Level |
Matric |
Course |
Urdu for daily use |
Semester |
Autumn 2022 |
Course Code |
204 |
AiouLearning.com |
Assignment no. 1
سوال نمبر:ا الف) مندرجہ ذیل سوالوں کے مختصر جواب دیجیے۔
1۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
جواب: سرسید احمد خان کا خیال تھا کہ مسلمان جدید تعلیم ایمنی انگریزی تعلیم حاصل کیے بغیر موجودہ حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر زیادہ زور دیا۔ مسلمانوں کی جدید تعلیم کیلئے ان کی ایک نہایت اہم کوشش بھی علی گڑھ میں ایک کا لج کا قیام سے جو آگے چل کر مسلم یو نیورسٹی علیگڑھ بن گیا۔ پاکستان کے بنانے میں اس یو نیورسٹی کے طابا ، کی خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
2۔ حضرت مجددالف ثانی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
جواب: حضرت مجددالف ثانی ستر تو میں صدی کے بزرگ اور مجدد تھے ۔ آپکا اصل نام شیخ احمد سر ہندی تھا۔ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے زمانے میں و بین النبی جیسا دین ایجاد کیا گیا اور اشاعت اسلام کو روکنے کیلئے بھگتی تحریک بھی چلی اس طرح کی کوششوں اور تحریکوں سے خطرہ تھا کہ مسلمان اپنی بدا گانہ حیثیت نہ کھو بیٹھیں ۔اس لئے ستر ہو میں صدی میں حضرت مجددالف ثانی نے ان تحریکوں کے خلاف جہاد کیا ۔ وہ مسلمانوں کو ایک الگ قوم دیکھنا چاہتے تھے اسلام اور ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا بڑا اہم مقام ہے ۔ جب تک مسلمان سیاسی اور روحانی طور پر مضبوط رہے ہندوانہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ لیکن اٹھارھو میں صدی تک پہنچتے پہنچتے مسلمانوں میں دونوں قسم کی کمزوریاں آئیں ۔مسلمان حکمرانوں نے غیر مسلم آبادی سے اچھا سلوک کیا ۔ انہوں نے غیر مسلموں پر اعتماد کیا۔ اور اپنی حکومتوں میں انہیں اچھے تھے منصب دیئے لیکن ان تمام بوتوں کے باوجود مسلمانوں اور مہندؤں میں ایک کشمکش رہی ۔ اس کشمکش کو دور کر نے کے لیے فل بادشاہ اکبر نے دین السی میسا نظام بھی ایجاد کیا اور اشاعت اسلام کو روکنے کے لیے بھگتی تحریک میں تحریک بھی چلی اس طرح کی کوششوں اور تحریکوں سے خطرہ تھا کہ مسلمان اپنی جدا گانہ حثیت نہ کھو نھیں اس لیے ستر تو میں صدی میں حضرت مجدد الف ثانی نے ان تحریکوں کے خلاف جہاد کیا وہ مسلمانوں کو ایک الگ قوم دیکھنا چاہتے تھے۔
2۔ 1930ء میںکس نے اور کیوں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی ؟
جواب: جب ہندوستان کے مختلف علاقوں کی تقسیم کی تجویز سامنے آنے لگی اس تجویز کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثیر بیت ہے وہ مسلمانوں کے حوالے کر دے جائیں تا کہ مسلمان امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں ۔ باقی صوبوں میں ہندوؤں کی حکومت ہو ۔ تقسیم کیتجویز پیش کرنے والوں میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ۔لیکن اس تجویز کواہمیت اس وقت حاصل ہوئی جب علامہ اقبال نے 1930ء میں مسلم لیگ کا سا ا ند اجلاس کی صدارت کرتے ہوۓ الہ آباد میں اس تجویز کو نہایت مدلل طور پر پیش کیا۔ 1930 ء میں قائداعظم نے مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی ۔ علامہ اقبال نے قائداعظم سے خط کتابت کر کے انہیں اس بات کا قائل کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مسائل کا تقسیم بند سے بہتر حل کوئیاور نہیں ہے۔
۴۔ چوہدری رحمت علی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
جواب: تقسیم ہند کی تجویز پیش کرنے والوں میں چوہدری رحمت علی نے اس ملک کا نام پاکستان تجویز کر دیا تھا جو مسلم اکثریت والے صوبوں کو ملا کر بنایا جا سکتا تھا۔
