AIOU Course Code 5436-2 Solved Assignment Spring 2022

( 5436)

 Assignments no 2

Spring 2022

سوال نمبر : 01۔عقیدہ آخرت سے کیا مراد ہے نیز عقیدہ آخرت کی اہمیت پر نوٹ لکھیں ۔

جواب : آخرت کالغوی اور اصطلاحی معنی : عقیدۂ آخرت اسلام کا تیسرا بنیادی اصول یا عقیدہ ہے ۔

لغوی معنی : آخرت آخر کی مؤنث ہے اردو میں اس کا معنی ’ آخری ‘ ‘ ہے جو پہلے کامتضاد ہے سب سے پیچھے بعد میں آنے والا ری یا فاصلے کا دوسرا سرا ۔ آخرت اصل میں’دار ‘ ‘ کی صفت ہے جوعربی میں مؤنث ہے الدار الآخرۃ لینی ’ ’ آخری گھر ‘ ‘ ۔ جب ’ ’ آخر ‘ ‘ ہوا جاۓ تو بیلفہ الیوم کی صفت ہے جو عربی میں مذکر ہے ۔ ’ ’ الیوم الآخر لینی آخری دن ‘ ‘ ۔

اصطلاحی معنی شرعی اصطلاح میں یوم آخر یا آخرت سے مراد وہ آخری دن ہے جس دن سارے انسان مرنے کے بعد جس حال میں بھی ہوں گئے دوبارہ مستقل زندگی کے ساتھ زندہ ہوکر اللہ تعالی کے دربار میں ایک میدان میں حساب کتاب کیلئے جمع ہوں گے ۔ ہرانسان نے دنیا کی زندگی میں جو کچھ کیا ہوگا اس کا حساب دے کر کامیاب ہو گا یا نا کام ۔ اگر کامیاب ہو گیا تو اس کا آخری گھر جنت ہے ۔ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اگر مسلمان گناہ گار ہے تو وہ کچھ عرصے کیلئے جہنم میں جائے گا جتنا الہ کومنظور ہوگا پھر ہمیشہ کیلئے اس کا آخری گھر جنت بن جائے گا ۔ میبھی ممکن ہے کہ اللہ اسے جہنم میں داخل کئے بغیر معاف کر دے ۔لہذا جنت یا جہنم انسان کا آخری گھر ہے ۔

03038507371

                                                                                                                                                                                                                                                                                                    عقیدۂ آخرت کی اہمیت

1- عقیدہ آخرت کی اہمیت کی بنیاد پر اللہ تعالی نے سب سے زیادہ تاکید اور روز اسی عقیدے کو بیان کرنے پر دیا ہے ۔ جس چیز کا انکار جس قد رزیادہ ہوتا ہے اسی قد راس کو تا کید سے بیان کیا جا تا ہے کیونکہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا عقل کے دائرہ کار سے باہر ہے اس لئے عقل اس کے سمجھنے سے قاصر ہے اور عقل حیران اور پریشان تھے اورا نکار کرتے تھے ۔

  1. اللہ تعالی نے آخرت کے عقیدے کو جب بیان کیا تو اس پر ایقان کا مطالبہ کیا ۔ ایقان کا متضادشک ہے یعنی عقیدۂ آخرت پرشک بھی برداشت نہیں ہے کیونکہ اس عقیدہ پر شک ہوگا تو ایقان نہیں ہوگا اور اگر ایقان ہوگا تو شک نہیں ہوگا ۔ قبال از ظلم و تون ۔

ترجمہ : اور آخرت پر وہ ایقان رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : انی و ربی ایلن ۔

ترجمہ : میرے رب کی قسم بے شک میق ہے ۔ اس میں ای ترین الفا چاروں تاکید کے الفاظ ہیں ۔ ای ’ ’ ‘ ‘ حرف قسم ہیں ۔ ان اور ام حرف تاکید ہیں ۔اس قد رتا کید اور اہتمام سے اس عقیدہ کو بیان فرمایا ۔

4- قرآن کریم میں چوٹیں مقامات پر ایمان کا ذکر صرف اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان کہ کر کیا گیا ہے ( حالانکہ ایمان کے اصول میں اللہ تعالی کے رسولوں بلکہ اس کے فرشتوں اور کتابوں پر ایمان ! نا بھی شامل ہے ) ۔اس سے صرف عقیدہ توحید کے ساتھ عقیدہ آخرت کا تعلق اور اس کی اہمیت واضح ہوئی ہے ۔

5- قرآن کریم میں آخرت کا ذکر آیا یہ کہ کر 24 جگہ آیا ہے اور لفظ 112 جگہ پر آیا ہے اس کے علاوہ ( کام البحث ) جی اٹھنے کادن ( کام افسرة ) حسرت کا دن ( مام الحساب حساب کا دن ( ام الفضل قطعی فیصلہ ( ام الخروج ) نکلنے کاون ( یوم القیامۃ ) کھڑے ہونے کا دن ( یام الحق ) برحق دن وغیرہ کوئی میں کے قریب ناموں سے اس کا ذکر کیا ہے ۔ یوم ( جس دن کہ ) یا ے ی میز ( آج کے دن ) سے شروع ہونے والی دوسو کے قریب آیات میں آخرت کا بیان موجود ہے ۔

6- قرآن کریم میں تقابل پر زور دینے کیلئے میں سے زائد مقامات پر دنیا اور آخرت کا یکجا ذکر ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ عقیدہ آخرت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے کیلئے ( ثواب الآخرة ) آخرت کا ثواب ( أجر الأخرة ) آخرت کا اجر ( دار الأخرة ) آخرت کا گھر ( عذاب الآخرة ) آخرت کی سزا ( خری الاخرۃ ) آخرت کی کھیتی اور ( نگان الأخر ) آخرت کی ذلت وغیرہ تراکیب کا استعمال بکثرت کیا گیا ہے ۔

7- یہی وہ عقیدہ ہے جو دنیا کے تمام مذاہب کی کسی نہ کسی شکل میں پایا جا تا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ آخرت کا خیال فطری طور پر ہر شخص کے -2

اندر گاڑ دیا گیا ہے ۔ جب سے انسان اس دنیا میں لینے لگا ہے یا کم از کم جب سے اس کی تاریخ کسی طرح سے بھی معلوم ہوئی ہے ۔ اللہ اور آخرت کا عقیدہ یا ان کا ہاتھ کو تصور ہمیشہ انسانوں میں موجودرہا ہے ۔

8- قرآن کریم میں جن انبیا علیہم السلام کے حالات بیان ہوۓ ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی نے تو حید رسالت اور آخرت کے عقیدے کو ہمیشہ اپنی دعوت کا نقطہ آغاز قرار دیا ۔

9- عقیدۂ آخرت اسلام کا اساسی عقیدہ ہے ۔ تو حید اور رسالت کی طرح اس کے بارے میں بھی کسی شک وشبہ میں مبتا رہنا اسلام اور ایمان کے یکسر منافی ہے اس لئے ان تمام عقائدکو عقلی دلائل سے سمجھ کر علی وجہ البصیرت اختیار کرنا چاہیے ۔ قرآن کریم نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔

10- عقیدہ آخرت انقلابی عقیدہ ہے ۔ یہ عقیدہ رکھنے سے انسان برے اعمال سے بیچ جا تا ہے ۔ نیکی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے ۔ دنیا سے بی اچاٹ ہو جا تا ہے پیشگی کے گھر کی طرف دل لگ جا تا ہے ۔ انسان دوسروں کے حقوق پامال کرنے سے توبہ کر لیتا ہے ۔ایک دم سے زندگی بدل جاتی ہے ۔اگر انسان ہر وقت آخرت کو سامنے رکھے تو دنیا میں جتنے فساد میں سب ختم ہوجائیں ۔

https://wa.me//+923038507371

انسانی زندگی پر عقیدۂ آخرت کے اثرات و برکات

اس دنیا کی بے ثباتی جلد ختم ہونے اور موت کی یاد سے ہی انسان کے ذمے دو کام ہیں :

1- برائیوں سے بچنا تا کہ انسانی معاشرے اور اخلاقی نظام پر خوشگوار اثرات پڑیں ۔ ایک صالح اور بہتر معاشرہ قائم ہو سکے ۔

2- نیکی کرنا تا کہ یہ حضرت انسان دوسروں کیلئے نفع بخش بن سکے کیونکہ اس کا مقام بہت اونچا ہے یہ خود غرض نہیں کہ دوسروں کا کام ہو یا نہ ہو میرا ہو جائے میں جو پاؤں کی اور حیوانوں کی صفت ہے ۔ یہتو دوسروں کی خدمت کیلئے بنا ہے ۔ یقینا نیکی کا بدلہ اس کو بھی ملے گا ۔ انسان کو ان دونوں کاموں کیلئے تیار کرنا ہے۔اللہ تعالی نے بڑا خوبصورت نظام بنایا ہے کہ دنیا کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور موت کا نظام بنایا ہے ہر ایک ذی روح کو موت کا ذائقہ چھکنا ہے صرف موت پر کام ختم نہیں ہوتا بلکہ آگے دوبارہ مستقل زندگی کے ساتھ جی اٹھنے کا پھر احتساب کی عدالت اور سزا جزاء کا پورا نظام بنایا ۔

برائیوں سے بچنا جب انسان عقیدہ آخرت کا قائل ہوتا ہے تو سب سے اہم انتقالی سوچ تو صرف اتنی سی بات سے پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ نیا فانی ہے جتناجی لوا خرموت ہے ۔ دنیاوی لڑ رہی ختم ہو جاتی ہیں ۔ دم توڑ دیتی ہیں ایک عقیدہ آخرت کے قائل انسان پر اس سوچ کے اثرات یوں پڑتے

1۔ اس کا دنیا کی رنگینیوں میں دل نہیں لگتا وہ ہی سوچتا ہے کہ میں ان سب چیزوں میں لگ کر کیا کر ونگا ؟ مزہ تب ہے کہ یہ سب میرے پاس ہمیشہ کیلئے ہوتا ۔

دنیا کی ۔ محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب -1

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ کیا ہو ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *