AIOU Course Code 4601-1 Solved Assignment Autumn 2022

تاریخِ اسلام۔ 4601

مشق نمبر۔1

 

 

سوال نمبر 1۔۔مطالعہ سیرت کی افادیت و اہمیت بیان کریں؟

جواب۔ مطالعہ سیرت کی اہمیت و ضرورت پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ سیرت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف، سیرت اور حدیث کے مابین فرق، سیرت اور تاریخ کے درمیان فرق نیز سیرت کے بنیادی اور اہم مآخذ پر روشنی ڈال دی جائے تاکہ مطالعہء سیرت کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کرنا اور سمجھنا دونوں آسان ہوجائے۔

سیرت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف

 

سیرت کے لغوی معنیٰ طریقہ کار یا چلنے کی رفتار اور انداز کے آتے ہیں۔ عربی زبان میں ”فِعلہ“ کے وزن پر جو مصدر آتا ہے اس کے معنیٰ کسی کام کا طریقہ یا کسی کام کو اختیار کرنے کے انداز اور اسلوب کے ہوتے ہیں مثلاً ذِبحہ کے معنیٰ ہیں طریقہء ذبح اور قِتلہ کے معنیٰ ہیں: طریقہء قتل لہٰذا سیرت کے لغوی اور لفظی معنیٰ ہوئے ”چلنے کا طریقہ“۔ بعد میں اس معنیٰ میں مزید توسع پیدا ہوا اور زندگی گزار نے کے اسلوب اور انداز کے معنیٰ میں اس کا استعمال ہونے لگا۔ پھر بہت جلد ہی سیرت کا یہ لفظ آنحضورﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہوگیا۔ چنانچہ آج دنیا کی تمام بولی جانے والی زبانوں میں سیرت کا لفظ عموماً آنحضورﷺ کی مبارک زندگی کے لیے استعمال ہوتاہے۔

03038507371

سوال نمبر2  غزوات نبوی کے نتائج اور واقعات بیان کریں

جواب۔

غزوات نبوی

دور نبوی کے غزوات جن کا تذکرہ مورخین اور سیرت نگار غزوات نبویﷺ کے عنوان سے کرتے ہیں ان کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں دین اسلام کے غلبہ کے بعد سے ہی ہو گیا تھا۔

غزوات کے معنی

غزوہ کی جمع غزوات ہے غزوہ کا معنی ہے قصد کرنا اور غزوات یا مغازی کا لفظ رسول اللہ ﷺ کا بنفس نفیس کفار کے مقابلے کے لیے لشکر لیکر نکلنے کے ہیں اور یہ قصد کرنا یا نکلنا شہروں کی طرف ہو یا میدانوں کی طرف عام ہے

غزوات کا مقصد

قرآن کریم میں جہاد کا حکم آنے پر اس کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم یہ غزوات دیگر عام جنگوں کی طرح نہیں تھے جن میں صرف قتل وغارت گری مقصود ہوتی ہے، بلکہ ان میں اسلامی احکامات کی انتہائی سختی سے پابندی کی جاتی تھی اور بے جا جانوں کے ضیاع، ضعیفوں، عورتوں، بچوں اور غزوہ میں غیر موجود افراد سے قطعی تعرض نہیں کیاجاتا تھا اور نہ ہی مویشیوں، درختوں اور کھیتیوں کو تباہ برباد کیا جاتا تھا۔ البتہ غزوہ بنی نضیر میں اس قبیلہ کے جو باغات ختم کردیے گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ باغات دشمن کی کمین گاہیں تھیں جہاں یہ سازشیں رچا کرتے تھے، اس لیے انہیں تباہ کرنا پڑا۔

.

.

.

.

سوال۔3۔ رحمت و شفقت جودوسخا اور ایفائے عہد نبی کریم صل وسلم کے اس نے رحمت میں ہےتفصیل سے بیان کریں؟

جواب۔

حضرت جریر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ رب العزت اس شخص پر رحم نہیں کرتے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔“(بخاری ومسلم)

 

رحم اتنی اعلیٰ صفت ہے کہ خالق کائنات کی دو صفات اسی لفظ سے بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک رحمان دوسرے رحیم۔ ہم جب بھی کوئی کام شروع کریں تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو جس کا ترجمہ یہ ہے کہ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان‘ نہایت رحم کرنے والا ہے معلوم ہوا کہ رحم کرنا خدائی صفت ہے۔ خدا تو انتہائی رحم و کرم کرنے والا ہے، لیکن اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی عہدہ عطا فرمایا۔

تمام جہانوں اور تمام مخلوق کے لئے آپ کیسے رحمت اور مہربانی والے بنے؟ جب ہم آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی رحمت سے نباتات اور جمادات یعنی پودوں اور بے جان پتھروں نے بھی فیض حاصل کیا، چنانچہ جب بارش نہ ہوتی‘ زمین بیابان ہو جاتی آپ دعا فرماتے بارانِ رحمت کا نزول ہوتا‘ اس سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی۔

 

حتیٰ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں پر بھی انتہائی رحم فرماتے۔ اسی وجہ سے آپ نے جانوروں کو باہم لڑا کر تماشا دیکھنے سے منع فرمایا۔ زمانہ جاہلیت میں شکاری جانوروں کو باندھ کر انہیں نشانہ بناتے اور تیر اندازی کی مشق کرتے آپ نے اس سنگدلی سے منع فرمایا۔ ایک دفعہ ایک صحابی حاضر ہوئے ان کے ہاتھ میں چادر کے اندر لپٹے ہوئے کسی پرندے کے بچے تھے آپ نے فرمایا جاؤ ان بچوں کو ان کے گھونسلوں میں رکھ آؤ۔

03038507371

سوال نمبر 4۔فتح مکہ پر تفصیل سے نوٹ لکھیں

جواب۔

ہجرت کے آٹھویں سال رَمَضانُ المبارَک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا کہ جس کی مثال نہیں نہیں ملتی ، اس فتح کا پس منظر و سبب کیا تھا اور نتائج کیا رونما ہوئے اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکۂ مکرمہ کے وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین ، شریف ، محترم ، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل جانتے تھے یَک لخت آپ کے مخالف ہوگئے ، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی سرداریاں کھوجانے کا ڈر ہوا ، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسولِ خدا کی پُکار پرلَبَّیککہہ دیں تو 14صدیاں بعد تو کیا قیامت تک صحابیِ رسولِ آخرُالزّماں کے عظیم لقب سے جانے جائیں گے ، ہر کلمہ گو انہیں  رضی اللہُ عنہم  کہہ کر یاد کرے گا ، قراٰن (وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-  کا مُژدہ سنائے گا ، بہر کیف یہ ان کے نصیب میں ہی نہ تھا ، (جن کے مقدر میں تھا انہوں نے لَبَّیک بھی کہا) اور پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اٹھائیں ، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا ، جب کفارِ مکہ کا ظلم و ستم ساری حدیں پار کر گیا اور اللہ کریم نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت کرگئے تاکہ آزادی کے ساتھ اپنے ربِّ کریم کی عبادت کریں۔ لیکن افسوس کہ کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ آئے اور مسلمانوں کو مدینۂ منورہ میں بھی اذیت دینے کے درپے رہے ، ان کی انہی کارستانیوں کے سبب غزوۂ بدر ، اُحُد ، خندق اور کئی سرایا کا وقوع ہوا ، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا ، مسلمان مکۂ مکرمہ میں بیتُ اللہ شریف کی زیارت کے لئے بے قرار تھے ، چنانچہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  1400 صحابۂ کرام کی ہمراہی میں ادائیگی ِعمرہ کے لئے مکۂ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے ، کفارِ مکہ نے پھر جفا کاری سے کام لیا اور پُراَمْن مسلمانوں کو مکۂ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا ، بالآخر طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا۔ ظاہری طور پر اس معاہدہ کی اکثر شرائط مسلمانوں کے حق میں بہت سخت تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں میں حکمت ہے اور رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اسی کے بھیجے ہوئے حکیمِ کائنات ہیں ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سب شرائط منظور فرمالیں ، ان شرائط میں یہ بھی تھا کہ فریقین دس سال تک جنگ موقوف رکھیں گے ، اس کے ساتھ ساتھ معاہدے میں ایک بات یہ طے پائی کہ عرب کے دیگر قبائل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ دونوں فریقوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں باہمی امداد کا معاہدہ کر لیں

.

.

..

سوال نمبر پانچ درج ذیل پر تفصیلی نوٹ لکھیں

ا۔اہم کتب مغازی و سیر

ب۔مدنی عہد نبوت کے اہم واقعات

جواب۔

اہم کتب مغازی و سیر:-

اردو زبان میں سیر و مغازی کی تدوین و تالیف اور اس فن کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب عرف قاضی اطہر مبارک پوری ؒ نے “تدوین سیر و مغازی” کے عنوان سے کتاب تحریر فرمائی۔اس کتاب میں مصنف رحمہ اللہ نے فن سیر و مغازی کے ابتدائی اور ارتقائی نقوش کو مسلسل محنت ، تحقیق اور جاں فشانی سے فراہم کرنے کی کوشش کی  ہے۔ اردو زبان میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتاب ہے جو پہلی صدی ہجری کے نصف آخر سے تیسری صدی ہجری تک فن سیر و مغازی کے آ غاز و ارتقا پر روشنی ڈالتی ہے۔اس ضمن میں اس دور کے علمائے سیر و مغازی اور ان کی تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ علم حدیث کی اس خاص نوع کے بارے میں ان کی تصنیفی، تعلیمی اور روایاتی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس کتاب کا سب سے پہلا ایڈیشن شیخ الہند اکیڈمی، دیوبند، انڈیا سے سن ۱۴۰۰ھ (بہ مطابق ۱۹۸۰ء)میں شائع ہوا۔پاکستان میں اسے دار النوادر، لاہور سے سن ۲۰۰۵ میں شائع کیا گیا۔ پاکستانی اشاعت میں کتاب کی ابتدا میں فن سیر و مغازی کے حوالے سے پروفیسر عبد الجبار شاکر ؒ کا پر مغز مقدمہ شامل ہے۔ مصنف نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔

۱۔ سیر و مغازی تدوین سے پہلے۔اس باب میں مصنف نے ابتدا میں سیر و مغازی کے لغوی و اصطلاحی معانی بیان کرنے کے بعد اس سے متعلقہ ابحاث اور مغازی کے چند خاص راویوں اور ان کے معیار کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔پھر آ ں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ۲۷ غزوات اور ۵۷ سرایا کی تفصیلات کو جدولی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس باب میں مصنف نے اصحاب المغازی اور اصحاب الحدیث کا فرق بیان کیا ہے اور ان کے روایتی معیار کو متعین کیا ہے۔ مغازی کے کصوصی راویوں کا بسط و تفصیل سے ذکر کرتے ہو ئے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عرب، دورِ جاہلیت سے ہی اپنے ایام و وقائع کا تذکرہ بطور مفاخرت کیا کرتے تھے ۔ اسلام کے بعد غزوات و سرایا کے ذکر اذکار نے اس آ بائی مجد و شرف کا مقام بجا طور پر حاصل کر لیا تو ان غزوات و سرایا کا تذکرہ گھر گھر میں ہو نے لگا، خصوصی مجلسوں اور دروس کی عمومی مجالس میں ، پھر مساجد اس کا چرچا کر کے خیر و برکات کو حاصل کیاجانے لگا۔ان مجالس میں سے “مجلس القلادہ” کا حال نہایت مؤثر پیرائے میں بیان کیا03038507371 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *