AIOU Course Code 9255-2 Solved Assignment Autumn 2021

9255 کورس میگزین جرنلزم

پروگرام بیایس ماس کمیونیکیشن

2 مشق

 

سوال

جرائد کے لیے اشاعتی اور تصویری مواد کے حصول کے لیے ذرائع بیان کریں

جواب۔

اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے ذرائع ​

اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے ذرائع موجودہ دور میں بہت وسیع ہوچکے ہیں۔ اخبارات کے اپنے رپورٹرس ہوتے ہیں، ری لائنس رپورٹرس، نیوز ایجنسیاں ،سرکاری نیوز ایجنسیاں وغیرہ ذرائع سے اخبارات کے لیے خبروں وغیرہ ارسال کرتے ہیں۔

( a ) نامہ نگار

( b ) صحافتی انجمنیں

آئے سب سے ہم نامہ نگار کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

 

نامہ نگار

اخبار کا بیشتر حصہ خبروں پر مشتمل ہوتا ہے اخباری دفتر کو کئی ایک ذرائع سے خبریں موصول ہوتی ہیں قومی اور بین الاقوامی خبریں زیادہ تر خبررساں ادارے ہی فراہم کرتے ہیں اور یہ خبریں سب اخباروں کو بھیجی جاتی ہیں اگر اخبار صرف خبر رساں اداروں کی بھیجی گئی خبروں کو ہی شائع کریں تو اخباروں میں یکسانیت پیداہوجائے گی حالاںکہ ہر اخبار اپنی ضرورت اور پالیسی کا لحاظ رکھتے ہوئے خبروں کو شائع کرتا ہے اس کے باوجود اخباروں کی انفرادیت باقی نہیں رہے گی اس لیے اخباراپنے خاص وسائل سے زیادہ سے زیادہ خبریں حاسل کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ وسائل اخبار کے اپنے عملے کے ارکان ہوتے ہیںانہیں رپورٹر یا نامہ نگار کہاجاتا ہے۔

رپورٹر کا لفظ رپورٹ سے بنا ہوا ہے۔ شہر اور اس کے گردنواح کی خبروں کو جمع کرنے کا کام رپورٹر کرتا ہے نئی اور تازہ خبریں جمع کرنے کا یہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ کچھ بھی واقع ہو چھوٹی بڑی مصروفیات، چھوٹی بڑی تقریب ، چھوٹا بڑا حادثہ ہو یہ رپورٹر اس کی رپورٹ اخبار کے ایڈیٹر کو روانہ کردیتا ہے ۔ اس کو سب ایڈیٹر پڑھ کر کس خبر کو یا کسی تقریب کو شائع کرنا ہے اس کو لے لیتا ہے اور اس کو اشاعت کے لیے دے دیتا ہے۔ ہررپورٹر کا اپنا ایک مخصوص میدان ہوتا ہے وہ جس موضوع یا علم پر عبور رکھتے ہیں عموماً انہیں اسی میدان کی رپورٹنگ کی ذمہ داری دی جاتی ہے اگر ہشر بڑا ہو تو مختلف موضوع یا علم پر عبور رکھتے ہیں عموماً انہیں اسی میدان کی رپورٹنگ کی ذمہ داری دی جاتی ہے اگر شہ ربڑا ہو تو مختلف علاقوں کے الگ الگ رپورٹر ہوتے ہیں ہر رپورٹ کا اپنا علاقہ بیٹ (Beat) کہلاتا ہے ان تمام رپورٹروں کی نگرانی چیف رپورٹر کرتا ہے۔ بڑے اخبارات میں رپورٹر کا موضوعی بیٹ ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی رپورٹر سیاسی رپورٹنگ کیلئے مختص ہے تو وہ صرف سیاسی پارٹیوں سے متعلق خبریں ہی ارسال کرتا ہے۔ کرائم رپورٹر صرف کرائم کی ہی رپورٹ ارسال کرتا ہے۔

رپورٹر کے علاوہ نامہ نگار ہوتے ہیں یہ دراصل رپورٹر س کے ہی کام کرتے ہیں لیکن یہ عموماً اخبار کے اشاعتی شہر سے دور ہوتے ہیں۔ دیگر مقامات سے نامہ نگار انجام دیتے ہیں انھیں Correspondent کہا جاتا ہے۔ ایک ضلع میں کئی ایک نامہ نگار ہوتے ہیں جو اپنے مقامات کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور ان سب کا نگران ضلعی نامہ نگار Dist Correspondent ہوتا ہے۔ نامہ نگار اہم خبریں تار یا ٹیلی فون یا فیاکس کے ذریعے ارسال کرتا ہے۔ طویل رپورٹنگ جن کی فوری اشاعت ضروری نہ ہو ان کو ڈاک سے روانہ کیاجاتا ہے۔ جیسے عید کے ایڈیشن کے لیے کچھ مواد ارسال کرنا ہے تو اس کو عید سے چند دن قبل ڈاک سے روانہ کیاجاسکتا ہے۔

نامہ نگاری سیکھے ہوئے علم کا ’’عملی میدان ہے‘‘چوری رحم علی ہاشمی نامہ نگار کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔

’’وہ حالات زمانہ کی رفتار کو وسیع ترین معنوں میں مشاہدہ کرتا ہے اور بقیہ حصہ دنیا کے فائدے کیلئے اس کی تصویر الفاظ میں کھنچ دیتا ہے۔‘‘رپورٹر معاشرہ کا ایک باشعور اور باریک بین مشاہدہ ہوتا ہے جس کا مقصد خبریں جمع کرنا اور انہیں معروضیت دیانت داری اور غیر جانبداری کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔

صحافت ایک مقدس اور معزز پیشہ ہے صحافت نگار عموماً اخبار نویس ،رپورٹر ، نامہ نگار یا جرنلست کہلاتا ہے سماج میں صحافی کو ممتاز مقام حاصل ہے موجودہ دور میڈیا کا دور ہے اس لیے نہ صرف مطبوعہ صحافت سے وابستہ افراد خود کو جرنلسٹ کہتے ہیں بلکہ ریڈیو سے وابستہ لوگ ریڈیو جرنلسٹ اور ٹی وی سے وابستہ کار کرن خود کو ٹی وی جرنلسٹ کہتے ہٰں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج میں لفظ جرنلسٹ ایک معزز اور پیشہ اشراف کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

نامہ نگار کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ وہ سماجی واقعات کو اخبار کی زینتبناتا ہے بلکہ آج کا نامہ نگار غیر معمولی معلومات رکھتا ہے۔ خصوصاً حکومت کی مختلف پالیسوں کا شارح بھی ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے سماج کے کتنے افراد مستفید ہورہے ہیں۔ ملوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے سیاسی لیڈر یا درمیانی لوگ کس طرح رشوت کا بازار گرم کررہے ہیں۔ پولیس اور عوام کے درمیان کس طرح کاربط ہے کہیں پولیس کسی عام آدمی کو ظلم وستم کا نشانہ تو نہیں بنارہی ہے۔ مختلف سماجی مسائل جیسے جہیز، بے روزگاری، نوجوانوںکی بے راہ روی، تعلیمی اداروں کااستحصال ضعیف افراد اور خواتین کے مسئال کا وہ نہ صرف جائزہ لیتا ہے بلکہ اس کے محرکات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے ان مسائل کے حل کیلئے متعلقہ محکموں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے چونکہ کوئی مسئلہ جب اخبار کے صفحات کی زینت بنتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے مذکورہ مسئلہ رائے عامہ ہموار ہونے لگتی ہے اور لوگ باشعور ہونے لگتے ہیں۔

نامہ نگار صرف وقائع نویس نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ سماج کے تاریخ لکھتا ہے اس کا سماج میں اچھا مقام ہوتا ہے۔ شادی کی خوشی کی محفل ہو یا غم کی مجلس ہو اس کو مدعو کیاجاتا ہے۔ اس کی آمد باعث سکون محسوس ہوتا ہے اور اس کے ساتھ رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں اکثر شہری اس کی دیکھ اس طرح مسرور ہوتے ہیں کہ یہ ہمارا بہی خواہ ہے اور ہمارے لیے حکومت پولیس اور دیگر اداروں میں سفارش کرسکتا ہے اگر ہم بے قصور غلط فہمی میں گھر جھائیں تو اس کے برخلاف جو کالا کاروبار کرتے ہیں رپورٹر و نامہ نگار سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور اس سے ملنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں اس سے ہمارا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔

نامہ نگار کی مختصر تعارف اور اس کا سماج میں رتبہ وغیرہ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اب آئے نامہ نگاری کے فرائض کا جائزہ لیتے ہیں۔ نامہ نگار، معاشرہ کا ایک ذمہ دار اور باشعور فرد ہوتا ہے وہ سماج کا انہتائی قریب اور باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھتا ہے وہ صرف وقائع نگارہی نہیں ہوتا بلکہ واقعات پر اپنی رائے بھی رکھتا ہے وہ واقعہ کے پوشیدہ نکات کو اہر لاتا ہے اور اس کے محرکات کا پتہ چلاتا ہے جو ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

نامہ نگار کی ذمہ داریاں صبر آزماہوتی ہیں وہ معمولی سے معمولی واقعہ کا بھی نوٹس لیتا ہے اور اس کی حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ واقعہ کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے ہر پہلو پر غور کرتا ہے ۔ نامہ نگار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ سماج کا نقاد ہے اور سماج میںہر مذہب اور طبقہ کے لوگ رہتے ہیں ان تمام میں یگانگت پیداکرنا نامہ نگار کا اہم فریضہ ہے ایسے واقعات کا تدارک کرے جس سے معاشرے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ غیر مصدقہ واقعات اور افواہوں کو نہ صرف تردید کرے بلکہ حق اور سچ کی تبلیغ کرے خواہ نامہ نگار کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو۔ ایسے محکمے جس کا راست تعلق عوام سے ہوتا ہے مثلاً بجلی، پانی، راشن، مارکٹ جہاں پر مختلف طریقوں سے عوام کو بے وقوف بنایاجاتا ہے اور ان کااستحصال کیاجاتا ہے نامہ نگار پر لازم ہے کہ وہ ان محکموں پر نظر رکھے نشیلی اشیاء اور جسم فروشی کے کاروبار بھی مختلف محلوں میں چوری چھپے بھی کئے جارہے ہیں جس سے نوجوان نسل دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ نوجوان لڑکیوںکو ملازمت کے بہانے جسم فروشی کا کاروبار کرایاجارہا ہے ان حالات میں نامہ نگار کی ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔ ان غیر اخلاقی کاروبار کا قلع قمع کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاے اور نوجوانوںکی ذہنی تربیت کرے تاکہ وہ کسی قسم کے استحصا ل کا شکار نہ ہوں کئی ایسے مواقع بھی نامہ نگار کی زندگی آتے ہیں جہاں نامہ نگار کو رشوت بھی دی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو یہیں پر ختم کردے کچھ نامہ نگار چند پیسوں کیلئے اپنے مقدس پیشے کو داغدار بھی بنادیتے ہیں بہر حال رپورٹر یانامہ نگار پر لازم ہے وہ معاشرے اور سماج کی فلاح وبہبود اور تری کیلئے اپنے آپ کو وقف کردے۔

نامہ نگار یا صحافی تعلیم و تربیت ، محنت و مشقت اور ذوق وشوق سے بناجا سکتا ہے۔ نکامہ نگار کیلئے حسب ذیل اوصاف ضروری ہیں۔

1۔اس کام میں دل وجان سے مشغول ہوجانے کے لیے تیار رہیں۔

2۔ طبعتاً ، دماغی اور جسمانی حیثیت سے اس کے لیے موزوں رہے۔

3۔ محنتی ہو۔

4۔ دوایک سال بلا مالی نفع کے توقع کے صحافت کی مبادیات حاصل کرنے میں صرف کرسکتا ہو۔

ذوق وشوق، مزاج، طبیعت، مطالعہ اور محنت کے بغیر کوئی بھی شخص صحافی نہیں بن سکتا۔ ماہرین صحافت نے نامہ نگار کیلئے کچھ خوبیاں مختص کی ہیں۔ گوکہ یہ اوصاف ہر نامہ نگار میںاچانک پیدانہیںہوتے لیکن مستقل مزاجی سے اکتساب کے ذریعہ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

نامہ نگار کے مختلف روپ اس طرح ہیں۔

1۔ اسٹاف رپورٹر یعنی ہر اخباراپنے رپورٹر رکھتا ہے جن کو اسٹاف رپورٹر کہتے ہیں۔

2۔ چیف رپورٹر: اخباری دفتر میں کئی ایک رپورٹر مامور ہوتے ہیں ان تمام کی نگرانی چیف رپورٹر کرتا ہے۔

3۔ کرائم رپورٹر: جرائم کی خبریں جمع کرنے کیلئے جو رپورٹر مقرر ہوتے ہیں انہیںکرائم رپورٹر کہاجاتا ہے۔

4۔ اسپورٹس رپورٹر: کھیل کود کی خبروں کے لیے یہ پورٹر مختص ہوتا ہے۔

5۔ سائنسی نامہ نگار: سائینسی ایجادات وانکشافات کی رپورٹنگ کرنے والا نامہنگار سائنسی رپورٹر کہلاتا ہے۔

6۔ اقتصادی نامہ نگار: موجودہ سماج میں معاشیات اور اقتصادیات کی طرف کافی دھیان جرہا ہے اس لیے تجارت واقتصادایات کا ایک نامہ نگار ہوتا ہے۔

7۔ نمائندہ خصوصی۔ یہ صرف خبریں ہی ارسال نہیں کرتا بلکہ پس منظر، وجوہات اور تفصیلات کے ساتھ جامع رپورٹنگ کرتا ہے۔

اسے انگریزی میںSpecial Corespondentکہاتاجاتاہے۔

8۔ ضلعی نامہ نگار۔

 

سوال

جرائد کو مواد کے حصول کے بعد اشاعت تک کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تفصیلابیان کریں

جواب۔

اخبارات کی ابتداء کاغذ کی ابتداء کے بعد ہوئی ۔ ویسے ابتداء سے ہی ماقبل تاریخ کے زمانے سے انسان خبروں کی ترسیل مختلف انداز میں کرتا رہا ہے۔ عیسیٰ ؑ سے ہزاروں سال قبل بھی انسان دشمن سے بچنے کی تدبیریں نکالتااور دھواں وغیرہ کے ذریعہ اطلاعات کی ترسیل کرتا تھا۔ چین میں سب سے پہلے کاغذ ایجاد کیا گیا اس کے بعد اخبارات کا وجود عمل میں۔ ہندوستان میں اخبارات کی تاریخ ڈھائی سو (250) سال پرانی سمجھی جاتی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے ہی اخبارات کی آمد ہوئی اور اٹھارویں صدی کی ابتداء میں ہندوستان سے پہلا اخبار شائع ہوا جس کے ایڈیٹر ، نامہ نگار اور سب کچھ ایک ہی شخص تھا جیسے انگریزوں سے سرویس سے بے دخل کردیا تھا۔

اخبارات شروع میں خبروں کے لیے محدود ذرائع سے استفادہ کرتے تھے۔ دور دراز کی خبریں آہستہ آہستہ آتی تھیں ۔ جب کہ مقامی خبریں مخبر،خبری،وغیرہ کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی تھیں۔ان خبروں کی تصدیق لازمی جز تھا جس کے لیے بغیر خبری کو مطلع کئے دوسرے خبری کو بھی اسی خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کیا جاتا تھا اور دونوں کی خبروں کی اگر تضاد نہ ہوتو اس کو صحیح تسلیم کرلیاجاتا اور اس کو شائع کرلیاجاتھا۔

آج کا میڈیا وسیع ہوچکا ہے اور لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خبریں پہنچتی ہیں۔ اخبارات کے لیے مختلف ذرئع سے خبریں پہنچتی ہیں اس کی تفصیل ہم اس مضمون پراجکٹ رپورٹ میں پڑھیں گے ۔

تحقیقی کام دیگر نگارشات کی نسبت نہ صرف ایک مشکل کام ہے بلکہ ایک منفرد اور الگ نوعیت کا کام ہے بنیادی فرق یہ بھی ایک طرح کا سمجھا جاتا ہے کہ تحقیقی کام کا زیادہ تر مواد لائبریریوں سے دستیاب ہوتا ہے جس میں مختلف طرز اور نوعیت کے ہوتے ہیں کیوں کہ بعض کتب اتنی پرانی ہو جاتی ہیں کہ ان کا کوئی نیا ایڈیشن دستیاب نہیں ہوتا اور اس طرح بعض اوقات لوگوں کو پسند کا مواد مل جائے تو وہ چرانے سے بھی بعض نہیں آتے وغیرہ۔

ایک معیاری تحقیقی کام کوئی اتنا آسان نہیں تاہم اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اپنا ہی لطف ہے یہ کام نہ صرف آپ کے لیے علمی ترقی کا ثمر ہے بلکہ ایک بڑے چیلنج پر پورا اترنے کی تسکین بھی۔ تحقیقی طریقہ کار کا مرحلہ وار جائزہ لینے سے بیشتر متعدد جزئیات سے قطع نظر لازم ہے کہ پیش نظر کام اہم بنیادیں دریافت کر لی جائیں۔ تحقیقی کا عمل جہتی لوازمات پر مبنی ہے۔

1۔ تلاش

2۔ مطالعہ

3۔ تسوید

1۔ تلاش:

اکثر لوگ موضوع کی تلاش کے ضمن میں زیادہ محنت سے کام نہیں لیتے یا محنت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ جو تحقیقی نقطہ نظر سے اہم خامی سمجھی جاتی ہے تاکہ چاہیے یہ کہ عام روش سے ہٹ کر موضوع کے بارے زیادہ اہمیت سے کام لیں، اس کے ساتھ شاید ہی ایسا ہوتا ہے کہ فراہم شدہ مواد پر سرسری غور و فکر کرتے ہی اچھا موضوع سوجھ جائے اس کے علاوہ ایک تحقیقی کار حصول مواد کی غرض سے کارڈ کیٹلاگ کی رہنمائی کے علاوہ دیگر موثر طریقہ کار بھی اختیار کرنے ہوں گے۔

 

 

2۔ مطالعہ:

مطالعہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ فراہم شدہ معلومات کی تفہیم کر سکیں بلکہ تحقیق کار کو اس قابل ہونا چاہیے کہ ایسے مواد کی نشاندہی کر سکیں جو مخصوص تحقیقی مقصد کے لیے حقیقی معنوں میں مفید ہو ایسا نہ ہو جو آپ مواد تلاش کریں جو آپ کے ممکن موضوع کی مکمل ترجمانی نہ کرتا ہو یا اس کے ایک حصے کو اپنے دائرے کار میں لاتا ہو۔ مطالعہ سے تحقیق کار کو مواد کے ساتھ اپنے موضوع کے بنیادی اصولوں کا بھی ادراک ہوتا جائے گا گویا اس کی تحقیق کس حوالے سے اور کس نقطہ نظر پر ہوگی؟ اور وہ اپنے تحقیقی کام کو شاندار بنانے کے لیے اور کون سے تحقیقی کام سر انجام دیتا ہے۔ اور اس کے تحقیقی عمل میں کن کن مسائل کا اسے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 

3۔ تسوید:

چونکہ ایک تحقیق کار نے اپنے دریافت شدہ مصادر سے معلومات و خیالات کا بہت بڑا ذخیرہ فراہم کر لیا ہے سو اس قدر زیادہ مواد کو ذہانت سے مربوط و منظم کرنا، اگر اچھے اسلوب سے بڑا نہیں تو اس کے برابر کا کام ضرور ہو۔ کیونکہ ایک تحقیق کار اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسلوب نگارش کی اہمیت کم ہے اصل میں تحقیق کار اپنی تحقیقی کام کی وجہ سے اصل متن کی ایک طرح سے پذیرائی کر رہا ہوتا ہے۔

اور بعض اوقات تحقیقی کام دیکھ کر اصل متن کے پوشیدہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں اور ایک تحقیق کار کی مدد سے اس فن پارے کی جو پذیرائی حاصل ہوتی وہ پہلے اس سے محروم سمجھا جاتا ہے۔ یہ تینوں کام موثر قوت فیصلہ اور لسانی مہارت کے موزوں استعمال کے متقاضی ہیں صفائی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے تحقیقی کام صرف کرانے والے نقطہ نظر نہیں بلکہ یہ امر ایک تحقیق کار کے اپنے مفاد میں بھی اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک بہت بڑے ذخیرہ معلومات کے حوالے سے کام کرتے ہوئے لا پرواہی کرنے سے بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

اس نوع کی مہارتوں اور قوت فیصلہ کے اکتساب کے لیے وقت اور تجربہ درکار ہے سو پہلے تحقیقی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے چند ہفتوں کی نہیں بلکہ مہینوں بھی کی منصوبہ بندی کرنا بھی تحقیق کار کا ایک اہم کام ہے۔ اور پھر اس مواد کا طریقہ استعمال اور اس تحقیق کے لیے مستقل مزاجی دوسری اہم خوابی کا ہونا بھی ضروری ہے۔

 

 

مواد کے حصول کے ذرائع:

کسی بھی زبان کے ادب کا جتنا مواد موجود ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ ضائع ہو چکا ہوتا ہے کسی ادیب کے جملہ نگارشات موجود نہیں ہیں مثلاً غالب روزانہ کسی نہ کسی کاغذ پر کچھ نہ کچھ لکھتے ہوں گے ان سے کتنی چیزیں محفوظ ہیں ہمارے بڑے شعراء اور نثر نگاروں نے اپنی تخلیقات کو ایک بار یا کئی بار ہاتھ سے لکھا ہوگا تب طباعت کے لیے رہا ہوگا۔ کس کس کے پہلے دوسرے اور آخری مسودے محفوظ ہیں۔ سترہویں اٹھارہویں صدی اردو کے کتنے زیادہ شعراء ہوں گے ان سے کتنی محدود تخلیقات باقی ہیں۔

انگریزی کے محقق ”رچرڈایلٹک“ نے بیان کیا ہے ایک جگہ پر

”ہر قدیم دریافت شدہ مخطوطے کے پیچھے دس ہزار مخطوطات ہمیشہ کے لیے تلف ہو گئے ہیں“

ڈاکٹر گیان چند اپنی کتاب ”تحقیق کا فن میں لکھتے ہیں :

ادبی مواد متعدد قسم کا ہوتا ہے دو مختلف بنیادوں پر مواد کی دو قسمیں کی جاتی ہیں۔

1۔ اولین (Primary) اور ثانوی

2۔ داخلی اور خارجی

1۔ اولین (Primary) اور ثانوی:

ان اقسام کا اطلاق زیادہ تر ایک مفرد ادیب پر تحقیق کے سلسلے میں ہوتا ہے اولین مواد زیر تحقیق ادیب کی جملہ تخلیقات اور دوسری مثلاً مسودوں، ڈائری، خطوط وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ تاریخی دستاویزات، تعلیمی ریکارڈ، ملازمت کا ریکارڈ وغیرہ بھی اولین ماخذ ہیں۔ بقیہ مواد ثانوی ہے۔ داخلی اور خارجی مواد یا شہادت کا تعلق کسی متن سے ہوتا ہے۔

داخلی اور خارجی:

داخلی مواد کسی مصنف کی نگارشات کے مشمولات ہیں بقیہ سب خارجی مواد ہے اس طرح اقبال کا میونسپل رجسٹرڈ کا اندراج تعلیمی ریکارڈ وغیرہ اولین رکارڈ ہوتے ہوئے بھی خارجی مواد ہیں داخلی نہیں۔ ادبی تحریروں کے علاوہ بعض اوقات غیر ادبی تحریروں میں بھی ادیبوں کے بارے مفید معلومات مل جاتی ہیں۔

 

ماخذی مواد:

ماخذی مواد کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔

1۔ کتابیں :کتابوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں اول مطبوعہ ”ب“ ، ”قلی یا خطی“ ان میں ادبی مخطوطات کے علاوہ مسودے، ڈائریاں، میونسپل رجسٹرڈ، اسکول رجسٹرڈ وغیرہ بھی شامل ہیں۔

2۔ جریدے :جریدوں میں رسالوں کے علاوہ اخبار بھی شامل ہیں۔

3۔ دوسری کاغذات:کاغذات میں منجلہ دوسری چیزوں کے ذیل کے کاغذات قابل ذکر ہیں۔ کسی مصنف کے منتشر کاغذات، خطوط، تاریخی دستاویزات، قانونی دستاویزات وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔

4۔ بصری مواد:بصری مواد میں فلم، ٹیلی وژن وغیرہ یا کسی بڑے ادیب یا شاعر کے تاریخ وفات والے دن مختلف ادیبوں کی تقریریں شامل ہوتی ہیں۔

5۔ سمعی مواد:سمعی مواد میں رکارڈ یعنی کیسیٹ ”Cassette“ ریڈیو کے ادبی پروگرام یعنی تقریریں مباحثے وغیرہ شامل ہیں۔

6۔ مائیکر و فلم:جس مواد کو (Micro Graphics) کہا جاتا ہے اس میں زیراکس اور دوسرے عکس رکھیے۔

7۔ لوحیں :لوحیں قبروں کے تعویذ، دیواروں پر لوحیں، مقبروں کے گنبد، دروازوں پر نقوش۔

8۔ ملاقات (انٹرویو )

9۔ مراسلت: مراسلت کے ذریعے سوال نامے تیار کیے جاتے ہیں۔

مواد کی فراہمی کے سلسلے میں تحقیق کو شہد کی مکھی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

سوال ۔

پاکستان کے قیام کے بعد  مختلف تحریر کے رسائل و جرائد کا احوال بیان کریں

جواب۔

پاکستان کے تحت شایع ہونے والی کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں: ’’اردو کے قدیم ادبی رسائل کے آثار اب دست یاب نہیں۔ 1857 سے ما قبل ادبی جریدہ نگاری کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں اس کی کوئی واضح جہت نظر نہیں آتی۔ ابتدا میں ہفتہ وار اخبارات ہی کو ادبی مضامین اور شعری تخلیقات کی اشاعت کے لیے استعمال کرلیاجاتاتھا۔ انیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں فروغِ ادب کی ایک موثر صورت ’’گل دستہ‘‘ کی اشاعت اور ترویج تھی۔ اس قسم کا پہلا ’’گل دستہ‘‘ جاری کرنے کا سہرا مولوی کریم الدین پانی پتی کے سر ہے،جنہوں نے ’’گلِ رعنا‘‘ نکالا۔‘‘1857 کی جنگ آزادی کے بعد اہم اخبارات اوررسائل وجرائد،جنہوں نے ادبی خدمات انجام دیں، ان میں اودھ اخبار، اودھ پنچ، تہذیب الاخلاق، انجمن، حسن، افسر اور کئی ادبی گل دستے سرفہرست تھے۔ انیسویں صدی میں تقریباً پچاس ادبی وعلمی جرائد ایسے تھے، جن کا مطالعہ کرکے ہمیں اس صدی کی ادبی روایات سے واقفیت ہوتی ہے۔بیسویں صدی میں تقسیم سے قبل جن ادبی جریدوں کے ناموں کی بہت گونج سنائی دیتی تھی ان میں مخزن، زمانہ، اردوئے معلّیٰ، زبان، عصمت، ہم درد، الناظر، الہلال، علی گڑھ میگزین، ہمایوں، اردو، نگار، ادبی دنیا، نیرنگِ خیال، عالم گیر، ساقی، شاعر، ادبِ لطیف، شاہ کار، سب رس، آج کل، کتاب، افکار، نیا دور نمایاں تھے۔ اس دور میں ادبی رسائل وجرائد کی مجموعی تعداد تقریباً 70 تھی۔ ان میں سے کئی رسالے تقسیم کے بعد بھی جاری رہے۔ آزادی کے برس یعنی 1947 میں بھی چند نئے ادبی جرائد کا اجرا ہوا، جن میں سحر، فانوس، کائنات، چراغِ راہ اور سویرا جیسے رسائل تھے جنہوں نے نئے ملک کی تخلیق کے ساتھ ہی اپنا تخلیقی سفر بھی شروع کیا اور ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی۔دوحہ اور دہلی سے شایع ہونے والے ’’مجلّہ دستاویز‘‘ کی خصوصی اشاعت ’’اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر‘‘ کے مطابق ’’بیسویں صدی کے اختتام تک بھارت کے چند اہم ادبی جریدوں میں شاہ راہ، تحریک، نیادور، سوغات اور شب خون شامل تھے اور اب، عہدِ حاضر میں دہلی سے تقریباً 25، ریاست مہاراشٹر سے 18، ریاست بہار سے 16، اترپردیش سے 12، آندھراپردیش سے 10، مغربی بنگال سے 5، مدھیہ پردیش سے 5، راجستھان سے 2، جھاڑکھنڈ سے2، اڑیسہ سے 3، تامل ناڈو سے 1، کشمیر سے 6، کرناٹک اور کیرالہ سے 5، ریاست گجرات سے 2، پنجاب سے 2، ریاست ہریانہ سے 2، ہماچل پردیش سے 1، چھتیس گڑھ سے 1 اور دیگر ریاستوں سے متفرق تعداد میں رسائل وجرائد شایع ہوتے ہیں۔‘‘تقسیم کے بعد 1948سے1999تک پاکستان میں شایع ہونے والے رسائل وجرائد کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔سب کا اندراج ممکن نہیں، البتہ چند اہم نوعیت کے جریدے،جنہوں نے ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا، ان میں چٹان، نقوش، قومی زبان، سنگ میل، اردو ادب، ماہِ نو، نئی قدریں، انشاء، مہر نیم روز، قند، لیل و نہار، صحیفہ، داستاں، شعور، نصرت، سات رنگ، قلم کار، اسلوب، فنون، سیپ، اوراق، تخلیق، الفاظ، پاکستانی ادب، غالب، احساس، معاصر، ادبیات، حروف، قرطاس، تلاش، آج، بادبان، مکالمہ، چہارسو، نقاط، اردونامہ، الحمرا، الاقربا، دنیائے ادب، ارتقا اور دیگر شامل ہیں۔ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ اس موضوع کو تفصیل سے پڑھنے کے لیے بہترین انتخاب ہوسکتی ہے۔ اسی تناظر میں دوحہ اور دہلی سے شایع ہونے والا ’’مجلّہ دستاویز‘‘ کا ’’اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر‘‘ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر انور سدید کی تحقیق کا دائرہ 80 کی دہائی تک ہے۔ مجلّہ دستاویز، کی تحقیق 2011 تک محدود ہے۔پھر اس مجلے میں پاکستان کے بہت سے اہم جرائد کا ذکر نہیں ہے۔البتہ مجموعی حیثیت میں یہ نمبر اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’’تاریخ ِادبِ اردو‘‘ اور ڈاکٹر سلیم اختر کی ’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ میں بھی ادبی رسائل وجرائد کا برائے نام ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح مختلف اوقات میں چھپنے والے مضامین میں کبھی کبھار ادبی جرائد کا مختصراً ذکر پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ یہ عنوان ایک سنجیدہ اور تفصیلی تحقیق کا متقاضی ہے۔ادب کے سنجیدہ طالب علموں کو اس موضوع پر طبع آزمائی کرنی چاہیے، یہ انتہائی دل چسپ تحقیق ثابت ہوگی۔اکیسویں صدی سے پاکستان میں ادبی جرائدکے تناظر میں ایک نیا عہد شروع ہوتا ہے۔2000سے 2014 تک متعدد نئے ادبی رسالے شایع ہوئے اور کئی اشاعت کے کچھ عرصے بعد چھپنا بند ہوگئے۔ اس عرصے میں پاکستان کے مختلف شہروں سے شایع ہونے والے چند نمایاں رسائل وجرائد میں کراچی سے دنیازاد، روشنائی، جوش شناسی، زرنگار، اجرا، اسالیب، کولاژ، اجمال، رنگِ ادب، لاہور سے نمودِ حرف، لوح، گجرات سے تناظر، فیصل آباد سے نقاط، ملتان سے پیلھوں، پشاور سے احساس، کوئٹہ سے سنگت، قلم قبیلہ وہ ادبی رسالے ہیں، جو باقاعدگی سے شایع ہوتے رہے ہیں اور انہیں ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی۔یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ادبی رسائل وجرائد کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ سوائے چند اخبارات کے سب نے ادبی صفحات کو فراموش کردیا۔ اس تمام صورت حال کے باوجود ادبی رسائل و جرائد کا شایع ہونا غنیمت ہے۔جن ادبی رسالوں کی اشاعت 2000سےپہلے ہوئی، ان میںسے کئی تو ایسے ہیں جن کی اشاعتی عمر کا عرصہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے جن رسائل کی اشاعت جاری تھی اور بعد میں بھی وہ چھپتے رہے، ان میں اردو، ہمایوں، نگار، عالم گیر، نیرنگِ خیال، ساقی، ادبِ لطیف، شاہ کار، کتاب، نظام، افکار، سویرا، نیا دور اور عصمت جیسے رسائل شامل ہیں۔ان کے علاوہ مختلف ادوار میں جن رسالوں نے ادبی خدمات کی ابتدا کی اور وہ اب تک کام یابی سے اشاعت پذیر ہی نہیں بلکہ مقبول بھی ہیں، ان میں فنون، قومی زبان، سیپ، ادبیات، قرطاس، آج، چہار سو اور دنیائے ادب شامل ہیں۔ کچھ ایسے بھی ادبی رسالے ہیںجنہوں نے ادب کے اس تخلیقی سفر میں اپنا حصہ ڈالا، مگر وہ ایک عرصے کے بعد اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکے۔ان میں سرِفہرست نقوش ہے، جس کے پرانے شمارے آج بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ادبی رسائل میں قند، آرٹس انٹرنیشنل، کلاسک سندھ اور سخن زار جیسے رسالے شامل ہیںجنہوں نے آغاز بہت اچھا کیا تھا، مگر اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکے۔خالص ادبی رسائل وجرائدکےعلاوہ مختلف جامعات کے رسالوں نے بھی ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ مختلف ادوار میں ایسے رسالوں کی اشاعت جاری رہی جن میں تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا۔ ان میں گورنمنٹ کالج لاہور سے راوی، اردو کالج کراچی سے برگِ گل، مرے کالج، سیالکوٹ سے مشعلِ راہ، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے مہک، بہاؤالدین یونیورسٹی سےیونیورسٹی میگزین، گورنمنٹ انٹرکالج بہاول پور سے مطلعِ نو، گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے بیکن، گورنمنٹ کالج سرگودھا سے نویدِ صبح،جامعہ سندھ، حیدرآباد سے صریر نامہ، جامعہ پشاور سے یونیورسٹی جرنل، اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں سے شایع ہونے والے علمی مجلے شامل ہیں۔ہر دور میں شایع ہونے والے ادبی رسائل وجرائد نے صرف قارئین کے ادبی ذوق ہی کی تسکین نہیں کی، بلکہ تحقیق کے طالب علموں کے لیے راستہ ہم وار کیا اور تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تنقید نگار، ادیب اور تخلیق، دونوں کے قدوقامت کا جائزہ لیتے تھے۔ تخلیقی محاکمے کے ذریعے قارئین کو یہ بتایا کرتے تھے کہ کس تخلیق کی گہرائی کیا ہے اور اگر کسی کام پر تنقید کرنی ہے، تو اس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے اور دوسرے معنوں میں اخلاقیات کیا ہونی چاہییں۔عہدِ حاضر میں تو کسی کتاب یا ادیب پر تنقیدی پہلو سے کچھ لکھ دیا جائے تو وہ اسے اپنی ذات پر حملہ سمجھ بیٹھتا ہے۔ کم ازکم ادبی جرائد نے تربیت کی ایک ایسی فضا قائم کی تھی، جس میں صاحب کتاب اور قارئین، دونوں کو اپنی حدود اور دوسرے کے حقوق کے متعلق معلومات تھیں۔ آج کے دور میں یہ کمی موجودہ ادبی رسائل پوری نہیں کر پا رہے۔ اگر کسی جریدے نے ہمت کرکے تنقیدی پہلوئوں کو نمایاں کیا تو لوگوں نے اسے مقدمہ بازی میں الجھادیا۔ یہ افسوس ناک رویہ ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر معاشرہ جس طرح سفّاکی کا شکار ہورہا ہے، ہمیں سچّے ادب اور ادیبوں کی بے حد ضرورت ہے، جن کی تحریریں نہ صرف معاشرے کی عکاس ہوں، بلکہ قلوب میں شعور کی روشنی بھی بڑھا سکیں۔

 

سوال

مجلاتی صحافت کے تنظیمی ڈھانچے اور ملازمین کی ذمہ داریوں پر تفصیلی نوٹ لکھیں۔

جواب۔

مجلاتی صحافت  کی ایک عظیم اور شاندار روایت رہی ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اردو میں صحافت کے آغاز و ارتقا کی بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ  روزناموں کے مقابلے میں رسائل و جرائد نے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ بلکہ اردو صحافت میں یہ رسائل و جرائد سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ عام طور پر یہ کہا جاتا  کہ اردو میں ۱۸۵۷ سے قبل نثر داستانوں کی دنیا کی سیر کر رہی تھی ۔ اس کے ذخیرے میں طلسماتی فضا کے علاوہ زندگی کے حقائق اور ہم عصر مسائل عنقا تھے۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اسی عہد میں نثر نے بلندیوں کا سفر بھی طے کیا۔یہی وہ عہد ہے جس میں نثر کا دامن رنگا رنگ اسالیب سے بھر گیا۔ایک طرف غالب نے نثر کو براہِ راست تخاطب اور سادگی کا جوہر عطا کیا تو دوسری جانب سر سید احمد خان نے اردو نثر کو سائنسی اور اور تکنیکی اظہار کا ذریعہ بنایا ۔

            اردو میں مجلاتی صحافت کا ارتقا یہیں سے ہوتا ہے ۔ سر سید احمد خان نے پہلی دفعہ صحافت کی اہمیت کو بھانپ کر ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ جیسا ادبی ، تہذیبی اور تعلیمی رسالے کا آغاز کیا ۔ اس رسالے نے اردو قارئین کو پہلی دفعہ یہ بتایا کہ نثر کی طلسماتی فضا کے علاوہ بھی اور رنگ ہیں  اور  ایسے رنگ ہیں جن میں زندگی کی تصویروں کو بے حجاب دیکھ سکتے ہیں ۔یہ وہ نکتہ آغاز تھا کہ جس بعد نثر میں تنوع پیدا ہوتی ہے اور صحافت کے ذریعے ادب کا رشتہ زندگی سے استوار ہوتا ہے۔ مجلاتی صحافت میں اگر ابتدائی عہد کی بات کریں تو  پتہ چلتا ہے کہ اولاً ادب اور صحافت میں کوئی حد فاصل نہیں تھا بلکہ ادب کے ساتھ ہی صحافت کا نام لیا جاتا تھا۔مگر موجودہ عہد میں صحافت اور ادب کی سرحدیں جداگانہ ہی نہیں ان میں ایک واضح اور نمایاں فرق ہے ۔ آج ادب کچھ اور ہے۔  اور صحافت با لکل ہی الگ صنف اور شعبے کی حیثیت حاصل کر چکی ہے

             رسائل وجرائد کے موجودہ منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو اس میں  خوشگوار اضافے دیکھنے کو ملیں گے۔ اردو میں اب ہر طرح کے رسائل دستیاب ہیں ۔ اب تو موضوعاتی سطح پر بھی مختلف اداروں سے نکلنے والے رسائل کا جائزہ لیں تب بھی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے ۔ادبی، سیاسی ، تہذیبی، تعلیمی ، مذہبی اور تفریحی ہر طرح کے اردو رسائل بازار میں  موجود ہیں اور قارئین کا ایک بڑا حلقہ ہےجو اپنی اپنی پسند کے اعتبار سے ان رسالوں کو پڑھتا ہے۔ مذہبی رسائل کے حوالے سے ان دنوں ایک خوشگوا ر اضا فہ یہ ہوا ہے کہ پہلے عام طور پر اسے قدامت پسند کہا جاتا تھا اور ان پر تبصرے اور تجزیے بھی نہیں ہوتے تھے۔ لیکن اب ضرورت ہے کہ جس طرح وہ وقت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اپنے مواد اور معیار میں تبدیلیاں لا رہے ہیں، انھیں بھی اس منظر نامے  میں جگہ ملنی چاہیے۔

            مثال میں دہلی سے نکلنے والا رسالہ ’’ جام نور ‘‘ کو دیکھیں ۔ ظاہری ساخت اور نوعیت کے اعتبار سے  یہ ایک مذہبی رسالے میں شمار کیا جاتا ہے مگر ایسا کہنا قطعی درست نہیں ہے کیونکہ اس رسالے کے مشمولات کو دیکھیں تو ان میں حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی موجود ہے اور مختلف دانشوروں کے خیالات بھی ہوتے ہیں ۔ یہاں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ دانشور صرف مذہبی حلقے کے ہی ہوں ۔ بلکہ اس بات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ اس میدان کے ماہرین کی رائے شامل کی جائے۔ اس کے مدیر اعلیٰ خوشتر نورانی ہیں جو نئی فکر کے حامل ہیں اور دینی تعلیم سے مزین بھی ہیں ۔ اس کی تصدیق ان کے اداریوں کو پڑھ کر کی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں دینی اعتبار سے بین الاقوامی سطح پر جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی تفصیلات بھی اس رسالے میں موجود ہوتی ہیں۔ا ور اس ادارے نے کئی خصوصی نمبر بھی شائع کیے جن میں دینی مباحث کو نئے منظر نامے میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ ایک بڑی بات ہے کے اس طرح کے رسالوں نے اپنا کینواس کافی وسیع کیا ہے۔یقیناً یہ رسائل آنے والے دنوں میں مشعل راہ ثابت ہوں گے۔

کسی تنظیم کا تنظیمی ڈھانچہ ہے … کیا؟ تنظیمی اکائیوں کے ناموں کے ساتھ چوکوں کا ایک آریھ ، جس کو ایک خاص ترتیب سے ترتیب دیا گیا ہے

عام طور پر اوسط فرد کے ذریعہ یہ قبول کیا جاتا ہے کہ تنظیمی ڈھانچہ ایک قسم کا نظریاتی تصور ہے جس کا واقعتا آپریٹنگ تنظیم سے بہت ہی معمولی تعلق ہے۔مزید یہ کہ ، کچھ موجودہ کاروباری اداروں میں ، جب وہ معاشی سرگرمیاں کرتے ہیں تو تنظیمی ڈھانچے سے بہت کم اہمیت پائی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ، محکموں کے سربراہان کے مابین مبہم افعال اور ذمہ داریاں ، محکوم افراتفری کا نظام ، کام میں ہم آہنگی کا فقدان اور کسی بھی کاروبار کے مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے کے ل tasks کاموں کا نفاذ – منافع کمانا ہے۔

کسی تنظیم کی مالی حالت کا تجزیہ ٹھیک اس کے تنظیمی ڈھانچے کے مطالعہ کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ کون اس کی ضرورت ہے؟ کمپنی کے بیرونی ماحول کے نمائندے۔ قرض دہندگان ، سرمایہ کار ، سپلائی کنندگان ، خریدار اور صارف ، ان سب کو پارٹنر کمپنی کی منطق کو واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ داخلی ماحول کے نمائندے۔ براہ راست انٹرپرائز کے ملازمین کو ، جن کو یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ ساتھیوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرتے ہیں ، کس کے پاس وہ اطلاع دیتے ہیں ، اور ذمہ داریوں کا کس حصہ کو تفویض کیا جاسکتا ہے۔ تمام ملازمین کے گروپوں کا سیٹ تنظیم کے اہلکاروں کا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے

لکیری ساخت

تنظیمی ڈھانچے کی لکیری قسم کی خصوصیت اس حقیقت کی خصوصیت سے ہے کہ تنظیم کے ہر حص divisionے کو ایک رہنما کے زیر کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے جو کسی اعلی قائد کو اطلاع دیتا ہے ، وغیرہ۔ اس قسم نے اس کی افادیت کا پتہ لگادیا ہے ، چونکہ یہ لچکدار نہیں ہے ، معاشی تبدیلیوں اور جدید حالات میں کمپنی کی ترقی میں موافقت میں معاون نہیں ہے۔ قائد کو لازمی طور پر مختلف علاقوں میں تشریف لانے کے قابل ہونا چاہئے ، تنظیم کی ہر خدمات کو آرڈر دینے کے لئے واقعتا broad ایک وسیع البنیاد ماہر بننا چاہئے۔ اگرچہ لکیری قسم کے اہم فوائد میں سے ، کوئی بھی اپنی سادگی ، انٹرپرائز ڈویژنوں اور ان کے افعال کے باہمی تعلقات کی وضاحت کو واضح کرسکتا ہے۔

فوج کی مثال پر تنظیم کا لکیری ڈھانچہ

تنظیمی ڈھانچے کی لکیری شکل کو نمایاں کرنے کی سب سے حیرت انگیز مثال فوج ہے ، جہاں جیسا کہ جانا جاتا ہے ، جونیئر کے ماتحت تنظیم کی تنظیم کی ایک واضح اسکیم انچارج ہے۔

فنکشنل ڈھانچہ

فعال تنظیمی ڈھانچہ الگ خدمات (مثلا example سیلز ڈیپارٹمنٹ ، ہیومن ریسورس ، اکاؤنٹنگ ، پروڈکشن اینڈ ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ ، وغیرہ) کی تنظیم میں موجودگی کو فرض کرتا ہے ، جن میں سے ہر ایک کے اہلکار ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں ، اور نہ صرف مینجر کے ساتھ۔ یہ چیف ایگزیکٹو آفیسر سے زیادہ تر بوجھ کو دور کرتا ہے ، وسیع پروفائل ماہرین کی تلاش کے مسئلے کو دور کرتا ہے ، جو اس ڈھانچے کے فوائد ہیں۔ ماہرین کے محکموں میں ان کے مخصوص شعبے میں موجودگی مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے میں معاون ہے۔ بہر حال ، ایک فعال تنظیمی ڈھانچے کا استعمال انٹرا فرم مواصلات کو پیچیدہ بناتا ہے اور کچھ خدمات کے ملازمین کی ذمہ داری دوسروں کے ملازمین پر منتقل کرنے کے رجحان کے فروغ میں معاون ہوتا ہے۔کے مابین تعلقات کو ظاہر کرتا ہے۔لہذا ، مثال کے طور پر ، محکمہ ٹرانسپورٹ مالیاتی خدمات کے محکموں کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کے عمل میں بات کرتا ہے: ایندھن اور چکنا کرنے والے سامان کی کھپت کے لئے اکاؤنٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ، شپنگ دستاویزات جاری کرنے اور راستے کو مربوط کرنے کے لئے محکمہ فروخت کے ساتھ ، خام مال کے گودام اور ان کے درمیان نقل و حمل کے لئے بنیادی پیداوار کے ساتھ دکانوں کی فرش کی ضرورتوں کے لئے مواد ، وغیرہ۔ یہ ہے کہ ، محکمے ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں ، لیکن ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہیں۔

ڈویژنل ڈھانچہ

ڈویژنل ڈھانچہ اس میں مختلف ہے کہ ڈویژنوں کو کچھ معیار کے مطابق گروپ کیا گیا ہے: مصنوعات کی اقسام کے ذریعہ ، علاقوں کے لحاظ سے ، صارفین کے گروپوں کے ذریعہ۔ اس ماڈل کے استعمال کے مثبت پہلوؤں میں فرم کے وجود کے بیرونی ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے ل responsive ایک اعلی سطح کی ردعمل اور موافقت ، ایک حصے میں پیداواری عمل میں شریک ہونے والے تمام افراد کی واقفیت کی وجہ سے اعلی معیار اور مسابقت کی ایک مصنوعات کی رہائی ہے۔ ڈھانچے کے من minوں میں ، اس طرح کے منفی مظاہر کو نوٹ کرنا ضروری ہے جیسے تقسیم اور انتظام کے فرائض کی نقل ، محکومیت کی دوائی کے سبب تنازعات میں اضافہ ، عام طور پر ڈویژنوں کے انتظام کی پیچیدگی

مشترکہ ڈھانچہ

تنظیم کے مشترکہ تنظیمی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیت مندرجہ بالا کئی اقسام کا مجموعہ ہے۔ اس میں لائن مینجمنٹ ، فنکشنل ریلیشنس ، منتخب کردہ معیار کے مطابق خدمات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ محکومیت کے دوہری اصول کی بھی خصوصیات ہیں۔ مشترکہ تنظیمی ڈھانچہ داخلی اور بیرونی ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے ل the انٹرپرائز کی لچک اور اس کے حساسیت میں اضافہ ممکن بناتا ہے۔ مشترکہ ڈھانچے کے فوائد اور نقصانات اسی طرح کے ڈھانچے کے جیسے ہیں۔

پچھلی صدی کے آغاز سے ہی قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کا عمل شروع ہوا، اور ہوتے ہوتے پوری دنیا پر پھیل گیا۔ اس ضمن میں حکومتی ادارے دھڑا دھڑ تشکیل پاتے گئے اور آج کل یہ حال ہے کہ ملکی اخراجات کا بیشتر حصہ ترقی و بہبود کی بجائے انتظامی و دفاعی امور پر خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے سیکورٹی سٹیٹ میں تو پہلے ہی بجٹ کا اکثریتی حجم دفاع اور اس سے ملحقہ اہلکاروں کی نذر ہوجاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی جو بجٹ باقی رہ جاتا ہے، اس کا معتد بہٖ حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ان کے متفرق اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔ 2019-20ء کے قومی بجٹ میں حکومتی اور انتظامی اخراجات کی مد میں تقریباً 22 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں سے تقریباً 15 کھرب روپیہ فوجی اہلکاروں کی تنخواہوں، پنشن اور متفرق اخراجات کی مد میں ہے، جب کہ تقریباً 7 کھرب سول حکومت کے اداروں کے اہلکاروں کی تنخواہوں اور پنشن وغیرہ میں خرچ ہونا ہے۔ یہ اس حقیقت کے علی الرغم ہے کہ سول حکومت کا اکثریتی تنخواہ دار طبقہ صوبائی حکومتوں سے تنخواہ پاتا ہے۔ امسال ہمارے صوبائی بجٹ میں 3 کھرب سے زاید روپیہ لاکھوں ملازمین کی تنخواہوں پر صرف ہونا ہے جب کہ محض 1.5 کھرب پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام یعنی کہ ترقیاتی پراجیکٹس کے لیے مختص ہے۔ اس تناسب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی بڑی رقم سرکاری اہلکاروں اور ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں عوامی ٹیکس آمدن سے صرف کی جاتی ہے، اور کتنی بڑی تعداد جوکہ لاکھوں میں ہے، سرکاری ملازمتوں کو چمٹے ہوئے ہیں۔

لیکن اگر کارکردگی کا ملاحظہ کیا جائے، تو نمونے کے لیے بھی کوئی ادارہ نہ ملے گا جس میں سرکاری ملازمین وقت کی پابندی اور حوالہ شدہ کاموں میں فرض شناسی کا ثبوت دیتا ہوا ملے۔ حالاں کہ ان سرکاری اہلکاروں اور ملازمین کی اللہ کے ہاں جواب دہی اور آخرت کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف پر ہی منحصر ہے۔ ان سرکاری ملازمین کا خیال ہوتا ہے کہ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ٹائم پاس کرتے رہنے سے وہ کوئی اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں، جب کہ حقیقتاً یہی لوگ جہنم میں اپنے جانے کا سامان کررہے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے، ”جو شخص مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار بنایا جائے، پھر نہ تو وہ ان کے لیے دوڑ دھوپ کرے اور نہ ان کی خیرخواہی کرے، تو وہ ان مسلمانوں کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔“ (صحیح مسلم)

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ بدترین اہلکار حطمہ ہے جس کا مطلب ہے ایسا سنگ دل اور حقوق پامال کرنے والا اہلکار جو درشت مزاجی اور تند خوئی کا مظاہرہ کرے۔

اس ضمن میں نبی کریمؐ سے ایک دعا منقول ہے، اے اللہ! جو شخص میری امت کے لوگوں کے کسی معاملہ کا ذمہ دار بنایا جائے، اور وہ ان کو مشقت میں ڈالے، توتُو بھی اسے مشقت میں ڈال، اور جو اُن کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے، تو تُو بھی ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما۔

ایک اور روایت میں عوام کی بدخواہی اور حق تلفی کو ایسا جرم بتایاگیا ہے، جو قیامت کے روز اہلکار کو جنت سے محروم کرنے اور اللہ کے غضب کا مستحق قراردینے کے لیے کافی ہے۔

سرکاری ملازمتوں اور ذمہ داریوں کی اسی نزاکت اور گراں باری کے پیشِ نظر اسلام ان لوگوں کو مناصب سے دور رہنے کی ترغیب دیتا ہے، جو اپنے اندر اس کو بوجھ اٹھانے اور ذمہ داریاں پورے کرنے کی کما حقہ صلاحیت نہ پاتے ہوں۔ جب کہ آج کل یہ عالم ہے کہ لوگ سرکاری نوکریوں کے لیے اس وجہ سے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کہ اس میں پھر زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا، اور ایک مرتبہ نوکری مل گئی تو بس پھر مل گئی۔ زیادہ سے زیادہ تبادلہ ہی ہونا ہوتا ہے۔

سوال

 ڈارک روم سے کیا مراد ہے نیز تصویروں کی تدوین کے مختلف پہلو بیان کریں

 جواب۔

ڈارک روم ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے عمل کا ایک مجموعہ ہے جس میں ڈیجیٹل فوٹو گرافی میں استعمال ہونے والی مختلف تکنیکوں کا بھی ساتھ ہے۔ یہ فلم میں ہونے والی تمام تر نشوونما اور اس سے وابستہ سرگرمیوں کی جگہ کمپیوٹر پر ان سرگرمیوں کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈیجیٹل ڈارک روم میں استعمال ہونے والے سافٹ ویر ٹولز انتہائی نفیس ہیں اور اعلی معیار کی پیداوار تیار کرتے ہیں ڈارک روم کی وضاحت کرتا ہے

ایک ڈیجیٹل ڈارک روم ، جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے ، بنیادی طور پر تصویر میں ترمیم کرنے کے لئے ایک ڈیجیٹل دنیا ہے۔ یہاں ، “تاریک روم” کی اصطلاح استعمال کرنے سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ پرانی ڈارک روم پرنٹ کرنے کی سرگرمیاں ڈیجیٹل طور پر تبدیل کردی گئیں ہیں۔ اس سے قبل فلم پر مبنی ڈارک رومز میں ، فصلوں کو بڑھانا ، ڈوجنگ اور جلانے جیسی سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ ایک جدید ڈیجیٹل ڈارک روم میں ، ان سرگرمیوں کی جگہ کمپیوٹر ، ڈارک روم سافٹ ویئر ، مانیٹر اور پرنٹرز لے رہے ہیں۔

بعض اوقات چھپائی بہتر نتائج کے ل a پیشہ ور لیب میں کی جاتی ہے۔ کچھ اعلی کے آخر میں پرنٹرز بھی بنیادی تصویری ترمیم کے لئے پہلے سے نصب سافٹ ویئر کے ساتھ آتے ہیں۔ ڈیجیٹل ڈارک روم کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کا ماحول ضرورت اور بجٹ پر منحصر ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل ڈارک روم میں استعمال ہونے والا عام سافٹ وئیر امیج کے حصول ، امیج ایڈیٹنگ ، کیمرہ کنٹرول اور امیج لائبریری مینجمنٹ کے لئے ہے۔ ہارڈ ویئر کی طرف ، کمپیوٹر ، کیمرے ، سکینر اور پرنٹرز استعمال کیے جاتے ہیں۔

ڈیجیٹل تاریک روم سافٹ ویئر ڈیجیٹل تصاویر کے ساتھ تاریک روم کی تکنیکوں کی سماعت کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے. یہ سافٹ ویئر اعلی درجے کی شوقیہ، ٹھیک آرٹ، اور پیشہ ور فوٹوگرافروں کے لئے جدید ترین اوزار پیش کرتا ہے. یہ عام طور پر پینٹنگ، ڈرائنگ، اور پکسل سطح کے ترمیم کے اوزار نہیں ہے جو عام طور پر تصویر تصویر ایڈیٹر ہوگا، اور آپ کی تصاویر منظم کرنے اور شائع کرنے کیلئے خصوصیات پیش نہیں کرسکتے ہیں. کچھ لوگ فوٹوشاپشاپ جیسے دوسرے سافٹ ویئر پر پلگ ان ہیں، اور زیادہ تر خام کیمرے فائل کی حمایت بھی شامل ہیں.

ڈی ایکس او آپٹکس پرو خود بخود خام اور JPEG تصاویر کو سینکڑوں کیمرے سینسر اور لینس کے مجموعے کے تفصیلی تجزیہ کی بنیاد پر درست کرتا ہے. DXO آپٹکس پرو ذہنی طور پر مسخ، وینٹنگ، لینس نرمی، کرومیٹک اذیت، کلیسٹسٹنگ، شور ہٹانے، دھول ہٹانے، سفید توازن، نمائش، برعکس، اور زیادہ کو درست کرتا ہے. DXO آپٹکس پرو خود بخود ایک سے زیادہ تصاویر پروسیسنگ متاثر کن نتائج بیچ پیدا کرتا ہے، بلکہ تخلیقی کنٹرول کے لئے دستی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دیتا ہے. ڈی ایکس او آپٹکس پرو ایڈوڈ لائٹ روموم کے ساتھ ساتھ کام کر سکتے ہیں اور ایک تفصیلی دستاویز دستیاب ہے کہ دونوں پروگراموں کو کیسے مل کر استعمال کیا جائے. DXO آپٹکس پرو بہت پیچیدہ نہیں ہے، لیکن اچھی طرح سے تحریری صارف گائیڈ آپ کو اس میں سے سب سے زیادہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی. ڈی ایکس او آپٹکس پرو معیاری اور ایلیٹ ورژن میں دستیاب ہے، معیاری ورژن میں شامل ہونے والے سامان کے مجموعوں کے علاوہ ایلیٹ ورژن اعلی اعلی کے آخر میں کیمروں کی حمایت کرتے ہیں.

1 comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *