AIOU Arabic Zaban-o-Adab (Al-Quran Hadith) Code 4639-1 Solved Assignment Autumn 2022

کورس کوڈ۔4639

مشق نمبر۔1 

سوال نمبر 1- آیت الکرسی خوشخط واضح اعراب اور ترجمہ کے ساتھ تحریر کریں نیز عقیدہ توحید پر قرآنی آیات کی روشنی میں جامع نوٹ لکھیں۔

جواب۔

اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-وَ لَا یَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ

ترجمہ۔

اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بے اس کے حکم کے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی میں سمائے ہوئے ہیں آسمان اور زمین اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے سب سے اہم اور پہلا نظریہ “ عقیدۂ توحید “ ہے۔ توحید تمام عقائد کی اِبتدا اور جَڑ ہے جس طرح درخت کا وُجود شاخ سے نہیں بلکہ جڑ کی وجہ سے باقی رہتا ہے اسی طرح عقیدۂ توحید پر ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ایک سے زیادہ خدا ہونے کے قائل ہیں اللہ پاک نے اُن کے کُفر کا صاف اعلان فرمایا ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے : لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳) اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۴)  تَرجَمۂ کنزُالایمان : بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور خدا تو نہیں مگر ایک خدااور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے تو جو ان میں کافر مریں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہونچے گا۔ ([i])  (اس ا۔

 

03038507371

سوال نمبر2 عربی گرامر میں اسم فعل اور حرف کی جامع انداز میں تعریف کریں نے سورۃ الحجرات میں دس دس اسماء افعال اور حروف کا واضح عرب سے جدول بنائے۔

جواب۔

اسم، فعل اور حرف کی علامات

جملے میں کم از کم دو کلموں کا ہونا ضروری ہے ایک مسند اور دوسرا مسند الیہ عام ہے کہ وہ دونوں کلمے لفظی ہوں یاایک لفظی ہو ایک تقدیری لفظی کی مثال جیسے (ضَرَبَ زَیْدٌ اور زَیْدٌ قَائِمٌ) اور ایک لفظی ہو ایک تقدیری کی مثال جیسے (اِضْرِبْ) کہ دوسرا کلمہ یعنی اَنْتَ ضمیر اس میں پوشیدہ ہے اور جملے میں کلمات دو سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ مصنف ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جملہ میں کلمات زیادہ ہوں تو اس کے اندر چار باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے

(۱)  اسم ‘ فعل ‘ حرف کو الگ الگ کرن

(۲)  معرب اور مبنی کو پہچاننے میں غور کرنا

(۳)  عامل اور معمول کو پہچاننا

(٤)  کلمات کا آپس میں تعلق معلوم کرنا تاکہ مسند اور مسند الیہ ظاہر ہو جائیں اور جملے کا معنی تحقیقی طور پر معلوم ہو جائے

علامات اسم   علامات اسم گیارہ ہیں جو مثالوں کے ساتھ درج ذیل ہیں

…………………………………………………………………………………………………………..

………………………………………………………………………………………………………..

…………………………………………………………………………………………………………..

 

سوال نمبر 3 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 285 286 کا مستند تفسیر سے مطالعہ کریں اور ان آیات کو واضح کے ساتھ تحریر کریں نیز ان آیات میں مذکور احکام الگ الگ کرکے جامعہ انداز میں تحریر کریں

جواب۔

آیت۔285

ترجمہ۔ رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے

تفسیر۔

285

 

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(۲۸۵)

ترجمہ: کنزالایمان

رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے

03038507371

سوال نمبر 4۔ عربی گرامر میں میں فعل مضارع سے امر حاضر کیسے بنتا ہے ہے نیز ثلاثی مجرد کے تمام ابواب کے فعل مضارع سے فعل امر خوشخط اور واضح اعراب کے ساتھ بنائے

جواب۔

 ایسے فعل کو کہتے ہیں کہ جس میں کسی کام کرنے کا حکم، طلب یا التماس پائی جائے۔

اگر یہ حکم حاضر کو دیا جائے تو اسے امر حاضر کہتے ہیں اور اگر غائب کو دیا جائے تو اسے امر غائب کہتے ہیں اور دونوں کے بنانے کا طریقہ مختلف ہے۔ امر حاضر کے صرف چھ صیغے ہوتے ہیں۔أمر حاضر کو بنانے کے لیے پہلے فعل مضارع کو دیکھنا پڑتا ہے مثلاً: ضَرَبَ کا أمر حاضر بنانے کے لیے پہلے يَضْرِبُ کو دیکھیں گے۔ اگر تو تیسرے حرف (ع حرف) پر رفع (پیش) ہے تو علامتِ مضارع کو ہمزہ سے بدل کر اس پر پیش لگا دی جائے گی لیکن اگر تیسرے حرف پر نصب (زبر) یا جر (زیر) ہے تو علامتِ مضارع کی جگہ ہمزہ لگا کر اُس پر زیر لگا دی جائے گی۔ مثلاً:

الفعل الماضي ,الفعل المضارع  ,الفعل الأمر

ضَرَبَ        ,يَضْرِبُ ,    إِضْرِبْ

سَمِعَ  ,يَسْمَع   , إِسْمَعْ

كَتَبَ  , يَكْتُبُ  ,أُكْتُبْ

دَخَلَ کا فعل امر أُدْخُلْ ہو گا۔ اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس کا فعل مضارع يَدْخُلُ ہے۔

فعل مضارع سے فعل امرحاضرمعروف بنایا جاتا ہے جسکے معنی حکم دینے کے ہیں… یہ فعل مضارع کے مخاطب کے چھ صیغوں سے بنتا ہے جن میں تین مذکر اور تین موَنث کے ہوتے ہیں…

۵- یَجْلِسُ

…………………………………………………………………………………………………………..

………………………………………………………………………………………………………..

…………………………………………………………………………………………………………..

سوال نمبر 5 تفسیر کبیر کا جامع تعارف کریں نیز اس میں معرفہ اور اسم نکرہ کی تعریف کرتے ہوئے کتاب میں مذکور تفسیر کبیر کے حصے میں سے مرکب اضافی اور مرکب توصیفی کی دس مثالیں واضح عرب کے ساتھ خوش خط تحریر کریں کریں۔

جواب۔

تفسیر کبیر کا شمار تفسیر بالرائے کے طریقہ پر لکھی گئی اہم ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ اس کی تصنیف چھٹی صدی ہجری کے نام ور عالم اور متکلم امام محمد فخر الدین رازی (۵۴۳ھ ۔ ۶۰۶ھ) نے شروع کی ، لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں اس کی تکمیل، حاجی خلیفہ کی رائے کے مطابق قاضی شہاب الدین بن خلیل الخولی الدمشقی نے اور ابن حجر کی رائے کے مطابق شیخ نجم الدین احمد بن محمد القمولی نے کی۔ یہ بات بھی معین طور پر معلوم نہیں کہ تفسیر کا کتنا حصہ خود امام صاحب لکھ پائے تھے ۔ ایک قول کے مطابق سورۂ انبیا تک ، جبکہ دوسرے قول کے مطابق سورۂ فتح تک تفسیر امام صاحب کی اپنی لکھی ہوئی ہے۔ ۱؂ تاہم اس معاملے میں سب سے زیادہ تشفی بخش اور مدلل نقطہ نظر الاستاذ عبد الرحمن المعلمی نے اپنے مضمون ”حول تفسیر الفخر الرازی” میں اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط داخلی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ تفسیر کے درج ذیل حصے خود امام صاحب نے لکھے ہیں ، جبکہ باقی اجزا الخولی یا القمولی کے لکھے ہوئے ہیں:

۱۔ سورۂ فاتحہ تا سورۂ قصص

۲۔ سورۂ صافات ، سورۂ احقاف

۳۔ سورۂ حشر، مجادلہ اور حدید

۴۔ سورۂ ملک تا سورۂ ناس ۲؂

03038507371

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *