AIOU Course Code 5409-2 Solved Assignment Autumn 2021

ANS 01
 

سر سید احمد خاں مصلح قوم اور اردو ادب کے  عظیم محسن ہیں۔ سر سید کی سیاسی، سماجی اورمذہبی، تہذیبی اور تعلیمی کوششوں کے  نتیجے  میں اردو شعر و ادب کو ایک نئی جہت ملی۔اس نئی جہت کی تبلیغ و ترسیل اور تشہیر ادبی و تہذیبی رسائل کے  ذریعے  تندہی سے  کی گئی۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، سائنٹفک سوسائٹی، ایم۔اے۔او کالج اور رسالہ تہذیب الاخلاق کے  علم برداروں نے  تخلیق اور تحریر و تصنیف کی سطح پر اردو زبان و ادب کو ترقی دی۔سر سید دورِ جدید کے  تقاضوں سے  آشنا تھے  وہ جانتے  تھے  کہ علومِ جدیدہ سے  واقفیت مسلمانانِ ہند کی اہم ضرورت ہے۔شعر و ادب میں بھی سر سید خیالی طوطا مینا کی کہانی اور عاشق و معشوق کے  قصے  بیان کرنے  کی بجائے  مقصدی اور تعمیری ادب کی تخلیق کے  قائل تھے۔اس مقصد کے  لئے  سرسید نے  اپنے  رفقا کو مغربی ادب سے  واقفیت کی طرف مائل کیا اور اردو ادب کو جدید تقاضوں کے  مطابق ڈھالنے  کی کوشش کی۔سر سید نے  علی گڑھ میں ایک کالج ہی قائم نہیں کیا بلکہ اس وقت کی علمی و ادبی سر گرمیوں کے  لیے  ایک حلقہ پیدا کیا۔ ملک کے  بہترین دماغ اس حلقے  میں شامل تھے۔تہذیب الاخلاق کی جاندار نثر، علمی و ثقافتی مسائل پر بحث مباحثے، مولوی نذیر احمد کا ناول اور لیکچروں کے  نمونے، حالی کی شاعری و تنقیدی بصیرت، محسن الملک، وقار الملک، چراغ علی، مولوی ذکاء اللہ کے  علمی و ادبی کارنامے، مخالفتوں کے  باوجود شبلی کے  شاہکار اور سب سے  بڑھ کر ترقی پذیر علمی و ادبی فضاجو ان سب بزرگوں کے  کارناموں سے  وجود میں آئی، یہ تمام باتیں  نمایاں کمالات کی حیثیت سے  سر سیداور تحریک علی گڑھ  کے  دفترِ عمل میں شمار ہوتی ہیں۔

  سر سید سے  قبل بھی اردو ادب کی اصناف نہ صرف مسلسل تبدیلی سے  دوچار دکھائی دیتی ہیں بلکہ ہر دور میں جدیدیت کا رجحان بھی نظر آتا ہے۔سر سید کی خصوصیت یہ ہے  کہ انہوں نے  خود بھی اور ان کی تحریک سے  وابستہ ان کے  رفقا نے  اردو ادب کو جدید مغربی اصناف سے  متعارف کروایا۔سر سید ہی کے  پلیٹ فارم سے  اردو میں سیرت نگاری، تاریخ نویسی، سوانح، ناول نگاری، مضمون نویسی اورادبی تنقیدکی ابتدا ہوئی اور شاعری اپنے  مروجہ دائرہ کار سے  باہر آئی۔اردو ادب پر سر سید کے  اثرات سے  انکار ممکن نہیں ۔ سر سید سے  قبل ہندوستان میں شاعری کو چھوڑ کر ادبیات کا دائرہ مذہب، تصوف، تاریخ اور تذکرہ نویسی تک محدود تھا۔

۱۸۵۷ء کے  بعد مسلمان ہر شعبہ زندگی میں زوال کا شکار تھے۔نئے  چیلنجز سے  نپٹنے  کے  لیے  ان کے  پاس کوئی حل موجود نہ تھا۔فارسی زبان کا مستقبل تاریک تھا اور اردو میں غزل گو شعراء کے  دواوین کے  علاوہ کوئی قابلِ ذکر لٹریچر موجود نہ تھا۔نثر میں گنتی کی چند کتابیں تھیں اور ابھی نثر میں  علمی مسائل پیش کرنے  کی صلاحیت نہیں آئی تھی۔قوم کی اصلاح کے  لیے  ضروری تھا کہ ایک نئی زبان تیار ہو جو نیا لٹریچر تیار کرے  جو شاندار ماضی کی تصویر مسلمانوں کو دکھانے  کے  ساتھ ساتھ موجودہ زبوں حالی میں ان کی ہمت افزائی کرے۔جدیدشاعری اور شاعرانہ تنقید کے  نئے  اصول وضع ہوں۔  جدید نثرلکھی جائے  جو زورِ انشاء دکھانے  کے  نہیں  بلکہ عام اور روزمرہ کے  مسائل و واقعات کا احاطہ کرے۔سرسید اور تحریک علی گڑھ نے  یہ فریضہ سنبھالا۔ اردو ادب کے  عناصرِ خمسہ میں سے  چار حالی، شبلی، نذیر احمد اور سر سید احمد خاں  تحریک علی گڑھ کے  روحِ رواں تھے۔ سرسید نے  اردو میں مضمون نگاری کی ابتدا کی  تو ڈپٹی نذیر احمد نے  ناول نگاری کی صنف کو متعارف کروایا۔حالی نے  سوانح نگاری سے  اردو ادب کا ناطہ جوڑااورمقدمہ شعر و شاعری کی صورت میں جدید تنقید کے  اصول وضع کیے۔شبلی نے  سیرت نگاری جیسی صنف کا تحفہ اردو ادب کو دیا۔حالی اور آزاد نے  جدید نظم میں نت نئے  تجربات کیے۔یہ زمانہ اردو ادب کا شاندار عہد ہے۔

سرسید احمد خاں  نے  نہ صرف اس مشکل وقت میں مسلمانوں کی ڈوبتی نیا کو سنبھالا دینے  کی کوشش کی بلکہ اس زوال پذیر قوم کی زبان کو غیر معمولی ترقی دے  کر اردو ادب کے  ارتقاء میں بھی حصہ لیااور اردو نثرکو اجتماعی مقاصد سے  روشناس کیا۔سر سید نے  اردو نثر کو سہل اور سلیس بنا کر عام اجتماعی زندگی کا ترجمان اور علمی مطالب کے  اظہار کا وسیلہ بنایا۔اس حقیقت سے  انکار ممکن نہیں کہ اس سے  قبل فورٹ ولیم کالج کے  ادباء نے  بھی اردو نثر کے  ارتقا میں اہم کردار ادا کیا اور اردو نثر کو الفاظ پرستی سے  نجات دلا کراس کو بے  تکلف اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا۔مگر اس بات سے  بھی انکار ممکن نہیں کہ فورٹ ولیم کالج کی نثر کی زبان تو سادہ تھی لیکن اس نثر کو صرف قصوں سے  سروکار تھا عام آدمی کی زندگی، اس کے  مسائل، اس کی اصلاح اس نثر کا موضوع نہ بن سکی۔مرزا غالب نے  بھی نثر کے  میدان میں طبع آزمائی کی اور سرسید کی نثر پر مرزا کے  اسلوب کے  اثرات دکھائی دیتے  ہیں۔ بقول سید عبداللہ:

مرزا غالب نے  نثرِ اردو کو خلوص کا راستہ دکھایا مگر علمی حقائق اور ٹھوس مسائلِ زندگی کی حد تک وہ بھی نہیں پہنچے۔البتہ ان کی نثر  نے  سر سید احمد خاں کی انشا ء کے  لیے  بیان و اظہار کا راستہ ضرور  صاف کیا چنانچہ اس کے  اسلوبِ تحریر پر مرزا غالب کے  اسلوب  کانمایاں اثر دکھائی دیتا ہے۔ خصوصًا مکالمہ نگاری میں  جس کے اچھے  اچھے  نمونے  غالب کی طرح سرسید کے  مضامین میں بھی دستیاب ہوتے  ہیں۔ (۱)

۱۸۵۷ء کے  بعد کے  حالات ہر گز اس قابل نہ تھے  کہ مسلمان ادب تخلیق کرنا تو دور کی  بات آزادی سے  سانس بھی لے  سکیں۔ ان حالات میں دیکھا جائے  تو ایک زوال پذیر قوم کی زبان میں ادب تخلیق کرنا اور اپنے  رفقا کو اس کام کی طرف مائل کرنا، کسی عام شخص کے  لیے  یہ مرحلہ طے  کرنا دورکی بات اس بارے  میں سوچنا بھی ناممکن تھا۔ یہ سر سید جیسی اولعزم شخصیت کا حوصلہ اور محنت کا نتیجہ ہے  تھاکہ انہوں نے  اس کڑے  وقت میں نہ صرف انگریزوں کے  دلوں سے  مسلمانوں کی نفرت ختم کرنے  کی کوششیں کیں بلکہ اپنے  رفقا کے  ساتھ مل کر ایسا ادب تخلیق کیا جس نے  ایک طرف تو اس کڑے  وقت میں مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور دوسری طرف اردو ادب کو ایسی بنیادیں مہیا کیں  کہ آئندہ آنے  والی نسلیں  اس پر مضبوط عمارت قائم کر سکیں۔  سر سید نے  اردو نثر کی حدود کو وسیع تر کر دیا۔سرسید اور ان کے  رفقا نے  اردو نثر کے  موضوعات کو وسعت دی وہ نثر جو اس سے  قبل مافوق الفطرت کہانیوں تک محدود تھی اس نثر کے  دامن نے  مذہب، تاریخ، سیاست اور تعلیم جیسے  موضوعات کو  جگہ دی۔سرسید اور ان کے  رفقا کے  طفیل اردو میں توضیحی، استدلالی اور وصفیہ نثر کے  علاوہ اعلی درجے  کی مقالہ نگاری، صحیفہ نگاری اور قصہ نویسی پیدا ہو کرپروان چڑھی۔(۲)

سرسید کے  زمانے  کے  حالات و واقعات کو دیکھتے  ہوئے  یہ توقع کرنا کہ اس دور میں اردو جیسی نو عمر زبان میں بے  عیب اور مکمل ادب تخلیق ہو گا، بے  محل اور بے  جا ہے۔اس دور میں تخلیق ہونے  والا ادب اپنی تمام تر کمزوریوں کے  باوجود آئندہ کے  لیے  ایک ایسی بنیاد ثابت ہوا جس پر ادب کی مضبوط عمارت آج قائم ہے۔ اردو میں سوانح نگاری کے  فن کو رواج دینے  کا سہرا حالی کے  سر ہے۔اردو میں باقاعدہ سوانح نگاری کا آغاز مغربی خیالات کا نتیجہ ہے۔اور اس کے  علم بردار حالی اور شبلی سر سید کی فوج کے  سپاہی ہیں۔ حالی کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں میں جو روح کام کر رہی ہے  وہ سرسید ہی کی پیدا کردہ ہے۔(۳)حالی کوطویل عرصے  تک سرسید کی دوستی کا شرف حاصل رہالہذا ان کے  اسلوب ِ بیان پر سر سید کے  اثرات واضح ہیں۔  اردو میں اس صنف کی باقاعدہ داغ بیل سرسید کے  جدید خیالات کا نتیجہ تھی۔یہ دو مصنف (حالی اور شبلی)اپنی کمزوریوں کے  باوجود اردو سوانح نگاری کے  امام ہیں۔ (۴)

سرسید کا دور ادرو ادب کی ترقی کا ابتدائی زمانہ تھا۔اس دور میں کسی ترقی یافتہ اور مکمل صنفِ ادب کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اردو کی ادبی تنقید بھی اس دور میں کسی حد تک ناپختہ تھی۔تا ہم کہا جا سکتا ہے  کہ یہ وہی زمانہ تھا جس میں فن کے  شعور اور اصولِ تنقیدکے  صحیح ادراک کا آغاز ہوا۔( ۵)سر سید نے  بذاتِ خود کوئی تنقیدی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے  خیالات نے  تنقیدی رجحان پر گہرا اثر ڈالا۔مقدمہ شعر و شاعری حالی کی اردو تنقید پر لکھی گئی کتاب ہے۔ اس کتاب میں شعر و ادب کی ماہیت کو سمجھنے  کی کوشش کی گئی ہے۔ مقدمہ شعر و شاعری  سر سید کے  خیالات کی تفصیلی تفسیر ہے۔(۶)سر سیدادب کے  جمالیاتی پہلو کی بجائے  ادب کو زندگی کے  مقاصد سے  جوڑتے  ہیں اور ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں سمجھتے  تھے  بلکہ وہ اس سے  قومی اور اجتماعی کام لینے  پر یقین رکھتے  تھے۔اس لیے  سر سید اردو کے  غالبا سب سے  پہلے  ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔( ۷)حالی نے  فنِ تنقید پر انگریزی اور عربی سے  مواد لے  کر ایک جگہ جمع کیا جو بعد میں آنے  والے  ناقدین کے  لیے  شمع ہدایت ثابت ہوا۔حالی نے  اس کتاب کے  ذریعے  اردو شعر و ادب میں ایک نئی لہر پیدا کرنے  کی کوشش کی۔یہ سب سر سید کی صحبت کا ہی نتیجہ تھا :

سر سید کی تحریک اور ان کے  رسالہ’’تہذیب الاخلاق‘‘نے  اس ادبی انقلاب  میں اور بھی زیادہ تنقیدی تلخی اور تیزی کی کیفیت پیدا کر دی۔اور پرانے  رجحانات کے  خلاف بغاوت کا پیغام دیا۔کیوں کہ اس وقت ہمارے  ادب  میں تھک کر بیٹھ جانے  والی جو کیفیت تھی اور اس میں جو غلظ معیار قائم ہو  گئے  تھے  ان کا وجود ہماری سماجی زندگی

کے  منافی تھا۔اس پس منظر میں حالی نے  مقدمہ شعر  و شاعری مرتب کیا۔

سرسید اور ان کے  رفقا ء نے  ٹھوس علمی مسائل(مثلا ریاضی اور طیبعیات)کی طرف بھی توجہ دی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ سر سید اور ان کے  جماعت کے  لوگوں نے  اردو کوجو علمی اعتبار سے  اس وقت تک ایک بے  مایہ زبان تھی تھوڑے  عرصے  میں  اسے  اعلی علمی جواہر ریزوں سے  مالا مال کر دیا۔مغربی علوم کی کتب کے  اردو زبان میں تراجم بھی سر سید کا ایک اہم کارنامہ ہے۔صحافت کے  میدان میں بھی سر سید کوکامیابی نصیب ہوئی۔اخبارات کی زبان عمدہ اور صاف ہوتی تھی۔بہت کم اخبارات ایسے  ہوں گے  جن میں ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی آ رٹیکل عمدہ سلیس عبارت میں کسی نہ کسی مضمون پر نہ لکھا جاتا ہو۔سر سید نے  صحافت کا رشتہ عام آدمی کی زندگی سے  جوڑنے  کی کوشش کی۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق نے  صحافت میں علمی متانت، فکر و فلسفہ اور سیاست و معاشرت میں جدید تصورات کو جگہ دی۔ تہذیب الاخلاق کا پرچہ قوم کی اصلاح کے  لیے  نکالا اور اردو انشاء پردازی کو اس رتبے  پر پہنچا دیا جس سے  آگے  اب تک ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔ (۹)تہذیب الاخلاق نے  اردو نثر نگاری کے  لیے  سادہ اور سیدھا راستہ کھول دیا۔سر سید کے  اخبارات کے  زیرِ اثر صحافت میں ایک نئے  دور کا آغاز ہوا۔دوسرے  معاصر اخبارات نے  بھی قومی اور سیاسی رجحانات کو بے  خوفی سے  پیش کرنا شروع کیا۔(۱۰)اردو نثر میں مضمون نگاری کی ابتدا ء اورفروغ کا سہرا تہذیب الاخلاق اور سر سید کے  سر جاتا ہے۔اس سے  قبل سیاسی، معاشی، معاشرتی و سماجی مسائل پرسنجیدہ مضامین لکھنے  کا رواج نہ تھا۔سر سید خود اس حوالے  سے  لکھتے  ہیں  :

مضمون نگاری دوسری چیز ہے  جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی۔ یہ اسی زمانے  میں پیدا ہوئی اور ابھی بچپن کی حالت میں ہے۔(۱۱)

سرسید نے  جہاں مذہبی، اخلاقی اور سیاسی موضوعات پر قلم اٹھایاوہاں تعلیم، سائنس، انگریزدوستی، مغربی تہذیب کی اچھائیاں اور عام مسلمانوں کے  حالات جیسے  موضوعات کو نظر انداز نہیں کیا۔ان مضامین نے  نہ صرف سر سید کی تحریک کے  مفادات کو آگے  بڑھایا بلکہ اردو نثر کا وقار بھی بلند کیا:

نئے  اسالیب کو متعارف کرانے  اورقابلِ قبول بنانے  میں سر سید اور  ان کے  رفقاکا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔بہ قول شبلی سرسید ہی کی  بدولت اردواس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے  دائروں سے  نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے  مضامین  اس زورِ اثر  وسعت و جامعیت، سادگی وصفائی سے  اداکر سکتی ہے  کہ خود اس کے  استاد یعنی فارسی میں آج تک یہ بات نہیں۔ (۱۲)

جہاں تک شاعری کا تعلق ہے  تو سرسید سے  قبل کی اردو شاعری کے  موضوعات زیادہ تر عشق و محبت، گل و بلبل اور ہجر و وصال تک محدود تھے۔سرسید نے  اردو کی روایتی اصناف اور ان کے  موضوعات پر تنقید کرتے  ہوئے  اردو شاعری میں وقت کے  تقاضوں کے  مطابق نئی اصناف کو فروغ دینے  کی وکالت کی۔حالی و شبلی سر سید کی اس سوچ کو فروغ دینے  میں سر عمل نظر آئے۔سرسید کے  دور سے  پہلے  کی شاعری اس منظم اجتماعی اور معاشرتی احساس کی حامل نہیں تھی جو حالی و شبلی کی نظموں کا خاصہ ہے۔سر سید نے  ایک اصلاحی تحریک کے  ذریعے  ادب کی معاشرتی اور تہذیبی اہمیت کو سامنے  رکھ کراردو میں مقصدی شعر و ادب کی تخلیق کی ایسی روایت قائم کی کہ اردو شاعری حیات و کائنات کے  مسائل کی ترجمانی کے  قابل ہوگئی۔’’انجمنِ پنجاب‘‘کی نظم نگاری کی تحریک کو  سر سید کے  افادی نقطہ نظر نے  اور واضح کیا۔(۱۳)سرسید نے  اپنے  تصورات میں نیچر کو جو اہمیت دی ہے  اسی کے  اثرات انجمنِ پنجاب کی نیچرل شاعری پر نظر آتے  ہیں۔

شبلی کی قومی و سیاسی شاعری سر سید کی قومی روح کی تربیت یافتہ ہے۔شاعری کے  متعلق سر سیدکایہ خیال تھا کہ شاعری کے  خیالات خیالی نہ ہوں حقیقت سے  قریب ہوں ۔ خیالات کو اس صورت میں پیش کیا گیا ہو کہ خارج کی چیزیں بھی داخلی معلوم ہوں۔ (۱۴)انہی کے  خیالات کے  زیرِ اثر شاعری میں  سیاسی،  اخلاقی و سماجی مو ضوعات پر شعر کہنے  کا رجحان پیدا ہوا۔ انہوں نے  اپنے  رفقاء کو انگریزی شاعری سے  استفادے  کا مشورہ بھی دیااور شاعری میں سادگی، حقیقت اور پاکیزگی پر زور دیا۔سر سید نے  ہی حالی سے  مسدس کی فرمائش کی۔’’مسدس مدو جزرِ اسلام‘‘سر سید کے  خواب ِ شعر کی علمی تعبیر ہے۔(۱۵)ڈپٹی نذیر احمد نے  بھی سر سید کے  افکار کو وسعت دی اور مسائل کو قصہ کہانی کی صورت میں بیان کر کے  اردو ادب میں ناول نگاری کی بنیاد ڈالی۔

اردو ادب پر سر سید کے  اثرات سے  انکار ممکن نہیں۔ یہ اثرات اسلوبِ بیان پر بھی ہیں  موضوعات اور روحِ معانی پر بھی۔ سر سید اور ان کے  رفقاء نے  نہ صرف اردو زبان کو وسعت عطا کی بلکہ اس کے  موضوعات کا دائرہ بھی وسیع کیا۔سر سید سے  قبل کے  اردو سرمائے  پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے  اس سے  قبل کا اردو ادب کا دائرہ محدود اور دامن تنگ تھا۔سرسید کے  دور کی تصانیف بالخصوص سر سید ہی کی تصانیف کر اگر دیکھا جائے  تو مضامین اور موضوعات کا تنوع ہی نہیں انداز فکر بھی جدا اور نیا ہے۔اندازِ بیان اس سے  قبل کے  ادب سے  کس قدر مختلف ہے  اس بات سے  کوئی انکار نہیں کر سکتا۔اس ادبی سرمائے  کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے  کہ یہ ادب ہر لحاظ سے اس سے  قبل کے  ادب سے  مختلف اور جدید ہے۔’’آثار الصنادید ‘‘میں  دہلی کی مشہور شخصیات، قدیم تاریخی عمارات اور مقامات کا حال بیان کیا گیا ہے۔پہلے  یہ کتاب قدیم عبارت میں مقفی عبارت میں تھی بعد ازاں سر سید نے  اسے  سلیس اردو میں لکھا۔’’اسباب بغاوتِ ہند ‘‘میں  ۱۸۵۷ء کے  حالات کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا اور قرآن مجید کی تفسیر کا بھی آغاز کیا لیکن عمر نے  وفا نہ کی۔اس کے  علاوہ کئی موضوعات پر کتب  اور مضامین جو تہذیب الاخلاق میں شائع ہوئے۔سر سید نے ’’مسافر ان ِ لندن‘‘ کے  نام سے  سفر نامہ بھی تحریر کیا۔

سر سید کے  مجموعی فکر و ادب کی عمارت جن بنیادوں پر قائم ہے  ان میں مادیت، اجتماعیت، عقلیت اور حقیقت نگاری شامل ہیں۔ ان کی مجموعی فکر و ادب کی عمارت انہی بنیادوں پر قائم ہے  اور یہی جدید رجحانات اردو ادب میں سر سید کا فیض سمجھے  جاتے  ہیں۔  ڈاکٹر سید عبداللہ سر سید کے  ادب کے  متعلق رقم طراز ہیں  :

’’سر سید کے  ادبی سرمائے  کو جو چیزیں مستقل حیثیت سے  امتیاز اور انفرادیت بخشتی ہیں ان کو مجموعی لحاظ سے  تین چار جملوں میں یوں سمیٹا جا سکتا ہے  کہ ہمارے  ملک میں سر سید ہی وہ پہلے  شخص تھے  جنہوں نے فکر و ادب میں روایات کی تقلید سے  ہٹ کر آزادی رائے  اور  آزادی خیال کی رسم جاری کی اور ایک ایسے  مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی جس  کے  عقائد میں  عقل، نیچر، تہذیب اور مادی ترقی کو بنیادی خیثیت حاصل  ہے۔ کہنے  کو تو یہ چند معمولی الفاظ ہیں لیکن انہی چند سادہ لفظوں میں اس زمانے  کے  مشرق و مغرب کی اکثر و بیشتر ذہنی آویزشوں اور کشمکش کی طویل سرگزشتیں پوشیدہ ہیں۔ انہی چند الفاظ میں انیسویں اور بیسویں صدی کے ہندوستان کی سماجی اور ادبی تاریخ کے  بڑے  بڑے  عقیدوں اور بڑے بڑے  نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ـ‘‘(۱۶)

سرسید نے  اردو ادب میں جدیدیت کا رجحان متعارف کروایا۔سر سید کے  فکری و ادبی رجحان سے  اس دور کا سارا ادب ہی متاثر ہوا۔جدیدیت کے  اسی رجحان سے  وہ انقلابی رجحانات پیدا ہوئے  جن پر بعد میں آنے  والے  ادب کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ سر سید نے  ادب میں آزادانہ سوچنے  اوراور سائنسی نقطہ نظر سے  دیکھنے اور پرکھنے  کا میلان پیدا کیا۔انہوں نے  فکر و ادب میں جو راستہ اختیار کیااس کو نہ تو خالصتا رومانی کہا جا سکتا ہے  اور نہ خالصتا کلاسیکی۔سرسید مصلح تھے  انقلابی نہیں۔  ان کے  ادب میں حقیقت بہت زیادہ ہے  اور جذبات پر عقل کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔انہوں نے  ثابت کیا کہ ادب بے  کاروں کا مشغلہ نہیں بلکہ عین زندگی ہے۔

سرسید احمد خاں کا دور ایسا دور تھا کہ جب یورپی صنعتی انقلاب اور مغربی تہذیبیں ہندوستان پر اپنے  اثرات چھوڑ رہی تھیں۔ تمام تبدیلیوں کا اثر زبان و ادب پر بھی پڑا۔سر سید ہندوستان کی ایسی شخصیات میں سے  تھی جنہوں نے  انگریزوں کی سیاست کو بھانپ لیا تھا۔ وہ وقت کے  تقاضوں کو سمجھ رہے  تھے۔انہیں اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ اگر مسلمانوں نے  جدید میلانات اور جدیداقدارکو نہ اپنایا تو وہ زندگی کے  ہر شعبے  میں پیچھے  رہ جائیں گے۔سر سید نے  ادب کو زندگی کا ترجمان بنانے  کی طرف توجہ دی۔اس وقت کے  ادب میں یہ صلاحیت موجود نہ تھی کہ وہ زندگی کے  نت نئے  مسائل کا احاطہ کر سکے۔ سر سید نے  لندن سے  واپسی پر اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلرکی طرز پر تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا۔تہذیب الاخلاق کے  ذریعے  نہ صرف اردو صحافت کو فروغ ملا بلکہ اردو نثر کے  دامن میں وسعت آئی اور اردو ادب کا رجحان جدیدیت کی طرف ہوا۔سرسید نے  جنگِ آزادی کے  بعد اردو ادب کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ ان کے  ہاں ادب کا گہرا شعور ملتا ہے۔فکر کی گہرائی اور وقت اورحالات پر کڑی نظراورہواوں کے  رخ کو دیکھتے  ہوئے  سر سید نے  جدیدیت کی جو حکمتِ عملی اختیار کی اس کے  اثرات ہمیں آج تک اردو صحافت اور اردو زبان و ادب پر دکھائی دیتے  ہیں۔  غرض کہا جا سکتا ہے  کہ سر سید کے  بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ سر سید نے  ادیبوں کی ایک ایسی جماعت بھی بنائی جن کی جدت پسندی نے  اردو کو ہمہ جہت ترقی دی(۲۲)سر سید جدیدیت کے  علم برادر تھے۔تاریخ، سوانح نگاری، سیرت نگاری، شاعری اور نثر ہر ایک پر گہرے  اثرات مرتب کیے۔سر سید نے  جدید مغربی تقاضوں سے  آگہی رکھتے  ہوئے  ادب کو جدید خطوط پر استوار کیا اور ادب کو تنقیدِ حیات بنا دیا۔

ANS 02

علامہ شبلی نعمانی نے جس صنف سخن پر قلم اٹھایا اُسے کمال تک پہنچادیا۔ان کی طبیعت میں بڑی جامعیت اور ہمہ گیری تھی۔ انہوں نے اردو میں تاریخی ذوق پیدا کیا۔ بلند پایہ سوانح عمریاں اور مستند تاریخیں لکھیں۔ادب، سیاست، تعلیم، فلسفہ، مذہب سب پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ اپنی دقت نظر، لطافت خیال اور وسعت علمی سے عبارت میں بڑی دلکشی اور جدت پیدا کردیتے ہیں۔ اُن کا حُسنِ نظر اور ذوقِ سلیم ہر جگہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ سر سیّد کے متعلق فرماتے ہیں کہ
اسی صاف و شُستہ ادب اور بر جستہ عبارت ہے کہ دلّی والوں کو بھی رشک آتا ہوگا۔

احساس برتری

شبلی نسلاً راجپوت تھے۔ راجپوتوں کو اپنی نسلی روایات اور اسلاف کا کارناموں پر بڑا فخر ہوتا ہے۔یہی نسلی اثر اُن کی فطرت میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے اسلاف کی شاندار تاریخ کو اپنا موضوع بنایا۔اُن کے اسلوب سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے کوئی استاد اپنے شاگردوں سے مخاطب ہے۔ مثلاً جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
یہ ایک فلسفیانہ نکتہ ہے
یا
ایک نکتہ سنج سمجھ سکتا ہے
تو حقیقت میں وہ اپنی فضیلت اور ذہانت کا سکہ اپنے مخاطب کے دلوں پر بٹھانا چاہتے ہیں۔

فصاحت و بلاغت

شبلی نے وضاحت کی تعریف اس طرح کی ہے کہ الفاظ میں تناضر نہ ہو، غرابت نہ ہو، ثقالت نہ ہو۔معلوم ہوتا ہے کہ فصاحت کے سارے اسرارورموز سے وہ بخوبی واقف تھے۔ اُن کی تحریروں میں ثقیل اور ناہموار الفاظ بالکل نہیں پائے جاتے اور نہ تہ کیبوں میں کہیں ناگواری معلوم ہوتی ہے۔ بلاغت کے معنی یہ ہیں کہ واقعات کو اس طرح بیان کیا جائے کہ وہ قرین قیاس معلوم ہوں۔اس اعتبار سے شبلی اپنے ہم عصر میں سب پر فوقیت رکھتے ہیں ان کی سوانح عمریوں اور تاریخوں کے کردار چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔ اُن کے ذاتی حالات، واقعات اور ماحول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ صدیوں پہلے کی شخصیتیں اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہیں اور ہم اُن کی خوبیوں اور خامیوں کو بیک نظر دیکھ لیتے ہیں۔ مقالات میں بھی یہی خصوصیات نمایاں ہیں۔ مثلاً
اسلامی مدرسوں اور کتب خانوں کا حال اس طرح قلمبند کیا ہے کہ ہم خود کو مسلمانوں کے قرونِ اُولیٰ میں محسوس کرنے لگتے ہیں اور ہم پر وہی جذبہ طاری ہوجاتا ہے کہ جو لکھتے وقت شبلی پر طاری تھا۔

روزِبیان

انشاء ہو یا خطابت، شاعری ہو یا نثر نگاری یہ ایک کا مقصد اثر آفرینی ہے۔ سنجیدہ سے سنجیدہ انسان بھی کبھی کبھی جوش و خروش کے اظہار کے لئے مجبور ہوجاتا ہے پھر شبلی نے جن موضوعات کا انتخاب اب فرمایا اُن میں جوش و خروش کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ایسے موقعوں پر اُن کا قلم ایسا جوہر دکھاتا ہے کہ پڑھنے والا اُن کے زورِ بیان سے مرعوب ہوکر رہ جاتا ہے۔
سوانح مولانائے روم کا ایک اقتباس دیکھیئے
مسلمانوں کے عقائد و اعمال، فکرونظر، قلب روح کی جڑیں ہل چکی تھیں، اضطراب طاری تھا، اضطرار کی کیفیت تھی، سکون قرار مفقود تھا۔ایسے طوفان میں اگر کوئی کشتی وقار و اطمینان کے ساتھ تیر سکتی ہے تو وہ اولیاء اللہ کا قلب تھا۔

فلسفیانہ رجحان

شبلی نے مولانا محمد فاروق سے جو اپنے زمانے میں منطق اور فلسفہ کے امام مانے جاتے تھے۔ معقولات کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ادب کے بعد سب سے زیادہ انہیں فلسہ سے دلچسپی تھی۔ اس کے علاوہ اُن کا نظریہ یہ تھا کہ ہر علم اپنا ایک فلسفہ رکھتا ہے چنانچہ اپنی تصانیف میں وہ ایک فلسفی کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ تشریح اور توضیح کا جو صاف اور سادہ انداز ہمیں اُن کی تحریروں میں ملتا ہے وہ کسی اور نثر نگار میں نظر نہیں آتا وہ جدید اور قدیم علم کلام سے پوری طرح آشنا تھے قدرت نے انہیں ایک غیر معمولی ذہن بخشا تھا۔

مقابلہ و موازنہ

شبلی اپنی دلیل اور نظریے کے حق میں تقابل اور موازنہ سے بھی بڑا کام لیتے ہیں خصوصاً یورپ کے علمی کارناموں کے مقابلے میں ہندوستانی کی بے حسی اور اسلام کے شاندار ماضی کے مقابلے میں مسلمانوں کی جہالت اور قسم پرسی کا تقابل اِس عمدگی سے کرتے ہیں کہ اُن کے نقطہِ نظر کے متعلق پورا یقین ہوجاتا ہے۔

ایجازو اختصار

اُن کی تحریر کی ایک نمایاں خصوصیت ایجاز و اختصار ہے وہ بلا ضرورت جزئیات نگاری سے کام نہیں لیتے بلکہ تفصیل اور طوالت سے گریز کرتے ہیں جو کام محمد حسین آزاد کی طویل عبارتیں نہیں کرپاتیں وہ کام شبلی کی چند سطریں کرجاتی ہیں۔

طنزو تعریض

اُن کی تقریباً تمام تصانیف میں طنزیاتی فقرے اور جملے موجود ہیں۔ المامون اور سیرة النعمان میں طنزوتعریض کا انداز نسبتاً دھیما ہے لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گای ان کے قلم کی تلخی بڑھتی گئی۔یورپ کے اسلام دشمن مورخوں کی تاریخوں کو دیکھنے کا انہیں جتنا زیادہ موقع ملتا گیا اُن کے خلاف ان کی برہمی مین اُتنا ہی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شبلی کے مقالات اور مکاتیب بھی زہردار طنزوں سے بھرے پڑے ہیں یہاں تک کہ اُن کے رفقاء اور احباب بھی اس کی زد سے نہ بچ سکے۔

شبلی کی تحریر میں جو دلکشی اور رعنائی وہ تخّیل کی گُل کاری ہے۔ استعارے اور کنائے، شاعرانہ الفاظ اور جذبات انگیز تراکیب جو شاعری کی خصوصیات ہیں۔ اُن کی نثر کی ذیب و زینت ہیں۔جس سے اُن کے یہاں شریعت پیدا ہوگئی ہے۔شیریں اوردلآویز ترکیبوں کی جلوہ گر ی سے قاری کا ذہن تصورات کی حسین دنیا میں پہنچ جاتا ہے مثلاً سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ولادت کا باب اس کی سب سے اچھی مثال ہے
لیکن آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتطار میں پیر کہیں دہرنے کڑوڑوں برس صرف کردئیے سیارگانِ فلک اِسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔ چرخ کہیں مدت ہائے دراز سے اِسی صبح جاں نواز کے لئے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا۔

تاریخ نگاری

شبلی کی تاریخ نگاری کا یک خاص مقصد ہے کہ وہ قوم میں جوش اور غیرت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ تاریخِ اسلام کے صرف شاندار حصوں کا انتخاب کرتے ہیں۔تاریخ نویس کی حیثیت سے اُن کا درجہ نہایت ممتاز اور سربلند وہ اردو زبان کے پہلے مورخ ہیں جنہوں نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا۔ اُن سے قبل اردو کے تمام مورخین صرف بادشاہوں کی تاریخ و واقعات قلم بند کرتے تھے۔ شبلی نے اس میں اُس دور کی پوری علمی، تہذیبی اور ثقافتی زندگی کا مگرقع پیش کیا ہے۔المامون اور الفاروق اس کی یادگار مثالیں ہیں۔

سوانح نگاری

یہ اُن کا پسندیدہ موضوع ہے۔ سوانح نگاری کے لئے ضروری ہے کہ صداقت اور غیر جانبداری سے کام لیا جائے اور تصویر کشی کرتے وقت مذکورہ شخصیت کی خارجی اور داخلی دونوں زندگی کو پیش کیا جائے۔ شبلی انہیں اصولوں پر کاربند رہنے، فن کی خوبی اور ادب کی چاشنی، سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیرة انعمان الفاروق اور الغزالی میں جو واضح طور پر جھلکتی ہیں۔

تنقید نگاری

شبلی نعمانی کی تنقیدی حیثیت بھی مسلم ہے۔ اُنہوں نے اردو زبان کی شعر، موازنہ انیس و دبیر جیسی بلند مرتبہ تصانیف نذر کی ہیں۔ مرثیہ کی تاریخ لکھی ہے اور انیس و دبیر کا موازنہ کیا ہے اور جو فیصلہ انہوں نے انیس کے حق میں دے دیا وہ آج بھی برقرار ہے۔ شعر جو بانچ جلدوں پر مشتمل ہے اُس میں فارسی شاعری کی ابتدا اور ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ ایک ایسا تنقیدی کارنامہ ہے جو شبلی کی ابدی عظمت کا ضامن ہے۔
شبلی نے ہر قسم کے مضامین لکھے جن میں تاریخی، علمی، ادبی، مذہبی، اصلاحی، سماجی، اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی موضوعات شامل ہیں۔ قدرت نے انہیں متضاد صفات سے نوازا ہے۔ اُن کی تحریروں میں نفاست، بلاغت، علمیت، حلاوت، متانت اور سلاست کا اتنا حسین امتزاج ہے جو ہمیں اردو کے کسی اور انشاء پر داز میں نظر نہیں آتا۔
حامد حسن قادری نے شبلی کا موازنہ اُن کے ہمعصر نثر نگاروں سے اس طرح کیا ہے۔
بااُصول تذکرہ شعراءمیں سے پہلے آزاد نے لکھا، جامع سیرت میں سے پہلے حالی نے مرتب کی، اُصول تنقید اور نمونہ تنقید سب سے پہلے حالی نے پیش کئے لیکن جب شبلی نے اِن چیزوں پر قلم اُٹھایا تو اِس زمین کو آسمان بنادیا۔
حقیقت یہ ہے کہ شبلی جیسا جامع الکمالات مصنف صدیوں کے انتظار کے بعد معرض ظہور زمین میں آتا ہے اور نگار خانہ علم و ادب کی زینت بنتا ہے۔
میر کا یہ شعر شبلی پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے
مت سہل ہمیں جا پھرتا ہے فلک
تب خاک سے ہم جیسے انسان نکلتے ہیں

ANS 03

مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کی پہلی وجہ آپ کی اردو نثر اور اردو نظم دونوں میں یکساں شہرت و مقبولیت ہے اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایہ شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظرانداز نہیں کیا۔

حالی کے زمانے میں غیر ملکی اقتدار نے اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی۔ معاشرہ انحطاط کا شکار تھا اور کسی بھی راہ کے تعین کرنے کا قطعی فیصلہ مشکل تھا۔ ایسے دور میں پروان چڑھنے والے حالی دنیائے ادب میں اس طرح روشن ہوئے کہ ان اصلاحی کارنامے آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بنے۔بقول شاعر

فکر کو سچائی کا نغمہ دیا

شاعری کو اک نیا لہجہ دیا

گرم ہے جس سے لہو افکار کا

عشق کو حالی نے وہ شعلہ دیا

حالی کی نثرنگاری کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔

(۱) تنقید نگاری

اردو میں حالی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فنِ تنقید کو صحےح طور پر اپنایا۔ مقدمہ حالی کی نہایت اہم اور لازوال تصنیف ہے۔ اس سے اردو ادب میں باضابطہ تنقید کا آغاز ہوتا ہے۔ اردو تنقید کی دنیا میں مقدمے کو تنقید کا پہلا صحیفہ کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شوکت حسین سبزواری کہتے ہیں:

ہماری شاعری دل والوں کی دنیا تھی۔ حالی نے مقدمہ لکھ کر اسے ذہن دیا۔ بیسویں صدی کی تنقید اسی کے سہارے چل رہی ہے۔

(۲) سواغ نگاری

اردو میں جدید طرز کی سواغ عمری کے بانی حالی ہیں۔ ان کی تمام سواغ عمریاں ایک خاص نقطئہ نظر کے تحت لکھی گئی ہیں۔ وہ افادیت کا ایک مخصوص تصوررکھتے ہیں۔ شیخ سعدی کی سواغ حیاتِ سعدی لکھ کر قوم کو انہوں نے ایک شاعر‘ علم اور معلمِ اخلاق سے روشناس کریا۔ اس کتاب کے بارے میں شبلی جیسے کٹر نقاد کو بھی معاصرانہ چشمک کے باوجود بے ساختہ داد دینی پڑی۔ان کی تصنیف کردہ سواغ عمریوں میں حیاتِ جاوید بھی ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع کتاب ہے ۔

علامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں:

یہ ایک دلچسپ‘ محفقانہ اور بے مثل سواغِ عمری ہے۔

ڈاکٹر مولوی عبد الحق کہتے ہیں:

ہماری زبان میں یہ اعلی اور مکمل نمونہ سواغِ عمری کا ہے۔

(۳) مدعا نگاری

حالی کی غرض اپنے مضمون کو ادا کرنے اور مطلب کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ان کی تحریروں میں مبالغہ آرائی کا رنگ نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے جس مضمون پر قلم اٹھایا ہے اس کے مطالب کو کم سے کم رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ بڑے سچے اور دیانت دار مدعا نگار تھے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:

حالی کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا مدعا نگار کہا جاسکتا ہے۔

(۴) سرسید کا اثر

حالی کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ ان کے خیالات سرسید کی آواز یا بازگشت ہیں اور اس نسبت سے ان کا اسلوب بھی سرسید سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ بلاشبہ حالی کے اسلوب مےں سرسید کی بعض باتیں ملتی ہیں۔ جیسے سادگی‘ منطق اور اظہار بیان میں بے تکلفی۔ لیکن ان کی نثر میں سرسید کے مقابلے میں جہاں تنوع کم ہے وہاں سادگی زیادہ ہے۔

آل احمد سرور کہتے ہیں:

حالی کے یہاں سرسید سے بھی زیادہ جچے تلے انداز میں فطرت پرستی نظر آتی ہے۔

(۵) مقصدیت

حالی کی تمام نثری کاوشوں میں مقصدیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ان کی مقالہ نگاری کی ابتدا‘ ان کا پہلا مقالہ سرسید احمد خان اور ان کا کام سے ہوئی جس میں انہوں نے خاتم پر لکھا ہے کہ:

میں نے جو کچھ لکھا اس سے مجھے سرسید احمد خان کو خوش کرنا منظور نہیں۔ نہ ان کے مخالفین سے بحث مقصود ہے بلکہ اس کا منشاءوہ ضرورت اور مصلحت ہے جس کے سبب سے بھولے کو راہ بتائی جاتی ہے اور مریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے۔

(۶) خلوص و سچائی

حالی کی تحریر میں اثر و تاثیر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص و سچائی ہے یعنی دل سے بات نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے ان کا یہ شعر ان کی نثر پر بھی پورا اترتا ہے۔ جس میں حالی کہہ رہے ہیں کہ اے شعر دلفریب نہ ہو تو تو غم نہیں

پر تجھ پہ صیف ہے جو نہ ہو دل گدازت

(۷) انگیریزی الفاظ کا استعمال

سرسید اور ان کے رفقاءنے شعوری طور پر اپنی تحریروں میں انگیریزی الفاظ کو استعمال کیا۔ حالی کے یہاں بھی انگریزی کے الفاظ کا استعمال نظر اتا ہے۔ چند فقرے ملاحظہ فرمائیں:

جس کے لٹریچر کی عمر پچاس برس سے زائد نہیں

جس کی گرائمر آج تک اطمینان کے قابل نہیں ہوئی۔

(۸) مقالہ نگاری

اردو میں مقالہ نگاری کی ابتداءسرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق سے ہوئی اور اسی کی بدولت حالی کے جوہر بھی دیکھنے کو ملے۔ حالی کے مقالات کو بہ لحاظِ موضوع کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کا پہلا اور بنیادی مقصد سرسید اور ان کے مقاصد کی تبلیغ اور جدید نظریہ کی ترجمانی ہے جس مین مسلمانوں کے سیاسی‘ سماجی ‘ صنعتی اور تعلیمی شعور کو بیدار کرنا اور نئی تعلیم کو فروغ دینا شامل ہے۔ جب کہ ان مقالات کا دوسرا حصہ تبصروں‘ خطابات ‘ کانفرنسوں اور جلسوں کے لیکچروں پر مشتمل ہے۔

(۹) منتوع موضوعات

حالی کی شخصےت کی طرح ان کے موضوعات میں بھی بہت تنوع ہے۔ وہ اپنے اسلوب کو اپنی تصنیفی ضروریات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ وہ پہلے مصنف ہیں جنہوں نے ادبی‘ سائنسی‘ تنقیدی و متانت اور روانی سے لکھے چلے جاتے ہیں۔ لیکن قدیم مزاجوں کو حالی کا یہ انداز روکھا اور پھیکا نظر آتا ہے اور وہ ان کی تحریروں کو غیر معیاری قرار دیتے تھے لیکن یہی انداز و اسلوب تو حالی کا سرمایہ ہے۔

ANS 04

’’سر سید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ ریفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں ان میں ایک اردو لٹریچر ہے۔‘‘
سر سید کو اردو نثر کا بانی کہا جاتا ہے انھوں نے اردو نثر کوعبارت آرائی، لفاظی، تکلف و تصنع سے نجات دلائی، سیدھے سادھے اندازمیں بات کہنا سکھایا اور اردو زبان میں اتنی قوت اور صلاحیت پیدا کر دی کہ ہر طرح کے مضامین ادا کئے جا سکیں اور علمی موضوعات پر بہ آسانی اظہار خیال کیا جا سکے۔ ان کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی موضوع اور ہیئت کی ہم آہنگی ہے وہ ہر موضوع اور خیال کے لیے مناسب اسلوب اپناتے ہیں ان کا اسلوب ہر رنگ میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سر سید کی تحریروں میں عام طور پر سادہ اور عام فہم لب و لہجہ ملتا ہے لیکن ان کی سادگی سپاٹ اور کھردری نہیں معلوم ہوتی سیدھے سادے الفاظ میں پیچیدہ خیالات کو بھی بڑی خوبی سے ادا کرنے کا ہنر انھیں معلوم ہے ان کے سادہ اور عام فہم الفاظ میں وہ حسن اور لطف ملتا ہے جو قدما کی صنعت گری اور نازک خیالی میں نظر نہیں آتا۔ سرسید کا خیال تھا کہ نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پراثر انداز میں اپنا مدعا بیان کر سکے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ؂
’’جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کے ادا میں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسروں کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘
سر سید چونکہ تہذیب و معاشرت کے مسائل اور قوم و ملت کے معاملات کے ساتھ زبان و ادب کا بھی ایک واضح تصور رکھتے تھے اس لیے ان کے انداز تحریر اور زبان و بیان کی طرف ان کے رویے پر کوئی گفتگو ان کے تصور ادب کو نظر انداز کر کے نہیں کی جا سکتی انہوں نے اپنی تحریروں میں بارہا اردو زبان اور اس کے اسالیب بیان پر اظہار خیال بھی کیا ہے اور اس ضمن میں اپنی ترجیحات کا ذکر بھی کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو ؂
’’اردو نے در حقیقت ہماری ملکی زبان میں جان ڈال دی ہے میر، درد و ظفر نے اردو اشعار میں جو کچھ سحر بیانی کی ہے میر امن نے کوئی کہانی شستہ بول چال میں کہہ دی ہو وہ اس سے زیادہ فصیح دلچسپ و بامحاورہ نہ ہوگی جو ایک پوپلی بڑھیا بچوں کو سلاتے وقت ان کو کہانی سناتی ہے مضمون نگاری دوسری چیز ہے جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی یہ اس زبان میں پیدا ہوئی اور ابھی نہایت بچپن کی حالت میں ہے اگر ہماری قوم اس پہ متوجہ رہے گی اور ایشائی خیالات کو نہ ملا دے گی جواب حد سے زیادہ اجیرن ہو گئے ہیں تو چند روز میں ہماری ملکی تحریریں بھی میکالے اور اڈیشن کی سی ہو جاویں گی۔ ‘‘
’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی مضمون کی ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان میں یاری دی۔ الفاظ کی درستی، بول چال کی صفائی پر کوشش کی، رنگین عبارت سے، جو تشبیہات اور استعارات خیال سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں میں ہی رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا پرہیز کیا تک بندی سے جو اس زمانہ میں مقفیٰ عبارت کہلاتی تھی۔ ہاتھ اٹھایا جہاں تک ہو سکا سادگی عبادت پر توجہ کی۔ اس میں کوشش کی جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کی ادا میں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘
متذکرہ بالا اقتباسات میں سر سید کے خیالات کا ماحصل سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ سر سید اپنے مضامین کے ذریعے ایک ایسے علمی اسلوب کو رواج دینا چاہتے تھے جو رنگینی عبارت شوکت الفاظ اور مقفیٰ نثر سے الگ ہو اور جس میں الفاظ کی درستی، بول چال کی صفائی و شستگی اور اپنے مدعا اور مافی الضمیر کے اظہار کی وضاحت اور بیان کی فصاحت پر خصوصی توجہ صرف کی جائے۔
سرسید سے پہلے اردو نثر غیر ترقی یافتہ شکل میں تھی۔ جب انھوں نے لکھنا شروع کیا اس وقت اردو نثر میں عام طور سے پرانا اسلوب رائج تھا۔ اگرچہ کسی حد تک میر امن، مرزا غالب ماسٹر رام چندر وغیرہ نے ایک نئے اسلوب کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ سرسید کا ذہن ایک عمل پسند انسان کا ذہن تھا۔ جیسے ادبی حسن سے زیادہ ٹھوس حقائق، زور بیان اور غیر مبہم طرز اظہار زیادہ عزیز تھا اس لیے ان کی نثر ایک الگ اسلوب رکھتی تھی۔ یہ اسلوب بڑھتے ہوئے سائنسی میدان اور عقل رجحان سے ہم آہنگ تھا جو کسی نہ کسی شکل میں آج کا بنیادی اسلوب ہے سرسید کی کوششوں سے ادب کے اندر ایک خاص انقلاب آیا۔ لوگ سماجی حقیقت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے ادب اور سماج کا رشتہ استوار ہوا۔
سر سید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو نثر میں ایک ایسے اسلوب کی بنیاد رکھی جو بے حد معقول اور منطقی تھا۔ سادگی بے تکلفی اور حقیقت پسندی اس کی نمایاں خصوصیات تھیں لوگ اس بات کو محسوس کرنے لگے تھے کہ اس دور میں جذباتی اور رومانی انداز تحریر اختیار کرنے کے بجائے عقل اور استدلالی انداز اختیار کرنا ضروری ہے اسی انداز سے یوروپ کے نظریات افکار اور خیالات کو سمجھا جا سکتا ہے سر سید اور ان کے رفقاء کا نثری کارنامہ زمانے کی فطری مانگ کا نتیجہ تھا۔
مذہب، سیاست، ادب، معاشرت زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو سر سید کی توجہ سے محروم رہا ہو لیکن وہ چیز جسے سر سید کی نظر التفات نے مٹی سے سونا بنا دیا وہ اردو نثر ہے سرسید احمد خاں نے اردو ادب میں مضمون نگاری اور انشاپردازی کی بنیاد رکھی۔ بقول شبلی اردو انشا پردازی کے مجدد و امام سر سید ہیں سرسید نے ادب کو تفریح طبع کا سامان بنانے کے بجائے ایک اعلیٰ مقصد کے آلہ کار کی حیثیت دی اور اسے ایک وزن اور وقار بخشا۔ انہوں نے اردو ادب کو ایسا ذہن دیا جو ذہنی وسعت، عقل کی گیرائی فکر کی پختگی اور جذبے کے خلوص سے مالامال تھا۔ سرسید نے جو زبان اختیار کی وہ سادہ شگفتہ اور بہت دل نشین تھی خود ان کے الفاظ میں ؂
’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم وادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پر چوں کے ذریعہ سے کوشش کی۔ مضمون کی ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔‘‘
سر سید عام طور سے صنائع بدائع سے احتراز کرتے ہیں محاکات کی مدد سے وہ اکثر اپنی تحریروں میں افسانوی رنگ اور درد کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اور قاری کی نگاہوں کے سامنے ایسی تصویر کھینچ دیتے ہیں جس میں وہ محو ہو جاتا ہے سر سید نے اردو مضمون نگاری کا سنگ بنیاد رکھا اور انگریزی اہل قلم اسٹیل اور ایڈیشن کی طرز پر مضامین لکھے۔ عام طور پر سرسید کی تحریروں میں علمیت سنجیدگی وزن اور وقار ملتا ہے ان کے سنجیدہ موضوعات میں کہیں کہیں شوخی اور طنز و ظرافت حسن اور دلاویزی پیدا کر دیتی ہے۔ یہ طنز اس وقت بھرپور نظر آتا ہے جب وہ اپنے مخالف کو مخاطب کرتے ہیں یا معاشرے پر طنز کرتے ہیں شوخی و طنز کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر تضحیک لہجہ ادبی شان کے خلاف ہے۔
روز مرہ محاورے بھی سر سید کی تحریروں میں جابجا ملتے ہیں کہیں کہیں تشبیہات و استعارات بھی اپنا جلوہ دکھاتے ہیں تمثیلی انداز نے کہیں کہیں رومانوی اور افسانوی انداز پیدا کر دیا ہے۔ آدم کی سرگزشت، دانا دنیا پرست نادان دیندار، امید کی خوشی وغیرہ سرسید کے تمثیلی شاہکار ہیں۔
بناؤ سنگار سے سر سید کی تحریریں خالی ہیں اس میں شک نہیں کہ بناؤ سنگار سے نثر میں دلکشی اور دلکشی کے سبب تاثیر پیدا ہوتی ہے مگر اس کے لیے فرصت درکار ہے اور سر سید کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ انہیں ہمیشہ اس بات کا احساس تھا کہ وقت کم ہے اور کہنے کے لیے بہت کچھ ہے اس لیے وہ قلم برداشتہ نثر لکھتے رہے۔
سرسید کو ہرموضوع پر قوت و قدرت کے ساتھ بیان کرنے کا خاص ملکہ حاصل تھا وہ حالات و واقعات کی ایسی تصویر کشی کرتے تھے کہ جو برائیاں دلوں میں کھب گئی ہوں ان کی برائی اور جو خوبیاں سوسائٹی کے اثر سے نظر چھپ گئی ہوں ان کی خوبی فوراً دلوں پر نقش ہو جائے۔
سر سید نے اردو شعر و ادب کو ایک نئی راہ دکھائی انھوں نے واضح کیا کہ شعر وادب نہ تو بیکاروں کا مشغلہ ہے نہ تفریح و دل لگی کا ذریعہ بلکہ یہ زندگی کے سنوارنے اور بہتر بنانے کا آلہ ہے اردو نثر کے عیب مثلاً مبالغہ آرائی، لفاظی، تصنع وغیرہ سے سرسید کو سخت نفرت تھی ان کی یہی خواہش تھی کہ اردو نثر میں وہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ کام کی بات سیدھے سادھے الفاظ میں ادا کی جا سکے تاکہ بات قاری کے دل میں پیوست ہو جائے وہ خود نثر نگار تھے۔ انھوں نے ایسا کر کے دکھایا۔ ان کی کوششوں سے ایسے ادیب ابھر کر سامنے آئے جو سر سید کی طرح وضاحت صراحت اور قطعیت کے ساتھ اظہار خیال پر قدرت رکھتے تھے

مضامینِ سر سید

رسم و رواج
خوشامد
آزادیِ رائے
غلامی
گزرا ہوا زمانہ
بحث و تکرار
امید کی خوشی
دین و دنیا کا رشتہ
آدم کی سرگزشت

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *