AIOU Course Code 9005-2 Solved Assignment Autumn 2021

کورس: شعری اصناف: تعارف و تفہیم دوم (9005)            

سطح: بی ایس اردو

سمسٹر: خزاں 2021

امتحانی مشق نمبر 2

سوال نمبر 1: اکبر آلہ آبادی کی قطعات کا موضوعاتی اور فنی جائزہ پیش کریں؟

اردو ادب کے قاری جب اکبر الٰہ آبادی کے ظرافت سے بھرپور اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں اور جب اس شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ 16 نومبر 1846 میں تفضل حسین کے گھرانے میں پیدا ہوئے اکبر الٰہ آبادی، جن کا اصل نام سید اکبر حسین تھا، نے اپنی شاعری سے اصلاح معاشرہ کا وہ کام لیا جو سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈال کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی اس طرز شاعری کی خوبی ہی تھی کہ لوگوں کی انا کو ٹھیس بھی نہیں پہنچتی تھی اور وہ اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور بھی ہو جاتے تھے، مثلاً

دنیا میں لذتیں ہیں نمائش ہے شان ہے

ان کی طلب میں حرص میں سارا جہان ہے

اکبرؔ سے سنو کہ جو اس کا بیان ہے

دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے

عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے

نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے

نہیں رہے گی وہ خوبی جو زن ہے بے پردہ

سبب یہ ہے کہ نگاہوں کی مار پڑتی ہے

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تعلیم کے دلدادہ سر سید احمد خان کے مخالف تھے۔ لیکن دونوں شخصیتوں پر گہری نظر رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ سر سید سے اکبر کا اختلاف شخصی نہیں بلکہ نظریاتی تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تہذیب اور برطانوی عادات و اطوار سے انتہائی درجہ نفرت کرتے تھے۔ سر سید سے اختلاف بھی اسی سلسلے میں تھا، ورنہ اپنی زندگی کے آخر وقت میں انھوں نے سر سید کے کاموں کی تعریف کئی اشعار کے ذریعہ کی ہے۔ اس اشعار کو پڑھ کر آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ وہ سر سید کی کارگزاری سے خوش تھے اور ان کے ذریعہ کیے گئے کاموں کے دلدادہ بھی۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

واہ اے سید پاکیزہ گہرکیا کہنا

یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا

قوم کے عشق میں یہ سوز جگر کیا کہنا

ایک ہی دھن میں ہوئی عمر بسر کیا کہنا

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے

نہ بھولو فرق ہے جو کہنے والے اور کرنے والے میں

صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی کتاب ’انتخاب اکبر الٰہ آبادی‘ میں اس تعلق سے بہت خوب لکھا ہے اور سرسید و حالی کی طرح اکبر کو بھی اصلاح پسند ادیب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ اکبر کے نزدیک شاعری کا مقصد زندگی کی تنقید و اصلاح تھا… سرسید تحریک کے علمبرداروں نے اور اکبر نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق شاعری کے ذریعے قومی اصلا ح کی کوشش کی۔سماجی اعتبار سے متضاد نقطہ نظر رکھنے کے باوجود سرسید، حالی اور اکبر یکساں ادبی نقطہ نظر کے حامل تھے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزی زبان یا مغرب کی اچھی چیزوں کو اختیار کرنے سے منع نہیں فرمایا، اگر اپنی شاعری میں کہیں ’انگریزی‘ یا ’انگلش‘ کی تنقید کی ہے تو ان کا اشارہ انگریزی یا مغربی تہذیب کی طرف ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا انگریزی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ وہ انگریزی زبان کے مخالف نہیں تھے۔ اس کی مثال ان کے ہی اشعار سے ملاحظہ فرمائیے:

عاشقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام

ہم توABمیں رہے اغیار BAہوگئے

تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو

پر ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد

اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو

اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو

بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو

خواص خشک و تر سیکھو علوم بحر و بر سیکھو

اکبر الٰہ آبادی کو انگریزوں سے سخت درجہ کی نفرت تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے 1857 کی جنگ اور انگریزوں کے مظالم کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کالج و یونیورسٹیوں میں انگریزی طرز تعلیم کے خلاف خوب آواز اٹھائی۔ سر سید نے جب اس انگریزی طرز کو اختیار کیا تو انھوں نے برجستہ یہ شعر کہہ ڈالا:

ابتدا کی جناب سید نے

جن کے کالج کا اتنا نام ہوا

انتہا یونیورسٹی پر ہوئی

قوم کا کام اب تمام ہوا

نظر ان کی رہی کالج میں بس علمی فوائد پر

گراکے چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر

لسان العصر کے لقب سے سرفراز اکبر الٰہ آبادی نے ہمیشہ اسلامی تہذیب کا پاس رکھا اور مسلمانوں سے ہمیشہ یہی گزارش کی کہ وہ اپنی تابناک تہذیب و ثقافت سے دستبردار نہ ہوں۔ اس معاملے میں ان کا ذہن کافی حد تک علامہ اقبال سے وابستہ تھا، بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ علامہ اقبال اکبر الٰہ آبادی کو اپنا مرشد معنوی تصور کرتے تھے۔ اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کے نام 6 اکتوبر 1911 کو لکھے ایک خط میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت اور عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں، خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں، ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے‘‘۔ کچھ ایسی ہی محبت اکبر الٰہ آبادی کو اقبال سے بھی تھی۔ انھوں نے اپنے ایک شعر میں اس بات کا اظہار بھی کیا جو اس طرح ہے:

دعویٔ علم و فرد میں جوش تھا اکبر کو رات

ہو گیا ساکت جب ذکر اقبال آگیا

ادب صرف شعر و شاعری یا داستان گوئی و افسانہ سازی نہیں بلکہ تنقید حیات کا بھی نام ہے۔ ہر ادیب اپنی زندگی میں الگ الگ طریقے سے تنقید حیات کا کام کرتا رہتا ہے، اور اکبر الٰہ آبادی نے بھی اپنی ایک منفرد راہ اختیار کی تھی۔ ان کی شاعری جس قدر آسان فہم اور سہل ہوا کرتی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ ذہین تھے۔ انہوں نے ادب ‘فلسفہ اور مذہب کی کتابیں خوب پڑھی تھیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزی کتاب’فیوچر آف اسلام ‘ کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ بھی کیا۔ وہ ایک ذہین اور باصلاحیت انسان تھےجنھوں نے تحصیلداری بھی کی، عدالت خفیفہ کی منصفی بھی کی، سیشن جج بھی رہے اور اپنی خدمات کے باعث ’خان بہادر‘ کا خطاب بھی حاصل کیا۔ انہیں ہائی کورٹ میں جج بننے کا بھی موقع حاصل ہوا تاہم خرابی صحت کے سبب 1903 میں قبل از وقت وظیفہ پر سبکدوش ہوگئے۔ سبکدوشی کے بعد انھوں نے پوری طرح سے خود کو شعر و ادب اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے وقف کر دیا۔ زندگی کے آخر وقت میں انھوں نے ایک زمانہ شناس، ماہر نباض اور حاذق حکیم کی صورت اختیار کی اور اپنی شاعری میں کھری کھری باتیں سنانے کے ساتھ ساتھ مرض کا علاج بھی بتایا۔ ان کی نظم ’تعلیم نسواں‘ اس کی بہترین مثال ہے جس میں انھوں نے انتہائی ناصحانہ انداز اختیار کیا ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے

لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے

داتا نے دھن دیا ہے تو دل سے غنی رہو

پڑھ لکھ کے اپنے گھر ہی دیوی بنی رہو

مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے

مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے

اکبر الٰہ آبادی کا نام جب بھی زبان پر آتا ہے تو لوگ کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آنے لگتی ہے اور ان کے مزاحیہ اشعار ذہن میں گردش کرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ وہ اصلاح ملت کے عظیم علمبردار ہیں۔ وہ مزاحیہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جدید فلسفی شاعر بھی تھے۔ اس عظیم اور خاکسار شاعر کا انتقال 9 ستمبر 1921 کو الٰہ آباد میں ہوا اور یہیں کی خاک میں دفن کیے گئے۔ اس مشہور عام شاعر کے بے شمار اشعار ہیں جو لوگوں کی زبان زد ہیں۔ آخر میں پیش ہیں کچھ ایسے ہی اشعار جنھیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا:

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

اک دن تھا وہ کہ دب گئے تھے لوگ دین سے

اک دن یہ ہے کہ دین دبا ہے مشین سے

بتاؤں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

بہت ہی بگڑے وہ کل مجھ سے پہلے بوسے پر

خوش ہوگئے آخر کو تین چار کے بعد

حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق ہے اتنا

کہ یہ جامے سے باہر ہے اور وہ پاجامے سے باہر ہے

یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا

افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھاجو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

برق کے لیمپ سے آنکھوں کو بچائے رکھنا

روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے

سوال نمبر 2: شعری صنف سی حرفی کا پنجابی ادب سے کیا تعلق ہے؟ پنجابی اور ادب سی حریفوں کی خصوصیات بیان کریں؟

قادر یار کا پنجابی کلاسیکی شاعری میں ایک منفرد مقام ہے۔ ان کا اصل نام قادر بخش تھا۔ وہ ایمن آباد کے ایک نزدیکی گاؤں ً مچھی کے ًکے سندھو جاٹ زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کا سال 1802 ء مانا جاتا ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں اتنا ہی معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد سے حاصل کی۔ پنجابی چونکہ ان کی مادری زبان تھی اس پر انھیں عبور حاصل تھا جبکہ عربی اور فارسی بھی تھوڑی بہت جانتے تھے۔ ان کو اوائل عمری میں ہی قصے کہانیاں اور اسلامی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اسلامی تاریخ اور عشقیہ داستانوں میں ان کی دلچسپی ان کے مطالعہ کے شوق کو ظاہر کرتی ہے۔ انھیں اپنے ان پڑھ ہونے کا احساس بدرجہ اتم تھا، اسی لئے آپ معراج نامہ میں لکھتے ہیں

جوڑ معراج مرتب کیتا جو کجھ ساتھوں سریا

میں دہکان بے علم وچارا دوش نہ چاہے دھریا

کچھ محققین نے ان الفاظ کو ان کے ان پڑھ ہونے کا اعتراف جانا ہے لیکن کچھ کی نظر میں یہ ان کا اپنے بارے میں عاجزی و انکساری کا اظہار ہے۔ قادر یار اپنے بچپن میں روایتی زمینداری کے کاموں میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ زیادہ وقت قصے کہانیاں پڑھنے میں گزار دیتا تھا۔ اس وجہ سے وہ اکثر اپنے والد اور بڑے بھائی بہادر بخش کے غضب کا شکار ہوتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نظمیں لکھنے، پھر بیکار رہنے اور زمینداری میں اپنے بڑوں کا ہاتھ نہ بٹانے پراس کو اکثر باپ اور بڑے بھائی کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا۔ باپ کی وفات پر اسے بیکار ہونے اور زمینداری کا کام نہ کرنے کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑا تو وہ گاؤں کے باہر واقع کنویں کے پاس ایک چھوٹی سی کٹیا بنا کر اس میں رہنے لگا۔ اس کٹیا میں بیٹھ کر اس نے روزہ نامہ لکھا، معراج نامہ لکھا، قصہ پورن بھگت اور دوسرے قصے مرتب کیے۔

کچھ محقق اس بارے میں ایک اور کہانی بتاتے ہیں جس کے مطابق گاؤں کی ایک گوری رضیہ کو نوجوان اور خوبصورت قادر یار سے پیار ہو گیا تھا۔ لیکن وقت کی گردش نے رضیہ کو قادر یار کے بھائی بہادر بخش کی تیسری بیوی بنا دیا۔ شادی کے بعد رضیہ نے قادر یار کے انکار کے باوجود اس سے رسم و راہ بڑھانے کی کوشش کی جس میں ناکامی پر وہ غصے میں قادر یار سے بدلہ اور انتقام لینے کی آگ میں جلنے لگی۔ رضیہ نے قادر کے خلاف بے جا الزامات لگا کر اپنے خاوند کے کان بھرنے شروع کر دیے۔

پھر اس نے قادر یار پر زیادتی کا الزام لگایا۔ قادر یار نے اپنے بھائی اور گاؤں والوں کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہی لیکن انہوں نے اس کی کوئی بات نہیں سنی اور اسے پہلے گھر اور پھر گاؤں سے نکال دیا۔ ایسے میں وہ اور کہاں جاتا، اس نے اپنے ہی گاؤں سے باہر واقع کنویں کے پاس پیپل کے درخت کے نیچے ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنائی اور اس میں رہنے لگا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قادر کو گھر سے نکلوانے میں اس کی بھابھی رضیہ آلہ کار بنی۔ گھر اور گاؤں سے نکلنے پر نوجوان قادر یار کو بہت سی ذہنی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا، شاید اسی وجہ سے قادر یار نے قصہ پورن بھگت لکھا کیونکہ اس کی طرح پورن بھگت کو بھی اس جیسے حالات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

گاؤں سے باہر کنویں پر اکیلے رہنے کے دوران قادر یار نے بہت سے قصے کہانیاں پڑھیں۔ گاؤں کی گوریاں پانی بھرنے اپنی گھاگریں لے کر اکثر اس کنویں پر آتیں۔ کنویں کے ساتھ پیپل کا ایک بڑا درخت تھا جس وجہ سے اس کا نام پیپل والا کھوہ پڑ گیا۔ کھوہ پنجابی زبان

میں کنویں کو کہتے ہیں۔ اسی پیپل کے پیڑکی چھاؤں میں بیٹھ کراس نے قصہ پورن بھگت لکھا۔ سردار ہری سنگھ نلوا کو یہ منظوم قصہ اتنا پسند آیا کہ اس نے پیپل والا کنواں اور اسے کے اردگرد کی ساری زمین قادر یار کے نام کر دی۔

مولانا مولا بخش کشتہ اپنی کتاب ً پنجابی شاعراں دا تذکرہ ً میں لکھتے ہیں کہ قادر یار کو ایک پرانے شاعر حافظ مراد کا لکھا ہوا نور نامہ پڑھ کر شعر لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ پہلے انہوں نے ایک روزہ نامہ لکھا پھر اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم کے معراج کے واقعے کو ایک منظوم شکل دے کر معراج نامہ لکھا۔ اس کے بعد انہوں نے قصہ پورن بھگت لکھا جو اس وقت کی سکھ اور ہندو آبادی میں بہت زیادہ مشہور ہوا۔ اپنی شاعری میں انہوں نے لفظوں کو اپنی مرضی سے استعمال کیا ہے۔ ان کا لفظوں کا چناؤ بہت سادہ اور زبان بہت بھلی ہے جو دل کو کھینچتی ہے۔

قادر یار ایک پرہیزگار، متقی اور عبادت گزار مسلمان تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی عمر میں روزہ نامہ لکھا اور پھر تیس سال کی عمر میں معراج نامہ لکھا۔ جو ان کے راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کا ثبوت ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کسی بھی دوسرے مذہب کے لئے تنگ نظر نہیں تھے۔ بلا شبہ وہ پہلے پنجابی شاعر تھے جنہوں نے پورن بھگت کا قصہ منظوم کیا اور اس کو ایک لافانی بنا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے قصہ سو ہنی مہینوال منظوم کیا جو فنکارانہ نقطہ نگاہ سے قادر یار کی ایک بہترین تخلیق ہے حالانکہ یہ قصہ پورن بھگت جیسی مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔

انہوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مشہور جرنیل سکھ سردار ہری سنگھ نلوا کے کہنے پر اس کی وار لکھی۔ یہ وار یا جنگ کے گیت ہری سنگھ کی تعریف کے لئے منظوم کیے گئے۔ اس وار میں نلوا کی کابل کی مہم پیش کی گئی ہے جس میں سکھ فوج کی بہادری اور برتری کو سراہا گیا ہے۔ اس نظم میں ہری سنگھ نلوا کو ایک لڑاکا اور بہادر فوج کے تجربہ کار سپہ سالار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں انہوں نے ً وار رانی کو کلیاں راجہ رسالو ً لکھی۔ پورن بھگت کی طرح اس کہانی کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا۔ کو کلیاں سیالکوٹ کے راجہ رسالو کی رانی تھی۔ راجہ رسالو سیالکوٹ کے راجہ سلوان اور رانی لونا کا بیٹا تھا جو پنجاب کا حکمران بنا۔ وہ ایک بہادر اور انصاف پسند حکمران تھا جس وجہ سے پنجاب میں ایک بہادر اور عادل حکمران کے طور پر جانا جاتا تھا۔

قادر یار مہاراجہ رنجیت سنگھ کا کم عمر عم عصر تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب میں جاگیرداری نظام کا دور دورہ تھا۔ پروفیسر نرنجن سنگھ تسنیم اپنی کتاب ً قادر یار، ہندوستانی ادب کے معمار ً میں لکھتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں فن و ادب اور کلچر کو دوام ملا۔ مہاراجہ کی سیکولر پالیسی کی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں کی مہاراجہ کے دربار میں پذیرائی ہوئی۔ انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع ملا۔ پنجابی زبان کی بہت زیادہ ترویج ہوئی لیکن فارسی پھر بھی عدالت کی زبان رہی۔

سیاسی پختگی کی وجہ سے قصہ خوانی کا رواج ہوا۔ ریاست میں سیاسی استحکام نے طویل قصہ خوانی کی ترویج کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب جاگیردار عشق و محبت کے قصے، بہادری اور شجاعت کی کہانیاں سننا چاہتے تھے۔ اس دور کے زیادہ قصے یا تو ہیر رانجھا۔ مرزا صاحباں۔ سوہنی مہینوال، شیریں فرہاد کی معروف محبت کی کہانیوں یا پھر راجہ رسالو، ہری سنگھ نلوا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بہادری اور سیاسی کارناموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں رجحانات کے ساتھ ساتھ تیسرا رجحان سنیاسوں کو مناسب تسلیم کیا گیا جس سے اخلاقی راست بازی کے جھنڈے کو برقرار رکھنے والے اشخاص کو اہمیت ملی۔

آپ نے اوائل نوجوانی میں معراج نامہ لکھا۔ انہوں نے معراج نامہ کی تکمیل پر ایک شعر لکھا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ حضور کے وصال کے بارہ سو سینتالیس سال بعد میں نے یہ معراج نامہ منظوم کیا ہے۔

بارہ سو سنتالی سالاں پاک نبی دے پچھوں

ایہہ مذکور بنایا یارو ویکھ معارج وچوں

معراج نامہ کے آغاز میں انہوں نے اللہ تعالی کی حمد بیان کی ہے اور اس کے بعد مدحت رسول ﷺ بیان کرنے کے بعد معراج نامہ شروع کیا

ہے

ا اللہ خالق رازق مالک قدر ت سندا والی آدم ؑ جن ملائک ہر شے در تے نت سوالی

اوہ رحمت دا دریا الٰہی بے پرواہ کہاوے ظاہر باطن قدرت اس دی کجھ حساب نہ آوے

میں کجھ خبراں علموں پایاں قدرت نال سنائیں جا نجا الف اکلا آہا ناں سی شام صباحیں

نہ آسمان نہ زمیاں دوزخ نہ سن ایڈ سرشتے نا شب روز نہ آتش پانی نہ سن حور فرشتے

جدوں کیتا رب نور نبی ﷺ دا ظاہر فضل کمالوں اسم محمد ﷺ کہیا ا لہٓی میموں حیوں دالوں

پھیر نبی ﷺ دے نوروں کیتا کل ظہور الٓھی جو کچھ نورنامے وچ لکھیا جانو سچ گواہی

ایڈا فضل نبی ﷺ تے کیتا آپ اللہ حق تعالیٰ وچہ قرآن لکھی خوشخبری ذکر معراجے والا

پاک محمد ﷺ بندے اتے فضل خداوند چاہیا مسجد اقصٰے مکے تائیں راتیں سیر کرایا

تھوڑی رات حساب پلاں دی بہتی رات نہ آہی مسجد اقصٰی جا پہنچا یا قدرت نال الٓھی

ا اللہ تعالیٰ سب کا خالق، سب کو رزق دینے والا اور سب جہانوں کا مالک ہے۔ سب انسان، فرشتے اور چیز اس کے گھر کی سوالی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمت کا دریا ہے۔ لیکن بے پرواہ کہلاتا ہے۔ اس کے ظاہر اور باطن دونوں اس کی قدرت ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ میں نے کچھ خبریں تو علم سے پائیں اور رب کی قدرت سے سب کو سنائیں۔ اس وقت صرف اللہ تعالی کی ہی ذات تھی۔ آسمان نہیں تھا یہ زمین نہیں تھی۔ نہ دوزخ تھا اور نہ ہی جنت۔

نہ دن اور نہ ہی رات، نہ آگ اور نہ پانی، اور نہ ہی فرشتے اور حوریں تھیں۔ جب اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کا نور ظاہر کیا تو اسے م، ح اور دملا کر محمد کا نام دیا۔ پھر اللہ تعالی نے ساری دنیا بنائی۔ جو کچھ بھی نور نامہ میں لکھا ہوا ہے اسے سب سچ جانیں۔ اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ پر اپنا فضل و کرم کیا اور قرآن میں انھیں معراج اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک بندے پر اپنا کرم کیا اور انھیں مکہ سے مسجد اقصیٰ تک رات کو سیر کرائی۔ رات کا تھوڑا حصہ باقی تھا جب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے آپ کو مسجد اقصیٰ میں پہنچا دیا۔

معران نامہ قادر یار مطبوعہ ملک محمد دین ناشر کتب لاہور کے پینتالیس صفحے ہیں اور ہر صفحے میں تیس سے زیادہ اشعار ہیں۔ منظوم معراج نامے میں حضور کی معراج کا پورا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ معراج کے بارے میں ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں اور ہمیں اس کی ساری تفصیل یاد ہے۔ قادر یار معراج کے بارے میں لکھتے ہیں۔

سال بونجہ عمر نبی دی آہی اوس دیہاڑے ہویا جدوں معراج نبی دا کلمے دی بادشاہی

ماہ رجب دا آہا مہینہ ہویا جدوں فصل سی اکس بزرگ روایت کیتی ماہ ربیع الاول سی

اس دن حضور اکرم ﷺ کی عمر باون سال تھی جب نبی صلعم کا معراج ہوا اور اسلام کی سربلندی ہوئی۔ جب یہ فضل الیٰ ہوا تو رجب کا مہینہ تھا۔ ایک بزرگ نے روایت کی ہے کہ وہ ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ معراج نامہ کا منظوم اختتام کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔

جوڑ معراج مرتب کیتا جو کجھ ساتھوں سریا میں دہقان بے علم وچارا دو س نہ چاہے دھریا

دم دم فکر دلے وچہ کر کے برکت نال الٰہی مروارید زمرد چن لے تحفہ چیز بنائی

دل وچ فکر نبی سرور دا ہور خیال بھولایا چھوٹی عمرے سر پر سختی ایہہ معراج بنایا

کر کے ختم معراج نبی نوں بعد درود پہنچاناں جیکو حرف اسانوں بخشے ہوس فضل رباناں

قادر عاجز عاصی بندہ صفت بناون والا برکت کلمے پاک نبی دی اجر دیوے حق تعالیٰ

آپ بڑی عاجزی سے کہتے ہیں کہ مجھ سے جو کچھ ہوسکا اپنی سمجھ کے مطابق الفاظ جوڑ کر معراج نامہ ترتیب دیا ہے۔ میں بیچارا کسان اور کم علم ہوں اس لئے مجھ سے گلہ نہ کریں۔ اللہ تعالی کی برکت سے میں نے بڑی غور و فکر سے مروارید اور زمرد جیسے قیمتی الفاظ چن کر یہ تحفہ بنایا ہے۔ معراج نامہ منظوم کرتے وقت دل سے دنیا کے سب خیالات نکال کر صرف نبی ﷺ اکرم کا خیال دل میں بسا کر میں نے یہ کام کیا ہے۔ چھوٹی عمر میں سخت محنت کر کے میں نے یہ معراج نامہ منظوم کیا ہے۔ آپ اس معراج نامہ کو پڑھ کر درود شریف پڑھ کر حضور کی خدمت میں پیش کریں اور کچھ الفاظ میری بخشش کے لئے بھی فرما دیں تو آپ پر اللہ تعالی کا کرم ہو گا۔ قادرا اللہ تعالی کا ایک عاجز اور گنہگار سا بندہ ہے۔ نبی ﷺ کے کلمے کی برکت سے اللہ تعالی اسے اجر عطا فرمائے۔

بنیادی طور پر قادر یار کی شاعری میں مقصدیت ہے وہ اپنے کلام کے ذریعے اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے قصہ پورن بھگت منظوم کرتے وقت ہندو قدیم روایات کے متعلق لکھتے ہوئے کہیں بھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا۔ انہوں نے اپنے تقوی اور پاکیزگی کے پیغام کو ہر گھر تک پہنچانے کے پیش نظر ایک ہندو قصے کا انتخاب کیا جس کے ہندو اکثریت والے معاشرے پر اثرات کافی حد تک یقینی تھے۔

قصہ پورن بھگت۔

پرانی بات ہے کہ سیالکوٹ میں ایک ہندو راجہ سلوان کی بادشاہی تھی۔ راجہ سلوان کی دو بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی اچراں سے راجہ سلوان کے ہاں بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے پورن رکھا۔ پنڈتوں نے پورن کی جنم کنڈلی دیکھ کر راجہ سلوان سے کہا کہ شہزادے کا محل میں رہنا اس کے لئے خطرناک ہو گا، اس لئے اسے بارہ سال تک محل اور اپنے آپ سے دور رکھیں۔ پنڈتوں کی اس ہدایت پر پورن شہزادے کو تک محل سے دور ایک جگہ پر رکھ کر اس کی پرورش کی گئی۔

اس دوران بوڑھے راجہ سلوان نے ایک نیچی ذات کی جوان لڑکی لونا سے دوسری شادی کر لی۔ جب پورن جوان ہو کر اپنے محل میں واپس آیا تو وہ ایک اونچا لمبا خوبصورت جوان بن چکا تھا۔ جب وہ اپنی دوسری ماں لونا کو ملنے اس کے محل میں گیا تو جوان پورن کو دیکھ کر لونا کے دل میں ہوس کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے پورن کو اپنے نزدیک آنے کو کہا اور اس سے اپنی پیاس بجھانی چاہی۔ شہزادے نے اسے اپنی ماں سمجھتے ہوئے اس کی بات نہیں مانی اور اس سے جان چھڑا کر اس کے محل سے آزردہ واپس آ گیا۔

راجہ سلوان کے لونا کے محل میں واپس لوٹنے پر لونا نے پورن شہزادے کی شکایت لگاتے ہوئے بادشاہ سے کہا کہ جوان پورن نے اس کے محل میں آ کر زبردستی اس کی عصمت دری کرنے کی کوشش کی ہے۔ بوڑھا راجہ سلوان جو پہلے ہی لونا کے زیر اثر تھا، یہ سن کر غضبناک ہو گیا اور اس نے سزا کے طور پر نے پورن کے ہاتھ پاؤں کٹوا کر اس کے مسخ شدہ جسم کو جنگل میں ایک کنویں میں پھینک دیا۔

بارہ سال تک پورن اس کنویں میں پڑا رہا۔ ایک دن ایک مشہور جوگی گورو گورکھ ناتھ نے شولاک سے واپسی پر اس کنویں کے پاس سے قیام کیا۔ کنویں کے اندر سے پورن کی آواز سن کر گورو کے چیلوں نے اسے کنویں سے نکالا۔ گورو نے اس کا علاج کیا اور اسے اپنا بھگت بنا دیا۔ پورن نے اپنی ریاضت سے بہت جلد بہت سی روحانی طاقتیں حاصل کر کے بڑی شہرت حاصل کر لی۔ لونا کی ابھی تک کوئی اولاد نہ تھی۔ پورن بھگت کی شہرت سن کو وہ راجہ سلوان کے ساتھ اس کے پاس آئی۔

پورن بھگت نے اسے شہزادے کی پیدائش کی پشین گوئی کی۔ اس پر وہ اس کی بہت ممنون ہوئی تو پھر پورن بھگت نے لونا سے اس کے بیٹے پورن کے بارے میں سچی بات پوچھی۔ حیران اور شکرگزار لونا نے جب اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ پورن بے گناہ تھا اور اس نے اس پر غلط الزام لگایا تھا تو پورن نے اپنی شناخت ظاہر کر دی۔ راجہ نے پورن سے بادشاہی میں واپس آنے کی التجا کی لیکن پورن نے ان سے کہا کہ بادشاہی نئے شہزادے کا حق ہے۔ اسے اب بادشاہی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پورن نے اس

کے بعد اپنی ساری زندگی بھگتی میں اس کنویں کے پاس گزار دی۔ راجہ سلوان نے اس کنویں کے پاس ایک بہت بڑا کمپاؤنڈ تعمیر کروایا۔ جس کے کھنڈرات ابھی باقی ہیں۔ اب بھی بہت ساری بے اولاد خواتین اولاد کے لئے اس جگہ پر حاضری دیتی ہیں۔

قادر یار نے جو قصہ پورن بھگت منظوم کیا اس میں پانچ طویل سی حرفیاں ہیں اور ان پانچ سی حرفیوں میں سے ہر ایک میں تیس تیس بند ہیں۔ سی حرف پنجابی کی ایک خاص صنف ہے جو کسی دوسری ہندوستانی زبان میں نہیں پائی جاتی۔ پروفیسر حمیدا اللہ شاہ ہاشمی اپنی کتاب ً سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو ً میں سی حرفی کے بارے میں لکھتے ہیں ً

سی حرفی پنجابی شاعری کی ایک قدیم اور مقبول صنف ہے جس میں حروف تہجی یا حروف ابجد کے حساب

سے شعر کہے جاتے ہیں۔ ابجد کے تیس حروف کی رعایت سے الف سے ی تک، ہر حرف سے شروع

ہونے والے لفظ کے لحاظ سے بند لکھا جاتا ہے پرانے شعرا میں سے اکثر کا کلام اسی صنف میں ملتا ہے۔

سی خرفی میں نہ صرف عشقیہ اور متصوفانہ دونوں قسم کے مضامین بیان کیے جاتے ہیں بلکہ اس میں دوسرے

موضوعات کے ساتھ بھی طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ بعض شعرانے یہ صنف جنگ نامے، نعت اور داستان

کے لیے بھی استعمال کی ہے۔ ً سی ً فارسی زبان کا لفظ ہے جو تیس () کے معنی دیتا ہے۔ سی حرفی یعنی

تیس حرفوں والی نظم۔ اس میں ہر شعر یا بند نئے حرف سے شروع ہوتا ہے۔ ً

قادر یار نے قصہ پورن بھگت کا آغاز اس بند سے کیا۔

الف آکھ سکھی سیالکوٹ اندر پورن پت سلوان نے جایا ای

جدوں جمیا راجے نوں خبر ہوئی سد پنڈتاں وید پڑھایا ای

باراں برس نہ راجیا منہ لگیں ویکھ پنڈتاں ایہہ فرمایا ای

قادر یار میاں پورن بھگت تائیں باپ جمدیاں ای بھویرے پایا ای

کہتے ہیں کہ سیالکوٹ کے راجہ سلوان کے گھر پورن نام کا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ جب راجہ کو اپنے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی خبر ملی تو اس نے ہندو مذہب کے مطابق پنڈتوں کو اپنے محل میں بلا کر ان سے عبادت کروائی۔ پنڈتوں نے شہزادے کی جنم کنڈلی دیکھ کر راجہ سلوان سے کہا کہ کہ بارہ سال تک شہزادے کو اپنے پاس نہ رکھنا۔ ورنہ شہزادے کی جان کو خطرہ ہے۔ قادر یار پورن بھگت کو پیدا ہوتے ہی باپ نے اپنے سے جدا کر کے دوسری جگہ بھیج دیا۔

جب شہزادہ پورن بارہ برس محل سے دور گزار کر جوان ہو گیا تو پنڈتوں نے اسے اپنے محل آنے کی اجازت دے دی۔ شہزادے کا محل میں اپنی سوتیلی ماں سے جب سامنا ہوا تو اس کی سوتیلی ماں لونا اس پر فریفتہ ہو گئی اس کیفیت کو قادر یار نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

ص صفت نہ حسن دی جائے جھلی رانی ویکھ کے پورن نوں ترت مٹھی

صورت نظر آئی راجا بھل گیا سر پیر تائیں اگ بھڑک اٹھی

دلوں پتر نوں یار بنایا سو اس دی ثابتی دی وچوں لج ٹٹی

قادر یار تریمت ہنسیاری لگی ویکھ وگاونے ندی پٹھی

مردانہ وجاہت سے بھرپور اور کڑیل جوان پورن شہزادے کو دیکھ کر رانی لونا حیران رہ گئی۔ اسے اپنا راجہ بھول گیا اور ہوس کی آگ اس کے سرتاپے

میں جاگ اٹھی۔ اس نے دل میں اپنے بیٹے کو اپنا یار بنا لیا اور ہوس ناکی کی ندی میں بہہ گئی۔ اس نے ماں بیٹا کا رشتہ بھلا کر شہزادے کو دل سے اپنا عاشق کا درجہ دے دیا۔ ہوس کی ماری رانی بیٹے کو اپنا عاشق بنا کر دریا کو الٹا بہانے پر تیار ہو گئی۔

قصہ سناتے ہوئے قادر یار نے اللہ تعالی کی قدرت بھی بیان کی ہے، یہ پنجابی بولنے والوں سے اکثر میں نے سنی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

ک کرم جاں بندے دے جاگدے نی رب آن سبب بناؤندا ای

سروپاء نپہا اؤندا قیدیاں نوں دکھ دے کے سکھ دکھاؤندا ای

رب بے پرواہ بے انت ہے جی اوہدا انت حساب نہ آؤندا ای

قادر یار پھر ثابتی ویکھ اس دی رب حق نوں چا پچاؤندا ای

جب بندے کے اچھے دن آتے ہیں تو اللہ تعالی اس کے اسباب پیدا کر دیتا ہے۔ قیدیوں کو سر سے پاؤں تک باندھ دیتا ہے۔ پہلے دکھ دے کر اس کے بعد سکھ دیتا ہے تو بندہ دکھ بھول جاتا ہے۔ ہمارا رب سدا سے بے پرواہ ہے۔ اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ قادر یار اللہ تعالی کی قدرت اور اس کا انصاف دیکھو کہ وہ ہر حق دار کا حق اس تک پہنچا دیتا ہے۔

سوال نمبر 3: گیت کی تعریف کریں نیز حفیظ جالندھری کے گیتوں پر تفصیلی نوٹ لکھیں؟

لغت میں گیت سے مراد ‘راگ’ ‘سرور’ اور ‘نغمہ’ کے ہیں اسلئے گیت کو گانے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔اس کا گہرا تعلق موسیقی سے ہے اس لیے اس میں سر اور تال کو خاص اہمیت حاصل ہے۔گیت میں جذبات و احساسات اور خاص کر ہجر و فراق کو بڑے والہانہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔

موسیقی میں گیت سروں کی ایک ایسی لہر ہوتی ہے جس میں انسانی آواز بھی شامل ہو اور وہ گیت کے بول گائے۔گیت کو گایا جاتا ہے اور انسانی آواز جو کہ سر میں ادا کی جاتی ہے اس کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔بعض گیت ایسے بھی ہیں جن میں آلات موسیقی کا استعمال ممنوع ہوتا ہے اور گیت کے تمام تر جزئیات انسانی آواز پر مشتمل ہوتے ہیں۔

گیت کے بول عام طور پر شاعری پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کو ادا کرتے ہوئے سر اور تال کا تمام تر احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔گیت کو یا تو ایک ہی گائک (سنگر) گاتا ہے یا پھر مرکزی گلوکار کے ساتھ کئی دوسری آوازیں بھی شامل ہوتی ہیں جو کہ سر کو اٹھانے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شامل کی جاتی ہیں۔

گیت کی کئی قسمیں ہیں جو کہ شاعری، آواز اور خطوں کی بنیاد پر درجہ بندی میں ڈالی جاتی ہیں۔لطیف گیت، کلاسیکی گیت، پاپ گیت یا پھر لوک گیت۔ اس کے علاوہ گیتوں کی درجہ بندی موسیقی کی صنف اور گیت کے مقصد کے تحت بھی کی جاتی ہے۔ جیسے کہ ڈانس، ریپ، جاز، کنٹری وغیرہ..

بطور مثال گیت کا ایک بند پیش کیا جاتا ہے؀

صحرا صحرا من کا چرچا گلشن گلشن جنگ
میں کس کے گیت لکھوں
ڈالی ڈالی پھول پھول پر کروٹ لیں انگارے
شبنم شبنم، پتی پتی، شعلے بانہہ پسارے
سانسوں سانسوں قید ہے خوشبو آنکھوں آنکھوں رنگ
میں کس کے گیت لکھوں

 

ابو الاثر حفیظ جالندھری. پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر اور نثرنگار تھے۔آپ 14 جنوری 1900 کو پیدا ہوے.آپ کا قلمی نام ابولاثر تھا. پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنا لی۔21 دسمبر 1982 کو آپ وفات ا گۓ.اس وقت آپ کی عمر 82 سال تھی.
ابو الاثرحفیظ جالندھری پاکستان کے قومی شاعر تھے۔ مگر ان کی مقبولیت بھارت میں کم نہیں تھی۔ تقسیم ملک سے قبل ہی وہ اپنی ادبی حیثیت منوا چکے تھے۔ ان کی دوسری شناخت ”شاہنامہ اسلام“ کے تناظر میں اسلامی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا شعری حوالہ ہے۔ انہوں نے ثقافتی اکتساب کے حوالوں سے اعلیٰ اور ارفعیٰ اور افضل ہستیوں کی ایسی شعری پیکر تراشی کی کہ ان کی تخلیق بر صغیر ہندو پاک میں اپنی نوعیت کی واحد تخلیق قرار پائی۔


حفیظ جالندھری کی شاعری کی تیسری خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ” ابھی تو میں جوان ہوں“ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔
حفیظ جالندھری بہر حال اردو کے شعری ادب میں قابل ذکر حیثیت کے مالک ہیں اور انہوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں چار جلدوں میں شاہنامہ اسلام، نغمہ زاد ‘ سوز و ساز، تلخابہ شریں اور چراغ سحر چھوڑے۔

سوال نمبر 4: شعری صنف ہائکو کی تعریف کریں  اور ہائیکو لکھنے والے  معروف  شعراء کے کلام  کا تنقیدی جائزہ لیں؟

 ہائیکو (Haiku)

جاپانی صنفِ شاعری ہے۔ ہائیکو اردو اصنافِ نظم میں شائد اس وقت سب سے آخری وارد (Lastest Entry) ہے۔
ہائیکو، تین مصرعوں کی ایک نظم ہوتی ہے، جس میں 17 مقطعات ہوتے ہیں اور اس کا آہنگ پانچ سات پانچ ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیت “اختصار” ہے۔ مناظرِ فطرت میں انسانی رشتوں اور جذبوں کی دریافت ہائیکو کا موضوعی حسن ہے۔
ہائیکو اردو میں تازہ وارد ہے۔ بعض نقادوں نے ثلاثی، بعض نے پنجابی ماہیا اور ڈھولا اور بعض نے مختصر نظم اور قطعے سے ہائیکو کا رشتہ جوڑا ہے۔
ڈاکٹر محمد امین کے خیال میں ہائیکو کے لیے ’’بحرِ خفیف مسدس‘‘ موزوں ترین ہے۔
ہائیکو کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
فلسفے کی کتاب کھولی تو
سارتر کے حروف پر تتلی
اپنی ہستی کی سوچ میں گم تھی

ہائیکو کو سمجھنے کے لیے پہلے نیچے دی گئی تفصیل کو بغور پڑھیں میں امید کرتا ہوں سمجھنے کے ساتھ معلومات میں اصافہ بھی ہو گا اس کے بعد تعریف اور مثالیں بھی درج ہیں۔

اتفاق سے اردو کی اپنی کوئی صنف سخن نہیں۔ سبھی اصناف باہر آئی ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس کشادہ دامنی کے باوجود ہماری شاعری اپنے گرد و پیش حتی کہ اپنے پاس پڑوس سے بھی بیگانہ رہی۔ علاقائی زبانوں کی وہ اصناف جو سہیلیوں کی طرح بچپن سے جوانی تک اردو کے ساتھ رہیں اس کی زندگی کی رفیق نہیں بن سکیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان سے ہمارا تعلق رسمی رہا، ہم انہیں پوری طرح جان نہ سکے ۔ اردو کو جو محبت فارسی سے رہی ہے ، مذہبی زبان ہونے کے باوجود عربی سے بھی نہیں رہی۔ ’عربی الفاظ‘ بھی فارسی کی معرفت ہماری زبان کا حصہ بنے ۔ اس کا سبب بھی شاید یہ ہو کہ ’فارسی حکمران‘ زبان تھی چنانچہ جب فارسی کی جگہ انگریزی نے لی تو ہم اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور پھر کئی شعری اصناف مثلاً فری ورس (آزاد نظم) بلینک ورس(نظم معریٰ) سانِٹ حتیٰ کہ پروز پرئم(نثری نظم) تک ہماری شاعری میں در آئی۔ مغرب کی لگن میں ہم نے لمرک اور ترائلیے کو بھی اپنانے کی کوشش کی مگر موضوع اور ہیئت کی پابندی کی بناء پر ان سے رشتہ استوار نہ ہو سکا۔

اب میں ’ہائیکو‘ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ یہ جاپانی صنف سخن ہے ۔ جاپان ہم پر ’حکمران‘ تو نہیں مگر صنعتی اور معاشی لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے اس لیے اس سے متاثر ہونا ہماری نفسیات کا تقاضا ہے ۔ ہائیکو سے بھی ہم انگریزی کے ذریعے متعارف ہوئے ہیں۔ مگر جاپانی کونسلیٹ کی حوصلہ افزائی سے کچھ لسانی حجابات بھی اٹھے اور کچھ جان پہچان مزید بڑھی۔ اب اسے قدرت کی ستم ظریفی کہئے کہ ایک ایسی صنف ’ماہیا‘ کے نام سے پنجابی میں بھی ہے یہ اور بات کہ برسوں کی شناسائی کے باوجود پنجاب کے اردو شعراء نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں دی تھی ۔ ہائیکو کے آئینے میں جب ماہیا کا چہرہ جھلکا تو ہماری’قومی غیرت‘ جوش میں آئی اور ہم اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

ماہیا کو چونکہ ’سرکار کی سرپرستی‘ حاصل نہیں ہے اس لیے ابھی کم لکھی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی مستند مثالیں بھی زیادہ نہیں ہیں ۔ برسوں پہلے چراغ حسن حسرت نے موسیقار برکت علی خاں کی فرمائش پر دو ایک ماہیے اردو میں لکھ دیے تھے بس اسی پر مشق ہو رہی ہے ۔ اب حیدر قریشی جیسے صاحب علم شعراء نے اس کی ہیئت پر روشنی ڈالی اور حسرت صاحب کے ’ماہیا‘ کو غلط ٹھہرایااور جب یہ بتایا کہ صنف سخن سہ مصرعی نہیں بلکہ ڈیڑھ مصرعی(1) ہے تو لوگ چونکے کہ یہ تو مختصر ترین پیمانہ شعر ہے ۔ غزل کے شعر سے بھی مختصر۔

’ہائیکو کے بارے میں بھی ہم برسوں لاعلم رہے جب کہ اسے اردو میں متعارف ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ۔ ماہنامہ’ساقی‘ (دہلی) کا ’جاپانی ادب نمبر‘جنوری 1936میں شائع ہوا تھا اور بحوالہ مرزا حامد بیگ (اردو میں ہائیکو نگاری مطبوعہ ’فنون‘ مئی اکتوبر 1994) حمید نظامی (بانی روزنامہ ’نوائے وقت‘ ) جو بطور شاعر معروف نہیں مگر پہلی بار ان کے ترجمہ شدہ سات عدد ہائیکو’ہمایوں ‘ (لاہور) کے اکتوبر 1938 کے شمارے میں شائع ہوئے اور پھر وقفے سے ان کے متعدد ترجمہ شدہ ہائیکو’ہمایوں‘ میں 1940 تک چھپتے رہے ۔ اسی دور میں میرا جی کا بھی ایک ترجمہ شدہ ہائیکو ملتا ہے ۔ یاد گار کے طور پر نوٹ کر لیا ہے ملاحظہ فرمائیں ؂

ہرکارہ سیاں لایا

جوہی کے پھولوں کی ڈالی

اور سندیسہ بھول گیا

مگر یہ تمام تراجم ’ہائیکو‘ کی ہیئت کے مطابق نہیں تھے۔ اس کے بعد بھی قاضی سلیم (تحریک جولائی 1966) تصدق حسین خالد(مکاں لامکاں، مطبوعہ 1976 )عبدالعزیز خالد (غبار شبنم مطبوعہ 1978 )تک کسی نے بھی ’ہائیکو‘ کی تکنیک کے مطابق نہیں لکھا۔ گویا کوئی اس سے واقف ہی نہیں تھا۔ آج سے پندرہ یا سترہ سال پہلے 1983 جاپان کونسلیٹ نے کراچی میں ہائیکو مشاعروں کا آغاز کیا تو اس وقت تک(مجھ سمیت) کوئی شاعر اس کی ہیئت کو نہیں جانتا تھا ۔ چنانچہ میں نے مشاعرے میں اپنی ’ثلاثیاں‘ پڑھ دیں ۔ پروفیسر احمد علی نے ’ہائیکو‘ کے بارے میں جو مضمون پڑھا۔ کراچی کے شعراء کسی حد تک اس صنف کے بارے میں واقف ہوئے ۔ کچھ شعراء البتہ ایسے ہیں جنہوں نے ’ہائیکو‘ کی خاطر جاپانی زبان سیکھی جن میں محمد امین، رئیس علوی اور وضاحت نسیم شامل ہیں ۔ مگر آخرالذکر دونوں (شاعر اور شاعرہ) کو ’ہائیکو‘ کے نام پر بھی اعتراض ہے ، وہ اسے ’ہائیک‘ کہتے ہیں۔

جہاں تک میرا تعلق ہے میں بھی ’ہائیکو‘ اور ’ماہیا‘ کے بارے میں یہی کہوں گاکہ “‘’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘””-

میں مختلف مضامین کی روشنی میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ ’ہائیکودوحرفی اصوات میں تین معریٰ مصرعوں کے اشتراک کا نام ہے اور اس کا مخصوص موضوع مناظر فطرت کی عکاسی اور معنی آفرینی ہے ۔

اردو ادب کی بدنصیبی کہ ’ہائیکو‘ پر لکھنے والے ’نقاد‘ بھی جاپانی زبان نہیں جانتے ۔ بیشتر لاعلم شعراء اپنی ’غلطی‘ کو ’جدت‘ سے تعبیر کرتے ہیں یا اسے ’اردو ہائیکو‘ کا نام دے کر خوش ہو لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ رسالوں سے کتابوں تک غلط تحریروں کا انبار لگ گیا ہے اور جاپانی سفارت خانہ خوش ہے کہ اردو میں ہائیکو رواج پا چکی ہے ۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ طالب علموں کے لیے لکھی ہوئی کتابوں میں بھی ان (ملکی اور غیر ملکی) اصناف سخن کی تعریف صحیح نہیں لکھی جاتی۔

دوسری زبانوں سے استفادہ اچھی بات ہے بشرطیکہ ہماری معلومات درست ہوں۔ ان کی زبانوں کی اصناف سخن ہمارے پاس ’امانت‘ ہوتی ہیں۔ اس ترمیم و تنسیخ کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ ایسی کوشش ہماری لاعلمی یا خیانت کے مترادف ہو گی ۔ ملکی اور غیر ملکی اصناف سخن میں فارسی کی اصناف کے علاوہ صرف فری و رس (آزاد نظم) اردو شاعری کا حصہ بن سکی، باقی تمام اصناف ابھی تک نامانوس ہیں یا ہماری علمی کے نتیجے میں غلط لکھی جا رہی ہیں ۔ ’ہائیکو‘ کے بارے میں دلاور فگار نے اپنے انداز میں ایک پتے کی بات کہہ دی تھی ؂

ہمیں شعور کہاں ہے کہ ’ہائیکو‘ لکھیں

خود اپنی ’کو‘ نہیں آتی، پرائی ’کو‘ لکھیں

اب آتے ہیں ہائیکو کی تعریف اور مطلب کی طرف کیونکہ ہائیکو کی تعریف کے لیے آپ سب نے برداشت سے کام لیا اب میں نہیں چاہتا کہ آپ کو ایک بحث میں الجھائے رکھوں ۔

Leave a Comment