کورس کوڈ۔4631
مشق نمبر۔2۔
سوال نمبر 1۔ جمہور علماء اصول کے نزدیک حکم تکلیفی کی تعریف حکم اقسام مع مثال تحریر کریں
جواب۔
“تکلیفی احکام” سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ تعالی کے اس کلام سے ماخوذ ہوتے ہیں جو مکلف انسان کے فعل سے متعلق ہوتا ہے۔ تکلیفی احکام پانچ ہیں جن کی تین قسمیں بنتی ہیں: اول: جس میں کسی فعل کے کرنے کا تقاضا ہو۔ اگر اسے کرنے کو لازم ٹھہرایا گیا ہو تو اسے “واجب” کہتے ہیں اور اگر لازم نہ ٹھہرایا گیا ہو تو پھر اسے “مندوب “کا نام دیا جاتا ہے۔ دوم: وہ حکم تکلیفی جس میں کسی کام کو چھوڑ دینے کا تقاضا ہو۔اگر اس کے ترک کو لازم ٹھہرایا گیا ہو تو اسے “حرام” کہتے ہیں اور اگر لازم نہ ٹھہرایا گیا ہو تو پھر اسے” مکروہ” کا نام دیا جاتا ہے۔ سوم: وہ حکمِ تکلیفی جس میں کسی فعل کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہو۔ اسے” مباح” کہا جاتا ہے۔ تکلیف کا معنی ہے کسی ایسی بات کو لازم ٹھہرانا جسے بجا لانے میں کلفت و مشقت ہو۔۔
’’حکم‘‘مصدرہے حَکَمَ یَحْکُمُ کا، جس کے معنی’’فیصلہ کرنے، سمجھنے اورجاننے‘‘کے آتے ہیں۔ اِس کی جمع ’’أحکام‘‘ آتی ہے۔ ( لسان العرب: ۲۷۰/۲، مادۃ: حکم، مختارالصحاح ،فصل الحاء، باب المیم،، ص: ۴۷۰)
اصطلاح میں اصولیین کے نزدیک حکم’’ اللہ تعالیٰ کے اُس خطاب کوکہتے ہیں، جواختیار،اقتضاءیاوضع کےساتھ مکلفین کےافعال سے متعلق ہو‘‘(ارشاد الفحول: 71/1،التقریر والتحبیر:۱؍۲۱۶، تلخیص الأصول للزاھدی، الفصل الثالث: الحکم الشرعی،ص:۲۱، المأمول من لباب الأصول، باب الحکم الشرعی،ص:۳)۔
…………………………………………………………………………………………………………..
………………………………………………………………………………………………………..
…………………………………………………………………………………………………………..
سوال۔2۔ مصالح مرسلہ اور استصحاب پر جامع نوٹ لکھیں
جواب۔
مصالح مرسلہ
فقہ میں چونکہ مصالح مرسلہ کی بھی رعایت کی گئی ہے اور اس کی بناء پر مسائل کی ایک معتدبہ مقدار فقہ کے مختلف ابواب میں پائے جاتے ہیں، اس لیے مصالح مرسلہ کی حقیقت، فقہاء کے یہاں اس کا درجۂ اعتبار اور دیگر ضروری تفصیلات ذیل کے سطور میں پیش کی جاتی ہیں۔
مصالحِ مرسلہ کی تعریف
کسی منفعت کی تحصیل یاتکمیل یاکسی مضرت وتنگی کا ازالہ یاتخفیف کی وہ صورت جوشارع کے مقصود کی رعایت وحفاظت پر مبنی ہو اور اس کی تصریح وتشخیص یااس کے کسی نوع کی صراحت شریعت نے نہ کی ہو، اسے اصطلاح میں مصالح مرسلہ کہا جاتا ہے اور اسے “مرسلہ” “الاستدلال المرسل” اور الاستصلاح بھی کہا جاتا ہے۔
(ارشاد الفحول:۲۸۵۔ البحرالمحیط:۶/۷۶)
مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کے شرائط
فقہاء نے مصالح مرسلہ پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں:
۱۔وہ مصلحت ایسی ہوجوشریعت کے مقاصد کے مناسب ہو اور دلائلِ قطعیہ کے مخالفت نہ ہو اور نہ ہی کسی اصل کے منافی ہو؛ بلکہ شارع کی مراد کے موافق اور اس سے متفق ہو۔
۲۔مصلحت بذاتِ خود معقول ہو، عقول سے بالاتر نہ ہو، عقل سلیم ان کو قبول کرتی ہو۔
۳۔مصلحت کی رعایت کا مقصد کسی ضرر کو دفع کرنا ہو، محض نفسانی خواہشات کی پیروی نہ ہو۔
سوال۔3۔امر کے صیغے کا مختلف معنی میں استعمال مشترک اور موول کی تعریف اور احکام بیان کریں
جواب۔
امر:
امر کا لفظ دو معنوں کےلیے استعمال ہوتا ہے:
1۔ فعل کو طلب کرنے کےلیے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ ﴾ [طه:132] اور اپنے گھر والوں کو نماز کاحکم دیجئے۔
اس امر کی جمع ’اوامر‘ آتی ہے۔
2۔ کام ، حالت اور معاملہ کےلیے ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ ﴾ [آل عمران:159] اور معاملات میں ان سے مشورہ لیجئے۔
اس امر کی جمع ’امور‘ آتی ہے۔
یہاں (اصول فقہ میں) امرپہلے معنی میں ہے کیونکہ اسمیں طلب کا معنی پایا جاتا ہے۔
اصطلاحی تعریف: تحکم کے انداز میں فعل کو اس قول کے ذریعے طلب کرنا جو اس (طلب کرنے) پر دلالت کرے۔
اکثر اصولیوں نے آمر(حکم دینے والے) میں علو اور استعلاء کی شرط نہیں لگائی اس کےلیے انہوں نے عمرو بن العاصtکی بات سے استشہاد کیا ہے جو انہوں نے ماویہtسے کہی تھی:
سوال۔4۔صریح و کنایہ کی تعریف اور مثال اور حکم واضح کریں
جواب۔
صریح کی تعریف:
ما ظھر بہ المعنی المراد ظھورا بینا بسبب کثرۃ الاستعمال حقیقۃ کان او مجازا
صریح وہ لفظ ہے جس کے معنی اور مراد کسی خاص معنی میں کثرت کے سبب بالکل واضح ہو، خواہ وہ صریح حقیق ہو یا مجازی۔
صریح وہ لفظ ہے جس کی مراد بالکل واضح ہو اس طور پر کہ جب وہ بولا جائے تو مراد سمجھ میں آ جائے۔
صریح کی مثال:
اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا ” انت طالق” تو فورا طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ وہ یہ کہے کہ غلطی سے میرے منہ سے نکل گیا تھا یا میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی کیونکہ لفظ ”طالق” طلاق دینے میں بالکل صریح ہے اس میں نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
صریح میں نیت و تاویل کا اعتبار اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح تو کوئی بھی شخص کچھ بھی صراحۃ کہہ کر مکر سکتا ہے حتی کہ معاذ اللہ کلمہ کفر تک بک کر یہ کہہ سکتا ہے کہ میری یہ نیت نہیں تھے۔
…………………………………………………………………………………………………………..
………………………………………………………………………………………………………..
…………………………………………………………………………………………………………..
سوال۔5۔اجتہاد اور تقلید کی تعریف اقسام اور احکام کریں
جواب۔
تقلید (فقہ)
تقلید اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح کا نام ہے ۔ دین کے فروعی مسائل میں کسی دوسرے شخص کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کو تقلید کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اسلام کے اکثر مکاتب فروع دین میں اس شرط کے ساتھ جواز کے قائل ہیں کہ اگر انسان اس قدر صلاحیت کا مالک نہ ہو کہ وہ قران و سنت سے اسلامی احکام اخذ کر سکے اور نہ وہ احتیاط پر عمل کر سکے تو ایسے شخص کیلئے جائز ہے کہ وہ تقلید پر عمل کرے ۔اس مسئلے کے اثبات کیلئے انہوں نے مختلف دلائل ذکر کئے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ مذہب تشیع میں اسلام کے دو حصے بیان کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک کو اصول دین جس میں توحید ،عدل، نبوت، امامت اور قیامت ذکر کئے جاتے ہیں، ان میں تقلید کرنا جائز نہیں ہے اور دوسرا حصہ فروع دین کہلاتا ہے اس میں تقلید کرنا ممکن ہوتا ہے
اجتہاد
اجتہاد، اسلامی فقہ کی رائج اصطلاحوں میں سے ایک اصطلاح کا نام ہے۔ جس کے معنی مخصوص شرائط کے ساتھ فقہی مصادر میں سے عملی احکام اور وظائف کا استنباط و استخراج کرنا ہے۔ یعنی انسان میں ایسی صلاحیت کا ہونا جس کے ذریعے وہ اسلامی احکام کو اس کے مخصوص مصادر اور مآخذ سے اخذ کر سکے اس قابلیت کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ جس شخص میں یہ صلاحیت ہائی جائے اسے مجتہد یا فقیہ کہا جاتا ہے۔ اکثر شیعہ علماء کے نزدیک فقہی مصادر، قرآن، سنت، اجماع اور عقل ہیں۔اس کی توضیح کے لیے ضروری ہے کہ ان کے علماء اور محققین کی کتابوں سے چند ایک نمونے ذکر کئے جائیں تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ اجتہاد مختلف معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے ان میں سے کچھ معانی ایسے ہیں جنہیں اسلام نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ایسا اجتہاد کرنے کی اسلام نے اجازت نہیں دی ہے اور اسلام نے اس اجتہاد سے منع کیا ہے اور کچھ معانی ایسے ہیں جن کی روایات سے تائید ہوتی ہے۔