AIOU Course Code 202-1 Solveed Assignment Autumn 2022

Level

Matric

Course

Pakistan Studies

Semester

Autumn 2022

Course Code

202

AIOU LEARNING

AIOULEARNING.COM

 

Assignment no. 1

download Button Is given at the end of post 

 

سوال نمبر 1: خالی جگہ پر کریں۔

احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو پانی پت کے مقام پر شکست دی۔

اسلام کی آمد سے قبل سنسکرت ہندوؤں کی علمی زبان تھی

3۔مجددالف ثانی کو برہ غیر کے مسلمانوں کے لیے روحانی محافظ کا خطاب علامہ اقبالنے دیا۔

4۔ برصغیر میں دیش ذات کے لوگ زیادہ تر تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے

5۔۔ مصطفی کمال پاشا نے ترکی میں انقلاب اگر خلافت کا خاتمہ کیا ۔

6۔تیتو  میر نے بنگال کے علاقے میں مسلمانوں کی اصلاح کیلئے کوشش کی

7۔قطب الدین ایک نے دہلی شہر کواپنا دارالحکومت بنایا۔

8۔میثاق لکھنو کی رو سے ہندوؤں نے مسلمانوں کے جدا گاند انتخاب کے اصول و تسلیم کرلیا۔

9۔شاہ ولی اللہ نے قرآن پاک کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔

10۔ شدی سنسکرت زبان کا لفظ ہے

سوال نمبر 2: مختصر جواب تحریر کریں۔

1۔ نادرشاہ نے پانی پت کے میدان میں کس کے خلاف جنگ لڑی؟

جواب: مرہٹوں کے خلاف

2۔ قائداعظم نے اپنے چودہ نکات میں کس طرح انتخاب کا طریقہ رائج کرنے کا مطالبہ کیا؟

جواب: جدا گانہ ۔

۳۔ حجۃ البالغہ کس کی تصنیف ہے؟

جواب: شاہ ولی اللہ

4۔ مولا نا محمدعلی جو ہر نے کس تحریک کی قیادت کی؟

جواب: خلافت تحریک کی ۔

5۔ بہادرشاہ ظفر کو کہاں قید کیا گیا تھا۔

جواب: رنگون میں۔

6۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے کس کا ساتھ دیا تھا۔

جواب ۔ جری کا ۔

 

 

7۔ علامہ اقبال نے کس سن میں برصغیر کی تقسیم کا تصور پیش کیا تھا؟

جواب ۔ 1930ء ۔

8۔ تحریک جہادکس کے خلاف لڑی گئی۔

جواب: انگریزوں کے ۔

9۔ ہجرت تحریک کے دوران مسلمانوں نے کس مقام کی طرف ہجرت کی ؟

جواب: افغانستان ۔

10-1857کی جنگ آزادی کا فوری سبب کیا تھا؟

جواب: انگریزی فوج میں جو کارتوس استعمال ہوتے تھے ان کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے ان پر تیر بی لگادی جاتی تھی ۔ استعمال کے وقت وہ چربی بنانی پڑتی تھی جسے عام طور پر سپاہی اپنے دانتوں سے بناتے تھے۔

سوال نمبر :3 مندرجہ ذیل پرنوٹ تحریر کر میں۔

ہجرت تحریک اور اس کے اثرات:

تحریک ہجرت کے دوران مسلمان بہت مشکلات کا شکار ہوۓ ۔ تقر یا اٹھارہ ہزارافراد ملازمتیں چھوڑ کر اور جائیداد میں بیچ کر افغانستان کی طرف چل پڑے ۔افغانستان کی حکومت نے ابتداء میں پڑھے مہاجرین کا خیر مقدم کیا لیکن بعد میں داخلے پر پابندی لگا دی ۔ اس طرح کئی لوگوں کو واپس آنا پڑا۔ راستے کی تکلیف میمی شدت اور روپے پیسے کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ راستے میں پیاریوں میں مبتلا ہو کر مر گئے ۔

برصغیر میں اسلام کی آمد کے اثرات:۔

 

جواب: برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد ما باراورسراندیپ سے شروع ہوئی ۔ پھر بلو چستان ، مند یہ ملتان اور پنجاب کے باقی علاقوں پر ان کا قبضہ ہوا۔ رفتہ رفتہ اسلامی سلطنت کم و بیش پورے برصغیر میں قائم ہوگی ۔ اسلامی سلطنت کے قیام کے ساتھ ہی علم وفضل اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو گیا۔ انہوں نے برصغیر میں فن تعمیر کا ایک نیا اور جدا گانہ انداز رائج کیا اور فن کی سر پرستی کر کے اسے پورے برصغیر میں پھیلا دیا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں نے دیگر فنون لطیفہ کے فروغ پر بھی خصوصی توجہ دی اور ان کی ترقی اور ترویج کا انتظام کیا۔

وسط ایشیاء سے آنے والے شمار علما ء اور صوفیا نے برصغیر میں اشاعت اسلام میں بہت اہم کردار ادا کیا انقلاب کی بنیا د رکھی انہوں نے برصغیر کے اکھوں انسانوں کی اصلاح کر کے اس خطے میں ایک نئے معاشرے کو جنم دیا اور اسلام کی ترقی اور استحکام کا سامان پیدا کیا ۔ ان صوفیاء اور علما ، نے عوام سے قریبی تعلق قائم کر کے ان کی ہدایت اور تربیت کا فریضہ سرانجام دیا۔ یا پنی بزرگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ یہاں کی سرزمین کی آبادی کا بڑا حصہ مسلمانوںپرمشتمل ہے انہوں نے یہاں کی معاشرتی اور معاشی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے ۔

مسلمان حکمران نے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر عا دا ن اور منہ خانہ نظام حکومت قائم کر کے پرانے طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا اور ذات پات کی تفریق کا

سلسلہ ختم کر کے انسانی مساوات اور احترام آدمیت کوفروغ دیا۔

برصغیر میں اسلامی حکومت کے قیام سے جواثرات ونتائج برآمد ہوۓ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔

1۔ برصغیر کا بیرونی دنیا سے تعلق قائم : وا اور با ہمی تجارت کا سلسلہ شروع ہوا۔

2۔تمام علاقوں میں یکساں قسم کا نظم ونسق قائم ہوا جس سے پورے برتہ غیر میں انتظامی ہم آہنگی پیدا ہوگئی ۔

3۔فن تعمیر کا ایک نیا انداز قائم ہوا۔

 

4۔ فنون لطیفہ کی ترقی اور فروغ پر خصوصی تووجہ دی گئی ۔

5۔صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے اس شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی۔

6۔امن وامان کی قیام سے معاشی اور معاشرتی بہتری اور ارتھ ، کے لئے سازگار ماحول پیدا ہو گیا۔

7۔زرعی شعبے میں ترقی ہوئی ۔

8۔ مواصلات اور ذرائع آمدورفت میں بہتری ہوئی۔

9۔عربی ، فارسی اور مختلف زبانوں کے اشتراک سے “اردو” نے جنم لیا۔

10۔ ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا غیر ملکی تہذیبوں کے ملاپ سے ایک نے تہذیبی ڈھانچے نے جنم لیا۔ علمی او را دلی فضا قائم ہوئی مسلمان بادشاہوں نے ان شعبوں پر خصوصی توجہ دی اور ان کی سر پر تی بھی کی۔

11۔ علمی اور ادبی فضا قائم ہوئی مسلمان بادشاہوں نے ان شعبوں پر خصوصی توجہ دی اور انکی سربرستی بھی کی۔

12۔ تصوف کے روات اور ترقی نے معاشرتی تفاعل کا انداز ہی بدل دیا اور یہاں ایک عام رواداری اور باہمی میل جول کا امتحان پیدا ہوا ۔

۳۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے معاشی و معاشرتی اسباب:

جواب: جنگ آزادی کے معاشی اسباب:

1۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے دولت کمانے کی خاطر تجارت کے نام پر لوٹ مار شروع کر دی تھی ۔

2۔ انگریز حکومت نے عوام پر بہت زیادہ ٹیکس لگا دیئے تھے۔

مقامی نعتوں کی تباہی اور تجارت کا بری طرح متاثر ہونا ۔

زرعی سرگرمیاں ماند پڑ گئی تھیں ۔

انگریزوں نے مقامی خام مال اور زرعی اجناس سستے داموں خرید کر انگلستان کی صنعتوں میں استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

6۔انگریزی مصنوعات کو مہنگے داموں بر غیر میں اکر فروخت کرنا ۔

7۔عوام میں غربت کا بڑھ جاتا ۔

8۔معاشی بد حالی اور طبقاتی فرق میں نمایاں طور پر اضافہ ہو جانے کی وجہ سے برصغیر کے عوام نے انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھے تھے ۔

جنگ آزادی کے معاشرتی اسباب:

انگریزوں کا معاشرتی لحاظ سے خود کو بڑے غیر کے باشندوں سے بہتر اور افضل سمجھنا۔

2۔ انگریزوں کا برصغیر کی معاشرتی زندگی سے الگ تھلگ رہنا ۔

ان کے رہائشی علاقوں اور تفریح گاہوں میں عام شہریوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی ۔

۴) انگریزی زبان کا رائج کرنا اور عربی و فارسی زبانوں کے خاتمے کی مہم چلانا۔

5۔ مقامی مدرسوں کی جگہ انگریزی اور مشرقی اور سکولوں اور مغربی طرز تعلیم و عام کرنا۔ مشرقی تعلیم کے بجائے مغربی طرز تعلیم کو عام کرنا ۔

 بعض مسلمان علما ء کا انگریزی زبان اور تہذیب کے خلاف فتوی دنا۔

۷) مغربی معاشرت اور انگریزی طرز زندگی کو فروغ دینا اور مقامی تہذیب و تمدن سے انگریزوں کا نفرت کرنا اورا سے مقامی باشندوں کی طرح حقیر قرار دینا۔

1937ء کے انتخابات اور کانگریسی وزارتیں:

جواب: 1937 میں نئے آئین کے تحت انتخابات منعقد ہوئے کانگریس نے ہندو اکثریت کے کچھ بڑے نصو بوں میں نمایاں کا میابی حاصل کر کے ان صو یوں میں اپنی وزارتیں قائم کیں مسلم لیگ ان انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی صرف چند مسلم لیگی رہنما نتخب ہوکر آۓ ۔اقتدار حاصل کر نے کے بعد کانگریسی لیڈروں نے مسلم لیگ کے منتخب ارکان کو اپنی وزارتوں میں شامل کرنے سے انکار کر دیا اور اقتدار میں آتے ہیں مسلمانوں کے لیے مشکلا ت پیدا کر : شروع کرد میں ۔اس دور میں مسلمانوں کو اچھی ملازمتوں سے محروم رکھا گیا تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم لہرائے گئے گائے کی قربانی پر پابندی عائد کر دی گئی نماز کے اوقات میں مسجدوں کے سامنے بابے بجاۓ جاتے تھے بندی کو قومی زبان کا درجہ دانے کے لیے اردو کے خلاف ایک محاذ قائم کر دیا گیا بندے ماترم کے بنگالی گیت کو قومی ترانہ قرار دیا گیا۔ اس ترانے کے ایک ایک لفظ سے مسلمان دینی نظر آتی تھی اس کے علاوہ وہ یا مند راسکیم کے تحت تعلیمی نصاب کومکمل طور پر ہندوانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی اسکولوں میں گاندھی کی تصور کو ہاتھ جوڑ کر سلام کیا جا تا تھا اور مسلمان بچوں کو بھی ایساکر نے کے لیے مجبور کیا جا تا تھا۔

مختصر  یہ کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے تشخص اور تہذیب کوختم کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی ان حالات کو دیکھ کر مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ اگر کانگریس کا تسلط پورے ملک پر قائم ہوا تو مسلمانوں کا مذہبی لسانی تہذیبی شخص ختم ہو جائے گا۔ ستمبر 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی ۔ برطانوی حکومت نگی تیاریوں کے لیے برصغیر کے لوگوں کا تعاون چاہتی تھی اس مقصد کے لیے قائداعظم اور مہاتما گاندھی سے گفت و شنید کے بعد اعلان کیا گیا کہ جنگ کے بعد 1935 کے آئین میں جو ترمیم کی جائیں ان کے لیے ہندوستان کے مختلف فرقوں اور سیاسی جماعتوں سے مشورہ کیا جاۓ گا۔

شاہ ولی اللہ کی خدمات:

جواب: حضرت شاہ ولی اللہ نے بر صغیر کے مسلمانوں کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ۔ انہوں نے ایک ماہر طبیب کی طرح معاشرے کی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور ان کی اصلاح کے لیے ان تمل تجویز کیا۔ آپ نے معاشرے کے تمام طبقوں ، حکمرانوں امراء علماء مشائخ اور عوام سے خطاب کیا ۔ گو کہ آپ کو اس میں کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی مگر معاشرہ اتنا گر چکا تھا کہ اصلاح کی زیادہ گنجائش باقی بھی ۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جانشینوں نے آپ کا کام جاری رکھا۔ اور نہ صرف وعظ تبلیغ سے بلکہ جہادکر کے مسلمانوں کو بچانے کی ہرممکن کوشش کی ۔ اس تحریک کا ایک اہم پہلوقرآن مجید کو سمجھانے اور عام نہم بنانے کے لیے اس کو عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش تھی ۔اس سلسلے میں پہلے قرآن مجید کا ترجمہ فارسی اور اس کے بعد اردو میں کیا گیا ۔ حضرت شاہصاحب اور آپ کے جانشین نہم قرآن پر بہت زور دیتے تھے ۔اس وقت کا مسلم معاشرہ احکام اسلام کی پابندی اعمال حسنہ اور سنت نبوی کی پیروی سے دور ہوگیا تھا ۔ مقامی اثرات کے سبب خلاف شرع میں اپنائی گئی تھیں ۔ شاہ ولی اللہ کی تحریک کا ایک بڑا موثر اظہار حضرت سیداحمد بریلوی کی زیر قیادت میں ہوا ۔ سیداحمد اوران کے رفقاء کار کے کارناموں میں ایک طرف تحریک جہاد ہے تو دوسری طرف بنگال میں تحریک احیاۓ اسلام جہاں مسلم معاشرت پر ہندوانہ رسم وروان غالب آنے لگے تھے۔

سوال نمبر:۴ کن حالات کے تحت اور کن مقاصد کے حصول کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے مسلم لیگ قائم کی تفصیل سے تحریرکر ہیں۔

جواب: مسلم لیگ کے قیام کی وجوہات : 1857ء کی جنگ آزادی سے 1906 ، تک نصف صدی کے دوران ایسے بے شمار سیاسی اور معاشرتی واقعات ہوۓ جن کے نتیجے میں برصغیر میں بسنے والی تمام قوموں میں ایک عمومی بیداری کی لہر دوڑ گئی اور سیاسی شعور اجاگر ہونے لگا ۔ اس عرصے میں دو ایسے نمایاں واقعات بھی ہوۓ جن کے نتیجے میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں قومی تشخص کا احساس نمایاں ہوا اور وہ الگ الگ قوموں کی حیثیت سے آزادی کی جنگ لڑنے کی تیاری کر نے لگے۔ یہ دو۔ واقعات درج ذیل تھے۔

1885ء میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کا قیام ۔

2۔1906ء میں آل انڈیا مسلم ایک کا قیام ۔

کانگریس کے قیام اور مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں کانگریسی رہنماؤں کے منفی رویے تقسیم بنگال کے خلاف ہندوؤں کی شورش اور شملہ وفد کی کامیابی کے بعد مسلمان را ہنماؤں میں بڑی شدت سے بی احساس پیدا ہوا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک الگ سیاسی پلیٹ فارم قائم کیا جاۓ جس کے ذریعے سے شملہ وفد کے مطالبات کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے ، چنانچہ ٹڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کے خاتمے پر 30 نمبر 1906 ءکو ڈھا کہ میں ایک اجلاس ہوا جس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی ۔اس موقع پر نواب سلیم اللہ نے ایک قرارد داد پیش کی جس میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ سیاسی پارٹی کی بنیا در کھنے کی تجویز پیش کی گئی تھی ۔ اس تجویز کی تائید حکیم اجمل خان ، مولا نا مدعلی اور مواد نہ ظفرعلی خان نے کی ۔اس نئی سیاسی پارٹی کا نام’ آل انڈیا مسلم لیگ‘ رکھا گیا جس کے بنیادی اغراض و مقاصد مندرجہ ذیل تھے ۔

مسلم لیگ کے بنیادی اغراض و مقاصد :

1۔حکومت برطانیہ کے لئے مسلمانوں میں وفاداری کے جذبات کو فروغ دینا اور حکومت کے متعلق ان کی نام نہیوں کا ازالہ کرنا۔

2۔ مسلمانوں کے سیاسی ، مذہبی ، اور معاشرتی حقوق کا تحفظ کرنا اور حکومت تک مسلمانوں کے مطالبات پہنچانے کا انتظام کرنا۔

3۔مسلمانوں میں دوسری قوموں کے خلاف جذبات کی حوصایکنی کرنا اور غیر مسلموں کے ساتھ تعاون کی حدود کا تعین کر تا اوراختلافات کے خاتمے کے لئے جدو جہد کرنا ۔

اس اجلاس میں جو دیگر فیصلے کئے گئے ،ان کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

1۔نواب وقار الملک کو آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا اسیکرٹری منتخب کیا گیا۔

2۔ نواب محسن الملک کو جائنٹ سیکرٹری مقرر کیا گیا ۔

3۔ نواب وقار الملک کی سر براہی میں ایک عبوری کمیٹی قائم کی گئی جسے مسلم لیگ کا دستور بنانے کا کام سونپا گیا چنانچہ مارچ 1908 ء میں مسلم لیگ کا پہلا آئین تیار کیا گیا ۔

۴۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر دفتر علی گڑ سے میں قائم کیا جاۓ ۔

مسلم لیگ کے مندرجہ با مقاصد ابتدائی نوعیت کے تھے جن میں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی گئی اور مسلم لیگ نے ایک سے زیادہ ملی اور دار آمد پالیسی اختیار کر لی ۔ابتداء میں مسلم لیگ حکومت سے وفاداری اور ہندومسلم تعاون کے فروغ کی پالیسی پر قائم رہی لیکن مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری ، ہندوؤں کی عدم تعاون اور برطانوی حکومت کے منفی رویے کی وجہ سے مسلم لیگ کی وفاداری اور غیر مسلموں سے تعاون کی پالیسی زیادہ پائیدار نہ ثابت ہوسکی اور ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کی کوششیں ان کا نظریہ بنتی گئیں ۔ یہاں تک کہ برصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ ریاستوں کے قیام کا خواب پورا ہوگیا اور 1947ء میں مملکت خداداد پاکستان وجود میں آ گئی ۔

سوال نمبر :۵ 1857ء کی جنگ آزادی کیوں نا کام ہوئی؟ اسباب بیان کر یں۔ نیز اس نا کامی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کو کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا؟ تفصیل سے لکھیں۔

جواب: جنگ آزادی کی ناکامی کی وجوہات :

حصول آزادی کی کوششوں میں نا کامی ہوئی اور انگریز ہندوستان پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اس کی درج ذیل وجوہات تھیں ۔

1۔تنظیم کا فقدان: جنگ آزادی کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب مسلمان مجاہد مین اور دیگرلز نے والے گروہوں میں تنظیم کا فقدان تھا ۔ مسلمان علما اور رؤسانے کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے جد جہد کی تھی ۔لیکن ہندوؤں اور عوام کے درمیان کسی قسم کا رابط قائم نہ ہوسکا۔

2۔غیر مسلم آبادی کا رویہ: بندوؤں کے نزدیک سب سے اہم ان کے معاشی اثاثوں کا تحفظ تھاجب کبھی انگریزوں نے چند سکے عنائیت کیے انہوں نے ان کی مطلوبہ سہولیات فراہم کیں ۔ بہت سے مجاہدین ہندوؤں کی دھوکا دہی کی وجہ سے انگریزوں کے ہاتھ آتے ۔

 

3۔مسلمان رؤسا کی غدداری: مسلمان حکمران اور رؤسانے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا۔ حیدرآباد دکن کے بادشاہ نے مغل سلطنت کی کوئی مددنہ کی اسی طرح پنجاب کے کئی رؤسا نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔

۴) روپے کی قلت: مجاہدین نے اتنے بڑے پیمانے پر جنگ شروع کر دی تھی مگر ان کے پاس لڑائی کے اخراجات اور سپاہیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے رو پیندتھا۔ جنش مقامات پر مجاہدین نے انگریزوں کے خزانے لوٹے تھے لیکن مرکزی خزانہ نہ ہونے کی وجہ سے دولت ایک جگہ اکٹھی نہ ہوسکی۔ اور مجاہدین کو دو وقت کی روٹی میسرنہ تھی ۔

5) دیگر عوامل: دیگر عوامل جنہوں نے انگریزوں کی مدد کی وہ سائنسی ایجادات تھیں ۔ ڈاک کے جدید نظام کی وجہ سے ان کو ہر وقت لڑائی کے واقعات کی خبرملقرہتی تھی ۔ اور وہ سانی سے اس پر قابو پا لیتے تھے ۔اس کے علاوہ کئی ریاستوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا مشال حیدرآباد، گوالیا، نیپال ، اور پٹیالہ ۔ مجاہدین کیامداد کسی غیر ملکی طاقت نے بھی نہ کی جس کی وجہ سے انگریز جنگ آزادی کو کچلنے میں کا میاب ہو گئے ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کا ظالمانہ اور جابرانہ حکومت کا خاتمہ کردیاگیا۔ اسکی جگہ پر برطانوی حکومت بر سراقتدار آئی اور پارلیمنٹ نے جگہ سنبھالی ۔ فوری طور پر ایک ایکٹ بنایا گیا۔ جسکی رو سے نئے نظام کی بنیادرکھی گئی ۔

نرم رویہ : حکومت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بریکس مقامی لوگوں سے نرم رویہ اختیار کیا ۔ الحاقات کا مسلسل ختم کردیا گیا۔ مقامی حکمرانوں کی خوشی کے لئے زیادہ مراعات انکوفراہم کی جانے لگیں۔

ناکامی کے اثرات:

 معاشرے پر اثرات

جنگ آزادی نا کام ہوگئی ۔اسکے شعلے سے جو چنگاریاں بھر کیں وہ برصغیر کے باشندوں کو سالگاتی رہیں ۔ جنگ میں غداری کا سارا الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔ اور ان پر خوب ظلم و ستم توڑے گئے ۔ جس سے انکے دلوں میں آزادی کے حصول کی لگن پیدا ہوگئی ۔ جسکو کوئی بھی ختم نہ کر کا۔ غلامی کی زندگی سے وہ تنگ آ چکے تھے۔ یہی احساس آگے چل کر با قاعدہ تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گیا۔

مسلمانوں پر اثرات:

حریت پسندوں کے ان گروہوں میں مقامی لوگوں میں سے ہندو اور مسلم دونوں ہی شامل تھے ۔لیکن جنگ آزادی کے بعد ہندو پھر انگریزوں کی چاپلوس کرنے لگے اور جنگ کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کر دی ۔ زمیندار میاں اور نوابیاں ختم کر دی گئیں ۔ ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ۔ ہے تحاشہ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں اور بچہ تعداد میں لوگوں کو باغی کہہ کر قیدی کر دیا گیا ۔ ایسے میں سر سیداحمد خان کی حکمت عملی نے مسلمانوں کوختم ہونے سے بچالیا۔اور مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی شمع جائے گی ۔ انہیں مسلمانوں نے تحریک آزادی میں میں اہم کردار ادا کیا۔ نہ صرف تمام : ندوستان کے لئے آزادی حاصل کی بلکہ اپنے لئے الگ ولن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے اسباب:

 جنگ آزادی کی ناکامی کے اسباب کا تفصیلی جائزہ تو یہاں ممکن نہیں تھا تاہم جن اسباب کی وجہ سے یہ جنگ نا کام ہوئی ان کی ایک مختصری فہرست درج

ذیل ہے۔

۱) جنگ آزادی کا آغاز چونکہ یا تک اور کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہوا تھا۔ لہذا اس کیلئے مشتر کہ الحمل ندا بنایا جا سکا۔ اسی طرح مختلف مقامات پر جنگ لڑ نے والوں میں باہمی روابط قائم نہیں کیا جا گا۔ جس کی وجہ سے جنگ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکی۔

۲) جن علاقوں کو انگریزوں سے خالی کروالیا گیا تھا ان میں کوئی متبادل قیادت اور کا میاب نظام حکومت قائم نہ کیا جا سکا ۔ جنگ آزادی لڑنے والوں کو سارے ہندوستانی عوام کی حمایت حاصل نہ ہوسکی ۔ بلکہ بہت سے لوگوں نے خفیہ طور پر کھلم کھلا انگریزوں کی حمایت جاری رکھی اور عملا انکی مددبھی کرتے رہے

 

3۔سکھ اور گورکھا ( پہاڑی علاقوں کے ہند و سپاہی ) انگریز افسروں کے وفادار ر ہے ۔ اور یونہی ان کی مدد سے انگریزوں نے دوبارہ دہلی لکھنو اور دوسرےآزاد کروائے گئے علاقوں پر اپنا نہ بحال کر لیا ۔

۴) جد و جہد آزادی کا دائرہ برصغیر کے صرف چند علاقوں ( شمالی ہند ) تک ہی محدود رہا۔ جنوبی ہند اس سے اتعلق رہا ۔ گجرات اور سندھ کے عوام بھی اس جنگ میں شامل نہیں ہوۓ جبکہ پنجاب ، بنگال اور بہار میں معمولی شورشیں ہوئیں جن پر قابو پالیا گیا ۔لہذا اس جد و جہد آزادی کو کل ہند جنگ آزادی جنگ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

5۔بیرونی ملک سے کسی مسلمان حکمران نے بہادر شاہ ظفر یا مجاہدین آزادی کی مددنہ کی اور نہ اس سلسلے میں انگریزوں پر دباؤ ڈا گیا ۔

6 ) 1857ء کی جنگ آزادی بر غیر کے زوال پذیر معاشرے کو بچانے کی آخری کوشش تھی ۔ انگریز برصغیر کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ بعض علاقوں کےحکمران ان کے باجگزار گزار تھے ۔اور بہت سے ان سے پیشن لیتے تھے۔ جن میں دہلی کا غل تا بدار بھی شامل تھا ۔

برصغیر کا معاشرہ اتنازیادہ بگڑ چکا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو آزادی کی قدر نہ رہی تھی ۔ پھر یہاں غداروں کی کمی نہ تھی جن سے انگریزوں نے بھر پور فائد ہ اٹھایا اوران کی مدد سے دو بار اپنا اقتدار بحل کر لیا۔ انگریزوں کی فوبی طاقت مسلمانوں اور ہندؤوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی ۔ وہ اپنے تنظیمی ڈھانچے اور تربیت کی وجہ سے بھی مقامی لوگوں پر برتری رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ہتھیار اور جنگی ۱۲ات بھی موجود تھے۔ جن کی وجہ سے وہ اپنے مدمقابل ہندوستانیوں کو بھر پور شکست دینے میں آسانی سے کامیاب ہو گئے ۔ 1857 کی جنگ آزادی تک تو بر غیر پاک و ہند پر انگریزوں کا مجر اور قبضہ ہو چکا تھا جس کو مسلمانوں نے برداشت نہ کیا کیوں کہ انگریزوں اور ہندوؤں نے ملکر مسلمانوں کے حقوق کا استحصال کرنا شروع کر دیا تھا ۔ جس کی وجہ سے مسلمان تاجی، مذہبی معاشی اور سیاسی طور پر ہندوؤں سے پیچھے ہوتے جارہے تھے ۔ کیونکہ اپنی تمام بنیادوں پر وہ انگریزوں کے منظور نظر تھے ۔ جومسلمانوں کیلئے ازیت ناک تھا ۔ ان تمام حالات کے پیش نظر مسلمان حکمران بھی اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہورہے تھے ۔لہذا انہوں نے اس جنگ میں اپنے حقوق کیلئے دباؤ ڈالا۔ لیکن اپنوں کی غداری کی وجہ سے مسلمانوں کو اس جنگ آزادی میں نا کامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور انگریزوں نے بھر پور طریقے سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شکست سے دو چار کیا ۔

جنگ آزادی کی ناکامی کے نتیجے میں بر صغیر کے مسلمانوں کو پیش آنے والے مسائل:

1857 ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں نے بہت ہی قربانیاں دیں ۔مگر اسکے باوجود انہیں کا میابی نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہوگئی ۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے برصغیر کے مقامی باشندوں اور خاص طور پر مسلمانوں سے زبردست انتقام لیا۔ وہ تمام مجاہد بین جو آزادی کی جنگ میں شریک تھے۔ ان سے گن گن کر بدلے لئے گئے ۔ ہر شعبے میں انکے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔ اس جنگ کے خاتمہ پر مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان کی تفصیل پڑھے یوں ہے ۔

 جنگ آزادی نا کام ہوگئی ۔ اسکے شعلے سے جو چنگاریاں بھر کیں وہ برتہ غیر کے باشندوں کو ساگاتی رہیں ۔ جنگ میں غداری کا سارا الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔ اور ان پر خوب ظلم وستم توڑے گئے ۔ جس سے اسکے والوں میں آزادی کے حصول کی لگن پیدا ہوگئی ۔جسکو کوئی بھی ختم نہ کر سکا۔ نامی کی زندگی سے وہ تنگ آچکے تھے۔ یہی احساس آگے چل کر با قاعدہ تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گیا۔ حریت پسندوں کے ان گروہوں میں مقامی لوگوں میں سے ہندو اور مسلم دونوں ہی شامل تھے۔ لیکن جنگ آزادی کے بعد ہند و پر انگریزوں کی چاپلوسی کرنے لگے اور جنگ کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کر دی ۔ زمینداریاں اور نوابیاں ختم کر دی گئیں ۔ ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا۔ بے تحاشہ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں اور کچھ تعداد میں لوگوں کو باغی کہہ کر قیدی کر دیا گیا ۔ ایسے میں سرسید احمد خان کی حکمت عملی نے مسلمانوں کو ختم ہونے سے بچا لیا۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی شمع جلنے لگی ۔ انہیں مسلمانوں نے تحریک آزادی میں میں اہم کردارادا کیا۔ نہ صرف تمام بندوستان کے لئے آزادی حاصل کی بلکہ اپنے لئے الگ وطن حاصل کرنے میں کا میاب ہوۓ ۔ آزادی کی اس جدو جہد میں مسلمانوں کو سرسیداحمد خان ،مولانا محمد علی جو ہر ،مولانا شوکت علی ، علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے عظیم رہنما ملے۔

سوال نمبر:۲ سرسید نے کن مقاصد کے حصول کے لیے علی گڑھ تحریک شروع کی ؟ نیز اس تحریک سے برصغیر کے مسلمانوں کی زندگیوں پر کس

طرح کے اثرات ظاہر ہوۓ۔

جواب: تحریک علی گڑھ: 1857ء کی جنگ کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو باغی قراردیا اور ان پر طرح طرح کے ظلم وستم کیے ۔ ہندووں نے مسلمانوں کو مجرم قرار دلوانے کے لئے انگریزوں سے مکمل تعاون کیا ۔

ا۔ تحریک علی گڑ ھے کی ابتداء میں سر سیداحمد خان نے ایک رسالہ شائع کیا۔ جس میں انہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کے اسباب کی نشاندھی کی اور اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانیوں کو قانون ساز کونسلوں میں نمائندگی دی جاۓ تا کہ عوام کی آواز حکومت تک پہنچ سکے ۔

2۔ سرسیداحمد خان نے حکمران طبقے اور مسلمانوں کی باہمی دوری کو کم کرنے کے لئے اور غلط فہمیوں کوختم کرنے کے لئے رسالے لکھے اور اس بات پر زور دیا کہ مسلم اور عیسائی دونوں اہل کتاب ہیں ۔ان کی سیاسی کوششوں کی نتیجے میں مسلمانوں اور انگریزوں کے تعلقات بہتر ہوۓ اور انگریزوں کی مسلم وشنی میں کمی واقع ہوئی ۔

۳۔ سرسید نے علمی خدمات کیساتھ ساتھ عملی طور پر بھی ایسی کوششیں کیں کہ مسلمانوں میں جدید علوم سیکھنے کا شوق پیدا ہوتا کہ وہ ترقی و کامیابی سے ہم کنار ہوں ۔ انہوں نے جو اقدامات کئے درج ذیل ہیں ۔ سائینٹفک سوسائٹی کا قیام سابی اور تعلیمی نجم کا آغاز جدید علوم کی معیاری کتب کے اردوتر جے، پریس کا قیام ،علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کے نام سے اخبار کا اجراء ، برٹش انڈین ایسوسی ایشن کا قیام علی گڑ سے سکول کا قیام سکول کو کالج کا درجہ دینا ٹنڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام ۔

مقصد کے حصول میں کامیابی:

1۔سر سیداحمد خان پاتے تھے کہ ہندوستانیوں کو قانون ساز کونسلوں میں نمائندگی ملنی چاہئے تا کہ عوام کی آواز حکومت تک براہ راست پہنچ سکے اس مطا لیےکو 1861ء میں منظور کیا گیا۔ اور برصغیر کے مقامی باشندوں کو قانون ساز کونسلوں میں کسی حد تک نمائندگی دی گئی ۔ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوۓ ا۔

2۔سرسید احمد خان چاہتے تھے کہ مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان نام نہیوں کو دور کیا جائے اور انہیں ایک دوسرے کے زیادہ قریب ا یا جاۓ ۔ اور آپ اپنی کوششو میں کا میاب ہوئے اور مسلمان اور انگریز کے تعلقات نسبتا بہتر ہو گئے ۔ سرسید احمد خان نے کوشش کی کہ مسلمان جدید علوم سیکھیں ۔ تاکہ ترقی و کامیابی سے ہم کنار ہوں اور وہ کامیاب ہوئے ۔

اثرات:

سرسیداحمد خان کی بے لوث کوشش اور مسلمانوں کی کامیابی اور ترقی کے لئے جانے والے کاموں کے اچھے اثرات بہت جلد سامنے آنے لگے ۔ اور علی گڑھے کومسلمانوں کی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ۔علی گڑھ کالج کے تعلیم یافتہ نو جوانوں نے قومی اتحاد اور ترقی کا حق ملک کے گوشے گوشے مین پھیلا دیا۔ اس طرح اردو ادب اور جدید علوم کو فروغ حاصل ہوا۔ نوجوانوں نے سرکاری ملازمتوں میں اپنے تن کے لئے کوشش شروع کر کے غربت کے خاتمے اور سیاسی حقوق کے حصول کے لئے بھی راہ ہموار کی ۔ سرسید احمد خان کی تحریک علی گڑھے کے گہرے اثرات کے نتیجے میں مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی جد و جہد کو تیز کرنے کی اس قسم کی بہت سی دوسری انجمنیں قائم کیں۔

تحریک علی گڑھ کا سیاسی پہلو:۔

تحریک علی گڑھ کی ابتدا میں سرسیداحمد خان نے ایک رسالہ اسباب بغاوت ہند شائع کیا۔ جس میں انہوں نے ۱۸۵۷ء کی

 

جنگ آزادی کے اسباب کی نشاندہی کی اور اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانیوں کو قانون ساز کونسلوں میں نمائندگی ملنی چاہئے ۔ تا کہ عوام کی آواز حکومت تک براہ راست پہنچ سکے ۔اس مطالبے کو ۱۸۶۱ء میں منظور کر لیا گیا ۔ اور برصغیر کے مقامی باشندوں کوکونسلوں میں کسی حد تک نمائندگی مل گئی۔

تحریک علی گڑھ کا معاشرتی پہلو:۔

سر سید احمد خان نے حکمران طبقے اور مسلمانوں کی بانہی دوری کو کم کرنے اور نام نہیوں کے خاتمے کے لئے بہت سے رسالے لکھے اور اس بات پر بھی زور دیا کہ مسلمان اور عیسائی دونوں اہل کتاب میں۔ اور انہیں ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنا چاہئے ۔ان کی ایسی کوششوں کے نتیجے میں

مسلمانوں اور انگریزوں کے تعلقات نسبتا بہتر ہو گئے ۔ اورانگریزوں کی مسلم وشنی کی شدت میں بھی کسی حد تک کمی آ گئی ۔

تحریک علی گڑھ کا علمی پہلو:۔

سرسیداحمد نے علمی خدمات کے ساتھ ساتھ ملی طور پر بھی ایسی کوششیں کیں کہ مسلمانوں میں جدید علوم سیکھنے کا شوق پیدا ہوتا کہ وہ ترقی اور کامیابی سے ہم کنار ہر سکیں ۔اس مقصد کے لئے انہوں نے جو اقدامات کئے ۔ان میں سے چندا ہم درج ذیل ہیں۔

 پر لیس کا قیام “

 علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے اخبار کا اجراء۔

۱۸۶۹ء میں شمالی ہند میں ایک اردو یو نیوری کے قیام کی تجویز ۔

۱۸۶۹ء میں برطانوی طریقہ تعلیم کا مطالعہ کرنے کے لئے انگلستان کا دور ہ۔

۱۸۷۵ء میں علی گڑھ میں ایک سکول کا قیام۔

۱۸۸۶ء میں ٹنڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام۔

سماجی اور تعلیمی مہم کا آغاز ۔

جدید علوم کی معیاری کتب کے اردو تراجم

۱۸۲۶ء میں برٹش انڈین ایسوی ایشن کا قیام۔

۱۸۷۷ء میں سکول و کالج کا درجہ دینا۔

ساءینٹینگ سوسائٹی کا قیام

کالج کا نام میدن اینگواورئینٹل کالج‘ (ایم ۔اے ۔اوکالج ) رکھا گیا ۔

سوال نمبر 7:ءمیں بنگال کے صوبے کو دوحصوں میں کیوں تقسیم کیا گیا تھا؟ نیز اس تقسیم کے خلاف شروع کی گئی تحریک اور نتائج کی تفصیل تحریر کر یں

جواب: تقسیم بنگال (1905): تقسیم کی تجاویز:۔

بنگال برصغیر کا ایک بہت بڑا صوبہ تھا۔ اور یہ انتظامی لحاظ سے برطانوی حکومت کیلئے ایک مسئلہ بنا ہوا تھا ۔ اس صوبے کی تقسیم کی تجاویز 1853 میں ارڈ ڈیوری کے دور سے ہی زیر غور چلی آ رہی تھیں ۔اس صوبے کو ایک لیفٹینیٹ گورنر کے ماتحت چیا نا تقریبا ناممکن تھا۔

معاشی اور انتظامی حالت : ۔

اس صوبے کی معاشی اور انتظامی حالت روز بروز خراب ہوتی جارہی تھی ۔حکومت برطانیہ نے انتظامی ڈھانچے کو بہتر اور مؤثر بنانے کی خاطر 1903 میں اس صوبے کی تقسیم کا اعلان کر دیا اور 1905 میں اس پر عمل درآمدکرتے ہوۓ بنگال کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔

ڈھا کہ مرکز:۔

مشرقی بنگال میں آسام کو بھی شامل کیا گیا ۔اور اس کا مرکز تھا کہ بنا دیا گیا۔ اس صوبے میں علیحدہ قانون ساز کونسل بورڈ آف ریو مینی اور ہائی

کورٹ بار قائم ہوۓ اور دیگر سہولتیں بھی دے دی گئیں ۔

 

مسلمانوں کی اکثریت:۔

اس نئے صوبے کی آبادی میں چونکہ اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان نئی انتظامی اصلاحات سے انہیں کئی طرح کے فائدے حاصل ہو سکتے تھے ۔ لہذا ہندوؤں نے اس تقسیم کی سخت مخالفت کی اور اسے منسوخ کروانے کیلئے ایک منظم تحریک چلائی جس میں ہر جائز اور نا جائز طریقے سے انگریز حکومت پر دباؤ ڈالنے اور مسلمانوں کو تنگ کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کئے گئے ۔

بندے ماترم:۔

بندے ماترم ( ہندوؤں کا قومی ترانہ ) اور دھرتی ماتا کی تقسیم کو اس تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔

قتل عام:۔ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔

انگریزوں پر حملے :۔ انگریزوں پر پے در پے حملے کیے گئے ۔

ہندو اخبارات: مشرقی بنگال کے نئے گورنر پر ہند واخبارات نے کڑی تنقید شروع کر دی۔

انگریزوں کے مال کا بائیکاٹ:۔ ہندوؤں نے انگریزوں کے مال کا با قاعدہ بائیکاٹ شروع کر دیا۔

انگریزی اشیاء کے استعمال سے مخالفت:۔ مقامی لوگوں کو انگریزی اشیاء کے استعمال اور خریداری سے روکنے کی کوشش کی گئی ۔

انگریزی مال:۔

ہندو دکانداروں سے انگریزی مال جمع کر کے سڑکوں پر جلایا گیا۔

 برطانوی حکومت ان حربوں کی وجہ سے دباؤ میں آ گئی اور اس نے 1911 میں تقسیم بنگال کا حکم منسوخ کر دیا اور متحدہ بنگال کو دوبارہ ایک صو بہ بنادیا۔حالانکہ مسلمان اس تقسیم کو برقرار رکھنے کے  حق میں تھے ۔

Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *