AIOU Course Code 9252-1 Solved Assignment Autumn 2021

9252 کورس ابلااغ عامہ

2021 سمسٹر خزاں

پروگرام بی ایس

1 مشق نمبر

 

1سوال نمبر

ابلاغ کیا ہے ؟ اسلامی نظریہ ابلاغ بیان کریں

جواب۔

ابلاغ کیا ہے ۔۔۔

سادہ لفظوں میں ابلاغ اسے کہتے ہیں کہ ایک انسان اپنی بات دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے، جسے باہمی رابطہ بھی کہتے ہیں۔ زبان باہمی رابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ابلاغ انسان کی انفرادی ضرورت بھی ہے اور معاشرتی بھی۔ یہ انسانی معاشرے کی بقا کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دیگر مادی ضرویات ہیں۔ ابلاغ جس کا انگریزی ترجمہ کمیونیکیشن ہے، جو لاطینی لفظ کمیونیس Communis سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی اشتراک پیدا کرنے کے ہیں۔ ابلاغ کا آسان مطلب ایک اطلاع یا پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے۔

ابلاغ کی اہمیت: ابلاغ انسانی زندگی کے وجود کی دلیل ہے۔ اور یہ عمل دن رات جاری رہتا ہے۔ حیوانی اور انسانی زندگی میں ابلاغ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ ابلاغ زبان کے ذریعے ہو، چہرے کے تاثرات سے ہو، علامتوں کے ذریعے ہو، یا پھر اشاروں کے ذریعے سے، یہ زندہ رہنے کی دلیل ہے۔

ذریعہٴ ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ریڈیو، ٹیلی ویژن ہویا انٹرنیٹ اس کی اہمیت اور اس کی اثر انگیزی ہردور میں مسلم رہی ہے۔ انسانی معاشرے کی بقا اور تعمیر وترقی کے لیے اِبلاغ و ترسیل اتنا ہی ضروری ہے، جتناکہ غذا اور پناہ گاہ۔انسانی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے توترسیل دو طرفہ سماجی عمل ہے اور اس دور میں بھی جب منہ سے نکلی ہوئی آواز نے الفاظ اور منقش تحریر کاجامہ زیب تن نہیں کیا تھا اور انسان اشارے کنایے،حرکات وسکنات اور لمس و شعور کی مددسے اپنی ترسیل و ابلاغ کی ضروت کی تکمیل کیا کرتاتھا، ابلاغ اور ترسیل کے وسائل انسانی معاشرے میں اہمیت کے حامل تھے، اور آج کے برق رفتار عہدمیں تو اس کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ ولبر شرم نے صحیح کہا ہے:”عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔“ یہی وجہ ہے کہ ترسیلی شعبے کے بعض ماہرین نے کسی مہذب انسانی معاشرے کی تعمیر وترقی میں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ذرائع ترسیل وابلاغ کو چوتھے ستون کی حیثیت دی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے کی ترقی مربوط ہے۔ اگر یہ ذارئع ترسیل نہ ہوتے، تو انسانی معاشرہ تہذیب وثقافت کے شائستہ تصور سے محروم رہتا اورجہالت و ناخواندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا۔

          انسانی زندگی میں ابلاغ و ترسیل کو شہِ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے خیالات و جذبات اور فکار و نظریات کے اظہار کے لیے اگر اس کو موقع نہ ملے تو وہ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوکر مضطرب اور بے چین ہوجاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف تمام ممالک کے دستور میں ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی اور فطری حق کی ضمانت دی گئی ہے؛ بلکہ اس حق کو سلب کرنے والے عوامل ومحرکات پر بھی قدعن لگانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ آج انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں آنے والے انقلابات نے دنیا کو چھوٹے سے گاوٴں میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج آپ کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر جام جمشید کی طرح دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا مشاہدہ کر نا اور اس پر بر جستہ اپنی رائے دینا اوراس کو وسیع پیمانے پر پھیلانا ممکن ہے۔ انٹرنیٹ جیسے جامِ جہاں نما کے وجود میں آنے کے بعد تو ساری کائنات ایک چھوٹے سے بکس میں قید ہوگئی ہے اور آپ جب اور جس وقت چاہیں اس کے ذریعے کائنات کے طول و عرض کی سیر کرسکتے ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا ہے۔ ای میل، ٹویٹر، اسکائپ اور فیس بک کی وساطت سے اپنے خیالات کی ترسیل ممکن ہے۔اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ وغیرہ ذرائع ابلاع کے اہم ستون ہیں۔ میں انھیں عوامی ذرائع ابلاغ کے ارد گرد اپنی گفتگو مرکوز رکھوں گا

ذرائع ابلاغ کا اسلامی تصور

          پریس اور میڈیا ہمارے ترقی یافتہ دور کی ایجاد کردہ اصطلاحیں ہیں۔پہلے اس قسم کی اصطلاحات سے انسانوں کے کان مانوس نہیں تھے؛ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام جو حیات سے لے کر ممات اور فرد کی خانگی زندگی سے لے کر معاشرتی اور سیاسی زندگی کے تمام مسائل کو محیط ہے، اس میں ذرائع ابلاغ یا پریس کے حوالے سے قرآن و حدیث میں احکامات اور ہدایات نہ دی گئی ہوں۔اسلام تو ایک مکمل نظامِ حیات کا نام ہے۔اسلام زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی رہ نمائی کے لیے قانون وضع کرتا ہے۔پریس یا میڈیا فکر و نظر کی آزادی کا ہی نام ہے، جس میں صحافی اور رپورٹر سامعین اور قارئین کو اپنی فکر و نظر سے کام لے کر ایسا سچا اور با مقصد مواد دیتا ہے، جس کو وہ صحیح اور معتبر تصور کرتا ہے۔ فکر و عمل کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کا باب پریس اور میڈیا کی آزادی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ ایک مثالی اسلامی ریاست میں عقیدے اور مذہب کی آزادی کے ساتھ فکر و نظر کی بھی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔

          اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک لیے ایک جامع دین بن کر آیا ہے؛ اس لیے اس میں میڈیا اور پریس کے حوالے سے بھی ضابطہ اور قانون موجود ہے،اسلام میں میڈیا کی کتنی اہمیت ہے اور ان ذرائع ابلاغ کو انسانی زندگی میں کتنا بڑا اور اہم مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان آیتوں کا مطالعہ اور ان کے مفاہیم میں غور کرنا چاہیے جن سے اسلام کے داعیانہ پہلو پر روشنی پرتی ہے۔ اُدْعُ الیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ،(نحل:۱۲۵) وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّةٌ یَدْعُوْنَ الیٰ الْخَیْرِ (آل عمران، ۱۰۴)کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران، ۱۱۰) وَذَکِّرْ فَا․َّ الذِّکْریٰ تَنْفَعُ المُوٴمِنِیْنَ، (ذریات، ۵۵) بَلِّغُوْ عَنّی وَلَوْ آیةً اور نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَئًا سَمِعَ مَقَالَتِيْ الخ وغیرہ میں اسلام کے جس آفاقی پیغام کے ابلاغ وترسیل کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پردعوت اور اشاعت، سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے سہارے کے بغیر ممکن ہے۔

          اسلامی نظریہٴ ابلاغ کسی انسانی فکر کا زائیدہ یا محض عقلی بنیادوں پر انسانوں کا تیار کردہ نہیں ہے ،وہ قرآ ن وحدیث سے ماخوذ و مستنبط ہے۔ انسان کی فطری آزادی سے لے کر ذرائعِ ابلاغ کی آزادی تک کا سارا نظام عمل انہی اسلامی احکامات و ہدایات پر مبنی ہے۔اسلامی نظریہٴ ابلاغ میں جہاں ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے، وہاں اس کو بہت سی اخلاقی شرائط اورسماجی و معاشرتی قوانین کا پابند بھی بنایا گیا ہے؛تا کہ دیگراسلامی نظریہ کی طرح یہاں بھی توازن و اعتدال برقرار رہے۔اسلامی نظریہٴ ابلاغ میں نہ مقتدرانہ نظریہٴ ابلاغ کی طرح انسانوں کی آزادی کو مکمل طور پر سلب کیا گیا ہے اور نہ ہی آزای پسندانہ نظریہٴ ابلاغ کی طرح ایسی مادر پدر آزادی دی گئی ہے کہ فرد کی آزادی کے پردے میں دوسرے انسانوں کی آزادی پر انگشت نمائی کی جائے اور ان کی پرائیویٹ اور نجی زندگی میں بھی مداخلت کی جائے۔ اگر اظہار کی آزادی کی آڑ میں ذرائع ابلاغ کے اس سر کش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے، تو یہ ایمانیات کے ساتھ انسانوں کی اخلاقیات کو بھی پیروں تلے روند کر دکھ دے گا۔

          اسلام میں اظہار کی آزادی محض ایک انسانی حق ہی نہیں؛ بلکہ یہ امتِ مسلمہ اور ذرائعِ ابلاغ کا ایک دینی اور اخلاقی فرض بھی ہے؛ اس لیے نہ کوئی فرد، نہ کوئی حکومت اور نہ ہی کوئی ادارہ انسانوں سے ان کی فطری آزادی کو سلب کرسکتا ہے، اور نہ اس کو چیلنج کرسکتا ہے؛ البتہ اتنی شرط ضرور عائد کی جائے گی کہ کوئی بھی ذریعہٴ ابلاغ کوئی ایسی خبر یا بات کی تشہیر نہ کرے، جس سے مفادِ عامہ کو زد پہنچے۔ جو اسلامی اقدار کے منافی ہو اور جس میں انسانیت اور انسانی سماج کی تعمیرکے بجائے تخریب کے عوامل پنہاں ہوں۔ اسلام میں ذرائع ابلاع کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے عوام الناس تک سچی اور صحیح خبر پہنچائی جائے۔ ذرائع ابلاغ سچ کے اظہار میں کسی لالچ یا مداہنت کا شکار نہ ہوں۔ ذرائعِ ابلاغ صرف ایسی معلومات کی اشاعت کریں، جن سے سامعین اور قارئین کے اندر نیکی اور تقویٰ کا عنصر پیدا ہو۔ وہ کسی ایسی خبر کی اشاعت سے باز رہیں، جس کا مقصد ان کی اخلاقیات پر حملہ کرنا ہو اور اس سے دوسروں کی دل آزاری یا دوسرے ادیان و ملل کی تحقیر ہو۔

ذرائع ابلاغ کے اساسی اصول واقدار

 فکر ونظر کی آزادی:

          اسلام نے فکر و نظر کی آزادی کے ساتھ ہمیشہ آزادیِ رائے کا احترام کیا ہے اور ہر کس و ناکس کو اپنی بات رکھنے کا فطری حق دیا ہے۔ عہدِ نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر، عہدِ بنی امیہ اور بنی عباسیہ تک کی پوری اسلامی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے کس درجہ شدت کے ساتھ حریتِ رائے کے تصور کی پرورش کی ہے اور اس کو انسانی معاشرے کا لازمی جز بنانے کی سعی کی ہے۔اسلام نے صرف آزاد مردو خواتین ہی نہیں؛ بلکہ غلاموں کو بھی اس حق سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ذرا غزوہٴ احد کا وہ واقعہ اپنے ذہنوں میں تازہ کیجیے جب جلیل القدر صحابہٴ کرام کی یہ رائے تھی کہ کفارِ مکہ سے جنگ کے لیے مدینے سے باہرنکلنا مناسب نہیں ہے اور یہیں رہ کر جنگ کی جائے؛ لیکن معقول اسباب کی بنیاد پرچند نوجوانوں کی یہ رائے تھی کہ جنگ کے لیے مدینے کی آبادی سے باہر نکلنا زیادہ مناسب ہے۔اسی طرح غزوہٴ خندق کے موقع پر مدینے سے باہر خندق کھودنے کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل نہیں تھا، بلکہ صحابہٴ کرام اور حضرت سلمان فارسی کے باہمی مشورے سے خندق کھودی تھی۔ حضرت ابو بکر اور حصرت عمر جنگی قیدیوں کے قتل اور انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے بارے میں مختلف الرائے تھے۔اسلام میں فکر و نظر کی آزادی کی ہی دین ہے کہ ایک عام آدمی بھی اپنے خلیفہ کا دست و بازو پکر سکتا ہے۔اور جب ایک قبطی نے حضرت عمر بن عاص اور ان کے بیٹے کی شکایت دربارِ عمری میں پیش کی تھی تو حصرت عمر نے نہ صرف یہ کہ اس غلام کو فوری انصاف دلایا تھا؛ بلکہ انھیں سخت ڈانٹ بھی لگائی تھی۔ اور اس وقت کے حضرت عمر کے ارشادت پر مبنی یہ مفہوم تو ہر کسی کے ذہنوں میں ہوگا کہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہونے والے بچے کو کسی کو غلام بنانے کا حق نہیں۔حضرت عمر کے الفاظ تھے: مَتیٰ اسْتَعْبَدْتُمْ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْہُمْ أمَّہَاتُہُمْ أحَرَارًا۔اسی قسم کا واقعہ خلیفہٴ رابع حضرت علی سے بھی منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا:”أیُّہَا النَّاسُ أنَّ آدمَ لَمْ یَلِدْ عَبْدًا وَلاَ أمَةً وَ أنَّ النَّاسَ کُلُّہُمْ أحْرَارًا“ لوگو!آدم کی کوکھ سے غلام یا باندی نے جنم نہیں لیا، سبھی لوگ آزاد ہیں۔ (نہج السعادة، ج:۱)

           اسلام میں قیاس کو چوتھا فقہی اصول قرار دیا گیاہے، فقہاء اور ائمہ کے درمیان مسائل میں اختلافِ اظہار رائے کی آزادی کی ایسی مثال ہے، جس سے دوسرے مذاہب و ادیان تہی دست ہیں۔ فقہ میں جہاں چار بڑے مسالک کے ماننے والے ، دنیا کے مختلف گوشوں میں کہیں کم تو کہیں زیادہ موجود ہیں، وہیں فقہِ اوزاعی، فقہِ داوٴد ظاہری اور فقہِ جعفری و غیرہ بھی روئے زمین پر موجود ہیں، جن کی تقلید کرنے والوں کو نہ توکم تر سمجھاجاتا ہے اور نہ ہی اقلیت اور اکثریت کی مذموم بنیاد پر ان سے تعرض کیاجاتا ہے۔ فقہ میں تو ہُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَاٌل کا اصول چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی استاد کے مختلف شاگردوں نے دلائل کی بنیاد پر اپنے استاد کے نظریے سے اختلاف کیا ہے؛ بلکہ حدیث کے مطابق کسی غیر منصوص مسئلے میں غور و فکر کرنے والے ہر مجتہدکو اجر سے نوازا جاتا ہے، اگر چہ اس کا اجتہاد غلط ہی کیوں نہ ہو۔ معلوم ہواکہ اسلام آزادیِ فکر و نظر کا امین اور نقیب ہے۔ اس میں ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے؛ بشر طیکہ اس کی رائے نصِ صریح سے متصادم نہ ہو۔

          ذیل کی سطروں میں ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ہم یہاں ان چندآزادیوں سے بحث کر رہے ہیں، جو اسلام نے فکر و نظر اور اظہار رائے کی آزادی کے تحت ذرائعِ ابلاغ کو عنایت کی ہیں۔

2سوال نمبر

ابلاغی عمل اور اس کے  عناصر ترکیبی  بیان کریں

جواب۔۔

ابلاغ عامہ یا ماس کمیونی کیشن(Mass Communication)بنیادی طور پر جرنلزم ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کا عمل آگے بڑھا ،انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جہاں دیگر شعبوں کو اپنی گرفت میں لیا وہاں صحافت کا شعبہ بھی کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے ہاتھوں ایسا گرفت میں آیا کہ اس نے جرنلزم سے ماس کمیونی کیشن کا روپ اختیار کر لیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علم کے مختلف شعبوں میں ترقی ہوئی لیکن ابلاغ عامہ کے شعبے نے تمام علوم سے زیادہ اپنے آپ کو وسیع سے وسیع تر کرکیا۔ابلاغ عامہ آج گھر گھر کی ضرورت اور ہر گھر میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج انسان کی زندگی ابلاغ عامہ کے بغیر ممکن نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ لمحہ موجود میں ابلاغ نے جو صورت اختیار کر لی ہے اس کے بارے میں ماضی میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، آج وہ کچھ ممکن ہوچکا ہے جس کے بارے میں خیال تھا کہ یہ ممکن نہیں۔ گویا انسانی تحقیق اور جستجو نے نا ممکن کو ممکن بنادیا ہے۔ اس لیے کہ انسان کو تحقیق کر نے جستجو کرنے کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے خود کی ، جس پر عمل کرتے ہوئے آج دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ سمٹ کر رہ گئی ہے، کسی بھی غریب سے غریب بستی، اونچے نیچے علاقوں، پہاڑوں، سمندر میں سفر کرتے ، میلوں دور رہتے ہوئے بھی ایک شخص دوسرے شخص سے نہ صرف رابطے میں بلکہ اسے دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو بھی کر رہا ہے۔ ہم اپنے گھر میں ہیں موبائل بند اس کے باوجود ہماری لوکیشن چھپی ہوئی نہیں کہ ہم کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں۔گویا ابلاغ نے انسان کو غیر محفوظ بھی کردیا ہے۔ یہی سب کچھ ابلاغ عامہ ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر شبیر خورشید نے اپنی تصنیف میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید سے میرے برادرانہ اور پیشہ ورانہ تعلقات ہیں۔ ہم ریٹائرڈ لائف سے قبل بھی اور ریٹائر ہونے کے بعد بھی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ، وہ کشتی ہے لکھاریوں کی ، مصنفین کی۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنی ریٹائر لائف میں لکھنے کی جانب توجہ دی اور اب ان کے مشاغل میں لکھنا ہے اور وہ کالم نگار بھی ہیں، ہر موضوع پر خوب کالم لکھتے ہیں۔ ہماری ویب رائیٹرز کلب میں ہمارے قدم بہ قدم ہیں۔ہمارا مقصد خود لکھنا اور نئی نسل کو لکھنے کی جانب مائل کرنا ، ان کی رہنمائی کرنا، انہیں لکھنے یا چھپنے میں جو مشکلات آئیں ان میں ان کی مدد کرنا ہے۔ ہماری وب رائیٹرز کلب کا بنیادی مقصد یہی ہے میرے علاوہ ڈاکٹر صاحب اس ٹیم ک ایک اہم حصہ بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اصل موضوع تو پاکستان اسٹڈیز رہا ، پاکستان اسٹڈیز کا مطلب پاکستان کی تاریخ، سیاست ، معیشت، عمرانیات غرض پاکستان کے حوالے سے ہر پہلو کو مطالعہ۔ جس کا مطالعہ وسیع ہو اس کے لیے کسی بھی موضوع پر لکھنا مشکل نہیں ہوتا ۔ڈاکٹر صاحب نے لمحۂ موجود کے ایک اہم موضوع ’ابلاغ عامہ‘ کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا اور اس پر جو مواد فراہم کیا ، گویا انہوں نے اس کا حق ادا کردیا۔ اردو زبان میں ایسے پیشہ ورانہ اور فنی موضوعات پر لکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب خوبصورتی اور مہارت کے ابلاغ عامہ کو ایک آسان موضوع بنا کر پیش کردیا ہے۔

ابلاغ کی جو تعریفیں بیان کی گئی ہیں ان میں ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ’ابلاغ عامہ اطلاعات کا مطالعہ ہے ‘۔ ’’پاکستان میں ابلاغ عامہ ‘‘ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید کی یہ تصنیف پاکستان میں ابلاغ عامہ پر وسیع معلومات کے ساتھ ساتھ ابلاغ عامہ کے نصابی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ کتاب کے عنوان سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ کتاب الیکٹرانک میڈیا یا ٹی وی چینلز اور اینکر پرسنز، مائک اور موبائل سے بحث کرتی ہے ، یہ ذرائع جدید ذرائع ضرور ہیں لیکن صحافت کی ابتدا تو پرنٹ میڈیا تھی اور آج بھی پرنٹ میڈیا کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اخبارات ماضی کے مقابلے میں زیادہ شائع ہورہے ہیں، ٹی وی چینلز کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ کتاب کے سرورق پر مختلف ٹی وی اینکرز کے ساتھ اگر پرانے اخبارات کی تصویر یں بھی شامل ہوجاتیں تو ٹائیل میں چار چاند لگ جاتے۔

ڈاکٹر شبیر خورشید کی یہ تصنیف ابلاغ عامہ کے موضوع پر تفصیلی مواد فراہم کرتی ہے۔ کتاب 16ابواب میں تقسیم ہے،ہر باب کو ذیلی موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جیسے پہلا باب ’ ابلاغِ عامہ مقاصد اور عمل‘ میں ابلاغِ عامہ کی تعریفیں، آواز اور ابلاغ ، ابلاغ کی اہمیت، ابلاغ کیوں ضروری ہے، ابلاغ کی اقسام، صحافت اور ابلاغ عامہ میں فرق، مقصداور صحافت کے ذرائع شامل ہیں۔ باب2 ’جنوبی ایشیا اور مغرب میں ابلاغ عامہ کا ارتقاء‘سے بحث کرتا ہے ، جس میں برصغیر میں ابلاغ کے ارتقاء کی تاریخ، ہندوستان کی مقامی زبانوں میں ابلاغ ، شمالی ہندوستان میں ابلاغ، پاکستان کے خطوں میں ابلاغ کا آغاز، ہندوستان کے دیگر علاقوں میں ابلاغ کا ارتقاء، مسلم ابلاغ ، 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلم ابلاغ شامل ہے۔ باب3 ’ابلاغِ عامہ کا بنیادی تصور‘کی تفصیل بیان کرتا ہے جس میں اقسام، اخبارات، کتب و پریس، طباعتی ذرائع، بصری ذرائع ابلاغ، خصوصیات، رسائل، مقاصد، میڈیا کے اثرات عمرانیات پرشامل ہیں۔ باب4’ذرائع ابلاغ اور ان کی اہم اقسام ‘ پر مبنی ہے ۔اس باب میں رسائل ، اخبارات ویڈیو گیمز، ریڈیو، فلمی صنعت، ٹیلی ویژن اور اس کی اہمیت، انٹر نیٹ اس کی تعریف شامل ہے۔ باب5 ’انٹر نیٹ جدید ابلاغ‘ بھی انٹر نیٹ سے متعلق مواد فراہم کرتا ہے۔ باب6’ابلاغی عمل اور اس کی ترقی‘سے بحث کرتا ہے۔ باب7’رائے عامہ‘کے بارے میں اس کی تعریف، تشکیل، اثرات اور تاریخی پس منظر ، مقاصد، طریقہ کار، ذرائع پروپیگنڈہ اور اس کے مقاصدکی وضاحت کرتا ہے۔ باب8’صحافت و میڈیا ، قیام پاکستان‘پر تفصیلی مواد فراہم کرتا ہے۔ اس میں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلم صحافت، ہندوستان میں مسلم صحافت، مختلف اخبارات کا ذکر ہے، سرسید احمد اور سائنٹیفک سوسائیٹی کی خدمات، مولانا ظفر علی خان ، محمد علی جوہر، منشی محبوب عالم، حمید نظامی، عنایت اللہ، میر خلیل الرحمٰن کا صحافت میں کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ باب9’قیام پاکستان کے بعد ہماری صحافت کا قومی یکجہتی میں کردار‘ کے موضوع پر تفصیلی مواد فراہم کرتا ہے۔ باب10’صحافتی قوانین اور آزادیِ صحافت‘سے متعلق ہے۔ باب11’ گروہی اور پارٹی سیاست میں ابلاغ عامہ (میڈیا) کا کردار‘سے بحث کرتا ہے اس میں مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ، میڈیا کا سیاسی جماعتوں کی الیکشن مہم میں جانبداری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کا پاکستان میں کردار اور 2013ء کے انتخابات اور سوشل میڈیا کے کردار کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ باب12’اسلام اور ابلاغ عامہ کا تصور‘سے بحث کرتا ہے ۔ اس میں عرب سیاسی حالات اور ابلاغ اسلامی کے بارے میں مواد فراہم کیا گیا ہے۔ باب13 ’اداریہ نگاری‘ کے بارے میں ہے۔ اہمیت ، نقائص، اوصاف، افادیت کا ذکر ہے۔ باب 14’ فیچر نگاری ، کالم نگاری‘کی وضاحت کرتا ہے۔ اس کا مفہوم، اقسام، خصوصیات،کالم نگاری کیا ہے، مختلف کالم نگاروں کی رائے درج ہے ، کالم اور خبر کا فرق بیان کیا گیا ہے۔ باب15 ’تبصرہ نگاری ‘ کے بارے میں ہے۔تبصرہ نگاری ادب کی اہم صنف ہے ۔ اس میں مکتوب نگاری اور ایڈیٹر کے نام خطوط کا پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مراسلات کی اقسام بھی اس باب کا حصہ ہیں۔ کتاب کا آخری باب16 کتاب میں استعمال شدہ ’ اصطلاحات ‘پر مبنی ہے ۔

ابلاغ عامہ کے موضوع پر اردو میں ایک اچھی اور کامیاب کوشش ہے۔ مصنف نے عام روایت سے ہٹ کر یہ کام کیا کہ کتاب کے بارے میں نہ تو کسی دوسرے شخص کی رائے یا تبصرہ جسے عرف عام میں پیش لفظ کہتے ہیں شامل کیا اور نہ ہی از خود کتاب کا تعارف تحریر فرمایا جس سے یہ وضاحت ہوجاتی کہ مصنف نے یہ کتاب عام قاری کے لیے لکھی ، اس کے ذہن میں ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے یا عام قاری یا کچھ اور ۔

3سوال نمبر

ابلاغ کی اقسام بیان کریں

جواب۔۔

ذرائع ابلاغ کی اقسام:

ذرائع ابلاغ کی بے شمار اقسام ہیں اور روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ذرائع ابلا غ میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں ،اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اس کو میڈیا کہتے ہیں،اس میں پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔

(1مطبوطہ ذرائع ابلاغPrint media :تحریر کا آغاز انسان کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے اور تحریر و تصویر کو اپنے خیالات کے اظہار اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے زمانہ قدیم سے استعمال کیا جا رہا ہے۔[11]

قرآن جس میں فرمایا گیا: وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ[12]

“اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر سب کچھ لکھ دیا”

حضرت موسیؑ کو پتھر کی تختیوں پر احکام شریعت عطا کی گئی موہن جودڑو اور ہڑپہ کے نوادرات سے تحاریر ملی ہیں ۔ بابل اور نینوا کے شہروں کی کھدا ئی کے دوران تحریری اجزاء ملے ہیں۔ دنیا میں خیال قلمبند کرنے کے لیے تصویر اور تحریر کا استعمال کیا گیا ۔ پھر وقت کے ساتھ تحریروں کو چھاپا جاتا ۔ یوں حروف کی چھپائی شروع ہوئییورپ ،براعظم پاک و ہند میں۱۵۵۰ء کے بعد چھاپہ خانہ اور یہ ترقی کرتے کرتے اخبارات اور رسائل کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔[13]

اخبارات و رسائل وغیرہ چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں اور ابلاغ کا بہترین ذریعہ بھی۔

الیکٹرونک میڈیا:

ابلاغ کی دوسری مؤثر ترین صورت الیکٹرونک میڈیا ہے ۔ یعنی ایسا ابلاغ جو برقی تاروں کے ذریعےپیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے ۔۱۸۵۷ء سے اس کا آغاز ہوا اور میں۱۰۲۷ءمیں ٹیلی ویژن کی صورت میں واضح شکل سامنے آئی اور الیکٹرونک میڈیاکا سفر ٹیلی گرام ،ٹائپ رائٹر، ریڈیو ، ٹیلی فون ،ٹیلیویژن اور کمپیوٹر پر ختم نہیں ہوا موبائل ،انٹرنیٹ اورI.Pad کی صورت میں جا ری و ساری ہے۔اور یہ ابلاغ کے تیز ترین اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ ہیں جو لمحوں کے اندر خبر کو پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں جسکی وجہ سے پوری دنیا گلوبل ویلج میں بدل چکی ہے۔الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر عمومی اضافہ کیا ہے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کے اندر انٹرنیٹ سب سے زیادہ اہم ایجاد ہے ۔[14]

عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ کی اقسام :

آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا میں نت نئی ایجادات ،روزمرہ کا معمول بن گیا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے تمامشعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کو ہر امیرغریب کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔

ٹیلی ویژن :

دسویں صدی کی ایجادات میں ٹیلی ویژن سب سے موثر اور اہم ایجاد ہے جس کی وسیع اثر انگیزی سے اختلاف ممکن نہیں۔ ٹیلی ویژن نے جہاں لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر معمولی اضافہ کیا وہاں ان لوگوں کی زندگیوں میں مغربی تہذیب و تمدن کو بھی بہت زیادہ فروغ دیا ہے ۔ [

ریڈیو:

ویڈیو فلم اور ٹیلی ویژن جدید ذرائع ابلاغ ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں ،ریڈیو پروپگنڈہ کے لیے اہم سمجھا جاتا رہا ہے، آ ج بھی ریڈیو ایک مؤثر ذریعہ ابلاغ ہے۔[16]

انٹرنیٹ:

انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی ایک ترقییافتہ شکل ہے اور ایک انتہائی تیز رفتار سروس بھی ،آج کے دور کی اہم ٹیکنالوجی کمپیوٹر کا ایک عالمگیر نیٹ ورک ہے جو مختلف انداز میں بے شمار معلو مات مہیا کرتا ہے۔ میل کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک متین اشکال تصاویر چند سیکنڈ میں پہنچ جاتی ہیں ۔[17]

دور جدید مواصلات میں انقلاب کا دور ہے پیغامات کی آزادانہ اور فوری ترسیل انٹرنیٹ کے بنیادی نکات ہیں۔[18]

اخبارات و رسائل:

ذرائع ابلاغ میں اخبار منفرد حیثیت کی حامل ہے،ان کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔اخبار صرف خبریں ہی شامل

نہیں کرتا بلکہ ان کی تشریح بھی کرتا ہے،رسائل و اخبارات چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں ان کے ذریعے عوام تہذیب سے واقف ہوتے ہیں ،نیز تعلیم و تربیت،اصلاح و تبلیغ زیادہ تر انہی سے ہوتی ہے،اِن کے ذریعے فاصلے سکڑ جاتے ہیں،دور دراز کی اقوام ایک دوسرے کے قریب آ جاتی ہیں۔[19]

تاریخ میں دیکھیں تو ابلاغ کے لیے تحریر کا سہارا ہی لیا گیا ، تاریخ میں سب سے پہلے قرآن پاک تحریری صورت میں لکھا گیا اور قرآن میںبھی آتا ہے : اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى[20]

کتابیں:

کتاب کا لفظ کتب سے نکلا ہے اور انگلش میںbookکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔عربی میں صحیفہ کہتے ہیں ۔کتاب دنیا میں مختلف نظریات کے پرچار اور علم و ادب کے پھیلانے میں اہم مقام رکھتی ہے ۔دنیا میں جتنے قبیلے وجود میں آئے یا آئندہ آئیں گے کتاب انہیں محفوظ رکھنے اور مستقل دستاویزات کی حیثیت دینے میں ہمیشہ اہم مقام رکھے گی۔

ذرائع ابلاغ کی اہمیت:

ذرائع ابلاغ کی اہمیت زندگی کے ہر شعبےمیں مسلمہ ہے۔ہمیں سیر و تفریح اور خبریں ملتی ہیں بلکہ معلومات کا وسیع سمندر بھی مہیا ہوتا ہے۔ mediaایک آئینہ ہے جس کے ذریعے ہماری سوسائٹی منعکس ہو کر ہمارے سامنے آتی ہیں بلکہ یہ سوسائٹی کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،ابلاغ کے ذریعے ہم دیگر اقوام سے متعارف ہوتے ہیں، ان کی تہذیب اور روایت کے بارے میں جانتے ہیں،ابلاغ عامہ کے ذریعے سے جب کوئی بُرائی پھیلتی ہے تو اس کے ذریعے بچنے کی تدابیر بھی ابلاغ عامہ کے ذریعے کی جاتی ہیں ۔[21]

ابلاغ عامہ کے ذریعے قوم کی تعمیر و تشکیل کے نظریات فروغ دئیے جا سکتے ہیں۔ابلاغ عامہ کی ضرورت ،انسان کو معاشرے کی تنطیم کے ساتھ ساتھ محسوس ہوتی لیکن اس دور میں جب کتاب ،اخبار ،ریڈیو فلم، ٹیلی ویژن جیسے ذرائع موجود نہ تھے،تقریر اور ڈرامہ ان میں بھی تقریر کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔[22]

اسلام کا نظریہ ابلاغ:

اسلام میں ذرائع ابلاغ کی دینی ضرورت و اہمیت کی حسب ذیل بنیادیں ہیں۔

(۱)دیناسلامپوریدنیااورتمامنوعانسانیکےلیےہے،اللہتعالیٰتمامکائناتکاخالقومالکہےاوراسکائناتکاذرہذرہایکذاتکیگواہیدیتاہے

(2) اس دین کو جو قبول کرتا ہے اس کے ذمہ اس پیغام حق کو پہنچانا دوسروں تک بھی واجب ہے۔

(3) آخری نبیؐ اور ان کے اصحاب اور ان کے بعد آنے والے داعیوں کا کام دین کو لوگوں تک پہنچاناہے، مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ[23]

سلام کا پیغام انسانیت تک نہ پہنچانا مصیبت کا باعث ہے اور ایک طرح سے یہ کتمان ِعلم کے حکم میں آتا ہے،قرآن کریم میں ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا مفہوم ادا کرنے کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،اسلام میں ابلاغ کے لیے جو چیزیں بنیاد ہیں ان میں حکمت ،عمدہ نصیحت ،جدال احسن ،فریق مخالف کے معبودوں کو بُرا نہ کہنا،نرمی اور تدریج شامل ہیں۔

حکمت:

دعوت دین میں دو چیزیں محفوظ رہنی چاہیں ایک حکمت، دوسری عمدہ نصیحتیعنی بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت ،استعداد اور حالات کو سمجھ کر موقعہ محل کے مطابق بات کی جائے۔[24]

موعظۃ حسنہ

نصیحت ایسے کی جائے جس سے دلسوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو اور سننے والے کو ایسے محسوس ہو کہ داعی کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے تڑپ موجود ہے اور حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ [25]

جدال احسن:

دعوت کے لیے اور ابلاغ حق کے لیے جدال ضروری چیز ہے لیکن حصول بحث و مباحثہ نہ ہو۔[26]

مذہبی رواداری:

ابلاغ کا ایک طریقہیہ بھی ہے کہ نرمی سے بات سمجھائیں سختی نہ کی جائے اس سے اصلاح کی بجائے مزید خرابی پیدا ہو گی ۔حق کی طرف کیا جانے والا ابلاغ حکمت و تدبر کے ساتھ ہو۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ[27]

اس آیت سے ظاہر ہے کہ مبلغ کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ نرم مزاج ہو اگر سخت ہو گا تو لوگ دور بھاگیں گے، نبیؐ بھی شفیق اور رحیم تھے.

4سوال نمبر

ابلاغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی وضاحت کریں

ایک فرد معاشرے میں رہتا ہے اور اس کے چاروں طرف مواصلات ہوتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روزمرہ مواصلات کے بغیر بھی سرگرم یا حتی کہ معمولی مواصلات کے بغیر نہیں کرسکتا۔ صورتحال اور گفتگو کی نوعیت پر منحصر ہے ، مواصلات الجھن یا تنازعہ کا سبب بن سکتے ہیں۔

ہدایت نامہ

مواصلات میں رکاوٹیں نااہلی ، عدم تحفظ ، مجبوری ، کھلی یا پوشیدہ جارحیت یا فریقین کی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ بات کرنے والے کو یہ واضح کرنے کے لئے کہ آپ کس چیز پر توجہ دینا چاہتے ہیں ، آپ کو کئی عالمی اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ اہم بات سے شروع کریں af دور دور سے ہونے والی بات چیت ہی شاید ہی کسی مسئلے کے حل کا باعث بنے۔ باقی کے لئے ، صورتحال کے مطابق آگے بڑھیں۔

اگر آپ کسی جان پہچان کے دوران مواصلات کی راہ میں حائل رکاوٹ کو دور نہیں کرسکتے ہیں تو ، خلوص کی تعریف ، نوٹ ، دعوت کے ساتھ شروع کریں۔ یقین نہیں ہے کہ آپ اپنی پہلی تاریخ کو کیا بات کریں گے؟ سنیما ، تھیٹر اور نمائش میں کسی جذبے کو مدعو کرنے کا موقع لیں۔ مشترکہ طور پر تجربہ کار جذبات ابلاغ شروع کرنے کا موقع بن جاتے ہیں۔ سنیما چھوڑنے کے بعد ، آپ نے جو فلم دیکھی اس کے اپنے تاثرات بانٹیں۔ اس سے عام موضوعات پر بلا روک ٹوک آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔

اگر آپ کو کچھ واضح سوالات پوچھنے کی ضرورت ہو تو (حکام سے ، پریس کانفرنس میں ، استاد کے پاس) ، واضح طور پر انھیں بتائیں۔ “معذرت ، کیا آپ مجھے کچھ وقت دے سکتے ہو” کے الفاظ سے شروع نہ کریں۔ معذرت خواہانہ طور پر ، آپ نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو بات چیت کرنے والے سے نیچے رکھا ، زیادہ تر معاملات میں وقت نکالنے کی درخواست کو متنازعہ طور پر سمجھا جاتا ہے ، اور ذرہ کے ساتھ الفاظ کا جواب (“کیا آپ” بھی) منفی جواب نہیں ہوسکتا ہے۔

تنازعہ کی صورت میں ، بات چیت کرنے والے کے برتاؤ کے باوجود ، اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ اپنے آپ کو فکری طور پر اس سے بالاتر نہ رکھیں ، کسی بھی معاملے میں اس کی دھمکی یا توہین نہیں کرتے ہیں۔ اشتعال انگیزی سے دستبردار نہ ہوں فرد کے پاس جائیں۔

 کسی تنازعہ میں ، کسی خاص موضوع سے باز نہیں آتے۔ خاموشی سے بات چیت کرنے والے کو مسئلے کا نچوڑ بیان کریں۔ اگر آپ اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں تو بحث کریں۔ دوسرے لوگوں کے دلائل سننے کا طریقہ جانیں ، مداخلت نہ کریں۔ اگر بات چیت کرنے والے سوال سے باز آجاتے ہیں تو ، گفتگو کو صحیح طریقے سے واپس کریں۔ روح پر عمومی الزامات نہ لگائیں: “آپ ہمیشہ کوڑے دان کو نکالنا بھول جاتے ہیں” یا “آپ ماتحت افراد کی رائے کو کبھی نہیں سنتے ہیں۔” آپ کا مقصد ایک خاص مسئلے کو سمجھنا ہے

حصول انصاف کی فراہمی کیلئے پراسیکیوشن کا محکمہ بہت اہم ہے۔اس ادارے کا مقصد عوام کو جلد انصاف کی فراہمی اور بے گناہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنا ہے۔بنیادی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حصول انصاف کی راہ میںحائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں دلچسپی لے عمومی طور پر لوگ انصاف کے حصول میں پولیس اور عدالتوں کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی شعبہ استغاثہ کے متعلق معلومات ہوتی ہیں۔پراسیکیوشن کا نظام انصاف کا تیسرا اہم ستون سمجھا جاتاہے یہ پولیس اور عدالت کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے پنجاب کریمنل پراسیکیوشن سروس ایکٹ ایک اہم قانون ہے اگرچہ اس ادارے اور قانون کی مدت کچھ زیادہ نہیں مگر اس کی کم آگاہی کی وجہ سے بھی انصاف کا حصول ناممکن ہوجاتاہے اس شعبہ کی اہمیت کے پیش نظر شہریوں کو اپنے قانونی حقوق کی بہتر فراہمی کیلئے استغاثہ کی بہتر اور موثر طور پر فراہمی کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔ کمزور اور غیر تربیت یافتہ وکلائے استغاثہ کا مسئلہ ہمیشہ حصول انصاف کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتاہے اس رکاوٹ کے باعث انصاف کے بنیادی تقاضے بھی متاثر ہوتے ہیںکیونکہ استغاثہ کی کمزوریوں کے باعث ملزمان کاسزا سے بچ جانا ریاست اور انصاف کی ساکھ کو متنازعہ بنا دیتاہے جہاں تک استغاثہ کے شعبہ میں کمزوری کا تعلق ہے ان میںوکلاء اور استغاثہ کی اپنے کام اور بنیادی دائرہ کار سے عدم واقفیت،وسائل کا فقدان، بنیادی تربیت کی عدم فراہمی ،تفتیش کے جدید طریقوں سے لا علمی وغیرہ شامل ہیں اسی طرح میڈیکولیگل کے شعبہ پر عدم توجہی وکلائے استغاثہ پولیس اور عدالتوں کے درمیان باہمی ربط کا فقدان ،مالیاتی اور انتظامی امور میں ناتجربہ کاری قابل توجہ اُمور ہیں۔ انصاف کے حصول کیلئے حقیقت پر مبنی ایف آئی آر درج کرانا مشکل ترین کام ہے جبکہ جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا نہایت آسان ہے کیونکہ سیاسی افراد کی بالادستی جھوٹی ایف آئی آر کاٹنے کا اہم سبب بنتی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں پراسیکیوشن کا پولیس پر چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے یہ محکمہ نا صرف تفتیش میں پولیس کی معاونت کرتا ہے بلکہ اس کے پاس تفیش کا دائرہ کار اور اختیار بھی وسیع ہوتاہے۔مگر ہمارے یہاں ابھی تک ایسا کچھ ممکن نہ ہوسکا ہے ۔ پراسیکیوشن کا نظام پولیس اور عدالت کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ضروری ہے کہ ہم ان اداروں میں موجود ادارہ جاتی میکنزم کو بھی شفاف اور لوگوں تک ان کی رسائی کے عمل کو یقینی بنائیں ۔ہماری ترجیحات کا اہم نقطہ یہ ہونا چاہئے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے اور قصور وار سزا سے بچ نہ سکے۔

 

 

5سوال نمبر ۔

ماڈل سے کیا مراد ہے  ابلاغی ماڈلوں کا استعمال اور فوائد بیان کریں ۔

جواب۔

دور جدید میں ذرائع ابلاغ کے لئے دو الفاظ عام استعمال کئے جا تے ہیں۔ایک پرنٹ میڈیا جس میں اخبارات، ر سائل ، ما ہنامے، ڈائجسٹ وغیرہ شامل ہیں جبکہ دوسرا الیکٹرانک میڈیا جس میںٹیلی ویژن، انٹر نیٹ،مو بائل وغیرہ شامل ہیں۔  پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا معاشرتی تعمیر میں کیا کردار ادا کر رہا ہے ؟ آیا منفی کردار ادا کر رہا ہے یا مثبت۔۔؟ اگر تو یہ مثبت ،تعمیری کردار ادا کر رہا ہے تو سمجھ لو یہ ذرائع ابلاغ کا اسلامی ماڈل ہے اگر یہ معاشرے میں منفی،تخریبی کردار ادا کر رہا ہے تو یہ ذرائع ابلاغ کا ابلیسی ماڈل ہے ۔  اس کی تفصیل جا نتے ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ سب سے پہلے نیکی کی اشاعت:ذرائع ابلاغ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک نیکی کی اشاعت و فروغ ہے ،قرآن مجید نے اس کو ’’ امر بالمعروف‘‘ اور ’’ نہی عن المنکر ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جس کو (سورہ آل عمران :۱۱۰)میں فر مایا  ’’  تم بہترین امت ہو جو سب لو گوں ( کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ،تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ‘‘ دوسرے مقام پر فر مایا ’’اور تم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہو نی چا ہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ‘‘ (آل عمران:۱۰۴) کیونکہ برائی کی اشاعت خود اتنی بھیا نک ہے کہ وہ نیکی کو پھلنے پھولنے سے رو کتی ہے اور نیکی کے راستے میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے ۔ حضور ﷺ نے اس چیز کی اہمیت کو یوں فرمایا ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تمہیں نیکی کا ضرور حکم دینا ہوگا  اور برائی سے ضرور روکنا ہو گا ورنہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے پھر تم اسے پکارو گے اور تمہیں جواب نہیں آئے گا ‘‘(ترمذی)دوسری حدیث میں برائی کو روکنے کے لئے انتہائی وضاحت سے فر مایا ’’ برائی کو ہاتھ سے روکے نہیں تو زبان سے اگر یہ بھی استطاعت نہیں تو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ‘‘  شارحین نے حدیث کی وضاحت میں فر مایا کہ گھر کا سربراہ ہاتھ سے روکے ،اسلامی مملکت کا سربراہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے برائی کو بزور قوت روکے ۔ دوسرا فواحش و منکرات کا سدّ باب:ذرائع ابلاغ کے اسلامی ماڈل کے مقاصد میں فواحش و منکرات کا سدّ باب ہو نا چا ہیئے نہ کہ فروغ۔ ذرائع ابلاغ میں جہاں نیکی کی اشاعت ضروری ہے وہاں فواحش و منکرات کا سدّ باب کر نا بھی ضروری ہے ۔فحاشی ایسی گفتگو اور ایسا عمل ہے جو انسان کو بر ے اعمال کی جا نب راغب کرے ۔اللہ نے قرآن میں فرمایا ’’ اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جائو ( خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پو شیدہ ہوں ‘‘ (الانعام: ا۱۵) تفسیر ضیاء القرآن میں لکھا ہے ’’ فواحش ان اعمال اور افعال کو کہتے ہیں جو حد درجہ قبیح ہوں یہاں کسی ایک برائی سے منع نہیں کیا گیا بلکہ فواحش جمع کا لفظ ذکر کر کے ہر قسم کی قولی و فعلی برائیوں سے منع کیا گیا ہے بلکہ ان کے قریب تک پھٹکنے سے منع کیا گیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطن سے تعلق رکھتی ہوں ۔اب جو لوگ فواحش کو مختلف طریقوں سے پھیلاتے ہیں ان کے انجام کو قرآن نے بیان کیا ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے  ’’ بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک  عذاب ہے ،اور اللہ ( ایسے لوگوں کے عزائم کو ) کو جانتا ہے اور تم نہیں جا نتے ‘‘  دور حاضر میں  ذرائع ابلاغ نے فحاشی ،عریانی اور بے حیائی کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ مردو زن کا آزادانہ اختلاط،بے پردگی،بوس و کنار،ڈانس کے مقابلے، بے راہ روی پر اکسانے والے سوالات و جوابات وغیرہ۔تیسرادرست اور ثقہ خبرکا ابلاغ:ذرائع ابلاغ کے اسلامی ماڈل کا تیسرا مقصد خبر کی درستی اور ثقاہت ہے اس حوالے سے سورہ الحجرات میں بڑی واضح ہدایت موجود ہے ۔ارشاد فر مایا ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو  (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (نا حق) تکلیف پہنچا بیٹھو ،پھر تم اپنے کیئے پر پچھتاتے رہ جائو ‘‘ اور سورہ النساء میں مزید وضاحت کے ساتھ فر مایا ’’اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں  اور اگر وہ( بجائے شہرت دینے کے ) اسے رسول ﷺ اور اپنے میں سے صاحبان ِامر کی طرف لٹا دیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں  اس ( خبر کی حقیقت) کو جان لیتے ‘‘  اس آیت کا شان نزول جنگی معاملات کے حوالے سے بے بنیاد خبروں اور غلط افواہوں کے پھیلائو سے ہے جس پر کار بند رہنے کی دور حاضر میں اشد ضرورت ہے ۔ لہذا اگر ہم ابلاغ کے اسلامی ماڈل کو چند نکات میں بیان کرنا چاہیں تو وہ  ہیںـ٭احترام انسانیت  ٭نیکی کی اشاعت ٭ صحیح معلومات کا ابلاغ  ٭تجسس سے گریز   ٭صالح معاشرے کے قیام میں تعاون ٭ اخوت و یکجہتی کے قیام میں معاونت وغیرہ وغیرہ۔اسلامی ماڈل کے برعکس معاشرے میں فتنہ و فساد، بے مقصدیت،فحاشی اور بد خصلتوں کو فروغ و مستحکم کر نے میں ابلیسی ماڈل  مصروف عمل ہے  اس کو سمجھنے کے لئے قرآن میں کافی اور واضح ہدایت مو جود ہے دور حاضر میں جس طرح صنف نازک کو عریاں کر کے ہر شعبہ زندگی میں پیش کیا جا رہا ہے یہ آج کا فتنہ نہیں بلکہ یہ وہ چال ہے جو شیطان  نے سب سے پہلے چلی اور آدم  و حوا کو بے لباس کرا دیا ۔ قرآن نے شیطان کی اس چال کو متعدد مقامات پر بیان کیا ہے ارشاد باری تعالی ہے ’’  اے اولاد آدم ! ( کہیں) تمہیں شیطان  فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا ،ان سے ان کا لباس اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرمگا ہیں دکھا دے ۔ بے شک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں ( ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا ( رہتا) ہے  جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ بے شک ہم نے شیطا نوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے  جو ایمان نہیں رکھتے ‘‘ ( الاعراف: ۲۷)  شیطان اپنی وسوسہ اندازیوں سے پہلے لوگوں کو لباس تقوی و خشیت سے محروم کرتا ہے جب یہ باطنی لباس اتر جا ئے تو وہ حیا ختم ہو جاتی ہے جو اس ظاہری لباس کی محرک ہے ،پھر یہ ظاہری لباس ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے  پھر ماڈرن اور مہذب ہونے کا یہ شیطانی خمار ذہن میں شیطانی جڑ پکڑتاہے ،پھر فیشن اسکو سہارادیتا ہے اور وہ لباس کی تراش خراش میں نت نئے ڈیزائن پیدا کرتا ہے جو پہن کے بھی گویا عریاں نظر آتے ہیں لوگ۔ شیطان نے بنی نوع انسان کو گمراہ کرنے کا طریقہ بتایا  اور قرآن نے اس طریقے کو نقل کر کے بنی نوع انسان کو شر سے بچانے کے لئے واضح سامان مہیا فر ما دیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے  ’’ اس (ابلیس )نے کہا  پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے ( مجھے قسم ہے کہ) میں (بھی) ان ( افراد بنی آدم کو گمراہ کر نے) کے لئے تیری سیدھی راہ  پر ضرور بیٹھوں گا ( تا آنکہ انہیں راہ حق سے ہٹا دوں) پھر میں یقینََا ان کے آگے سے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آئوں گا ،اور (  نتیجتََا )تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا ‘‘ (الاعراف:۱۶۔۱۷)  قرآن نے شیطان کی نفسیات کو واضح کر دیا ہے کہ کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے انسان پر حملہ آور ہو سکتا ہے ۔ لہذا اگر اسلامی حکو مت ، یا معاشرہ ذرائع ابلاغ سے تعلیمی ، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل کر نا چاہتا ہے تو اسے ذرائع ابلاغ کا  اسلامی ماڈل اپنا نا ہو گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *