Warning: Undefined array key "options" in /home/u317135055/domains/aioulearning.com/public_html/wp-content/plugins/elementor-pro/modules/theme-builder/widgets/site-logo.php on line 192
AIOU Course Code 9258-1 Solved Assignment Autumn 2021 - AIOU Learning

AIOU Course Code 9258-1 Solved Assignment Autumn 2021

9258 1

9258 پرنسپلز آف براڈ کاسٹنگ  کورس

پروگرام

بی اے ماس کمیونیکیشن

1 مشق

سوال

دنیا میں ریڈیو نشریات کےآغاز کو مختلف مراحل تقسیم کر کے بیان کریں

 

دنیا بھر میں مشہور گلوکارہ ڈیم نیلی میلبا نے 15 جون سنہ 1920 کو برطانیہ میں ایسیکس کے علاقے چیمسفورڈ میں مارکونی کی تجربہ گاہ سے تاریخی نشریات پیش کی تھی۔

اوپرا گلوکارہ اینا سٹائیگر نے سو برس قبل دنیا میں پہلی بار براہ راست نشر ہونے والی اس پرفارمنس کو اسی شہر میں دوبارہ تخلیق کیا۔پہلی عالمی جنگ کے بعد مارکونی کے انجینئرز نے انسانی آواز کی نشریات اور تفریح فراہم کرنے والے پروگرامز پر توجہ مرکوز کی۔

’فرام مارکونی ٹو میلبا‘ کے مصنف مسٹر وانڈر نے بتایا کہ اخبار ڈیلی میل کے مالک وِسکاؤنٹ نارتھ کلف نے پہلی پیشہ ورانہ لائئو پرفارمنس کی مالی معاونت کرنے کا فیصلہ کیا۔

مصنف کے مطابق ’جب ڈیم نیلی سے پہلی بار پوچھا گیا تو وہ یہ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے کہا ’میری آواز تجربہ کرنے کی شے نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ یہ یقیناً ناقابل یقین رہا ہو گا۔‘

تاریخ دان ٹم وانڈر نے کہا کہ ڈیم نیلی کی نشریات ’وہ لمحہ تھا جب دنیا بدل گئی۔‘

لیکن جب نارتھ کلف نے انھیں ایک ہزار پاؤنڈ کی پیشکش کی (جو کہ آج کا تقریباً 45 ہزار پاؤنڈ بنتا ہے) اور یہ رقم 20 منٹ کے گانے کے لیے کم نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ تیار ہو گئیں۔‘

جب مارکونی کے پبلیسٹی ہیڈ آرتھر بروز نے ڈیم نیلی کو 450 فٹ کا ریڈیو ماسٹ دکھایا تو اس وقت نیلی کی عمر 59 برس تھی اور انھوں نے اسے دیکھ کر کہا: ’نوجوان، اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں اس پر چڑھوں گی تو آپ کو بہت غلطی ہوئی ہے۔‘

مسٹر وانڈر نے بتایا ’انھیں پوری دنیا میں سنا گیا۔ انھیں سویڈن میں، فرانس اور جرمنی میں سنا گیا اور یہاں تک کہ ایران میں رائل فلائنگ کور میں بھی انھیں صاف سنا تھا۔‘

’اس کے جو اثرات مرتب ہوئے آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ پیرس میں ریڈیو سگنل اتنا اچھا تھا کہ شانزے لیزے میں جب انھوں نے اسے نشر کیا تو لوگ سڑکوں پر ناچ رہے تھے۔‘

میلبا

،تصویر کا کیپشن

ڈیم نیلی کو جب احساس ہوا کہ ان کی آواز کتنے لاکھوں وگوں نے سنی تو انھوں نے کہا: ‘لیکن انھوں نے اس کے لیے نہ تو ٹکٹ خریدا اور نہ ہی ریکارڈ۔ بس سب نے مفت میں سنا’

ڈیم نیلی کو جب احساس ہوا کہ ان کی آواز کو ہزاروں لوگوں نے سنا ہے تو انھوں نے کہا: ’لیکن انھوں نے اس کے لیے نہ تو ٹکٹ خریدا اور نہ ہی ریکارڈ خریدا۔ بس سب نے مفت میں سنا۔‘

چیمسفورڈ میں تاریخ کے اوراق کا چلتے چلتے دورہ کرانے والے ایلن پامفیلون نے کہا کہ آج موبائل فون استعمال کرنے والے نوجوانوں کو یہ احساس نہیں کہ اس کی ابتدا چیمسفورڈ میں مارکونی کے کام سے ہوئی۔

انھوں نے کہا ’یہ وہ شہر ہے جہاں الیکٹرانک دور کا آغاز ہوا۔‘

مسٹر وانڈر اور فیلیسیٹی فیئر تھامسن نے مشترکہ طور پر نشریات کے بارے میں ایک ڈرامہ لکھا ہے جس کے بارے میں پہلے یہ خیال تھا کہ اسے ایسکس 2020 فیسٹیول کے حصے کے طور پر چیمسفورڈ سیوک تھیٹر میں پیش کیا جائے گا۔

لیکن کووڈ 19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسے ایک ریڈیو ڈرامے میں تبدیل کردیا گیا اور اسے اسٹیگر کے لائو پروگرام کے ساتھ پیش کیا جا چکا ہے۔

اینا سٹائیگر نے کہا ’اس وقت اوپرا گلوکار ایسے تھے جیسے آج کل راک سٹار ہیں۔‘

ڈیم نیلی میلبا اتنی مشہور تھیں کہ ان کے نام پر پیچ میلبا جیسے میٹھے کا نام رکھا گیا۔ پیچ میلبا آڑو، راس بیری سوس اور ونیلا آئس کریم سے بنتا ہے۔

ریڈیو اسٹیشنوں کی پیدائش

پہلی جنگ عظیم کے بعد ، بڑے سامعین کے لئے ریڈیو نشریات میں نئی ​​دلچسپیاں سامنے آنے لگیں۔ تفریحی پروگراموں کے باقاعدہ شیڈول کے ساتھ ، پیٹر جی جی ریڈیو اسٹیشن روٹرڈیم میں پیدا ہوا۔ اس قسم کے مواد کو عام سامعین میں منتقل کرنے والے پہلے لوگوں میں سے ایک تھا۔

دوسروں میں XWA اسٹیشن مانٹریال ، کینیڈا میں واقع ہے ، جس کی ابتدا 1919 میں تجرباتی نشریات کے ساتھ ہوئی تھی اور اگلے سال باقاعدگی سے پروگرامنگ کے ذریعے اپنے آپ کو قائم کرنے میں کامیاب رہی۔

اس دہائی کے دوران ، ریاستہائے متحدہ کے مختلف خطوں میں متعدد ٹرانسمیشن مراکز بھی ابھرے۔ اس کے علاوہ ، ریڈیو کارپوریشن آف امریکہ کی پیدائش ہوئی ، اس کا لانگ آئلینڈ پر واقع ریڈیو سینٹرل اسٹیشن تھا۔ اس نے تکنیکی کاروباری بنانے کے ل the انٹرپرائز کی سطح پر بھی اس علاقے میں داخل ہ

ٹرانسمیشن نیٹ ورک

اسی دہائی کے عشرے کے اختتام کی طرف ، ریاستہائے متحدہ میں ، ٹرانسمیشنوں نے نیٹ ورک ٹرانسمیشن کے عمل کو شروع کرنے کے لئے انفرادی سطح پر ان کے موافقت کے طریقے کو تبدیل کرنا شروع کیا۔ اس طرح ، 1926 میں نیشنل براڈکاسٹنگ کمپنی (این بی سی) کی بنیاد رکھی گئی ، 19 اسٹیشن مشرقی ساحل سے مسوری تک پھیلے ہوئے تھے۔

اسی سال میں حریف کولمبیا براڈکاسٹنگ سسٹم (سی بی ایس) بھی پیدا ہوا۔ بعد میں ، 1943 میں ، امریکن براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) تشکیل دیا گیا۔ یہ تینوں اب بڑی نشریاتی کمپنیوں میں سے کئی ہیں اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ جیسے ریڈیو کے علاوہ میڈیا کو بھی پھیلائے ہوئے ہیں

ایف ایم ریڈیو

سن 1933 میں ایڈون ہاورڈ آرمسٹرونگ نے جامد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے اقدام کے طور پر ماڈیولڈ فریکوئنسی (ایف ایم) تیار کیا ، خاص طور پر طول و عرض ماڈیولیٹڈ اے ایم ریڈیو میں۔ اس کے ل he انہوں نے تعدد کی اس حد پر زور دیا جس سے انسانی کان سننے کے قابل ہے نہ کہ لہروں کی طول و عرض سے خارج ہوتا ہے۔

یہ نیا نظام فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن (ایف سی سی) نے 1941 میں منظور کیا تھا ، تاہم اسے صرف ریاستہائے متحدہ میں بہت کم اسٹیشنوں نے اپنایا تھا۔ دوسری جنگ عظیم بھی اس کی توسیع کو مفلوج کرنے کی ایک وجہ تھی۔ دوسری طرف ، اس وقت کے لئے جب ایف ایم ریڈیو وصول کرنے والے زیادہ مہنگے تھے ، اور صرف مراعات یافتہ شعبے تک ہی ان تک رسائی حاصل تھی۔

اضافہ ہوا۔ یہ بغیر کسی مداخلت کے ریموٹ مواصلات کو بہتر بنانے کے لئے بہت مفید تھا اور جنگ کے بعد میڈیا کی تعمیر نو میں استعمال ہوا۔ جرمنی اپنے علاقے کے آس پاس ایف ایم ریڈیو کو نافذ کرنے میں پیش پیش رہنماؤں میں شامل تھا۔ 1951 تک کم از کم 100 ٹرانسمیٹر کے ذریعہ مغربی جرمنی پہلے ہی قابض تھا۔

اس دہائی میں اٹلی نے اپنی پہلی ایف ایم خدمات کو جنم دیتے ہوئے اس دوران بھی ایسا ہی کیا۔ پھر یہ رجحان بیلجیم ، سوئٹزرلینڈ ، سویڈن ، اور برطانیہ جیسے ممالک میں جاری رہ

مریکی تفریحی میں مشہور دیگر خوفناک کہانیاں تھیں ، جو دیکھنے والے میں سنسنی پیدا کرنے کے لئے سمعی وسائل کا استعمال کرتی ہیں۔ راکشسوں یا تاریک ماحول کی تصاویر جو ریڈیو سننے والوں کے تخیل میں تخلیق ہوسکتی ہیں

صورتحال مزاحیہ: یہ ایک ایسی صنف ہے جو ٹیلی ویژن تک پھیلتی ہے۔ اس کی ابتدا 1930 میں ہوئی۔ اس صنف کی داستان ایک مقامی سیاق و سباق ، مستقل کرداروں اور ابواب کو جنم دیتی ہے جنھیں سیریلائز کیا جاسکتا ہے لیکن جن کا تنازعہ ہر نشر میں حل ہوتا ہے۔ یہ پرائم ٹائم میں رات 7 سے 10 بجے تک 30 منٹ کے لئے نشر کیا جاتا تھا۔

ریڈیو صابن اوپیرا: ایک ایسی صنف جس کی جڑیں لاطینی امریکہ اور اسپین میں ہیں وہ کہانیوں سے وابستہ طبقات تھے ، جن میں زیادہ تر جذباتی قوت اور جذبات سے لدھے ہوئے پیار پر مرکوز پلاٹ تھے۔ اس کے بیشتر سامعین خواتین تھے۔ ابواب تواتر سے جاری تھے ، لہذا ہر ایک کو دوسرے سے جوڑ دیا گیا تھا۔

ڈیجیٹل ریڈیو

اکیسویں صدی کے دوران ڈیجیٹل ریڈیو کا تعارف ریڈیو کی دنیا کے لئے سب سے زیادہ متعلقہ واقعہ رہا ہے۔ یہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعہ ریڈیو ٹرانسمیشن کی ایک شکل ہے ، جو آڈیو معلومات کو دوبارہ اعداد و شمار میں ڈیٹا میں تبدیل کرتی ہے۔

سوال

فلم اخبار اور ریڈیو کا موازنہ کریں

 

ذرائع ابلاغ کی بے شمار اقسام ہیں اور روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ذرائع ابلا غ میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں ،اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اس کو میڈیا کہتے ہیں،اس میں پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔

(1مطبوطہ ذرائع ابلاغPrint media :تحریر کا آغاز انسان کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے اور تحریر و تصویر کو اپنے خیالات کے اظہار اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے زمانہ قدیم سے استعمال کیا جا رہا ہے۔[11]

قرآن جس میں فرمایا گیا: وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ[12]

“اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر سب کچھ لکھ دیا”

حضرت موسیؑ کو پتھر کی تختیوں پر احکام شریعت عطا کی گئی موہن جودڑو اور ہڑپہ کے نوادرات سے تحاریر ملی ہیں ۔ بابل اور نینوا کے شہروں کی کھدا ئی کے دوران تحریری اجزاء ملے ہیں۔ دنیا میں خیال قلمبند کرنے کے لیے تصویر اور تحریر کا استعمال کیا گیا ۔ پھر وقت کے ساتھ تحریروں کو چھاپا جاتا ۔ یوں حروف کی چھپائی شروع ہوئییورپ ،براعظم پاک و ہند میں۱۵۵۰ء کے بعد چھاپہ خانہ اور یہ ترقی کرتے کرتے اخبارات اور رسائل کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔[13

اخبارات و رسائل وغیرہ چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں اور ابلاغ کا بہترین ذریعہ بھی۔

الیکٹرونک میڈیا:

ابلاغ کی دوسری مؤثر ترین صورت الیکٹرونک میڈیا ہے ۔ یعنی ایسا ابلاغ جو برقی تاروں کے ذریعےپیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے ۔۱۸۵۷ء سے اس کا آغاز ہوا اور میں۱۰۲۷ءمیں ٹیلی ویژن کی صورت میں واضح شکل سامنے آئی اور الیکٹرونک میڈیاکا سفر ٹیلی گرام ،ٹائپ رائٹر، ریڈیو ، ٹیلی فون ،ٹیلیویژن اور کمپیوٹر پر ختم نہیں ہوا موبائل ،انٹرنیٹ اورI.Pad کی صورت میں جا ری و ساری ہے۔اور یہ ابلاغ کے تیز ترین اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ ہیں جو لمحوں کے اندر خبر کو پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں جسکی وجہ سے پوری دنیا گلوبل ویلج میں بدل چکی ہے۔الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر عمومی اضافہ کیا ہے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کے اندر انٹرنیٹ سب سے زیادہ اہم ایجاد ہے ۔[14]

عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ کی اقسام :

آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا میں نت نئی ایجادات ،روزمرہ کا معمول بن گیا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے تمامشعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کو ہر امیرغریب کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔

ٹیلی ویژن :

دسویں صدی کی ایجادات میں ٹیلی ویژن سب سے موثر اور اہم ایجاد ہے جس کی وسیع اثر انگیزی سے اختلاف ممکن نہیں۔ ٹیلی ویژن نے جہاں لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر معمولی اضافہ کیا وہاں ان لوگوں کی زندگیوں میں مغربی تہذیب و تمدن کو بھی بہت زیادہ فروغ دیا ہے ۔ [15

ریڈیو:

ویڈیو فلم اور ٹیلی ویژن جدید ذرائع ابلاغ ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں ،ریڈیو پروپگنڈہ کے لیے اہم سمجھا جاتا رہا ہے، آ ج بھی ریڈیو ایک مؤثر ذریعہ ابلاغ ہے۔[16]

انٹرنیٹ:

انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی ایک ترقییافتہ شکل ہے اور ایک انتہائی تیز رفتار سروس بھی ،آج کے دور کی اہم ٹیکنالوجی کمپیوٹر کا ایک عالمگیر نیٹ ورک ہے جو مختلف انداز میں بے شمار معلو مات مہیا کرتا ہے۔ میل کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک متین اشکال تصاویر چند سیکنڈ میں پہنچ جاتی ہیں ۔[17]

دور جدید مواصلات میں انقلاب کا دور ہے پیغامات کی آزادانہ اور فوری ترسیل انٹرنیٹ کے بنیادی نکات ہیں۔[18]

اخبارات و رسائل:

ذرائع ابلاغ میں اخبار منفرد حیثیت کی حامل ہے،ان کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔اخبار صرف خبریں ہی شامل

نہیں کرتا بلکہ ان کی تشریح بھی کرتا ہے،رسائل و اخبارات چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں ان کے ذریعے عوام تہذیب سے واقف ہوتے ہیں ،نیز تعلیم و تربیت،اصلاح و تبلیغ زیادہ تر انہی سے ہوتی ہے،اِن کے ذریعے فاصلے سکڑ جاتے ہیں،دور دراز کی اقوام ایک دوسرے کے قریب آ جاتی ہیں۔[19]

تاریخ میں دیکھیں تو ابلاغ کے لیے تحریر کا سہارا ہی لیا گیا ، تاریخ میں سب سے پہلے قرآن پاک تحریری صورت میں لکھا گیا اور قرآن میںبھی آتا ہے : اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى[20]

کتابیں:

کتاب کا لفظ کتب سے نکلا ہے اور انگلش میںbookکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔عربی میں صحیفہ کہتے ہیں ۔کتاب دنیا میں مختلف نظریات کے پرچار اور علم و ادب کے پھیلانے میں اہم مقام رکھتی ہے ۔دنیا میں جتنے قبیلے وجود میں آئے یا آئندہ آئیں گے کتاب انہیں محفوظ رکھنے اور مستقل دستاویزات کی حیثیت دینے میں ہمیشہ اہم مقام رکھے گی۔

ذرائع ابلاغ کی اہمیت:

ذرائع ابلاغ کی اہمیت زندگی کے ہر شعبےمیں مسلمہ ہے۔ہمیں سیر و تفریح اور خبریں ملتی ہیں بلکہ معلومات کا وسیع سمندر بھی مہیا ہوتا ہے۔ mediaایک آئینہ ہے جس کے ذریعے ہماری سوسائٹی منعکس ہو کر ہمارے سامنے آتی ہیں بلکہ یہ سوسائٹی کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،ابلاغ کے ذریعے ہم دیگر اقوام سے متعارف ہوتے ہیں، ان کی تہذیب اور روایت کے بارے میں جانتے ہیں،ابلاغ عامہ کے ذریعے سے جب کوئی بُرائی پھیلتی ہے تو اس کے ذریعے بچنے کی تدابیر بھی ابلاغ عامہ کے ذریعے کی جاتی ہیں

ابلاغ عامہ کے ذریعے قوم کی تعمیر و تشکیل کے نظریات فروغ دئیے جا سکتے ہیں۔ابلاغ عامہ کی ضرورت ،انسان کو معاشرے کی تنطیم کے ساتھ ساتھ محسوس ہوتی لیکن اس دور میں جب کتاب ،اخبار ،ریڈیو فلم، ٹیلی ویژن جیسے ذرائع موجود نہ تھے،تقریر اور ڈرامہ ان میں بھی تقریر کو زیادہ اہمیت حاصل تھی

فنکارانہ میڈیا مواد تیار کرنا

ذرا‏ئع ابلاغ کے نمائندے جو فنکارانہ میڈیا مواد پروڈکشن (جس میں اداکاروں کا استعمال کیا جاتا ہے) میں شرکت کرنے کے لئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سفر کریں گے، ذرائع ابلاغ ویزا کے لئے کوالیفائی نہیں کریں گے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو، اور فلم بنانے والی کمپنیاں موجودہ پروجیکٹ کے مطابق مخصوص مشورہ کے لئے امیگریشن اٹارنی کی جانب سے ماہر وکیل تلاش کرنے کی خواہش کر سکتی

میڈیا کی اہمیت و افادیت

ہر قو م،ملک اور تحریک اپنی بات لو گوں تک پہنچا نے اور ان تک ملک و قوم کے مسائل سے باخبر رکھنے کے لئے میڈ یا کا ہی سہارا لیتی ہے۔میڈ یا یا ذرائع ابلاغ ایک ایسا ہتھیار ہے جو بہت ہی کم وقت میں کسی بھی مسئلہ یا ایشوکے متعلق لو گوں کے ذہنوں کو ہموار کر تا ہے۔بلکہ ان کی رائے بھی بناتا ہے ۔یہی لوگوں کی دلچسپیاں اور ان کی ترجیحات متعین کرتا ہے ۔ یہ میڈیا ہی ہے جو کسی کام پر اکساتا ہے اور کسی اہم کام سے توجہ بھی ہٹاتا ہے ۔ آج فرد سے لیکر حکومت تک کی نکیل میڈیا ہی کے ہاتھ میں ہے  ۔بہت  عرصے سے مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کو کسی بھی ریاست کے تین اہم ستون تصور کیا جاتا ہے  اور ان تینوں اہم اداروں کے ذریعے کو ئی بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے لیکن اب کسی بھی ریاست یا جمہوری ملک کا چوتھا ستون میڈ یا کو گردانا جاتا ہے ۔ملنراے(Milner A)  اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ:میڈ یا نہ صرف سماج کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ ایک جمہو ری ملک کا بھی اہم ستون ہے یہ مجموعی طور پر ہر ملک و قوم میں  لوگوں کی آواز اور ہتھیار ہے۔ (۳)اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جدید دنیا میں میڈ یا کی اہمیت اور ضر ورت ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیو نکہ یہ نہ صرف رائے عامہ کو ہموار کر نے میں اہم رول ادا کر تاہے۔ بلکہ لو گوں کے ذہن و فکر کو بھی تبدیل کرنے میں کلیدی رول ادا کر تا ہے یہ لو گوں کے ذہنوں کو بنانے اور بگاڑنے میں سب سے اہم ذریعہ ہے ۔مارٹن ایلن(Martin alhum))اور نکلاس کارلر( Nikalas Carlar)) کی یہ بات کتنی اہمیت کی حامل ہے جب انہوں نے کہا کہ: میڈ یا اپنا پیغام پہچانے کے سلسلے میں لو گوں پر ہر طر یقے سے اثر انداز  ہو کر ایک طاقت ور کردار ادا کرتا ہے۔اور اپنی رائے سے لو گوں کو متاثر کر تا ہے۔(۴)

  میڈ یا کے ذریعے سے تر قی یافتہ ممالک اپنے افکارو نظریات ،تہذیب وتمدن،اقتدار اور فیشن کو خوب بڑھاوا دیا جاتا ہے ۔اس وقت دنیا کی صورت حال یہ ہے کہ اس گروہ کا جادوچل رہاہے جن کے ہاتھ میں ابلاغ کے ذرائع ہیں

سوال

ریڈیو پاکستان کے کردار اور اس کے مختلف شعبہ جات کا تعارف کریں

ریڈیو پاکستان کی ابتدائی تاریخ کے تذکرہ کے علاوہ کتاب کا ایک خاصا دلچسپ باب وہ ہے جس میں مصنف نے پاکستان میں ریڈیو کے ادارہ کے مستقبل پر بحث کی ہے۔ ریڈیو پاکستان کا قیام 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی رات کو وجود میں آیا تھا۔ اس ویڈیو میں ریڈیو پاکستان کے نامور انائونسر مصطفی علی ہمدانی کی ایک ریکارڈنگ سنوائی گئی ہے جس میں وہ اعلان کرتے ہیں کہ’’السلام علیکم۔ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ تیرہ اور چودہ اگست سن سنتالیس عیسوی کی درمیانی رات۔ بارہ بجے ہیں۔ طلوعِ صبحِ آزادی‘‘۔

یہی وہ دو سطری اعلان ہے جس پر سینٹرل پروڈکشن یونٹ ریڈیو پاکستان کے دعوے کی پوری عمارت تعمیر کی گئی۔ ایک ایسی عمارت جس کی بنیاد ہی غلط ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں اس اعلان کے بارے میں مصطفی علی ہمدانی کے صاحبزادے صفدر ہمدانی کا مؤقف کیا ہے۔مگر اس کے لیے ہمیں تھوڑا سا ماضی میں جانا پڑے گا۔

 یہ اگست 2007ء کی بات ہے جب بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پربرادرم وسعت اللہ خان کا ایک بلاگ شائع ہوا، جس کا عنوان تھا ’’ساٹھ برس اور حافظہ‘‘۔اس بلاگ میں کئی دوسرے انکشافات کے ساتھ ساتھ وسعت اللہ خان نے تحریر کیا تھا کہ مصنف کا دعوی ہے کہ پاکستان میں ریڈیو وہ کردار ادا کرتا ہے جو کوئی اور میڈیم ادا نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ریڈیو ملک کی قومی زبان کے ساتھ ساتھ بیس مختلف زبانوں اور لہجوں میں جو پروگرام پیش کرتا ہے اس سے اس کی رسائی آبادی کے ایک بہت بڑے طبقہ تک ہوجاتی ہے۔

اس کے علاوہ کسی جگہ بجلی کا ہونا یا نہ ہونا ریڈیو کی نشریات سننے پر اثر انداز نہیں ہوتا اور پاکستان میں ستر فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے جن میں سے صرف پینتیس فیصد کے پاس بجلی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب تک ملک میں ریڈیو کے میڈیم سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

مصنف نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی نیا حکمران اقتدار سنبھالتا ہے تو وہ اپنے جواز کے لیے ریڈیو پاکستان کو استعمال کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا کنٹرول سنبھالتا ہے اور اس وجہ سے ریڈیو پاکستان کو سیاسی دباؤ اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مصنف کے خیال میں ریڈیو کو کیبل، سیٹلائٹ ٹی وی، انٹرنیٹ اور نجی ریڈیو اسٹیشنز کے قیام سے بھی چیلنج کا سامنا ہے۔

مصنف نے تجویز پیش کی ہے کہ ریڈیو پاکستان کو ایک سے زیادہ چینلز شروع کرکے نئے چیلنجز کا سامنا کرسکتا ہے تاکہ اس کے سننے والے کھیل، موسیقی، خبریں اور مذہبی پروگرام الگ الگ چینلز پر سُن سکیں۔ نہال احمد کہتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنز کو میڈیم ویوز میں دو دو چینلز شروع کرنے چاہئیں اور ساتھ ساتھ ایف ایم چینل بھی شروع کرنا چاہیے۔ نہال احمد کا کہنا ہے کہ ریڈیو پاکستان نئی ٹیکنا لوجی کے استعمال میں خاصا پسماندہ ہے اور اس کا زور اے ایم براڈکاسٹنگ پر رہا جبکہ دنیا میں ایف ایم مقبول ہورہا تھا اور اب ڈیجیٹل آڈیو براڈکاسٹنگ (ڈیب) کا چند ملکو ں میں کامیاب تجربہ ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریڈیو پاکستان کو اب ایف ایم پر جانے کے بجائے براہ راست ڈیجیٹل براڈکاسٹنگ پر جانا چاہیے۔

یہ کتاب ادب اور کلچر کی ترویج خصوصی طور پر ریڈیائی ڈرامہ اور کلاسیکی اور مقبول موسیقی کے فروغ، ملک کی مقامی تہذیبوں، زبانوں اور رسوم ورواج کو سامنے لانے میں ریڈیو پاکستان کے کردار کو اجاگر کرتی ہے

اس کتاب میں ریڈیو پاکستان کی تصویر پاکستانی معاشرہ میں ایک رجحان ساز ادارہ کے طور پر پیش کی گئی ہے جس نے خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم اور خواندگی کی مہموں کو پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ آخر میں ایک اشاریہ، اعداد وشمار اہم نشریاتی واقعات کا ایک تاریخ نامہ دیا گیا ہے جس سے اس کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے

وسعت اللہ خان کے اس بلاگ کی اشاعت کے بعد مصطفی علی ہمدانی کے صاحبزادے صفدر ہمدانی نے اس کا ایک طویل جواب لکھا جو ’’پاکستان میں ساٹھ برس میں طے نہیں ہو سکا‘‘ کے عنوان سے چھ اقساط میں پہلے القمر آن لائن کی ویب سائٹ پر اور پھر صفدر ہمدانی کی اپنی ویب سائٹ عالمی اردو اخبار پر شائع ہوا۔ صفدر ہمدانی صاحب نے اپنے اس طویل جواب کی چوتھی قسط میں یہ اعتراف کیا کہ وہ اپنے والد کی جس ریکارڈنگ کا حوالہ دے رہے ہیں وہ ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں موجود نہیں۔ 1973ء میں جب ریڈیو پاکستان کی سلور جوبلی تقریبات منائی جارہی تھیں تو ریڈیو پاکستان کے حکام نے اس ریکارڈنگ کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ریکارڈنگ دست یاب نہ ہوسکی۔ انھوں نے اپنے اس بلاگ کے ساتھ اپنے ذاتی آرکائیو میں محفوظ اپنے والد کے مذکورہ اعلان کی ریکارڈنگ شیئر کی اور لکھا کہ ’’اب ذرا اگر مزید تفصیل سے بیان کروں تو یہ بھی بتانا ہو گا کہ یہ ریکارڈنگ کوئی گھریلو یا ذاتی ریکارڈنگ نہیں بلکہ سرکاری طور پر ریڈیو پاکستان کے سینٹرل پروڈکشن کے ایک منصوبے‘‘تاریخ نشریات،، کے عنوان کے تحت 1973ء میں لاہور کے سینٹرل پرڈکشن اسٹوڈیوز میں ہوئی تھی جہاں اس وقت اس شعبے کے لاہور کے سربراہ چوہدری بشیر تھے اور اس کے پروڈیوسر برادرم ناصر قریشی تھے اور 30 منٹ سے زائد دورانیے کا یہ انٹرویو اس وقت کے بچوں کے پروگرام کے نہایت مقبول بھائی جان ابوالحسن نغمی (حال مقیم واشنگٹن) نے لیا تھا جس میں آزادی کی اس اولین رات کی ساری کہانی موجود تھی۔

آزادی کے لگ بھگ 26 سال بعد 1973 میں ریڈیو کو پہلی بار یہ خیال آیا کہ اس آواز اور ان الفاظ کو محفوظ کر لیا جائے اور شکر ہے کہ یہ سب کچھ ٹیپ پر محفوظ ہو گیا وگرنہ اگر اس ریکارڈنگ کی موجودی میں اس سارے عمل کو متنازع بنانے کی یہ حالت ہے تو ٹیپ موجود نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوتی۔ یہ ایک الگ قصہ ہے کہ ‘‘تاریخِ نشریات‘‘ کے نام سے سینٹرل پروڈکشن کی شائع شدہ سرکاری فہرست میں موجود یہ ٹیپ کم ازکم تین بار بوجوہ غائب کی گئی اور اسے تین بار تلاش کیا گیا اور اب آخری خبروں تک ایک بار پھر سے یہ ٹیپ سینٹرل پروڈکشن کے کسی مرکز حتیٰ کہ اسلام آباد کے مرکزی شعبے میں موجود نہیں۔ کاش اس جانب کوئی توجہ دے‘‘۔

محترم صفدر ہمدانی نے اپنے اس طویل بلاگ میں کئی جگہ یہ دعویٰ کیا کہ ریڈیو پاکستان سے اولین اعلان آزادی ان کے والد مصطفی علی ہمدانی نے کیا تھا اور مصطفی علی ہمدانی کے اعلان سے پہلے ظہور آزر کے انگریزی میں کیے جانے والے اعلان کا دعویٰ غلط ہے (جبکہ دو تین روز قبل سینٹرل پروڈکشن یونٹ ظہور آزر کا مذکورہ اعلان بھی ایک الگ ویڈیو کی شکل میں ریلیز کرچکا ہے)۔ اس کے ساتھ سینٹرل پروڈکشن یونٹ، ریڈیو پاکستان نے مصطفی علی ہمدانی کی ریکارڈنگ پر مشتمل جو ویڈیو ریلیز کی ہے وہ اگست 1947ء کی نہیں بلکہ وہی ریکارڈنگ ہے جو 1973ء میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ انکشاف ہم نہیں کر رہے ہیں بلکہ خود مصطفی علی ہمدانی کے صاحبزادے صفدر ہمدانی نے کیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق ریڈیو پاکستان کی اولین سرکاری تاریخ Three years of Radio Pakistan کے عنوان سے 1950ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ریڈیو پاکستان کے پبلک ریلیشنز ڈائریکٹریٹ نے 1950ء میں شائع کی تھی اور اس کے مرتب مشہور شاعر ن۔ م ۔ راشد تھے جو ان دنوں اس ڈائریکٹریٹ کے سربراہ تھے۔ اس کتاب میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور، ریڈیو پاکستان پشاور اور ریڈیو پاکستان ڈھاکا کی نشریات کا آغاز 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب بارہ بجے ہوا۔

سوال

ریڈیو خبر نامے کا اسلوب اور کاپی کی تیاری کی شرائط بیان کریں

ہماری گفتگو کا محور صرف خبریں نشر کرنے والے چینل ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانی ذرائع سے خبروں کی نشر و اشاعت ہمیشہ سے ایک سرکاری دھندا تھا۔ اس کے پس منظر میں نشری خبروں پر ریڈیو پاکستان کا جابرانہ سرکاری کنٹرول تھا جو کہ سن ساٹھ کے عشرے میں اپنی تمام تر سختی اور کوتاہ نظری کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن کو منتقل ہوگیا۔ چند برس پہلے تک یہ تصور بھی ناممکن تھا کہ ریڈیو یا ٹی وی سے سرکاری نقطہء نظر اور حکومتی پروپیگنڈے کے علاوہ بھی کچھ نشر ہوسکتا ہے۔ تاہم آج جبکہ سرکاری میڈیا کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے، اسے اپنی بقاء کے لئے غیر سرکاری نقطہء نظر بھی طوعًاو کرہاًٰ ہی سہی لیکن نشر ضرور کرنا پڑتا ہے

اس وقت پی ٹی وی نیوز کے مقابلے میں جیونیوز، ایکسپریس نیوز، آج ٹی وی، اے آر وائی ون ورلڈ، ڈان نیوز اور انڈس نیوز جیسے جانے پہچانے خبری چینل موجود ہیں۔ جبکہ نیوز ون، چینل فائیو، دِن نیوز، سماع ٹی وی، سی این بی سی، روشنی ٹی وی، ڈی ایم نیوز، میٹرو ون، وقت ٹی وی اور لاہور میں سٹی 42 بھی خم ٹھونک کر میدان میں آچکے ہیں، لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ جنگ گروپ والوں نے اردو کی جیو نیوز کے بعد اب جیو انگلش کی تیاریاں بھی مکمل کر لی ہیں اور ایکسپریں والے بھی انگریزی چینل شروع کرنے کےلئے تیار بیٹھے ہیں۔ مشرقِ وسطٰی کے وطین گروپ نے ایک انگریزی روزنامے کے ساتھ ساتھ ایک نیوز چینل کی تیاری بھی شروع کر رکھی ہے۔ سی این این والوں نے جنوبی ایشا کے لئے اپنے خصوصی چینل کا اہتمام پہلے سے کر رکھا ہے۔ پنجاب میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے چلانے والے ایک گروپ نے زرِ کثیر خرچ کر کے دنیا نام کے ایک نیوز چینل کا اعلان کر رکھا ہے اور اسکی عملی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔

آئندہ کچھ عرصے میں الجزیرہ اُردو، سرکل نیوز، کوسٹل نیوز، دھرتی ٹیلی ویژن، ڈی ایم نیوز پلس، آئی ٹی وی، ویو لائن اور طاقت ٹی وی بھی اپنی نشریات منظرِعام پر لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اِن درجنوں خبری چینلوں میں کام کرنے کےلئے صحافی کہاں سے آئیں گے؟ ملک کے اکثر تعلیمی اداروں نے اگرچہ ابلاغِ عامہ کے مضمون کو اپنے نصاب میں جگہ دی ہے لیکن میڈیا کی تدریس کےلئے نہ تو اساتذہ موجود ہیں اور نہ ہی مارکیٹ میں اس موضوع پر کتابیں دستیاب ہیں۔

جن طلباء کی رسائی اس مضمون کی انتہائی قیمتی اور نایاب غیرملکی کتب تک ہو بھی جاتی ہے، انھیں بھی اپنے ملک اور گردوپیش کے بارے میں اِن کتابوں سے کچھ رہنمائی حاصل نہیں ہوتی۔

اجارہ داری ختم ہو چکی

 چند برس پہلے تک یہ تصور بھی ناممکن تھا کہ ریڈیو یا ٹی وی سے سرکاری نقطۂ نظر اور حکومتی پروپیگنڈے کے علاوہ بھی کچھ نشر ہوسکتا ہے۔ تاہم آج جبکہ سرکاری میڈیا کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے، اسے اپنی بقاء کے لئے غیر سرکاری نقطہء نظر بھی طوعًاو کرہاًٰ ہی سہی لیکن نشر ضرور کرنا پڑتا ہے

یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ملک میں درجنوں نیوز چینل کُھل جانے کے باوجود بھی ٹیلی ویژن نیوز کے بارے میں ہمارے یہاں اب تک اردو میں کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ ٹھہرے ہوئے پانی کے اس تالاب میں اب پہلا پتھر عدنان عادل نے پھینکا ہے جسکی لہروں نے دُور دُور تک خاصی ہلچل پیدا کردی ہے۔ عدنان عادل کوئی دوعشروں سے میدانِ صحافت میں ہیں اور ویو پوائنٹ، نیوزلائن، فرائی ڈے ٹائمز اور دی نیوز وغیرہ میں پرنٹ جرنلزم کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے بی بی سی ریڈیو کی اُردو سروس میں کام کیا اور ریڈیو کے بعد اب وہ ٹیلی ویژن کی صحافت سے منسلک ہوکر جیو انگلش کےلئے کام کر رہے ہیں۔

دنیا تیزی سے ذرائع ابلاغ کے انقلاب (انفارمیشن رویلوشن )سے گزررہی ہے۔ معلومات کا سیلاب رواں دواں ہے۔ساری دنیا میں لامحدود ذرائع سے معلومات کا طوفان دوڑ رہا ہے پرنٹ میڈیا میں اخبارات، رسائل، جریدے وغیرہ وغیرہ کے ذریعے تو الیکٹرانک میڈیا میں انٹرنیٹ (جس میں لامحدود معلومات ہیں اور ایک ایک موضوع پر ہزاروں ،لاکھوں ویب سائٹس موجود ہے)سل فون( SMS,MMS,Vice) ،ٹیلی ویژن (جس میں روزآنہ کئی ایک نیوز چیانلس کا اضافہ ہورہا ہے اور عوام روایتی سیریلس کے بجائے اب حقیقت پر مبنی نیوز چیانلس پر اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں) اہم ذرائع ہیں۔

ہندوستان میں 2001ء میں 5638روزنامے اور 101 زبانوں کے رسائل اوراخبارات شائع ہورہے ہیں۔ 5,600 سے زائد مختلف اخبارات شائع ہورہے ہیں۔ ایسے میں نیوز کے حصول کا مسئلہ پیداہوسکتا تھا۔ لیکن ترقی کے ساتھ ساتھ نیوز کوریج نے بھی ترقی کی اور اب ہزاروں ذائع سے نیوز حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

نیوز حاصل کرنے کے مختلف ذرائع ہے ان میں اخبارا ور ٹی وی وغیرہ کے خود کے اسٹاف رپورٹر اور نامہ نگار اہم رول ادا کرتے ہیں۔

رپورٹر اور نامہ مختلف مقامات سے تازہ خبریں اپنے اخبارات کو دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیوز ایجنسیاں بھی مختصر سی رقم کے بدلے ممبر شپ دیتی ہیں ان کی ممبر شپ حاصل کرنے کے بعد وہ تازہ خبریں ،تفصیلی واقعات، فیچرز ، کلر بڑے تصاویر اور دیگر اہم خبریں مضامین آفس پر پہنچاتے ہیں۔

خبر کی تصدیق کے لیے ہزاروں ویب سائٹس انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔ خبر کو تلاش کرنا بھی آسان ہے اور انٹرنیٹ پر مطلوب خبر کو سرچ انجن میں ٹائپ کیجئے اور ایک لمحہ سے قبل ہزاروں ویب سائٹس آپ کے سامنے رونما ہوسکتے ہیں جن میں آپ کی مطلوبہ خبر کی تفصیل ہوتی ہے۔

آج کے دور میں پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کی گھماگھمی ہے اور وقت کی قلت کے چلتے اب الکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کو اوورٹیک کررہا ہے لیکن عمل سست رفتاری سے ہورہا ہے اس لیے ابھی پرنٹ میڈیا کی بھی بہت مانگ ہے اور اردو روزنامہ 59 ہزار سے بھی زیادہ تعداد میں شائع اور فروخت ہورہے ہیں، اور نئے روزنامہ میں بھی کروڑوں روپیوں کے صرفہ سے’’ اعتماد‘‘ کے ساتھ شروع ہورہے ہیں کہ وہ چلیںگے۔ وہیں بعض اخبارات ’’ عوام‘‘ میںمقبول نہ ہونے کی بناء پر بند ہورہے ہیں۔ لیکن جہاں تک ٹی وی چیانلس کا تعلق ہے اردو نیوز چیانلس کے شروع ہونے کا اعلان ہوچکا ہے شائع وہ شروع ہوگا اور اس کے ساتھ ہی نیوز چیانلوں کی دنیا میں ایک اور اردو نیوز چیانل کا اضافہ ہوگا۔ ہندوستان میں ای ٹی اردو کا ایک چیانل موجود ہے۔

اردو ذریعہ تعلیم کے نامہ نگاروں کے پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا میں روزگار کے مواقع ابھی ختم نہیں ہوئے اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر روزگار حاصل کرسکتے

ہیں۔

محنت اور مشق سے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ جہاں پر کئی صحافی خطرناک اور اہم خبروں کے حصول کے لیے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں بعض صحافیوں کا دہشت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے۔ امریکی صحافی جاسوسی کے لیے مختلف دہشت پسندوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور ان کے سر قلم کردیاجاتا ہے ۔ تو کہیں ڈاکوؤں کے کی جاسوس کرنے والے رپورٹرس کو گولی ماردی جاتی ہے۔ کہیں حادثہ کے مقام پر کارروائی کے دوران رپورٹرس ہلاک ہوجاتے ہیں۔ متعددی بیماری سے متاثرہ علاقہ میں جا کر رپورٹنگ کے دوران رپورٹر متعدد بیماری سے متاثر ہوسکتا ہے۔ بعض علاقوں میں سردی نہایت زیادہ ہوتی ہے وہاں پر جاکر سرد مقام پر مشقت برداشت کرنا پڑتا ہے توکہیں پر بہت تیز گرمی ہوتی ہے وہاں پر جاکر گرمی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کسی خبر کے تعلق سے کوئی تنازعہ کھڑا ہوجائے تو جان پر بن آتی ہے، مختصر یہ کہ صحافت کا کام آسان نہیں ہے اس ہوش اور محنت دونوں کی ضرورت ہوتی ہ

سوال

ریڈیو نیوز کے مختلف کارکنان کےاہم فرائص بیان کریں

ریڈیو پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قومی و سرکاری ادارہ برائے صوتی نشریات و اطلاعات ہے۔ اس ادارے کا انتظام و انصرام پاکستان براڈکاسٹنگ ایکٹ 1972 کے تحت ہے۔ یہ ادارہ اقتصادی، زرعی، سماجی، سیاسی، مذہبی اور ثقافتی شعبوں میں سماجی موضوعات پر مباحثوں، ڈراموں، فیچرز، دستاویزی پروگرام، سامعین کی شرکت والے مذاکروں، عام بات چیت، موسیقی اور خبروں کے پروگراموں کے ذریعے عوامی خدمات کی سرگرمیاں پیش کرنا ہے۔ بنیادی طور پر ریڈیو پاکستان دراصل قیام پاکستان سے پہلے آل انڈیا ریڈیو کے نام سے موجود تھا۔ مگر پاکستان کے قیام کے بعد یہ ادارہ ریڈیو پاکستان کے نام سے پیش کیا جانے لگا۔ آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان نے اپنی شناخت پیش کی اور اردو اور بیس علاقائی زبانوں کے رابطے کے ذرائع کے طور پر استعمال سے اور جدید مواصلاتی مہارت کے ذریعے متنوع معلومات کی نشر و اشاعت، پاکستانی قومیت، اس کے نظام اور ثقافت کے احترام کے جذبات کو فروغ دینے کے قابل ہوا

فرائض   ترميم

پی بی سی ایکٹ میں درج کیے گئے اغراض ومقاصد :

اطلاعات، تعلیم اور تفریح کے شعبوں میں ایسے پروگرام پیش کرنا جن کے موضوعات میں معیار اور اخلاق کے اعلیٰ درجات کے اعتبار سے مناسب توازن قائم ہو۔

ایسے پروگرام نشر کرنا جن سے ملک میں اسلامی نظریے، قومی اتحاد اور اسلامی تعلیمات کے مطابق جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کو فروغ حاصل ہو۔

مختلف واقعات سے متعلق خبریں حتی الامکان حقیقت پر مبنی، درست اور غیر جانبدارانہ انداز میں اور پروگراموں سے متعلق عمومی پالیسیوں کے تحت وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پیش کرنا۔ دوسرے ممالک کے لیے اپنی ایکسٹرنل سروس میں اس نظریے سے پروگرام نشر کرنا کہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقا ت کو فروغ حاصل ہو اور بین الاقوامی امور پر پاکستان کا موقف ان کے درست پس منظر میں اجاگر ہو۔

ریڈیو پاکستان کے پروگرام متنوع نوعیت کے ہیں اور ان کی رسائی پورے ملک تک ہے۔ ریڈیو پاکستان ملک کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ معلومات ہے جس کے باعث اسکیذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حکومت کی پالیسیوں سے آگاہ کرے۔ انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے، قومی ترقی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے سخت محنت کرنے پر آمادہ کرے، انہیں مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے ان کی شناخت یاددلائے، انہیں ہر محاذ پر اپنی خوشیوں اور کامیابیوں میں دوسروں کو شریک کرنے کی دعوت دے، خواہ وہ کامیابی زراعت کے شعبے کے ذریعے اقتصادی ترقی میں ہو، خواہ وہ کھیلوں، فنون لطیفہ اور ادب کے میدان میں ہوں، انہیں ماضی پر فخر کرنے کا جذبہ پیدا کرے اور انہیں جدوجہد آزادی اور قومی تاریخ کے درخشاں ابواب سے روشناس کرانے کے لیے کام کرے جو انسانی تخیلات اور تہذیب وتمدن سے متعلق مسلمان دانشوروں، فلسفیوں اور سائنسدانوں کے عظیم کارناموں سے بھری پڑی ہے

ریڈیو پاکستان کی بنیادی پالیسی قومی اور بین الاقوامی خبروں اور دوسری عام نشریات کے انتخاب میں ریڈیو کے فنی ماہرین کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس بنیادی مقصد پر مبنی ہے کہ نشر ہونے والا پروگرام حقیقت اور مصدقہ ذرائع پر بنیاد رکھتا ہو، عوام میں اشتعال، ناراضی یا باہمی منافرت پیدا کرنے والا نہ ہو، صحافتی اخلاق کے اعلیٰ معیار کے مطابق ہو اور ادارے کے لیے غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب نہ بنے۔[1]

ریڈیوپاکستان کے پاس اپنے ‘آواز خزانے’ میں ایک مجموعہ موجودہے۔ جو پاکستان کے 14اگست 1947ءسے ایک آزاد قوم کے طور پر ابھرنے کے آغاز سے لے کراب تک کی کثیرالجہتی تاریخ اور ورثے کی نمائندگی کرتا ہے

اس قومی آواز خزانے میں قائد اعظم محمد علی جناح ،قائد ملت لیاقت علی خان،مادر ملت فاطمہ جناح،اور دوسرے قومی رہنماﺅں کی تقاریر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان دوست ممالک کے سربراہوں کی تقاریر بھی موجود ہیں جو گزشتہ 6 دہائیوں کے دوران میں اکثر پاکستان آتے جاتے رہے ہیں۔ یہ ثقافتی مجموعہ پاکستانی موسیقی کی گلگت بلتستان ،آزادجموں کشمیر،خیبرپختونخوا،پنجاب ،سندھ اور بلوچستان اور ملک کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں سے حاصل ہونے والے نادر نمونوں پر مشتمل ہے۔ ہزاروں ادبی پروگرام، مشاعرے ،ڈرامے اور دستاویزات بھی محفوظ ہیں ۔

ریڈیو پاکستان اپنے اس مجموعے کو یو ٹیوب چینل جس کانام ‚‚ریڈیو پاکستان آن لائن ،،ہے، کے ذریعے عوام تک رسائی دیتا ہے ۔ اس چینل کامقصد پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں اصل حقیقت سے روشناس کرانا ہے ،جووادی سندھ ،گندھارا تہذیب اور اسلام کے بردبار اور پرامن ورثے کے نگہبان ہیں

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Services

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  کی   حل شدہ اسائنمنٹس۔ پی ڈی ایف۔ ورڈ فائل۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی، لیسن پلین، فائنل لیسن پلین، پریکٹس رپورٹ، ٹیچنگ پریکٹس، حل شدہ تھیسس، حل شدہ ریسرچ پراجیکٹس انتہائی مناسب ریٹ پر گھر بیٹھے منگوانے کے لیے  واٹس ایپ پر رابطہ کریں۔ اس کے علاوہ داخلہ بھجوانے ،فیس جمع کروانے ،بکس منگوانے ،آن لائن ورکشاپس،اسائنمنٹ ایل ایم ایس پر اپلوڈ کروانے کے لیے رابطہ کریں۔

WhatsApp:03038507371

Recent Posts

To Get All AIOU Assignments Contact Us On WhatsApp​

Scroll to Top