ANS 01
قدما یونان کا دور ایک زرخیز دور تھا اس دور میں ایسے ایسے فلسفی اور نکتہ دان پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف علوم و فنون کو ایسا خزانہ دیا کہ جس پر یونان والے بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔ شاعری ادب اور ڈرامے پر خاص طور عمدہ تنقید دیکھنے میں آئی ہے۔ اس دور کے نظریات میں سے بہت سے ایسے ہیں جو آج سے دو ڈھائی ہزار برس گزرنے کے باوجود بھی قابل توجہ سمجھے جاتے ہیں۔ خاص کر افلاطو ن اور ارسطو ، ایک نقاد کا کہنا ہے۔
”حیرت کی بات یہ ہے کہ دو ڈھائی ہزار سال گزرنے جانے کے باوجود افلاطون ، ارسطو ، ہیوریس ، لان جائی نس پر وقت کی گرد نہیں جمنے پائی۔ ان کی نگارشات کے مطالعے کے بغیر ادبی تنقید کا مطالعہ تشنہ رہ جاتا ہے۔ اور تنقید کے بعض بنیادی اور اہم مسائل پر غور و فکر کی بصیرت پیدا نہیں ہوتی۔“
ارسطو کا زمانہ افلاطون کے فوراً بعد کا زمانہ ہے وہ افلاطون کا شاگرد تھا لیکن شاعری اور ڈرامے کے بارے میں اس سے مختلف رائے رکھتا تھا۔ اس نے افلاطون کا نام لئے بغیر اس کے اعتراضوں کے جواب دیے ہیں خیال ہے کہ اس نے کئی مختصر کتابیں لکھیں جن میں سے ”فن خطابت “ ”RHETORIES“ اور فن شاعری یا ”بوطیقا“” ُPOETICS“ ہم تک پہنچی باقی انقلابات زمانہ کی نذر ہوگئیں ۔
اندازہ ہوتا ہے کہ کہ یہ ارسطو کی تقریروں کی یاداشتیں یعنی لیکچر نوٹس ہیں جن کے کچھ حصے ضائع ہوگئے ہیں۔ ”بوطیقا“ میں المیہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے لیکن طربیہ اور رزمیہ پر سرسری گفتگو ہے اور غنائیہ شاعری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی تشریح درکار ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطوسے ایلیٹ تک “ میں لکھتے ہیں۔” اس کا ذہن منطقی ، مزاج سائنسی اور فکر موضوعی ہے۔“
ادبی تنقید میں ”بوطیقا “ کی حیثیت پہلی باقاعدہ تصنیف کی سی ہے۔ اس کتاب میں ارسطو نے شاعروں کی وکالت کرتے ہوئے انہیں افلاطون کے الزامات سے بچانے کی کوشش کی ہے اور شاعری کو ایک مفید شے قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں۔
” ارسطو نے ان تمام مسائل کو جو افلاطون نے اُٹھائے تھے ایک مربوط نظام ِ فکر میں تبدیل کر دیا۔“
ڈاکٹر سید عبداللہ بھی ایسی ہی بات کرتے ہیں۔
” ارسطو پیدائشی مفکر تھا جس نے چند خالصتاً جمالیا تی اصول قائم کئے“
شاعری کے بارے میں ارسطو کے شعری نظریات کی وضاحت کرنے سے پہلے افلاطون کے تنقیدی تصورات کو بیان کرتا ضروری ہے کیوں کہ ارسطو کے شعری نظریات اس وقت تک سمجھ نہیں آسکتے جب تک افلاطون کے تنقیدی تصورات کا ہمیں علم نہ ہو۔ افلاطون کے ”نظریات “ درحقیقت اس کے ”اعتراضات “ ہیں ۔ جن کا اجمالی خاکہ ذیل میں دیا گیا ۔
شاعری پر افلاطون کے اعتراضات:۔
ارسطو سے پہلے افلاطون کے نظریات علم و ادب پر چھائے ہوئے تھے۔ افلاطون ادبی نظریے کے خلاف تھا اس کے نزدیک اس کی مثالی ریاست میں شاعر کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اور اس کے خیال میں شاعر کو ریاست بدر کردینا چاہیے۔ کیونکہ وہ جھوٹے دیوتائوں کی جھوٹی تعریف پیش کرتا ہے۔ اس کی مثالی ریاست میں شاعر کے لئے کوئی جگہ ہے تو صرف اس صورت میں کہ شاعر کو معلم ِ اخلاق ہو۔ افلاطون کا دوسرا نظریہ تقلید فن ہے افلاطون کا خیال تھا کہ تمام فنون کی بنیاد نقل پر ہے۔ فن کار مظاہر قدرت پر مظاہر انسان کی نقل پیش کرتا ہے۔
ارسطو نے اس نظریے کی ازسرنو تشکیل کی اور آج ساری دنیا میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ فن کی بنیاد نقل پر ہے وہ تمام مسائل جو افلاطون نے اُٹھائے تھے ۔ ارسطو نے انھیں ایک مربوط نظام فکر میں تبدیل کر دیا۔ اس لئے تنقید کا اصل بانی اُسے سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو نے تمام فنون ، مصوری، شاعری ، مجسمہ سازی، موسیقی کو اعلیٰ ثابت کیا ہے۔
شاعرارسطو کی نظر میں:۔
شاعر عام حالات و واقعات کو خاص بناتا ہے اور انھیں افاقیت عطا کرتا ہے اور اپنی انفرادی کیفیت میں اجتماعی رنگ پیدا کرکے اسے سب کے لئے قابلِ قبول بناتا ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ شاعر بھی فلسفی کی طرح کائناتی سچائیوں کو ڈھونڈتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شاعر کے پاس کہنے کی اضافی خوبی بھی ہے۔
شاعری کے متعلق ارسطو کے نظریات:۔
ارسطو سے پہلے بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔ لیکن وہ خال خال اور منتشر حالت پائے جاتے ہیں۔ ارسطو کی کتاب بوطیقا کی مختصر نوعیت کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ کہ اس کتاب کا پہلا حصہ تا حال گم ہے اس پہلے حصے میں جو نظریات ملتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔
١۔فن خطابت ٢۔شاعری کے بارے میں نظریات ٣۔ڈارمے کے متعلق نظریات ٤۔ المیہ ٥۔تزکیہ نفس
سب سے پہلے ارسطو نے شاعری کی چار اقسام بیان کیں ہیں۔
١۔المیہ ٢۔ طربیہ ٣۔غنائیہ ٤۔رزمیہ
ارسطو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ہر قسم کی شاعری کو نقل قرار دیتا ہے آج بھی ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ شاعری زندگی کی نقل ہے۔ یہ نظریہ ارسطو نے افلاطون ہی سے اخذ کیا ہے اور مکمل وضاحت کرتے ہوئےلکھتاہے۔
”فن فطرت کی تقلید کرتاہے۔“
ارسطو کے نزدیک دیگر فنونِ لطیفہ کی طرح شاعری بھی نقالی ہے اور شاعری کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہے وہ ذیل ہیں۔
١۔ وہ اشیاءاور حالات جن کی نقالی کی جاتی ہے۔
٢۔ وہ جن کے ذریعے نقالی کی جاتی ہے تخیل ، فکر ، مظاہر انسانی، مظاہر فطرت
٣۔وہ الفاظ جن کے ذریعے نقالی پیش کی جاتی ہے۔
ارسطو کے نزدیک شاعری کا افادی و اخلاقی پہلو:۔
شاعر عکس کے عکس کا بچاری ہوتا ہے۔ لیکن ارسطو کے ہاں یہ طریقہ کا ر بہت فطری ہے اس کے علاوہ افلاطون مطالعہ فن اور مطالعہ اخلاق میں بھی فرق نہیں برتتا۔ ارسطو نے اس فرق کو واضح کیا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے اس کا طریقہ کار سائنسی اور دو ٹوک ہے۔ ارسطو ”کیا ہے“ پر بحث کرتا ہے یعنی زندگی کی اصل کھری تصویر فن کے آئینے میں نظر آئے اور افلاطون ’ ’ کیا ہونا چاہیے“ پر بحث کرتا ہے۔ یعنی زندگی کی تصویر کو کتنا حسین اور دلکش ہونا چاہیے۔ اور یہ بات فن کی بنیاد کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اس طرح ادب ایک مخصوص نظریے کی تدریس کرتا ہے۔ اور زندگی کی حقیقی تصویر سے چشم پوشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارسطو کے عہد تک یہ بات طے شدہ تھی کہ شاعر کو معلمِ اخلاق ہونا چاہیے۔ لیکن ارسطو نے اس حقیقت کو پا لیا۔ کہ اخلاق کی تدریس شاعری کا افادی پہلو ہے جب کہ ارسطو افادی پہلو کی بجائے جمالیاتی قدرو ں کی پرچار کرتا ہے۔ اس کا تنقیدی پہلو یہ ہے کہ شاعری اخلاق کا سرچشمہ نہیں بلکہ شاعری ایک خاص قسم کی اعلیٰ مسرت پہنچاتی ہے۔ ارسطو نے اس نظریے کو یہاں تک محدود نہیں رکھا ۔ بلکہ اس کا خیا ل ہے کہ جو اذہان نارمل اور صحت مند ہوتے ہیں ۔ وہ جمالیاتی مسرت اس وقت حاصل کر سکتے ہیں کہ فن پارہ جمالیاتی تقاصوں پر پورا اترتا ہو۔
اس طرح ارسطو نے اخلاقی و افادی پہلوئوں کی ذمہ داری خالق کے کندھوں سے ہٹا کر قاری کے کندھوں پر ڈال دی ۔ ارسطو کے اس کام کا توازن بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ارسطو جمالیاتی حظ کو بنیادی اور اخلاقی تدریس کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ وہ اخلاقی تدریس کا منکر نہیں لیکن ایسی شاعری جو صرف اخلاقی تدریس کی پابند ہو ، کا قائل نہیں۔ سکاٹ جیمز لکھتا ہے کہ،
” افلاطون اخلاقیات اور جمالیات کو گڈمڈ کر رہا تھا ارسطو نے اس کو دور کرکے جمالیات کی بنیاد رکھی۔“
ارسطو کا نظریہ وزن یا موزنیت:۔
ارسطو کے عہد کے تناظر میں اس کے بعض بیانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ارسطو کہتا ہے کہ وزن یا موزونیت شاعری کے لئے لازمی نہیں ۔ تنقید کا یہ حصہ انتہائی متنازعہ ہے اور متضاد بھی ۔ کیونکہ ایک طرف تو ارسطو اپنے نظریات کی بنیاد جمالیات پر رکھتا ہے۔ اور دوسری طرف وزن یا موزونیت کے خلاف اتنا شدید بیان دیتا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے اس کے عہد کے ادبی منظر نامے کو دیکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ عظیم ادب و تنقید پہلے اپنے عہد سے عہدہ براہ ہوتے ہیں۔ اور پھر زمان کے قید سے آزاد ہو کر کلاسک بنتے ہیں۔
ارسطو کے عہد میں ایک بدعت عام تھی کہ محض کلامِ موزوں کو شاعری سمجھا جاتاتھا۔ اور خیال و فکر کی اہمیت نہ تھی یعنی اگر حکیم کا نسخہ بھی منظوم تھا تو اُسے شاعری گردانا جاتا تھا۔ اس بدعت کے خلاف ارسطو نے نہایت سخت رویہ اختیار کیا۔ اور اپنے مخصوص استدلالی انداز کو چھوڑ کر جذباتی انداز اختیار کیا۔ دراصل ارسطو وزن اور موزونیت کے خلاف نہیں لیکن ایسی شاعری کا بھی قائل نہیں جو صرف موزونیت کی حامل ہو۔ اور اس میں کسی قسم کی سچائی کا انکشاف نہ ہو اور نہ ہی خیال و فکر موجود ہو۔ ارسطو کے اس بیان کو سیاق و سباق کے اس عہد میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیو نکہ عام صورت حال میں ارسطو نغمگی اور آھنگ کا اتنا قائل ہے کہ بعض نثر پاروں کو شاعری مانتا ہے ۔ لیکن اس موزونیت کو ثانوی اہمیت دیتا ہے۔ اور لفظوں کے ذریعے تنقید کے مختلف طریقوں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ شاعر لفظوں کے ذریعے جو نقالی پیش کرتا ہے۔ وہ کسی کائناتی صداقت اور علم کی دریافت کا باعث بنے تب ہی وہ شاعر کہلایا جائے گا۔ کیونکہ قاری کو فوری مسرت اس وقت ملتی ہے جب شاعر ،شاعری کے ذریعے کائنات ، انسان یا خدا کے بارے میں سچائی کا انکشاف کرتا ہے۔ اس طرح شاعری کی بنیاد علم اور اس کا فور ی مقصد مسرت ہے۔
شاعری میں المیہ اور ارسطو:۔
شاعری میں ارسطو نے المیے پر سیر حاصل بحث کی ہے المیے کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ،
” المیہ ایک ایسے عمل کی تقلید کرتا ہے جو سنجیدہ اور مکمل ہو ایک خاص طوالت اور ضخامت کا حامل ہو۔ اس کے مختلف حصے زبان وبیان کے مختلف وسائل سے مزین ہوں اس کی ہیئت بیانیہ ہونے کے بجائے ڈرامائی ہو اور یہ رحم اور خوف کے مناظر کے باعث ان جذبات کے تذکیے کا موجب ہو۔“
المیہ ارسطو کے نزدیک ایسے اعمال و افعال اور حالات و واقعات کی نقل ہے جس کی بنیاد دکھ درد پر ہے اس لئے یہ خود بخود سنجیدہ ہے اس کے مکمل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس میں تین وحدتوں کا خیال رکھا جائے۔
١۔ ابتدائ ٢۔ وسط ٣۔ انتہا
ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطو سے ایلیٹ تک “ میں ارسطو کے المیے یا ٹریجڈی کی اہمیت یوں واضح کرتے ہیں کہ ،
” ارسطو ٹریجڈی کو تمام اصناف کا کامل نمونہ سمجھتا ہے بلکہ ایک جگہ وہ یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ جو کچھ ٹریجڈی کے بارے میں کیا جائے گا۔ وہ سب اصناف پر پورا اترے گا۔“
المیہ ایک خاص طوالت و ضخامت کا حامل ہوتا ہے۔ نہ تو اس کو اتنا طویل ہونا چاہیے کہ قاری کو پچھلے واقعات یاد رکھنے کے لئے ذہن پر زور دینا پڑے اور نہ ہی اتنا مختصر ہو کہ قاری پر اپنا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے اس کے مختلف حصے یعنی ابتداءوسط اور انتہا زبان و بیان کے مختلف وسائل یعنی تشبیہ ، استعارہ اور غنائیہ سے مزین ہو یعنی جمالیاتی حظ کے لئے فن کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ ارسطو کے نزدیک المیے کا فن ، فکری ڈھانچہ بیانیہ ہونے کی بجائے ڈرامائی ہو ۔ یعنی حقیقت کا بیان سیدھے سادے طریقے کی بجائے ڈرامائی انداز میں ہو تاکہ ناظر اور قاری میں تجسّس و جستجو کے جذبے کو ابھارا جا سکے ۔اور وہ یہ جاننے کے لئے بے چین ہو کہ آگے کیا ہوگا۔ المیے کا آخری حصہ قابلِ توجہ اور نہایت اہم ہے۔ جس میں ارسطو ”کتھارسس“ کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ جس سے زائد جذبات کا انخلاءہوتا ہے۔بعض ناقدین نے المیے میں خوف کے جذبے پر اعتراض کیا ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جب تک کوئی خطرہ بنی نوع انسان کو براہ راست نہیں گھیر لیتا کوئی شخص بھی براہ راست خوف محسوس نہیں کرتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناظر فطری طور پر فن کار کے لئے ہمدردی محسوس کرتا ہے۔
افلاطون کا خیال تھا کہ المیہ انسان کو بیمار کر دیتا ہے اور ان کی ذہنی گھٹن کو بڑھا دیتا ہے۔ جب کہ ارسطو کے نزدیک بیمار کرنے کی بجائے علاج کرتا ہے اور اس کی یہی افادی اہمیت ہے۔
کیتھارسس کے سلسلے میں ایک اور بحث عام ہے کہ تظہیر نفس کی اہمیت نفسیاتی ہے یا اخلاقی اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیتھارسس منفی ہے یا زائد جذبات کا انخلاء، چاہے وہ کس طرح بھی ہو اگرچہ ارسطو نے المیے کے ذریعے صرف دکھ درد کے جذبات کے انخلاءکا ذکر کیا ہے لیکن ہم دیکھتے کہ یہ کام طربیہ ، غنائیہ اور رزمیہ سے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ المیے کے ذریعے صرف جذباتی گھٹن کو ہی نہیں کم کیا جس سکتا بلکہ یہ ہمارے نگاہ کو بھی بصیرت عطا کرتی ہے ہم تقدیر کے قائل ہونے لگتے ہیں۔ اور ہمیں اپنا آپ ہلکا لگنے لگتا ہے۔ جذبات کا یہ تذکیہ انسانی تجربات کو وسیع کرتا ہے اور ان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتا ہے۔
”LESING“ کے مطابق ارسطو نے المیے میں خوف کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ناظر یہ سمجھتا ہے کہ مصیبت میں گرفتار شخص وہ خود بھی ہو سکتا ہے۔ پروفیسر ایم ایم اشرف اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
” رحم کو المیے کا خصوصی جذبہ ضرور کہا جا سکتا ہے خوف کی حیثیت ضمنی جذبے کی ہے۔“
ارسطو کے نزدیک المیہ خالق اور ناظر دونوں کا تزکیہ کرتا ہے کیوں کہ جب کوئی خالق تخلیق پیش کرتا ہے تو اپنی تخلیق کے ذریعے اس کرب سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔جو اسے تخلیق پر آمادہ کرتا ہے۔ اور ان کے جذبات کی تظہیر بھی ہوتی ہے۔ جب ناظر یا قاری اس سے حظ اُٹھاتا ہے تو اس کے اندر کی گھٹن کم ہو جاتی ہے۔ ارسطو کے نزدیک المیہ بے چینی یا فشار کے بجائے صحت مند اثرات کا حامل ہوتا ہے۔
ارسطو کے نزدیک المیے کے عناصر ترکیبی چھ ہیں جس پر تفصیلاً بحث کی ہے جو کہ ذیل ہیں۔
١۔پلاٹ ٢۔کردار ٣۔فکری مواد یا موضوع، معروضی تقلید ٤۔زبان و بیان، وسیلہ ٥۔نغمہ
٦۔منظر
ان سب میں ارسطو پلاٹ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔
پلاٹ ارسطو کی نظر میں:۔
ارسطو کا خیا ل ہے کہ پلاٹ ہی واقعات کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پلاٹ زندگی کے نمائند ہ واقعات کو آپس میں اس طرح جوڑتا ہے کہ ہر واقعہ پہلے سے جڑا ہو نظرا تا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ پلاٹ واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھتا ہے اور پلاٹ ہی کے ذریعے کہانی میں یکے بعد دیگرے واقعات کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ پلاٹ واقعات کا مرتب ڈھانچہ ہوتا ہے۔ یہ المیے کا پہلا اور بنیادی عنصر ہے۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ”مغرب کے تنقیدی اصول “ میں ارسطو کے نزدیک پلاٹ کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں کہ،
” اس ( ارسطو( کی نظر میں پلاٹ ، ڈرامائی اشخاص کو ذاتی و جذباتی صلاحیتوں ( کرداروں ) اور ان کے عقلی و فکری رجحانات ( خیال ) دونوں میں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔“
کردار:۔
ارسطو المیے میں کرداروں کو بھی اہمیت دیتا ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ کرداروں کی گفتگو چاہے کتنی ہی دلچسپ ، منطقی اور مرتب کیوں نہ ہو وہ ایک پلاٹ کی طرح کہانی کی بنت نہیں کر سکتی ۔ چنانچہ اولین حیثیت پلاٹ ہی کو حاصل ہے۔ اور کردار تو محض پیش کرنے والے ہیں۔ کرداروں میں وہ ہیرو کے کردار کو اہمیت دیتا ہے اگر ہیرو کو اپنے دوستوں سے مصائب ملیں تو المیہ مثالی بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود ارسطو کا کہنا ہے کہ،
” سب سے زیادہ اہم خیز و صورت ہے جس میں اس ذریعے سے برے نتائج برآمد ہوں جس سے اچھے نتائج کی توقع ہوتی ہے۔“
فکری مواد:۔
المیے کا تیسرا اہم موضوع فکری مواد ہے جس میں معروضی تقلید سے کام لیا جاتا ہے موضوع کے بارے میں ارسطو کا نظریہ یہ ہے کہ” وہ ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں المناک صور ت حال دوستوں اور عزیزوں کے انجانے عمل سے پیدا ہونہ کہ دشمنوں کے بلا ارادہ عمل اور نہ اتفاقی سے“
زبان و بیان:۔
ارسطو جمالیاتی قدروں کا قائل تھا۔ اس لئے وہ شعری زبان اور معمولی نثر میں فرق کو اہمیت دیتا ہے۔ کیوں کہ استعارہ ندرت اور اختراعی ذہن کی پیداوار ہے۔ ارسطو لکھتے ہیں۔
”مرکب الفاظ طربیہ اور غنائیہ کو مزین اسلوب کے لئے موزوں ہیں غیر موزوں الفاظ رزمیہ نظموں کے لئے مناسب ہیں ۔ ڈرامائی نظم میں استعاروں کا استعمال ہونا چاہیے۔ “
نغمہ:۔
افلاطوں کے برعکس ارسطو جمالیاتی اقدار کو برتنے پر زور دیتا ہے۔ اور المیے میں نغموں کا ذکر کرتا ہے کیونکہ نغموں کی موجودگی سے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ نغمے خارجی نہ ہوں بلکہ بنیادی قصہ میں شامل ہوں۔
منظر کے بارے میں ارسطو کا خیال:۔
المیے کے چھٹے عنصر منظر کو وہ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اس کے نزدیک لباس اور سٹیج کا فن لازمی جز نہیں و ہ اس بارے میں یہاں تک کہتا ہے ” محض پڑھ کریا سن کر بغیر سٹیج پر پیش کئے المناک تاثرات پیش کئے جا سکتے ہیں۔ “ تنقید کا یہ انداز ارسطو جیسے سائنٹیفک فلسفی کے لئے غیر مناسب تھا۔ اصل میں ارسطو علم کے ایک معمولی جز کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطالعے اور تجزیے کے ذریعے کائنات کی اہم حقیقتوں تک پہنچتا ہے۔
ANS 02
دانتے اور ڈرائیڈن انسان کو فطرت سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتا ہے اور وہی انسان اس کے نزدیک اچھا انسان ہے جو فطرت سے جڑا ہوا ہو۔ شاعری کے مقصد کو بھی وہ اسی عمدہ انسان سے جوڑتا ہے اور شاعری کو ایسی ہی معیاری انسانی زندگی کا عکاس قرار دیتا ہے۔ اسی ذیل میں وہ کہتا ہے فطری انسان کی زبان احساس سے بھرپور ہوتی ہے اور فطری انسان مستقل اور مضبوط احساس کا حامل ہوتا ہے۔
دانتے اور ڈرائیڈن شعری زبان کے متعلق عوامی لب و لہجہ کا قائل ہے اور کہتا ہے شاعری فطری زبان میں ہونی چاہیے کیونکہ مخلص جذبات کی عکاسی فطری زبان میں ہی سب سے بہتر ہو سکتی ہے۔ اس بات کی ذیل میں ہم پہلے دانتے اور ڈرائیڈن کی بات کا اعادہ کرتے ہیں اور پھر افلاطون کی بات کا تناظر بطور نمونہ کے پیش کیے دیتے ہیں کہ کس طرح ادب و شاعری کے لئے بنائے گئے قدما فلاسفہ و ناقدین کے ادبی اصول تسلسل کے ساتھ تغیر پذیر اور اثر پذیر رہے ہیں۔ دانتے اور ڈرائیڈن شاعری کو ”شدید جذبات کا بے ساختہ اظہار“ کہتا ہے اور افلاطون شاعری کے حوالہ سے جب شاعرانہ جنون کی بات کرتا ہے تو اس کا مقصود یہاں جذبوں کو موضوع بنانا ہے، دانتے اور ڈرائیڈن کا جذبات کی شدت کا اظہار ایک طرح کا جہاں جمالیاتی نظریے کے زیر اثر ہے وہیں یہ افلاطون کے نظریے کا تسلسل بھی نظر آتا ہے۔
دانتے اور ڈرائیڈن انسان اور فطرت میں دوئی قائم نہیں کرتا بلکہ انہیں لازم و ملزوم سمجھتا ہے، وہ کامل انسان سمجھتا ہی اسی کو ہے جو جتنا زیادہ فطرت سے ہم آہنگ ہو گا۔ شاعر کے ذمہ وہ یہ کرتا ہے کہ شاعر، فطرت و انسان کی ہم آہنگی کو لفظی پیکر اور تخیلاتی تمثیل کے ذریعہ منکشف کرے۔ وہ شاعری کو محض جمالیاتی تسکین کا ذریعہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے کل علم کی روح جمال سمجھتا ہے، وہ قوت متخیلہ کو شاعری کی رنگ آمیزی کے لئے ناگزیر سمجھتا ہے۔
وہ شاعری کو اجتماعی زندگی میں اہم جانتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے نوع انسان علم و جذبے کے باہمی اشتراک سے وسیع سطح پہ اپنے آپ کو متحد رکھتا ہے۔ زبان کے حوالہ سے وہ سلاست کا قائل ہے کہ سادہ زبان ہی شاعری کے ظاہر و باطن میں حسن پیدا کر سکتی ہے۔ جہاں وہ شاعری کو علوم و فنون کی روح لطیف کہتا ہے وہیں شاعری کو علم کا ذریعہ بھی خیال کرتا ہے۔ شاعری میں صداقت و اخلاقی مقاصد کی بات بالترتیب خالص جذبات اور انسانوں کے مابین محبت، کے حوالہ سے کرتا ہے۔
شاعری میں اوزان و بحور کو وہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے جمالیاتی حظ کا حصول ہوتا ہے۔ شاعری کو جذبہ کی بنیاد پر لازوال کہتا ہے اور تجربہ صداقت کی بنیاد پر اسے دوسروں لوگوں اور علوم (فلاسفہ اور سائنس ) سے ممتاز کرتا ہے جو کہ شاعر نہیں ہیں۔ وہ شاعری میں آرام دہ لمحوں کی بات جذبات کے حوالہ سے کرتا ہے۔
(Emotions recollected in tranquility)
دانتے اور ڈرائیڈن فن کو تجربے کے حوالہ سے بڑی اہمیت کا حامل گردانتا ہے، وہ فطرت کو بھی اس تجربے کا حصہ بناتا ہے اور اسے وقیع درجہ دیتا ہے، آخری عمر میں تو وہ فن کاری کا بہت نام لیوا نظر آتا ہے، اسی حوالہ سے اپنے ایک دوست کو بھی لکھتا ہے :
”نظم گوئی عام تصورات سے بہت زیادہ فنی ریہرسل کا تقاضا کرتی ہے“
وہ کہتا ہے فطرت کو شاعر کی ذہنی کیفیت کا بھی حصہ بننا چاہیے تب جا کر وہ تجربہ کی بھٹی سے گزر کر قدر و قیمت کا حامل ہو گا۔ وہ اپنی نظموں میں فطرت کے تجربے کو پیش کرتا ہے اور اس کی نظمیں فطرت کی عکاس نظر آتی ہیں، نظموں میں وہ تجربے کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرتا نظر آتا ہے وہ کہتا ہے اس طرح ہی تجربے اور فطرت کو ہم آہنگ کرنے سے الہیاتی کشف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
دانتے اور ڈرائیڈن کہتا ہے شاعر اظہار کی سب سے اعلی صورت تب ہی پا سکتا ہے جب وہ احساس کے تجزیے سے آگاہ ہو اور وہ احساس اس نے فطرت پر غور و فکر کے ذریعے حاصل کیا ہو۔
دانتے اور ڈرائیڈن کہتا ہے شاعری کا کوئی نہ کوئی جواز یا مقصد ہونا چاہیے اور اس کو قاری پر اثرات سے ہی معلوم کیا جا سکتا ہے وہ کہتا ہے شاعری کے ذریعے شاعر کوئی اہم پیغام دے۔
” معیاری شاعر لوگوں کے احساس کو منظم کرتا ہے۔ انہیں نئے احساسات سے باخبر کرتا ہے، احساس کو شائستہ، پاکیزہ اور مربوط و مضبوط بناتا ہے، اختصار کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ فطرت سے جوڑتا ہے، ہمیشگی فطرت سے جس سے تمام اشیا کو جذبہ ملتا ہے“ ۔
دانتے اور ڈرائیڈن کے ہاں فطرت بھی دو طرح کی نظر آتی ہے ایک کو وہ خارجی فطرت کہتا ہے کہ یہ فطرت انسان کی ذہنی و جذباتی صلاحیتوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور اسے ایک خاص پیکر میں ڈھال دیتی ہے جبکہ دوسری فطرت کو وہ انسانی فطرت کہتا ہے کہ یہ فطرت انسانیت سے انسان کی قدروقیمت بڑھا دیتی ہے۔
جس طرح ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ دانتے اور ڈرائیڈن قوت متخیلہ کو شاعری کی رنگ آمیزی کے لئے ضروری خیال کرتا ہے، ہم اس کی تھوڑی مزید صراحت کریں گے کہ کیسے دانتے اور ڈرائیڈن اس کو ضروری خیال کرتا ہے؟ وہ متخیلہ کو داخلی شے سمجھتا ہے، اس کا متخیلہ کا تصور معروض سے جڑا نظر آتا ہے تبھی تو وہ یہ کہتا ہے جو موضوعات عام زندگی سے لیے جاتے ہیں قوت متخیلہ کی بوقلمونی کی بنیاد پر وہ شعری موضوعات کا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں، اسی ذیل میں وہ یہ لکھتا ہے کہ:
” شاعری کا کام یہ ہے کہ وہ چیزوں کو اس طرح مستعمل نہ کرے جیسی وہ ہیں بلکہ جیسی وہ نظر آتی ہیں۔ اس طرح نہیں جیسے ان کا اصلی وجود ہے بلکہ اس طرح جیسے وہ احساسات اور جذبات کے روبرو خود کو پیش کرتی ہوں“ ۔
وہ متخیلہ کو بذات خود تخلیقی قوت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ جو فطرت کے مظاہر کی طرح چیزوں کو خلق کر سکتا ہے، اس کا خیال ہے کہ متخیلہ، تکثیریت کو اکائی میں بدل دیتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ اسے مرکز سے لامرکز میں تبدیل کرنے والی شے بھی سمجھتا ہے۔ دانتے اور ڈرائیڈن متخیلہ کے برعکس متصورہ کو بھی تخلیقی شے سمجھتا ہے کہ یہ دونوں قوتیں ہی اشیا کو جمع کرتی ہیں اور ان میں ربط بھی قائم کرتی ہیں۔ ہم دانتے اور ڈرائیڈن کی اس بات پر ہی اختتام کرتے ہیں کہ انسانی ذہن اور فطرت کے عمل کی مطابقت اور اس کو اعلی حسیاتی سطح پہ پیش کش کرنے کی صلاحیت شاعری میں مسرت کا حصول ممکن بناتی ہے۔
ANS 03
ایزرا پاؤنڈ (1885-1972) امریکہ کے نقاد، شاعر اور پروپیگنڈہ کرنے والے احتجاجی اور مزاحمتی مزاج کے ادیب و شاعر ہیں۔ جدیدیت کے رجحان کی تشکیل کی قلمی اور عملی قوتوں میں ان کی نثر اور شاعری نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہو ں نے اپنےدور کے سب سے زیادہ بااثر ادبا ، شعرا ا ور دانشوروں کے ساتھ رابطہ استوار کیا تھا ۔
” آزاد نظم ” کی شعری مشق نے شعری آفاق میں نئے نظام اشاریت کو ہی خلق نہیں کیا بلکہ اس کو شعری تجربے گاہ میں بھی لے آئے۔ اور اس پر آزادانہ طور پر مباحث کی دعوت دی۔ اس نئے پن میں رسمی شعری اور فکری تجربات ہنری مندی اور جمالیات کی نئی خوشبویں پھیلی ہوئی تھیں۔ جس کو ” آون گارد ” / avant garde بھی کہا جاتا ہے۔
ایزرا پاؤنڈ نے جدیدیت کی جمالیاتی اور جدید معاشرتی حسیات کو اپنی تحریروں میں فروغ دیا اور انھوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی اور امریکی نوجوان لکھنے والوں کے درمیان تخلیقی عمل اور فکر اور خیالات کو تقابلی انداز میں پیش کرتے ہوئے ” مبادلیاتی اور تجزیاتی” مباحث کے دروازے کھول دئیے۔ جس میں ڈبلیو۔بی ایٹس، رابرٹ فراست، ولیم جیمز ، کارلوس ، ماریانے مور، جیمز جوائس، ارنسٹ ہیمنگوے اور خاص طور پر ٹی۔ ایس ایلیٹ شامل ہیں۔
ایزرا پاونڈ 30 اکتوبر 1885 میں امریکی ریاست اوہایو کے چھوٹے سے قصبے ” ہیلی میں پیدا ہوئے۔ 1889 میں ان کا خاندان فلاڈلفیا کے ایک نواحی قصبے ” جنکشن ٹاون” منتقل ہوگیا۔ ہیملٹن کالج اور پینسلوینیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جہاں سے انھوں نے ایم اے کی سند حاصل کی۔ یہاں ان کی ملاقات شاعر ولیم کریوزولیمز سے ہوئی جو ان کے ہی ہم مکتب تھے۔ اس کے بعد ایزرا پاونڈ نے نیویارک کے ایک کالج کی راہ لی۔ یہیں پر ان کو پرودانس کی شاعری سے شغف پیدا ہوا۔ اور وہ تاحیات ان کی شاعری سے متاثر رہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے ہسپانوی ڈرامے اور تھیٹر میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کا مطالعہ کیا اور ہسپانوی اور اطالوی شاعری کا بھی مطالعہ کیا۔ انہوں نے ہسپانوی ڈامہ نگار لوپ ڈی ویگا پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اپنے غیر رسمی اخلاقی مزاج کے سبب انھیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
1900 میں وہ یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ کچھ عرصہ وہ اٹلی میں قیام پذیر رہے۔ جہاں وینس میں انھوں نے 1908 میں اپنی نظموں کی پہلی بیاض ” LUME SPENTO” کو شائع کروایا۔ 1909 میں ایزرا پاونڈ لندن چلے گئے۔ جہان وہ 1920 تک رہے۔ اسی دوران ان کی ملاقات آئرلینڈ کے قوم پرست اور نوآبادیات شکن شاعر ڈبلیو بی ایٹس سے ہوئی۔ اور انھوں نے لندن میں ایک ادبی حلقہ بنالیا۔ جس میں ٹی۔ ایس ایلٹ بھی شامل تھے۔ جس کے مربی اور رہنما ایزرا پاونڈ خود ہی تھے۔ وہ بنگال کے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے بڑے مداح تھے ۔ وہ ٹیگور کو نوبل انعا م دلوانے میں ییٹس کے ساتھ مل کر کوششیں کرتے رہے۔ لیکن بعد میں ٹیگور کو لوگوں نے پیغمبر بنا دیا تو پونڈ نے ان کے حامیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ” میں نے ٹیگور کو شاعر کے طور پر قبول کیا تھا۔۔ مسیحا کے طور پر نہیں۔
” 1900میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ” PERSONAE” شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے تیرھویں صدی کے اطالوی شاعر کیول کینٹی / CAVAL CANTI اور چینی شاعری کے ترجمے اور تصرفات بھی 1912 اور 1915 میں چھاپی۔ 1920 میں ان کی معروف نظم “HIGH SELWYN MAUBERLEY” شائع ہوئی۔ اسی برس وہ پیرس میں قیام پذیر ہوئے۔ اور 1924 تک وہ دریائے سین کے بائیں کنارے پر سکونت پذیر رہے۔ جہاں امریکہ اور دوسرے ملکوں کے تارکین وطن لوگوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی۔ جن میں گرٹروڈاسٹین کے علاوہ ہیمنگوے اور جمیس جوائس بھی تھے جن سے ایزرا پونڈ کی گہری دوستی تھی۔ 1924 میں پھر وہ واپس اٹلی آئے ور پھر تقریباً بیس سال وہیں رہے۔ ” کینٹوز/ CANTOS” کی پہلی قسط 1925 میں چھپی۔ اور 1955 تک اس کی متعدد قسطیں شائع ہوئیں۔ کینٹوز کی آخری قسط “ROCK. DRILL” 1955 میں چھپی۔ ایزرا پوندڈ نے ہیوم کی رومانی شاعری کو مسترد کرتے ہوئے اس پر اپنے شدید ردعمل کا ظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کی رومانی شاعری فرد کو لامحدودیت کا اہل تصور کرتی ہے۔ اور یہ خطرناک رجحان ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ رومانیت کے جذباتی اسلوب کے بجائے اب ایک نئے شعری محاورے کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ہیوم کی اس شعری تحریک میں شامل تھے اور اس تحریک کو پیکریت/ تمثال پسند شاعری کہا۔ ہیوم اور پاونڈ کی نظر میں ” امیج” آرائش کازریعہ نہیں بلکہ ایک گہری وردات کا ترجمان ہوتا ہے۔
ایزرا پونڈ کی شروع کی شاعری پرپرسانس کی شعری روایت کا عمیق اثرات تھے۔ پونڈ کی شاعری قوت بیان اور فنی حسن و جمالیات سے خالی ہے۔ اور یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ ہنوز تشریح اور تفہیم طلب ہے۔ مگر کینٹوز میں بھی جو ان کی سب سے مشکل اور دقیق نظم ہے۔ اس میں قاری کو کچھ ایسے تراشے مل جاتے ہیں جن میں غزلیہ شاعری کا لازوال جمال و حسن اور لطافت بھی ہے۔ اس نظم میں ایسے حصے بھی ہیں جس میں پونڈ کی بذلہ سنجی بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں جن میں تلمیحات کو سمجھے بغیر ان سے لطف و انبساط ملتا ہے۔ مثلا ً ان کی نظم “DANCE FIGURE” سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ قاری کو” گلیلی” شادی کے بارے میں آگاہی ہو۔ جس میں حضرت عیسی { علیہ} شریک ہوئے تھے۔ا یزرا پونڈ کی اس نظم کا یہ ٹکڑا دیکھیں :
۔۔۔ اے کالی آنکھوں والی،
میرے خواب کی حسینہ
سیم تن،
رقاصاوں میں تجھ سا کوئی نہیں
ایزرا پونڈ ڈبلیو بی یٹس سے بہت قریب رہے۔ مگر ان دنوں کی دلچسپیاں مختلف تھیں۔ مگر ان دونوں نے ایک دوسرے کے اثرات قبول کئے۔ ہیٹس باطنی علوم اور قدیم دانش اور متصوفانہ رویوں کو پسند کرتے تھے۔ جب کہ پونڈ نے ان علوم و فکریات سے دلچسپی کا کبھی اظہار نہیں کیا۔ مگر ان کے کینٹوز کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یٹس کے دلچسپی کے موضوعات سے اس نے براہ راست فائدہ اٹھایا۔ ۔ اس سلسلے میں پونڈ کا کہنا ہے” ییٹس سے میں نے جو اصل بات سیکھی وہ یہ تھی کہ شاعر پر ایسا وقت بھی آتا ہے۔ جب وہ فاونٹین کا قافیہ ماونٹین باندھتے ہیں۔
اٹلی میں قیام کے دوران معیشت اور معاشی تاریخ میں پونڈ کی دلچسپیوں میں اضافہ ہوا، انھوں نےمیجر سی ایچ ڈگلس {Major C.H. Douglas}جو” معاشرتی کریڈٹ” {Social Credit, }کے بانی تھے۔ ڈگلس،نے ایک معاشی اصول مرتب کیا کہ دولت کی کمزور اور غیر منصفانہ تقسیم حکومتوں کی ناکافی اور کمزور حکمت عملیوں کے سبب ہوئی ہیں۔ پاؤنڈ بین الاقوامی بینکوں کی ناانصافیوں کو معاشرتی برائیوں کی جڑ تصور کرتے تھے۔ ، جن کی من مانی حکمت عملیوں کی وجہ سے پیسہ کی جنگ اور تنازعات جنم لیتے ہیں اور ممالک کے درمیاں جنگیں بھی ہوتی ہیں۔.
اس معاملے میں پاونڈ نے اطالوی آمر، بینوٹو میسو لینی کے نظریات کو لبیّک کہا۔ . 1939 میں، پائونڈ نے امید ظاہر کی تھی ان کا خیال تھا کہ اگر ان کے تصورات سے مد د لی جائے تو ممالک جنگ سے اور اس کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں۔ کے اور ایزرا پاونڈ نے میسولینی کے نظریات کے تحت اس بات کا دعوی کیا کہ یہودیوں کے بینکوں کے ذریعے امریکی کو پہلی جنگ عظیم میں لا پھینکا گیا۔
ایزرا پاونڈ نے اقتصادی مسائل اور دولت کی ہیت اور تقسیم دولت کے کچھ پمفلٹ لکھے۔ ان کا خیال تھا کی رزمیہ نظم میں تاریخ کا عمل دخل ہوتا ہے اور تاریخ کو معاشی نظریات کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس وقت امریکہ نظام زر کی نمائندہ قوت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ پاونڈ نے امریکی معیشت سے ہمیشہ نفرت کی اور انکا ذہن فسطائیوں کے قریب ہوگیا۔ اور فسطائی نظریات میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی ۔ وہ مسولینی پرامریکی صدر کو فوقیت دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کی مولیسنی اور ایڈولف ہٹلر کنفیوشیس کی تعلیمات اور نظریات سے متاثر تھے۔ اس لیے وہ امریکہ کے لالچی یہودیوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا ان رہنماوں کی ناکامی یہی تھی وہ کنفیوشیس کے نظریات کومکمل طور پر سمجھ نہیں پائے۔ اور اس کا ملک میں اطلاق نہیں کرسکے۔ پونڈ کی غیر مقبولیت کی ایک وجہ سرمایہ داریت کے خلاف ان کی شدید اور جارحانہ تضحیک اور مخالفت ہے۔ حالانکہ مسولینی کی امریت کے حامی تھے۔ جو سرمایہ داریت کی انتہائی شکل ہے۔ یہ غیر معمولی تضاد ہے۔ جو پاونڈ کے خیالی تصور ” معاشرتی قرض” ( SOCIAL CREDIT) کو بے معنی بنادیتی ہے۔ وہ جدید سرمایہ داری کو مغربی تہذیب کی موت کہتے ہیں۔ ان کی منطق سے قطع نظر یہ نظریہ مغرب کے سرمایہ دار ملکوں خصوصا امریکہ اور انگلستان میں نہایت ناپسندیدگی سے مسترد کیا۔ کیونکہ ان ممالک کے معاشروں کی بنیاد سرمایہ کاری پر ہی ہے۔ 1921 میں انھوں نے اطالوی ریڈیو پر امریکی پالیسیوں کے خلاف تقاریر کیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران پاونڈ نے روم ریڈیو سے ہفتے میں دو بارتقاریر کرتے تھے۔ اپنی تقریروں میں انھوں نے امریکی عوام کو خبردار کیا کہ وہ ایک بڑی سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ ایک ایسا نظام قبول کررہے ہیں۔ جو انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ انھوں نے کہا امریکی عوام اصل حقائق سے بے خبر ہے۔ اس لیے امریکی اخبارات اور نشر وابلاغ کی حکمت عملیاں پالیسیاں صنعت کاروں اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کی مرضی سے طے ہوتی ہیں۔ مگر وہ کہتے تھے میں نے جنگ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ میں نے صرف نظام کی مخالفت کی تھی جو جنگیں پیدا کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ تقریریں اقتصادیات اور تاریخ کے بارے میں مخصوص نظریات کی بنیاد پر کی تھیں۔ اور کبھی کوئی جرمن یا اطالوی افسر اسے حکم دینے کی ہمت نہیں کرسکا۔ پاونڈ کو رجعت پسند شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ 1935 میں شائع ہونے والی کتاب ”
JAFEERSON AND/ OR MUSSOLINI” کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے وہ میسولینی کا بڑا حامی اور مداح تھا۔ ان کی ریڈیو کی امریکہ شکن تقاریر پر امریکی اسٹمبلشمنٹ کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ 1942 میں ان کی عدم موجودگی میں ان پر غداری اور ملک دشمنی کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔ 1948 میں وہ میسولینی کی شکست کے بعد گرفتار کرکے امریکہ لایا گیا۔ جہاں ان کا طبّی معائنہ کرکے انھٰیں پاگل قرار دے کر واشنگٹن کے سینٹ الزبتھ ہسپتال میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں انھوں نے تیرہ سال بسر کئے۔ رہائی کے بعد وہ اٹلی چلے گئے۔ وہاں انھوں نے ایک صحیفہ نگار سے کہا ” امریکہ ایک بہت بڑا پاگل خانہ ہے ” ، ایزرا پاونڈ نے فسطائی انداز میں سلام بھی پیش کیا۔ اور کہا کہ وہ یہاں کی مٹی کو چومنا چاہتا ہے۔ لیکن یہاں مجھے ہر طرف سمینٹ کا فرش نظر آتا ہے مجھے کسی چراگاہ یا گھاس کےمیدان میں لے جاؤ۔
ANS 04
نثری اصناف میں ناول ایک اہم ترین صنف ہے۔مختلف ناقدین نے ناول کے حوالے سے اپنی مختلف رائیں پیش کی ہیں۔ اٹھارویں صدی میں کلاراریو(Clara Reeve)نے اپنی کتاب “Progress of Romance”۱۷۸۵ء) میں لکھا:
“The novel is a picture of real life and manners, and of time in which it is written.”
اور اس کے ایک صدی بعد ہنری جیمز نے ۱۸۸۴ء میں اپنے مشہور مقالے ’’فکشن کافن‘‘ میں یہ رائے دی:
’’ناول کی وسیع ترین تعریف یہ ہے کہ وہ زندگی کا ذاتی اور براہ راست تاثر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اس کی قدر وقیمت مقرر کرتی ہے۔ اگریہ تاثر پوری شدت سے بیان ہو گیاتو ناول کام یاب ہے اور اگر کمزور رہا تو اسی اعتبار سے ناول کم زور اور ناکامیاب ہو گا۔
اور بیسویں صدی میں ڈی ایچ لارنس نے بھی اسی سے ملتی جلتی رائے دی:
’’ناول کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گردو پیش میں پائی جانے والی کائنات کے مابین جو ربط موجود ہے، اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے”۔
ناول کے دیگر مغربی نقادوں لباک، ای ایم فاسٹر، ہیری لیون، فرینک کرموڈ، آرسٹیگ آئن واٹ اور رینے ویلک وغیرہ نے بھی اسی قسم کی تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان ناقدین کے تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ناول ہماری حقیقی زندگی کا ترجمان ہوتاہے۔ جو تجربات، سانحات اور واقعات ہمیں روز مرہ زندگی میں پیش آتے ہیں، ناول انھیں بیان کرتا ہے۔ یوں ہم ناول کے ذریعے اپنی گزری اور گزررہی زندگی کی باز آفرینی کرتے ہیں کیونکہ ناول ہمارے ماضی اور حال کا آئنہ ہوتا ہے۔
ناول کی تنقید کے ابتدائی نقوش یونانی تنقید میں ملتے ہیں۔ افلاطون نے ’جمہوریہ ‘‘میں نقل نگاری (Mimesis)اور واقعہ نگاری(Digesis)کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ افلاطون نقل سے مراد ایسا بیانیہ لیتا ہے جو کسی واقعے کی ٹھیک ٹھیک نمایندگی یا نقل کرے۔ ’’نقل‘‘پڑھتے ہوئے ہمارا دھیان نہ صرف واقعے پر برابر مرکوز رہے بلکہ اس کے حقیقی ہونے کا تاثر بھی ملے۔ دوسرے لفظوں میں ’’نقل‘‘ ایک قسم کی حقیقت نگاری ہے، جب کہ ’’واقعہ نگاری‘‘ ایک ایسے بیانیہ کا مفہوم لیے ہوئے ہے جو اپنے تخیلی اور تشکیلی ہونے کا تاثر دے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کی توجہ بیانیے کی اپنی جداگا نہ کائنات پر مرکوز رہے۔
ہم کَہ سکتے ہیں کہ ’’نقل‘ ناول کو زندگی کے خارجی ،مانوس اور روز مرہ تجربات سے مربوط کرتی ہے اور واقعہ نگاری بیانئے کے خود مختار ، خود کفیل اور خود اپنے شعریاتی ضوابط کے تابع ہونے کا مفہوم دیتا ہے۔ نقل ،واقعہ ہے اور واقعہ نگاری، بیان واقعہ۔ نیز یہ دو اصطلاحیں دو زاویہ ہائے نظر بھی ہیں جو ناول کو زندگی کی نظر سے اور ناول کو خود ناول کی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہیں۔ ایک ناول کے اصول ناول سے باہر زندگی میں تلاش کرتا ہے اور دوسرا زاویہ نگاہ ناول کے اصولوں کو خود ناول کے اندر دریافت کرتا ہے۔ ۔
ان تفصیلات کی روشنی میں اس مقالے میں ان سوالوں پرباختن کے نظریہ اصنافکا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔
روسی ماہر لسانیات اور نقاد میخائل باختن کا خیال ہے کہ روز اوّل سے ادبی تنقید نے ان سوالوں کو الجھایا ہے۔ اور ایک طویل عرصے تک ناول کی تنقید میں مائی می سس کا زاویہ نظر حاوی رہا اور ناول کو زندگی اور اس کے تجربات و مسائل کی ترجمانی کے حوالے سے سمجھنے اور جانچنے کا میلان غالب رہا اور اب ڈائی جی سس کے زوایہ نظر نے اپنی موزونیت کو باور کرایا ہے اور ناول کی شعریات اور اس کی رسمیات و ضوابط کودریافت اور طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
روسی ہیئت پسندی اور ساختیات سے قبل فکشن کی تنقید میں یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی تھی کہ فکشن (بالخصوص ناول اور افسانے)کا زندگی سے گہرا ،اٹوٹ رشتہ ہے اور فکشن کا زندگی کے بغیر اور زندگی سے الگ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً افسانوی تنقید نے بیسویں صدی کے اوائل تک یہ موقف اختیار کیے رکھا ہے ۔
بالفاظ دیگر روایتی تنقید نے ناول کے تجزیہ میں مواد یا موضوع (یعنی نظریے )کو فارم سے ہمیشہ الگ تھلگ رکھا ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیالات کا زبان کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے ۔ اس ضمن میں باختن کا خیال ہے کہ فارم اور مواد کے درمیان خط فاصل نہیں کھینچا جا سکتا ۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے وہ ناول اور بالخصوص دوستوواسکی کی ناول پر توجہ مرکوز کرتا ہے . اس کا خیال ہے کہ فارم نظریاتی ہوتا ہے لیکن کوئ بھی نظریہ کسی فارم کے بغیر ممکن نہبں۔ یہی وجہ ہے کہ باختن سماجی اسلوبیات stylistics کی پیروی کرتا ہے۔کیونکہ اس کی نظر میں نشان ( سائن ) ایک مستحکم اکائ نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک خاص سماجی سیاق میں اپنی تعبیر پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باختن ناول کو بھی سیاسی سماجی اقتصادی نظامات کے ساتھ مختص کر کے دیکھتا ہے۔
اس کا خیال ہے کہ ناول ایک واحد ، متحدہ فارم پر مشتمل نہیں ہوتا ہے۔ یعنی ناول ایک ایسی صنف ہے جس میں کئ اصناف کے فارم پوشیدہ ہوتے ہیں جسےوہ اپنے مخصوص لہجے میں”several heterogeneous stylistic unities” ، کہتا ہے مزید یہ کہ اس کی نظر میں اس شاعری کے بر عکس جو یک آوازی اور یک رو منطق کی حامل ہوتی ہے، ناول کثیر الاصواتی یعنی Hetroglot ہوتا ہے۔ اور ناول کا کثیرالاصواتی ڈسکورس ناول کو کثیر فکری بناتا ہے۔ ناول کے کثیرالاصواتی لہجے کے لیے باختن نے بعض جگہوں پر ذو آوازی یعنی Polyphonic یا Dialogic کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کرنے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں‘‘ گویا اس کی نظر میں یہ صنف شاعری کی طرح monological نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کثیر اظہاریت کا عمل کارفرمہ ہوتا ہے جس کے سبب ناول میں مستعمل آواز مصنف تک محدود نہیں ہوتی۔ اپنی اس تحریر میں باختن نے جن تین نمایاں آوازوں کا ذکر کیا ہے ان میں پہلی آواز
• مصنف کی اپنی آواز ہے۔ یہ آواز نام نہاد لیکن براہ راست مصنفی مداخلتوں یعنی interventions authorial کی آواز ہے
• راوی کی آواز ( راوی کی آواز عام طور پر ایک مخصوص ادبی سٹائل یا کنونشن کی آواز ہوتی ہے )؛
• مختلف کردار کی آوازیں ( کردار کی آوازعام طور نیم ادبی انداز میں پیش کردہ آواز ہوتی ہے)۔
دوسرے الفاظ میں، مصنف کی آواز ناول کی کثیرالاصواتی آوازوں میں سے محض ایک آواز ہے۔ . Bakhtin کے لئے، یہ آواز وسیع تر طبقے کی آوازوں سے کم حیثیت رکھتی ہے۔ وسیع تر طبقے کی آواز کسی خاص طبقے کی نظریاتی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے اور کثیرالاصواتی آوازheteroglossia کی وجہ بنتی ہے۔ کثیر الاصواتی متن میں ہر آواز کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ہیٹرو گلوسیا کی اصطلاح درون لسانی تکثیریت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ جو بعض اوقات اسلوبیاتی تنوع کی وجہ بنتی ہے۔ اور ناول میں داخل ہونے والی آوازوں مین کثیر جہتی پیدا کرتی ہے۔ ناول کا مرکز گریز بکھراؤ ( centrifugal Dispersion) ناول میں ” dialogisation “ذوصوتیت تشکیل دیتا ہے اور تحریری علایم و اصطلاحات کی نشو و نما پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ اس طرح ناول رمزیاتی یامجازیاتی (Allegorical) اور خیالی تحریروں کو پیش کرتا ہے
چونکہ ناول کا مزاج کثیرالاصواتی ہے لہذا ناول کی تنقید کو یکساں طور پر فارمالسٹ اور سماجی ہونا چاہیے۔ باختن کا خیال ہے کہ چونکہ ناول کے ڈسکورس میں سماجی تکثیریت شامل ہوتی ہے لہذا ناول کے ڈسکورس کو بخوبی سمجھنے کے لیے ناول کے سماجی سیاق کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اسی سماجی سیاق کے زیر اثر ناول کا لسانی مزاج متشکل ہوتا ہے۔ اور فارم اور مواد کا تعین کرتا ہے
وہ مانتا ہے کہ شاعری، وحدانی اورmonologic ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے شاعر اپنے ارادے کا ” خالص اور براہ راست اظہار کرتا ہے ” مزید یہ کہ شاعری میں کثیرالاصواتی کیفیت نہیں ملتی۔ اس کے الفاظ میں غنائ شاعری neither multiform in style nor variform in voice. ہوتی ہے۔
اس کے برعکس، وہ یہ بھی مانتا ہے کہ کثیرالاصواتی یعنیheteroglossia نثری اصناف مثلا ناول اور افسانے کی غالب خصوصیت ہے۔ مزید وضاجت کے لیے وہ کہتا ہے کہ تنقید کے روایتی طریقہ کار شاعری کی تشریح پر مبنی ہیں. نتیجتا ، وہ اکثر نظریاتیmonologismاور شاعری کے اسلوبیاتی اتحاد کے مقابلے میں ناول کے نظریاتی اور اسلوبیاتی تنوع کو کم کر کے آنکتے ہیں
مؤخر الذکرheteroglossiaکی حقیقت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ناول کا مطالعہ تنقید کے موجودہ فریم ورک میں فٹ نہیں ہوتا ہے۔. اس نقطہ نظر سے، ناول سمیت کوئ بھی نثری اظہار “ایک سماجی طور پر مخصوص ماحول میں اور مخصوص تاریخی لمحے میں ” شکل لیتا ہے اور ” سماجی مکالمے میں شریک ہوتا ہے۔ باختن کے خیال میں، زبان بنیادی طور پر ذو آوازی ہے کیونکہ اس میں مختلف النوع آوازوں کو شریک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور یہ صرف غالب آواز یا غالب نقطہ نظر کے اظہار کا ذریعہ نہیں بنتی ہے۔
یہ تصور کہ ناول شاعری کی طرح، یک آوازی اظہار یعنی monological utterance ہے ایک عرصے تک ادبی تنقید میں غالب رہا ہے کیونکہ یہ تصوّر تاریخی اعتبار سے اس فکر کی نمائندگی کرتا ہے جو اقتصادی، سیاسی، سماجی، اور ثقافتی مرکزیت کا قائل ہے، باختن کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے انیسویں صدی تک ، شاعری کا صنف سب سے زیادہ بورژوائ دلچسپی کا سامان تھا۔ اور اس دور کا ادبی سٹائل بن گیا تھا ۔
گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادبی تنقید نے عام طور پر ایک طویل عرصے تک زبان کے ذو آوازی لہجے اور ناول کے کثیرالاصواتی انداز کو نظر انداز کیا ہے. زبان کے کثیر لسانی لہجے سے ناواقفیت کی وجہ سے ناقدین نے ناول جیسے ان تمام اصناف کو نظر انداز کیا جو نظریاتی سطح پر ان رجحانات کے پیروکار تھے جو مرکز گریز یعنی CENTRIPETAL قدروں کے حامل تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ غنائ شاعری کا مزاج یورپ کے بورژوائ سوچ سے مطابقت رکھتا تھا۔ جو یورپ کے تہذیبی اور ثقافتی وحدت کا قائل تھا۔ اس طرح شاعری میں ہمیں بورژوائ شعور کی صورت گری ملتی ہے ۔کیونکہ اس دور میں شاعری بڑی حد تک جاگیردارانہ سرپرستی کی مرہون منت تھی لیکن جاگیردانہ نظام کے خاتمے کے بعد متوسط طبقے کی ترقی کی وجہ سے ایک پیراڈائم شفٹ کی صورت نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ناول کا صنف لوک بیانیہ کے عوامی تہذیبی روایت کے زیر اثر ظہور پذیر ہوتا ہے اور میلوں ٹھیلوں کے کارنیول روائتوں سے ہوتا ہوا یونانی رومان پاروں تک پہنچتا ہے۔ باختن کارنیول روائتوں اور یونانی رومان پاروں کی مثالوں سے یہ واضح کرتا ہے کہ ان اصناف کو ذو آوازی یا ڈائ لوجک ہونا ایک منطقی عمل تھا کیونکہ ان کے پلاٹ کا جاۓ وقوع مختلف جغرافیائ حدوں میں پھیلا ہوتا ہے۔ ان اصناف کے پلاٹ کے جاۓ وقوع کی وسعت انھیں ذو آوازی یا ڈائ لوجک بناتی ہے۔
ان تفصیلات کی روشنی میں، اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ناول کے کثیر الاصواتی heteroglotنوعیت پرBakhtinکے خیالات حقیقت پسندی کے انسان دوستی اور مارکسی تصورات کا تنقید پیش کرتے ہیں
ناول کا mimetic ماڈل ناول کے متعلق Georg Lukácsکے نقطہ نظر کو پیش کرتا ہےBakhtin کا دعوی ہے کہ شاعری اس حقیقت کو بھول جاتی ہے کہ تخلیقی مواد کی اپنی تاریخ ہوتی ہے ، اس کے برعکس، نثری اصناف سماجی کثیر الاصواتی آوازوں کا معترف ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ زبان کی dialogic نوعیت کے مدنظر باختن کا خیال ہے کہ دیگر چیزوں کے علاوہ مصنف کو ممکنہ قارئین کے نقطہ نظر کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہیے کیونکہ تخلیق میں پیش کردہ اجنبی الفاظ قاری کی ذہنی بالیدگی کے زیر اثر پروان چڑھتے ہیں۔ تفہیم کا عمل قاری کے کاگنیٹو اور تصوراتی نظام میں نشو نما پاتا ہے اور جذب و اختلاط کی کیفیت سے گزر کر تفہیم کا حصّہ بن جاتا ہے جس سے اجنبی معنوی افق تک رسائ ہوتی ہے۔
ناول کا کثیرالاصواتیheteroglotنوعیت ، قاری کی آواز کو شامل کرنے کے نۓ”امکانات ” ڈھونڈتا ہے۔ گویا مصنف اور اس کے مقصد بیان کے درمیان ایک اور intruding یعنی تدخلی نقطہ نظر ہوتا ہے”. ناول نگار کے لیے اس کے اپنے سماجی اور کثیرالاصواتیheteroglot تصورات سے باہر کوئی دوسری دنیا نہیں ہوتی۔ یعنی باختن کا خیا ل ہے کہ ناول نگار بعض صورتوں میں اپنی تصوراتی دنیا کو حقیقی دنیا تصور کرتا ہے کیونکہ اس کثیرالاصواتی تصوراتی دنیا کے اصول زبان کے ذو آوازی مزاج سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ گویا اس کا خیال ہے کہ ناول میں پیش کردہ دنیا حقیقی نہیں ہوتی بلکہ کثیرالاصواتی تصوراتی دنیا کی ایک ایسی تصویر ہوتی ہے جو زبان کی ذو آوازی قوت سے تخلیق ہوتی ہے۔ لہذا اس کی دلیل ہے کہ کثیرالاصواتی دنیا کی فنی اور لسانی نمائندگی ناول کا مرکزی مسلہ ہے۔
مزید یہ کہ ناول نہ صرف کردار اور ان طبقات کی جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں کے ڈائ لیکٹیکل ( ذو آوازی) ٹکراؤ کو پیش کرنے کا عمل ہے بلکہ نظریاتی نقطہ نظر کا لا ینحل مناطرہ بھی پیش کرتا ہےجس میں ‘ سچ ‘ ہمیشہ معطل اور ملتوی رہتاہے۔
لہذاBakhtinکہتا ہے کہ ناول کا ہر کردار اپنی منفرد نظریاتی آواز رکھتا ہے کیونکہ ناول کا کردارہمیشہ ایک بولنے والا انسان ہوتا ہے۔ اس منفرد نظریاتی آواز کو نظریاتی ڈسکورس کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
ناول بعض اوقات زبان کی مخلوط شکل پیش کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے تاکہ مختلف سماجی بولیوں کی فنکارانہ تصویر تخلیق کی جا سکے۔ یہ کوشش قاری کے ذہن میں سماجی لسانیاتی فرق کو واضح کرتی ہے۔ گویا ناول ایک ایسی صنف ہے جو مختلف سماجی بولیوں کو یکجا کرنے کا منظم نظام پیش کرتا ہے۔ باختن کا خیال ہے کہ زبان کی فنکارانہ تصویر پیش کرنے کے تین بنیادی طریقہ کار ہیں۔ جو بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے با وجود ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں
vمکالمہ
vلسانی مخلوطیت: مختلف لسانیconsciousnessesکے درمیان ایک مکالمہ جہاں دو لسانی رویون کا براہ راست اختلاط ہوتا ہے
vذوآوازی لسانی ربط: دو یا دو سے زیادہ زبانوں کی موجودگی۔ باختن اس کے لیےparodic stylization کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔
ان تفصیلات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ باختن نے اپنے نظریہ اصناف میں بین المتونیت intertextuality کا ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو فرڈی ننڈ ڈی سسیور کے نظریہ پیرول اور ذو عصریت کو اس دور میں اہمیت دیتا ہے جب ساختیات کے ماہرین فرڈی ننڈ ڈی سسیو ر کے نظریہ لانگ ، عصریت، اور غیر انفرادیت ‘(مصنف کی موت’) کی باتیں کر رہے تھے ۔ باختن کا خیال ہے کہ ہر مصنف دوسرے مصنفین کو دہراتا ہے۔وہ اس عمل کو ‘parodying کہتا ہے ۔ اس کا یہ خیال حضرت علی کے اس قول کہ قریب نظر آتا ہے کہ لفظ کہناایک عہد کو دہرانے کے مترادف ہے اس کے خیال میں یہ عمل کبھی شعوری طور پر کبھی اتفاقی طور پر، کبھی واضح طور پر اور کبھی غیر واضح طور پر دہرایا جاتا ہے۔ ناول کی اس بنیاد ی تخلیقی جہت کو نظر یاتی بنیاد اس کے کثیر الاصواتی ( Hetroglot ) نظریےنے مہیا کی۔ باختن کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ناول معاصر زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتا ہے اورزندگی کی سچائیوں میں اس عہد کی سماجی، سیاسی، معاشرتی صداقتیں شامل ہوتی ہیں۔ یوں اس کا خیال ہے کہ ناول ، زندگی سے متعلق آرزومندانہ تصورات کے بجائے حقیقی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو پیش کرتا ہے اور اصولی طور پر انسان کی تخیلی زندگی سے زیادہ اس کے خارجی احوال قلم بند کرنے پر زور دیتا ہے اور اس طرح باختن ناول کو ذات کا اظہار نہیں، بلکہ حیات کا بیانیہ قرار دیتا ہے۔
ANS 05
رومانیت ایک ثقافتی تحریک جس کا آغاز اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں یورپ میں ہوا۔ یہ دراصل کلاسیزم کی روایت، ہیئت اور مذاق کے خلاف بغاوت تھی۔ اس میں تخیل کو منطق پر ترجیح دی جاتی ہے اور فنون کی کلاسیکی مثالوں کی غیر مبہم وضاحت اور مکمل ہیئت سے انحراف کیا جاتا ہے۔ عشق و محبت، غم و غصہ اور دیگر بنیادی جذبات تمام فن پاروں کے موضوع ہوتے ہیں لیکن رومانیت پسند فن کاروں کی تخلیقات میں ان جذبات کی انتہائی شدت ہوتی ہے۔ ان کا نعرہ ادب برائے ادب اور فن برائے فن ہے جبکہ ترقی پسند ادیب و فنکار ادب برائے زندگی و فن برائے زندگی کے قائل ہیں۔ مغربی ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں میں ورڈزورتھ، بلیک، بائرن، شیلے، کیٹس، شومان، ڈوما، ہیوگو، ویکسز، براہمز، دیلکرائے، والٹر سکاٹ، گوئٹے، شلر، جارج سینڈ، ہیڈن، بیتھوون وغیرہ رومانیت کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ میں رومانیت کا دور 1850ء کے لگ بھگ ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے وسیع تر مفہوم میں دیکھا جائے تو یورپ کے فن کاروں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہنوز اُسی عہد میں جی رہی ہے۔ ذاتی رنج و الم اور احساس تنہائی حقیقی یا تصوراتی پر مبنی شاہکار اب بھی تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ ایسے ادب کی بھرمار ہے جس میں دکھی انسانیت یا قانون شکن افراد کے ساتھ رومانی ہمدردی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
- ہیں اس لیے رومانیت کے متعلق کوئی متعین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معانی رومانیت ہیں بہر حال سید عبد اللہ رومانیت کا مفہوم بیان۔
- چھایا واد ہندی: छयवदاردو میں رومانیت ہے لفظی معنی سایہ سے مراد ہندی ادب بالخصوص ہندی شاعری میں جدید رومانیت کا عہد 1922ء 1938ء ہے ہندی رومانی۔
- عبید صدیقی کے آگے زانوئے ادب تہ کیا فیاض الدین فیض چودھری کی شاعری میں رومانیت اور تغزل کا رنگ جھلکتا ہے موصوف نے شاعری کا آغاز 1981ء میں کیا ان کی۔
- تسلیم کیا گیا ہے اس کے اصناف میں فنطاسیہ گوتھک فکشن معاصر فکشن تاریخی رومانیت ماورائے طبعی فکشن اور سائنس فکشن شامل ہیں حالاں کہ رومانوی ناولوں کے۔
- آزاد اور نیک پیدا ہوا ہے لیکن معاشرہ اسے بدی میں مبتلا کر دیتا ہے اسے رومانیت کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے اس نے آزاد خیالی اور عام لوگوں کے حقوق کے بارے۔
- پر تنقید وتحسین کے تجزیئے ہونے شروع ہونے لگے اس سے قبل کلاسیکیت اور رومانیت میں معیاری شعر وادب کا اعزاز زیادہ تر مصنف کے بلند کردار منفرد انداز اور۔
- · 1914 تک آسٹریا – مجارستان شاہزادہ فرانز فرڈیننڈ کی رہائش گاہ تھا یہ قلعہ رومانیت کی طرز تعمیر کی ایک شاندار مثال بھی ہے قلعہ کونوپیشٹے ایک مشهور شرافت۔
- کارکن ہیں وہ بیک وقت پولستان لتھیوپیا اور بیلاروس کے قومی شاعر ہیں پولش رومانیت میں انہیں خصوصی امتیاز حاصل ہے اور وہ پولینڈ کے تین بڑے شعرا میں سے ایک۔
- اور آخری رات جیسی نظمیں ان کی شعری آفاقیت کا منہ بولتا ثبوت ہے دراصل وہ رومانیت اور حقیقت کے سنگم پر کھڑے ہیں اور یہی ان کی عظمت کا راز ہے ا ن کے ہاں۔
- چند کے افسانوں میں رومانیت اور حقیقت نگاری کا امتزاج زندگی کے خارجی معاملات اور معاشرے کی صحیح عکاسی حقیقت نگاری کہلاتی ہے جبکہ رومانیت میں زندگی کے باطنی۔