ANS 01
پروفیسر مسعود حسین خان اردو دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر زور کے بعد وہ پہلے محقق ہیں جنہوں نے اردو زبان اور اس کے آغاز کے بارے میں سائنٹیفیک نقطۂ نظر سے غور کی۔ ان کی کتاب”مقدمہ تاریخ زبان اردو” اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ یہ پروفیسر مسعود حسین خان کا تحقیقی مقالہ ہے جو علی گڑھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے اب تک آٹھ آڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا ایڈیشن 1948ء میں شائع ہوا اور آٹھواں ایڈیشن 1986ءمیں منظر عام پر آیا۔پروفیسر مسعود حسین خان نے اپنی کتاب میں اردو کے آغاز سے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے اس میں انہوں نے ہریانی پر زور دیا ہے۔ لکھتے ہیں:“قدیم دکنی زبان کے مطالعے کے سلسلے میں اب تک ہر یا نی کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہی زبان ہے جو قطع نظر شہر دہلی، ضلع دہلی میں آج بھی بولی جاتی ہے”
اردوئے قدیم سے متعلق لسانی تحقیق کے سلسلے میں جو اہمیت
ہریانی کو حاصل ہے اس کی طرف سب سے پہلے اشارہ پروفیسر ژول بلاک نے اپنے مضمون “ہند آریائی لسانیات کے بعض مسائل” میں کیا ہے۔قدیم اردو کا پنجابی پن ہریانی پن بھی ہے لیکن قدیم اردو (دکنی) کی یہ صوتیاتی اور شکیلیاتی خصوصیات صرف ہریانی سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ جمنا پار کی کھڑی بولی کے علاقے میں بھی یہ خصوصیات میں جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں دونوں کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ دہلی ایک مدت تک صدر مقام رہا اس لیے اردو کا تعلق کھڑی بولی سے زیادہ ہے۔
“مقدمہ تاریخ زبان اردو” کے آٹھویں ایڈیشن میں پروفیسر مسعود حسین خان نے اپنے نظریے پر نظر ثانی کر کے اسے قطعیت دے دی ہے۔ ان کے نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو برج، ہریانی اور کھڑی بولی سے مل کر بنی ہے۔
امیر خسرو نے اپنی مثنوی “نہ سپہر” میں ہندوستان کی بارہ زبانوں کے نام گنوائے ہیں۔ ان میں سے ایک “لاہوری” اور دوسری “زبان دہلی وپیر منش” ہے۔ زبان دہلی وپیر منش سے مراد زبان دہلی اور اس کے نواح کی کھڑی بولی اور ہریانی کے ہیں۔ اسی پر مسعود صاحب کا نظریہ قائم ہے۔ مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ اردو کا ڈھانچہ کھڑی بولی پر تیار ہوا ہے۔ جمنا پار کی کھڑی بولی اور ہریانوی قدیم اردو سے قریب تر ہے۔ جدید اردو اپنے زمانہ کے اعتبار سے مراد آباد اور رام پور کے اضلاع کی بولی سے قریب ہے۔ بعد میں برج بھاشا اردو کا لب و لہجہ متعین کرنے میں اثر انداز ہوئی۔
کھڑی بولی کے دو روپ ہیں ایک روپ وہ ہے جو دو آبہ گنگ و جمن کے بالائی حصے یعنی سہارنپور، مظفرنگر اور میرٹھ میں رائج ہے۔ دوسرا روپ گنگا پارکے بجنور، رام پور اور مرادآباد کے اضلاع میں بولا جاتا ہے۔ان اضلاع میں بولی جانے والی کھڑی بولی کو مسعود صاحب اردو سے قریب ترین خیال کرتے ہیں۔ کھڑی اور دکنی کی صورتی و صرفی کئی مماثلتیں مسعود صاحب نے اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
- دکنی اردو کی طرح کھڑی بولی کی یہ اہم خصوصیت ہے کہ اس میں درمیانی ‘ہ’ گرا دی جاتی ہے۔ جیسے ‘کاں (کہاں)، کبی (کبھی) وغیرہ۔
- کھڑی بولی میں اکثر ‘ڑ’ پر ‘ڈ’ کو ترجیح دی جاتی ہے جو دکنی کی بھی خصوصیت ہے اور پنجابی کی بھی۔ جیسے بوڑھا(بڈھا)، گڑھا(گڈا) وغیرہ۔
- ضمائر میں دکنی اردو کا ‘یو’ آج بھی کھڑی کے علاقہ میں مستعمل ہے۔
- دکنی اردو کا ‘او’ کھڑی بولی میں “اوہ” کی شکل میں ملتا ہے۔
- دکنی کے ضمائر میں سب سے قابل ذکر “آپس” ہے جو ‘خود’ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس کا تعلق بھی کی بولیوں سے ہے۔
پروفیسر مسعود حسین خان نے اردو زبان کے آغاز و ارتقاء میں ان زبانوں کے تعاون کا لسانیاتی اور سائنٹیفیک انداز میں تجزیہ کر کے مدلل طور پر اپنا نظریہ پیش کیا کہ “زبان دہلی وپیرا منش” اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہے اور حضرت دہلی اس کا حقیقی مولد و منشا” جو سراسر حقیقت پر مبنی ہے۔
اردو زبان کے آغاز کے بارے میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کے نظریے کو سمجھنے کے لیے ان کی دوسری کتاب “داستان زبان اردو” سے بڑی مدد ملتی ہے۔اس کتاب میں ایک جگہ وہ اپنے نظریے کی وضاحت پراعتماد طریقے سے اس طرح کرتے ہیں:
“نئی تحقیقات کے مطابق سنسکرت، پالی، شورسینی، مہاراشٹری، مغربی اب بھرنش ایک زبان کے متعدد ادبی روپ ہیں۔ یہ زبان مدھیہ پردیش کے (وسط ملک) بالائی دوآبے میں بولی جاتی تھی جس سے نکھر کر یہ زبانیں بنیں۔ اردو یا ہندوستانی، اپ بھرنش کے اس روپ سے ماخوذ ہے جو گیارہویں صدی کے آغاز میں مدھیہ پردیش میں رائج تھی۔
انہوں نے تمام زبانوں بالخصوص پراکرت اور اپ بھرنش کو سمیٹ لیا ہے جو بالائی دوآبے کی مختلف زبانوں کے ادبی روپ رہے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کھڑی یا ہندوستانی (اردو) بالائی دوآبے میں بولی جانے والی زبانوں کی فطری اور ترقی یافتہ صورت ہے۔ اس طرح وہ پروفیسر مسعود حسین خان کے نظریے سے قریب پہنچ جاتے ہیں۔
اردو زبان کی پیدائش، جائے پیدائش اور نشوونما کے بارے میں اردو کے عالموں، محققوں اور لسانیات دانوں نے اب تک کافی غور و فکر اور چھان بین سے کام لیا ہے جس سے اس موضوع پر اردو میں لسانیاتی ادب کا ایک وقیع سرمایہ اکٹھا ہو گیا ہے۔ اردو کے جن عالموں نے اس موضوع پر تحقیقی نقطۂ نظر سے کام کیا ہے ان میں حافظ محمود خاں نصیر ، سید محی الدین قادری زور، مسعود حسین خاں، عبدالقادر سروری، شوکت سبزواری اور گیان چند جین کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔
ان سے پیشتر میر امن، سرسیداحمد خاں، امام بخش صہبائی، محمد حسین آزاد، شمس اللہ قادری اور سید سلیمان ندوی جیسے اردو کے ادیب و عالم بھی اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تھے۔ ماضیِ قریب اور عہدِ حاضر کے بعض دیگر اہلِ علم و نظر بھی اردو کے آغاز و ارتقا کے مسائل اور اس کے تاریخی تناظر پر غور و خوض کرتے رہے ہیں، مثلاً مولوی عبدالحق نے اپنے بعض خطبات میں، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے اپنی تصنیف “کیفیہ” میں، سیداحتشام حسین نے “ہندستانی لسانیات کا خاکہ” (جان بیمز) کے مقدمہ میں، جمیل جالبی نے “تاریخِ ادبِ اردو” (جلدِ اول) میں، سہیل بخاری نے “اردو کی زبان” میں اور شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی حالیہ تصنیف “اردو کا ابتدائی زمانہ” میں اردو کی پیدائش، مرزبوم نیز اس کے تاریخی ارتقا اور تناظر کو اپنی فکرو تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔۔
اردو کے ان تمام ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو ایک مخلوط یا “ملواں” زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے۔ ان میں سے مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو “دہلی اور نواحِ دہلی” سے، حافظ محمود خاں نصیر “پنجاب” سے، سید سلیمان ندوی “وادیِ سندھ” سے، اور سہیل بخاری “مشرقی مہاراشٹر” سے منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق “اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے”۔ گیان چند جین کے نظریے کے مطابق “اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے”۔ اور مسعود حسین خاں کی تحقیق کی روسے”قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے”۔ علاوہ ازیں شوکت سبزواری اس نظریے کے حامل ہیں کہ اردو کا سرچشمہ “پالی” ہے۔ ان تمام عالموں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچا یا کینڈا یہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ اس کے ذخیرۂ الفاظ کا معتدبہ حصّہ ہند آریائی ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات پڑے ہیں۔ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، کیوں کہ اس کی پیدائش کے دونوں ذمہ دار ہیں۔
یہ تھے اردو کے بارے میں اہلِ اردو کے خیالات و نظریات۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غیر اردوداں طبقے بالخصوص انگریزی اور ہندی کے بعض عالموں اور دانشوروں کی اس بارے میں کیا “سوچ” رہی ہے اور وہ کس زاویے سے اردو کے تاریخی تناظر پر غور کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں جن انگریزی مصنفین کی تحریروں کا جائزہ یہاں پیش کیا گیا ہے ان میں جارج اے۔ گریرسن، جان ایف۔ کی، سنیتی کمار چٹرجی، امرت رائے، الوک رائے اور بال گووند مشر کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ہندی مصنفین میں چندر دھر شرما گلیری، ایودھیا پرشاد کھتری اور دھیریندر ورما کی تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔
اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ شمالی ہندوستان کے جن علاقوں میں عرصۂ دراز سے اردو زبان رائج تھی، انھیں علاقوں میں تاریخ کے ایک مخصوص دور میں دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی زمانۂ حال کی ہندی جسے “ناگری ہندی” کہتے ہیں، کا ارتقا عمل میں آیا۔ اس کے اسباب لسانی سے زیادہ فرقہ وارانہ (Sectarian) تھے جن کی جڑیں ہندو احیاء پرستی میں پیوست تھیں۔ بعد میں انھیں عوامل نے “ہندی، ہندو، ہندوستان” کے نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں کے مذہبی اکثریتی طبقے نے دیوناگری رسمِ خط کی شکل میں اس نئی زبان کو تقویت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں اردو چشم زدن میں محض ایک اقلیتی طبقے کی زبان بن کر رہ گئی، اور 1947ء میں ملک کی تقسیم نے اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔
اردو کی بنیاد بلاشبہ کھڑی بولی پر قائم ہے۔ اس زبان کا باقاعدہ آغاز دہلی اور مغربی اتر پردیش (مغربی یوپی) میں ہوا، کیوں کہ کھڑی بولی علاقائی اعتبار سے مغربی یوپی کی بولی ہے۔ مغربی یوپی کا علاقہ بہ جانبِ شمال مغرب دہلی سے متصل ہے۔ اردو بشمولِ دہلی انھیں علاقوں میں بارھویں صدی کے اواخر میں معرضِ وجود میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی پر 1193ء میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط قائم ہوتا ہے اور ترکوں، ایرانیوں اور افغانوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکِ وطن کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والوں میں پنجابی مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی کیوں کہ یہ لوگ پنجاب سے ہی نقلِ مکانی کر کے دہلی پہنچے تھے۔شمالی ہندوستان میں اس نئے سیاسی نظام کے قیام کے دور رس نتائج مرتب ہوے اور یہاں کا نہ صرف سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، بلکہ اس کے اثرات یہاں کی سماجی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی پر بھی پڑے۔ یہ تبدیلیاں لسانی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ چنانچہ بعض وجوہ کی بنا پر کھڑی بولی کو، جو دہلی کے شمال مشرقی خطے میں یعنی مغربی یوپی میں رائج تھی، تقویت حاصل ہوئی اور اس کا چلن نہ صرف دہلی کے گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں نیز عوامی سطح پر ہو1، بلکہ دھیرے دھیرے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہو گئی۔ نووارد مسلمانوں اور مقامی باشندوں (جن کی یہ بولی تھی) کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہوئے جس سے اس میں “نکھار” پیدا ہو گیا۔ کھڑی بولی کے نکھار کا یہ زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ یا اسلوب کو “ہندی”، “ہندوی” اور “ریختہ” کہا گیا اور اسی کو بعد میں “زبانِ اردوئے معلیٰ”، “زبانِ اردو” اور بالآخر “اردو” کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس لسانی عمل میں ہریانوی بولی نے تقویت پہنچائی جو کھڑی بولی کی طرح(ا) یعنی الف پر ختم ہونے والی بولی ہے۔ اگر چہ لسانی اعتبار سے دہلی ہریانوی بولی کے حدود میں واقع ہے،لیکن ہریانوی بنیادی طور دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں قدیم اردو کی تشکیل میں کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کا بھی ہاتھ بتاتے ہیں۔ ہریانوی کے یہ اثرات بعد میں زائل ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک لسانیاتی حقیقت ہے کہ ہر زبان اولاً محض ایک “بولی”(Dialect) ہوتی ہے جس کا دائرۂ اثرورسوخ ایک چھوٹے سے علاقے یا خطے تک محدود ہوتا ہے۔ جب یہی بولی بعض ناگزیر اسباب اور تقاضوں کے ماتحت جن میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی تقاضے شامل ہیں، اہم اور مقتدر بن جاتی ہے اور اس کا چلن عام ہو جاتا ہے اور یہ اپنی علاقائی حد بندیوں کو توڑ کر دور دراز کے علاقوں میں اپنا سکہ جمانے لگتی ہے تو “زبان” کہلاتی ہے۔ پھر اس کا استعمال ادبی نیز دیگر مقاصد کے لیے ہونے لگتا ہے اور اس کی معیار بندی (Standardisation)بھی عمل میں آتی ہے جس سے یہ ترقی یافتہ زبان کے مرتبے تک پہنچ جاتی ہے۔اردو جو ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان ہے، اس کی کُنہ میں یہی کھڑی بولی ہے اور یہی اس کی بنیاد اور اصل واساس ہے۔ ہند آریائی لسانیات کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کھڑی بولی کی ہی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے بعد میں اس پر نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں کے اثرات پڑے ۔ یہ ایک تاریخی اور لسانی حقیقت ہے کہ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ کو سب سے پہلے نووارد مسلمانوں اور ان کے بعد کی نسلوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اسے نکھارا، سنوارا اور جِلا بخشی جس سے یہ زبان اس لائق بن گئی کہ اسے ادبی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے، چنانچہ اس زبان کا ادبی استعمال بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی کیا۔
چوں کہ کھڑی بولی کا اردو کے ساتھ ماں اور بیٹی کا رشتہ ہے اور کھڑی بولی شورسینی اپ بھرنش سے پیدا ہوئی ہے، لہٰذا اس رشتے کی وجہ سے اردو ایک ہند آریائی زبان قرار پاتی ہے۔ کھڑی بولی کا براہِ راست تعلق شورسینی اب بھرنش یا مغربی اپ بھرنش سے ہے جو وسطی ہند آریائی دور (500 قبلِ مسیح تا 1000 سنہِ عیسوی) کی آخری یادگار ہے۔ شورسینی اپ بھرنش ( مغربی اپ بھرنش) بشمولِ دہلی اور پنجاب شمالی ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں رائج تھی۔ 1000 سنہِ عیسوی تک پہنچتے پہنچتے اس نے دم توڑ دیا اور اس کے بطن سے متعدد بولیاں معرضِ وجود میں آئیں جو انھیں علاقوں میں رائج ہوئیں جہاں شورسینی اپ بھرنش بولی جاتی تھی۔ انھیں بولیوں میں سے ایک بولی “کھڑی بولی” کہلائی جس کا ارتقا دہلی اور دہلی کے شمال مشرقی علاقے یعنی مغربی اتر پردیش (مغربی یوپی) میں ہوا جس نے بعد میں نکھر کر ایک نیا روپ اختیار کر لیا۔ کھڑی بولی کا یہی نیا اور نکھرا ہوا روپ “ہندی” اور “ہندوی” کہلایا جو ہماری آج کی “اردو” کے قدیم نام ہیں۔ شورسینی اپ بھرنش سے پیدا ہونے والی دیگر بولیاں ہریانوی، برج بھاشا، بندیلی اور قنوجی ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں رائج ہوئیں۔ جارج گریرسن نے اپنےLinguistic Survey of India(لسانیاتی جائزہ ہند) میں ان پانچوں بولیوں کو” غربی ہندی” کے نام سے موسوم کیا ہے۔مغربی ہندی کسی مخصوص زبان کا نام نہیں، بلکہ انھیں پانچوں بولیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ان کے علاوہ پنجابی اور گجراتی زبانوں کا تعلق بھی شورسینی اپ بھرنش ہے کہ یہ زبانیں بھی 1000 سنہِ عیسوی کے بعد شورسینی اپ بھرنش کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہیں۔
ANS 02
علامہ سید سلیمان ندوی (22 نومبر 1884 ۔ 22 نومبر 1953) مرحوم ایک مایۂ ناز عالمِ دین، اسلامی تاریخ کے ماہر اور زبان و ادب کے محقق و ناقد ہیں۔ ان کا اصل میدان تو اسلامی تاریخ ہے اوراردو ادب سے ان کا تعلق ثانوی ہے۔ تاہم اس باب میں بھی ان کا نام بڑی عظمت سے لیا جاتا ہے۔
اس نقطے پر تو تما م اربابِ نظر متفق نظر آتے ہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی اسلامی علوم کے ماہر اور اس کے اسرار و رموز سے واقف و با خبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی جیسی تاریخ ساز ہستی کی شاگردی نصیب ہوئی، پھربعد میں یہی شاگرد شبلی کے علوم و معارف کا حقیقی وارث و امین بھی ٹھہرا۔ شبلی 1914 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کی وفات کے بعد نومبر 1914 کو دارالمصنّفین اعظم گڑھ کی بنیاد ڈالی گئی اور جولائی 1916 میں سید صاحب نے ماہنامہ ’معارف‘ کے اجرا کی شکل میں اپنے استاذ کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جس کا شاندار سلسلہ اب ایک صدی عبور کرنے کو ہے۔ علامہ شبلی کا ایک عظیم خواب ’سیرت النبیؐ‘ کی تکمیل بھی ہے۔ اس کے علاوہ سیرتِ عائشہؓ، حیاتِ شبلی، حیاتِ امام مالک، خیام، تاریخِ ارض القرآن، اور ایک معروف اسکول ٹیکسٹ بک رحمتِ عالم وغیرہ ندوی صاحب کی علمی، تحقیقی اور تاریخی قد آوری کی زندہ تصویریں ہیں۔
نقوشِ سلیمانی کا شہرہ اس لیے بھی ہے کہ اردو زبان کے آغاز کے سلسلے میں سید صاحب کا جو ’ نظریۂ سندھ ‘ ہے،اس کا انکشاف پہلی بار اسی کتاب کے ذریعے ہوا۔ سید صاحب اپنے اس دعویٰ کے پیچھے مضبوط دلائل بھی رکھتے ہیں۔فرماتے ہیں: ’’ مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں، اس لیے قرینِ قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ اسی وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔ ‘‘(نقوشِ سلیمانی، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ (1993) چوتھا ایڈیشن،ص31)
یہ الگ بحث ہے کہ اس باب میں ان کے اس نظریے کو زیادہ اعتبار حاصل نہیں ہے لیکن سرے سے اس نظریے کو مسترد کرنا بھی آسان نہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا خیال ہے : ’’ اردو زبان کے آغاز اور ابتدائی نشوو نما سے وابستہ مباحث کے لحاظ سے بیشتر ماہرینِ لسانیات میں اسے کسی خاص خطے سے مشروط کرنے کا رجحان قوی تر نظر آتا ہے۔ چنانچہ پنجاب، دکن، اور سندھ کو اردو کی جنم بھومی ثابت کر نے کے لیے جو نظریات پیش کیے گئے انھیں خصوصی شہرت حاصل ہے بلکہ بیشتر لسانی مباحث بھی انھیں نظریات کی ضمنی پیداوار قرار پاتے ہیں‘‘۔ (اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی (2013) دوسرا ایڈیشن، ص63-64)
عرب و ہند کے تعلقات بھی چوں کہ سید صاحب کا موضوع رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کی ایک مستقل کتاب ’’ عرب و ہند کے تعلقات ‘‘بھی ہے۔ اس لیے وہ اپنے ’نظریۂ سندھ‘ کی دلیل یوں پیش کرتے ہیں: ’’ ایک ایسا ملک جو مختلف نسلوں، مختلف قوموں، مختلف زبانوں کا مجموعہ تھا، نا گزیر ہے کہ وہاں باہمی میل جول کے بعد ایک زبان پیدا ہو۔ وہ پیدا ہوئی اور اسی کا نام اردو ہے‘‘۔ (نقوش،ص5)
سید صاحب کا خیال ہے کہ اردو کا نام اردو بھی غلط ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ ہندوستان کی اس مشترک زبان کو اردو کہنا، میں اصطلاح کی غلطی سمجھتا ہوں۔ اردو کے ابتدائی مصنّفین نے اس کو ہمیشہ ہندی کہا ہے اور انگریزوں کی زبان میں اب تک اس کا نام ’’ ہندوستانی‘‘ ہے‘‘۔( نقوش،ص7)اسی کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ اس زبان کا نام ’ اردو‘ تیرہویں صدی کے اوائل کی بات ہے یعنی آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پہلے کا یہ نام ہے۔
سید سلیمان ندوی اس بات پربہت مصرنظر آتے ہیں کہ ہندوستان کی مشترکہ زبان کا نام اردو غلط ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح عرب کی زبان عربی، چین کی زبان چینی،جاپان کی جاپانی اور روس کی زبان روسی کہلاتی ہے اسی طرح ہندوستان کی اس مشترکہ زبان کا نام بھی ہندوستانی ہونا چاہیے۔ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک شائستہ اور مہذب زبان کا خاصہ ہے کہ اس کے نام لینے کے ساتھ وہ قوم یا ملک سننے والے کی سمجھ میں آجائے۔… لفظِ اردو سے اس قسم کی کوئی مدد ذہنِ انسانی کو نہیں ملتی اس لیے اس کی جگہ اس کے اصلی نام ’ہندوستانی‘ کو رواج دینا چاہیے‘‘۔( نقوش،ص105)
انھوں نے اس سلسلے میں اہلِ وطن کے سامنے بڑی قیمتی تجاویز بھی رکھیں اورانھیں نظر انداز کرنے کی صورت میں اس کے خطرناک انجام سے بھی آگاہ کیا۔سید صاحب اس ہندوستانی کے قائل تھے جس کا رسمِ خط فارسی تھا لیکن وہ اس بات کے سخت مخالف تھے کہ اس پیاری اور شیریں زبان کو عربی وفارسی اور سنسکرت کے بھاری بھرکم الفاظ سے بوجھل کر دیا جائے۔ ’ہماری زبان بیسویں صدی میں‘ میں سید صاحب نے پورے ملک میں اردو زبان کی وسعت و ترقی، مختلف تحریکوں کے زیرِ اثر اردو زبان و ادب کے قائم ہونے والے نئے نئے جزیروں، اردو کی جامعات اور اداروں، اردو کو عالمگیر حیثیت عطا کرنے میں دینی مدارس کے کرداروں اور مختلف اردو اخبار ات و رسائل کے اجرا کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اخیر میں مختلف موضوعات پر مشتمل اردو کی مطبوعہ کتابوں کی ایک طویل فہرست بھی درج کی گئی ہے۔
ایسے ہی مشمولہ ’ہماری زبان‘ میں بھی اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی سید صاحب نے پر زور وکالت کی ہے۔ یہ مضمون در حقیقت اردو ہندی تنازع کے سلسلے میں اردو کے خلاف اٹھائے گئے چند سوالات کا جواب ہے جس میں سید صاحب نے بڑی دردمندی کے ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر اس مشترکہ وراثت ’ہندوستانی‘ کو نظر انداز کیا گیا تو ملک کے ہزار سالہ تہذیب و تمدن کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔
سید صاحب کے خطبات کی روشنی میں اردو زبان کے تئیں ان کے نظریات کے ذکر کے بعد اب ان کی تحقیق و تنقید کی طرف قلم کا رخ موڑا جاتا ہے۔ سید صاحب نے اپنے تحقیقی مقالات اور تقریظ و مقدمے میں جو ادبی گفتگو یا آرا پیش کی ہیں انھی تحریروں کے تناظر میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مقام و مرتبے کو متعین کرنے کی سعی کی جائے گی۔
مقالات کے ضمن میں پندرہ مضامین شاملِ کتاب ہیں۔ ان میں بیشتر مضامین کا رنگ تحقیقی ہے۔ ان کے خطبات کا رنگِ تحقیق بھی خاصا شوخ ہے لیکن خطبات کے مقابلے میں مقالات زیادہ مفصل اور مدلل ہیں۔ متذکرہ مقالات میں ’اکبر کا ظریفانہ کلام‘، ’ ہاشم علی کا مجموعۂ مراثی ‘ کے سوا بقیہ کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ تحقیق ہی سے ہے بطورِ خاص ’بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘‘ (بالاقساط ) ’ تہنید‘ اور ’ جواہر الاسرار میں کبیر کی بات چیت‘۔ ان مقالات میں ’انڈیا آفس لائبریری میں اردو کا خزانہ‘ کو سفرِ انگلینڈ کا اور ’ سفرِ گجرات کی چند یادگاریں ‘ کو سفرِ گجرات کا رپورتاژ کہنا چاہیے۔
’’ انجمن اردوئے معلی کے چند سوالوں کا جواب ‘ اور ’زبانِ اردو کی ترقی کا مسئلہ‘۔اردو ہندی تنازع کے تصفیے اور اردو کو قومی زبان کا مقام دینے کے سلسلے میں رشید احمد صدیقی نے مختلف اصحابِ نظر اور دانشوران سے چند سوالات کیے تھے۔ سوالنامہ سید صاحب کے پاس بھی آیا تھا۔ اول الذکر انھیں سوالات کے جواب پر مشتمل مضمون ہے۔ کسی بھی زبان کی ترقی کے حوالے سے پروفیسر براؤن ( مستشرق ) نے چند معروضات پیش کیے تھے۔ ان ہی معروضات کی روشنی میں مہدی حسن صاحب نے دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سامنے کچھ تجاویز رکھی تھیں۔ آخر الذکر اسی تجویزی خط کا مدلل جواب ہے۔اس سے قبل سید صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اردو میں ایک جامع انسائیکلو پیڈیا تیار کرنے کی تجویز ر کھی تھی اور اردو ادب میں انسائیکلو پیڈیا کا یہ تصور شاید پہلا تھا۔ اس کی ترتیب کی معقول دلیل بھی انھوں نے پیش کی تھی لیکن قوم کی بہت سی محرومیوں کے ساتھ ایک اور محرومی کا اضافہ ہوا کہ سید صاحب کا یہ خواب خواب ہی رہا۔ مہدی حسن صاحب کو انھوں نے اس مضمون کا بھی حوالہ دیا کہ بازار میں ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکام رہا اس لیے کہ پروفیسر براؤن کے یہ مشورے یہاں کی فضا کے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں :
’’ ہمارے نزدیک یہ اس وقت تک ناقا بلِ عمل ہیں جب تک ملک میں اس کی مانگ اور اس کی قدر دانی کا جذبہ نہ پیدا ہو ‘‘۔ ( نقوشِ سلیمانی، ص 184)
اپریل 1692 میں شاید کانگریس کی طرف سے ’ہوم رول ‘ کی تجویز آئی تھی تو سید صاحب نے یہ مضمون ’’ ہوم رول سے پہلے ہوم لنگوئج‘‘ تحریر کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ہوم رول کے تخیل سے پہلے کم از کم ساتھ ساتھ ہوم لنگوئج کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔( نقوش،ص194) اس مضمون میں بھی ملکی زبان میں تعلیم دیے جانے پر سید صاحب نے خاصا زور دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ہمارے نزدیک تو صرف اس کا علاج اردو زبان ہے جس کی عملاً ہمہ گیری اور عمومیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ (نقوش،ص197-98) ’اردو کیوں کر پیدا ہوئی ‘ میں السنۂ عالم کے جملہ خاندانوں کا جائزہ لیا گیا ہے، اردو کی پیدائش کے اسباب و عوامل اور پس منظر سے بھی بحث کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ اسلامی عہد کی ادبی تاریخ کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مخلوط زبان سندھ، گجرات، اودھ، دکن، پنجاب اور بنگال ہر جگہ کی صوبہ وار زبانوں سے مل کر ہر صوبے میں الگ الگ پیدا ہوئی‘‘۔ (نقوش،ص251) ایک لسانی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ ہر زبان تین قسم کے لفظوں سے بنتی ہے۔اسم، فعل، حرف۔ اس بولی میں جس کو اب اردو کہنے لگے ہیں، فعل جتنے ہیں وہ دہلوی ہندی کے ہیں۔ حرف جتنے ہیں ایک دو کو چھوڑ کر وہ ہندی کے ہیں البتہ اسم میں آدھے اس ہندی کے اور آدھے عربی،فارسی، اور ترکی کے لفظ ہیں‘‘۔ ( نقوش،ص255)
اردو لسانیات کے باب میں یہ مضمون بہت وقیع ہے۔ یہ خیال کہ سید صاحب علمِ لسانیات سے سرے سے واقف نہیں تھے زیادہ صحیح نہیں ہے البتہ عالمی سطح پر لسانیات کی مہارت ان کے یہاں ڈھونڈنا مشکل ہے تاہم مشرقی زبانوں بطورِ خاص عربی، فارسی اور ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں میں سید صاحب کو دسترس حاصل تھی اور وہ بحسن و خوبی ان زبانوں کی باریکیوں سے با خبر تھے۔ ’بہار کے نو جوان اور ادب کی خدمت‘ کو اَسّی سال قبل کی اردو ادب کی تاریخ کا ایک اہم جز قرار دیا جاسکتا ہے۔ آٹھ دہائیوں پہلے کا لکھا ہوا یہ ایک تجزیاتی مضمون ہے لیکن آج کے تناظر میں بھی اگر اس مضمون کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سید صاحب کے پیش کردہ یہ سارے نکات اور مفید مشوروں کی معنویت علیٰ حالہ برقرار ہے۔ نئے شعرا و ادبا کے لیے انھوں نے جو رہنما خطوط پیش کیے تھے وہ سب کے سب آج بھی منتظرِ عمل ہیں۔
’ بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘ دو قسطوں کا ایک طویل مضمون ہے جس میں بالدلیل قدیم الفاظ کی دل چسپ تحقیق پیش کی گئی ہے۔ علامہ ندوی کو چوں کہ عربی، فارسی اور انگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا اور اردو تو ان کی مادری زبان تھی اس لیے لفظوں کی تحقیق میں مزید دلکشی پیدا ہو گئی ہے۔ ’ تہنید‘ کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے بلکہ بعض اعتبار سے یہ مضمون اول الذکر سے زیادہ جامع اور پر لطف ہے۔ ’ تہنید‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ عربی، فارسی اور سنسکرت سے ’ہندوستانی‘ تک کس طرح لفظوں کا سفر طے ہوا اور بالآخر یہا ںآکر ان کی حتمی شکل کیا بنی۔ اس باب میں سید صاحب کا خیال یہ ہے کہ جس طرح سے ایک مہاجر ہجرت کر کے جس خطۂ ارضی کو اپنا مستقل مسکن بناتا ہے اور اسے وہیں کے قانون کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے اسی طرح لفظوں کی ہجرت کا حال ہے۔ اس ردو بدل اور شکست و ریخت کو سید صاحب نے ہر زندہ زبان کا حق قرار دیا ہے۔
’ اکبر کا ظریفانہ کلام ‘ میں علامہ مرحوم نے اکبر الٰہ آبادی کی ظریفانہ شاعری پر بھر پور گفتگو کی ہے۔ اہلِ ادب واقف ہیں کہ اکبر مرحوم نے ہندی معاشرے کو مغربی طرزِ زندگی کی خرابیوں سے آگاہ کر کے اس کے نقصانات سمجھائے بلکہ مغرب کا کھلم کھلا مذاق بھی اڑایا۔ سید صاحب نے اپنے سات نکات کے ذریعے اکبر کی شعری خصوصیات و امتیازات کو بیان کیا ہے اور مثالوں کے ذریعے کلامِ اکبر کی تفہیم کو آسان کرنے کی خوب صورت کوشش کی ہے۔ ’جواہر الاسرار میں کبیر کی بات چیت‘ یہ ایک تشنہ اور ادھورا تاثراتی مضمون ہے۔ ’ہاشم علی کا مجموعۂ مراثی‘ یہ مضمون بظاہر ہاشم علی کے مرثیوں کے مجموعے پر ایک تبصراتی مضمون ہے لیکن اس ضمن میں سید صاحب کی دکنی زبان پر دسترس اور اس پر گہری نظر کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔
اردو میں تعمیری ادب میں بھی سید صاحب کا نام نمایاں ہے۔ غیر افسانوی نثر میں سوانح نگاری اور سفرنامہ نگاری میں بطورِ خاص انھوں نے اپنی توجہ صرف کی۔ ادبی صحافت سے بھی ان کی گہری وابستگی رہی ہے جس کی گواہی ’معارف ‘ اعظم گڑھ سے بآسانی لی جاسکتی ہے۔ انورسدید مرحوم نے انھیں شبلی اسکول کا رکنِ رکین قرار دیا ہے۔ انور سدید لکھتے ہیں : ’’ وہ اعلیٰ پائے کے نقاد تھے۔ حالی و شبلی، جگراور شاد پر ان کے مضامین جمالیاتی تنقید کی مثالیں ہیں ‘‘۔ ( تاریخِ اردو ادب،ص387)
سید صاحب کی اس کتاب میں مکتوب نگاری پر بھی دو اہم مضامین شامل ہیں۔اول ’مکاتیبِ شبلی‘ دوسرا ’مکاتیبِ مہدی‘۔ اول الذکر میں شبلی کے اولین مجموعۂ خطوط کی جمع آوری اور خطوط کی خصوصیات و امتیازات پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔ آخر الذکر میں خط کی تاریخ و تعریف اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے مہدی افادی کے خطوط کے امتیازات بھی بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ مرحوم کا قلم حد سے زیادہ چلبلا اور البیلا تھا۔ نوکِ قلم پر جو بات آگئی وہ نا گفتنی بھی ہوتی تو گفتنی ہو کر نکل جاتی اور پھر اس طرح نکلتی کہ شوخی صدقہ ہوتی اور متانت مسکراکر آنکھیں نیچی کر لیتی‘‘۔ ( نقوش،ص: 385)لیکن کہیں کہیں سید صاحب کا قلم تنقید کرتے کرتے ذاتی یادوں اور محبت و عقیدت کی سرحد میں جا گھستا ہے جو تنقید کے مزاج کے خلاف ہے۔اس کے با وجود یہ مضمون سید صاحب کی تنقیدی بصیرت کا واضح ثبوت ہے اور اردو مکتوب نگاری کے باب میں ایک خاصے کی چیز بھی۔
عبادت بریلوی نے سید صاحب کی عملی تنقید پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ سید سلیمان ندوی کی عملی تنقید کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاعری کی خصوصیات تو بیان کر دیتے ہیں لیکن اس سلسلے میں محض اصولوں سے کام نہیں لیتے۔ اسی وجہ سے کوئی معقول تجزیہ ان کے یہاں نہیں ملتا‘‘۔ ( اردو تنقید کا ارتقا، ص269)
حق یہ ہے کہ سید صاحب کا اصل میدان تحقیق ہے خواہ اس کا تعلق ادب سے ہو یا تاریخ سے، تاہم اردو تنقید میں بھی وہ اپنی ایک نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ مشرقی تنقید کے حوالے سے عبادت بریلوی خود لکھتے ہیں : ’’ تنقید کی مشرقی اصطلاحات سے وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں ضرور کام لیتے ہیں۔ فصاحت و بلاغت، تشبیہات و استعارات، لطافت و روانی، بے ساختگی، آمد، آورد، جدتِ ادا، غرض یہ کہ اس قسم کی تمام اصطلاحات ان کی تنقید میں ملتی ہے۔ کہیں کہیں انھوں نے سادگی اور جوشِ بیان وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی عہدِ تغیر کی تنقید سے متأثر ہیں‘‘۔ (اردو تنقید کا ارتقا، ص269)
حالی کی مسدس ایک نظم ہی نہیں اسے مسلم معاشرے کے مختلف طبقوں میں در آنے والی خرابیوں کی اصلاح کا ایک جامع انسا ئیکلو پیڈیا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سید صاحب لکھتے ہیں کہ حالی نے روایت سے بغاوت کر کے اردو شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ’مسدس حالی‘ یہ مضمون در اصل مسدس پر لکھا سید صاحب کا دیباچہ ہے۔ مسدس کا اتنا خوب صورت تجزیہ شاید ہی اس سے قبل کسی نے کیا ہو۔ اس مضمون میں مسدس کی تالیف کے پس پردہ اس کے اسباب و محرکات، مقاصد اور موضوعاتی و فنی پہلو سے اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس تجزیاتی مضمون کے مطالعے سے حالی کے مسدس پڑھنے کا اشتیاق مزید بڑھ جاتا ہے اور جو اس کا مطالعہ کر چکا ہے اس کے دل میں دوبارہ اس کے پڑھنے کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے۔ سید صاحب نے کلام شاد پر جو مقدمہ تحریر کیا ہے وہ ایک انتہائی تشنہ تبصراتی مضمون ہے۔ وہ شاد کو ایک عظیم شاعر ضرور تسلیم کرتے ہیں تاہم مدلل انداز میں ان کے کلام پر گفتگو کرنے سے سید صاحب کا قلم جھجھک محسوس کرتا ہے۔ اس کی وجہ بھی سید صاحب خود ہی ’عدیم الفرصتی‘ بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس پر اظہارِ افسوس بھی کرتے ہیں کہ اب تک ’ کلیاتِ شاد ‘ منظرِ عام پر نہیں آپایا ہے لیکن اس سے وہ مایوس بھی نہیں ہوتے۔چناں چہ سید صاحب کی وفات کے 22 سال بعد 1975 میں بہار اردو اکادمی کے زیرِ اہتمام کلیم الدین احمد نے تین ضخیم جلدوں میں کلیاتِ شاد مرتب کر کے شائع کیا۔
’ شعلۂ طور‘ یہ جگر مراد آبادی کا شعری مجموعہ ہے۔ ’تعارف نو وارد شاعر‘ یہ مضمون در اصل اسی مجموعے کا دیباچہ ہے۔ اس میں تنقید کم اور تعارف و تبصرہ زیادہ ہے۔ جگر کا تعارف کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں : ’’ جگر شاعر ہے مگر کیسا شاعر؟ تنہا شاعر، بلکہ ہمہ شاعر، ان کا طرز ابنائے زمانہ کے طرز سے الگ، لکھنؤ اور دہلی دونوں حکومتوں سے آزاد، موزوں الفاظ اور دل کش ترکیبوں کے با وجود بے ساختگی اور آمد سے معمور، ہر تکلف، تعمق اور آورد سے پاک، طلسمِ الفاظ سے خیالات کی ایک دنیا بناکر کھڑی کر دینے والا ‘‘۔ ( نقوش،ص429) یہ تحریر جگر اور کلامِ جگر کے مختصر تعارف پر مشتمل ہے اور انداز ایسا کہ اسے جگر کا خاکہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ’ خیابان‘ یہ تحریر محمود اسرائیلی کے مجموعۂ غزل ’خیابان ‘ کا مقدمہ ہے۔ اس میں غزل گوئی پر سید صاحب نے بڑی عمدہ بحث کی ہے۔ فنِ غزل پر گفتگو کرتے ہوئے معاصر شاعری کے بدلتے ہوئے منظر نامے کا جائزہ بھی لیا ہے اور ساتھ ہی اسرائیلی کی شاعری کو شبلی و ظفر علی خان اور اقبال کے رنگِ سخن کا حسین سنگم قرار دیا ہے۔ یہاں بھی تنقید کے بجائے تقریظ کا رنگ غالب ہے۔ ’کلیاتِ عشق‘ ایک طویل مضمون ہے جو شاہ رکن الدین عشق عظیم آبادی کے کلیات کا مقدمہ ہے۔ عشق صاحب ایک صوفی شاعر تھے۔ اس دیباچے کا تقریباً نصف حصہ تصوف اور اس کے مختلف سلسلوں کے بیان میں صرف کیا گیا ہے۔ نصفِ ثانی میں بھی آدھا حصہ کلامِ عشق پر معروضی گفتگو کی گئی ہے اور بقیہ حصے میں عشق و جذب سے معمور شاعر کے اشعار درج کیے گئے ہیں۔
’ خمستان‘ عبد السمیع مآل اثر صہبائی کا مجموعۂ کلام ہے۔ صہبائی پنجاب کے معروف شاعر تھے اور مختلف اصنافِ شاعری میں طبع آزمائی کے ساتھ رباعی گوئی میں سندِ امتیاز رکھتے تھے۔ ’ خمستان ‘ ہی کے عنوان سے سید صاحب نے اس کا دیباچہ تحریر کیا تھا۔ اس میں انھوں نے شاعر کے گرد و پیش کے حالات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کے کلام پر خاطر خواہ گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں : ’’صہبائی کے فطری شاعر ہونے میں کلام نہیں، ان کا دل عشق و محبت سے لبریز اور نالۂ و شیون سے معمور ہے‘‘۔ (نقوش، ص434) اس میں نو جوان شعرا کو کچھ مشورے اور پنجاب کے دیگر شعرا کا بھی مختصراً ذکر کیا ہے۔
’ گلستانِ امجد ‘ کے بشمول اخیر میں دو مضامین اور ہیں۔ ’عطرِ سخن ‘ اور ’ حقیقتِ علمی شاعری ‘جو انتہائی سرسری اور تشنہ ہیں۔ الحاصل علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم جہاں ایک طرف جہاں دیدہ عالمِ دین اور اسلامی علوم کے ماہر و دانشور تھے وہیں علم و قلم کے شناور بھی۔ ان کے قلم سے علم و ادب کے کئی آبشار نکلے ہیں اور تشنگانِ علم و ادب نے ان سے اپنی پیاس بجھائی ہے۔
ANS 03
پنجاب ہندوستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مختلف ادوار میں اس خطے کا نام تبدیل ہو کر اب ”پنجاب” نام سے جانا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کے دو لفظوں ”پنج” اور ”آب” کا مرکب ہے اس کا مطلب ہے پانچ پانیوں کی دھرتی اور وہ پانچ آب یا دریا ہیں ستلج،راوی،بیاس،چناب اور جہلم۔پروفیسر ناشر نقوی لکھتے ہیںکہ:
”اِس دھرتی کو خدا نے پانچ دریائوں کی نعمتوں سے سرفراز کیا اور اِن دریائوں کو اس قدرسیراب رکھا کہ حرص و ہوس کی پیاس انکے قریب سے بھی نہ گزر سکی۔” ١
خطہ پنجاب تہذیبی، تاریخی اور ادبی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامِل ہے۔ پنجاب ایک مشترکہ تہذیب و کلچر کی علامت ہے اور اس مشترکہ کلچر میں صوفیوں، سنتوں اور سِکھ گوروصاحبان نے اہم کردار نبھایا ہے جیسے بابا فرید، بُلھے شاہ، شاہ حسین وغیرہ یہ وہ صوفی بزرگ تھے جنھوں نے اپنے کلام میں وحدت، اخوت، بھائی چارگی، ہمدردی انسانیت جیسی عظیم صفات کا درس دیا۔سِکھ مذہب کی مقدس کتاب گورو گرنتھ صاحب میں جن شعراء کا کلام موجود ہے ان میں مسلمان بزرگ بابا فرید، ہندوسنت کبیر اور نامدیو بھی شامل ہیں۔یہ صوفی سنت، درویش گوروصاحبان سر زمینِ پنجاب میں اتنے ہر دلعزیز ہوئے کہ ان سب کے پیغامات پنجاب کی شناخت بن گئے۔عباداﷲ لکھتے ہیںکہ:
”گورو گرنتھ صاحب میں اُردو زبان کی جو شکل و صورت ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گورو صاحبان اور وہ شعراء جن کا کلام اِس میںشامل ہے نے اپنے خیالات کی تبلیغ کے لئے اس زبان کا بھی سہار ا لیا۔”٢
اس خطہ میں ہندو، مسلم،سِکھ، عیسائی سب بغیر مذہبِ ملت پنجاب کے مشترکہ کلچر کو آپسی رواداری اور بھائی چارگی کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔ اس مشترکہ کلچر کے مختلف عناصر میں قومی جذبہ حبُ الوطنی، جذبہِ ایثار و قربانی، ایک دوسرے کا احترام پنجاب اور پنجابیت کی شناخت بنے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر جسبیر سنگھ اہلووالیہ کہتے ہیں:
”سرزمینِ پنجاب کو گیان اور دھیان کی دھرتی کہا جاتا ہے۔یہاں کے منفرد کلچر یہاں کے گیت اور سنگیت یہاں زندگی کو جی بھر کے جینے کی خواہش اور یہاں چونکا دینے والی فکر و نظر پنجاب کے لئے ہی نہیں پورے ہندوستان کے لئے باعث فخر ہے۔” ٣
اُردو اور پنجاب کا گہرا رشتہ شروع ے ہی رہا ہے۔اُردو کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنے کلام میں اہلیان پنجاب کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔علا مہ اقبال بھی پنجاب کا ذکر گورو نانک دیو جی کے حوالے سے اس طرح کرتے ہیں:
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا تھا خواب سے
پنجاب کے مشترکہ کلچر نے ہندوستان کو پنجابی زبان کے ساتھ ساتھ اُردو زبان سے بھی مالا مال کیا۔ جس کے متعلق اکثر ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اُردو کی اصل جائے پیدائش پنجاب ہی ہے۔ پنجابی اور اُردو زبان میں کثیر الفاظ مشترکہ بھی پائے جاتے ہیں۔اُردو ہندوستان کی وہ قدیم زبان ہے جو نئے ہندآریائی دور میں شروع ہو کر پورے ملک میں پھلی پھولی ہے۔ ابتدا میں اِسے ہندوی ‘اور ہندی’ کے نام دیئے گئے لیکن اِس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اُردو زبان پنجاب میں پیدا ہوئی اور یہی جوان ہوئی اِس زبان کی ترویج و ترقی میں سب سے نمایاں خدمات پنجاب کے قلم کاروں کی رہیں ہیں۔پروفیسر نصیر الدین ہاشمی کی معرکتہ الآرا کتاب ” پنجاب میں اُردو” اِس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔پروفیسر نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیںکہ:
”اُردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہیدونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانیہوگئی ہیں تب اِن میں جدائی واقع ہوتی ہے۔”٤
اُردو چونکہ پنجاب میں پیدا ہوئی اِس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو پنجابی کے مماثل ہو یا اُس کی قریبی رشتہ دار ہو۔ بہر حال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوتے ہیں جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے بات کرسکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے۔پروفیسر نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیںکہ:
”خضر خاں کی تمام فوج پنجاب سے تعلق رکھتی تھی جس طرح کہ وہ خود پنجابی تھے اور جب وہ بادشاہ بن گیا تو ظاہر ہے کہ دہلی کی زبان پر پنجاب کا ترمجدداً ہوگیا۔”٥
پنجاب ہر میدان میں اپنی برتری منواتا رہا ہے۔ علم و ادب اور تہذیب کے ارتقاء میں بھی اس علاقہ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ اُردو ادب کی تاریخ کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے ارتقائی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ پنجاب کے قلمکاروں کا ذکر کئے بغیر اُردو ادب کی تاریخ کسی طرح مکمل نہیں ہوسکتی۔ پنجاب نے اُردو شاعری اور نثر کے حوالے سے اُردو ادب کو ایسے معتبر، معتمد شاعر اور ادیب عطا کئے جنھوں نے اُردو ادب کے حوالے سے مختلف اصناف میں گراں قدر کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ شاعری کے حوالے سے اقبال، فیض، حفیظجالندھری، ساحر لدھیانوی وغیرہ ۔نثر کے حوالے سے الطاف حسین حالی،مولوی محمد حسین آزاد،شبلی نعمانی،سرسید احمد خاں،ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔علاوہ ازیں یہاں کے ادیبوں نے طنزو مزاح اور صحافت کے میدان میں معرکتہ الآرا کام انجام دیئے۔اس کے متعلق داکٹر ناشر نقوی لکھتے ہیں:
”اِس طرح جہاں پنجاب کی سر زمین یہاں کے لوگوں کے طرزِفکر اور طرزِ زندگی نے اُردو کے نقش و نگار بنانے اور انہیں سنوارنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے وہاں پنجاب کے اہل قلم نے اُردو ادب میں ان گلابوں کی مہک بھی سمودی ہے جن کی خوشبو میں پنجاب کی مٹی ہے۔”٦
پنجاب بیرونی حملہ آوروں کے لئے دروازے کا کام کرتا رہا۔آریائوں سے احمد شاہ ابدالی تک اکثر آنے والے اسی راستے سے ہندوستان داخل ہوئے ہیں۔ لہذا محمود غزنوی نے بھی پنجاب کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان کے دوسرے صوبوں اور شہروں کو اپنا نشانہ بنایا۔صرف پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ ١٩٤٧ء ہندوستان کی تاریخ کا وہ عجیب و غریب سال ہے کہ جس نے راتوں رات اس ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی ۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوگئے اور وہ زبان جو ہر خاص و عام بولتا تھا اور جس میں تمام سرکاری اور نیم سرکاری کام ہوتے تھے ،وہ غیر ملکی زبان قرار پائی۔١٩٤٧ء سے قبل پنجاب کا ماحول اُردو کے لئے نہایت ہی خوشگوار تھا۔ پنجاب اردو زبان کا و ادب کا اہم مرکز تھا۔اسکولوں اور کالجوں میں اس کا چلن تھا ۔یہ زبان روزگار سے وابسطہ تھی ۔ اُردو یہاں بولی،پڑھی،لکھی اور سمجھی جاتی تھی۔ اس زبان کو فرماروائوں کی سرپرستی حاصل تھی اور ریاستوں میں سرکاری سطح پر تمام کام اسی زبان میں ہوتے تھے۔مثلاً محکمئہ مال گزاری،انتظامی اور عدالتی کاروائی اسی زبان میں ہوتی تھی۔ساتھ ہی درباروں میں اس زبان کا کافی بول بالا تھا۔اُردو کی محفلیں سجتی تھیں،مشاعرے ہوتے تھے۔ شعراء ان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے اور اپنی تخلیقات کا جادو جگاتے تھے۔ڈاکٹر ستنام سِنگھ خمار رقمطراز ہیں :
”١٩٤٧ میں ہم نے وطن کی آزادی کا استقبال اپنی اندرونی شکست و ریخت سے کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔پنجاب کے سینے پر گہری سرخ
لکیر تراش دی گئی۔ہمارا مشترکہ کلچر سیاست کے مجنون ہاتھیوں کے بھاری قدموں کے نیچے کچل کر رہ گیا۔ذہنوں کے تعصب نے پنجاب کو کاٹ کر پاکستان بنا دیا ۔مہذب سماج کے افراد مسلم اور غیر مسلم بن کے ہجرت اور نقل مکانی کے سیلاب میں بہنے لگے۔ پاکیزہ راستوں میں دراڑیں آگئیں۔پنجاب کے مسلم اور غیر مسلم
بھائیوں کے بیچ فاصلے اور سرحدی دیوار اُبھر آئی راوی،جہلم،ستلجاور بیاس کی لہریں اب پانی کے نہیں آنسوئوں کے دریالگنے لگے۔”٧
پنجاب ہندوستان کا سرحدی صوبہ ہے ظاہر ہے کہ ہندوستان کے شمال سے جتنے بھی حملہ آور یہاں پر باہر سے آتے ان کا پہلا پڑائو پنجاب ہی میں رہا۔ حملہ آوروں کے آنے اور آکر یہاں بس جانے کا سلسلہ ایک دو بار نہیں بلکہ صدیوں رہا ہے۔ باہر کے حملہ آوروں سے پنجاب کے لوگوں نے لڑائیاں لڑیں اور دلیری کے ثبوت دئے۔بیرونی حملہ آوروں پر پنجابیوں نے اپنی تہذیب کے نقوش بھی چھوڑے اور ان کی تہذیبوں سے بھی بہت کچھ حاصل کیا ۔معاشرے میں جب تبدیلی رونما ہوتی ہے تو نئے الفاظ بھی وجود میں آتے ہیں اور پرانی زبانوں کے بہت سے لفظ خارج بھی ہوجاتے ہیں۔نصیر الدین ہاشمی رقمطراز ہیں :
”اُردو دہلی کی قدیم نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اِس لئے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھلے کر گئے ہوں۔” ٨
وہ مسلمان جو پنجاب میں داخل ہوئے۔ اور جنہوں نے جنگ و جدال سے الگ ہوکر اس دھرتی کو اپنا وطن بنایا اور انہوں نے مقامی پنجابیوں کے دلوں میں گھر کر لئے۔عوامی میل ملاپ بڑھا تو اظہار میں عمل حرکت پیدا ہونے لگا۔زبانوں اور معاشروں کے قریب آنے سے پنجاب میں ایک نئے معاشرے اور ایک نئی زبان کی تشکیل کا آغازہوا۔حقیقت یہ ہے کہ اُردو جس طرح ہندوستان کے اور صوبوں میں اسی طرح پنجاب میں برابر بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اُردو پنجاب میں پیدا ہوئی وہاں یہ بھی ایک سچائی ہے کہ تقسیم ملک کے بعد اُردو کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا جبکہ زبانیں مذہبوں کی نہیں تہذیبوں کی علامت ہوتی ہیں۔بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم لکھتے ہیں :
جو گلی کوچوں سے چلی آئی تھی ایوانوں تک
جس کی آواز پہنچ جاتی تھی انسانوں تک
کیا گلہ تم کو اس اُردو سے ہے بولو ہمدم
یہ جو محدود ہوتی جائے مسلمانوں تک
(بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم)
پنجاب کے مزاج میں مہمان نوازی کا عنصر ہمیشہ نمایاں رہاہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد تک زبانوں اور تہذیبوں کے جذب و قبول سے پنجاب گزرتا رہاہے۔ظاہر ہے کہ شروع سے یہاں مختلف اور مخلوط زبانیں بولی جاتی رہی ہیں۔ مختلف زبانوں اور بولیوں کے بولنے کا سلسلہ یہاں آج بھی جاری ہے پھر بھی پنجاب میں قومی زبان ہندی اور سرکاری زبان پنجابی ہے۔پنجاب میں مسلمانوں کی آمد سے سِکھ مذہب کے دس گوروئوں کے دور تک اور پھر برطانوی حکومت سے تقسیم درتقسیم کے ادوار اور موجودہ عہد تک جب ہم پنجاب اور اُردو کے باہمی تعلق کا جائزہ لیتے ہیں تو اُردو کی ہر ترقی پسند تحریک کے روشن تانے بانے پنجاب ہی مربوط نظر آتا ہے۔ اُردو نے پنجاب کی تہذیب یہاں کے رسم و رواج، یہاں کے عوامی مزاج ان کی متنوع زندگی کی ترجمانی بھی کی ہے۔دوسرے لفظوں میں پنجاب کے جوہر ایک طرف توخود کو پنجابی زبان میں اور دوسری طرف اُردو زبان میں منعکس کیا ہے۔آزاد گلاٹی کچھ اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ:
”سچ تو یہ ہے کہ پنجاب اپنی تمام ترثقافتی توانائی اور برنائی کے ساتھ اُردو کی رگ رگ میں جاری و ساری ہے۔
ANS 04
اردو زبان کی ابتداء اور ارتقائی مراحل تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ھے کہ قبل مسیح کے زمانےمیں ھندوستان میں مختلف قومیں آکر آباد ہوتی رہیں ہیں،جن میں سے ایک وسط ایشیا کی آریا قوم بھی تھیجس نے شمالی ھند کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس زمانے میں ھندوستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں تامل،اوڑیا،تلیگوان وغیرہ زیادہ مشہور زبانیں ہیں۔ آریا لوگ قدآور ،بہادر اور خوش شکل تھے اور انہیں اپنے حسب نسب کے علاوہ اپنی زبان پر بڑا مان تھا چنانچہ انہوں نے چند قوائدو ضوابط ترتیب دے کر اپنی زبان کو سنسکرت کا نام دیا اور اسے ایک اعلی درجے کی زبان سمجھنے لگے لیکن سنسکرت کے مخارج اور تلفظ کو مفتوح قوم زیادہ دیر قائم نہ رکھ سکی اور مختلف زبانوں کے میل سے ایک نئی زبان نے جنم لیاجسے پراکرت کہا گیا۔ تقریبا ڈیڑھ ہزار سال تک لوگ پراکرت زبان ہی بولتے رھے لیکن جب راجہ بکر ماجیتگدی پر بیٹھا تو اس نے سنسکرت زبان کو دوبارہ زندہ کرنا چاہا جو کہ دیوتائوں کی زبان سمجھی جاتی تھی،راجہ کی مدد سے بڑے بڑے پنڈت سنسکرت میں کتابیں لکھنے لگےاور سنسکرت پھر ہندوستان کی علمی زبان بن گئیتاہم عام لوگوں کی زبان اب بھی پراکرت ھی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ ااسلام کی پیدائش کے بعد تک ھندوستان میں تقریبا اکیس، بائیس پراکرت زبانیں بولی جاتی رہیں،ان میں سے ایک زبان “سوراسنی ” کا نام بدل کر (برج بھاشا) پڑ گیا،اس زبان کا دائرہ بہت وسیع تھا اور اردو زبان بھی اسی برج بھاشا کی ارتقائی شکل ھے۔ راجہ اشوک اور اردو زبان: ھندوستان کا مشہور بدھ مت کا پرستار راجہ اشوک بھی یہی زبان بولتا تھا،اس نے جنگ کی ہولناکیوں اور قتلِ عام کو دیکھتے ہوئےبدھ مت اختیار کر لیااور جنگ سے توبہ کر لی۔اس نے نربد اور گنگا سے لے کر دریائے سندھ اور اٹک تک بدھ مت کے بڑے بڑے سٹوپا تعمیر کیے جن پر اسی برج بھاشا میں بدھ مت کے زریں اصول کندہ کروائے،یہ سٹوپا آج بھی ٹیکسلا کے عجائب گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے بھی پہلے 335سال قبل از مسیح میں سکندر اعظم نے ھندوستان پر حملہ کیا تھا تو بھی یہی برج بھاشا ہی بولی جاتی تھی ۔سکندر نے جب پورس کو شکست دینے کے بعد اس سے پوچھا کہ تم سے کیا سلوک کیا جائے تو پورس نے اسی برج بھاشا میں کہا تھا کہ ” وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ھے” ھندوستان میں داخل ہونے والے مسلمان فاتحین ترک،افغان اور مغل تھےاور اپنے ساتھ اپنی اپنی زبانوں کی روایات،اصولِ صرف و نحو اور معاشرتی آداب بھی لائے تھے،یہ لوگ زیادہ تر فارسی بولتے تھےیا پھر ان کی زبان میں فارسی زبان کی آمیزش زیادہ تھی اور اسطرح بہت سے عربی اور ترکی الفاظ کی آمیزش سے ایک نئی طرز کی برج بھاشا وجود میں آئی۔ انہی مغلوں کے زمانے میں “اردو” کا لفظ رائج ہوا جو کہ لشکر کے معنوں میں استعمال ہونا شروع ہوا تھا اور مغلیہ بادشاہوں کے شاہی فرمانوں اور سکوں پر بھی اردو لشکر کے معنوں میں ھی لکھا جاتا رہا۔ “بابر” اپنے ایک فارسی شعر میں اپنی فوج کو “اردوئے نصرت شعار ” لکھتا ھے،شہنشاہ جہانگیر نے دلی سے کشمیر کی طرف سفر کرتے ہوئے راستے میں ایک سکہ بنوایا اور اس پر یہ شعر کندہ کروایا‘ بادِ رواں تاکہ بودمہروماہ سکہ اردوئے جہانگیر شاہ مغل شہنشاہوں لے زمانے میں شاہی لشکر یا لشکرگاہ کو ” اردوئے معلی کہتے تھے،پھر جس بازار میں فوج کے سپاہی خرید و فروخت کیلئے جاتے تھے اسے اردو بازار کہا جانے لگا مگر اس زمانے تک لشکری جو زبان آپس میں بولتے تھے اسے اردو نہیں کہا جاتا تھا بلکہ زبانِ ہندی ہی کہا جاتا تھا،اس زبان کی سب سے پہلی تحریر”امیر خسرو دہلوی” کی ملتی ھے جو 653 ہجری کا زمانہ ھے اور وہ اپنی کتاب میں اپنے اردو کلام کو ہندوی کلام کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ تیرھویں،چودھویں اور پندرھویں صدی کا زمانہ اردو زبان کا تشکیلی دور تھا،اس زمانے میں ہندو مسلم سنتوں اور صوفیوں نے عوام کی زبان میں ہیان سے گفتگو شروع کی،ان میں خواجہ بندہ نواز ،سید محمد حسین گیسو دراز،امیر خسرو،شیخ بو علی قلندر،شیخ شرف االدین یحییٰ منیری،شاہ میراں جی شمس العشاق،کبیر داس،گرو نانک،شیخ عبدالقدوس گنگوہیوغیرہ شامل ہیں،اس دور کی اردو میں ہندی کے الفاظ کی بہتات ھے۔ گجرات کی فتح کے بعد اس دور کی اردو جو گجری کہلاتی تھیکو کافی ترقی ملی پھر علاوالدّین خلجی کے حملے کے ساتھ دکّن میں پہنچی اور جب ضسن گنگوبہمنی نے بہمنی سلطنت قائم کی تو اردو کو سرکاری زبان قرار دیا ،ڈاکٹر نصیرالدین ہاشمی اس دور کی اردو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ “اس دور میں دکّنی زبان یا قدیم اردو بول چال کی زبان سے گزر کر تحریر کی صورت میں آگئی تھی،جو نمونے نثر اور نظم کے ملتے ہیں ان میں یہ واضح ہوتا ھے کہ اس میں ہندی کے الفاظ زیادہ تھے”۔ تحقیق سے پتہ چلتا ھے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد تک اردو کا لفظ بہ معنی زبان رائج نہیں تھا اس کے برعکس جہاں جہاں بھی زبان کے مفہوم کو واضح کرنے کی ضرورت پیش آئی وہاں زبانِ ہندی یا زبانِ ریختہ کی ترکیب استعمال کی گئی۔ “ریختہ” کے لغوی معنی تو ایسی شے کے ہیں جو گری پڑی ملی ہو۔اہلِ فارس کے شعراءاس نظم کو نظمِ ریختہ لکھتے تھے جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ زیادہ ہوں چونکہ اس دور کے شعراء کے کلام میں ہندی اور فارسی کا امتزاج بہت زیادہ تھا اسلیئے اسے نظمِ ریختہ کہا جانے لگااور یہ رواج انیسویں صدی عیسوی تک مروّج رہا،جیسا کہ میر لکھتے ہیں‘ خوگر نہیں کچھ یونہی ہم ریختہ گوئی کے معشوق جو تھا اپنا،باشندہ دکّن کا تھا “میر ‘ کے اس شعر سے اندازہ ہوتا ھے کہ ریختہ کہنے کا عام رواج دہلی سے پہلے دکّن میں ہوا تھا۔ یہاں تک کہ مرزا غالب کے زمانے میں اردو کیلئے یہی لفظ ریختہ استعمال ہوتا تھا خود وہ فرماتے ہیں، ریختہ کے تم ہی نہیں استاد غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا اسی طرح مغلوں کے عہد میں یورپ کی بعض قومیں بھیہندوستان آیئں اس لئے کچھ پرتگالی اور فرانسیسی الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے گئےاور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوا ھے۔ سودا اور میر تک آتے آتے اردو پورے ھندوستان میں پھیل گئی اور اس کا تلفّظ بھی کافی صاف ہوگیا،انشاء کے زمانے میں انگریزی الفاظ کے اضافے کے ساتھ زبان میں مزید وسّعت آتی گئی،بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماتحت فورٹ ولیم کالج کا قیام کلکتہ میں عمل میں آیا تو اردو زبان کو کافی ترقی ملی اور اسی عہد میں باغ و بہار ،آرائشِ محفل ،باغ اردو ،سنگھاسن بیتسی وغیرہ آسان اور دلکش انداز میں لکھی گیئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخبارات و رسائل کی وجہ سے مزید ترقی ملی اور زبان میں نئے الفاظ اور محاورات و اصطلاحات کا اضافہ ہوتا گیا۔ اردو زبان کی تشکیل میں مخلوط قوموں کے مشترکہ تہزیبی و ثقافتی اثرات معاون رہے ہیں اور آج یہی زبان برصغیر کی نمائندہ زبان کی حیثیت رکھتی ھے۔
بیسویں صدی میں اُردو زبان کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے پیش کیے گئے نظریات میں ایک منفرد نظریہ ڈاکٹر سہیل بخاری نے پیش کیا۔ ڈاکٹر سہیل بخاری بہت سے ماہرینِ لسانیات کے برعکس اُردو کو ہند آریائی زبان تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ دراوڑی کو اُردو کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وہ اُردو کو سنسکرت سے آزاد اور قطعی طور پر علیحدہ زبان خیال کرتے ہیں جو خالصتاً ہندوستان کی پیداوار ہے اور دراوڑی زبان اِس کا ماخذ ہے۔
اُن کے نزدیک آریوں کی ہندوستان آمد سے پہلے یہ زبان موجود تھی جو مختلف ادوار میں کئی شکلوں اور رسم الخط کی تبدیلیوں کے عمل سے گزری۔ اُنھوں نے اپنی لسانی تحقیق کی بدولت اُردو زبان کے غیر آریائی ہونے کے حوالے سے ایک منفرد اور نئے نظریے کی بنیاد رکھی۔
مگر اُردو کے ہند آریائی زبان ہونے کے حوالے سے پائے جانے والے نظریے کو اِس قدر قبولیت مل چکی ہے کہ ڈاکٹر سہیل بخاری کے اِس نظریے کو آسانی سے رد کردیا گیا۔
اُردو لسانیات اور کلاسیکی ادب پر تحریر کردہ اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین و مقالہ جات بہرحال اہمیت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر سہیل بخاری اُردو کے معروف محقق، نقاد، مدون، اقبال شناس،مترجم اور ماہرِ لسانیات تھے جن کا اصل نام سید محمود نقوی تھا۔ وہ6 دسمبر1914ء کو سرائے شیخ، مین پوری، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔اُنھوں نے ابتدائی تعلیم راجپوتانہ سے حاصل کی۔
1938ء میں اُنھوں نے گورنمنٹ ٹریننگ کالج، آگرہ سے اے وی ٹی سی کا کورس پاس کیا۔ 1946ء میں اُنھوں نے بی اے کا امتحان آگرہ یونیورسٹی سے پاس کیا۔ 1950ء میں اُنھوں نے ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا۔ 1963ء میں اُنھوں نے پی ایچ ڈی اُردو کی ڈگری جامعہ پنجاب، لاہور سے حاصل کی۔ اُن کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ”اُردو کی نثری داستانوں کا تنقیدی جائزہ“ تھا جو اُنھوں نے پروفیسر سید وقار عظیم کی زیرِ نگرانی تحریر کیا۔
1939ء میں اُنھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز اتر پردیش کے محکمہ تعلیم سے کیا جہاں وہ 1952ء تک تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 1953ء میں وہ لاہور چلے آئے جہاں اُنھوں نے پی اے ایف اسٹیشن سکول کے پرنسپل کا عہدہ دو سال تک سنبھالے رکھا۔1955ء میں وہ سرگودھا منتقل ہوگئے جہاں وہ 1974ء تک پی اے ایف کالج میں صدر شعبہٴ اُردو کی حیثیت سے تعینات رہے۔ 1976ء سے 1979ء تک وہ اُردو لغت بورڈ،کراچی کے شریک مدیر رہے۔
اُنھوں نے تیس سے زائدکتابیں تصنیف کیں اور اُن کی اکثر کتابیں اُن کی تصنیف کے کئی سالوں بعد شائع ہوئیں۔وہ 29 جنوری 1990ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔
لسانیات کے تناظر میں”اُردو کا روپ“(1971ء)، ”اُردو کی کہانی“(1975ء)، ”Phonology of Urdu Language”(1985)،”معنویات“ (1986ء)،”اُردو رسم الخط کے بنیادی مباحث“ (1988ء)، ”اُردو اور دکنی زبان کا تقابلی مطالعہ“ (1989ء)، ”اُردو زبان کا صوتی نظام اور تقابلی مطالعہ“(1991ء)، ”لسانی مقالات(حصہ سوم)“ (1991ء)،”اُردو کی زبان“(1997ء)، ”تشریحی لسانیات“(1998ء)، ”نظامیاتِ اُردو“ (1999ء) اُن کی اہم تصانیف ہیں۔
تدوینِ لغت کے تناظر میں اُن کے نمایاں کارناموں میں ”کنزالمحاورات(محاوراتی فرہنگ)“ (1945)، ”فرہنگ اصطلاحات بیمہ کاری“ (1986ء)، ”فرہنگ اصطلاحات لسانی“ (1988ء)،اور ”فرہنگ مترادفات و متضادات“ (1989ء) شامل ہیں۔ اقبالیات کے تناظر میں اُن کے اہم کاموں میں ”اقبال۔مجدد عصر“ (1977ء)، ”اقبال ایک صوفی شاعر“ (1988ء)،اور ”اقبال اور اہل صفا “ (1989ء) شامل ہیں۔
تنقیدی حوالے سے ”اُردو ناول نگاری“ (1966ء)، ”سب رس پر ایک نظر“ (1967ء)، ”غالب کے سات رنگ“ (1970ء)، ”باغ و بہار پر ایک نظر“ (1970ء)،اور ”اُردو داستان“ (1991ء)، ”ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ“(1985ء) جیسی تصانیف شامل ہیں۔
”اُردو رسم الخط کیے بنیادی مباحث“ کے نمایاں مباحث میں رسم الخط کیا ہے؟، حروف اور علامات، الف اور ہمزہ، ہے، میم اور نون، واو اور یے، مہا پران، اُردو رسم الخط کی خامیاں، رسم الخط اور تلفظ، نستعلیق کا ٹائپ رائٹر،نستعلیق رسم الخط اور احصائیہ(کمپیوٹر)، اُردو اعداد کا ناقص طرزِتحریر، اور اُردو کی گنتی شامل ہیں۔
دنیا کی مختلف زبانوں کے رسوم خط کے پس منظر میں اُردو رسم الخط کے مختلف معاملات کو اُنھوں نے اِس کتاب میں اپنی تحقیق کی مدد سے پیش کیا ہے۔سہیل بخاری کی بیان کردہ حروف اور علامات کی تفصیل نامکمل اور ناقص ہے۔ ایک تو اُنھوں نے ہاے مخلوط پر مشتمل مرکب حروف کو مفرد حروف کے ذیل میں شامل کر دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ کچھ مفرد حروف جیسا کہ ث، ح، خ، ذ، ز، ژ، ش، ص، ض، ط،ظ،ع، غ، ف، ق کو وہ اپنی بیان کردہ فہرست میں سے حذف کر گئے ہیں۔
تیسرا اُنھوں نے نونِ غنہ اور ہمزہ دونوں کو حروف کی فہرست میں شامل کیا ہے جبکہ یہ دونوں علامات کی ذیل میں ہونے چاہییں کیوں کہ یہ دونوں مفرد حرف کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ چوتھا اُنھوں نے علامات کے ذیل میں کئی علامات جیسا کہ کھڑی زبر، کھڑی زیر ، اُلٹا پیش، جزم ، اُلٹا جزم، اُلٹا قوس وغیرہ کو شامل نہیں کیا۔”اُردو زبان کا صوتی نظام اور تقابلی مطالعہ“ میں بنیادی آوازیں، آوازوں کا استعمال، صوتی تغیرات کا پہلا سبب، صوتی تغیرات کا دوسرا سبب، اورصوتی تغیرات کا تیسرا سبب جیسے صوتی نظام سے متعلق مباحث پہلے حصے میں شامل ہیں۔
دوسرا حصہ تقابلی مطالعہ سے متعلق ہے جس میں تقابلی لسانیات، صوتی تغیرات کے مفروضہ اسباب، فارسی کا صوتی تبادل، فارسی اور ویدک، سنسکرت اور پراکرت، اُردو اور انگریزی، اُردو اور فارسی، اُردو اور سنسکرت،اور اُردو اور ویدک جیسے لسانی مباحث شامل ہیں۔
مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آبادکے زیرِ اہتمام ”لسانی مقالات“ کی تین جلدیں ترتیب دی گئیں جن میں حصہ اول اور حصہ دوم سید قدرت نقوی کے لسانی مقالات پر مشتمل ہے جو 1988ء میں شائع ہوئے جب کہ حصہ سوم ڈاکٹر سہیل بخاری کے لسانی مقالات پر مبنی ہے جو1991ء میں سامنے آیاجس میں زبان شناسی اور اُردو شناسی شامل ہیں۔
زبان شناسی کے تناظر میں لسانیات، بولی کیا ہے، زبان متبادلات کا نظام، تلفظ اور اشتقاق، زبان کی تبدیلی اور لپی، لپی اور تلفظ، سکون اول کا مسئلہ، حروف کا تبادل، بول اور معنی ، اور بول کے معنی جیسے مباحث شامل ہیں۔ دوسری طرف اُردو شناسی کے حوالے سے اُنھوں نے آوازیں، الفاظ، نظامیات (گرامر)، تاریخ ، اور املا جیسے مباحث پر بات کی ہے۔ ”اُردو کی زبان “ میں لسانیات، عہدِ قدیم (پراکرت)، عہدِ جدید (اُردو)، اشتقاق، اور تاریخ جیسے موضوعات شامل ہیں۔