Warning: Undefined array key "options" in /home/u317135055/domains/aioulearning.com/public_html/wp-content/plugins/elementor-pro/modules/theme-builder/widgets/site-logo.php on line 192
AIOU Course Code 9255-1 Solved Assignment Autumn 2021 - AIOU Learning

AIOU Course Code 9255-1 Solved Assignment Autumn 2021

9255 1

9255 کورس میگزین جرنلزم

پروگرام  بی ایس ماس کمیونیکیشن

1 مشق

 

سوال

تدوین سے کیا مراد ہے ۔ تدوین کا طریقہ کار تفصیلا بیان کریں

 

“تدوین “کا لفظ بھی عربی زبان سے لیا گیا ہے۔نورُ اللغات کے مؤلف ،نور الحسن نیئر کے مطابق تدوین ’’جمع کرنا‘‘یا ‘‘ مرتب کرنا‘‘کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح شان الحق حقی ،فرہنگ تلفظ میں تدوین کے معانی “منتشر اجزا کو یک جا کرنا‘‘ ’’مرتب کرنا‘‘ یا ’’تالیف و ترتیب ” بتاتے ہیں۔ اصطلاح میں “تدوین متن ‘‘کے معانی کسی بھی مصنف کی تصنیف کو اصل حالت لانے کے ہیں۔

مصنف اپنی کتاب کی کتابت خود نہیں کرتا اس لیے بعض اوقات کاتبین اپنی بساط اور سمجھ کے مطابق کتابت کرتے ہوئے غیر دانستہ طور پر کچھ غلطیاں بھی کر جاتے ہیں۔اس کے علاوہ مرور زمانہ کے ساتھ جب کتاب کے کئی ایڈیشنز شائع ہو جاتے ہیں تو ہر دفعہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہوتے ہوتے کتاب میں بے شمار اغلاط جمع ہو جاتی ہیں۔متن میں جملے اور الفاظ میں رد و بدل ہو جاتا ہے ،بعض اوقات ناشر بھی اس میں اپنی سمجھ یا سہولت کے پیش نظر تبدیلی کر دیتا ہے۔

اصطلاح ترتیب متن ہے،دونوں قریب المعنی با ترتیب کے معنی کسی شے کے اجزا کومناسب تقویم وتاخیرسے رکھنا ہے۔تدوین کے معنی متفرق اجزا کو اکٹھا کر کے ان کی شیرازہ بندی کرنا ہے۔۔۔

ترتیب ایک عام لفظ ہے اور تدوین کا تعلق کتابوں

سے ہے۔تدوین کے بارے میں ماہرین کی راے یہ ہے کہ تدوین کوئی علاحدہ علم نہیں ہے بل کہ در حقیقیت یہ “تحقیق “بی کی ایک شاخ ہے اور مدون وہی اچھا ہو گا جو قابل محقق ہو گا۔جو

کسی مٖصنف کی کتاب کو ترتیب دینا، کسی کتاب کو حواشی کے ساتھ نئے سرے سے شائع کرنا، ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی نسخے کی تلاش کے بعد اسے شائع کرنا تاکہ عوام الناس کو اس سے نفع اور فائدہ پہنچے اس عمل کو تدوین متن کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ متن کیا ہے۔ اس کا تعین کیسے کیا جائے۔ متن اصل حقیقت ہے اسے بنیاد بنا کے تدوین کے عمل کو بروئے کار لایا جائے گا۔ انگریزی میں اس کے لیے ٹیکسٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے متن شاعر/مصنف/ادیب وغیرہ کے اصل الفاظ ہیں۔

اصل عبارت ہوتی ہے۔ اگر اس عبارت پر کوئی تبصرہ کیا جاتا ہییا حواشی دیے جاتے ہیں تو وہ اضافی عبارت ہو گی متن نہیں ہو گی۔ متن صرف ان الفاظ اور عبارت کو ہی کہیں گے جو مصنف کی منشا کے مطابق ہوں۔ مصنف جو لکھنا چاہتا تھا۔ اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری جو انجمن ترقی اردو بورڈ کے تحت بابائے اردو مولوی عبدا لحق نے مرتب کا اس میں متن کے معانی کچھ اس طرح دیے گئے ہیں

” ( 1 ) مصنف کے اصل الفاظ، کتاب کی اصل عبارت (شرح وغیرہ سے قطع نظر کر کے )

( 2 ) کتاب الہی (انجیل وغیرہ) کی آیات یا آیات جو کسی وعظ یا مقالے کے موضوع یا سند کے طور پر استعمال کی جائیں

( 3 ) متن (کتاب کا مضمون حواشی، تصاویر وغیرہ سے قطع نظر کر کے”

”تدوین کے لیے وہ تحریر جسے کوئی ترتیب دینا چاہے“ متن کہلائے گی۔  القاموس الوحید کے مطابق متن کے معنی ہیں کمر، پیٹھ، دو ستونوں کے درمیان کا حصہ، کتاب کی اصل عبارت، جس پر حاشیہ چڑھایا جاتا ہے اور اس کی شرح کی جاتی ہے، کمر کو دونوں طرف سے گھیرے ہوئے پٹھے اور گوشت المنجد کے مطابق متن کے معنی ہیں پیٹھ، چیز کا ظاہری حصہ، کتاب کی اصل عبارت بغیر شرح اور حاشیہ کے، دو دروں کے درمیان کا راستہ, ”فرہنگ عامرہ کے مطابق متن کے معنی ہیں کتاب کے صفحہ کی درمیانی عبارت“ علمی اردو لغت کے مطابق متن کے معنی ہیں ”کتاب کی اصل عبارت، کتاب، کپڑے یاسڑک کے بیچ کا حصہ، درمیان.

گیان چند جین اپنی کتاب تحقیق کا فن میں لکھتے ہیں

”متن اس تحریر کو کہتے ہیں جسے کوئی محقق ترتیب دینا چاہتا ہے، وہ تحلیق نظم و نثر ہو یا غیر تخلیقی مثلاً کوئی تذکرہ یا انشا کی دریائے لطافت یا گلکرسٹ کا رسالہ قواعد“

متن ایس عبارت جسے کوئی تحقیق کرنے والا ترتیب دیتا ہے چاہے وہ منظوم صورت میں ہو یا نثری صورت میں۔ چاہے تخلیقی ہو یا غیر تخلیقی۔ متن ہم ایسی عبارت کو کہیں گے جو لکھی گئی ہو جس کو پڑھا جا سکے اور جس کو سمجھا جا سکے۔ اسی عبارت متن کے زمرے میں شمار نہیں ہو گی جس کی قرات ہی ممکن نہ ہو اور نہ ہی اس کی تفہیم ہو سکتی ہو۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے مطابق ”متن کسی ایسی عبارت“ تحریر ”یا نقوش کو کہتے ہیں، جن کی قرات یا معنوی تفہیم ممکن ہو۔“ ڈاکٹر محمد خان اشرف کے مطابق ”متن کتاب کی اصل عبارت، کتاب کے صفحہ پر حوض کی عبارت، کسی ایسی زبان میں لکھی گئی تحریر یا دستاویز جس سے محقق یا مدون واقف ہے، جسے وہ سمجھتاہے، اور جسے وہ ترتیب دینا یا اس کی تدویکرنا چاہتا ہے مصنف /شاعر کی اپنی اصل عبارت/تحری “

متن ایسی تحریر کو کہتے ہیں جو کسی زبان میں لکھی گئی ہو، جانے والا چاہے اس زبان کو زیادہ جانتا ہے یا کم جانتا ہے اور جو عبارت یا تحریر لکھی گئی ہے اس کا مفہوم و مطلب بھی ہوتا ہے۔ جب قاری اس کو پڑھے گا تو کوئی معنی اس سے اخذ کر ے گا۔ چاہے وہ اس کا حقیقی مطلب و معنی ہو یا غیر حقیقی جو اس نے سمجھ لیا ہو گا۔ متن کے لیے جو اہم شرط ہے وہ یہی ہے کہ وہ تحریری شکل میں ہونا چاہیے۔ اور اس کی قرات اور تفہیم بھی ممکن ہو۔

ڈاکٹر خلیق انجم کے متن کے حوالہ سے اپنی کتاب ”اصول تحقیق و ترتیب متن“ میں یوں رقم طراز ہیں

” ( 1 ) متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریر ہو۔

( 2 ) متن ایسی تحریر ہے جو کاغذ پر مطبوعہ یا غیر مطبوعہ، مختلف دھاتوں کے ٹکڑوں، مٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوحوں، پتوں، پتھروں، یا چمڑوں یا چٹانوں وغیرہ کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے۔

( 3 ) متن نظم بھی ہو سکتا ہے اور نثر بھی

( 4 ) متن ہزاروں سال قدیم بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے عہد کے کسی مصنف کی تحریر بھی۔ اس کے لیے زمانے اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔

( 5 ) ہزاروں صفحوں پر پھیلی ہوئی ہو یا ایک صفحے کی مختصر سی تحریر، دونوں متن ہو سکتے ہیں۔

( 6 ) متن کے لیے ضروری ہے کہ بامعنی ہواگر سینکڑوں کے عرصے میں نقل در نقل کی وجہ سے متن مسخ ہو گیا ہو تو اس کے اصل الفاظ کا تعین کیا جاسکے۔

سوال

جرائد کے سرورق کے لیے مواد کا انتخاب کن چیزوں سے کیا جاتا ہے تفصیلا بیان کریں

 

مقتدرہ کو قومی زبان کے تعلق سے قوم کی دلچسپی کا مکمل احساس ہے۔ اسی احساس کے فروغ کے لیے مقتدرہ نے جولائی ۱۹۸۱ء سے مقتدرہ کا ماہانہ رسالہ ’’اخبار اردو‘‘ کا اجراء کیا۔مقتدرہ کا مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے قوم کے سامنے مقتدرہ کی کارگزاریوں اور نتائج کو لایا جائے۔

جولائی ۲۰۱۱ء میں اس بات کو ۳۰ برس کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ’’اخبار اردو‘‘ کا سرورق اس کا چہرہ ہے۔ کسی بھی کتاب یا رسالے کا سرورق بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں سے ہی آنکھوں سے دلوں تک رسائی ہوتی ہے۔

آغاز جولائی ۱۹۸۱ء سے اب تک یہ شمارہ صرف ایک چھوٹے سے تعطل کے ساتھ (مئی ۱۹۸۳ء سے دسمبر۱۹۸۳ء) مسلسل اردو زبان کی خدمات پر مامور ہے۔ یہ تعطل بھی صرف مقتدرہ کے دفتر کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کا دورانیہ ہے۔

پہلا شمارہ قومی رنگ’’ سبز‘‘ سے مزین تھا اور اس پر سجا ہوا قائداعظمؒ کا فرمان :

’’میں واضح الفاظ میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی۔ جو شخص آپ کو اس سلسلہ میں غلط راستہ پر ڈالنے کی کوشش کرے۔ وہ پاکستان کا پکادشمن ہے۔ ایک مشترک قومی زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد ہو سکتی ہے اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے‘‘۔

(جلسہ عام سے خطاب،ڈھاکہ ۲۱ مارچ ۱۹۴۸ء)

اس پر نظر آتاہے۔ اسی فرمان نے آنے والے سالوں میں مقتدرہ اور اخبار اردو میں ایک خاص مقام پا لیا۔ اس فرمان کے ساتھ ہی مقتدرہ قومی زبان کے مقاصد کو سرورق پر نمایا ں طور پر پیش کیا گیا۔

۔۔۔مقتدرہ کے سامنے قومی زبان کی حیثیت سے اردو کی ہمہ جہت ترقی، توسیع اور قومی زندگی کے تمام سرکاری اور نجی شعبوں میں اس کے پہلے شمارے سے اب تک ہر شمارے جلد(نمبر) اور شمارہ(نمبر) بھی لکھے نظر آتے رہے۔

عمل و نفاذ کا ایک عظیم الشان نصب العین ہے :

* اس کی کوشش ہے کہ قومی زبان کے نفاذ اور ترویج میں حائل موانع اور مشکلات کو دور کر کے قومی ترقی اور قومی یکجہتی کی راہ ہموار کی جائے۔

* قومی زبان کے ہر شعبے میں جہاں جہاں انگریزی زبان کا عمل دخل ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اردو کو جلد از جلد رائج کیا جائے۔

* مقتدرہ کو ان کاموں میں قوم کے حساس اور باشعور طبقے کا تعاون ہمیشہ درکار رہے گا۔

دوسرا شمارہ اگست ۱۹۸۱ء میں سفید رنگ کا سرورق لے کر آیا۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جو کہ مقتدرہ کے پہلے صدر نشین بھی تھے ، انھوں نے پہلے شمارہ میں مضمون’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ لکھا :

’’جناب صدر نے نظام زندگی میں قومی زبان کی اہمیت اور اس کی ترویج کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا۔ ان کی حکومت کے باشعور طبقے کویقین ہو چلا ہے کہ قومی زندگی کے تمام گوشوں میں اردو زبان کے نفاذ اور رواج کے بغیر ہم اپنا قومی تشخص منوا نہیں سکتے اور اہل وطن میں فکر و نظر کی ہم آہنگی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک قومی زبان کو ہر شعبہ زندگی میں رائج نہ کر دیا جائے‘‘۔

جلد:۱ شمارہ:۱، جولائی ۱۹۷۱ء

اکتوبر ۱۹۸۱ء میں اخبار اردو کو سبز اور سفید دونوں رنگوں کے اشتراک سے پاکستانی ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ میر رسول بخش تالپور کا بیان سرورق کی زینت بنا۔ مختلف اہل علم کے خوبصورت اقوال بھی جگہ پاتے ہیں مثلاً جنوری میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، فروری میں جسٹس ایس اے رحمان اور مارچ میں ڈاکٹر سید عبداللہ کے درج ذیل الفاظ شائع ہوئے۔

’’انگریزی کا بے جا غلبہ ہماری ملی حمیت کی توہین ہے او ر عملی لحاظ سے تضیع اوقات اور قومی مصلحتوں کے لیے بے حد خطرناک اور افسوسناک ہے ‘‘

اخبار اردو دھیرے دھیرے اپنے سفرکی طرف گامزن رہا اور ۱۹۸۳ء کے پہلے شمارے کو ہی خاص نمبر کے طور پر متعارف کرایا۔ یہ خاص نمبر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی خدمات، محنت ، لگن اور خلوص کے اعزاز کے طور پر شائع کر کے ایک بہت اہم فریضہ سر انجام دیا گیا اور سرورق پر ڈاکٹر صاحب کی تصویر جلوہ گر رہی اور ان کا خوبصورت خطبہ سرورق کی زینت بنا۔

’’قومی زبان کو قومی زندگی میں صحیح مقام حاصل ہوئے بغیر قومی یگانگت پیدا نہیں ہو سکتی۔ نہ قوم کے دماغوں سے احساس کمتری دور ہو سکتا ہے۔ نہ خود اعتمادی پیدا ہو سکتی ہے۔ نہ ملک اور قوم مستحکم ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

نئے پڑھنے والوں کو ان کے اسی بیان سے ان کی بصیرت ، آگہی اور جذبہ بیداری کا احساس ہو سکتاہے اور اخبار اردو کا یہ نہایت مستحسن قدم تھا کہ اُن کے رخصت ہونے کے دو سال پورے ہونے پر یہ خاص نمبر شائع کر کے گویا ان کا قومی زبان پر قرض چکانے میں حتی الوسع کردار ادا کیا۔اسی طرح فروری ۱۹۸۳ء میں مقاصد کے ساتھ ساتھ مولانا اشرف تھانوی کا خطاب شائع ہوا۔ مارچ ۱۹۸۳ء میں مولوی عبدالحق کے اردو سے محبت بھرے الفاظ سرورق پر جگمگاتے نظر آئے۔

اپریل ۱۹۸۳ء میں اخبار اردو نے ایک نئی روایت قائم

کی اور اشاعت خاص دے کر خصوصی شماروں کا جو آغاز کیا وہ آج تک قائم ہے۔

اپریل ۱۹۸۳ء میں جو کہ مقتدرہ کاکراچی میں قیام کا آخری شمارہ بھی ہے۔ یہ اشاعت خاص بہت اہم موضوع ’’پاکستان میں اردو تحقیق‘‘ لے کر آیا اور سرورق پر اس موضوع کے ساتھ پاکستان میں اردو تحقیق کے پینتیس سالہ مسائل اور تجاویز کے الفاظ نظر آئے جو کہ اردو محققین ، مبصرین ، نقادوں کے لیے ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہوا۔

۸ مہینے کے وقفے کے بعد اخبار اردو اپنے نئے دفتر اسلام آبادمیں منتقلی کے بعد شائع ہوا۔ اس دور میں ڈاکٹر وحید قریشی صدرنشین کے عہدے پر فائز تھے جن کی اردو کے حوالے سے گراں قدرخدمات ہیں۔ اس سال کے شمارے کا آغاز بھی سبز رنگ سے ہی کیا گیا۔ البتہ کسی کے قول یا خطبہ کی جگہ اندرونی صفحات میں شامل مضامین کے صاحب مضامین کے نام سرورق پر نظر آئے۔

جنوری۱۹۸۶ء میں اخبار اردو نے دوسرا خصوصی شمارہ جب کہ اسلام آباد سے پہلا خصوصی شمارہ شائع کیا۔اگست ۱۹۸۶ء میں خاص نمبر ’’سیمینار اصول تحقیق ‘‘ شائع ہوا او ر اہم مضامین کو سرورق پردکھایا گیا۔

۱۹۸۷ء میں سرورق کو رنگ کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ دائیں طرف گہرا سبز اور بائیں طرف ہلکا سبز۔

اسی طرح اگست میں ’’قومی یکجہتی نمبر‘‘ خصوصی شمارہ کے طور پر سامنے آیا۔

جنوری سے نومبر تک تقریباً یہی روایت رہی۔ نومبر میں ہی مقتدرہ میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی آمد ایک خوشگوار اضافہ تھا۔

دسمبر کا شمارہ اخبار اردو کی تاریخ کا سب سے منفرد شمارہ تھا کہ سرورق پر کچھ بھی نہیں لکھا گیا صرف سادہ صفحے پر اخبار اردو کے نمایاں الفاظ جگمگا رہے تھے۔

۱۹۸۹ء میں اخبار اردو کا سرورق ہلکے اور دیدہ زیب رنگوں کا مرکز رہا اور پورا سال سرورق میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ۔ ۱۹۸۸ء کی روش کو برقرار رکھتے ہوئے صاحب مضامین کے نام اپنے مضامین کے اہم نکات کے طو رپر سامنے آئے۔

نومبر ۱۹۸۹ء میں ساتواں خصوصی شمارہ’’سائنس نمبر‘‘ کے نام عوام تک پہنچا، جس کے ساتھ مقتدرہ نے اندرونی صفحات میں سائنس کی نئی مطبوعات کا تعارف دے کر سائنس سے دلچسپی رکھنے والوں کو دعوت مطالعہ دی۔

۱۹۹۰ء اخبار اردو کے لیے بہت اہم رہا کہ ایک سال میں چھ خصوصی نمبر شائع ہوئے۔ جنوری ۱۹۹۰ء میں ہی پہلا نمبر جو کہ سرورق پر ان الفاظ کے ساتھ نظر آیا۔ ’’اردو ہماری ضرورت ہے‘‘۔

فروری ’’اردو کمپیوٹر‘‘ کے نام سے کمپیوٹر کی تصویر کے ساتھ اور مارچ کا شمارہ ’’اردو عوامی رابطہ اور قومی یکجہتی‘‘ نمبر اور اپریل ’’اردو ذریعہ تعلیم‘‘ اور مئی ’’اردو اور علاقائی زبانوں کے لسانی و ثقافتی روابط‘‘ کے نام سے علاقائی زبانوں کے نقشے کے ساتھ سرورق پر نظر آیا اور اکتوبر نومبر کا مشترکہ شمارہ ’’بیرونی ممالک میں اردو (حصہ اول) کے طو ر پر منظر عام پر آیا۔ سرورق بھی چند شماروں میں حسب روایت اہم مضامین کے اہم نکات صاحب مضامین کے ناموں کے ساتھ قارئین کے سامنے آتے رہے۔

اکتوبر ۱۹۹۱ء میں ’’بیرونی ممالک میں اردو‘‘ حصہ دوم عالمی نقشے کی تصویر میں قومی زبان اردو کے الفاظ جگمگاتے نظر آئے۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء میں خصوصی شمارہ ’’اردو اصطلاحات سازی‘‘ کا شمارہ شائع ہوا اور مقتدرہ کی اصطلاحات سازی پر گرانقدر خدمات اہل زبان تک پہنچیں۔

۱۹۹۲ء میں وہی سرورق رہا اور وہی قائد کا فرمان ہر شمارے پر نظر آیا۔ صرف فرمان قائد کو گولائی میں پیش کر کے تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی لیکن ۱۹۹۲ء میں دو خصوصی شمارے منظر عام پر آئے۔

۱۹۹۷ء کی بہت خاص بات یہ رہی کہ مارچ ۱۹۹۷ء میں مقتدرہ اپنی عمارت میں منتقل ہو گیا اور مشکلات سے چھٹکارا پا لیا۔

ستمبر۱۹۹۷ء وہ پہلا شمارہ جو خصوصی اشاعت تھی جس میں بابائے قوم اور شاعر مشرق دونوں کی تصاویر اکٹھی نظر آئیں، اقبال کی غالباً یہ پہلی تصویر تھی جس نے سرورق پر جگہ پائی۔ بابائے قوم کی تصویر کے نیچے ان کا فرمان اور علامہ اقبال کی تصویر کے نیچے ان کی یہ خوبصورت شاعری :

یقیں مثلِ خلیل ؑ آتش نشینی

یقین اللہ مستی، خود گزینی

سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار !

غلامی سے بہتر ہے بے یقینی

صفحۂ زینت بنی اور کافی عرصے بعد سرورق میں تبدیلی آنکھوں کو بہت بھلی لگی اور مدیران کے نام بھی آخری صفحے پر منتقل ہو گئے۔

یہ سلسلہ اکتوبر ۱۹۹۷ء سے شروع ہوا اور جولائی ۱۹۹۸ء تک جاری رہا اور قارئین اردو کے حوالے سے دلچسپ خبریں سرورق پر ہی دیکھنے کو ملیں۔

۲۰۰۰ء بیسویں صدی کا آخری سال اور اخبار اردو کی لازوال کاوشیں، جنوری کا شمارہ پکڑا تو یوں لگا کہ ہاتھ میں کسی کا فوٹو البم آ گیا ہو۔ اتنی تصاویر ایک ہی سرورق پر۔ جب غور کیا تو لکھا ہوا نظر آیا۔ ’’بیسویں صدی میں اردو زبان و ادب کے معمار‘‘ اردو زبان و ادب کے وہ نمایاں ستارے جن کی لازوال خدمات تا حیات سنگ میل کا کام دیں گی۔ جنوری ۲۰۰۰ء سے جولائی ۲۰۰۰ء تک یہی سرورق رہا اور ۱۱۲ شخصیات سرورق پر جلوہ گر رہیں۔ جن میں علامہ اقبال، ڈاکٹر سید عبداللہ، حمید نظامی، فیض احمد فیض، سید امتیاز علی تاج، حالی، نذیر احمد، علامہ راشد الخیری، مولانا مودودی، اختر شیرانی، حجاب امتیاز علی، پطرس بخاری ، آزاد، شرر، سجاد حیدر یلدرم میرا جی، صوفی تبسم، نصیرالدین ہاشمی، احسان دانش، عابد علی عابد، قیوم نظر، خدیجہ مستور، شفیق الرحمن، غلام عباس، ناصر کاظمی، نصیر الدین ہاشمی، ابن انشاء، آغا حشر کاشمیری، سید ضمیر جعفری ، رضا ہمدانی اور عرش صدیقی جیسے نمایاں نام ان مہینوں میں سرورق کی زینت رہیں۔

۲۰۰۱ء اخبار اردو نے اکیسویں صدی میں قدم رکھا اور اسی سال میں مقتدرہ کے نئے صدرنشین پروفیسر فتح محمد ملک جیسے محنتی فرد کا اضافہ ہوا جو آٹھ سال تک اس منصب پر قائم رہے۔

پہلی بار صرف مقتدرہ کا مونوگرام نمایاں طور پر دکھایا گیا اور اس کے پس منظر میں ’’اردو ہماری قومی زبان ہے‘‘ کے الفاظ دہرائے گئے چونکہ مقتدرہ کا ترقیاتی منصوبہ’’مرکزفضیلت برائے اردو اطلاعیات‘‘ تھااور مقتدرہ اس سلسلے میں اردو میں کمپیوٹر کے استعمال کے لیے بہت سی کوششیں جاری رہیں۔ جن میں اردو ضابطہ تختی اردو بلاگ، اردو کلیدی تختہ اور ایسی بہت سی اور خدمات کے ساتھ مطبوعات بھی طبع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی سلسلے میں مارچ کا سرورق، اردو شاعری: انٹرنیٹ پر اور اپریل میں اردو اخبارات : انٹرنیٹ پر دکھا کر شائقین ادب کے لیے ایک اور دلچسپی قائم رکھی۔ مئی اور نومبر میں اقبال کے فرمان کے ساتھ تصویر اور جون اور دسمبر میں بابائے قائد اپنے فرمان کے ساتھ سرورق پر نظر آئے۔ یہ بیان پیش کیا۔

صرف اردو ہی ملک کی مشترکہ زبان بن سکتی ہے۔

قرار دادآل انڈیا مسلم لیگ ۱۹۱۴ء

جنوری ۲۰۰۹ء سے اب تک اخبار اردو نے نہایت کامیابی سے دو دہائیاں مکمل کیں۔ تیسری دہائی میں سرورق نے حرکت اور تبدیلی کا اصول اپنا لیا تاکہ دیکھنے والوں اور پڑھنے والوں پر اچھا تاثر بھی قائم ہو۔ آنے والے سالوں میں بابائے قوم کے فرامین اور تصویر جن سرورق پر نظر آئی وہ درج ذیل ہیں۔ اگست ، دسمبر (۲۰۰۲ء) ستمبر، دسمبر۲۰۰۴ء، اگست ، ستمبر ۲۰۰۵ء ، ستمبر ، دسمبر ۲۰۰۶ء، ستمبر دسمبر ۲۰۰۷ء، جون ، دسمبر ۲۰۰۸ء۔

سرورق پر قائد کے خوبصورت الفاظ بھی جگمگاتے رہے۔

اپریل مئی اخبار اردو کا خصوصی شمارہ ’’اردو کمپیوٹر سافٹ ویئر نمبر‘‘ کے عنوان سے آیا۔ گویا مقتدرہ جدید دنیا میں اردو کو متعارف کرانے میں اپنی صلاحیتیں ہر میدان میں دکھانے میں اپنی سعی مسلسل میں مصروف ہے۔

شاعر مشرق کے لیے بھی اپریل اور نومبر کا شمارہ مختص کر دیا گیا۔ شاعر مشرق اپنی خوبصورت شخصیت کے ساتھ اپریل ۲۰۰۲ء مارچ اپریل ۲۰۰۴ء ، اپریل نومبر ۲۰۰۵ء، نومبر ، اپریل ۲۰۰۴ء نومبر (۲۰۰۷، ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء) کے سرور ق پر اپنے خوبصورت فرامین یا پسندیدہ کلام کے ساتھ دکھائی دیے۔

اسی طرح اخبار اردو نے اس دہائی میں ان دو ہستیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قوم کے باشعور اور حساس طبقے کو تحریک پاکستان اور قومی زبان کی اہمیت سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

سوال۔

اداریوں کی خصوصیات اور محتلف اقسام بیان کریں

تعریف و بنیاد

خیالات احساسات اور علم و شعور کا اظہار زبان سے ہوتا ہے ۔ یہ ابلاغ کا پہلا وسیلہ ہے ۔ صحافت کا دارومدار ا سی وسیلے پر ہے۔ بہترین ابلاغ کے لیے ضروری ہے کہ زبان کو اس کے بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے۔ صحیح  مفہوم کے لیے صحیح لفظ اور صحیح  جملے کا استعمال صحافی تحریروں کی بنیادی کڑ ی ہے جس طرح ہر تحریر  ادب پارہ نہیں بن سکتی اسی طرح تحریر  صحافت کے زمرے میں نہیں آسکتی ۔ اگر چہ اخبارات اور رسائل میں ہر قسم کا مواد شائع ہوتا ہے لیکن اس میں سے ہر مواد کو ہم صحافتی مو انہیں ٹھہر ا سکتے۔

 صحافتی زبان مخصوص انداز کی حامل ہوتی ہے ۔ جب صحافی تحریر  کی بنیاد ہے گویا خبر یات ہے ہم آگے چل کر واقعیت کہیں گئے صحافت کی بنیاد ہے صحافتی زبان کی بھی یہی بنیاد ہے۔ اگر تحریر میں واقعیت موجود ہیں اور محض تخیلات اور تاثرات یا علمی فضائل کا اظہار کر رہی تو اسے ہم صحافی تحریر نہیں کر سکتے ۔ اسی طرح چونکہ صحافت کا تعلق عام قارئین سے ہوا ہے اس لیے اسے قسم کے ابہام تصنع اور بناوٹ سے پاک ہونا چاہیئے ۔ گویا ہم صحافتی زبان کی تعریف یوں کر سکتے ہیں ۔

“سلیس زبان میں ایسی تحریر پیش کرنا جو واقعیت مبنی ہو جو ہر قسم کے ابہام او تکرار لفظی سے پاک ہو اور جس میں انفرادی رائے کا اثر کا اظہار نہ کیا گیا ہو”

صحافتی زبان کی خصوصیات / صحافتی زبان کا اسلوب

جیسے ہر تحریر اپنے انداز سے پہچانی جاتی ہے اسی طرح صحافتی تحریر بھی اپنے اسلوب اور خصوصیات سے پہچانی جاتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں

1۔سلاست

صحافتی زبان سادہ اور سلیس ہوتی ہے۔ یہ عام قاری کو سامنے رکھ کر لکھی جاتی ہے۔ اس میں ادبی رنگ اورعلمی پیچیدگی نہیں ہوتی اور نہ ہی دفتری اور قانونی انداز سے لے لچک  اور صاف ہوتی ہے ۔ اگر چہ ابلاغ کا بنیادی وسیلہ زبان ہی ہے لیکن کمزور ترین وسیلہ بھی زبان ہی ٹھہری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظ ہمارے تجربات کا علامتی اظہار ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی فردا پنے کسی مشاہدہ / تجرے یاتعلیمی واردات کو کسی لفظ میں دوسرے کے سامنے پیش کرے تو جب تک دوسرا فرداس مشاہدے اور تجربے میں سے اسی شدت کے ساتھ نہ گزرا ہو تو وہ  لفظ کا وہی مفہوم نہیں سمجھ سکتا جو کہنے والے کے ذہن میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ علمی موشگافیوں اور تشریحات

کے اختلافات موجود ہیں چونکہ صحافت کی بنیادی تقاضا صحیح ترین اور موثر ترین ابلاغ ہے اس لیے صحافی کو وہی لفظ استعمال کرنا ہو گا جو عام  سطح پر ہو اور اس کا مفہوم عام آدمی کے مشترکہ تجربے  کی ملکیت ہوجسے ہر آدمی  سمجھ سکتا ہے۔ یہی سلاست سے پیش کرنا چاہیے کہ مفہوم اور قاری کے درمیان سڑھی کا کام دیں  پردہ نہ بنیں ۔ یہ نہ ہو کہ الفاظ قاری کی توجہ اپنی رنگینی کی طرف مبذول کر

لیں او ر مفہوم غائب ہوجائے۔

2۔ واقعیت

واقعہ باخبر صحافت کی بنیاد ہے۔ صحافتی زبان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ واقعی یا حقیقی امور پیش کرتی ہے اس کی تحریر تخیلات یا فرضی فضاوں سے متعلق نہیں ہوتی بلکہ سی واقعے کی صحت اور بے لاگ تبصرے معلومات نام اعدادو شمار اور انداز سے غرضیکہ ہرامر صحیح  اور واقعی انداز سے پیش کیا جاتا ہے ۔ حقائق کے بیان کا نام ہی واقعیت ہے۔

3۔معروضیت

صحافتی زبان غیر جاندارا نہ ہوتی ہے۔ اس میں کسی تاثر احساس یا جذبے کو شامل نہیں ہونا چا ہے۔ واقعات جیسے ہیں خبریں جس طرح کی ہیں انہیں اسی طرح انہیں اعدادوشمار کے ساتھ پیش کرنے کا نام معروفیت ہے۔ ذاتی خیال کی کیفیات ، تاثرات اور نجی رائے کو اس میں دخل نہیں ہوتا۔ اگر چہ اداریے اور تبصرے آراء مبنی ہوتے ہیں، لیکن ان پر بھی معروضیت کا اثر ہوتا ہے ۔  ان میں پیش کردہ آرا کسی فرد کی ذاتی نہیں بلکہ ایک اجتماعی نقط نظر لیے ہوتی ہیں لیکن ان میں رائے دیتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموی تا ثریا رائے کیا ہونی چاہئے اس کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں اخبار کی جھلک بھی ہوتی ہے۔ مگر یہ داخلی تاثر اور جذبوں سے عاری ہوتی ہے۔ پالیسی رائے عامہ ک ترجمان بھی ہوتی ہے اور اس کی تخلیق بھی چنانچہ اس کارو  یہ معروضی  ہوتا ہے۔

4۔ اجتماعیت

صحافتی زبان غیرشخصی اسلوب میں وجود میں آتی ہے۔ اگر چہ کسی زمانے شخصی صحافت کا دور دور رہا ہے لیکن اب صحافت ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس میں فرد کو غالب حیثیت حاصل نہیں ہوتی ۔ صحافی تحریریں  کئی لوگوں کی تیار کردہ ہوتی ہیں ۔ بہت سے دوسرے ان پر نظرثانی کرتے ہیں اور خبر کئی ہاتھوں سے اور کانٹ چھانٹ کے عمل سے گزرتی رہتی ہے چنانچہ اس میں انفرادیت کی بجائے ایک ادارے کا مکتب فکر کا اسلوب  شامل ہو جاتا ہے اور یوں اجتماعی  سامنے آتا ہے۔

5۔سطحیت

صحافی زیان ذود نویسی کی ایک اہم مثال ہے۔ صحافی کوروزانہ  یا فوری طور پر بہت کچھ لکھنا ہوتا ہے۔ دراصل ایسے الفاظ کے ذریعے  خبر اور اس پر  تبصرہ قاری تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کی بنائی ہوئی خبر کی تدوین بھی ہوتی ہے۔ وہ لکھنے کے لیے موزوں وقت اور طبیعت کی مرضی کا انتظار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ کسی گہرے فکری رنگ میں پیش نہیں کر سکتا۔ نیز صحافی کوکئی موضوعات پر لکھنا پڑتا ہے۔

سیاست اقتصادیات، معاشرت ،جرائم عدالتوں اور تقریبات کی خبریں تعلیم سے لے کر سائنسی موضوعات پر مضامین وغیرہ ظاہر ہے کہ و ہ کسی فن کے مخصوص اسلوب کی پیروی نہیں کر سکتا۔ فطری طور پر تحریر  میں سلاست سادگی اور واقعیت کے ساتھ سطحیت کی خصوصیت بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی صحافتی زبان کسی طر زیا اسلوب کی نمائیدہ نہیں ہوتی۔

6۔ اختصار

جدید صحافت میں پیش کرنے کے لیے بہت سا خبری  مواد موجود ہوتا ہے۔ ان سب کو شائع کرنا نشر کرنا ممکن نہیں ہوا۔

انتخاب و اختصار پیش نظر رکھاجاتا ہے ۔ جہاں طول کلام سے بچا جاتا ہے وہیں تحریر میں حشو و زوائد صنائع بدائع اور مترادفات سے بھی پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثالیں اورتشریحیں قلم زد کردی جاتی ہیں ۔

7۔وضاحت

اختصار کے باوجود صحافی تحریر میں وضاحت کا  عنصراہمیت رکھتا ہے یعنی زبان ہر قسم کے ابہام، تضاد و تکرار سے پاک ہونی چاہئے ۔ اس میں بیان کئے گئے واقعات اعداد وشمار اورخبریں ، معاملات کی پوری پوری وضاحت کرتی

ہوں کوئی بات تشنہ نہ رہ کئی چونکہ خبروں کے بیان کا اسلوب زیادہ اہم سے کم کی طرف ہوتا ہے ۔ اس لئے اختصار

کر تے ہوئے اس بات کو ملحوظ  رکھا جاتا ہے کہ اہم باتیں نہ رہ جائیں اور تحریر میں ہر بات واضح طور پر پیش کر دی گئی ۔

8۔ہنگامی پن

صحافتی تحریر ایک  فوری اظہار کا نام ہے۔ یہ حالات اور واقعات کی تازگی کو پیش نظر رکھتی ہے۔ کسی واقعے کی

فوری خبر اور اس پرفوری تبصر تحریر کو ہنگامی بنا دیتا ہے۔ اگر تبصره بروقت نہ ہو اور خبر  فورانہ آئے تو اس کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ صحافتی تحریر پر واقعات کا ایک ہنگامی اظہار پیش کرتی ہے

9۔ افادیت

صحافت میں زبان اور اس کی آرائش مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کی حیثیت محض ایک افادی وسیلے کی ہوتی ہے محض مفہوم بیان کرنے کا کام کیا جا تا ہے۔ اس میں زبان ایک بار یک چھلکے کی مانند ہوتی ہے جسے اتارنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی مفہوم کا منظر صاف نظر آنے لگتا ہے۔ اگر صحافی تحریروں میں زبان کا افادی پہلومحلوظ خاطر نہ رکھا جائے تو قاری کی توجہ زبان کے رنگین پردے پر مرکوز ہو جائے گی اور مفہوم اس کی نظر سے اوجھل ہو جائے گا پھر ہوسکتا ہے کہ مفہوم کچھ کا کچھ ہو جائے ۔ اس لئے زبان کو  محض اپنے بیان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا زبان کا افادی پہلو ہی ملحوظ  ہوتا ہے۔

10۔ معکوسیت

صحافتی زبان خصوصا خبر کی زبان ترتیب واقعات اور بیان کے لحاظ سے معکوس ہوتی ہے۔ عام طور پر کسی واقعے کا بیان آغاز سے انجام تک ہوتا ہے مگر خبر کا بیان انجام سے آغاز کی طرف ہوتا ہے۔ اس میں پہلے اصل خبر یاا ہم ترین واقعہ اہم ترین نکتہ انجام بیان ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اہم اور پھر سب سے اہم معلومات فراہم کی جاتی ہیں آغاز  کا ذکر ہوتا ہے اس طرح تحریر پرقاری کیلئے پرکشش بن جاتی ہے۔

 

سوال

مواد کے حصول کے لیے کالم انڑنیٹ علاقائی رپورٹس اور پروموشن مواد کی کیا اہیمت ہے

تحقیق میں لکھنے سے کہیں زیادہ وقت مواد کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے اپنے موضوع سے متعلق نہ صرف تمام اردو کتابوں کو چھان مارنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ رسالوں میں بھی اپنے کام کے مقالے کھوجنے چاہیے کیوں کہ بعض ایسی چیزیں مل سکتی ہیں جو کتابی صورت میں نہیں آئیں گی۔“

جس طرح شہد کی مکھی سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح شہد کی مکھیاں مختلف پھولوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہیں اسی طرح ایک محقق کو بھی مختلف مواخذ کو شامل کر کے اپنی تحقیق کو بہترین بنانا چاہیے۔

پروفیسر عبدالستار دلوی کے مطابق:

”خالص مواد کی شکل مال سے تجزیہ، درجہ بندی اور تحقیق کے ذریعہ نتائج اور عام اصول وضع کیے جاتے ہیں۔“

تحقیقی مواد کو جمع کرتے وقت بنیادی ماخذات زیادہ اہم اور اہمیت کے حامل ہیں۔ جب کہ ثانوی ماخذات اس درجہ تک نہیں پہنچ پاتے۔ بنیادی ماخذات میں کسی بھی ادیب کی سوچ کا جو ادراک ہوتا ہے اور فن پارے سے جو رہنمائی ملتی وہ کسی اور صورت میں حاصل نہیں ہو پاتی کیوں کہ ثانوی ماخذات ایک الگ شخصیت کے نقطہ نظر میں آتے ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر خالق داد ملک نے اپنی کتاب ”تحقیق و تدوین کا طریق کار“ میں مواد کی جمع آوری کے مصادر کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے کہتے ہیں :مصادر کی پہلی قسم تیار شدہ مواد کے مصادر (Ready data sources) کہتے ہیں جس میں کتابیں، انسائیکلو پیڈیا، مجدات و رسائل، لیکچرز اور دستاویزات شامل ہیں۔

دوسری قسم کو خود تیار کردہ مواد کے مصادر (Initiated data sources) کہتے ہیں جس میں انٹرویوز، سوال نامے، مشاہدہ، تجزیہ اور آزمائش شامل ہیں۔ ایک تحقیق کار کو مواد اکٹھا کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ جس موضوع پر مواد کو تلاش کر رہا ہے اگر اسی موضوع کے مختلف نسخے مختلف اوقات میں سامنے آئے تو وہ ان تمام نسخوں کو اکٹھا کرے اس طرح ہرگز نہ کرے کہ ایک ہی نسخے پر اتفاق کرے ایسے تحقیقی کام کو کوئی خاص معیار حاصل نہیں ہوگا۔

اس کے ساتھ تحقیق کا ر کو اپنے عہد اور اپنے عہد سے پہلے کی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہو کیونکہ ممکن ہے کسی نسخے میں کوئی ایسے الفاظ کا چناؤ کیا جاتا ہے جو موجودہ دور میں متروک ہو چکے ہیں۔ تو تحقیقی کام کرتے وقت اسے ان الفاظ کے معانی و مفہوم کا مکمل طور پر ادراک ہو۔ سب سے اہم کام مواد کے حصول میں کس کا خیال رکھا جائے وہ یہ کہ جو مواد وہ مختلف ذریعے سے حاصل کرتا ہے اس مواد میں کوئی سرقہ نہ ہو اور یہ بھی خیال رکھے کہ یہ مواد گویا اسی عہد کا ہے جس کی تلاش ایک تحقیق کار کو ہوتی ہے۔

دراصل کوئی بھی موضوع بظاہر کتنا ہی دل کش کیوں نہ ہو اگر اس موضوع پر مواد کا حصول ممکن نہ ہو تو اس پر تحقیق نہیں ہو سکتی۔ تحقیق کو اگر ایک مجسم شکل قرار دیا جائے تو اس کے وجود کی تشکیلی اکائیاں وہ مواد ہے جس سے مل کر یہ وجود پیکر محسوس میں ڈھلا ہے۔ تحقیق میں مواد کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ مواد کے بغیر تحقیق بالکل اسی طرح ہے جس طرح روح کے بغیر انسانی جسم، یعنی مواد کے بغیر تحقیق کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔

تحقیق کی بنیاد مواد پر ہی استوار ہوتی ہے اور کسی بھی تحقیقی منصوبے کی کامیابی و ناکامی کا پہلا دار و مدار مواد پر ہی ہوتا ہے۔ تحقیق کے لیے مطلوب مواد ہی دراصل وہ اولین بنیاد ہے جہاں سے محقق اپنے سوالوں کے جوابات تلاش کر سکتا ہے۔ محقق کو مواد کے حصول میں نہایت حساس اور محتاط ہونا پڑتا ہے بسا اوقات موضوع سے متعلق عمومی نوعیت کے نکتہ سے بھی بہت بڑے علمی خزانے کے ہاتھ آنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے اس لیے محقق اپنے موضوع پر ہونے والا مواد ہر طرح کی علمی و تحقیقی سر گرمیوں کو پیش نظر رکھتا ہے اور جہاں کہیں مطلوبہ مواد سیر آئے اسے حاصل کرنے میں پوری تگ و دو کرتا ہے۔

محقق کو موضوع کے اعتبار سے مفید مواد کے حصول کے لیے حریص ہونا چاہیے مفید مواد جہاں بھی چلے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بعض قلمی نسخے نادر و نایاب ہوتے ہیں اور صرف مخصوص مقامات پر ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ ایسے علمی ذخیروں تک رسائی اور ان سے استفادہ عموماً سہل نہیں ہوتا۔ اس لیے محقق کو چاہیے کہ جب اس طرح کا موقع میسر آئے تو مطلوبہ مواد کی کاپی کروانے کی کوشش کرے۔ اس کے علاوہ ضروری نہیں کہ کسی نادر قلمی نسخے یا دستاویز تک محقق کو اگر ایک بار رسائی ملی ہے تو یہ موقع دوبارہ بھی میسر آ سکے۔ اس لیے حصول مواد کے ایسے مواقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔

مواد کی تنظیم و ترتیب:

مواد کی جمع آوری، چھان بین اور تدوین جو محقق نے مختلف کارڈز یا فائلوں میں کی ہے، کے بعد اس کی ترتیب و تنظیم کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ مرحلہ بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے محقق نظم و احتیاط سے کام لے اور تمام جمع شدہ مواد کی کانٹ چھانٹ بڑی توجہ اور محنت سے کرے۔ غیر ضروری مواد الگ کر دے تاکہ موضوع سے متعلقہ مناسبت اور مطابقت رکھنے والے مواد کو بطریق احسن ترتیب دیا جا سکے، اور عمدہ و معیاری نتائج اخذ کیے جا سکیں۔

لہٰذا محقق اس جمع شدہ مواد کو اس نے کانٹ چھانٹ کے بعد اخذ کیا ہے بڑی ترتیب و تنظیم سے مختلف ابواب و فعول میں تقسیم کر دے۔ اس کے علاوہ محقق کو ان سارے مراحل میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی ایسا مواد شامل نہ ہو جو اس کی تحقیق کی ہوئی محنت پر پانی ڈال دے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالحمید عباسی نے اپنی کتاب میں عبدالرزاق قریشی کا قول نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں :

”سارا ممکن الحصول مواد کو اکٹھا کر لینے کے بعد اب ضرورت ہے کہ اسے ترتیب دیا جائے، یعنی آغاز کار سے اب تک جو نوٹ لیے گئے ہیں انھیں ان کے عنوانات کے تحت مرتب کیا جائے۔ ان کو مرتب کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ جو غیر اہم یا غیر ضروری نوٹ آ گئے ہیں انہیں الگ کر دیا جائے۔ جس طرح نوٹ لیتے وقت باقاعدگی اور احتیاط کا خیال رکنا ضروری ہے۔ جس کام میں تنظیم و ترتیب ہوتی ہے اس کا نتیجہ خاطر خواہ اور خوشگوار ہوتا ہے۔“

ادبیات میں متن کی ترتیب و تنظیم ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔ ادب کے مطالعے میں متن کی تحقیق اس کی درست قراؔت اور پھر اس کی تصحیح و ترتیب کی بے حد اہمیت ہے۔ جب تک کہ متن کو صحت کے ساتھ پڑھا نا جائے اور درست متن پیش نظر نہ ہو۔ تو اس مطلوبہ متن کی ترتیب بھی ممکن نہیں ہو پاتی اور نہ اس تمام پہلوؤں کا ادراک ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مواد کی ترتیب و تنظیم میں جو ایک بنیادی مسئلہ درپیش آ سکتا ہے وہ املا کا ہے کیوں کہ ایک محقق کو تحقیق کے دوران بہت سے ایسے نسخے موجود ہوں گے جن کے الفاظ موجود دور نہیں متروک ہو چکے ہوں گے یا ان کا رسم الخط اور ہوگا۔

لیکن ایک محقق کو مواد ترتیب دیتے وقت ان تمام جملہ امر کو سامنے رکھنا ہوگا اور اس میں جلد بازی سے بچنا ہو گا کیوں کہ اس کی تحقیق کا سارا انحصار اس کی مواد کو ترتیب سے گڑ بڑ کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ محقق کو تلاش کیے ہوئے مطلوبہ مواد کی کانٹ چھانٹ کے لیے اسے بار بار اپنی نظر سے گزارنا ہو گا تب جا کے جو حقیقی معنی میں اسے مواد درکار ہوگا وہ ترتیب پائے گا۔

مواد کا تجزئیاتی طریقہ کار:

تحقیق میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ تجزیہ کرتے وقت مواد کی درجہ بندی صاف اور کھلے الفاظ میں بیان کیا جائے تاکہ دوسرے محققین جب ان کے تجزیوں کا مطالعہ کریں تو وہی نتیجہ نکال سکیں اور مکمل فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے علاوہ مواد کی درجہ بندی ابتدائی بنیاد پر یا منطقی خیالات کی مدد سے پہلے والی دستاویزات کو دیکھ کر کی جائے۔ موجودہ دور میں درجہ بندی ابتدائی مواد کی پرکھ کے بعد کسی خاص ترتیب کے مطابق کی جا سکتی ہے اس لیے کسی بھی مواد کی دستاویزی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ مواد کی درجہ بندی کسی خاص مقرر کردہ اصولوں کے مطابق کی جائے اور یہ درجہ بندی مقرر کردہ عنوانات میں سے ہونی چاہیے اور ایسے مواد کو نظر انداز کر دینا چاہیے جن کا عنوانات سے تعلق نہ ہو۔ اس کے علاوہ دستاویزی تحقیق کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ایسا مواد لکھا ہوا اور چھپا ہوا ہو جس پر تحقیقی بنیاد ہوتی ہے

ایک ایسی دستاویز ہے جو ایک مخصوص شائقین اور مقصد کے لئے ایک منظم شکل میں معلومات پیش کرتا ہے . اگرچہ رپورٹس کی خلاصہ زبانی طور پر پہنچائی جا سکتی ہیں، مکمل طور پر مکمل طور پر تحریری دستاویزات کے طور پر مکمل طور پر رپورٹیں ہیں.

Kuiper اور Clippinger کاروباری رپورٹوں کے مطابق “پریکٹس سازی کے عمل میں استعمال مشاہدات، تجربات، یا حقائق کے منظم، مقصد پیشکش” کے طور پر وضاحت کرتے ہیں.

( معاون کاروباری رپورٹ ، 2013)

شرما اور موہن نے ایک تکنیکی رپورٹ “ایک صورت حال، پراجیکٹ، عمل یا امتحان کے حقائق کے ایک تحریری بیان کے طور پر وضاحت کی ہے؛ یہ حقائق کس طرح ثابت ہوئے ہیں، ان کی اہمیت؛ ان سے نتیجہ نکلنے کا نتیجہ؛ اور [بعض معاملات میں] سفارشات کی جا رہی ہیں “

( کاروباری ادارے اور رپورٹ لکھنا ، 2002).

رپورٹس کی اقسام میں میمو ، منٹ، لیبارٹری کی رپورٹ، کتاب کی رپورٹ ، پیش رفت کی رپورٹ، جواز کی رپورٹ، تعمیل کی رپورٹ، سالانہ رپورٹ، اور پالیسیوں اور طریقہ کار شامل ہیں.0

Etymology: لاطینی سے “لے”

مشاہدات

رپورٹس چار مختلف، اور کبھی کبھی متعلقہ، افعال کو پورا کرسکتے ہیں. وہ اس بات کا یقین کرنے کے لئے کنٹرول کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے کہ تمام محکموں کو مناسب طریقے سے کام کرنا، معلومات دینے، تجزیہ فراہم کرنے اور دوسروں کو عمل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے. “

(ایچ ڈین O’Hair، جیمز ایس O’Rourke، اور مریم جان O’Hair، بزنس مواصلات: ایک فریم ورک کامیابی کے لئے . جنوبی مغربی مغربی پبلشنگ، 2001)

مؤثر رپورٹوں کی خصوصیات

“مصنف کے ارادہ کے طور پر مؤثر رپورٹوں کو سمجھا جاتا ہے، اور مصنف نے مطلوبہ طور پر کام کرنے کے لئے قارئین کو متاثر کیا. مصنف کے مقاصد کو حاصل کرنے کا امکان ہے اگر وہ قاری کی ضروریات اور مقاصد کے مطابق ہوں. ایک مؤثر رپورٹ ہے. ہمدردی، درست، مکمل، جامع ، اور واضح . سب سے اوپر، ایک مؤثر رپورٹ اخلاقی طور پر پیش کرتا ہے. “

(شیرلے کوپن اور ڈوراڈا کلپنگر، سمارٹ بزنس رپورٹس، 5th ایڈیشن جنوبی-مغربی، کیینجج، 2013)

سامعین کے ساتھ مواصلات پر وارین بفی

“ایک غیر معمولی لیکن مفید ٹپ: ایک مخصوص شخص کے ساتھ دماغ میں لکھیں. جب برکشائر ہیتھاو کی سالانہ رپورٹ لکھتے ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں اپنی بہنوں سے بات کر رہا ہوں. مجھے ان پر کوئی مصیبت نہیں ہے. اگرچہ بہت ذہین سمجھتے ہیں کہ وہ اکاؤنٹنگ کے ماہرین نہیں ہیں فنانس. وہ سادہ انگریزی کو سمجھ لیں گے، لیکن جرگہ ان کو پہچان سکتے ہیں. میرا مقصد صرف ان معلومات کو دینا ہے جو میں چاہوں گا کہ ہماری فراہمی کے لۓ ہماری جگہیں تبدیل ہوجائیں. کامیاب ہونے کے لئے، مجھے شیکسپیر بننے کی ضرورت نہیں ہے. اگرچہ، مطلع کرنے کی مخلص خواہش ہے

 

سوا ل

الیکٹرانک میڈیا کے لیے صحافت اور مجلاتی صحافت میں فرق بیان کریں

ڈیجیٹل صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ادارتی مواد انٹرنیٹ کے ذریعے تقسیم کیا جاتا ہے۔ تحریر، سمعی اور بصری مواد کے ذریعے پیش کی جانے والی خبریں، تجزیے، فیچرز ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی کے ذریعے وزیٹرز تک پہنچائے جاتے ہیں۔

شعبہ صحافت کے اس نئے میڈیم کا فائدہ یہ ہے کہ ماضی میں انتہائی مہنگا کام سمجھے جانے والا ابلاغ انتہائی قلیل لاگت سے بہت دور تک بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اخبارات، مجلوں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دسترس میں موجود اطلاعات ڈیجیٹل صحافت کے ذریعے اب جلد اور زیادہ سہولت سے وزیٹرز تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈیجیٹل صحافت اور ڈیجیٹل اردو صحافت کا آغاز انٹرنیٹ کے ابتدائی تعارف کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ روایتی میڈیا ہاؤسز نے بھی اس شعبہ کا رخ کیا تاہم اس سے قبل انفرادی سطح پر بھی اس پر کام شروع ہو چکا تھا۔ انگریزی ڈیجیٹل جرنلزم میں جہاں متعدد نام ملتے ہیں وہیں اردو ڈیجیٹل جرنلزم بھی پیچھے نہیں رہا۔ پاکستان میں ڈیجیٹل صحافت کو متعارف کرانے والے ابتدائی لوگوں میں پروپاکستانی کے عامر عطاء، دی نیوز ٹرائب اور پاکستان ٹرائب کے شاہد عباسی، ہماری ویب کے حافظ ابرار اور رضوان شیخ، اردو پوائنٹ کے علی نقوی، ٹیلیکام ریکارڈر کے محمد یاسر امین، تلخانہ کے نعمت خان، ابو شامل کے فہد کیہر شامل ہیں۔

ڈیجیٹل صحافت کی ابتدا کے کچھ ہی عرصہ میں بلاگنگ اور اسی شعبہ کی دیگر اصناف بھی متعارف ہو چکی تھیں۔ پہلے سے صحافت سے وابستہ افراد یا لکھنے میں دلچسپی رکھنے والے نئے افراد نے بلاگنگ کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا جس نے تیزی سے صارفین کی توجہ حاصل کی۔ روایتی میڈیا کے برعکس پورا دن ہر لمحہ اپ ڈیٹ ہونے والی معلومات بروقت صارف تک پہنچ کر اسے بہتر انداز میں باخبر رکھتی ہیں یہ ڈیجیٹل صحافت کی بنیادی خوبیوں میں سے ایک تصور کی گئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پیش کی جانے والی معلومات کی تفصیل اور متعدد ذرائع سے اس کی دستیابی نے وہ کمی بھی پوری کی جو دیگر میڈیمز پوری نہیں کر سکتے تھے۔ ڈیجیٹل صحافت نے معلومات پر سے کارپوریٹ اور حکومتی کنٹرول کو بھی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اخبارات جگہ کی تنگی اور مخصوص وقت پر شائع ہوتے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن زیادہ سے زیادہ معلومات کو سامع اور ناظر تک پہنچانے کے چکر میں انہیں بہت مختصر کر دیتے تھے لیکن ڈیجیٹل صحافت نے ناصرف بروقت معلومات مہیا کیں بلکہ صارف کو یہ سہولت بھی فراہم کی وہ اپنے مطلب کی معلومات پوری تفصیل سے حاصل کر سکے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل صحافت

1990 کی دہائی کی ابتدا میں انٹرنیٹ پاکستان میں متعارف کیا گیا جس کے بعد سے آئی سی ٹی یا انفارمیشن اینڈ کیمونیکیشن ٹیکنالوجی تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں نمایاں رہا۔ 2001 میں محض ایک اعشاریہ تین فیصد پاکستان انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے تھے تاہم آئندہ پانچ برسوں میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 2006 تک یہ تعداد بڑھ کر چھ اعشاریہ پانچ اور 2012 میں کل ملکی آبادی کا دس فیصد ہو چکی تھی۔ اکتوبر 2018 تک پاکستان میں براڈبینڈ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد انتیس اعشاریہ سات فیصد سے تجاوز کر چکی تھی، گویا چھ کروڑ بیس لاکھ افراد ورلڈ وائڈ ویب سے منسلک ہو چکی تھے۔ یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں انٹرنیٹ سے منسلک ہونے والے بڑے ممالک میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو ایشیا میں ٹیکنالوجی حب کا خطاب بھی دے چکی تھی۔

اسی عرصہ میں پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ پر دستیاب ہونا شروع ہوئے۔ روزنامہ جسارت اور انگریزی زبان کا اخبار روزنامہ ڈان انٹرنیٹ پر آنے والے اولین پاکستانی اخبارات تھے۔ روزنامہ جنگ سمیت دیگر پاکستانی اخبارات بھی 90 کی دہائی کے وسط تک انٹرنیٹ کا رخ کر چکے تھے۔ اس مرحلہ پر بلاگرز بھی منظرعام پر آنا شروع ہوئے

پرنٹ میڈیا وہ ذرائع ابلاغ ہے جس کے ذریعے معلومات کو طباعت شدہ شکل میں پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف ، الیکٹرانک میڈیا ایک ایسا ہے جس میں سامعین تک معلومات منتقل کرنے کے لئے الیکٹرانک یا الیکٹرو مکینیکل توانائی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

عام معنوں میں ، میڈیا لفظ میڈیم کی ایک کثرت شکل ہے۔ بڑے پیمانے پر مواصلات میں ، میڈیا بڑے پیمانے پر مواصلات کے بنیادی ذرائع سے مراد ہے ، جو لوگوں کے ایک بڑے گروہ کو ، بہت ہی کم وقت میں ، تازہ ترین خبروں ، تعلیم ، کھیلوں ، تفریح ​​اور سامان اور خدمات کے فروغ سے وابستہ پیغامات کو پھیلانے میں مدد کرتا ہے۔ . ماس میڈیا کی تین بڑی شکلیں ہیں ، یعنی پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور براڈکاسٹ میڈیا۔

پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے درمیان بنیادی فرق رسائ اور کوریج پر منحصر ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ پیغام بہت سارے لوگوں تک پہنچایا جاسکتا ہے ، بغیر وقت کے۔ مزید یہ کہ ، اس میں ایک میڈیم میں آڈیو ، ویڈیو ، متن اور گرافکس کی ایک رینج استعمال ہوتی ہے ، جو اسے پوری دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا میڈیم بنا دیتا ہے۔ اس کے ذریعے فراہم کردہ مواد ، ریکارڈ یا محفوظ شدہ دستاویزات مستقبل کے استعمال کے ل. ہوسکتی ہے۔ براہ راست پروگرامنگ الیکٹرانک میڈیا کی ایک اور اہم خصوصیت ہے ، جس کے ذریعے مختلف واقعات کی ریئل ٹائم براڈکاسٹنگ ممکن ہے۔

پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے مابین کلیدی اختلافات

پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے مابین فرق کو ذیل میں نکات میں بیان کیا گیا ہے۔

پرنٹ میڈیا کو بڑے پیمانے پر مواصلات کے ذرائع کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے ، جو مطبوعہ مطبوعات ، جیسے اخبارات ، جرائد ، رسائل ، کتابیں وغیرہ کے ذریعہ عام لوگوں کو پھیلانے والے پیغامات کو استعمال کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ، الیکٹرانک میڈیا ماس میڈیا کی نئی ابھرتی ہوئی شکل ہے ، جس میں خبروں اور معلومات کے تخلیق اور پھیلاؤ کے لئے الیکٹرانک آلات یا الیکٹرانک توانائی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پرنٹ میڈیا کی پہلی اور اہم ضرورت یہ ہے کہ تحریری مواد کو سمجھنے کے لئے قارئین کو خواندہ ہونا چاہئے۔ دوسری طرف ، الیکٹرانک میڈیا کے معاملے میں خواندگی بنیادی ضرورت نہیں ہے ، کیوں کہ ، اس میں آڈیو ، ویڈیو ، تصاویر وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سامعین کے ل understand مواد کو سمجھنا آسان ہے ، چاہے وہ ان پڑھ ہی کیوں نہ ہوں۔

پرنٹ میڈیا میں ، خبروں کے جمع کرنے اور کسی بھی دوسری معلومات کے لئے ہمیشہ ایک وقت کی حد ہوتی ہے ، کیونکہ اس وقت تک اس کی اشاعت باقی رہتی ہے۔ اس کے برخلاف ، الیکٹرانک میڈیا میں ، خبروں اور معلومات کے جمع کرنے کے لئے ایسی کوئی آخری تاریخ موجود نہیں ہے ، کیونکہ اسے کسی بھی وقت اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔

پرنٹ میڈیا براہ راست گفتگو پیش نہیں کرتا ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا براہ راست پروگرامنگ کی خصوصیت پیش کرتا ہے ، جس کے ذریعے براہ راست گفتگو ممکن ہے۔

پرنٹ میڈیا کی کوریج کسی خاص خطے ، شہر ، ریاست یا ملک تک محدود ہے۔ اس کے برعکس ، یہاں دنیا بھر میں الیکٹرانک میڈیا کی رسائ موجود ہے۔

پرنٹ میڈیا کی مختلف شکلوں میں استعمال ہونے والی زبان قارئین کے لئے دوستی ہے ، یعنی معلومات کو اس طرح سے مہیا کیا جاتا ہے ، جو پڑھنے والے کو آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔ اس کے برعکس ، الیکٹرانک میڈیا میں ، اس زبان کو پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، جو لوگوں کے ایک بڑے گروہ کو جانا جاتا ہے اور قابل فہم ہے۔

جب اپڈیٹ کرنے کی بات آتی ہے تو ، پرنٹ میڈیا کو وقتا فوقتا اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے ، اس لحاظ سے کہ روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں ، جبکہ جرائد اور رسائل ہفتہ وار یا ماہانہ وغیرہ میں شائع ہوتے ہیں ، اس کے برعکس ، الیکٹرانک میڈیا میں ، خبروں اور معلومات کو کسی بھی وقت اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔

 

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Services

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  کی   حل شدہ اسائنمنٹس۔ پی ڈی ایف۔ ورڈ فائل۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی، لیسن پلین، فائنل لیسن پلین، پریکٹس رپورٹ، ٹیچنگ پریکٹس، حل شدہ تھیسس، حل شدہ ریسرچ پراجیکٹس انتہائی مناسب ریٹ پر گھر بیٹھے منگوانے کے لیے  واٹس ایپ پر رابطہ کریں۔ اس کے علاوہ داخلہ بھجوانے ،فیس جمع کروانے ،بکس منگوانے ،آن لائن ورکشاپس،اسائنمنٹ ایل ایم ایس پر اپلوڈ کروانے کے لیے رابطہ کریں۔

WhatsApp:03038507371

Recent Posts

To Get All AIOU Assignments Contact Us On WhatsApp​

Scroll to Top