرح آج ختم ہوگئی ہے اسی طرح حدیث وسنت اور سیرت رسول بھی خاصی متأثر ہوئی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ امت اس وقت تک سرخرو اور کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے رویے اور رجحانات تعلیمات نبوی میں نہ ڈھال لے۔ مگر ہمیں اس منبع کا علم تو ہو جہاں سے یہ نور نبوت پھوٹتا ہے اور جس کی روشن کرنیں حیوانیت کے قوی کو شل کئے دیتی ہے۔یہ منبع علم حدیث رسول ہے جسے نبوت کی تابانی نے بڑی محنت، خوش اسلوبی اور صاف ستھرے اور نتھرے اصولوں سے پیش کیا ہے اور جس کی سچائی وثقاہت اس کے اپنے مصادر سے ہی ظاہر وباہر ہے۔ اس لئے بغیر کسی مزید گفتگو کے ہم اصل مقصد کی طرف بڑھتے ہیں:

حدیث کی تعریف

لفظ حدیث کا مادہ ح د ث ہے جس کا معنی ہے کہ ایک شے جو پہلے نہیں تھی اب ہے۔ جیسے لفظ حادثہ۔ ہرنئے واقعے کے لئے بولا جاتا ہے۔حدیث بھی نیا کلام ہے جس کے حروف والفاظ پہلے نہیں تھے اب ہیں۔

لغت میں لفظ حدیث، قدیم کی ضد بھی ہے۔احادیث اس کی جمع تکسیر ہے ۔ جس سے مراد خبر، کہانی، قصہ پارینہ، گفتگویا اطلاع دیناہے۔ یاہر وہ کلام، حدیث ہے جو انسان بولتا ہے، اسے آگے نقل کرتا ہے اوراس کے کانوں تک سوتے یا جاگتی حالت میں پہنچتا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ حدیث، قول، عمل ، تقریر اور اخلاق وکردار سبھی کے لئے استعمال ہوا ہے

03038507371

 

سوال نمبر2 مرکب اضافی کے اجزاء کون کون سے ہیں دس مثالیں خوشخط اور واضح عرب کے ساتھ تحریر کریں

جواب۔

مرکب اضافی کی تعریف:

    وہ مرکب ناقص جس میں ایک کلمہ کی اضافت دوسرے کلمہ کی طرف ہو۔ جیسے: وَلَدُ زَیْدٍ۔

فوائد وقواعد:

    ۱۔ جس اسم کی اضافت کی جائے اسے”مضاف”اورجس کی طرف اضافت کی جائے اسے ”مضاف الیہ” کہتے ہیں ۔ جیسے:مِشْبَکُ زَیْدٍ(زید کا کلپ)میں مِشْبَک ُکی اضافت زَیْدٍ کی طرف کی گئی ہے لہذا مِشْبَکُ مضاف اورزَیْدٍ مضاف الیہ ہے۔

    ۲۔عربی زبان میں پہلے مضاف آتاہے پھر مضاف الیہ ۔جیسے اوپر کی مثالوں میں۔

    ۳۔ مرکب اضافی کااردو ترجمہ کرتے وقت پہلے مضاف الیہ کا ترجمہ کریں گے پھر مضاف کا ۔

    ۴۔ مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان اردو ترجمہ کرتے وقت عموماً لفظ ”کا”، ”کی” ، ”کے” یا ”را”، ”ری”، ”رے”وغیرہ آتے ہیں۔ جیسے :مُسْتَشْفٰی زَیْدٍ (زید کا ہسپتال)أَطْفَالُ مَدْرَسَۃٍ (مدرسے کے بچے)کِتَابُ زَیْدٍ(زید کی کتاب)قَلَمِیْ(میرا قلم)۔

    ۵۔ مضاف پر نہ تو تنوین آتی ہے اور نہ ہی الف لام داخل ہوتاہے۔

    ۶۔ مضاف کا اعراب عامل کے مطابق ہوتاہے اور مضاف الیہ ہمیشہ مجرور ہوتا ہے۔

03038507371

 

سوال نمبر 3 اسم موصول سے کیا مراد ہے یہ کتنے اور کون کون سے ہیں ہر ایک کی واضح اعراب کے ساتھ پانچ پانچ سالہ خوش خط تحریر کریں

جواب۔

    وہ اسماء جو جملے کااکیلے جزء نہ بن سکیں بلکہ اپنے مابعد جملے سے ملکر کسی جملے کاجزء بنیں ایسے اسماء کو اسمائے موصولہ کہاجاتاہے۔ ان اسماء کے بعد جملہء خبریہ ہوتاہے اور اس کو اسم موصول کا صلہ کہتے ہیں۔ جیسے جَاءَ الَّذِیْ نَصَرَنِیْ  ( وہ شخص آیا جس نے میری مدد کی) ۔اس مثال میں اَلَّذِیْ اسم موصول ہے اور نَصَرَنِیْ پورا جملہ فعلیہ اس کا صلہ ہے، موصول اور صلہ دونوں ملکر جَاءَ کا فاعل ہیں۔ اکیلا اَلَّذِیْ ماقبل جملے کا جزء نہیں بن سکتا۔

ترکیب: جَاءَ الَّذِیْ نَصَرَنِیْ

     جَاءَ فعل اَلَّذِیْ اسم موصول نَصَرَفعل ھُوَ ضمیر فاعل نون وقایہ ی ضمیر مفعول بہ نَصَرَ فعل ھُوَ ضمیر فاعل اور مفعول بہ سے ملکر جملہ فعلیہ ہو کر اَلَّذِیْ اسم موصول کا صلہ ، موصول صلہ ملکر جَاءَ کا فاعل، فعل فاعل ملکر جملہ فعلیہ ۔

اسمائے موصولہ :

مذکر کے لئے:

حالت رفعی حالت نصبی وجری  ترجمہ   صیغہ

أَلَّذِیْ   أَلَّذِیْ   وہ جویا اس کو جو  واحد مذکر کیلئے

أَلَّذَانِ   أَلَّذَیْنِ  وہ(دو)جو ، یا ان(دو) کوجو   تثنیہ مذکر کیلئے

أَلَّذِیْنَ   أَلَّذِیْنَ   وہ(سب)جو ، یا ان (سب)کو جو جمع مذکر کیلئے

…………………………………………………………………………………………………………..

………………………………………………………………………………………………………..

…………………………………………………………………………………………………………..

سوال نمبر 4۔ اسماء استفہام سے کیا مراد ہے ہر ایک کی دس مثالیں بعض اعراب کے ساتھ ساتھ اس طرح تحریر کریں کہ الفاظ تعریف اور مثال میں مطابقت سمجھ آئے

جواب۔

کلمات استفہام کی تعریف:

استفہام کے لغوی معنی سوال کرنا ، پوچھنا ہے،جبکہ اصطلاح میں کلمات استفہام سے مراد وہ کلمات ہیں جن کے ذریعے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے۔ کلمات استفہام دو قسموں پر ہیں۔

1) حروف استفہام

2) اسمائے استفہام

1 ) حروف استفہام:

حروف استفہام دو ہیں۔

2) ”ھل”

1) ہمزہ (أ)

ہمزہ استفہام کیلئے آتا ہے۔

03038507371

سوال نمبر 5۔ تین سے دس تک عربی گنتی کے قواعد ساتھ جامع انداز میں خوش خط تحریر کریں

جواب۔

عربی میں گنتی کو عدد اور جو چیز گنی جائے یا جس کی تعداد بیان کی جائے اس کو معدود کہتے ہیں۔

تین سے دس تک عربی گنتی کے قواعد:

تین سے دس تک عدد معدود کے درمیان تین چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

1) عدد ترکیب میں مضاف اور معدود مضاف الیہ بنتا ہے،جیسے: ثَمَانِیَۃُ أَقْلاَمٍ۔

2) تذکیر اور تانیث میں تین سے دس تک دونوں (عدد معدود) ایک دوسرے کے ہمیشہ مخالف ہوں گے، یعنی معدود مذکر ہو تو عدد مونث لائیں گے، اور اگر معدود مونث ہو تو عدد مذکر لائیں گے۔ جیسے ثَلاَ ثَۃُ رِجَالٍ ، ثَلاَثُ نِسْوَۃٍ ،أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ۔ عَشَرُ رُوْبِیَاتٍ ، ثَلاثَۃُ دُوْلَارات

3) معدود صرف اور صر ف تین سے دس تک کے عدد کے بعد جمع کی صورت میں آئیں گے، جیسے: خَمْسُ مُوَظَّفَاتٍ

4) معدود مجرور ہوگا۔ جیسے اربعۃ رِجَالٍ، خمس نساء (مجرور)۔

5) معدود جمع مکسر ہو گا۔

عربی زبان میں جمع کی دو اقسام ہیں، جمع سالم اور جمع مکسر۔

جمع مذکر سالم بنانے کا طریقہ

واحد کے آخری حرف پر ”پیش” اور ”ون” کا اضافہ کر دیں۔

جیسے: مسلم سے مسلمون

عابد سے عابدون

مجاھد سے مجاھدون

صالح سے صالحون

کافر سے کافرون وغیرہ۔

…………………………………………………………………………………………………………..

………………………………………………………………………………………………………..

…………………………………………………………………………………………………………..

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *