AIOU Course Code 9258-2 Solved Assignment Autumn 2021

9258پرنسپلزآفبراڈکاسٹنگکورس

پروگرام

بیاےماسکمیونیکیشن

2 مشق

سوال

ریڈیو پروگرام کا مسودہ تحریر کرتے ہوئے کن تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے

 

آپ کے خطے میں ہو یا ملک بھر میں ، ریڈیو بڑے سامعین تک پہنچنے کا ایک بہت بڑا طریقہ ہے۔ ریڈیو پروگراموں میں موسیقی ، انٹرویوز ، صحافت ، کہانیاں یا دیگر آڈیو مواد شامل ہوسکتا ہے جو ڈی جے یا میزبان کے ذریعہ تخلیق یا منتخب کیا گیا ہے۔ اس متنوع اور پُرجوش میدان میں شامل ہونے کا طریقہ اور اپنے معیار کے پروگرام کو تیار کرنے کا طریقہ سیکھیں

بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ریڈیو ہی معلومات کا ایک مؤثر ذریعہ تھا۔ اس میں کئی سرکردہ سیاسی رہنما موقع بہ موقع تقاریر کرتے تھے۔ بھارت کی آزادی کے وقت ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے قوم سے خطاب کر کے اپنی تقریر کی تھی جس میں انہوں نے یہ واضح کیا تھا کہ نصف شب جب ساری دنیا سو رہی ہو گی، بھارت اٹھ کر اپنی آزادی کا جشن منائے گا۔ چنانچہ یہی صورت حال 15 اگست 1947ء کے دن کی شروعات کی نصف شب میں دیکھا گیا تھا۔ حیدرآباد، دکن میں 17 ستمبر 1948ء کے دن بھارت کی فوج کا ایک آپریشن مکمل ہوا، جس کے بعد حیدرآباد کی نوابی ریاست کا بھارت میں انضمام ہو گیا۔ اس موقع پر بھی یہاں کے نظام میر عثمان علی خان نے اپنی ریاست کی ریڈیو خدمات کی مدد سے اس انضمام کا اعلان کیا اور اعلان کیا کہ ان کی ریاست کا بھارت میں الحاق غیر مشروظ، حتمی اور دائمی ہے۔ بر ضغیر کے نو جوانوں اور بزرگوں میں کرکٹ کی جنونی حد تک وابستگی کے پیچھے بھی ریڈیو کی کرکٹ کامنٹری کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ایک دور میں لوگ کامنٹری کو بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اس کے علاوہ خواتین فلمی نغمون اور مکالموں کے پروگرام بڑے شوق سے سنے جاتے تھے۔ پکوان، باغبانی، کاشت کاری وغیرہ بھی ریڈیو پر عام تھے اور سنے جاتے تھے۔ ریڈیو ڈرامے بھی لوگوں کی تفریح اور ان کے گہرے انہماک کا اہم ذریعہ تھے۔ ٹاک شوز کی بھی لوگ سماعت کرتے تھے جس میں مشاہیر کے انٹرویو ہوتے تھے اور کبھی کبھی کئی لوگ اپنے خیالوں کا تبادلہ کرتے تھے۔ مگر ریڈیو میں سب سے اہم پروگرام کی صنف خبریں تھی۔ ریڈیو کی ایک بڑی خوبی وقت کی مکمل پابندی تھی۔ لوگ ریڈیو پروگرام اس پر نشر وقت سے اپنی گھڑیوں کو ملا لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات جو ریڈیو میں آج بھی عام ہے، وہ یہ کہ ریڈیو شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں میں زیادہ مقبول آج بھی ہے۔ شہری علاقوں میں موبائل فونوں اور اسمارٹ فون کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ لوگ ریڈیو کے ایف ایم چینلوں کو زیادہ سننے لگے ہیں۔ جدید دور میں ریڈیو کی ایک اور خوبی بیرونی نشریات بھی ہیں۔ مثلًا چین میں بھارت کی ہندی زبان کی نشریات پہنچتی ہیں۔ مصر اپنے یہاں سے العربیۃ الرادیو نام سے عربی سیکھنے کے ریڈیو پروگرام دنیا کی کئی زبانوں میں نشر کرتا ہے۔

موجودہ دور اطلاعات اور برقی نشریات کا ہے۔ ذرائع ترسیل و ابلاغ نے انسانی زندگی کو جس طرح متاثر کیا ہے اس نے پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کردیا ہے۔ اطلاعات و معلومات کی فراوانی کے سبب ایک طرف تو معاشرے حقیقت پسندی اور عقلیت کے حامل ہورہے ہیں تو دوسری طرف نظریات کی بوچھار نے ان کی قوتِ فیصلہ سلب کرلی ہے۔ ہماری تمام خواہشیں ذرائع ترسیل و ابلاغ کی محکوم ہوکر رہ گئی ہیں۔ ذرائع ترسیل و ابلاغ کی اسی اثرپزیری کو دھیان میں رکھیں تو معاشرے کی بیداری میں ریڈیو ایک بہت اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ملک کے معاشرے کی بیداری میں ریڈیو کا اہم رول ہوتا ہے اور میڈیا میں اگر ہم صرف ریڈیو کی بات کریں تو یہ رول خودبخود نمایاں ہوجاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ ذرائع ابلاغ کے دوسرے وسیلوں کے مقابلے میں ریڈیو کے کئی فائدے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی آواز بہت ہی کم خرچ پر دنیا کے کونے کونے تک پہنچ سکتی ہے۔

اس میں استعمال ہونے والی ٹکنالوجی بھی اتنی پیچیدہ نہیں جتنی ٹیلی ویژن میں ضرورت ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ریڈیو کی آواز سننے کے دوران ہم دوسرے کام بھی کرسکتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ریڈیو کا فائدہ ناخواندہ لوگ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ ان سب باتوں کی وجہ سے ہی پوری دنیا نے ریڈیو کی ایجاد کے بعد ذرائع ابلاغ کے اس وسیلے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سماج کو جدید بنانے کے لیے اس کا استعمال کیا۔ ہندوستان میں بھی ابتدا میں ریڈیو کا بھرپور استعمال کیا گیا جس سے سماجی بہبود کے کام کو کافی تقویت ملی۔ بنیادی طور پر ریڈیو نشریات کے تین مقاصد ہیں لوگوں کو تعلیم دینا، اطلاعات فراہم کرنا اور تفریح کا سامان کرنا۔ جہاں تک تعلیم دینے کی بات ہے یہ رسمی اور غیررسمی تعلیم دونوں کے لیے ریڈیو کافی مفید ہے۔ برطانیہ میں ریڈیو کے ذریعے تعلیم فراہم کرنے کا کام 1922 میں British Broad Casting Company قائم ہونے کے دو سال بعد شروع ہوا۔ یہی کمپنی بعد میں British Broad Casting Corporation یعنی BBC میں تبدیل ہوئی۔ امریکہ میں یہ کام1930 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں شروع ہوا۔ ہندوستان میں اس کام کو انجام دینے میں کئی ادارے شامل ہوئے۔ چونکہ ہمارے ملک میں آل انڈیا ریڈیو یعنی آکاش وانی کی آواز تقریباً پوری آبادی تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اس کے پروگرام دور دور تک سنے جانے لگے۔ ان پروگراموں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ رسمی تعلیم حاصل کرنے والے مختلف سطحوں کے طالب علموں کے لیے الگ الگ نشر کیے جاتے ہیں۔ اسکول Broad Castingکے تحت پرائمری اسکول، سکنڈری اسکول اور یونیورسٹیوں کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالغو ں کے لیے غیررسمی تعلیم بھی فراہم کی جاتی ہے۔ بچوں، نوجوانوں، اور خواتین کے لیے بھی خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ کئی اسٹیشنوں میں چھٹیوں کے دوران طالب علموں کو پیشہ ورانہ اداروں میں داخلے کے لیے بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان میں انجینئرنگ، میڈیکل، زرعی اور Veterenary Sernica کے ادارے شامل ہیں۔ ایسے پروگرام بھی نشر کیے جاتے ہیں جن میں طالب علم اور دیگر لوگ براہ راست Studio میں بیٹھے ماہرین کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کرسکتے ہیں اور اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرسکتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے ایک علیحدہ چینل Yuv-Vani ہے۔ اردو سروس، نئی دہلی میں نئی نسل نئی روشنی پروگرام ہے جس کے ذریعے وہ اپنی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی بھی ریڈیو کی سہولیات کا استعمال کرکے Gyan-Vani FM چینل چلا رہی ہے۔ جو صرف طالب علموں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس وقت یہ پروگرام تقریباً 26 اسٹیشنوں سے نشر کیے جاتے ہیں۔ مزید 15اسٹیشن اس کے دائرے میں لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور ان کا خاص مقصد شمال مشرقی ریاستوں اور انڈمان، نکوبار جزیروں کی طرف توجہ دینا ہے۔ اسکول جانے سے پہلے بچوں کے لیے بھی ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے 3 سے 6 سال تک کے بچے اور آنگن باڑی میں پڑھنے والے سماج کے کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ریڈیو نے کئی ایسے سلسلے وار پروگرام نشر کیے ہیں جن کا تعلق مختلف سماج سے ہے اور اس میں سماجی برائیوں سے ان سے چھٹکارا پانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ ان میں شراب نوشی، کم عمر میں لڑکوں، اور لڑکیوں کی شادی، میاں بیوی کے درمیان گھریلو جھگڑے، خواتین کے مسئلے وغیرہ شامل ہیں۔

آلودگی کے موضوع پر سلسلے وار پروگرام اور زرعی تعلیم فراہم کرنے سے متعلق پروگرام کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ FM ریڈیو شروع ہونے کے بعد ریڈیو کا رول اور زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ جہاں تک اطلاعات فراہم کرنے کا تعلق ہے اس کے لیے آکاش وانی، خبروں کا شعبہ اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے۔ اس کے تحت 277 اسٹیشنوں سے 23 زبانوں اور 146 ڈائیلیکٹ میں خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ کاروبار کو فروغ دینے کے لیے آکاش وانی نے Commercial اسٹیشن بھی قائم کیے ہیں۔ جو اشتہارات کے ذریعے آکاش وانی کے لیے رقوم جمع کرتے ہیں۔ کسانوں کو زراعت سے متعلق ضروری اطلاعات فراہم کرنے کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ اس کے ذریعے انھیں بہتر کاشت کے لیے عمدہ طور طریقوں، اچھے بیج اور سینچائی وغیرہ کی جانکاری دی جاتی ہے۔ انھیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کس موسم میں کس چیز کی کاشت مفید ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ موسم کی جانکاری اور پیشن گوئی سے انھیں باخبر رکھا جاتا ہے۔ قدرتی آفات کے وقت بھی ضروری اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس طرح جہاں پوری دنیا میں ریڈیو کا استعمال سماجی بہبود کے لیے کیا گیا وہیں ہندوستان میں بھی ریڈیو کا استعمال اس مقصد کے لیے کیا گیا۔تعلیم فراہم کرنے، لوگوں کو اطلاعات فراہم کرنے اور اُن کی تفریح کے علاوہ ریڈیو نے قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لیے بھی نمایاں کام کیا ہے۔ ریڈیو لوگوں میں یکجہتی کا احساس دلانے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ چونکہ اس کی آواز ہر علاقے میں سنی جاتی ہے اس لیے یہ مقامی زبانوں میں پروگرام نشر کرکے لوگوں کے بہت قریب آسکتا ہے اور انھیں قومی مفاد کے لیے چھوٹے چھوٹے اختلافات بھُلا کر ایک دوسرے سے میل جول کے ساتھ رہنے کی ترغیب دے سکتا ہے اور آل انڈیا ریڈیو یہ ذمے داری بحسن و خوبی نبھا رہا ہے۔

ریڈیو کی اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عالمی یوم ریڈیو یعنی World Radio Day بھی منایا جانے لگا ہے اور 13 فروری کا دن عالمی یوم ریڈیو کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ تجویز 2010 میں اقوام متحدہ میں پیش کی گئی جس کے بعد اس پر کافی غور و خوض ہوا اور یہ طے پایا کہ 13 فروری کا دن اس کے لیے مقرر کیا جائے۔ چنانچہ پہلا عالمی یوم ریڈیو World Radio Day، 2012 میں منایا گیا۔ جب دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشنوں سے خصوصی پروگرام نشر کیے گئے۔ 13 فروری کا دن اس لیے مقرر کیا گیا کیونکہ اس دن اقوام متحدہ کی طرف سے 1946 میں UN ریڈیو اسٹیشن شروع ہوا تھا۔ UNESCOکے اس فیصلے کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بعد میں تائید کی۔ ویسے پہلا پبلک ریڈیو براڈ کاسٹنگ 13 جنوری 1910 میں تجرباتی طور پر منعقد ہوا تھا جو 20 کلومیٹر دور ایک سمندری جہاز میں سنا گیا۔ اس سے پہلے بھی وائرلیس براڈ کاسٹنگ کے تجربے ہوئے جو زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ اقوام متحدہ کے فیصلے میں دنیا کی بڑی بڑی براڈ کاسٹنگ تنظیمیں شامل تھیں۔

ریڈیو پر Short wave نشریات شروع میں بہت محدود تھے۔ مگر 1933 میں جرمن میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کی اہمیت کا احساس سب سے پہلے ہٹلر کو ہی ہوا۔ اُس وقت ریڈیو جرمنی سے یہ پروگرام صرف 2 گھنٹوں کے لیے نشر ہوا کرتے تھے۔ مگر ہٹلر نے اسے 18 گھنٹے تک اور بعد میں 24 گھنٹوں تک بڑھا دیا۔ اُس نے اس کے ذریعے پروپیگنڈا کے پروگرام نشر کرنا شروع کیے جو امریکہ، روس اور دوسرے دور دراز ملکوں میں سنے جاتے تھے۔ ان نشریات کے ذریعے لوگوں کی سوچ پر اثرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح سے ہٹلر نے ریڈیو کا پورا فائدہ اٹھایا۔ آج ریڈیو FM اور Digital سطح تک پہنچ چکا ہے اور اس کا براڈ کاسٹنگ معیار بھی کافی بہتر ہوا ہے۔ اس سے کروڑوں کی تعداد میں بے زبان لوگوں کو زبان مل گئی ہے۔ خواتین اور نوجوان اپنی پسند کے پروگرام سنتے ہیں اور سماج اور ملک کی ترقی کے کام میں شامل ہورہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہنگامی حالات میں ریڈیو، اطلاعات فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ آندھی طوفان،سیلاب، زلزلہ اور دیگر قدرتی تباہی کے وقت ریڈیو اطلاعات دینے کا کافی اہم ذریعہ ہے۔ چنانچہ ناگہانی آفتوں کے امکان سے لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے بھی ریڈیو کا رول کافی اہم رہا ہے۔ عالمی یوم ریڈیو پر ہر سال ریڈیو پروگراموں کے لیے ایک موضوع چنا جاتا ہے جس پر سال کے دوران خصوصی پروگرام بنائے اور نشر کیے جاتے ہیں۔ 2014 کا موضوع ’’مرد اور خواتین کوبرابر کا درجہ دینا ہے۔‘‘ یقیناًیہ ایک نیک قدم ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ خواتین ہر شعبے میں ایک نمایاں رول ادا کرسکیں مگر اس کے لیے ہمیں ایک سازگار ماحول تیار کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ریڈیو کا استعمال کافی مفید ہوسکتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب کمیونٹی ریڈیو پر خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے اور کمیونٹی ریڈیو کے ذریعے خبریں بھی نشر کیے جانے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ گویا دھیرے دھیرے ہم ریڈیو کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ یہ عمل مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

ریڈیو ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اس انقلابی دور میں ریڈیو کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ہمیں ریڈیو کی خوب صورتی کو تسلیم کرنا ہوگا، اس کے کرشمے کو سمجھنا ہوگا اور اس کی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا تاکہ عام لوگ اس کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ جوں جوں ریڈیو کے میڈیم میں جدید ٹکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہوگا ریڈیو اور زیادہ مفید بنتا جائے گا۔ اس لیے اس میڈیم کا مستقبل بھی کافی روشن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے اپنی حکمتِ عملی میں وہ مقام دیں جس کا یہ حقدار ہے

سوال

 ریڈیو پروگرام کے خیال سے اس کے نشر ہونے تک کے مراحل بیان کریں

نشریاتی ادب کسی بھی نشری ادارے کے ذریعہ پیش کئے جانے والے وہ پروگرام ہیں جنہیں نشریاتی اصولوں، تقاضوں اور بنیادی ادبی خصوصیات کو مد نظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔

عمومی طور پر ادب سے متعلق وہ پروگرام جو ریڈیو کے ذریعہ نشر کیا جاتا ہے وہ نشر یاتی ادب کہلاتا ہے۔ دنیا کے تمام نشری ادارے اپنی مخصوص پالیسی کے تحت پروگرام نشر کر تے ہیں جس کا اطلاق ادبی پروگراموں پر بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں چونکہ جمہوری طرز کے ابتدا سے ہی ادبی پروگراموں کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور تقریباً تمام اہم مراکز سے اردو کے ادبی پروگرام آج بھی نشر کئے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابتدائی دور سے ہی رواں دواں ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نشریاتی ادب کا ایک اچھا خاصہ ذخیرہ ہو گیا۔

نشریاتی ادب عمومی طور پر وہ ادب ہے جس کی ترسیل معاشرے لی نچلی سطح تک ہوتی ہے۔ غیر نشریاتی ادب نے جس کام کو ایک طویل مدت میں نہیں کیا اسے نشریاتی ادب نے قلیل مدت میں کر دکھایا۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور و معروف شاعر غالب کو ہی لے لیجئے، غیر نشریاتی ادب میں ان پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ان کے اشعار کی تفہیم میں بھی خوب خوب گل بوٹے کھلائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود غیر نشری ادب غالب کو عوام کی سطح پر متعارف نہیں کر اسکی جب کہ نشریاتی ادب نے بہت مختصر مدت میں غالب کو نہ صرف معاشرے کے عمومی حلقے سے متعارف کرایا بلکہ وہ لوگ بھی اس کے دیوانے بن گئے جن کو اردو نہیں آتی ہے لیکن غالب سے متعلق کچھ حد تک جانکاری ضرور رکھتے ہیں۔ ایک اور بات کا یہاں ذکر کرتا چلوں کہ ریڈیو سے قبل موسیقی درباروں تک محدود تھی اور ایک وقت ایسا آیا جب جاگیر داری ختم ہو گئی تو موسیقاروں کی سر پرستی بھی ختم ہو گئی لیکن ریڈیو نے اس فن کو بھی جلا بخشی اور اسے درباروں سے نکال کر گلی کوچوں میں پہنچا دیا اور عام لوگوں میں موسیقی کا ذوق بھی پیدا کیا۔ نشریاتی ادب نے اس موسیقی کے ذریعہ بھی مختلف شاعروں کو عوام سے متعارف کرایا ہے۔

اردو میں نشریاتی ادب کی تاریخ کا اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اردو کا ہر معروف ادیب یا تو ریڈیو کے اسٹاف میں رہا ہے یا ریڈیو سے باہر رہ کر اس کے لئے لکھا ہے ایسے شعرا و ادبا کی ایک طویل فہرست ہے جن کا ذکر آگے آئے گا تاہم نشریاتی ادب کی پوری تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

اول ابتدا سے 1947 ء تک۔

دوئم 1947 ء سے تا حال

اول دور میں ہندوستان کا نشریاتی ادب اور خصوصاً اردو کا نشریاتی ادب تجربے کے دور سے گذر رہا تھا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے ریڈیو کے لئے لکھا ان کے سامنے نشریاتی ادب کی کوئی روایت موجود نہیں تھی۔ دوسری طرف انگریزی ادب کا دامن بھی ان موتیوں سے خالی تھا۔

ہندوستان میں ریڈیو نشریات کے آغاز ہی سے نشریاتی ادب کے نقوش کا پتہ چلتا ہے لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ آج تک نشریاتی ادب کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اردو میں نشریاتی ادب کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس کا آغاز 1930 ء کی دہائی میں ریڈیو نشریات کے ساتھ ہوا۔ (اب تک) اردو میں ریڈیائی تقریروں کا جو مجموعہ کتابی ں صورت میں منظر عام پر آ چکا ہے اس کے مطابق 3 اکتوبر 1929ء کو اردو میں پہلی بات چیت ملّا واحدی کی نشر کی گئی تھا جس کا موضوع تھا مصور غم مولانا راشد الخیری کی یہ تقریر “کیا خوب آدمی تھا” سلسلہ تقاریر کے تحت نشر کی گئی تھی۔ اس سے قبل ریڈیو میں تقریریں تو نشر ہوئی ہیں لیکن اب اس کا مسودہ کہیں محفوظ نہیں ہے اور نہ اس کے حوالے ملتے ہیں۔ طباعت کی صورت میں مذکورہ کتاب اردو کی پہلی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ہے۔

ہندوستان میں ریڈیو نشریات کے آغاز میں عام طور پر اردوداں طبقے نے اس نئے میڈیم کی جانب لبیک نہیں کہا مگر بالخصوص ایک طبقے نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور اسے اظہار کے ایک وسیلے کے طور پر قبول کیا۔

سید ذوالفقار علی بخاری اپنی خود نو شت میں لکھتے ہیں:

“آغا اشرف کو ساتھ لے کر ہر ایک کے در دولت پر حاضری دی اور بصد التماس ریڈیو پر تقریر کرنے کے لئے رضا مند کیا۔ ڈاکٹر انصاری، خواجہ حسن نظامی، بھائی آصف علی، مرز ا محمد سعید، نواب خواجہ عبدالمجید، ڈاکٹر ذاکر حسین، بیگم سر بلند جنگ، آغا شاعر قزلباس، شمس العلما مولوی عبدالرحمن، منشی پریم چند، مرزا فرحت اللہ بیگ، پرنسپل رشید احمد صدیقی کس کس کا نام گناؤں۔ یہ تھے ہمارے مستقبل طور پر تقریر نشر کرنے والے حضرات، لاہور میں ابھی ریڈیو جاری نہیں ہوا تھا مگر سالک اور امتیاز کے بغیر محفل سونی ہو جاتی تھی چنانچہ انتظام یہ کیا گیا کہ یہ حضرات لاہور سے ٹیلی فون پر بولیس اور دہلی سے ہم ان کی تقریر ریلے کریں گے۔ سالک صاحب افکار و حوادث اور امتیاز چچا چھکن لے کر اس بزم میں شریک ہوتے۔” — (سرگدشت سید ذوالفقار علی بخاری صفحہ 54 ایڈیشن 1995)

اسے خوش بختی ہی کہا جائے گا کہ ہندوستان میں نشریات کے اولین دور میں پطرس بخاری جیسا ادیب اور ذوالفقار بخاری جیسے صاحب نظر عہدیدار ملا ان دونوں بھائیوں نے ہندوستان میں نشریات کا ایک جامع نٹ ورک تیار کیا۔ کمال احمد صدیقی نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بخاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

“یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ذوالفقار علی بخاری نے ہی اس وقت کے نامور ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کو نشریات سے روشناس کرایا اور لکھنے پڑھنے والوں کو مروجہ لکھنے کی زبان کے بجائے بولنے کی زبان اہمیت سے آگاہ کیا اور اسی زبان میں نشریات کے مسودے مرتب کرنے پر آمادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نشریات کی ایجاد زبان کو از سر نو تازگی اور حرارت دے کر اسے اپنے اصل مرتبہ پر فائز کرے گی”۔

آزادی سے قبل آل انڈیا ریڈیو سے پروگرام عموماً اردو میں ہوا کر تے تھے جسے ہندوستانی کہا جاتا تھا۔ رفعت سروش نے اپنے مضمون میں ریڈیو سے وابستہ لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام یہ ہیں۔

“پطرس بخاری، ن۔ م۔ راشد، میراجی، مختار صدیقی، اسرارالحق مجاز، راجہ مہدی علی خاں، تابش دہلوی، انصارناصری، فضل حق قریشی، راز مرادآبادی، شوکت تھانوی، سلام مچھلی شہری، کرتار سنگھ دگل، عشرت رحمانی، وشو امتر عادل، شہزاد لکھنوی اختر الایمان، ممتاز مفتی، اشفاق حسین، حفیظ ہو شیار پوری، ضیاء جالندھری، اعجاز بٹالوی، ڈاکٹر مسعود حسین خاں، لالہ مہیشور دیال، حبیب تنور فارغ بخاری اور رفعت سروش۔” بحوالہ (آل انڈیا ریڈیو کی اردو خدمات از رفعت سروش سہ ماہی قصے، جنوری تا جون، صفحہ 122، سال 2001)

اب ان لوگوں کا ذکر سنئے جنہوں نے ریڈیو کے لئے تقریریں لکھیں اور اسے کتابی صورت میں چھپوا کر محفوظ بھی لیا۔ ایسے لوگوں میں سرفہرست نام مصور فظرت خواجہ حسن نظامی کو ریڈیو کے لئے استعمال کی جانے والی زبان کا اچھا خاصا شعور تھا۔ اس کے ساتھ ہی انھیں ٹاک پڑھنے کا بھی فن خوب آتا تھا۔ خواجہ حسن نظامی سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کمال احمد صدیقی لکھتے ہیں

“خواجہ حسن نظامی، ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے آغاز سے پروگراموں میں شرکت کی بلکہ جن کے اسلوب نے ریڈیو کے لئے دوسرے تو خیز لکھنے والوں کو بھی راستہ دکھایا۔

ریڈیو جدہ ایک زمانے سے اردو سامعین سے مخاطب ہوتا آیا ہے۔ اس کا نام اب تبدیل ہو کر ’’سعودی عالمی اردو نشریات‘‘ ہو گیا ہے۔ یہ نشریات جدہ سعودی عرب سے پیش کی جاتی ہیں۔ وہاں سے دو گھنٹے کی نشریات یومیہ سنی جا سکتی ہیں۔ سعودی عرب ، ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش اور خلیجی ممالک کے لیے ریڈیو فریکوئنسی 21 میٹر بینڈ شارٹ ویو 13775 میگا ہرٹز پر پیش کی جاتی ہیں۔ ان نشریات کو سعودی عرب میں سہ پہر تین سے چھ بجے تک، ہندوستان میں شام ساڑھے پانچ بجے سے ساڑھے آٹھ بجے تک، پاکستان میں شام پانچ سے آٹھ بجے تک اور بنگلہ دیش میں شام چھ بجے سے نو بجے تک سنی جا سکتی ہیں۔ سعودی عرب کی عالمی اردو نشریات انٹرنیٹ www.rsaurdu.net پر بھی براہ راست اور ریکارڈنگ کی شکل میں دستیاب ہیں۔ یہاں سے اسلامی، مذہبی، سماجی، ثقافتی، تاریخی اور عہد حاضر سے متعلق امور پر پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔

این ایچ کے جاپان کا واحد عوامی نشریاتی ادارہ ہے جس کی ریڈیو نشریات کا آغازسنہ 1925 میں ہوا۔ این ایچ کے کے مالی وسائل کا ذریعہ جاپان میں ٹی وی رکھنے والے گھریلو صارفین کی فیسوں کی ادائگی ہے جس کا مقصد ادارے کو سیاست یا نجی تنظیموں کے اثر و رسوخ سے آزاد اور منصفانہ نشریات کے قابل بنانا اور سامعین کی آرا کو اولیت دینی ہے۔ این ایچ کے ورلڈ بین الاقوامی نشریات خدمات سرانجام دیتا ہے۔ یہ عالمی نشریاتی پیش کرتا ہے جن میں ٹیلی ویژن ، ریڈیو اور انٹرنیٹ خدمات شامل ہیں۔ ان سب کو مجموعی طور ’’این ایچ کے ورلڈ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے مقاصد میں دنیا بھر کے لوگوں کو ملکی اور بین الاقوامی خبریں مہیا کرنا، ایشیا کے بارے میں مختلف تناظر میں معلومات پیش کرنا، بڑے حادثات اور قدرتی آفات کی صورت میں زندگی بچانے کے بارے اہم معلومات بہم پہنچانا، جاپانی ثقافت و طرز زندگی کے پہلو، معاشرے اور سیاست میں حالیہ پیش رفت ، تازہ ترین سائنسی اور صنعتی رجحانات اور اہم عالمی معاملات میں جاپان کے کردار اور موقف کو تیزی سے نشرکرنا ہے۔این ایچ کے ورلڈ ریڈیو جاپان، انگریزی اور جاپانی سمیت اٹھارہ زبانوں میں دنیا بھر میں اپنی نشریات پیش کرتا ہے۔ ہر زبان کی نشریات کا دورانیہ مختلف ہے۔ لیکن ہر روز کل 85 گھنٹے اور دس منٹ کے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ ریڈیو جاپان سے اردو سروس کا آغاز 3 دسمبر 1942 کو ہوا۔ درمیان میں 4 ستمبر 1945 سے نشریات میں کچھ وقفہ آیا لیکن یکم اکتوبر 1955 سے نشریات کے دوبارہ آغاز سے یہ سفر مسلسل جاری ہے۔ یہ نشریات ہندوستان اور پاکستان کے سامعین میں بہت مقبول ہیں۔ سامعین ریڈیو کو خطوط بھی لکھتے ہیں۔ کسی زمانے میں ان اردو خطوط کا جاپانی زبان میں ترجمہ بھی ہوتا تھا۔

ترکی میں عوامی نشریات کا ذکر کرنے پر جو اولین اور واحد ادارہ ذہن میں آتا ہے وہ TRT ہے جس کا قیام یکم مئی 1964 کو عمل میں آیا۔ 5 مئی 1927 کو اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا ریڈیو کا ادارہ بھی اسی تاریخ سے TRT کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ یہ ادارہ تعلیم و ثقافت ، موسیقی و تفریح،بچوں اور کھیلوں کے پروگرام،بحث و مباحثہ کے پروگرام،دستاویزی پروگرام،ڈرامے پیش کرتا ہے۔ بین ا لاقوامی معیار سے ہم آہنگ نشریاتی سلسلے کے ذریعے تعلیم،عمر اور ثقافتی و اقتصادی لحاظ سے مختلف ناظرین کے طبقوں تک پہنچنے ،ان کی پسندیدگی اور تعاون حاصل کرنے والا ایک نشریاتی ادارہ ہے۔ دیار غیر میں بسنے والے ترکوں کو اپنے ملک سے رابطے کی فراہمی کے لیے بشمول ترک زبان 29 مختلف زبانوں میں نشریات پیش کی جاتی ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں سنی جا سکتی ہیں۔ صدائے ترکی کی اردو زبان میں نشریات کو دنیا میں شارٹ ویو ،سیٹیلائٹ اور انٹر نیٹ کے علاوہ اپنے نشریاتی شراکت داروں کے توسط سے FM پر بھی سنا جا سکتا ہے۔ اس کا ویب پیج بھی ہے۔ اس نے اپنی نشریاتی خدمات تک رسائی کی غرض سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کو براہ راست انٹر نیٹ پر پیش کیا۔ اس کے علاوہ ترکی اور دنیا بھر سے لمحاتی خبروں ،اقتصادی اور مالیاتی بازاروں کی صورت حال، کھیلوں کے تمام رنگوں موسم کا حال ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا نشریاتی بہاو اور پروگراموں کی تشہیر جیسی اہم خدمات اس ویب سائٹ پر جگہ پائی جاتی ہیں

سوال

تفریحی تعلیمی اور تشہیری ریڈیو پروگراموں پر روشنی ڈالیں

 

ایک ترتیب یا دستاویز ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کوئی تعلیمی کورس، خواہ اسکولی، کالج، جامعاتی، پیشہ ورانہ، تفریحی، صحت و تندرستی یا کوئی اور نوعیت کا ہو، کن مرکبات پر مشتمل ہے، اس کے اغراض اور مقاصد کیا ہیں، اس کی توقعات کیا ہیں اور اس کا مطالعہ کرنے والوں یا اسے اپنانے والوں کو کیا کیا کرنا ہوگا۔ نصاب تعلیم میں مضامین کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مثلًا بھارت جیسے ملک میں اسکولی سطح پر عام طور سے انگریزی، ہندی اور ایک مقامی زبان تو تقریبًا سبھی اسکولوں میں لازمًا پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس، ریاضی اور سماجی علوم بھی ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ یہ مضامین اگر چیکہ اسکول کی ہر جماعت میں پڑھائے جاتے ہیں، مگر ان میں ہر سطح پر مواد مختلف ہوتا ہے۔ زبانوں کی پڑھائی میں اولًا حرف شناسی، لفظوں کی بناوٹ، فقرہ سازی، انشائیہ، خط نگاری، سوانح، وغیرہ سب سطح در سطح بڑھتے ہیں۔ سائنس میں عمومی معلومات پر پہلے پہل زور دیا جاتا ہے۔ اسکول کے اختتام تک بچے سائنسی تجربے اور آلہ سازی تک میں حصہ لیتے ہیں۔ سماجی علوم میں معمولی افراد خاندان اور رشتوں کے تعارف سے شروع کر کے دھیرے دھیرے تاریخ، شہریت، جغرافیہ وغیرہ پڑھائے جاتے۔ اسی طرح کالج کی سطح پر گریجویشن کی سطح پر عمومًا کچھ مضامین پر توجہ دی جاتی ہے۔ مثلًا بی اے پڑھنے والا ایک طالب علم ممکن ہے کہ بھارت کی تاریخ، بر صغیر کی تاریخ اور عالمی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ مگر جب وہی شخص ایم اے کرے گا تو وہ ممکن ہے کسی ایک موضوع پر توجہ دے گا، جیسے کہ بھارت کی تاریخ۔ پھر یہ موضوع کے بھی کئی ذیلی مضامین ہو سکتے ہیں

کاشتکاروں کو فصلات کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے تشہیری مہم اور موثر ابلاغ

جدید زرعی ٹیکنالوجی پر مبنی آڈیو اور ویڈیو پروڈکشنز ریڈیو /ٹیلی ویژن کے ذریعے براڈکاسٹ/ٹیلی کاسٹ۔

زرعی معلومات کے موثر ابلاغ کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے مسلسل رابطہ۔

سائنٹیفیک جریدہ ”جرنل آف ایگریکلچر ل ریسرچ“کی سہ ماہی اشاعت کے علاوہ پندرہ روزہ زراعت نامہ، سالانہ زرعی تحقیقاتی رپورٹ اور زرعی معلومات پر مبنی لٹریچر کی اشاعت کا انتظام کرنا۔

قومی و بین الاقوامی زرعی تحقیقاتی اداروں اور محکمہ زراعت پنجاب کے مختلف شعبوں کے درمیان زرعی ٹیکنالوجی /معلومات کے حصول کے لیے رابطہ رکھنا۔

پنجاب ایگریکلچر ہیلپ لائن /کال سینٹر کے ذریعے کاشتکاروں کی فنی راہنمائی کا انتظام کرنا۔

محکمہ زراعت اور دیگر متعلقہ محکموں کے افسران کی ابلاغی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ”انفارمیشن سائنس اور ایگریکلچرل جرنلزم“سے متعلق تربیتی پروگراموں کا انعقادکرنا

ریڈیو کی پہنچ کی وسعت، اس کے استعمال سے جڑی سہولتوں، اس کے مندرجات کے تنوع اور مقامی رنگ، انسانی تخیل کی ذاتی نقشہ کشی کی سہولت اور سب سے بڑھ کر اس کے کم خرچ ہونے کے باعث یہ آج بھی ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ ریڈیو کو اب ایک سیکٹر کے طور پر کمیونٹی، قومی یا پبلک، کمرشل اور بین الاقوامی جیسے ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔کمیونٹی ریڈیو ایسے ریڈیو کو کہتے ہیں جو کہ کمیونٹی کے اندر ہی واقع ہو۔ جو کمیونٹی کی خدمت کرے اور جس کا انتظام و انصرام کمیونٹی ہی کے پاس ہو۔ ایسے ریڈیو اسٹیشنز مقامی اور سماجی شمولیت کے ذریعے کمیونٹی ڈیولپمنٹ کے لئے مضبوط عزم رکھتے ہیں۔

پبلک ریڈیو لوگوں کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں اور ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں اور وہی انھیں مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کے ریڈیو قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ جس کی سب سے بہتر مثال بی بی سی کے ماڈل کے طور پر لی جا سکتی ہے۔کمرشل ریڈیو قومی اور مقامی سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح کا ریڈیو اسٹیشن عموماً منافع کے لئے چلایا جاتا ہے۔ اشتہارات کا حصول اور اکثر زیاہ تر مقبول موسیقی ان سے نشر کی جاتی ہے۔ ان کے مندرجات میں پبلک سروس براڈکاسٹنگ کا حصہ بہت ہی کم یا بالکل مفقود صورتحال کا حامل ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ریڈیو سروسز عموماً کئی ایک غیر ملکی زبانوں میں پیش کی جاتی ہیں۔

آزادی کے بعد 48 سال تک پاکستان میں ریڈیو نشریات قومی/ پبلک اور بین الاقوامی سروسز کے طور پر ہی رہی۔ 23 مارچ 1995 ملک میں ریڈیو کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے۔ اس روز نجی شعبہ نے ریڈیو براڈکاسٹنگ میں قدم رکھا۔ اور ملک کے پہلے کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کا آغاز ہوا۔ ملک میں ایف ایم نشریات کا آغاز اگرچہ ریڈیو پاکستان نے اپریل1993 میں کراچی سے اور اس کے بعد مذکورہ سال ہی لاہور اور اسلام آباد سے موسیقی کے ایک چینل کی صورت میں کردیا تھا۔ لیکن سرکاری ریڈیو کے پہلے باقاعدہ ایف ایم اسٹیشن کا آغاز 24 ستمبر1995 کو لاڑکانہ سے ہوا۔ اور نجی کمرشل ایف ایم کی طرز پر نوجوانوں کے لئے سرکاری ریڈیو کے ایف ایم اسٹیشن کا باقاعدہ آغاز یکم اکتوبر1998 ء کو اسلام آباد، لاہوراور کراچی سے ہوا۔

پاکستان میںکمرشل ایف ایم کی نشریات نے اپنے متعارف ہونے کے ساتھ ہی مقبولیت حاصل کرلی اورملک میں ایک نئے آڈیو کلچر کی بنیاد رکھی۔ گھروں ، بازاروں، دفتروں اورگاڑیوں میں جابجا ایف ایم سننے کو ملنے لگا۔ سجاد بری پاکستان میں ایف ایم نشریات کے اولین DJs میں سے ہیں۔ وہ ملک میں ایف ایم کے آغاز میں اسے حاصل ہونے والی عوامی پذیرائی کوبیان کر تے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’ایف ایم براڈکاسٹ پاکستان میں نشریات کی تاریخ میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ لاہور جیسے بڑے شہرمیں شام اور رات کے اوقات پی ٹی وی کے Peak Drama Hours کے ہوتے ہوئے ایف ایم 101 کی آٹھوں ٹیلی فون لائنز سامعین کی فون کالز سے مصروف رہتیں۔ اُس وقت کے ایف ایم کے میزبانوں کو شوبزنس کے بڑے ستاروں جیسی مقبولیت ملی۔ ایف ایم براڈکاسٹ کی مقبولیت کی وجوہات میں میزبانوں کا غیر رسمی اور دوستانہ انداز، بہترین اور نئی موسیقی کا انتخاب، سگنلز کی اعلیٰ کوالٹی کے باعث بہترین آواز ، روڈ شوز اور سب سے بڑھ کر فون کالز کے ذریعے سامعین کی پروگراموں میں براہ راست شرکت نمایاں ہیں۔‘‘

ابتداء میں ایف ایم ریڈیو سننے کی سہولت ملک کے صرف تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب تھی جسے ملک بھر میں پھیلانے کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو کافی حد تک پیمرا نے پورا کیا۔ مارچ2002 ء میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا کا قیام عمل میں آیا۔ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اس کی مانگ میں اضافہ کیا اور پیمرا نے اپنے آغاز کے پہلے سال کے دوران 22 پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے لائسنس جاری کئے۔ اور یوں ملک بھر میں ایف ایم ریڈیو کی نشریات پھیلتی گئیں۔ اس وقت ملک میں 239 ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز موجود ہیں جبکہ میڈیم ویو اسٹیشنز کی تعداد 22 ہے یعنی اس وقت پاکستان کے 91.57  فیصد ریڈیو اسٹیشنز ایف ایم کے ہیں۔ جن میں 49 ایف ایم اسٹیشنز ریڈیو پاکستان کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں 142 کمرشل ایف ایم لائسنسز کا اجراء پیمرا کر چکا ہے۔ اور 45 لائسنسزمختلف اداروں کو جاری نان کمرشل ایف ایم کی کیٹگری میں جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیو چائنہ انٹرنیشنل کے 3 ایف ایم اسٹیشنز بھی ملک میں کام کر رہے ہیں۔ یوں وطنِ عزیز میں کام کرنے والے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کا 59 فیصد نجی شعبہ میں متحرک ہے۔ اور21 فیصد ریڈیو اسٹیشنز سرکاری حیثیت میں آن ائیر ہیں۔ جبکہ 19 فیصد ادارتی سرپرستی میں بطور نان کمرشل ایف ایمزکی صورت میںکام کر رہے ہیں۔ ملک میں موجود ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کا سب سے زیادہ تناسب اس وقت صوبہ پنجاب میں موجود ہے جہاں پاکستان کے 44 فیصد ایف ایمز کی تنصیب ہو چکی ہے۔

سوال

تیسری دنیا افریقہ ایشیاء اور ہندوستان میں ریڈیو کے آغاز کا احوال بیان کریں 0ا۔

اس سب کی شروعات سنہ 1880 میں ہوئی جب مشہور موجد گگلیلمو مارکونی نے اپنے پیشرو ہرٹز کے برقی لہروں کے نظام کو پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں مارکونی نے ایک اور سائنسدان ٹیسلا کے کام کو بھی آگے بڑھایا۔

بالاخر مارکونی اپنے بنائے ہوئے نظام کے تحت پہلے اپنی تجربہ گاہ میں گھنٹی بجانے، اور پھر اپنی تجربہ گاہ سے 322 میٹر دور واقع اپنی رہائش گاہ پر صوتی لہروں کو نشرکرنے میں کامیاب ہوگیا۔

دو مارچ سنہ 1897 میں مارکونی نے اپنی ایجاد کو برٹش پیٹنٹ نمبر 12039 کے تحت

اپنے نام پر پیٹنٹ کروایا اور مارکونی لمیٹد نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہ کمپنی بعد ازاں وائر لیس ٹیلی گراف ٹریڈنگ سنگل کمپنی کے نام سے مشہور ہوئی۔

radio-1

ابتدائی طور پر یہ کام صرف ٹیلی گراف بھیجنے تک محدود تھا۔ اس سلسلے میں طبیعات کا جو قانون استعمال کیا جاتا ہے اسے ’مارکونی لاء‘ کا نام دیا گیا۔

اسی عرصے میں کنگ ایڈورڈ ہشتم جو اس وقت پرنس آف ویلز تھے، شاہی کشتی پر ایک سفر کے دوران زخمی ہوگئے جس کے بعد ان کی درخواست پر مارکونی نے شاہی کشتی میں اپنا ریڈیو کا نظام نصب کیا۔ ٹائی ٹینک کے حادثے کے بعد ریڈیو کا استعمال ہر قسم کی جہاز رانی میں لازمی قرار دے دیا گیا۔

سنہ 1919 میں پہلی بار امریکی شہر میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وسکنسن نے انسانی آواز کو صوتی لہروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نشر کیا۔

امریکا کے شعبہ کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق ریڈیو کا پہلا تجارتی لائسنس 15 ستمبر 1921 کو اسپرنگ فیلڈ میسا چوسٹس کے ڈبلیو بی زیڈ اسٹیشن کو دیا گیا۔ گویا 15 ستمبر 1921 ریڈیو کے بطور تجارتی مقاصد استعمال کا پہلا دن تھا یعنی اس کی ایجاد کے لگ بھگ 20 سال بعد۔

برصغیرمیں ریڈیو کی آمد

برصغیر پاک و ہند میں مارچ 1926 میں انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نجی حیثیت میں قائم ہوئی اور اس نے جولائی 1927 میں بمبئی میں پہلا اسٹیشن قائم کر کے ہندوستان میں باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا۔

ستمبر 1939 میں دہلی سے تمام زبانوں میں خبرنامہ نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

radio-3

بارہ نومبر سنہ 1939 وہ تاریخ ساز دن تھا جب عید کے روز قائد اعظم محمد علی جناح نے انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن جو اب آل انڈیا ریڈیو بن چکا تھا، اس کے بمبئی اسٹیشن سے تاریخ ساز خطاب کیا۔

تین جون 1947 کو قائد اعظم نے اس تاریخ ساز ادارے کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خود مختار ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔

آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان کا سفر

چودہ اگست 1947 نہ صرف مسلمانان ہند کے لیے بلکہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بھی تاریخ ساز دن تھا، جب اس ادارے نے ایک نئے ادارے کی حیثیت سے مملکت خداداد پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام تبدیل کرکے ریڈیو پاکستان رکھا گیا

سوال ریڈیو کی تاریخ

ریڈیو کی ایجاد اور اس کا ارتقاء تین مرحلوں میں ہوا۔

(i) برقاطیسی لہریں اور ان پر تجربات

(ii) لاسلکی ترسیل (Wireless Communication)

اور تکنیکی ارتقاء

(iii) ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور اس کو تجارتی طریق پر چلانا

(Commercialization)

James Clerk Maxwell نے 1873 میں پیش گوئی کی کہ برقاطیسی لہروں کی اشاعت (Propagation) ممکن ہے۔ ان لہروں کو بعد میں ریڈیو لہریں (Radio Waves) کہا گیا۔ چنانچہ اس پیش گوئی کے عین مطابق Heinrich Rudolf Hertz نے 1887 میں ریڈیو لہروں کی آزاد فضا (Free Space) میں اشاعت کا تجربہ کرکے دکھایا۔ لیکن ان دونوں سے پہلے بھی بہت سے موجدوں، انجینیروں، ماہرین اور تاجروں نے اپنے اپنے طور پر لہروں کی اشاعت کے نظام قائم کر رکھے تھے۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وائر لیس ٹیلی گرافی اور ریڈیو لہروں کی اشاعت کی بنیاد رکھنے میں کئی موجدوں کا اہم رول رہا ہے۔ ریڈیو کو تجربہ گاہوں سے نکال کر تجارتی اکائیوں تک لے جانے میں کئی دہائیوں کا وقت درکار ہوا۔

1878میں David E. Hughes جب اپنے کاربن مائیکروفون پر کام کررہا تھا تو اس نے ٹیلی فون ریسرور پر کچھ Sparks کی آوازیں محسوس کیں۔ پھر یہ Sparks سیکڑوں فیٹ کی دوری تک محسوس کئے گئے۔ یہ Sparks دراصل ریڈیو سگنل تھے۔ بدقسمتی سے اس کے کام کو شناخت نہ مل سکی اور اس نے ان تجربات کو ترک کردیا۔ Thomas Edison نے بھی ان ہی خطوط پر تجربات کئے اور 1891 میں اپنے کام کے لئے امریکی حکومت سے پیٹنٹ حاصل کرلیا۔ بعد میں مارکونی کمپنی نے یہ پیٹنٹ ایڈیسن سے خریدلیا۔

1886 اور 1888 کے دوران Heinrich Rudolf Hertz نے اپنے تجربات کے نتائج کو شائع کروایا۔ اس نے برقاطیسی لہروں کو ہوا میں نشر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ان برقاطیسی لہروں کو بعد میں ریڈیو لہروں کا نام دیا گیا۔ Hertz کے ان تجربات سے Maxwell برقاطیسی نظریہ کا ثبوت فراہم ہوا۔ ابتداء میں ان ریڈیو لہروں کو Hertzian Waves کے نام سے پکارا گیا۔

1890 اور 1892 کے دوران ماہرین طبیعیات Fredrick Thomas, John Perry اور William Crooks نے ریڈیو لہروں کو خبررسانی کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کے امکانات کو ظاہر کیا۔ 1892 میں Crooks نے ریڈیو لہروں کو ریڈیو ٹیلی گرافی کے طور پر استعمال کرنے کے سلسلے میں مضامین لکھے۔

1893میں سربی۔امریکی موجدNikola Tesla نے Hertz اور Maxwell کے نظریات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اور وائرلیس پاور ٹکنالوجی کے امکانات پر تجربات کئے۔

Hertz کی موت کے فوراً بعد Prof. Lodge Alexander Muirhead نے ریڈیو لہروں کا استعمال کرکے وائرلیس سگنلنگ کا مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ اس نے 4 اگست 1894 کو آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے لیکچر تھیٹر میں کیا۔ اس مظاہرہ کے دوران قریبی Clarendon Laboratory کی عمارت سے ریڈیو سگنل نشرکیا گیا اور اسے لیکچر تھیٹر میں موصول کیا گیا!!

’’غیر مرئی روشنی (کی شعاعیں) اینٹوں کی دیواروں اور عمارتوں میں سے گزرجاتی ہیں، لہذا اس کی مدد سے، جوڑنے والے تاروں کے بغیر، پیغامات کو نشر کیا جاسکتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ ہیں بنگالی ماہر طبعیات جگدیش چندر بوس کے۔ بوس نے نومبر 1894 میں کلکتہ کے ٹاؤن ہال میں خوردلہروں (Micro Waves) کا استعمال کرکے اپنے دعوے کا عملی مظاہرہ کیا۔ ریڈیو لہروں پر بوس نے بہت کام کیا۔ اس کے کئی مضامین ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال اور رائل سوسائٹی آف لندن میں پیش کئے گئے اور لندن سے شائع ہونے والے رسالے The Electrician میں شائع ہوئے۔ ریڈیو سگنل کو وصول کرنے والے آلے کو ریسیور (Receiver) کہا جاتا ہے۔ Hertz کے زمانے میں اسے Coherer کہا جاتا تھا۔ بوس نے Coherer کو بنانے اور سنوارنے میں بہت دلچسپی لی اور اپنے کام کو آگے بڑھایا لیکن اسے پیٹنٹ کروانے کا خیال بوس کو کبھی نہیں آیا۔ مغربی دنیا نے بوس کے کام کو بہت سراہا۔

1895 میں روسی سائنسداں Alexander Stepanovich Papov نے دنیا کا پہلا ریڈیو ریسیور بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

مارکونی

ریڈیو کا لفظ سنتے ہی مارکونی کا نام ذہن میں آتا ہے۔ مارکونی کو ریڈیو کے موجد کے طور پر جانا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ریڈیو کی تیاری میں بے شمار سائنسدانوں کا حصّہ رہا ہے۔ لیکن مارکونی وہ پہلا سائنسداں ہے جس نے ریڈیو کو عملی زندگی سے جوڑا۔ مارکونی اٹلی کا رہنے والا ایک الیکٹریکل انجیئیر تھا۔ وہ ریڈیوسگنلنگ سسٹم کا موجد تھا۔یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے لاسلکی سگنل کو سمندر پار بھیجا۔ اس کی اس ایجاد سے پہلے طویل فاصلوں تک پیغام رسانی کا کوئی لاسلکی طریقہ نہیں تھا۔ اس کے آلے نے سمندری حادثات میں بچ جانے والے افراد کی جان بچانے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ مشہور زمانہ بحری جہازTitanic کے ڈوبنے کے دوران مارکونی کے آلے نے بچ جانے والے افراد کو واپس کنارے پر لانے میں بہت مدد کی۔ مارکونی کو اس عظیم خدمت کے لئے 1909 کا طبیعیات کا نوبل پرائز دیا گیا۔

مکمل ریڈیو ٹرانسمیشن سسٹم

1894 میں نوجوان اطالوی موجد مارکونی (Guglielmo Marconi) نے تجارتی لاسلکی ٹیلی گراف سسٹم کی تعمیر پر کام شروع کیا۔ اس کا یہ کام ریڈیو لہروں کو نشر کرنا اور انہیں وصول کرنے والے آلات پر مشتمل تھا۔ 1895 میں وہ پیغامات کو لاسلکی طور پر طویل فاصلوں (2.4 کلومیٹر ) تک بھیجنے اور وصول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مارکونی نے اپنے تجربات کے دوران پایا کہ ٹرانسمیشن رینج یعنی نشریات کا دائرہ کار، ریڈیو سگنل نشر کرنے والے اینٹینا کی بلندی کے مربع کے متناسب ہوتا ہے۔ اس مظہر کو مارکونی کا قانون کہا جاتا ہے۔ مارکونی کے یہ تجرباتی آلات، پہلا مکمل اور تجارتی طور پر کامیاب ریڈیو ٹرانسمشن سسٹم ثابت ہوئے۔

دنیا کا پہلا ریڈیو اسٹیشن

مارکونی نے 1897 میں دنیا کا پہلا ریڈیو اسٹیشن انگلینڈ کے Isle of Wight پر قائم کیا۔ اسی کے ساتھ اس نے Chelmsford، انگلینڈ میں “Wireless” فیکٹری کی بنیاد ڈالی جس میں 60 لوگ کام کرتے تھے۔ 1900 کے آس پاس مارکونی نے بین الاقوامی سطح پر اپنا بزنس کھڑا کرلیا اور ایک کامیاب ترین بزنس مین کے طور پر سامنے آیا۔

AM اور FM

ریڈیو ٹرانسمیشن کو Amplitude Modulation یا AM Radio کا نام دیا گیا۔ دنیا کا پہلا نیوز پروگرام 31 اگست 1920 کو AM Radio سے نشر کیا گیا۔ 14 اکتوبر 1920 کو پہلا کالج ریڈیو اسٹیشن، نیویارک میں قائم کیا گیا۔ 1930 میں Single Side Band اور Frequency Modulation یعنی FM کی ایجاد عمل میں آئی۔ FM کا دائرہ کار بہ نسبت AM کے بہت محدود ہوتا ہے۔ لیکن آواز کی کوالٹی بہت عمدہ ہوتی ہے۔ شہری علاقوں میں ٹی وی اور موبائل ٹاوروں کی طاقتور اشعاع کی وجہ سے AM پر پروگرام صاف سنائی نہیں دیتا، جب کہ FM صاف سنائی دیتا ہے۔ لیکن دیہی اور دور دراز کے علاقے آج بھی AM پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

ٹرانس سسٹر ریڈیو

1954 میں Regency Company نے Transister ریڈیو متعارف کروایا اس میں 22.5V کی بیٹری استعمال کی جاتی تھی۔ 1955 میں ایک نئی کمپنی Sony نے پاکٹ سائز ٹرانس سسٹر ریڈیو مارکیٹ میں اتارا۔ اس میں چھوٹے سائز کی طاقتور بیٹری استعمال کی گئی تھی۔ اس ریڈیو میں Vacuum Tubes کی جگہ ٹرانس  سسٹر استعمال کئے گئے تھے۔ آئندہ 200 سالوں میں Transisters نے Vacuum Tubes کو پوری طرح ہٹا دیا۔

سوال

 پاکستانی معاشرے کے اصلاح اور ترقی میں ریڈیو کے کردار پر نوٹ لکھیں۔

اپنی روز مرہ زندگی پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ دنیا میں با ضابطہ زندگی گزارنے کے لیے اپنے ارد گرد رہنے والوں سے رابطہ قائم کرنا کتنا ضروری ہے۔ہمیں اپنی تکالیف دوسروں کو بیان کرنی ہوتی ہیں اور غم اور خوشی کا تاثر دینا ہوتا ہےکیونکہ ابلاغ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ایک دوسرے سے رابطہ رکھنا انسان کی فطرت ہے اور یہ عمل اس وقت تک جاری ہے جب سے انسانوں نے اکٹھے رہنا شروع کیا، انسان غم اور خوشی،پسندیدگی اور نا پسندیدگی، نفرت اور محبت ،خوف اور غصے کے جذبات کا اظہار بہر حال کرتا تھا، گویا ابلاغ ہماری زندگی کے لمحہ اول سے ہی کار فرما تھا ۔ذرائع ابلاغ پر گفتگو سے پہلے بہت ضروری ہے کہ لفظ ابلاغ کے معنی و مفہو م کاتعارف کروایا جائے

اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کے عمل کو ابلاغ کہا جاتا ہے۔انگریزی میں ابلاغ کے لیے Communication کا لفظ استعمال ہوا ہے جو لاطینی لفظ کیمونس سے نکلا ہے جس کا مطلب خیالات میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔[1]

المنجد فی اللغۃ الاعلام میں ہے: بلغ = بلغ، بلوغا الثمر : “غلام بالغ “،” و جارية بالغ و بالغة”[2

لغات القرآن میں : اس کے معنی انتہا کی مقصد منتہیٰ تک پہنچنے کے آتے ہیں خواہ وہ مقصد و منتہیٰ کوئی مقام ہو یا وقت ہو بمعنیٰ یا کوئی اور شے۔

لفظ بلغ سے ہی اس نوعیت کے دیگر الفاظ مثلاً تبلیغ،مبلغ، بلاغت اور بلیغ وغیرہ بنے ہیں ۔قرآن میں یہ لفظ تبلیغ کے معنی میں آیا ہے جس کے معنی ہیں پہنچا دینا۔

ارشادِ ربانی ہے:

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ[3]

“اے پیغمبر ﷺ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو”

اردو لغت میں ابلاغ کی تعریف یوں کی گئی ہے

(الف): بات،پیغام، خیالات،فائدہ یا علم وغیرہ دوسروں تک بھیجنے کا عمل۔

(ب): تقریر،تحریر یا علامت و اشاعت کے ذریعے تبلیغ کرنا ہیں۔[4]

انگریزی میں ابلاغ کا مترادف لفظ Communication ہے،جس کے مع

Introduction to mass communicationکے مصنف نے ابلاغ کی تعریف یوں کی ہے:

نفیس الدین سعدی ابلاغ کی تعریف یوں کرتے ہیں :

“ابلاغ اس ہنر یا علم کا نام ہےجس کے ذریعے کوئی شخص کوئی اطلاع،خیال یا جذبہ کسی دوسرے تک منتقل کرتا ہے”[7]

موثر ابلاغ کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا گیا اور اس کو ذرائع ابلاغ کا نام دیا گیا انگریزی میں اس کے لیےلفظ میڈیا (Media) استعمال کیا جاتا ہے۔میڈیا کی کئی اقسام ہیں ،Electronic media, Print media, Social media وغیرہ ۔

ذرائع ابلاغ کی ابتداء و ارتقاء:

انسانی زندگیکاآ غازا ٓدم کے واقعہ سے ہوا ،آدم کے پیکر خاکی میں جان پڑنے اور زندگی کا آغاز ہوتے ہی دو صفات کا ظہور

ہوا،ایک اپنے خالق کی موجودگی کا احساس و اعتراف اور دوسرے اس کے عطاکر دہ علم کے اظہار کے لیے قوت گویائی ۔اس موقع پر ا للہ تعالیٰ ،آدم اور فرشتوں کے درمیان جو تبادلہ خیال ہوا اسمیں گفتگو (Dialogue) پہلا ذریعہ ابلاغ(Media of Communication) کا آغاز ہوا ،حضرت آدمؑ اور حضرت اماں حوا کے جوڑے کی صورت میں جنت کے اندر معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا، اس لیے جائز اور ناجائز ، حلال اور حرام ،مباح اور ممنوع اور معروف و منکر کی صراحت پر زمین ایک ضابطہ حیات دیا گیا اور (Values) کا دستور بخشا گیا ،ابلیس کے ساتھ کشمکش کا آغاز اپنی اقدار کے تحفظ کے سلسلہ میں ہوا ، گویا انسان کو جو پہلا چیلنج درپیش ہوا وہ جان اور ما ل کے تحفط کا نہ تھا اقدار حیات کے تحفظ کا تھا اور اس میں ناکامی نے اسے جنت کی راحتوں اور نعمتوں سے محروم کر کے اس کانٹوں بھری دنیامیں لا پھینکا۔ یہاں بھی شرط یہ عائد کی گئی کہ اپنی اقدار کی حفاظت میں کامیابی حاصل کی تو جنت گم گشتہ تمہارا دوبارہ مقدر بنے گی اور اس میں ناکام رہے تو پھر جہنم ملے گی بنی نوع انسان کی تہذیب و تعلیم ،تربیت اور آموزش کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کےذریعے ہدایت عطا فرمائی۔ دین سلسلہ آدمؑ سے شروع ہو اور محمدؐ پر مکمل ہوا ۔دین مکمل ہوا اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

ذرائع ابلاغ کی تاریخ بہت پرانیہےہزار سال پہلے عمیلہ فراعنہ کے مصریوں کے حالات حاضرہ کو عوام تک پہنچا نے کی ضرورت محسوس کی ہم ایک پرانے مسودے پر تصویری رسم الخط میں ایک عبارت دیکھتے ہیں،تصویروں کےذریعے ابلاغ کیا جاتا تھا، یونانی کتبے بھی دریافت ہوئے ہیں جن میں بتایا گیا کہ حکمران اور رعایا قوانین کی پابند ہیں ۔محاصل کی تشخیص اور وصولی کا کیا نظام ہے۔قدیم عراق کے قوانین حمور ابی اور قدیم ہندمیں اشوک کے کتبات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ خطوں میں عوام سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے کافی طریقے اختیار کیے جاتے تھے ۔[9]

تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں خبریں حاصل کرنے کے لیےکوئی منظم ادارہ موجود نہ تھا،حضرت عمرؓ کے عہد میں اس طرف قدم بڑھایا گیا،عہد عباسیہ میں خلافت میں ایرانی رنگ غالب آیا تو خبروں کے لیے ایران کی تقلید کی گئی ، خلیفہ ہارون الرشید نے اس محکمے یعنی ذرائع ابلاغ (برید) کے محکمے کو مضبوط کیا کبوتروں کو پیغام رسائی کے لیے تربیت دی جاتی، محمد بن تغلق نے نظام خبر رسانی میں کمال پیدا کیا،براعظم پاک و ہند میں پہلی مرتبہ خبروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لیے تیز رفتار ذرائع استعمال کیے گئے ۔الغرض جب انسانی معاشرہ کسی قدر منظم ہواخبروں کی ترسیل کی کئی صورتیں رائج ہوئیں

ذہنی انقلاب

ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اسلام کے بارے میں ذہنی انقلاب لانے کی کوشش کریں۔ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ:

اُمتِ مسلمہ کو یہ حقیقت یاد دلانے کی ضرورت ہےکہ اسلام انقلابی قوت بن کر اُبھرے تاکہ پورے عالم پر چھا جائے۔[34]

امر با لمعروف و نہی عن المنکر:

دوسری ذمہ داریاں امر با لمعروف و نہی عن المنکر کی ہے۔

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭؕ[35]

بھلائی کی طرف بلانا ایک بڑی ذمہ داری ہے،ابلاغِ عامہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا،اخبارات و رسائل میں ایسے مضامین شائع کریں جن سے اسلام کی عظمت کا تصور جھلکتا ہو، الیکٹرانک میڈیامیں ریڈیو،ٹی وی،نیٹ کی نشریات امر و نہی کا ایسا سلسلہ جاری کریں جو بین الاقوامی ہو۔

برائی کی اشاعت سے گریز:

برائی کی اشاعت اللہ کسی صورت میں پسند نہیں کرتے ،ابلاغ کی ذمہ داریوں میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر حال میں برائی کی اشاعت سے گریز کرے،اس طرح معاشرے کا بگاڑ کم ہو گا۔

لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۭ [36]

خفیہ ہو یا اعلانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جاؤ اور برائیوں سے در گزر کرو۔کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خُدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے،جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اُس خدا کی شان یہ ہے کہ وہ نہایت حلیم و بُردبار ہے۔[37]

قرآن میں فرمایا کہ : جو لوگ چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی بات کا مسلمان میں چرچا ہو،اُن کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔[38]

تحقیق میں جُستجو:

آج کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو تحقیق کی طرف راغب کیا جائے،ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُمتِ مسلمہ کو بھولا ہواحق یاد کرؤائیں۔

اسلامی تعلیمات سے آگاہی:

دُنیا بھر میں اِس وقت اسلام کا رشتہ تمام طور پر دہشت گردی و انتہا پسندی سے جوڑا جا رہا ہے،چنانچہ علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اِس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے انتہا پسندی کے خاتمےکے لیے آگے آئیں۔

معاشرتی اثرات میں ذرائع ابلاغ کا کردار

مساواتِ مرد و زن کا غلط تصور:

ایک تو آزادی نسواں اور مساواتِ مرد و زن کا نعرہ لگ چکا ہےلیکن اس نعرے کی تشہیر و ترویج میں ذرائع ابلاغ نے اہم کردار ادا کیا،قوموں کی تباہی کے لیے عورت کو اِس کے منصب سے ہٹا کر نائٹ کلبوں اور میڈیا کی زینت بنا دیا گیا ہےعورتوں کی بے شمار NGOs بن چکی ہیں،میڈیا نے عورت کو گمراہ کیا ہوا ہے

جرائم میں اضافہ:

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ہمیشہ جرائم کی خاطر خواہ تشہیر کر کے اِس میں اضافہ ہی کیا ہے۔الیکٹرانک میڈیا جرائم کی تشہیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے،مثلاً ایک فلم II child play نے دو سے دس سال کے بچوں پر اتنا گہرا اثر کیا کہ انہوں نے فلمی ہیرو کی مانندایک شخص کو فلمی انداز میں قتل کیا۔[39]

جنسی بے راہ روی میں اضافہ:

میڈیا کے ذریعے جنسی تعلیم اور جنسی تربیت دی جاتی ہے،جس کے بعد بچے اور بچیاں گمراہی کے راستے میں چل پڑتی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں کا منفی کردار:

غیر سرکاری تنظیموں کے قیام کا ظاہری مقصد ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہوتا ہے لیکن اس کی آڑ میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔[40]

مذہبی یلغار میں ذرائع ابلاغ

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے،مغرب کے electric media نے مسلمانوں کو دہشتگرداور بنیاد پرست کے روپ میں پیش کیا ہے ،مسلمانوں کو غلط کردار میں دکھایا جاتا ہے،داڑھی والے اور برقع والی خاتون کو Negative کردار میں دکھایا جاتا ہے۔28 فروری 2006ء میں ٹی وی پر پروگرام میں دکھایا گیا کہ پاکستانی بچوں پر طنز کیا گیا کہ وہ ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں ،لہذٰا وہ دہشتگرد بنیں گے اچھے انسان نہیں

ذرائع ابلاغ کا علمی اور فکری کردار:

آج مغرب نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں مسلمانوں کو شکست دینے کا ارادہ کیا ہے،وہیں علمی اور فکری طور پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے حملہ کر دیا گیا ہے۔مسلمانوں کو اپنے سارے تہذیبی ورثے کے بارے میں شدید احساسِ کمتری کا شکار بنا کر ان کے دلوں پر مغرب کی ہمہ گیر بالادستی کا سکہ بٹھا دیا جائے،نئی نسل کو ہر ممکن طریقے سے یہ یقین کر لینے پر مجبور کردیا جائےکہ اگر دنیا میں ترقی سر بلند چاہتے ہو تو اپنی فکر،اپنے فلسفے،اپنی تہذیب،معاشرت اور اپنے سارے ماضی پر ایک حقارت بھری نظر ڈال کر مغرب کے پیچھے پیچھے چلےآؤ اور زندگی کا ہر راستہ اس کے نقشِ قدم پر تلاش کرو۔[49

معاشی یلغار

ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تصور رائج کیا گیا ،اس نظام سے خوشحالی تو شائد ہی آئے گی اُلٹا غربت اور فقر و فاقہ پیدا ہو رہا ہے۔غرض عوامی تطہیر اور ذہن سازی کی وجہ سے “کمپنی کلچر” پیدا ہو رہا ہے۔ اس دماغی تطہیر میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔سود جیسی لعنت سے کوئی بھی نجات نہیں پا سکتا،سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے،امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

علمی اور فکری یلغار:

مشرقین مسلمانوں کے اندر میڈیا کے ذریعے شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔سیکولر نظام ِ تعلیم کو فروغ دیا جا رہا ہے،جسے جدید تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔مسلم ممالک میں اسلامی تعلیمی روایات کو بے توقیر کیا گیا ہے،اور کالے انگریز پیدا ہو رہے ہیں۔تجاویز فرقہ واریت کی آگ کو میڈیا کے ذریعے ہوا دی جاتی ہے۔مسلمانوں کے اندر تفرقہ میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے،مغرب کی پالیسی ہے کہ مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دو۔

مغربی یلغار میں ذرائع ابلاغ کا کردار:

مغرب میڈیا کی طاقت سے واقف تھا اس لیے اس نے اپنی معاشی پالیسیوں کی ترویج کے لیے ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا۔مغرب نے اشتہار بازی کو اپنے معاشی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔آج کل اشتہارات کو اہم ذریعہ ابلاغ سمجھا جاتا ہے انسانی نفسیات کی باریکیوں، گہرائیوں اور نزاکتوں کا خیال رکھ کر اسے بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔نفسیات کو ضروریاتِ زندگی بنا کر پیش کیا جاتا ہے،اعلی معیارِ زندگی دکھا دکھا کر ہر شخص کے دل میں لالچ،ظاہر پرستی اور راتو ں رات امیر ہونے کی ہوس بھر دی گئی ہے۔۔اس کے ذریعے فحاشی و عریانی کا پھیلاؤ بھی مقصود ہے،اور حرام اشیاء اور حرام کاری کی ترغیبات بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔[50]

اخلاقی اثرات اور ذرائع ابلاغ:

ذرائع ابلاغ نے معاشرے کے اندر اخلاقی اقدار و روایات کو غیر محسوس انداز میں بدلنا شروع کیا اور کل جو چیز یا

پروگرام والد یا بھائیوں کی موجودگی میں دیکھنا پسند نہیں کیا جاتا تھا آج تمام اہلِ خانہ اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے ہیں،حیا کا تصور بدل گیا ہے۔عفت وعصمت کے تصور کو ویلنٹائن ڈے کی صورت میں تار تار کیا جا رہا ہے۔ ہم مغرب سے آنے والی ہر چیز کے مخالف نہیں مگر کسی دوسری قوم کے وہ تہوار جن کا تعلق کسی تہذیب و روایت سے ہو،انہیں قبول کرتے وقت بہت محتاط رہنا چاہیے۔یہ تہوار اس لیے منائے جاتے ہیں کچھ عقائد و تصورات انسانی معاشروں کے اندر جذب ہو جائیں۔[51]مغربی زبان اور لباس کی وجہ سے ہم اپنے دینی ،قومی اور تہذیبی لباس کو بھو ل رہے ہیں۔زبان کے ذریعے مغربی تہذیب و کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top