5۔ حفظان صحت کے اہم اصول کیا ہیں؟
جواب: حفظان صحت:
صحت مند رہنے کے لیے انسان کو بیاریوں سے بچنا چاہیے اور تندرستی کو قائم رکھنا چاہیے تندرست رہنا انسان کا فرض ہے یہ ذمہ داری اس پر اللہ تعالی کی طرف سے عائد ہوتی ہے کیونکہ قدرت چانق ہے کہ انسان تندرست رہیں اور قدرت کے بناۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر میں اگر ہم صحت کے اصولوں سے روگردانی کرتے ہیں تو اس کی پاداش میں ہمیں بیماری کی مصیبت اٹھانی پڑتی ہے ۔ صحت قائم رکھنے کے لیے جو اصول متعین کیے گئے میں ان کی پابندی صحت کی ضامن ہے مگر ہم حفظان صحت کے اصولوں سے نا واقف ہیں ۔
حفظان صحت کے اصول:
صحت کے دو بنیادی اصول میں ایک تو یہ کہ آپ مضبوط اور چست و چالاک بنا چاہیے دوسرے متعدی بیماریوں سے پیچنا چاہیے ۔مضبوط اورچست و چاک بننے کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ متوازن غذا مقررہ وقت پر کھائیں۔
2۔ اپنازیادہ وقت کھلی ہوا اور روشنی میں گذار میں۔
3۔ اپنے لباس کو صاف ستھرارکھیں ۔
4۔ اپنے جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔
5۔ جسم سے گندے مادے پینے کے ذرایہ برابر نکلتے رہنا چاہئے جنکے لیے روزانہ مناسب ورزش ضروری ہے ۔
6۔ کام کے ساتھ مناسب آرام اور نیند کا بھی خیال رکھیں ۔
7۔ تمباکونوشی اور ہرقسم کی نشہ آور چیزوں سے قطعی پر ہیز کر یں۔
اگر ہم ان تمام باتوں پر مل کر میں تو ہم خوش و خرم رہیں گے اور ہر ایک سے خوش مزاجی سے پیش آئیں گے ۔
1۔ جراثیم سے بچنے کیلئے ہمیں ماحول کی صفائی ، اور ہوا، پانی ، غذا ، مکان اور گلی کوچوں کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔
2۔ ایسے مرایش جو متعدی امراض کا شکار ہوں انہیں علیحدہ رکھنا چاہیے ۔
3۔ جراثیم کش دواؤں کا استعمال کرنا چاہیے۔
4۔ متعدی امراض سے بچنے کے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے چاہیے۔
5۔ اس کے علاوہ جسمانی صفائی ،دانتوں کی صفائی ،بالوں کی صفائی اور انکھوں کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
6۔ سال میں تقریبا دومرتبہ کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ بھی با قاعدگی سے کروانا چاہیے ۔
7۔ ٹینشن، ڈپریشن اور دوسری نفسیاتی بیماریوں سے بھی خودکو دور رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
اگر ان تمام باتوں پر تیل کیا جائے تو انسان صحت مندر ہوسکتا ہے۔
(ب) جمع کے واحد لکھیں۔
جمع |
الفاظ |
جمع |
الفاظ |
اخلاق |
خلق |
دل خراش |
|
ولی اللہ |
|
الفاظ |
لفظ |
خصائل |
خصلت |
توحید |
|
تجاویز |
تجویز |
صحابیات |
صحابیہ |
جہادیں |
جہاد |
امہات |
ام |
سوال نمبر :۲کسٹم آفیسر اورایک شہری کے درمیان مقتنے والی گفتگوکو مکالمے کی صورت میں بیان کر میں۔
مکالمہ
کسٹم آفیسر:
السلام علیکم سر۔
شہری: کٹم آفیسر: آپ کیسے ہیں؟
علیکم السلام۔
شہری:
میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسے ہیں؟
کسٹم آفیسر:
میں بھی ٹھیک ہوں ۔ سر آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ اندر جانے سے پہلے اپنا سامان چیک کروائیں۔
شہری
کیوں ۔ میں آپ کو اپنا سامان کیوں چیک کرواؤں ۔
کسٹم آفیسر:
سریہ میری ڈیوٹی ہے اور میں ائیر پورٹ پر آنے والے ہر مسافر کا سامان چیک کرتا ہوں ۔
شہری
لیکن آپ سب مسافروں کا سامان چیک کیوں کرتے ہیں؟
کسٹم آفیسر:
میں سامان اس لیے چیک کرتا ہوں تا کہ کوئی مسافر جہاز میں کوئی غیر قانونی چیز جیسے منشیات ،ہتھیاروغیرہ نہ لے کے جاسکے ۔اس سے ہمارے ملک کا نام خراب ہوتا ہے۔
شہری: کیا میں آپ کو اس طرح کاشخص لاتا ہوں ۔ میں بہت عزت دار گھرانے سے ہوں ۔
کسٹم آفیسر: نہیں سر۔ایسی بات بالکل نہیں ہے ۔
شہری: پھر کیا بات ہے؟
کسٹم آفیسر :سر آپ کی بہت مہربانی ہوگی ۔ برائے کرم آپ میرے ساتھ تعاون کیجیے۔ یہاں پر آنے والے ہر شخص کا سامان چیک کروانا لازمی ہے۔ یہ سب آپ کی اور ہماری حفاظت کے لیے ہے
شہری: اچھا ٹھیک ہے۔ آپ سامان چیک کر سکتے ہیں۔
کسٹم آفیسر: آپ کا بہت شکریہ۔ میں آپ کا سامان چیک کرتا ہوں ۔
شہری: کیا اب میں جا سکتا ہوں؟
کسٹم آفیسر جی ہاں ۔اب جاسکتے ہیں ۔ اللہ حافظ
شہری: اللہ حافظ
سوال نمبر : ۳ سبق یوم آزادی کے مطابق مسلمانوں کی تاریخ بیان کریں۔
جواب: مسلمانوں کی تاریخ بحوالہ سبق یوم آزادی:
جب تک مسلمان سیاسی اور روحانی طور پر مضبوط رہے ہندو انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے ۔ لیکن اٹھار تو میں صدی تک پہنچتے پہنچتے مسلمانوں میں دونوں قسم کی کمزوریاں آ گئیں ۔ان کی گرتی ہوئی حالت سنھبالنے کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ نے بڑی کوششیں کیں ۔انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی اور اخلاقی زوال کو روکنے کے لیے کئی کام کئے ۔ بعد میں ان کے بیٹوں اور پیروؤں نے با قاعدہ جہاد میں حصہ لیا۔ لیکن مسلمان آپس کی نا اتفاقی اور غداری کی وجہ سے اپنے دشمنوں سے جنگ میں شکست کھاتے چلے گئے ۔ آخر کار حکمراں سے غلام ہو کر رہ گئے ۔ اٹھارہویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مسلمانوں میں سیاسی اور روحانی طور ہر کمزوریاں آگئیں ۔ تو سکھوں ، مرہٹوں اور راجپوتوں نے اس سے بہت فائد ہ اٹھایا اور مسلمانوں پر بے پنا ظلم ڈھائے اور بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر بھی ہندؤوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر ظلم کر نے لگے اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے لگے ۔۔ اس سے پیش تر کفار اسلام کو مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے ۔ ہندو اور انگریز مسلمانوں کو نیست و نابود کر نا چاہتے تھے اور ان کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے تھے ۔ مسلمان دونوں کی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنتے رہے ۔ دونوں نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے پوری کوشش کی ۔
آہستہ آہستہ انگریزوں کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے ہندوستان کے بہت سے صوبوں پر بھی قبضہ کر لیا اور اس طرح مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بادر شاہ ظفر کی حکومت صرف دلی تک رہ گئی اور ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد مغلیہ سلطنت کے ہاتھوں سے یہ حکومت بھی نکل گئی اور انگریز پورے ہندوستان پر حکومت کرنے لگے۔
سر سیداحمد خان رہنما تو مسلمانوں کے تھے لیکن وہ بندوؤں اور مسلمانوں کی تاریخی شکش کے باوجود چاہتے تھے کہ دونوں قو میں مل کر ر ہیں اور ترقی کر میں ۔ان کی میں روز و پوری نہ ہوسکی ۔ اردوزبان اورادب ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ جب سرسید احمد خان نے اردوزبان کی طرف ہندوؤں کے انسانہ رویے کو دیکھا تو انہیںیقین آ گیا کہ یہ دونوں قومیں بدل کر روکتی ہیں نہ ترقی کرسکتی ہیں ۔ان حالات کے پیش نظر ہندوستان کے مختلف علاقوں کی تقسیم کی تجویز سامنے آنے لگی اس تجویز کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ مسلمانوں کے حوالے کر دئے جائیں تا کہ مسلمان امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ۔ باقی صوبوں میں ہندوؤں کی حکومت ہو۔ تقسیم کی تجویز پیش کرنے والوں میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ۔لیکن اس تجویز کواہمیت اس وقت حاصل ہوئی جب علامہ اقبال نے 1930 ء میں مسلم لیگ کا سالا ندا اجلاس کی صدارت کرتے ہوۓ الہ آباد میں اس تجویز کونہایت مدلل طور پر پیش کیا۔ 1930 ء میں قائداعظم نے مسلم لیگ کی صدارت سنبالی ۔ علامہ اقبال نے قائداعظم سے خط و کتابت کر کے انہیں اس بات کا قائل کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مسائل کا تقسیم ہند سے بہترحل کوئی اور نہیں ہے۔
تقسیم ہند کی تجویز پیش کرنے والوں میں چو ہدری رحمت علی نے اس ملک کا نام پاکستان تجویز کر دیا تھا جو مسلم اکثریت والے صوبوں کو ملا کر بنایا جا سکتا تھا۔ 1940ء میں مسلم لیگ کے سا! نہ اجلاس ( 11 نور ) میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی نینی مسلم لیگ نے لے کر لیا کہ اب پاکستان حاصل کر کے رہنا ہے۔ ہند اور انگریز دونوں اس فیصلے کے مخالف تھے ۔ دونوں نے اپنی پوری قوت اس فیصلے کیخلاف لگا دی ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی فرقہ ورانہ کشیدگی اور بر دیگی ۔ فسادات میں اضافہ ہوگیا۔ قائداعظم پہاڑ کی طرح اس مقصد کے حصول پر ڈٹے رہے ۔ان کی غیر معمولی ذہانت اور تدبر کی بدولت سات سال کی مختصر مدت میں قرار داد پاکستان سے پاکستان تک کا سفر طے ہو گیا ۔ 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک، پاکستان انجبرآ یا۔ قائد اعظم کو پاکستان کے لیے ہندوؤں اور انگریزوں سے انتہائی سخت و توری جنگ لڑنا پڑی ۔اس کے باوجود انگریزوں کی حکومت نے پاکستان اس شکل میں نہ دیا جس میں اس کا مطالبہ کیا گیا تھا اور انصاف کے مطابق اسے جس شکل میں ملنا چاہیے تھا۔ ہندوؤں نے بے ایمانی سے دیئے ہوئے پاکستان کو بھی ختم کر دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوتے ہی پورے ہندوستان میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی ۔ان فسادات میں انکھوں مسلمان انتہائی بے دردی سے مارے گئے ۔ بے شار عورتیں، بیوہ اور لڑکیاں اغواء ہوئیں ۔ لاکھوں بچے یتیم ہو گئے ۔ املاک لٹ گئیں ،مسلم اکثیریت کے کئی علاقے پاکستان کو نہیں ملے ۔ سرکاری اثاثوں کی تقسیم میں بھی بے ایمانی اور عود خلافی سے کام لیا گیا ۔ غرضیکہ ہمیں اپنی آزادی اور اپنا وطن بہت بڑی قیمت چکانے کے بعد ملا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یومآزادی اتنی دھوم دھام سے منایا جا تا ہے جو چیز مشکل سے ملتی ہے اس کی خوشی بھی زیادہ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے ۔
سوال نمبر4 : ناخنوں اور آنکھوں کی حفاظت کیسے ممکن ہے؟ سبق کے حوالے سے تفصیل سے اظہار خیال کریں۔
جواب: ناخنوں کی حفاظت:
ناخن بھی ہماری جلد کا ہی ایک حصہ ہیں ۔ ناخنوں کو صاف رکھنا اس لحاظ سے اور بھی ضروری ہے کہ کھانا کھاتے وقت ہاتھوں کے ناخن غذا میں پہنچتے ہیں اور منہ میں بھی جاتے ہیں۔ اگر ناخن غلیظ حالت میں ہوں گے تو ان میں بہت سی بیماریوں کے جراثیم جمع ہو جائیں گے اور وہ خوراک کے ساتھ ہمارے جسم میں پہنچ کر بہت سے بیماریوں کا سبب بنیں گے ۔ اسلیے ناخنوں کے مرے ہمیشہ تراشے رہنا چاہیے۔ بڑھتے ہوئے ناخنوں میں جراثیم پرورش پاتے ہیں۔ ناخن منت کے مطابق دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کر میں اور اسی ہاتھ کے انگوٹھے پر کاٹنا ختم کر میں ۔خصوصاً جمعہ کے روز ناخن تر شوائیں۔
آنکھوں کی حفاظت:
آنکھ زندگی کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جسم کا ایک نہایت نازک حصہ ہے ۔ اس لیے آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہرممکن احتیاط لازم ہے ۔ آنکھوں کو روزانہ ٹھنڈے اور تازہ پانی سے دھونا چاہیے ۔ اور سرمہ ڈا جائے ۔ کیونکا۔ سی نظر کے لئے مفیدہے ۔مناسب فاصلے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھا جائے ۔ زیادہ نزدیک بیٹھنے سے نظر خراب ہوتی ہے ۔اند تیرےیا کم روشنی میں بیٹھ کر مطالعہ نہ کیا جائے ۔ کمرے کے اندر زیادہ تیز لائیٹ نہیں ہونی چاہیے ۔اگر آنکھیں خراب ہو جائیں تو ڈاکٹرکو دکھانی چاہئیں
۔ آنکھوں کے لیے نقصان دہ چیزیں: مندرجہ ذیل چیزوں سے آنکھوں کو بے حد نقصان پہنچتا ہے ۔
1) خراب روشنی میں لکھنا پڑھنا
2) بہت بار یک حروف میں چھپی ہوئی کتابیں پڑھنا
3۔کتاب کے کاغذ کا بہت چمکدار ہوتا
4) چلتی گاڑی میں اخبار یا رسالے پڑھنا
5۔کتاب کو بہت قریبیا بہت دور رکھ کر پڑھنا
6۔بہت تیز روشنی ، زیادہ ٹیلی ویژنیا سینما ، کھنا
7۔سرد ہوا کے جھونکے اور گرد و غبار
8۔زیادہ تیز دھوپ میں چلنا پھرنا
9۔جسمانی کمزوری ، ناقص غذا اور خراب ہوا
10۔لیٹ کر پڑھنا
احتیاطیں:
جن چیزوں سے آنکھوں کو نقصان پہنچتا ہے ان سے بچنے کیلئے اور احتیاط کرنے کے لیے آپ ہمیشہ یادر کیجیے کہ :
1۔مناسب روشنی میں پڑھیں ۔
2۔روشنی آنکھوں کی بجائے کتاب پر پڑنی چاہیئے اور بائیں طرف سے آنی چاہئے تا کہ کتاب پر ہاتھ کا سا سینہ پڑے۔
3) لکھتے یا پڑھتے وقت زیادہ مت جھکیں ، کتاب کو آنکھوں سے تقریبا دس انچ کے فاصلے پر رکھیں ۔ آنکھیں خشک کرنے کے لیے کسی دوسرے تو لیے
کا استعمال نہ کر میں۔
4۔روشنی کی طرف زیادہ نہ دیکھیں ۔ تیز روشنی کی چمک آنکھوں کے لیے منتر ہے۔
اگر احتیاط کی جاۓ تو اینا آنکھیں صاف چمکدار اور خوبصورت رہیں گی اور نظر خراب نہیں ہوگی ۔
سوال نمبر:۵سیاق وسباق کے ساتھ درج ذیل پیراگراف کی تشریح کریں۔
ہندوستان کی سب سے بڑی جماعت ۔۔۔۔۔۔۔۔.۔ایک ہندو اور دوسرے مسلمان ۔
حوال متن:
سبق کا نام:
یوم آزادی
سیاق وسباق:
انیسویں صدی میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی قیادت سنبھالی۔ پہلے تو انہوں نے انگریزوں کے دلوں میں سے مسلمانوں کے متعلق جو بد گمانیاں تھیں ، دور کر نے کی کوشش کی اور انہیں نے حالات کے مطابق چلنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو جدید انگریزی تعلیم کے حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جدیدتعلیم حاصل کیے بغیر مسلمان موجودہ حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ ہندووں اور مسلمانوں کی تاریخی کشمکش کے باوجود سرسیداحمد خاں یہ چاہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ر ہیں لیکن ان کییہ آرزو پوری نہ ہوسکی ۔
تشریح:
۔ ہندوستان کی سب سے بڑی جماعت آل انڈیا کانگرس 1885 ء میں قائم ہوئی ۔اس جماعت میں مسلمان بھی شامل رہے ۔ لیکن اکثریت ہندووں کی تھی ۔ یہ جماعت بھی سرسید کی طرح ہندو اور مسلمانوں کے اٹھارہنے پر زوردیتی تھی۔ 1906ء میں مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت
آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی ۔ جو کہ دو قومی نظریے پر یقین رکھتی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں دوقومیں آباد ہیں ایک مسلمان اور دوسری ہندو، دونوں کے مذہب الگ الگ ہیں ، اور قومیت کی بنیاد وطن پر نہیں بلکہ مذہب پر ہے ۔ اس جماعت نے مسلمانوں کے الگ قوم ہونے پر زور دیا ۔ میں بات شروع سے طے تھی کہ انگریز ہندوستان پر ہمیشہ حکومت نہیں کر سکتے ۔ ایک نہ ایک دن انہیں ہندوستان کو آزاد کر دیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمےکے بعد انگریزوں کی سیاسی طاقت کمزور ہوگئی ۔ چنانچہ انگریزوں کے جانے کے بعد انہیں خدشہ تھا کہ کہیں وہ ہندووں کے محکوم نہ ہو کر رہ جائیں ۔