طالبعلم کا نام:
رول نمبر:
سوال نمبر ١
ٹیلی ویژن نشریات کے ارتقائی مراحل پر بحث کریں
ٹیلی ویژن کا ارتقاء: ظاہری تاریخ ،
پہلے ٹیلیویژن ، جدید ، ترقی کے
مراحل اور امکانات
ٹی وی کی تاریخ
ٹیلی ویژن کے شعبے میں سائنس دانوں کی پہلی انکشافات فوٹو و مکانیکل عمل کے تفصیلی مطالعہ اور ترقی ، کیمیائی عناصر کی فوٹو گرافی کی خصوصیات کی دریافت سے وابستہ ہیں۔ بہت سے طبیعیات دانوں کی کامیابیوں نے پہلے ٹیلی ویژن کی بنیاد تشکیل دی ، مثال کے طور پر ، بین کی فیکس ڈیوائس ، نپکوف کی اسکیننگ ڈسک
مکینیکل ٹیلی ویژن کا دورانیہ
1906 میں ، ایم ڈیک مین اور جی گلاگے نے براؤن ہینڈسیٹ کو پیٹنٹ کیا ، اور اگلے سال انہوں نے ایک ٹیلی ویژن وصول کرنے والے کو 20 لائن کی اسکرین 3 x 3 سینٹی میٹر سائز اور 10 سیکنڈ فی سیکنڈ اسکین کی رفتار کے ساتھ پیش کیا۔
1907 میں ، پروفیسر بی روزنگ نے “امیج ٹرانسمیشن کا طریقہ” پیٹنٹ کیا۔ پہلا تجربہ مکمل طور پر کامیاب نہیں تھا: پہلی تصویر بے حرکت تھی۔ اس تصویر کو ظاہر کرنے کے لئے کیتھوڈ رے ٹیوب استعمال کی گئی تھی ، اور اعداد و شمار کو منتقل کرنے کے لئے اسکین استعمال کیا گیا تھا۔ یہ طریقہ جدید ٹی وی ماڈلز میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
1929 میں ، امریکی کارپوریشن ویسٹرن ٹیلی ویژن کے ذریعہ ٹیلی ویژن سیٹ تیار کیا گیا۔ خاصیت ایک چھوٹی اسکرین تھی جس پر کسی چیز پر غور کرنا مشکل تھا۔ آلہ صرف ایک ریڈیو کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس نے ویڈیو سگنل پکڑا اور تصویر کو اسکرین پر منتقل کیا۔
ٹیلی ویژن کا ارتقاء بجلی کے ویکیوم ڈیوائسز کی دریافت کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ 1934 سے ، جرمن ٹیلی ویژن براڈکاسٹنگ ٹیلی ویژن اسٹیشن ، ڈی ایف آر نے جرمن ریاست کے علاقے پر کام کرنا شروع کیا ، اور اس نے 180 لائن کا سگنل منتقل کیا۔ جرمنی میں 1936 میں ، برلن اسپورٹس اولمپیاڈ کے واقعات کو براہ راست نشریات کے ذریعے بڑے پیمانے پر شامل کیا گیا۔
اسی سال ، جرمن مینوفیکچرنگ کمپنی ٹیلیفنکن نے ٹیلی ویژن کی بڑے پیمانے پر پیداوار کا کام شروع کیا۔ اسی وقت ، برطانیہ نے 405 لائنوں کی اسکین فریکوئنسی کے ساتھ ٹیلی ویژن سیٹ تیار کرنا شروع کیا – اس وقت اس تصویر میں سب سے بڑی وضاحت موجود تھی.
روس میں پہلے ٹی وی
1938, ، ٹیلی ویژن کو تجربہ کار لینین گراڈ ٹیلی سینٹری نے نشر کیا۔ سگنل حاصل کرنے کے لئے ، 20میں”VRK”ٹیلی ویژن سیٹ اسکرین کے ساتھ 13 X 17.5 سینٹی میٹر تیار کیے گئے تھے۔ ماسکو میں ، نشریات کا آغاز 1939 میں ہوا تھا۔ پہلا پروگرام بالشویکس کی کمیونسٹ پارٹی کی XVIII کانگریس کے افتتاح کے بارے میں ایک دستاویزی فلم ہے۔ استقبال 100 TK-1 ٹیلی ویژن سے زیادہ وصول کنندگان نے کیا جس کی سکرین سائز 14 X 18 سینٹی میٹر ہے۔ پہلے ٹیلی ویژن سیٹ شہریوں کے گروپوں کے ذریعہ دیکھنے کے لئے KVN-49 ڈیوائس 625 لائنوں کی استعمال کیے گئے تھے۔ 1949 میںبوسیدہ تعدد کے ساتھ یو ایس ایس آر میں نمودار ہوا
ٹی وی وصول کنندہ کی فروخت میں اضافہ
20 ویں صدی کے وسط تک ، امریکہ میں ایک کروڑ سے زیادہ آلات موجود تھے۔ یہ خریداری کی اعلی طاقت ، جنگ کے دوران ہتھیاروں اور ٹینکوں کی تیاری کرنے والے صنعتی اداروں کی موجودگی کی وجہ سے ہے۔ امن کے وقت میں ، وہ ہر خاندان میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے الیکٹرانک آلات کی تیاری کے لئے دوبارہ تیار کیے گئے تھے.
رنگین ٹی وی
1950 میں ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے سی بی ایس کے ذریعہ ٹیلیویژن نشریاتی نظام چلادیا ، جو بعد میں سیاہ اور سفید اسکرینوں پر کھیلنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا تھا۔ 1953 سے ، سوویت یونین کی سرزمین پر تجرباتی انداز میں رنگین نشریات چل رہی ہیں۔ کام کرنے والے وصول کنندہ سے خصوصی لائٹ فلٹرز والی برقی موٹر منسلک تھی۔ 1955 میں ، اس اسکیم کو ڈیزائن کی پیچیدگی کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔
ٹی وی کے ارتقاء میں ایک لازمی اقدام ان معیاروں کی کھوج ہے جو رنگ کی تصاویر کو سیاہ اور سفید وصول کرنے والوں میں منتقل کرتا ہے۔ دو رنگین ٹیلی ویژن سسٹموں نے سن 1960 میں کام کرنا شروع کیا: جرمن پال اور فرانسیسی سیکم۔ لمبے فاصلے پر نقش اور آواز کو منتقل کرتے وقت لمبے لمبے ٹیسٹوں کے نتائج سے مؤخر الذکر کو بہترین سمجھا جاتا تھا۔ یہ یو ایس ایس آر کے علاقے میں استعمال ہوا۔
رنگ امیجنگ صلاحیتوں کی دریافت ٹیلی ویژن کی جدید کاری اور رنگین وصول کنندگان کی تیاری کا باعث بنی۔ 1953 میں رنگ میں معلومات کو منتقل کرنے کا پہلا آلہ آر سی اے سی ٹی 100 تھا ، جو امریکی این ٹی ایس سی سسٹم پر کام کرتا تھا جاپانی الیکٹرانکس کمپنیوں نے جلدی سے رنگین ٹی وی کی تیاری شروع کردی۔ امریکی منڈیوں میں ان کا فعال نفاذ 20 ویں صدی کے وسط میں شروع ہوا
ہائی ڈیفی ٹیلی ویژن
XX صدی کے 90 کی دہائی میں ، نظام نمودار ہوئے جس کی وجہ سے کسی بھی فاصلے پر سگنلوں کی ترسیل اور استقبال میں مداخلت کی مقدار کو کم کرنا ممکن ہوگیا ٹی وی کے ارتقا کا اگلا مرحلہ ڈیجیٹل ٹیلی ویژن کا دور بن گیا ہے
انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے نتیجے میں ڈیجیٹل کوڈنگ کی دریافت ہوئی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ترسیل کے لئے معلومات کے کمپریشن میں ہونے والے نقصانات کو کم کیا گیا۔ امریکی معیاری ATSC ، جاپانی ISDB-T اور یورپی DVB-T کی ترقی ، مشترکہ ضروریات کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سگنل ٹرانسمیشن چینلز کو بہتر بنانا ٹیلی ویژن کے ارتقا میں اگلے مرحلے کا باعث بنا ، بیرونی خصوصیات میں بدلاؤ۔ یہ ٹیوب کے حجم میں کمی ، ٹیلی ویژن وصول کرنے والے کی سکرین میں اختلافی طور پر اضافے کی وجہ سے ظاہر ہوا۔ پلازما پینلز ، ایل ای ڈی ، مائع کرسٹل کے افتتاح سے آلہ کی گہرائی کو کچھ سینٹی میٹر تک کم کرنے کی اجازت دی گئی.
سوال نمبر ٢
پاکستان میں ٹی وی پروگراموں کے نشریاتی مراحل کا جائزہ لیں.
سکاٹ لینڈ کے سائنسدان جان لوگی بیئرڈ کے تخلیقی ذہن میں یہ بات سما گئی کہ اگر آواز کو ہوا کے دوش پر ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچایا جا سکتا ہے تو تصویر کو کیوں نہیں۔
ان میں ایک تجسس پیدا ہوا اور انھوں نے کچھ ضروری اشیا کے ساتھ خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا۔ اور فیصلہ کیا کہ وہ اس گتھی کو سلجھا کر ہی دم لیں گے۔
مسلسل ذہنی کاوشوں اور تجربات کے بعد بالآخر جان لوگی بیئرڈ کامیاب ٹھہرے اور انھوں نے ٹیلی ویژن ایجاد کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
26 جنوری 1926 کو وہ ٹیلی ویژن کے موجد قرار پائے جس کے بعد دیگر سائنسدانوں نے ان کی ایجاد میں اصلاحات کیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز
پی ٹی وی کو اسلم اظہر کی سربراہی میں بہترین ٹیم میسر آئی
دنیا میں ٹیلی ویژن کی ایجاد اور پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آغاز کے درمیان 38 برس کا واضح فرق ہے۔ ٹی وی سنہ 1926 میں ایجاد ہوا مگر پاکستان میں ٹی وی نشریات 26 جنوری 1964 میں شروع ہوئی۔
اس وقت ملک میں صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت تھی اور وہ اپنے ایک دورۂ جاپان کے دوران ٹیلی ویژن کی ترقی سے بے حد متاثرہوئے تھے۔ تو انھوں نے بیسویں صدی کی اس اہم ایجاد سے پاکستان کے عوام کو روشناس کروانے کا فیصلہ کر لیا۔یوں پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور ابتدائی تجربات کے بعد پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کو ٹیلی ویژن کی نشریات کے پلیٹ فارم کے لیے چُنا گیا۔
یہ وہ دور تھا جب لاہور میں فلم بھی بن رہی تھی،ریڈیو کی نشریات بھی عوام میں مقبول تھیں اور نان پروفیشنل بنیادوں پر تھیٹر پر بھی بہترین کام کیا جا رہا تھا۔اگرچہ ٹیلی ویژن ایک مختلف تکنیک کا حامل میڈیم تھا مگر سکرین کو سجانے کے لیے یہاں اداکاروں، صداکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں، سازندوں، ہدایتکاروں اور تکنیک کاروں کی بڑی کھیپ تیار تھی۔
آغاز میں پی ٹی وی کی لانچنگ کا مقصد صوبوں کے عوام کا باہمی رابطہ، روابط اور پہچان تھا۔ اس کے علاوہ تعلیمی مقاصد کارفرما تھے لیکن جاپان اور دیگر ممالک سے آنے والی ٹیموں نے مشورہ دیا کہ اس میڈیم کو محدود کرنے کے بجائے وسیع تر مفاد کا ذریعہ بنایا جائے اور انٹرٹینمنٹ کو بھی پاکستان ٹیلی ویژن سکرین پر اہمیت دی جائے تاکہ ملک کی ثقافت کو پروموٹ کیا جا سکے جس سے عوام کو پروگرامز کے ذریعے تفریح میسر آ سکے۔
اپریل 1964 میں اس وقت کی حکومت نے ٹیلی ویژن پلاننگ سیل قائم کیا اور اسلم اظہر کو پاکستان ٹیلی ویژن کا پہلا پروگرام ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا جو ریڈیو اور تھیٹر کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ وہ ٹی وی میڈیم سے نا آشنا تھے۔
ان کے ساتھ ریڈیو پاکستان کے فضل کمال، کراچی آرٹس کونسل سے ذکا درانی اور ایرانی ٹیلی ویژن پر پروڈکشن کے کام سے واقف نثار حسین کو ان کی ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا۔
1964 میں ملک کے پہلے ٹی وی سینٹر کے افتتاح کے چند ہی ماہ میں اسلم اظہر کی ٹیم سرکاری ٹی وی متعارف کروانے میں کامیاب رہی۔
اگرچہ پی ٹی وی کو بے سروسامانی، تجربے اور سہولتوں کے فقدان کا سامنا رہا مگر وقت کے ساتھ کام میں پیشہ ورانہ مہارت میں بہتری آتی رہی۔
آغاز میں پی ٹی وی لاہور سینٹر کے پاس اپنی بلڈنگ تو دور کی بات ریکارڈنگ کی سہولت بھی موجود نہ تھی۔ اس وجہ سے لائیو ٹرانسمیشنز کا رسک لیا گیا۔
ٹی وی کی سکرین پر ہر پروگرام ڈائریکٹ دکھایا جا رہا تھا اور کسی بھی غلطی کا امکان موجود تھا لیکن پرفیکشن کے جذبے کے سامنے ہر روکاوٹ راہ سے ہٹتی گئی۔
پہلی ٹرانزمیشن اورنیا ٹیلنٹ
لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں کہ پی ٹی وی کی ابتدائی ٹرانزمیشنز کے دوران لاہور میں میلے کا سا سما ہوا کرتا تھا۔
لاہوریے ’بولتی تصویروں‘ والی اس نئی ایجاد کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب تھے۔ شہر کی الیکٹرنکس مارکیٹوں میں ٹی وی سیٹس خریدنے والوں نے یلغار کر دی، گھروں کی چھتوں پر انٹینے نصب ہو رہے تھے، لاتعداد لوگ ایسے تھے جو ٹی وی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے رشتہ داروں اور محلے داروں کے ہاں جا کراس نئی ایجاد سے مستفید ہونے کا قصد کیا۔
26 جنوری کو پہلی ٹرانزمیشن کے موقع پر سہ پہر تین بج کر تیس منٹ پر صدر پاکستان نے پی ٹی وی کی ٹرانسمیشنز کا افتتاح کیا اور اس کے ساتھ ہی پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہو گیا تھا۔ تلاوت کلام پاک کرنے والے قاری علی حسین صدیقی پہلے شخص تھے جو پی ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہوئے۔ ان کے بعد ذکا درانی نے پی ٹی وی کے حوالے سے معلوماتی تقریر کی جس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے اناؤنسر طارق عزیز سکرین پر ابھرے اور پی ٹی وی کے ناظرین کو اپنے منفرد انداز میں سلام پیش کیا۔
پہلے ہی کئی پروگرام پیش کر دیے گئے۔ محدود دورانیے کی ٹرانسمیشن میں بچوں کے پروگرام، پتلی تماشا کے علاوہ لوک موسیقی کا پروگرام پیش کیا گیا جس میں سائیں اختر اور طفیل نیازی نے فن کا مظاہرہ کیا۔ کوئیز پروگرام ’بوجھو تو جانیں‘ پیش کیا گیا جس کے میزبان اشفاق احمد تھے۔ طارق عزیز کے علاوہ طفیل نیازی، سائیں اختر اور اشفاق احمد بھی پی ٹی وی کی ابتدا سے اس کے ساتھ منسلک تھے۔
لیکن اصل کام تو اب شروع ہوا تھا کیونکہ ٹی وی کی سکرین کو مسلسل چوبیس گھنٹے زندہ رکھنا اور معیاری پروگرام سے مزین کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔
پی ٹی وی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ اسے شروع میں ہی مخلص اور ٹیلنٹڈ لوگ نصیب ہوئے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ مشکل ترین ٹاسک کو بھی اپنے ہنر اور ارادوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔
پی ٹی وی پٹڑی پر چڑھ چکا تھا اور ملک کا بہترین ٹیلنٹ اس کی کامیابی کے لیے کوشاں تھا۔
کمال احمدرضوی کا ’الف نون‘جو پسندیدہ پروگرام بنا
آغاز کے چند ہفتوں کے بعد ہی کمال احمد رضوی کا طنز و مزاح سے بھرپور پروگرام ’الف نون‘ عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔
اس پروگرام کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ الیکٹرانکس مارکیٹس میں ٹی وی سیٹس کی خریداری میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔لاہور ٹیلی ویژن نے کامیابیوں کی تاریخ رقم کر دی تھی۔
لوگ آج بھی وہ وقت یاد کرتے ہیں کہ معروف پروگرامز کی نشریات کے اوقات میں گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر سناٹے طاری ہوجاتے تھے۔
لوگ اپنے فیورٹ پروگرامز دیکھنے کے لیے سارے کام چھوڑ کر مقررہ وقت پر ٹی وی سیٹس کے سامنے جمع ہو جاتے اور شہر سائیں سائیں کرنے لگتا۔تصویر کا ذریعہPTV
پی ٹی وی کے پروگرام الف نون کی ویورشپ بہت زیادہ ہوا کرتی تھی
ڈرامہ سیریئل ’وارث‘ پی ٹی وی کی ایسی ہی ایک پیش کش تھی جس کو امجد سلام امجد نے تحریر کیا تھا۔ کمال احمد رضوی کے طنزیہ مزاحیہ پروگرام الف نون کی ویور شپ کا بھی یہی عالم تھا۔
پی ٹی وی نے انتہائی مختصر عرصے میں جو کامیابی حاصل کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ 1964سے 1969 تک کے مختصر عرصے میں پی ٹی وی کے چار مزید سینٹرز معرض وجود میں آ چکے تھے۔
لاہورکے بعد ڈھاکہ، راولپنڈی-اسلام آباد، کوئٹہ اور کراچی میں ٹیلی ویژن سینٹرز قائم کئے جا چکے تھے۔ لاہور کے بعد کراچی سے بھی بہترین پروگرامز کا سلسلہ شروع ہو گیا جہاں سے کاظم پاشا، بختیار احمد، محسن علی، قاسم جلالی، شعیب منصور اور اقبال انصاری نے چھوٹی سکرین کو بھانت بھانت کے رنگوں سے سجایا۔ حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا کے خوبصورت گھریلو کھیل پی ٹی وی سکرین کا سرمایہ ہیں۔
لاہور اور کراچی کے درمیان مقابلے کی فضا تن گئی
لاہور اور کراچی کے ٹی وی سینٹرز کے درمیان معیاری اور پاپولر پروگرامز پیش کرنے کی ایک دوڑ سی لگ گئی تھی۔
ایک پروگرام لاہور کا کامیاب ہوتا تو کراچی سینٹر کے لیے یہ ضروری ہو جاتا کہ وہاں سے بھی کوئی ایسا پروگرام پیش کرے جو لاہور کے ڈرامے کا پروگرام کا توڑ ثابت ہوسکے۔ اور یہی مسابقت موسیقی کے پروگراموں میں بھی جاری رہتی۔ لاہور سے کلاسیکی موسیقی، نیم کلاسیکی موسیقی، غزل اور لوک موسیقی پر مشتمل انتہائی معیاری پروگرام بھی پیش کیے گئے جن میں سنگیت بہار، شام غزل، لوک رنگ اور جھنکار نمایاں تھے۔
نازیہ حسن: وہ سکول یونیفارم پہنے مائیک پر کھڑی ہوئیں اور برصغیر میں موسیقی کی شکل بدل دی
’طارق عزیز سٹیج پر یوں آتے تھے جیسے شیر میدان میں نکلتا ہے‘
الف نون کے رفیع خاور ننھا، جن کی موت 35 سال بعد بھی ایک معمہ ہے
’جب تک لوگ ہنسنا چاہیں گے عمر شریف زندہ رہے گا‘
ساٹھ ستر اور اسی کی دہائیوں تک پی ٹی وی نے ہر شعبے میں عروج حاصل کر لیا تھا۔
مگر اس کے بعد طویل دورانیوں کے کھیل کا آغٖاز ہوا۔ ان ٹیلی پلیز میں محمد نثار حسین نے بہت نام کمایا۔ انھوں نے اپنے ٹیلی ڈراموں میں زندگی کی بہترین کہانیوں پر مشتمل کھیل پروڈیوس کیے۔
طویل دورانیے کے ان کھیلوں کو ٹیلی فلمز بھی کہا جا سکتا ہے۔ ناظرین تو محمد نثار حسین کے ٹیلنٹ اور فنی مہارت کے قائل ہوئے لیکن ہمسایہ ملک محمد نثار حسین کے طویل دورانیے کے کھیلوں سے بالی وڈ کو آرٹ فلم بنانے کی سوجھی۔
خطے میں رائج متوازی فلم نے انٹیلکچوئلز کے دل و ذہن پر ان حقیقت سے قریب ترین کہانیوں، ڈائریکشن اور پرفارمینسز نے گہرا اثر ڈالا اور انھوں نے محمد نثار حسین کے انہی لانگ پلیز کے سلسلے سے مرعوب ہوکر انڈیا میں آرٹ یا متوازی سینما کی بنیاد رکھی۔
تصویر کا ذریعہPTV/SHALIMAR RECORDING
90 کی دہائی میں پی ٹی وی کا ’عینک والا جن‘ نامی ایک پروگرام بچوں اور بڑوں میں یکسا مقبول ہوا تھا
نصیر الدین شاہ جب لاہور آئے تو انھوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ’ہمارے متوازی یا آرٹ سینما کا آئیڈیا پاکستان ٹیلی ویژن کے طویل دورانیے کے کھیلوں سے لیا گیا تھا جن میں محمد نثار حسین کے کھیل نمایاں تھے۔‘ بلاشبہ انڈیا کے ایک معتبر اداکار کی جانب سے اس حقیقت کا اقرار پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔
’کون جانتا تھا کہ آج جہاں فن پارے تخلیق ہو رہے ہیں کل وہاں دھول اُڑے گی‘
پچھلی صدی کے آخری عشرے میں نہ جانے پی ٹی وی کو کس کی نظر کھا گئی۔
پی ٹی وی لاہور سینٹر کی عمارت، راہداریاں، پروڈیوسرز کے کمرے، میک اپ رومز اور سٹوڈیوز فنکاروں سے بھرے ہوا کرتے تھے۔ ایک ایک سٹوڈیو میں دو سے تین پروگرامز کے سیٹس لگے ہوتے تھے۔ ایک کے بعد دوسرے پروگرام کی ریکارڈنگز ہورہی ہوتیں۔
لیکن یہ کیا ہوا کہ جہاں یاور حیات، راشد ڈار، اعظم خورشید، محمد نثار حسین، ایوب خاور جیسے پروڈیوسر بیٹھا کرتے تھے وہاں اب نامعلوم اصحاب براجمان ہیں جن کے کریڈٹ پر کوئی بڑا پروگرام نہیں ہے۔
وقت کی ستم ظریفی ہے کہ منظر یوں بھی بدل جایا کرتے ہیں۔ راہداریوں میں کوئی بڑا آرٹسٹ دکھائی دے بھی جائے تو کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے نہیں بلکہ سابقہ برسوں کے معاوضے کے چیکس کے حصول کے لیے وہاں آیا ہوتا ہے۔
فنکاروں کے معاوضوں کے سالہا سال کے چیکس رُکے ہوئے ہیں جس سے فنکار بد دل ہو کر پی ٹی وی پر کام کرنے کو گھاٹے کا سودا سمجھتے ہوئے ادھر کا رُخ ہی نہیں کرتے۔
دوسری جانب عوام نے اپنے پہلے من پسند ٹی وی چینل کو اس کی گھٹیا کارکردگی پر نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کا واضح جھکاؤ نجی چینلز کی جانب ہے۔
دوسری جانب حکومتیں پی ٹی وی کی تباہی کا ذکر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتیں۔ پی ٹی وی ڈرامہ، موسیقی، سٹیج پروگرام اور مزاحیہ پروگرام سب ایک ساتھ زوال پا ہیں۔
پی ٹی وی جیتی ہوئی بازی جیت کر ہار گیا۔ اس نے یہ جنگ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں جیتی تھی اور ہارا وہ اس وقت ہے جب اس کے پاس وسائل بھی ہیں اور اگر وہ چاہے تو موجودہ ٹیلنٹ سے استفادہ کرسکتا ہے لیکن اگر وہ چاہے تو۔۔۔
پی ٹی وی جیتی ہوئی بازی کیوں کر ہارا، کوئی راز داں بھی اس راز سے پردہ اٹھانے کو تیار نہیں کیونکہ یہ راز فاش کر کے وہ خطرات کو مول نہیں چاہے گا لیکن ہم قیاس آرائیاں تو کر سکتے ہیں کہ
1 – پی ٹی وی پہلے انڈین ٹی وی ڈرامے اور بعد ازاں پاکستانی نجی ڈرامے سے ہارا ہے؟
2 – سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) پر دکھایا جانے والا مواد وقت کی رفتار، ضروریات، جمالیات اور موضوعات ناظرین کو اپنے ساتھ باندھنے میں بُری طرح ناکام ہوا۔
3- ایک خیال یہ بھی ہے کہ حکومت کا پی ٹی وی کی کامیاب پیش قدمی کو روکنا پرائیویٹ چینلز کی بقا کا معاملہ ہے۔
4 – سیاسی پارٹیوں نے پی ٹی وی میں ایسے افراد کو ملازمتیں دلوائیں جس کے وہ اہل نہیں تھے۔
5 – کیا پی ٹی وی کے پرانے اور تجربہ کار پروڈیوسرز کی ریٹائرمنٹ سے معیار برقرار نہیں رہ سکا؟
6 – فنکاروں کے معاضوں کی ادائیگی کو روک دینا کیا فنکاروں کو حکومتی ٹی وی چینل سے بد دل کرنے کی سازش نہیں؟
سرکاری ٹی وی مستقبل کی طرف تیز گام زندگی سے پیچھے رہ جائے گا؟
یوں کہہ لیں کہ پی ٹی وی کی چمک کو مانند کرنے میں بہت سے عوامل کارفرمار ہیں۔ معیار کی پستی میں مندرجہ بالا حقائق کو رد نہیں کیاجاسکتا۔
لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی وی سکرین کو زوال سے ہمکنار کرنے میں سب سے زیادہ قصور ان سیاسی اور آمری حکومتوں کا بھی ہے جنھوں نے پی ٹی وی کی نیشنل سکرین کی حفاظت کی ذمہ داری نہ نبھائی۔
حکومتوں کا فرض تھا کہ وہ پی ٹی وی کے سابقہ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرتیں اور سفارشی عناصر کو مسترد کرتی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ پی ٹی وی میں ایسے افراد کو نوکریاں دی گئیں جو نہ تعلیمی معیار پر پورا اترتے تھے بلکہ ان کا ذہنی میلان بھی پی ٹی وی پروڈکشنز سے میل نہ کھاتا تھا۔
علاوہ ازیں حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے میں ان افراد یا فنکاروں کے معاوضوں کی ادائیگی کو روک دینا بھی حکومتوں کا نالائقی اور مجرمانہ فعل تھا۔
اس خیال کو بھی تقویت حاصل رہی کہ اگر پی ٹی وی کے معیار کو برقرار رکھا جاتا تو پرائیویٹ چینلز کے پنپنے کے مواقع مفقود ہو جاتے کیونکہ نئے چینلز کا براہ راست مقابلہ پی ٹی وی جیسے حکومتی چینل سے ہوتا جس کے تجربے اور ریاضت میں کوئی شک نہ تھا اور ہر پرائیویٹ ٹی وی چینل کے پیچھے وہ افراد موجود ہوتے ہیں جن کا براہ راست تعلق حکومتوں اور فیصلہ کرنے والی قوتوں سے ہوتا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن، فلم اور ریڈیو کے فنکار عرفان کھوسٹ کا ایک مضبوط فنی بیک گراؤنڈ ہے اور اداکاری کا فن ان کو اپنے والد سلطان کھوسٹ مرحوم سے ملا جو اپنے وقت کے نامور فنکار تھے۔
اس وقت عرفان کھوسٹ کے بیٹے سرمد کھوسٹ بھی اپنے خاندانی شعبوں سے منسلک ہیں اور ڈرامے کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں۔
عرفان کھوسٹ سے پی ٹی وی کے زوال کی بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ہے جو اس سے پہلے ہماری فلم ٹریڈ کے ساتھ ہو چکا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’قیام پاکستان کے بعد ملکی فلم ٹریڈ کو جو ٹیلنٹ ملا وہ ہندوستان کی بڑی فلمی صنعت میں کام کرنے کا تجربہ رکھتا تھا، وہ نہ صرف اپنے کام کے دھنی تھے بلکہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ تھے۔ ان فلم میکروں نے قیام پاکستان کے بعد کام تو بہت کیا لیکن وہ اپنے بعد ان کے فن کو پرموٹ کرنے والی سیکنڈ لائن نہ بنا سکے جو ا نکے بعد ان کے فن کو پرموٹ کرنے کے قابل بن سکتی۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@JUGGUNKAZIM
انہوں نے کہا کہ کمال احمد رضوی کے تخلیق کار کمال احمد رضوی ’فنکار کو کیمرے کی آنکھ کے مقابل اس وقت لاتے جب تک یک بعد دیگرے کئی ریہرسلز نہ کروا لیتے۔‘
’وہ سکرپٹ ریڈنگ سے لے کر آخری کیمرہ ریہرسل تک اداکار کو تربیت دے رہے ہوتے تھے لیکن جب یہ کام نالائقوں اور سفارشی لوگوں کے ہاتھ لگا تو تو ریڈنگ رہی نہ ریہرسلز ڈرامہ اپنے مقام سے گر گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’اسلم اظہر، نثار حسین، کنور آفتاب، محمد نثار حسین، فضل کمال اپنے اپنے کام کے ہیرو تھے۔ یہ تمام لوگ انتہائی پڑھے لکھے تھا۔ کوئی بیرون ممالک سے فلم پڑھ کر آیا تھا، کسی نے بین الاقوامی تھیٹر پر عبور حاصل کر رکھا تھا اور ان کے اندر کام کرنے کا کمال جذبہ تھا جو ان کی تعلیم اور تربیت سے مزید نکھر گیا تھا۔‘
’اب تو لوگ آرام فرماتے فرماتے ٹی وی سینٹر چلے آتے ہیں۔ ان سے کسی تخلیق کی امید رکھنی ہی نہیں چاہیے۔‘
عرفان کھوسٹ نے کہا کہ معاوضے کی بروقت ادائیگی بھی فنکار کو مزید بہتر کام کرنے میں مددگار ہوتی ہے اور پی ٹی وی کے آغاز میں ساری ٹرانسمیشن لائیو ہوتی تھی اور جو گلوکار یا اداکار اپنے فن کے مظاہرہ کرتے ان کومعاوضہ اسی وقت نقد ادا کر دیا جاتا تھا۔ ’آج کا فنکار اپنے معاوضے کے چیک کے لیے مارا مارا پھرتا ہے ایسے میں پی ٹی وی کیا خاک ترقی کرتا۔‘
انھوں نے کہا کہ تب آرٹسٹ کا ایک مقام ہوتا تھا وہ آج کے ’سفارشی ایکٹر کی طرح پروڈیوسر کے گھر کا سودا سلف لے کر نہیں آتا۔‘
’دیسی گھی چھوڑ کر بناسپتی پر اکتفا کر لیں گے تو یہی حال ہو گا‘
معروف اداکار، کمپیئر اور دانشور نور الحسن نے سوال سن کر برجستہ کہا کہ ’جب آپ دیسی گھی چھوڑ کر بناسپتی سے کمپرومائز کر لیں گے حال یہی ہو گا جو اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم کو اس بات کا احساس بہت بعد میں ہوا کہ ہم نے کیا کھو دیا ہے۔ درحقیقت یہ ایک ریاستی ادارہ ہے، حکومتی ادار نہیں۔‘
بانو قدسیہ کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آپا کہا کرتی تھیں کہ جس چیز کو ختم کرنا چاہو تو اس میں سے خامیاں تلاش کرنا شروع کر دو۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ انڈیا کی ٹی وی سکرین نے ہم کو پچھاڑ دیا ہے کیونکہ وہ ہم سے آگے نکلے ہی نہیں، ہم خود پیچھے آئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارا المیہ ہے کہ جو چیز ہم کو میسر آجائے ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور یہی ہمارا ڈرا بیک ہے۔‘
نور الحسن کے مطابق ’اگر ہمارا ماضی درخشاں تھا تو ہم اپنا مستقبل بھی روشن کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا کرنا چاہے تو تب ہے ناں.
سوال نمبر ٣
ٹی وی کنٹرول روم اور اس سے منسلک تکنیکی آلات پر نوٹ لکھیں
مرکز برائے علومِ ابلاغِ عامہ
آج ہم عالمگیریت کے اُس دور میں سانس لے رہے ہیں جس میں میڈیا اور ابلاغِ عامہ ایک بھر پور طاقت بن کر سامنے آئے ہیں۔ یہ شعبٔہ علم دورِ حاضر میں پیدا ہونے والےسماجی،اخلاقی،سیاسی ا ور معاشی مسائل کو جدید تحقیقی اُصولوں کی بنیاد پر حل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ یہ شعبہ لوگوں کے رنگ و نسل،جنس،عقیدہ اور علاقائی تعصّبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےشعور اور آگاہی کے لئے مصروف عمل ہے۔ مرکز برائے علومِ ابلاغیات و مواصلات،جامعہ گجرات کو قومی اور بین الاقومی جامعات میں ایک نمایا ں مقام حاصل ہے۔ اس مرکز کا یو۔ ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پبلک افئیر زسیکشن کے تحت اوکلوھاما یونیورسٹی سے منسلک ہونا ہمارے لئے باعثِ فخر ہے۔
اوکلوھاما یونیورسٹی کے ساتھ جامعہ گجرات کا یہ تعلق تحقیق پر مبنی تجزیاتی اور تفتیشی صحافت کو فروغ دینے کے لئے اس مرکز کی تعلیمی و تحقیقی استعداد میں اضافہ کرے گا۔علاوہ ازیں یہ باہمی تعلق مرکز کے لئے اس حوالے سے بھی مفید ہو گا کہ ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور ٹی وی سٹوڈیو کو جدید رُجحانات کی بنیاد پر ترقی دی جا سکے گی۔یہ مرکز طلبہ کو جدید رُجحانات سے ہم آہنگ ایک ایسا تعلیمی و تحقیقی ماحول فراہم کرتا ہے جو ان کی صلاحیتوں کو نکھار کر اُنھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ معاشرہ میں اپنی پیشہ وارانہ ذمّہ داریاں بہتر طور پر سر انجام دینے کے قابل ہوجائیں۔
ایف ایم ریڈیو 106.6اور انٹرنیٹ کی سہولت سے مزین کمپیوٹر لیب بھی اس مرکز کے طلبہ کی عملی تربیت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ کیمپس وائس 106.6کا اپنا آن ائیر سٹوڈیو ،کنٹرول روم ،کانفرس سٹوڈیو اور پوسٹ پروڈکشن سٹوڈیوہے۔ اس نے طلبہ کی عملی تربیت کی ضرورت کے پیش نظر اپنی ٹیسٹ ٹرانسمیشن کا آغاز یکم اکتوبر 2009ء کو کیا۔ ریڈیو طلبہ ،اساتذہ ،سٹاف اور مضافات کے لوگوں میں تعلیمی اور سماجی آگہی پیدا کرنے کا بھی خواہاں ہے۔ ریڈیو اسٹیشن کی حد 30کلو میٹر ہے۔ جس میں گجرات جلالپور اور وزیر آباد کے شہر اور ان کے گردونواح کے علاقے آتے ہیں۔ زندگی کے تمام تعلیمی، معلوماتی اور تفریحی شعبہ ہائے جات پر مشتمل پروگرامز کی ایک کثیر الجہتی فہرست کیمپس ریڈیو کا خاصہ ہے۔ تمام پروگرامز جو ریڈیو پر پیش کیے جاتے ہیں وہ جامعہ کے طلبہ کی کاوش ہوتے ہیں۔ ریڈیو 500واٹ کے ٹرانسمیٹر اور انڈور، آؤٹ تکنیکی سامان کے ساتھ لیس ہے۔ کیمپس وائس صبح سات بجے سے بارہ بجے تک اور شام تین بجے سے آٹھ بجے تک روزانہ دس گھنٹے اپنی نشریات براڈ کاسٹ کرتا ہے۔ مرکز کا اپنا ٹی ۔وی سٹوڈیو بہت جلد طلبہ کی پیشہ وارانہ اور عملی تربیت کے حوالے سے ایک سنگِ میل ثابت ہو گا۔ اور مرکز کی فعالیت میں اضافہ کرے گا۔مرکز نے اپنے بنیادی مقصد کے حصول کے لئے علومِ ابلاغِ عامہ میں بین الاقوامی معیار اور جدید علمی رُجحانات کے مطابق بی ایس،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام شروع کیے ہیں
ٹیکنالوجی تیزی سے بدل رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں نوجوانوں میں موبائل فون پر خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ وہ صرف سننا نہیں کچھ کہنا بھی چاہتے ہیں۔ اپنی آواز دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ فیس بک اور ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ یعنی خواتین ویسے ہی بظاہر نیوز چینلوں سے بیزار رہتی ہیں۔
یہ ایسے ہی چلتا رہا تو پھر پرائم ٹائم نیوز شوز دیکھنے کے لیے بچے گا کون؟
آج نہیں تو کل میڈیا انڈسٹری کو اپنے طور طریقے درست کرنے ہوں گے۔ انڈسٹری میں سدھار لانا ہوگا۔ ورنہ کروڑوں،اربوں کی اس انڈسٹری کا زوال وقت سے پہلے بھی آسکتا ہے۔
جب آپ کے نیوز چینل اور آپ کے پروگرام دیکھنے کے لائق ہی نہیں رہیں گے تو لوگ کیوں ٹی وی کے آگے ٹکٹکی باندھے اپنا وقت ضائع کریں گے؟
سوال نمبر ٤
سینٹ ڈیزائنرکے فرائض اور اوصاف لکھیں
سوال نمبر ٥
درج ذیل پر نوٹ لکھیں
ویژن مکسر کے فرائض(1)
ریڈیو اور اخبار کا تقابلی جائزہ(2)
ابلاغیات اپنی بات دوسروں تک پہونچانے کا عمل ہے۔ اور موجودہ زمانے میں اس کئے لئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کو استعمال کا جا رہا ہے۔ ابلاغیات کا ہم ذریعہ صحافت بھی ہے۔ صحافت ملک کا چوتھا ستون ملک کی عوام کی ذہن ساز ہوتی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ صحافت پر الزام ہے کہ وہ کاروباری ہوتی جا رہی ہے اور اپنے اصل مقصد خبروں کی ترسیل کی راہ سے بھٹکتی جا رہی ہے حیدرآبادی اردو صحافت کو ہم اس لحاظ سے عالمی سطح کی معیاری اور مقبول صحافت قرار دے سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں یہاں سے عالمی سطح کے مقبول عام اردو اخبارات نکلتے ہیں ۔ ان اخباروں میں سیاست کو میر کارواں کی حیثیت حاصل ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد صحافت کے افق پر یہ ستارہ نمودار ہوا تھا محبوب حسین جگر‘ عابد علی خان اور اب زاہد علی خان اور عامر علی خان کے زیر نگرانی نکلنے والے اس اخبار کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے دور کے مسائل کو نہ صرف اجاگر کرتا ہے بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے روزنامہ سیاست میں نئے دور میں ہر اتوار اپنا کالم لکھنے والے نئی نسل کے صحافی اور مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے وابستہ فعال استاد مصطفی علی سروری اسوسیٹ پروفیسر ہیں ۔ سروری صاحب حیدرآباد کی نئی نسل کہ وہ صحافی ہیں جنہیں زمانہ طالب علمی سے ہی اردو صحافت سے دلچسپی رہی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی سی جے ایم سی جے کی تعلیم حاصل کی۔ نامور استاد صحافت رحیم خان صاحب کے شاگرد رہے۔ سیاست اخبار نے انہیں اظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔ اور ہر اتوار سماجیـسیاسیاورحالاتحاضرہکےموضوعاتپربےلاگتبصروںکےساتھشائعہونےوالےانکےمضامیناردواخبارکےقارئینمیںبےحدمقبولہیں۔گزشتہکئیسالسےانہوںنےعیدمیلادالنبیﷺکےموقعپرخونکاعطیہکیمپکا کامیابی سے انعقاد عمل میں لایا۔ وہ حیدرآباد کے ٹی ٹی وی خانگی چینل پر مختلف ماہرین سے کیریر گائڈنس لیکچرز اور براہ راست سوال و جواب کے پروگرام منعقد کرتے ہیں ۔ انہوں نے پروفیسرافضل الدین اقبال مرحوم عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر نگرانی ایم فل اردو کے لئے تحقیقی مقالہ ’’ حیدرآباد میں اردو ذرائع ترسیل و ابلاغ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ جو بعد میں ترمیم و اضافہ کے ساتھ نوبل انفوٹیک حیدرآباد کے زیر اہتمام کتابی صورت میں شائع ہوا۔ سروری صاحب کے مضامین کی طرح اردو حلقوں اور خاص طور سے اردو صحافتی حلقوں میں اس کتاب کی بے حد پذیرائی ہوئی اور حیدرآباد کی اردو صحافت کی تاریخ پر یہ کتاب اہمیت اختیار کر گئی۔ زیر تبصرہ کتاب میں مختلف ابواب جیسے ترسیل و ابلاغ۔ ترسیل و ابلاغ کے ذرائع اور ان کی ترقی۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میں اردو صحافت۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میں ریڈیو کی ترقی۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میں ٹیلی ویژن کی ترقی۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اجمالی جائزہ۔ کے تحت معلومات اور خیالات پیش کئے گئے ہیں ۔
اکیسویں صدی بلا شبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے غلبے والی صدی ہے۔ اس دور میں ساری دنیا اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کس طرح لوگوں کی توجہ اپنی جانب کرائی جائے۔ اپنے کاروبار کی تشہیر ہو۔ لوگوں کی ذہن سازی سے انتخابات جیتے جائیں اور اپنا فائدہ ہو۔ پہلے خبریں ہوتی تھیں اب لوگ خبر تیار کر رہے ہیں اور اسے اپنے انداز میں پیش کر رہے ہیں ۔ یہ سب سلسلہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں تیز ہوا اور دنیا میں کیبل نشریات کے ذریعے ابلاغیات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا گیا۔ خیال کے کامیاب اظہار کی ترسیل قرار دیتے ہوئے صاحب کتاب مصطفی علی سروری لکھتے ہیں کہ ’’ اگر انسانوں کے درمیان ترسیل کے عمل پر پابندی عائد کر دی جائے اور انہیں ترسیل کے ذرائع اختیار کرنے سے روک دیا جائے تو معاشرے کا نظام ٹھپ ہو جائے ‘‘۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے لکھا کہ اقوام متحدہ نے ترسیل کو قانونی حیثیت عطا کی ہے اور خود اظہار خیال کی آزادی والے ملک ہندوستان میں فریڈم آف انفارمیشن بل1997ء کے ذریعے ترسیل کو قانونی درجہ دیا گیا ہے۔ ترسیل اور ابلاغیات کے تعارف کے باب میں انہوں نے تکنیکی طور پر ابلاغیات کی سائنس کو پیش کیا جس میں مرسل مرسل الیہ واسطہ باہمی ترسیلگروہی ترسیل اور عوامی ترسیل کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں ۔ اس کی بعد ابلاغیات کی ترقی اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے وسائل کا تعارف بیان کیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور نظریات کی ترویج کے ضمن میں فاضل مصنف نے لکھا کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں قومی یکجہتی اہم پہلو ہے اور اس کی برقراری کے لئے میڈیا کے رول کی ہر زمانے میں ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے دوسرے باب میں ابلاغیات کے تین ذرائع صحافت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ترقی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں ۔ مصنف نے وہ تمام حالات پیش کئے جب کہ ہندوستان میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں دوردرشن سے ٹیلی ویژن نشریات شروع ہوئیں اور 1990ء کی دہائی میں سٹلائٹ چینلوں خاص طور سے اسٹار زی سونی وغیرہ کے غلبے کے ہندوستانیوں پر اثرات کو اجاگر کیا گیا۔ ٹیلی ویژن کی تجارتی اہمیت کے بارے میں مصطفی علی سروری لکھتے ہیں ’’ ہندوستان ایک اہم تجارتی منڈی ہے جہاں اشیاء کی فروخت کے لئے کمپنیاں اہم فلمی ستاروں ‘نامور کھلاڑیوں اور خوبصورت ماڈلس کو اشتہارات کے لئے کروڑوں روپئے لیتے ہیں وہیں با صلاحیت نوجوان اشتہارات کے خوبصورت دلچسپ فقرے لکھ کر سرمایہ کما سکتے ہیں ۔ اس طرح ٹیلی ویژن کی صنعت فراہمی روزگار کا اہم ذریعہ ہے ‘‘۔ کتاب کے اصل تین ابواب میں پہلا باب حیدرآباد میں بیسویں صدی کی آخری دہائی میں صحافت کی ترقی سے متعلق ہے جس کی ابتدا حیدرآباد میں رسالہ طبابت حیدرآباد کی اشاعت سے ہوا۔ اس کے بعد آزادی سے قبل جاری ہونے والے مشہور اردو اخبار رہنمائے دکن‘ اور آزادی کے بعد جاری ہونے والے اردو اخبارات سیاست منصف اور ہمارا عوام کی خدمات کی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اردو اخبارات کس طرح کتابت کے دور سے کمپیوٹر کتابت کے دور اور سیاہ و سفید سے رنگین اشاعت میں داخل ہوئے اس کی تفصیلات بھی اس باب کا حصہ ہیں اردو اخبارات میں شائع ہونے والے مختلف معلوماتی سپلمنٹ اور مختلف ایام میں شائع ہونے والے مختلف خصوصی کالموں اور خبروں اداریوں کے علاوہ دیگر اہم معلومات سے متعلق تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اردو اخبار جب انٹرنیٹ پر دیکھے جانے لگے تو ان کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس ضمن میں مصطفی علی سروری جی ڈی ٹنڈن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ عالمی سطح پر انٹرنیٹ کے ذریعے اردو اخبارات کی پہنچ دیگر زبانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ‘‘ اردو صحافت کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ سرکیولیشن کی کمی، کاغذ کی مہنگائی اور اشتہارات کے حصول میں دشواری سے اردو صحافت کی ترقی سست رہی ہے اور صحافیوں کو کم یافت دینے سے بھی معیاری صحافی اردو صحافت سے وابستہ نہیں ہو پائے۔ باب کے آخر میں اردو صحافت میں شخصی کردار کشی کو انہوں نے نقصان دہ قرار دیا۔ کتاب کا اگلا باب میں حیدرآباد میں ریڈیو کی ترقی سے متعلق ہے۔ بیسویں صدی میں حیدرآباد میں دکن ریڈیو کی مقبولیت رہی اور آزادی کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے اردو پروگرام نیرنگ کے مقبولیت کا ذکر کیا گیا۔ ایک زمانہ تھا جب حیدرآباد کے ہر گھر سے نیرنگ پروگراموں کی آواز آتی تھی۔ نیرنگ سے وابستہ فنکاروں میں اظہر افسر، قمر جمالی، اسلم فرشوری، جعفر علی خان، شبینہ فرشوری، معراج الدین، اکبر علی خان اور ریڈیو پر پابندی سے خط بھیجنے والے سامع ماسٹر نسیم الدین نسیم کا ذکر نیرنگ کی پرانی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ نیرنگ میں چھوٹی چھوٹی باتیں ، ڈھولک کے گیت اور ہر اتوار کی شب پیش ہونے ولا ریڈیائی ڈرامہ اور حرف تابندہ مقبول پروگرام تھے۔ نیرنگ کے علاوہ حیدرآباد ریڈیو سے صبح اور شام میں یواوانی پروگرام اور شام میں اردو خبریں بھی نشر ہوتی تھیں جن کی تفصیلات اس باب میں پیش کی گئی ہیں ۔ اردو پروگراموں کے علاوہ دیگر زبانوں کے پروگراموں کی تفصیلات بھی اس باب کا حصہ ہیں ۔ کتاب کے تیسرے اور آخری باب میں حیدرآباد میں بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ابلاغیات کے اہم ذریعہ ٹیلی ویژن کی ترقی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں ۔ اردو پروگرام انجمن، مختلف مواقع پر پیش ہونے والے خصوصی پروگرام اور اردو خبروں کی نشریات کا ذکر کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے لکھا کہ حیدرآباد دور درشن کو ترقی دینے میں امتیاز علی تاج نے اہم رول ادا کیا اور نئی منزلیں اور اردو میگزین جیسے پروگراموں کے آغاز کی تفصیلات پیش کیں ۔ کتاب کے آخر میں مصنف کتاب مصطفی علی سروری نے ابلاغیات کے اہم ستون صحافت ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نئے زمانے کے اثرات کا جائزہ لیا۔ اردو اخبارات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی صحافت کے بجائے ترجمے کی صحافت کا رجحان اردو صحافت کے لئے اچھا نہیں ہے اور اردو اخبارات میں بے تحاشہ انگریزی الفاظ کے استعمال سے اردو زبان کا نقصان ہو گا۔ انہوں نے ریڈیو کے شاندار ماضی کے احیا اور ٹیلی ویژن پر نظریات سازی سے زیادہ حقائق کی پیشکشی اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں صحت مند ذرائع ابلاغ پر زور دیا۔