کورس: مطالعہ پاکستان
کوڈ : 202
مشق نمبر2
پروگرام: میٹرک
سمسٹر:بہار 2023
صوبائی حکومت: وفاقی نظام حکومت کے تحت چاروں صوبوں میں الگ الگ حکومتیں قائم کر کے انہیں وسیع اختیارات سونپ دیئے جاتے ہیں ۔صوبائی حکومت کے بھی تین اہم شعبے ہیں۔
انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ۔
انتظامیہ:۔ صوبائی حکومت کے ڈھانچے میں صوبے کا سربرا ہ گورنر ہوتا ہے ۔ گورنر کا تقر رصد رمملکت کرتا ہے ۔ ایک لحاظ سے گورنر وفاقی حکومت کا نمائند ہ ہوتا ہے وزیراعلی کا انتخاب صوبائی اسمبلی کرتی ہے ۔ وزیراعلی صوبائی اسمبلی کا رکن ہوتا ہے۔ اور اسے اسمبلی کی رکنیت کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ وزیراعلی اپنےفرائض انجام دینے کیلئے ایک کا بینہ تشکیل دیتا ہے ۔ کابینہ میں شامل وزرا اور پارلیمانی سیکرٹریوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسمبلی کے رکن ہوں ۔ وزیر اعلی اور کا بینہ صوبائی اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہو گی ۔اسمبلی کے ارکان اگر چاہیں تو عدم اعتماد کی تحریک منظور کر کے وزیر اعلی کو بنا سکتے ہیں ۔اختیارات کے سلسلے میں وفاق کو صوبوں پر برتری حاصل ہوتی ہے ۔ اگر صوبائی اور وفاقی قانون میں تصادم ہو جائے تو وفاقی قانون پر مل در آمد ہوگا۔ وفاقی حکومت ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرسکتی ہے ۔ایسی صورت میں صوبائی حکومت کے اختیارات کم ہوجاتے ہیں
مقفنہ:۔ صوبوں میں ایک ایوانی مقننہ قائم کی گئی ہے ۔ جس کو صوبائی اسمبلی کہتے ہیں ۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں اسمبلیوں میں ارکان کی تعداد مختلف ہے۔ ان ارکان میں اقلیت کی نمائندے کی مخصوص تعداد بھی شامل ہے صوبائی اسمبلی پانچ سال کیا یہ منتخب کی جاتی ہے ۔اسمبلی کے اندرا یک اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر چنا جا تا ہے ۔ پیکر صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتا ہے ۔صوبائی اسمبلی ایسے تمام امور کے متعلق قوانین بناسکتی ہے ۔ جو دستور کی رو صوبوں کیلئے مخصوص ہوں ۔قوانین میں ترمیم کرنے اور آرڈینینس کی منظوری دینے کے بھی اسمبلی کو اختیار ہیں ۔
عدلیہ ۔ صوبے کی اعلی ترین عدالت کو ہائی کورٹ کہا جا تا ہے ۔ جبکہ اس کی مختلف سرکٹ برانچیں مختلف شہروں میں قائم کی جاتی ہیں ۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر صدرمملکت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبے کے گورنر کے مشورے سے کرتا ہے جب کہ باقی دیگر بچوں کا تقرر چیف جسٹس کے مشورے سے کیا جا تا ہے ۔اسے چھوٹی عدالتوں کی اپیل سننے کا حق ہے ۔ اور میدان کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کا مجاز ہے ۔ بنیادی حقوق اور شخصی آزادی کے تحفظ کے سلسلے میں ہائی کورٹ کو وسیع اختیارات حاصل ہیں ۔ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں ہی فیصلے کی اپیل کی جاسکتی ہیں ۔ ہائی کورٹ کے ماتحت صوبے کی دوسری عدالتیں ہوتی ہیں ۔ جوڈ ٹرک کورٹ ۔ سول کورٹ اور مجسٹریٹ کورٹہیں کہلاتی ہیں ۔
جواب: اس علاقے کو دریاۓ ۔ ندی کی وادی بھی کہا جا تا ہے ۔ پاکستان کا یہ خطہ زرعی لحاظ سے بڑا ذرخیز ہے ۔ اس کے دو حصے ہیں ۔
(الف) دریاۓ سندھ کا بالائی میدان
(ب) دریائے سند ھ زیریں میدان
(الف) میدان سندھ کا بالائی میدان:
اس میں زیادہ صوبہ پنجاب کا حصہ ہے یہ علاقہ دریائے سندھ کے معاون دریاؤں جہلم ، چناب ، راوی مستلج کے درمیان پھیلے ہوۓ میدانوں پرمشتمل ہے مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ میں علاقہ دریاؤں کے زریعے پہاڑوں سے لائی ہوئی مٹی سے بنا ہے اس لیے اسکی زمین زرخیز
ہے بارش کے پانی کی کمی نہروں کے ذریعے پوری کی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ تمام علاقہ آباد ہے۔
(ب) دریاۓ سندھ کا زیریں میدان: مٹھن کوٹ سے نیچے بھیرہ کا علاقہ دریائے سندھ کا زیر میں میدان کہلاتا ہے۔اس علاقے میں دریائے سندھ ایک بڑے دریا کی صورت میں بہتا ہے ۔ یہاں گہرائی کم ہونے کی وجہ سے طغیانی کے پانی سے سارا علاقہ ڈوب جاتا ہے ۔ یہ علاقہ کافی زرخیز ہے مختلف مقامات پر بیران بنا کر نہروں کاجال بچھادیا گیا ہے ۔
جواب: ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ:
قانون آزادی ہند 1947 ء کے تحت ہندوستان کی ریاستوں و بی اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے عوام کی خواہشات یا جغرافیائی صورتحال کے مطابق پاکستان یا
ندوستان میں سے جس کے ساتھ چا میں الحاق کر سکتے ہیں ۔ تقر یبا ساری ریاستوں نے پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر دیا لیکن ریاست حیدرآباد، دکن کشمیر اور جونا گڑھے کے الحاق نے تنازعے کی صورت اختیار کر لی ۔ ریاست حیدرآباد کا نظام مسلمان تھا اور آبادی کی اکثریت مسلمان تھی لیکن حیدرآباد کی سرحد میں پاکستان سے نہ ملنے کی وجہ سے ریاست پاکستان میں شامل نہ ہوسکی ۔ کیونکہ ہی اصولی طور پر فیصلہ ہوا تھا کہ ریاستوں کے الحاق میں جغرافیائی حیثیت کو مدنظر رکھا جاۓ گا ۔ ریاست جونا گڑھ کے حکمران مسلمان تھے لیکن وہاں کی �آبادی بند تھی ۔ جب کہ اس ریاست کے حکمران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کا خیال رکھا تھا۔ جبکہ ہو نا گڑھ کے عوام ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے اسلئے جونا گڑھے کے حکمران کے فیصلے کور کر دیا گیا ۔ اس کی تقریبا ایک ہزار میل لمبی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی تھی لیکن وہاں کے ہندو راجہ نے الحاق کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں نے اس پر کوئی ریمل ظاہر نہ کیا جبکہ وہ چونا گڑھ اور حیدرآباد کے افق کے سلسلے میں تو الحاق کے اصولوں پر مل کروا چکے تھے ۔اس نا انصافی پر کشمیر کے عوام اٹھ کھڑے ہوۓ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اپنی اور ہندوستانی فوج کی مدد سے احتجاج کود با نا شروع کر دیا۔ جب نہتے کشمیری دونوں افواج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوئے تو انہوں نے پاکستانی عوام سے مدد کی اپیل کی ۔اس اپیل پر صوبہ سرحد سے عوامی لشکر کشمیری عوام کی مد کو پہنچ گیا ۔ ہندوستان نے اس صورتحال کو پاکستان کی طرف سے حملے سے تعبیر کیا۔اس طرح دونوں ممالک میں کشمیر کے مسئلے پر 1948 ء میں پہلی جنگ ہوئی ۔اس جنگ کے دوران ہندوستان سے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروالیا گیا۔ اور اس طرح آزاد جموں کشمیر نام کی ایک حکموت قائم ہوگئی ۔ بھارت سی صورتحال دیکھ کر مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا جہاں متفقہ طور پر یہ قرارداد پیش کی گئی کہ فوری طور پر جنگ بند کی جائے ۔ اور کشمیر کے اناق کا فیصلہ وہاں کے عو عام کی خواہشات کے مطابق کیا جاۓ ۔اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استحواب رائے کراہ جاۓ گا۔ بھارت نے اس وقت یہ فیصلہ قبول کر لیا لیکن کچھ عرصے کے بعد کشمیر میں استجواب رائے کروانے سے انکار کر دیا اور بی مسئلہ آج تک دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے۔
مسئلہ کشمیر:
کشمیر کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں پرمشتمل تھی اور کشمیر جغرافیائی طور پر تین راستوں سے پاکستان سے ملا ہوا تھا۔ اس کی تقریبا ایک ہزارمیل لمبی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی تھی لیکن وہاں کے ہندوراجہ نے الحاق کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں نے اس پر کوئی روسل ظاہر نہ کیا اس ناانصافی پر کشمیر کے عوام اٹھ کھڑے ہوۓ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اپنی اور ہندوستانی فوج کی مدد سے احتجاج کو دبانا شروع کر دیا جب نہتے کشمیری دونوں افواج کامقابلہ کرنے سے قاصر ہوۓ تو انھوں نے پاکستان عوام سے مدد کی اپیل کی ۔اس اپیل پر صوبہ سرحد سے عوامی لشکر کشمیرعوام کی مددکو پہنچ گئے ۔
نہری پانی کا مسئلہ :
علاقوں کی غیر منہ نا نہ نسیم کے نتیجے میں یہ مسلہ بھی پاکستان کو ورثے میں ملا۔ ریڈ کلف نے سرحدی حد بندی کرتے ہوۓ پنجاب کے علاقے مادوتواور اور فیروز پور بھارت کے حوالے کر دیئے ۔ ان شہروں میں دریائے راوی اور دریائے تلج سے نکلنے والی نہروں کے ہیڈ ورکس تھے ۔ بھارت کے اس عمل سے پاکستان کی معیشت کوشدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ چنانچہ پاکستان کا ایک وفود گفت وشنید کیلئے بھارت گیا اور یہ ملے ہوا کہ ان : بیڈ ورکس کی دیکھ بھال کا خرچہ اور پانی کی قیمت پاکستان ادا کرتارہے گا ۔ کچھ عرصہ بعد بھارت نے مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر بھی ملکیت کا دعوی کر دیا ۔ پاکستان نے میر مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا ۔ عالمی بینک نے اس مسئلے میں ثالث کر دارا دا کیا۔طویل مذاکرات کے بعد 1960 ء میں سند میں اس کا معاہدہ ملے ہوا ۔ جس کی توثیق دونوں ممالک نے کی ۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ تین مشرقی دریاؤں تلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق ہوگا اور تین مغربی در یا جہلم، چناب اور سند سے پاکستان کے حوالے کئے جائیں گے۔
جواب: آب و ہوا کے انسانی زندگی پر اثرات: کسی جگہ کی آب و ہوا وہاں کے مکینوں کے طرز زندگی اور مشاغل پر گہرا اثر ڈالتی ہے ۔ پاکستان کے علاقوں میں بھی آب و ہوا مختلف قسم کی ہے اورلوگوں کے رہن سہن اور مصروفیات میں نمایاں فرق بھی ہے ۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں موسم سرما شد ید ہے ۔اکثر علاقے برف سے ڈھک جاتے ہیں۔درجہ حرارت نقلا انجماد سے بھی گر جاتا ہے ۔ بعض جگہ تو دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی بھی ہم جا تا ہے ۔ برف کی وجہ سے راستے بھی مسدود ہو جاتے ہیں اورالوگباہر کے کام کاج چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور گھریلو است کاریوں میں خود کو مصروف رکھتے ہیں ۔ گلگت کے اکثر لوگ اس موسم میں روزی کمانے کی غرضسے میدانی علاقوں میں چلے آتے ہیں۔
گرمیوں کا موسم شروع ہوتا ہے تو ہر طرف رونق شروع ہو جاتی ہے ۔ پودے اور گھاس جلدی پھلتے پھولتے ہیں ۔ کہ مان اپنی پہلی فرصت میں کھیتوں میں بل چلاتے ہیں ۔ بچے بوڑ نے کام میں لگ جاتے ہیں۔ پاکستان کے جنوب میں وسیع میدان ہے یہاں کی آب و ہوا میں بھی شدت ہے ۔ گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سرد ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ بہت مضبوط ہیں ۔ می شدید گرمی میں دھان کی فصل کے کھیتوں میں ہل چلاتے ہیں اور پودے لگاتے ہیں۔ سردیوں میں پوٹھنے سے پہلے کھیتوں کی راہ لیتے ہیں اور دن چڑھنے تک بہت سا کام کر چکے ہوتے ہیں ۔البتہ گرمیوں میں تھوڑی دیر ستا نا ضروری ہوتا ہے۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ آب و ہوا سے انسانی زندگی کا براہ راست تعلق ہے۔
موسمی تبدیلیاں:
آب و ہوا کی بدلتی ہوئی کی نیت کا انسانی زندگی پر بڑا اثر ہوتا ہے ۔ نہ صرف انسانی زندگی بلکہ نسلوں پر بھی اچھا اثر ہوتا ہے ۔ پیداوار بہت عمدہ ہوتی ہے ۔ علاقہ مزید سرسبز اور شاداب ہو جا تا ہے ۔ زندگی کی گہما گھی بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن موسمی حالات لوگوں کے لئے مشکلات اور نقصان کا باعث بھی ہوتے ہیں ۔موسم گرما میں بیا اب آتے ہیں۔ شدید گرم اور نیم ریگستانی علاقوں میں آندھیاں، بھکر اور طوفان آتے ہیں ۔ ذیل میں مومی تبدیلیوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔
سیلاب: مارے ملک کے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں موسم گرما کی موان سون ہوائوں کی وجہ سے بارشیں ہوتی ہیں ۔ گرمیوں میں پہاڑوں پر برف کھلنے کی وجہ سے دریاؤں اور نالوں میں پانی کی سطح اتنی بڑھ جاتی ہے کہ کناروں سے پانی نکل کر دور دور تک پھیل جاتا ہے ۔ پانی کے اس ریلے کو سیاب کہتے ہیں ۔ یا اب زیادہ تر سندہ کے باائی میدان میں آتے ہیں ۔ سیلاب سے بہت زیادہ انسان ہوتا ہے ۔ کمری فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ وبائی امراض پھیل جاتی ہیں ۔ سڑکیں اور ریل کی پٹڑیاں ٹوٹ جانے سے آمدورفت کے ذرائع تباہ ہو جاتے ہیں ۔ سیلاب سیہونے والے احسانات کے پیش نظر حکومت کئی احتیاطیں تدابیر اختیار کرتی ہے ۔اگر کسی علاقے میں سیلاب آنے کا خطرہ ہوتو پیشگی اطلاع دے کر وہاں کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جا تا ہے ۔ سیلابوں کا ایک فائد بھی ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ سیلاب کے پانی کے ہمراہ دریاؤں کی زرخیز مٹی سیلاب زدہ زمینوں پر ایک تہ کی طرح پھیل جاتی ہے جس کی
وجہ سے اس علاقے میں فصلیں بہتر ہوتی ہیں۔
آندھیاں اورطوفان: پاکستان میں آندھیاں اور طوفان نا معمول کی بات ہے ۔ ریتلے علاقوں میں موسم گرمامیں ہواؤں کا دباؤ کم ہو جا تا ہے اس لئے اردگرد کی ہوائیں تیزی سے ان علاقوں کا رخ کرتی ہیں ۔ان علاقوں میں جنوبی میدانی علاقے اور بلوچستان کے شمال مغربی حصے شامل ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں مارچ اپریل کے مہینوں میں بادوباراں کے طوفان آتے ہیں ۔ تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ زیادہ بارش ہوتی ہے ۔بعض اوقات ژالہ باری بھی ہوتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ذرائع رسل ورسائل متاثر ہوتے ہیں ۔ کچے مکانات اور تھونپڑیوں کوبھی نقصان پہنچتا ہے۔
جواب: کریس مشن تجاویز: ہندستان کے آئینی مسائل کوحل کر نے کیلئے 1942 ء میں برطانوی حکومت نے ایک وفد ہندوستان روانہ کیا جو کر پس مشن کے نام سے مشہور ہوا ۔ یہ شن اس وعدے کے نتیجے میں آیا تھا کہ اگر ہندوستان کے لوگ دوسری جنگ عظیم میں جزنی اور جاپان کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیں گے تو برطانیہ ہندوستان کو آزاد کر دے گا ۔ دوسری جنگ عظیم کا آغاز 1939 ء میں ہوا۔ 1941 میں جاپان بھی جرمنی کا ساتھی بن کر جنگ میں شامل ہو گیا ۔اب برطانیہ اوراس کے اتحادیوں کواپنی تثبیت کمزور ہوتی نظر آنے لگی۔ برطانوی افواج کی تقریب ہر محاذ پر پسپائی ہورہی تھی ۔
سنگا پور اور برما کی فتح کے بعد جاپانی فوجیں بر غیر کی سرحد کے قریب پہنچ گئیں تو برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب برنہ غیر کے مقامی باشندوں کا تعاون حاصل کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر جاپانی فوجوں کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا۔لیکن بری غیر کے باشندوں نے برطانیہ کی امداد کیلئے یہ شرط لگا دی کہ ہندوستانی عوام اس وقت برطانیہ کی مددکر میں گے جب برطانیہ ہندوستان کو آزاد کر نے کا وعدہ کرے گا ۔ 1942ء میں برطانوی وزیراعظم نے اپنی کا بینہ کے ایک اہم رکن سر سٹیفورڈ کرپس کو ہندوستان بھیجا۔ کر پس نے برتہ غیر کے سیاسی قائدین سے ملاقات کی ۔اور ان کے سامنے ہندوستان کا نیا آئین بنانے کے سلسلے میںچند تجاویز پیش کیں ۔ ان تجاویز کوکر پس تجاویز کا نام دیا گیا ۔ ان تجاویز میں وعدہ کیا گیا کہ
1: جنگ کے بعد عام انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے گی جو برصغیر کیلئے آئین سازی کا کام سرانجام دے گی ۔
2۔ جنگ کے بعد ہندوستان کو آزادی دی جاۓ گی ۔اس میں تاج برطانیہ کے ماتحت ضرور ہو گا لیکن اندرونی و بیرونی طور پر خودمختار ہوگا ۔ ان تجاویز کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ جنگ کے دوران کس قسم کی آئینی تبدیلی نہیں لائی جائیگی ۔ اور ملک کے دفاع کی تمام تر ذمہ داری حکومت برطانیہ کی ہوگی ۔
ردعمل:
مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے کر پیس کی تجاویز کو کر دیا۔ کانگر نی را ہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان تجاویز میں فوری طور پر آزادحکومت کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جنگ کے بعد برطانوی حکومت اپنے وعدے پورے کرنے کے قابل ہی نہیں رہے گی ۔مسلم لیگ نے کر پیس کی تجاویز کو اس بناء پر ردکر دیا کہ ان تجاویز میں پاکستان کے قیام کی کوئی واضح ضمانت نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی مسلم ایک کسی ایسے آئین ساز ادارے میں شامل ہونے کو تیار تھی کہ جس کا مقصد پورے ملک کیلئے آئین بنانا ہو۔ کیونکہ تجربے نے انہیں سکھایا تھا کہ کانگریس برصغیر میں ایسا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے جس میں مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کو پس پشت ڈال کر مضبو ط مرکز کے نام پر ہندو وراج قائم کیا جاۓ ۔