AIOU Course Code 202-2 Solveed Assignment Autumn 2022

Level

Matric

Course

Pakistan Studies

Semester

Autumn 2022

Course Code

202

AIOU Learning

 

Assignment no. 2

download Button Is given at the end of post

 

سوال نمبر 1: خالی جگہ پر کریں۔

1۔ پاکستان میں مینٹ کے ممبرانوں کا انتخاب چھ (6)سالوں کے لیے کیا جا تا ہے ۔

2۔ صوبے کے گورنر کا تقررصدر مملکتکرتا ہے۔

3۔ درہ ایوان کے قریب کوئٹہ شہر واقع ہے۔

4۔قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں کلدو بندرگا ئیں ھیں ۔

5۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائسراۓ تھے۔

6۔شاہراہ ریشم ہمالیہ پہاڑی سلسلے کو کاٹ کر بنائی گئی ہے۔

7۔ملک کی اعلی عدالت سپریم کورٹ کہلاتی ہے۔

8۔کشمیر جغرافیائی طور پر تین راستوں سے پاکستان سے ملا ہوا ہے۔

9۔آزادی کے بعد پاکستان کی مرکزی حکومت کا قیام کراچی میں عمل میں آیا۔

10۔ترچ میر ہندوکش پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی ہے ۔

سوال نمبر:۲ مختصر جواب تحریر کریں۔

1۔قرارداد پاکستان کس نے پیش کی؟

جواب: ( مولوی فضل الحق ) ۔

2۔ آئین میں تیرہویں ترمیم کی کیا خاصیت ہے؟

جواب: 1973 ء کے آئین میں تیرہو میں ترمیم کی وجہ سے صدر کے وہ اختیارات ختم ہو گئے جوا سے آٹھویں ترمیم سے حاصل ہو گئے تھے ۔

3۔تھل کاریگستان کس علاقے میں واقع ہے؟

جواب: تھل کاریگستان صوبہ سندھ میں واقع ہے۔

4۔ہندوستان چھوڑ دو تحر یک کس کے خلاف تھی ؟

۔ جواب: ہندوستان چھوڑ دوتحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انگریز حکمران حکومت کانگرس کے حوالے کر کے واپس انگلستان چلے جائیں۔

5۔پوٹھوار کے علاقے میں کون سا دریا بہتا ہے؟

جواب: دریاۓ ہرو اور دریائے سوال بہتا ہے ۔

6۔ پاکستان کے مشرق میں کون سا ملک واقع ہے؟

جواب: بھارت

7۔سمندر کے قریبی علاقوں میں کس قسم کی آب و ہوا ہوتی ہے؟

جواب: سمندر کے قریبی علاقوں کی آب و ہوا معتدل رہتی ہے۔

8۔یونین آف انڈیا بنانے کی تجویز کس منصوبے کے تحت پیش کی گئی تھی؟

 جواب: کیبنٹ مشن ۔

9۔ قومی اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم کس بنیاد پر کی جاتی ہے؟

 جواب: قومی اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم آبادی کے تناسب سے کی جاتی ہے۔

10۔ دو آب سے کیا مراد ہے؟

جواب: دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کو دوآب کہتے ہیں ۔

سوال نمبر :۳ مندرجہ ذیل پر نوٹ تحریر کریں۔

-1 پاکستان کے ابتدائی معاشی وانتظامی مسائل:

 جواب: پاکستان کی نئی حکومت کو درپیش مسائل:

ا۔ مہاجرین کا مسئلہ: تقسیم بر غیر کے فیصلے کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں فسادات شروع ہو گئے جن کی وجہ سے دونوں اطراف سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوگئی ان فسادات کے نتیجے میں ہندوستان سے بڑے پیمانے پر لٹے پٹے مسلمان اپنی جانیں بچا کر پاکستان میں آ گئے مسلمانوں کے می لئے ہوۓ قافلے جب پاکستان پہنچے تو ان کی خورا ، رہائش اور دیگر ضروریات کی فرانسی ایک مسئلہ بن گئی لوگوں کے عارضی قیام کے لیے کیمپ لگائے گئے مقا می لوگوں نے اپنے اپنے وسائل سے بھر پور مدد کی ایک اندازے کے مطابق تقریب سوا کروڑ مہاجرین پاکستان آ ۓ اور ان میں سے اکثریت بالکل بدحال تھیحکومت نے اپنے محدود وسائل کے باوجو دان کی آبادکاری کے لیے پوری کوشش کی ۔

۲۔ ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ: قانون آزادی ہند 1947 ء کے تحت ہندوستان کی ریاستوں کو بی اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے عوام کی خواہشات یا

جغرافیائی صورتحال کے مطابق پاکستان یاہندوستان میں سے جس کے ساتھ چا ہیں الحاق کر سکتے ہیں ۔ تقر یبا ساری ریاستوں نے پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر دیا لیکن ریاست حیدرآباد، دکن کشمیراور چونا گڑھ کے الحاق نے تنازعے کی صورت اختیار کر لی ۔ ریاست حیدرآباد کا نظام مسلمان تھا اور آبادی کی اکثریت مسلمان تھی لیکن حیدرآباد کی سرحد میں پاکستان سے نہ ملنے کی وجہ سے ریاست پاکستان میں شامل نہ ہوسکی ۔ کیونکہ ہی اصولی طور پر فیصلہ ہوا تھا کہ ریاستوں کے الحاق میں جغرافیائی حیثیت کو مدنظر رکھا جائے گا۔ ریاست جونا گڑھے کے حکمران مسلمان تھے لیکن وہاں کی آبادی بند تھی ۔ جب کہ اس ریاست کے حکمران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کا خیال رکھا تھا۔ جبکہ جونا گڑھ کے عوام ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے اسلئے چونا گڑھ

کے حکمران کے فیصلے کو رد کر دیا گیا ۔ اس کی تقریبا ایک ہزار میل بھی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی تھی لیکن وہاں کے ہندو راجہ نے الحاق کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں نے اس پر کوئی رول ظاہر نہ کیا جبکہ وہ جونا گڑھے اور حیدرآباد کے الحق کے سلسلے میں تو الحاق کے اصولوں پر عمل کروا چکے تھے ۔اس نا انصافی پر کشمیر کے عوام انٹھ کمرے ہوۓ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اپنی اور ہندوستانی فوج کی مدد سے احتبات کو دبانا شروع کر دیا۔ جب نہتے کشمیری دونوں افواج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوۓ تو انہوں نے پاکستانی عوام سے مدد کی اپیل کی ۔اس اپیل پر صوبہ سرحد سے عوامی لشکر کشمیری عوام کی مددکو پہنچ گیا ۔ ہندوستان نے اس صورتحال کو پاکستان کی طرف سے حملے سے تعبیر کیا۔اس طرح دونوں ممالک میں کشمیر کے مسئلے پر 1948 ء میں پہلی جنگ ہوئی ۔اس جنگ کے دوران ہندوستان سے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروالیا گیا۔ اور اس طرح آزاد جموں کشمیر نام کی ایک حکموت قائم ہوگئی ۔ بھارت یہ صورتحال دیکھ کر مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا جہاں متفقہ طور پر بیقرار داد پیش کی گئی کہ فوری طور پر جنگ بند کی جائے ۔ اور کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عو عام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے ۔اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استجواب رائے کرایا جاۓ گا۔ بھارت نے اس وقت یہ فیصلہ قبول کر لیا لیکن کچھ عرصے کے بعد کشمیر میں استجواب رائے کروانے سے انکار کر دیا اور بیمسئلہ آج تک دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے۔

۳۔ مسئلہ کشمیر :کشمیر کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں پرمشتمل تھی اور کشمیر جغرافیائی طور پر تین راتوں سے پاکستان سے ملا ہوا تھا۔ اس کی تقریبا ایک ہزار میل لمبی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی تھی لیکن وہاں کے ہندو راجہ نے الحاق کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں نے اس پر کوئی ریمل ظاہر نہ کیا اس نا انصافی پر کشمیر کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ کشمیر کے ڈوگر ورامیہ نے اپنی اور ہندوستانی فوج کی مدد سے احتجاج کو دبانا شروع کر دیا جب نہتے کشمیری دونوں افوان کامقابلہ کرنے سے قاصر ہوئے توانھوں نے پاکستان عوام سے مددکی اپیل کی ۔اس اپیل پر صوبہ سرحد سے عوامی لشکر کشمیر وام کی مدد کو پہنچ گئے ۔

۴۔ نہری پانی کا مسئلہ : علاقوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں یہ مسئلہ بھی پاکستان کو ورثے میں ملا۔ ریڈکلف نے سرحدی حد بندی کر تے ہوۓ پنجاب کے علاقے مادھولور اور فیروز پور بھارت کے حوالے کر دیئے ۔ ان شہروں میں دریائے راوی اور دریائے ستلج سے نکلنے والی نہروں کے بیڈ ورکس تھے ۔ بھارت کے اس عمل سے پاکستان کی معیشت کو شدید خطر والحق ہوگیا۔ چنانچہ پاکستان کا ایک وفود گفت وشنید کیلئے بھارت گیا اور یہ طے ہوا کہ ان ہیڈ درکس کی دیکھ بھال کا خرچہ اور پانی کی قیمت پاکستان ادا کرتا رہے گا ۔ کچھ عرصہ بعد بھارت نے مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر بھی ملکیت کا دعوی کر دیا ۔ پاکستان نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا ۔ عالمی بینک نے اس مسئلے میں ثالث کردار ادا کیا ۔طویل مذاکرات کے بعد 1960 ء میں سندھ طاس کا معاہدہ طے ہوا۔ جس کی توثیق دونوں ممالک نے کی ۔اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ تین مشرقی در یاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق ہوگااور تین غربی دریا جہلم، چناب اور سندھ پاکستان کے حوالے کئے جائیں گے۔

۵۔ فوجی اثاثوں تقسیم: تقسیم کے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ برطانوی ہند کی فوج کو دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا اورفوجی اثاثوں کا ایک تبا کی حصہ پاکستان کو دیا جاۓ گا لیکن بہت سے دوسرے وعدوں کی طرح اس وعدے کا انتقام بھی مکاری پر ہوا اور بھار نے اپنے جائز حصے کا اثاثے دینے سے انکار کر دیا اسلحہ ساز فیکٹریاں تو پاکستان منتقل نہ ہوئیں لیکن د پوؤں میں موجود اسلحے میں سے بھی پاکستان کو اپنے جائز حصے کا کچھ نہ ملا بھارت کے اس عمل کامقصد پاکستان کی دفاعی قوت کمزور کر ہاتھی ۔

۲۔ معاشی مسائل: پاکستان جن علاقوں پر قائم ہوا تھاوہ علاقے معاشی طور پر پسماندگی کا شکار تھے کیونکہ اگر یز حکومت نے ان علاقوں کی معاشی خوشحالی اور ترقی پر کوئی توجہ نہ دی تھی ۔ اکثر کارخانے ہندو اکثریت والے علاقوں میں لگائے گئے تھے جبکہ ان کارخانوں کا خام مال مسلم علاقوں میں پیدا ہوتا تھا آزادی کے بعد ہندوؤں کے بیوی طور پر ترقی یافتہ علاقے بھارت کے حصے میں چلے گئے پاکستان کے پاس کوئی خاص صنعت نہیں تھی اس لیے حکومت مجبورتھی کہاپنی خام پیداوار بھارت کو دے۔ قیام پاکستان کے وقت ذرائع آمد ورفت بھی کچھ بہتر حالت میں نہیں تھے مڑکیں ،ر میں اور پل خستہ حالت میں تھے بری بند رگا میں بھارت کے علاقے میں موجود تھیں پاکستان کے پاس کرا پی اور چٹا گانگ کی صرف دو بندرگا میں تمھیں لیکن مال بردار جہاز برائے نام تھے ۔

۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کے اختیارات اور فرائض:

جواب: وفاقی حکومت:۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کی رو سے پاکستان میں وفاقی نظام حکومت رائج ہے ۔ ملک کا آئین وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا تعین کرتا ہے ۔ وفاقیحکومت کے تین اہم شعبے ہیں

انتظامیہ:۔ آئین کے ماتحت وفاق یا ملک کا سر براہ صدر ہوتا ہے ۔اور اسے قومی اسمبلی یا سینٹ کے ارکان پانچ سال کے لئے منتخب کر تے ہیں ۔صدر کا مسلمان ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ صدر کوآرڈینس جاری کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے ۔

 وفاقی انتظامیہ کا سر براہ ہوتا ہے وزیراعظم کا انتخاب قو می اسلی کرتی ہے اور وہ اپنے منصب پر ۵ سال تک روکتا ہے ۔ اس مدت میں اگر اسمبلی وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرے گی ۔ تو وزیراعظم کو اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ وزیراعظم نہ صرف وز را مملکت کا انتخاب کرتا ہے ۔ بلکہ تمام حکومتی پالیسیوں کے متعلق فیصلے کرنے کا مجاز ہوتا ہے ۔ یعنی وفاق میں انتظامی اختیارت صد را ور وزیراعظم دونوں کا حاصل ہے۔

متفقہ (پارلیمنٹ ):۔ قانون سازی کے اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ دو ایوانوں پرمشتمل ہے ایوان با جسے سینٹ کہتے ہیں ۔اور ایوان زیر میں جسے قو می اسمبلی کہتے ہیں۔ سینٹ میں تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی دی گئی ہے ۔ ہر صوبے کے لئے ۱۴ عمومی اور مخصوص ( کل ۱۹) نشستیں رکھی گئی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے لئے ۳ اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ اس طرح مینٹ کے کل ممبران کی تعداد ۸۷ ہے ان ممبران کا انتخاب با واسطہ طریقے سے ۲ سال کے لئے ہوتا ہے سینٹ کے ممبران ایوان میں سے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین منتخب کر تے ہیں ۔ جو اجلاس کی صدارت کرتے ہیں ۔ قومی اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد ۲۳۷ ہے ۔ ان کو ۵ سال کے لئے منتخب کیا جا تا ہے ۔ سینٹ کی نسبت قومی اسمبلی کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں ۔سالانہ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا تا ہے ۔ اور یہی ادارہ اسے منظور کر نے کا مجاز بھی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی صرف قومی اسمبلی میں پیش کی جاتی ہے۔ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت اسپیکر یا ڈپٹی سپیکر کرتا ہے۔ ان کا انتخاب اسمبلی کے ممبران میں سکیا جاتا ہے۔

عد لیہ ۔ عدلیہ حکومت کا ایک اہم اور مقدس شعبہ ہے پاکستان کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ ہے ۔ جو کہ چیف جسٹس اور دیگر بچوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا تقر رصدر کرتا ہے ۔ جب کہ دیگر مجنوں کا تقرر چیف جسٹس کے مشورے سے صدر ہی کرتا ہے ۔ سپریم کورٹ کو وسیع عدالتی اختیارات حاصل ہیں ۔ وہ ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کی مجاز ہے ۔

صوبائی حکومت: وفاقی نظام حکومت کے تحت چاروں صوبوں میں الگ الگ حکومتیں قائم کر کے انہیں وسیع اختیارات سونپ دیئے جاتے ہیں ۔صوبائی حکومت کے بھی تین اہم شعبے ہیں۔

انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ۔

انتظامیہ:۔ صوبائی حکومت کے ڈھانچے میں صوبے کا سربرا ہ گورنر ہوتا ہے ۔ گورنر کا تقر رصد رمملکت کرتا ہے ۔ ایک لحاظ سے گورنر وفاقی حکومت کا نمائند ہ ہوتا ہے وزیراعلی کا انتخاب صوبائی اسمبلی کرتی ہے ۔ وزیراعلی صوبائی اسمبلی کا رکن ہوتا ہے۔ اور اسے اسمبلی کی رکنیت کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ وزیراعلی اپنےفرائض انجام دینے کیلئے ایک کا بینہ تشکیل دیتا ہے ۔ کابینہ میں شامل وزرا اور پارلیمانی سیکرٹریوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسمبلی کے رکن ہوں ۔ وزیر اعلی اور کا بینہ صوبائی اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہو گی ۔اسمبلی کے ارکان اگر چاہیں تو عدم اعتماد کی تحریک منظور کر کے وزیر اعلی کو بنا سکتے ہیں ۔اختیارات کے سلسلے میں وفاق کو صوبوں پر برتری حاصل ہوتی ہے ۔ اگر صوبائی اور وفاقی قانون میں تصادم ہو جائے تو وفاقی قانون پر مل در آمد ہوگا۔ وفاقی حکومت ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرسکتی ہے ۔ایسی صورت میں صوبائی حکومت کے اختیارات کم ہوجاتے ہیں

مقفنہ:۔ صوبوں میں ایک ایوانی مقننہ قائم کی گئی ہے ۔ جس کو صوبائی اسمبلی کہتے ہیں ۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں اسمبلیوں میں ارکان کی تعداد مختلف ہے۔ ان ارکان میں اقلیت کی نمائندے کی مخصوص تعداد بھی شامل ہے صوبائی اسمبلی پانچ سال کیا یہ منتخب کی جاتی ہے ۔اسمبلی کے اندرا یک اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر چنا جا تا ہے ۔ پیکر صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتا ہے ۔صوبائی اسمبلی ایسے تمام امور کے متعلق قوانین بناسکتی ہے ۔ جو دستور کی رو صوبوں کیلئے مخصوص ہوں ۔قوانین میں ترمیم کرنے اور آرڈینینس کی منظوری دینے کے بھی اسمبلی کو اختیار ہیں ۔

عدلیہ ۔ صوبے کی اعلی ترین عدالت کو ہائی کورٹ کہا جا تا ہے ۔ جبکہ اس کی مختلف سرکٹ برانچیں مختلف شہروں میں قائم کی جاتی ہیں ۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر صدرمملکت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبے کے گورنر کے مشورے سے کرتا ہے جب کہ باقی دیگر بچوں کا تقرر چیف جسٹس کے مشورے سے کیا جا تا ہے ۔اسے چھوٹی عدالتوں کی اپیل سننے کا حق ہے ۔ اور میدان کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کا مجاز ہے ۔ بنیادی حقوق اور شخصی آزادی کے تحفظ کے سلسلے میں ہائی کورٹ کو وسیع اختیارات حاصل ہیں ۔ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں ہی فیصلے کی اپیل کی جاسکتی ہیں ۔ ہائی کورٹ کے ماتحت صوبے کی دوسری عدالتیں ہوتی ہیں ۔ جوڈ ٹرک کورٹ ۔ سول کورٹ اور مجسٹریٹ کورٹہیں کہلاتی ہیں ۔

 

 

3۔ پاکستان کامل وقوع اور اس کی اہمیت:

جواب: پاکستان کامحل وقوع:

جب ہم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالتے ہیں تو پاکستان ہمیں ۳۰ ،۲۳ ، ڈگری سے ۴۵ ۳۶۰ ڈگری شمالی عرش بلد اور ۶۱ ڈگری سے ۳۱ ۷۵۰ ڈگری مشرقی مول بلد کے درمیان نظر آ تا ہے ۔ ہمارے ملک کی سرحد میں شمال مشرق میں چین، شمال مغرب میں افغانستان ، مغرب اور جنوب کے درمیان ایران اور شرق میں بھارت سے ملتی ہیں ۔ پاکستان کے تین اطراف خشکی ہے جبکہ جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے ۔

اہمیت: اپنے حل وقوع کی وجہ سے پاکستان کو دنیا میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ : مارا ملک ایسے مقام پر واقع ہے جو مشرق وسطی اور ایشیائی ریاستوں سے بری اور بحری راستوں سے رابطے کا ذرایہ بن سکتا ہے ۔ مشرق وسطی کے ممالک مدنی تیل کے ذخیروں اور پیداوار کے لئے مشہور ہیں ۔مغربی ممالک کی صنعتی ترقی کا انحصار اس تیل پر ہے ۔ یہ تیل بحر عرب اور بحر ہند سے گزر کر دیگر ممالک کو پہنچتا ہے۔ کراپی بحیرہ عرب کی اہم بندرگا ہے ۔اس لئے پاکستان کی خارجہ حکمت عملی تیل کی آمد ورفت پراثر انداز ہوسکتی ہے ۔ لہذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی ،فوجی اور اقتصادی پالیسیوں پر اس کے محل وقوع کا بہت اثر ہے۔ پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں سے شاہراہ ریشم کے ذریعے ملا ہوا ہے ۔ یہ شاہراہ چین سے شروع ہو کر پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے گزر کر یورپ تک رسائی کا ذرا یہ ہے۔

4۔دریاۓ سندھ کا میدان:

 جواب: اس علاقے کو دریاۓ ۔ ندی کی وادی بھی کہا جا تا ہے ۔ پاکستان کا یہ خطہ زرعی لحاظ سے بڑا ذرخیز ہے ۔ اس کے دو حصے ہیں ۔

 (الف) دریاۓ سندھ کا بالائی میدان

(ب) دریائے سند ھ گاز میر میں میدان

 (الف) میدان سندھ کا بالائی میدان:

اس میں زیادہ صوبہ پنجاب کا حصہ ہے یہ علاقہ دریائے سندھ کے معاون دریاؤں جہلم ، چناب ، راوی مستلج کے درمیان پھیلے ہوۓ میدانوں پرمشتمل ہے مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ میں علاقہ دریاؤں کے زریعے پہاڑوں سے لائی ہوئی مٹی سے بنا ہے اس لیے اسکی زمین زرخیز

ہے بارش کے پانی کی کمی نہروں کے ذریعے پوری کی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ تمام علاقہ آباد ہے۔

 

(ب) دریاۓ سندھ کا زیریں میدان: مٹھن کوٹ سے نیچے بھیرہ کا علاقہ دریائے سندھ کا زیر میں میدان کہلاتا ہے۔اس علاقے میں دریائے سندھ ایک بڑے دریا کی صورت میں بہتا ہے ۔ یہاں گہرائی کم ہونے کی وجہ سے طغیانی کے پانی سے سارا علاقہ ڈوب جاتا ہے ۔ یہ علاقہ کافی زرخیز ہے مختلف مقامات پر بیران بنا کر نہروں کاجال بچھادیا گیا ہے ۔

۵۔ جنرل ضیاءالحق کا دور حکومت :

جواب: ۱۹۷۳ء کے آئین میں ترمیم: جنرل ضیاء الحق نے صدارتی فرمان جاری کر کے ۱۹۷۳ء کے آئین میں کئی بنیادی نوعیت کی ترامیم کیں ۔ ان ترامیم میں ایک ترمیم آٹھویں ترمیم کے نام سے مشہور ہوئی ۔اس ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کے اختیارات کم کر دیئے گئے اور صدر کے اختیارات میں اس قد را ضافہ کیا گیا کہ صد راب نہ صرف قومی اسمبلی کو برخاست کر سکتا ہے ۔ بلکہ وزیراعظم کو بھی معزول کر سکتا تھا۔ اس کے علا و قرار داد مقاصد کوآ ئین کا حصہ بنادیا گیا۔

تحریک بحالی جمہوریت: ضیاء الحق کے مارشل او ء کے خلاف فروری ۱۹۸۱ء میں ملک کی گیار وا ہم پارٹیوں نے آپس میں اتحاد کر کے مارشل 11 ء کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک جمہوریت ایم۔آر۔ڈی‘ کے نام سے تحریک کا آغاز کیا۔ شروع میں بی تحریک بڑی پرامن رہی لیکن اگست ۱۹۸۳ء میں عوام نے ایم ۔ آر۔ ڈی کے ماتحت سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کیا۔ سندھ کے علاوہ پاکستان کے باقی صوبوں میں بی تحر یک زور نہ پکڑ سکی۔ جس کے نتیجے میں مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں نا کامی ہوئی۔

۱۹۸۵ء غیر جماعتی انتخابات: جنرل ضیاءالحق نے اقتدار میں آنے کے بعد قوم سے نوے دن کے اندر انتخابات کا جو وعدہ کیا تھا ، وہ آٹھ سال کے بعد پورا ہوا ۔ فروری ۱۹۸۵ء میں انتخابات کروائے گئے لیکن ان انتخابات میں کسی سیاسی پارٹی کو حصہ لینے کی اجازت بیتھی ۔ ان غیر جمائق انتخابات کے نتیجے میں جناب محمد خان جونیجو کی حکومت اقتدار میں آئی ۔ جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۷۳ء کے آئین میں ترامیم کر کے جو اختیارات ( بطور صدر ) حاصل کئے تھے ،ان کا پہلا استعمال انہوں نے اپنے ہی نا مز دوز براعظم حمد خان جونیجو پر کیا اور شی ۱۹۸۸ء میں جو نیجو صاحب کی حکومت کو معطل کر دیا۔

ضیاء الحق دور کا خاتمہ: ۱۷اگست ۱۹۸۸ء میں جنرل ضیا الحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے ۔ ان کی وفات کے بعد سینٹ کے چیر مین جناب نام اسحاق خان ملک کے قائم مقام صدر بنے ۔

سوال نمبر : ۴ مومی تبدیلیاں اور مختلف قسم کی آب و ہوا انسانی زندگی پر کس طرح کے اثرات مرتب کرتی ہیں؟ تفصیل سے تحریر کر میں۔

جواب: آب و ہوا کے انسانی زندگی پر اثرات: کسی جگہ کی آب و ہوا وہاں کے مکینوں کے طرز زندگی اور مشاغل پر گہرا اثر ڈالتی ہے ۔ پاکستان کے علاقوں میں بھی آب و ہوا مختلف قسم کی ہے اورلوگوں کے رہن سہن اور مصروفیات میں نمایاں فرق بھی ہے ۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں موسم سرما شد ید ہے ۔اکثر علاقے برف سے ڈھک جاتے ہیں۔درجہ حرارت نقلا انجماد سے بھی گر جاتا ہے ۔ بعض جگہ تو دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی بھی ہم جا تا ہے ۔ برف کی وجہ سے راستے بھی مسدود ہو جاتے ہیں اورالوگباہر کے کام کاج چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور گھریلو است کاریوں میں خود کو مصروف رکھتے ہیں ۔ گلگت کے اکثر لوگ اس موسم میں روزی کمانے کی غرضسے میدانی علاقوں میں چلے آتے ہیں۔

گرمیوں کا موسم شروع ہوتا ہے تو ہر طرف رونق شروع ہو جاتی ہے ۔ پودے اور گھاس جلدی پھلتے پھولتے ہیں ۔ کہ مان اپنی پہلی فرصت میں کھیتوں میں بل چلاتے ہیں ۔ بچے بوڑ نے کام میں لگ جاتے ہیں۔ پاکستان کے جنوب میں وسیع میدان ہے یہاں کی آب و ہوا میں بھی شدت ہے ۔ گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سرد ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ بہت مضبوط ہیں ۔ می شدید گرمی میں دھان کی فصل کے کھیتوں میں ہل چلاتے ہیں اور پودے لگاتے ہیں۔ سردیوں میں پوٹھنے سے پہلے کھیتوں کی راہ لیتے ہیں اور دن چڑھنے تک بہت سا کام کر چکے ہوتے ہیں ۔البتہ گرمیوں میں تھوڑی دیر ستا نا ضروری ہوتا ہے۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ آب و ہوا سے انسانی زندگی کا براہ راست تعلق ہے۔

موسمی تبدیلیاں:

آب و ہوا کی بدلتی ہوئی کی نیت کا انسانی زندگی پر بڑا اثر ہوتا ہے ۔ نہ صرف انسانی زندگی بلکہ نسلوں پر بھی اچھا اثر ہوتا ہے ۔ پیداوار بہت عمدہ ہوتی ہے ۔ علاقہ مزید سرسبز اور شاداب ہو جا تا ہے ۔ زندگی کی گہما گھی بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن موسمی حالات لوگوں کے لئے مشکلات اور نقصان کا باعث بھی ہوتے ہیں ۔موسم گرما میں بیا اب آتے ہیں۔ شدید گرم اور نیم ریگستانی علاقوں میں آندھیاں، بھکر اور طوفان آتے ہیں ۔ ذیل میں مومی تبدیلیوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔

سیلاب: مارے ملک کے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں موسم گرما کی موان سون ہوائوں کی وجہ سے بارشیں ہوتی ہیں ۔ گرمیوں میں پہاڑوں پر برف کھلنے کی وجہ سے دریاؤں اور نالوں میں پانی کی سطح اتنی بڑھ جاتی ہے کہ کناروں سے پانی نکل کر دور دور تک پھیل جاتا ہے ۔ پانی کے اس ریلے کو سیاب کہتے ہیں ۔ یا اب زیادہ تر سندہ کے باائی میدان میں آتے ہیں ۔ سیلاب سے بہت زیادہ انسان ہوتا ہے ۔ کمری فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ وبائی امراض پھیل جاتی ہیں ۔ سڑکیں اور ریل کی پٹڑیاں ٹوٹ جانے سے آمدورفت کے ذرائع تباہ ہو جاتے ہیں ۔ سیلاب سیہونے والے احسانات کے پیش نظر حکومت کئی احتیاطیں تدابیر اختیار کرتی ہے ۔اگر کسی علاقے میں سیلاب آنے کا خطرہ ہوتو پیشگی اطلاع دے کر وہاں کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جا تا ہے ۔ سیلابوں کا ایک فائد بھی ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ سیلاب کے پانی کے ہمراہ دریاؤں کی زرخیز مٹی سیلاب زدہ زمینوں پر ایک تہ کی طرح پھیل جاتی ہے جس کی

 

وجہ سے اس علاقے میں فصلیں بہتر ہوتی ہیں۔

آندھیاں اورطوفان: پاکستان میں آندھیاں اور طوفان نا معمول کی بات ہے ۔ ریتلے علاقوں میں موسم گرمامیں ہواؤں کا دباؤ کم ہو جا تا ہے اس لئے اردگرد کی ہوائیں تیزی سے ان علاقوں کا رخ کرتی ہیں ۔ان علاقوں میں جنوبی میدانی علاقے اور بلوچستان کے شمال مغربی حصے شامل ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں مارچ اپریل کے مہینوں میں بادوباراں کے طوفان آتے ہیں ۔ تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ زیادہ بارش ہوتی ہے ۔بعض اوقات ژالہ باری بھی ہوتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ذرائع رسل ورسائل متاثر ہوتے ہیں ۔ کچے مکانات اور تھونپڑیوں کوبھی نقصان پہنچتا ہے۔

سوال نمبر:۵ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کی نئی حکومت کو ریاست کے الحاق اور نہری پانی کی تقسیم کے سلسلے میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ تفصیل سے لکھیں۔

جواب: ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ:

قانون آزادی ہند 1947 ء کے تحت ہندوستان کی ریاستوں و بی اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے عوام کی خواہشات یا جغرافیائی صورتحال کے مطابق پاکستان یا

ندوستان میں سے جس کے ساتھ چا میں الحاق کر سکتے ہیں ۔ تقر یبا ساری ریاستوں نے پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر دیا لیکن ریاست حیدرآباد، دکن کشمیر اور جونا گڑھے کے الحاق نے تنازعے کی صورت اختیار کر لی ۔ ریاست حیدرآباد کا نظام مسلمان تھا اور آبادی کی اکثریت مسلمان تھی لیکن حیدرآباد کی سرحد میں پاکستان سے نہ ملنے کی وجہ سے ریاست پاکستان میں شامل نہ ہوسکی ۔ کیونکہ ہی اصولی طور پر فیصلہ ہوا تھا کہ ریاستوں کے الحاق میں جغرافیائی حیثیت کو مدنظر رکھا جاۓ گا ۔ ریاست جونا گڑھ کے حکمران مسلمان تھے لیکن وہاں کی آبادی بند تھی ۔ جب کہ اس ریاست کے حکمران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کا خیال رکھا تھا۔ جبکہ ہو نا گڑھ کے عوام ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے اسلئے جونا گڑھے کے حکمران کے فیصلے کور کر دیا گیا ۔ اس کی تقریبا ایک ہزار میل لمبی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی تھی لیکن وہاں کے ہندو راجہ نے الحاق کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں نے اس پر کوئی ریمل ظاہر نہ کیا جبکہ وہ چونا گڑھ اور حیدرآباد کے افق کے سلسلے میں تو الحاق کے اصولوں پر مل کروا چکے تھے ۔اس نا انصافی پر کشمیر کے عوام اٹھ کھڑے ہوۓ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اپنی اور ہندوستانی فوج کی مدد سے احتجاج کود با نا شروع کر دیا۔ جب نہتے کشمیری دونوں افواج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوئے تو انہوں نے پاکستانی عوام سے مدد کی اپیل کی ۔اس اپیل پر صوبہ سرحد سے عوامی لشکر کشمیری عوام کی مد کو پہنچ گیا ۔ ہندوستان نے اس صورتحال کو پاکستان کی طرف سے حملے سے تعبیر کیا۔اس طرح دونوں ممالک میں کشمیر کے مسئلے پر 1948 ء میں پہلی جنگ ہوئی ۔اس جنگ کے دوران ہندوستان سے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروالیا گیا۔ اور اس طرح آزاد جموں کشمیر نام کی ایک حکموت قائم ہوگئی ۔ بھارت سی صورتحال دیکھ کر مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا جہاں متفقہ طور پر یہ قرارداد پیش کی گئی کہ فوری طور پر جنگ بند کی جائے ۔ اور کشمیر کے اناق کا فیصلہ وہاں کے عو عام کی خواہشات کے مطابق کیا جاۓ ۔اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استحواب رائے کراہ جاۓ گا۔ بھارت نے اس وقت یہ فیصلہ قبول کر لیا لیکن کچھ عرصے کے بعد کشمیر میں استجواب رائے کروانے سے انکار کر دیا اور بی مسئلہ آج تک دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے۔

مسئلہ کشمیر:

کشمیر کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں پرمشتمل تھی اور کشمیر جغرافیائی طور پر تین راستوں سے پاکستان سے ملا ہوا تھا۔ اس کی تقریبا ایک ہزارمیل لمبی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی تھی لیکن وہاں کے ہندوراجہ نے الحاق کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں نے اس پر کوئی روسل ظاہر نہ کیا اس ناانصافی پر کشمیر کے عوام اٹھ کھڑے ہوۓ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اپنی اور ہندوستانی فوج کی مدد سے احتجاج کو دبانا شروع کر دیا جب نہتے کشمیری دونوں افواج کامقابلہ کرنے سے قاصر ہوۓ تو انھوں نے پاکستان عوام سے مدد کی اپیل کی ۔اس اپیل پر صوبہ سرحد سے عوامی لشکر کشمیرعوام کی مددکو پہنچ گئے ۔

نہری پانی کا مسئلہ :

علاقوں کی غیر منہ نا نہ نسیم کے نتیجے میں یہ مسلہ بھی پاکستان کو ورثے میں ملا۔ ریڈ کلف نے سرحدی حد بندی کرتے ہوۓ پنجاب کے علاقے مادوتواور اور فیروز پور بھارت کے حوالے کر دیئے ۔ ان شہروں میں دریائے راوی اور دریائے تلج سے نکلنے والی نہروں کے ہیڈ ورکس تھے ۔ بھارت کے اس عمل سے پاکستان کی معیشت کوشدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ چنانچہ پاکستان کا ایک وفود گفت وشنید کیلئے بھارت گیا اور یہ ملے ہوا کہ ان : بیڈ ورکس کی دیکھ بھال کا خرچہ اور پانی کی قیمت پاکستان ادا کرتارہے گا ۔ کچھ عرصہ بعد بھارت نے مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر بھی ملکیت کا دعوی کر دیا ۔ پاکستان نے میر مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا ۔ عالمی بینک نے اس مسئلے میں ثالث کر دارا دا کیا۔طویل مذاکرات کے بعد 1960 ء میں سند میں اس کا معاہدہ ملے ہوا ۔ جس کی توثیق دونوں ممالک نے کی ۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ تین مشرقی دریاؤں تلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق ہوگا اور تین مغربی در یا جہلم، چناب اور سند سے پاکستان کے حوالے کئے جائیں گے۔

سوال نمبر:۲ 3 جون کے منصوبے کے تحت برصغیر کوتقسیم کرنے کے لیے کیا اصول طے کیے گئے تھے؟ اور ان اصولوں پر کس طرح سے عمل کیا گیا۔جواب: برصغیر کو تقسیم کرنے کے اصول: تقسیم بر غیر کے اصول جو کہ 3 جون 1947 ء ( جن کو 3 جون کا منصو بہ بھی کہتے ہیں ) کو پیش کیا گیا ۔ اس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔ 3 جون 1947 ء کے منصوبے کے مطابق 15 اگست 1947 کو ہندوستان کو آزادی دے دی جاۓ گی ۔ اگر دو ممالک کی صورت میں تقسیم ہوئی تو ہر ملک کی دستور ساز اسمبلی بناۓ گی ۔

آزادی ہند:

3 جون 1947ء کے منصوبے کے مطابق 15 اگست 1947ء کو ہندوستان کو آزادی دی جائے گی ۔

برطانو پارلیمنٹ کی خودمختاری:

برطانوی پارلیمنٹ ہندوستان کی آزادی کا قانون پاس کرتے وقت فیصلہ کرے گی کہ متحدہ ہندوستان رہنے دیا جاۓ یا دو مکتوں کا قیام ممکنبنایا جائے ۔

دستور کی تشکیل:

اگردو ممالک کی صورت میں تقسیم ہوئی تو ہر ملک کی دستور ساز اسمبلی بنائے جائے۔

صوبہ پنجاب:

صوبہ پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور مسلم اقلیتی علاقوں کو ہندوستان میں شامل کیا جائے گا۔لیکن صوبے کی تقسیم کا فیصلہ صوبہ

پنجاب کی مجلس قانون ساز کرے گی۔

صوبہ بنگال:

صو بہ بنگال کی مجلس قانون ساز کے ارکان اپنے صوبے کی تقسیم کا فیصلہ کر یں گے اور مسلم اکثریتی علاقے مشرقی بنگال اور غیرمسلم اکثریتی علاقے مغربی بنگال میں شامل کیے جائیں گے تقسیم کے فیصلے کی صورت میں حد بندی کمشن مقر رکیا جاۓ گا۔

صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان:

صوبہ ندھ کے اسمبلی کے ارکان کوحق حاصل ہوگا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان میں سے جس سے جائت الحاق کر لیں اس لیے صو بہ بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ وہاں کا شاہی جرگہ کرے گا تا ہم کوئٹہ میونسپل کمیٹی کی رائے لی جائے گی ۔

غیر مسلم اکثریتی صوبے: غیر مسلم اکثریتی صوبے جیسے آسام ۔ یو پی ۔ مدراس ۔ بہادر وغیرہ کو ہندوستان میں شامل کیا جاۓ گا۔

 

 

ضلع ساہٹ اور صوبہ سرحد ؎

کے عوام ریفرنڈم کے ذرایہ فیصلہ کر یں گے کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں ۔

ریاستوں کی صوابدید

 بر صضیر  میں اس وقت 635ریاستیں تمھیں ۔ جن پر نواب اور را جا حکومت کرتے تھے ۔ تا ہم الحاق کرنے کا فیصلہ ریاستوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنے جغرافیائی لحاظ سے اس سے جا میں الحاق کر میں ۔

قانون حکومت ہند 1935ء:

جس میں فورڈ اصلاحات 1919 ، نا کافی ، غیرتسلی بخش اور مایوس کن تھیں ۔ لیکن بتدریج ذمہ دار حکومت دینے کا وعدہ بھی تھا ان اصلاحات کے نفاذ کے ساتھ ہی ان پر تنقید ہونے لگی سوران پارٹی نے دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور حکومت پر دباؤ ڈالنے گی۔ جب ہندمہا سجانے میثاق لکھنوء کو ماننے سے انکار کر دیا تو مسلم لیگ نے مئی ۱۹۲۴ء میں بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے بنیادی مطالبات پیش کئے ۔ اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔ مارچ ۱۹۳۷ء میں بر غیر کا سیاسی قفل دور کرنے کے لیے دہلی مسلم تجاویز پیش ہوئیں جن کا شہر ور پورٹ نے تیا پانچا کر دیا نئی سیاسی اصلاحات مرتب کرنے کے لیے سائمن کمیشن آ یا اس کا بائیکاٹ کیا گیا آل پارٹیز کانفرنس کی تجاویز بے اثر ر ہیں ۔ دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ اقبال نے اپنا مشہور خطبہ الہ آباددیا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی ۔

سوال نمبر:۷ کر پس مشن کیا تجاویز لے کر برصغیر آیا۔ نیز یہ بتائیں کہ ان تجاویز پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کیا۔

جواب: کریس مشن تجاویز: ہندستان کے آئینی مسائل کوحل کر نے کیلئے 1942 ء میں برطانوی حکومت نے ایک وفد ہندوستان روانہ کیا جو کر پس مشن کے نام سے مشہور ہوا ۔ یہ شن اس وعدے کے نتیجے میں آیا تھا کہ اگر ہندوستان کے لوگ دوسری جنگ عظیم میں جزنی اور جاپان کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیں گے تو برطانیہ ہندوستان کو آزاد کر دے گا ۔ دوسری جنگ عظیم کا آغاز 1939 ء میں ہوا۔ 1941 میں جاپان بھی جرمنی کا ساتھی بن کر جنگ میں شامل ہو گیا ۔اب برطانیہ اوراس کے اتحادیوں کواپنی تثبیت کمزور ہوتی نظر آنے لگی۔ برطانوی افواج کی تقریب ہر محاذ پر پسپائی ہورہی تھی ۔

 

سنگا پور اور برما کی فتح کے بعد جاپانی فوجیں بر غیر کی سرحد کے قریب پہنچ گئیں تو برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب برنہ غیر کے مقامی باشندوں کا تعاون حاصل کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر جاپانی فوجوں کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا۔لیکن بری غیر کے باشندوں نے برطانیہ کی امداد کیلئے یہ شرط لگا دی کہ ہندوستانی عوام اس وقت برطانیہ کی مددکر میں گے جب برطانیہ ہندوستان کو آزاد کر نے کا وعدہ کرے گا ۔ 1942ء میں برطانوی وزیراعظم نے اپنی کا بینہ کے ایک اہم رکن سر سٹیفورڈ کرپس کو ہندوستان بھیجا۔ کر پس نے برتہ غیر کے سیاسی قائدین سے ملاقات کی ۔اور ان کے سامنے ہندوستان کا نیا آئین بنانے کے سلسلے میںچند تجاویز پیش کیں ۔ ان تجاویز کوکر پس تجاویز کا نام دیا گیا ۔ ان تجاویز میں وعدہ کیا گیا کہ

1: جنگ کے بعد عام انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے گی جو برصغیر کیلئے آئین سازی کا کام سرانجام دے گی ۔

 جنگ کے بعد ہندوستان کو آزادی دی جاۓ گی ۔اس میں تاج برطانیہ کے ماتحت ضرور ہو گا لیکن اندرونی و بیرونی طور پر خودمختار ہوگا ۔ ان تجاویز کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ جنگ کے دوران کس قسم کی آئینی تبدیلی نہیں لائی جائیگی ۔ اور ملک کے دفاع کی تمام تر ذمہ داری حکومت برطانیہ کی ہوگی ۔

ردعمل:

مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے کر پیس کی تجاویز کو کر دیا۔ کانگر نی را ہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان تجاویز میں فوری طور پر آزادحکومت کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جنگ کے بعد برطانوی حکومت اپنے وعدے پورے کرنے کے قابل ہی نہیں رہے گی ۔مسلم لیگ نے کر پیس کی تجاویز کو اس بناء پر ردکر دیا کہ ان تجاویز میں پاکستان کے قیام کی کوئی واضح ضمانت نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی مسلم ایک کسی ایسے آئین ساز ادارے میں شامل ہونے کو تیار تھی کہ جس کا مقصد پورے ملک کیلئے آئین بنانا ہو۔ کیونکہ تجربے نے انہیں سکھایا تھا کہ کانگریس برصغیر میں ایسا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے جس میں مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کو پس پشت ڈال کر مضبو ط مرکز کے نام پر ہندو وراج قائم کیا جاۓ ۔

Download

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *