AIOU Course Code 204-2 Solved Assignment Assignment Autumn 2022

Level

Matric

Course

Urdu for daily use

Semester

Autumn 2022

Course Code

204

Assignment no. 2

سوال نمبر:ا مکالمہ لکھنے کے اصول بیان کر میں نیز ملکی حالات پر دو بزرگوں کے درمیان مکالم لکھیں۔

جواب: مکالمہ:

دوافراد کی آپس کی انتگو یا بات چیت کو مکالمہ کہتے ہیں۔ دوافراد کی آپس کی گفتگو یا مکالمے سے اسکی شخصیت ، اس کے ذہن اور اسکی صلاحیت کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے ۔ یعنی مکالمہ دراصل ایک انسان کی پہچان کا نام لفظوں کا استعمال ہی انسانوں کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتا ہے ۔انسان مکالمے کے ذریعے جتنی وضاحت تفصیل اور سہولت سے اپنی بات یا مقصد دوسروں تک پہنچا سکتا ہے ۔ دیگر جاندار اس سے محروم ہیں اور اس کی برتر مخلوق ہونے کی ایک وجہ یہی مکالمہ کی صلاحیت ہے۔

مکالمہ لکھنے کے اصول:

مکالمہ لکھتے وقت درج ذیل باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

1۔ مکالمہ  مختصر ہونا چاہیے ۔

مکالمہ کی زبان آسان ہونی چاہیے۔

3۔ مکالمے میں مناسب رموز و اوقاف کا استعمال کرنا چاہیے۔

4۔ مکالمہ لکھتے وقت غیر مناسب الفاظ سے گریز کرنا چاہیے۔

5۔ مکالمہ میں عمراور ر ہے کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

ملکی حالات پر دو بزرگوں کے درمیان مکالمہ:

بزرگ 1 :

السلام علیکم ۔یہ درمیاں ! ۔ سنا ہے کیا حال ہے ۔

بزرگ 2:

وعلیکم امام اصفرمیاں ۔ میں ٹھیک ٹھاک ہوں ۔ آپ بتائیے آپ شب و روز کیسے گزررہے ہیں؟

بزرگ1:

بس شکر ہے جو وقت گزر جائے ۔اے وہ فرمیاں ! آؤ ذرا تھوڑی دیر کے لئے بازار چلیں ۔ آج کل ملک کے حالات سے میں بہت پریشان ہوں

بزرگ 2:

چلتے چلتے ہیں لیکن بازار جا کر بھی انسان کیا کرے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔

بزرگ 1:

ہاں میاں میں تو بالکل درست فر مایا ٹرانسپورٹ دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے اور اس کا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے

 بزرگ 2:

صحیح کہتے ہو نہ فرمیاں ۔ ۔ غریب غریب تر ہے اور میرا میر تر ہے ۔ دونوں ہاتھوں سے خزانے لوٹے جارہے ہیں۔ پچھلے ہفتے پٹرولیممصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث تمام اشیاء کے ریس بڑھے گئے ہیں۔

بزرگ1۔

بس بی چپ ہی بھلی ! اب تو سوروپے کا نوٹ دیکھتے ہی دیکھتے مہنگائی کے نجوم میںیوں گم ہو جا تا ہے جیسے گرنے کے سر سے سینگ ۔

بزرگ2۔

 بس پس جائیں گے مہنگائی کی چکی میں ۔

بزرگ1۔

ہاں البتہ کفایت شعاری بہت اچھی چیز ہے اور یہ جو کہتے ہیں کہ کفایت غریبوں کی ٹکسال ہے وہ بات بالکل سچ ہے ہمیں کچھ نہ بھی ضرور بچانا چائیے ۔

رکھی ہوئی چیز کا م آ ہی جاتی ہے چاہے وہ زہر ہی کیوں نہ ہو۔

بزرگ2۔

اور ادھر سے بلوں کی نجر ماراللہ میری تو یہ ابھی پچھلے ماہ ہم نے بجلی کا بل 5 ہزار روپے ادا کیا تھا اور اب پھر سولہ سو کا آیا رکھا ہے اببتائیں ہم کیا کر یں ؟

بزرگ1۔

بالکل بجافر ما یا سندرمیاں ۔اب تو صرف اللہ ہی : مارا مددگار ہے۔

بزرگ 2:

اب تو اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ خود ہمارے حال پر رقم کرے اور کوئی ایسا حکمران نیے ملک وقوم کا مخلص ہو ۔ حکمران تو بس اپنی ہی جیبیں بھرنے کی فکر میں رہتے ہیں ۔

بزرگ 1:

50٪

IMF

ہاں جی ! وہ تو غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں اورسے قرضے لے کر کھا جاتے ہیں اور سارے کا سارا ہو تے عوام پرپڑ تا ہے ۔ جبکہ قرض کی رقم کابھی عوام پر خرچ نہیں ہوتا ۔

 

بزرگ 2:

بس ! اب اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ عوام کیلئے کوئی مسیحا جیسے۔

بزرگ 1:۔

چلواللہ مالک ہے ۔ چلو اب گھر چلتے ہیں ۔ نماز بھی پڑھنی ہے ۔

بزرگ 2:۔

ٹھیک  ہے۔ چلیے ۔

سوال نمبر :۲ایک غیر ملکیسیاح اور مقامی دکاندار کے مابین ہونے والی گفتگو بیان کر میں۔

جواب: مکالمہ

وکاندار

آئیں صاحب جی! آپ کو بہت اچھا کپڑا دکھا تا ہوں ایسا کپڑا اور کسی دکان پر نہیں ملے گا۔

غیر ملکی سیاح:

: آؤ بھئی ۔ حسن ۔اس دکان پر بھی دیکھ لیتے ہیں شاید اچھا اور ستا کپر امل جائے ۔

 

 

وکاندار

آئے آئے تشریف لائے ۔ یہ بالکل نیا ڈیزائن ہے

غیر ملکی سیاح

: وہ جو دوسرے خانے میں لال کپڑے کے ساتھ سانی رنگ کا کپڑا ہے وہ دکھائیں۔

وکاندار

وہ جاپانی کپڑا ہے ۔

غیر ملکی سیاح

کوئی خاص تو نہیں کپڑے کی قیمت فی میٹر کے حساب سے کیا ہے؟ ہمارے ملک میں اس طرح کا کپڑا کوئی بھی نہیں پہنتا۔

وکاندار

دام کی فکر نہ کر میں بس آپ کپڑا پسند کر یں ۔ آپ کو کپڑا پسند آ نا چاہئے

غیر ملکی سیاح

بھائی جان دام تو پتا ہونے چاہئیں ۔ پتہ تو چلے کہ کیا قیمت ہے۔

وکاندار

اس کپڑے کی قیمت اوروں سے فی میٹر 35 روپے لی ہے ۔ آپ ہمارے ملک میں مہمان ہیں تو آپ سے تیس  روپے فی میٹر کےحساب سے لوں گا۔

غیر ملکی سیاح

 رہنے دیں اتنی قیمت کا تو نہیں ہے ۔ وہ سامنے وا! کپر اکون سا ہے ۔

دکاندار

اس کپٹرے کا نام فلالین ہے ۔

غیر ملکی سیاح

اس کے کیا دام ہیں؟

دکاندار

یہ بہت اچھا کپڑا ہے اور پالیس روپے فی میٹر ہے۔

غیرملکی سیاح

کوئی رعایتہو سکتی ہے؟

دکاندار

آپ 35 روپے فی میٹر کے حساب سے دے دیں ۔

غیر ملکی سیاح

چلیں پانچ میٹر ناپ دیں ۔

دکاندار

یہ لیں اور کچھ چاہئے؟

 

غیر ملکی سیات

نہیں بس شکر یہ کل کتنے پیسے ہوگئے؟

دوکاندار

کل 175 (ایک سو پچھتر روپے ) روپے ہوۓ ۔

غیر ملکی سیات:

یہ لیں  دو سوروپے باقی 25 روپے آپ رکھ لینا۔

دوکاند ار

آپ کا بہت شکریہ

غیرملکی سیان:

شکریہ

سوال نمبر 3:ممانی جان کے نام ایک خط لکھیں جو حال ہی میں آپ کے گھر سے واپس گئی ہوں۔

راولپنڈی

2007اکتوبر, 125

پیاری ممانی جان !

 

السلام علیکم ۔ میں بالکل خیر بیت سے ہوں ۔ آپ کا خط ملا یہ علوم کر کے بہت اطمینان ہوا کہ آپ سب خیریت سے ملتان پہنچ گئے ہیں۔ آپ لوگوں کے یہاں ہمارے گھر میں کافی رونق ہوئی تھی ۔ آپ سب کے ساتھ بہت ہی اچھا وقت گزرا ۔ دل چاہ رہا ہے بچوں کے ساتھ پھر سے کھیلوں اور انہیں

یہاں سے جانے ند و بتا ۔ مانی جان آپ کی اور بچوں کی بہت یہ آتی ہے ۔

 اچھا اب اجازت دیں ۔ ماموں جان ، نا ن اور نانی کو سلام ، نی کومیری طرف سے ڈھیر سارا پیار۔

والسلام کی دعاؤں کا طلبگار

بے نام

 

سوال نمبر : ۴جمعہ بازار میں دوخواتین کے درمیان مکالم لکھیں نیز مکالے کی وضاحت بھی کریں۔

جواب: جمعہ بازار میں دوخواتین کے درمیان مکالمہ

 

عائشہ: السلام علیکم۔

شبنم: وعلیکم السلام ۔آپ کیسے ہیں؟

عائشہ: میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟

شبنم: میں بھی ٹھیک ہوں اور گھر میں سب کیسے ہیں؟

 

 

عائشہ

گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں تم سناؤ بیوی اور بچے کیسے ہیں؟

شبنم: اللہ کا شکر ہے۔ ہم سب ٹھیک ہیں ۔

عائشہ میں بہت پریشان ہوں ۔

شبنم: کیوں کیا ہوا؟

عائشہ آج کل تو کسی چیز کو ہاتھ لگانا مشکل ہے، مہنگائی نے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔

شبنم: ہاں مہنگائی نے تو کمرتوڑ دی ہے۔آلو پیاز کا ہی کیا و پچھلے ہفتے 100 روپے دھڑی تھے اور آج 320 روپے کے ہیں ۔

عائشہ مہنگائی نے سب کا براحال کر دیا ہے۔

شینم با لکل درست فرمایا آپ نے مہنگائی ہی اتنی ہے ۔ نہ گوشت کھا سکتے ہیں اور نہ ہی کپڑے پہن سکتے ہیں۔ بس روٹی ہی پوری ہو جائے تو بڑی بات

ہے۔

 عائشہ مہنگائی کو تو آگ لگی ہوئی ہے ۔ غریب غریب تر ہے اور امیر امیر تر ہے ۔ دونوں ہاتھوں سے خزانے اوئے جار ہے ہیں ۔لیکن غریب کے لئے تو

سوکھی روٹی ہی ہے ۔

شبنم: دیکھیں اس میں قصور منافع خوروں کا بھی ہے میں خورد به فروش لوگ اپنی من مانی کاروائی کرتے ہیں ایک روپے کی چیز دس روپے میں فروخت

کر تےہیں۔

عائشه مزدور اور تنخواہ دار طبقہ تو پس کر رہ گیا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

شبنم: دراصل جو قوم اخلاقی لحاظ سے پست ہو جاۓ و بطرح طرح کے مصائب کا از خود شکار ہوجاتی ہے اللہ کرے ہماری قوم کو ہدایت آ جاۓ ۔

عائشہ: آمین! راتوں رات امیر بننے کے جنون نے یہ ساری مصیبتیں کھڑی کر دی ہیں دوسرے قناعت کی دولت جو کہ اصل دولت ہے اسے حاصل کرنےکی کوئی تد بیر ہیں ۔

شبنم: اچھا اب اجازت دیں بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔

عائشہ اچھا اللہ حافظ ۔ میں بھی کچھ سودا سلف خرید کر پاتی ہوں ۔

شبنم: اچھا اللہ حافظ ۔

مکالمے کی وضاحت:

آن کل جمعه بازار اور اتوار بازار کا سلسلہ پاکستان کے ہر شہر میں ہے اس طرح کے بازار میں اکثر عزیز واقارب مل جاتے ہیں ۔اس مکالمے میں عائشہ نامی عورت کی ملاقات اپنی پڑوسن سے ہوتی ہے چونکہ دونوں کی ملاقات تجمع بازار میں ہوئی اس لیے زیادہ تر با تیں مہنگائی کے موضوع پرتھیں۔

سوال نمبر:۵الف) مندرجہ ذیل الفاظ کو جملوں میں اس طرح استعمال کر میں کہ ان کا مفہوم واضح ہو جاۓ ۔

جملے

الفاظ

آج موسم کافی نا ساز گار ہے ۔

ناسازگار

ملک کے موجودہ نا مساعد حالات دیکھ کر اللہ سے دعا ہے کہ وہ نام سب پر اپنا کرم فرمائے ور ہمیں اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔

نا مساعد

ایک شخص نے اس بچے کو چود یا اس پر نجاست کی رطوبت لگی ہوئی تھی ۔

رطوبت

روزانہ ورزش کرنے سے انسان چاق و چو بند رہتا ہے

چاق و بند

دود ھ ا یک زود ہضم غذا ہے ۔

زودہضم

 

(ب) نیچے کچھ جملوں کی خالی جگہ مناسب الفاظ سے پر کر یں ۔

(مہنگائی، سوجن، مرچ مصالح، نسخہ، جہیز آج کل مہنگائی کی شکایت عام ہے۔

1۔ آج کل مہنگائی کی شکایت عام ہے

2۔ شادی کے لیے سب سے بڑی مشکل جہیزکی مانگ ہے ۔

3۔ ڈاکٹروں کا قاعدہ ہے کہ وہ مریضوںکو دیکھ کر فورا نسخہلکھ دیتے ہیں۔

مرچ مصالحے والی چیز صحت کے لیے خراب ہوتی ہے۔

5، حلق میں کافیسوجن ہے اور جلن بھی ہے۔

Download

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *