AIOU Course Code 5605-1 Solved Assignment Spring 2022

ANS 01

محاسنِ شاعری کا یکجا ہونا شاعری کا حسن بھی ہے اور کمال بھی۔ شعر کی جمالیات جن عناصر میں پنہاں ہے ایک شاعر کے لیے ان کا ادراک ضروری ہے۔

   حسنِ شعر دو اہم محاسن وزن اور تخیل کا پابند ہے۔ لیکن اس میں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ تخیل حقیقت سے جتنا قریب ہو گا شعر کا حسن اتنا ہی دیرپا اور جاوداں ہو گا۔ مجازی اشعار بھی بسا اوقات بلند تخیل کی وجہ سے بہت اونچے سنگھاسن پر فائز کیے جاتے ہیں لیکن ایسا کم کم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ حقیقت کو وزن اور خیال کے سانچے میں ڈھالنا ہی حسنِ شعر ہے۔

            کولرج نے شاعری کو خدا کے تخلیقی کام جیسا عمل  god-like act of creation قرار دیا۔ کولرج کے خیال میں شاعری بامعنی حسن کی تخلیق ہے جو بہت بامعنی الفاظ میں کی جاتی ہے۔ یعنی اس نے عمدہ  الفاظ کی استعمال کو لازم قرار دیا۔ اس کے علاوہ کولرج شاعری کے لیے ارفع خیالات کو لازم قرار دیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ” شاعری میں ذوق سلیم ضروری ہے اور عظیم فن پاروں کا مطالعہ، قواعد و ضوابط اور نفسیات سے لگاو ذوق سلیم کے لیے ضروری ہے”۔

شاعری میں وزن کے استعمال کو ضروری قرار دیتے ہوئے کولرج کا کہنا ہے کہ “اس میں شک نہیں کہ نثر اور شعری زبان میں الفاظ ایک ہی ہوتے ہیں۔ لیکن الفاظ کی ترتیب انہیں مختلف بناتی ہے۔ یہ فرق وزن کے خیال سے پیدا ہوتا ہے”۔

 اس کا خیال ہے کہ “جو چیز شاعری اور نثر کو الگ کرتی ہے وہ وزن ہے شاعر کے دل سے اُٹھنے والی جذبات و احساسات کے طوفان کو وزن کا استعمال متوازن بناتا ہے”۔

 ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ “نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں”۔

ورڈزورتھ (Wordsworth) نے تخیل کو اہم قرار دیا اور کہا کہ

“Poetry is a matter of fact of the overflow of the powerful feeling”

جرمن شاعر اور نقاد گوئٹے نے اپنی تنقیدوں میں فطری شاعری کی چار خصوصیات بتائی ہیں۔

2

الفاظ کی بے جوڑ بندش، معقولیت سے تہی دستی، التزام تالیف کاعدم احساس، حسن ترتیب کلمات کا فقدان، جدت اور تازگی کی کمی، تخیل کی پستی اور فرو مائیگی وغیرہ، انشا کے نقائص مشق سے بہت کچھ رفع تو ہو جاتے ہیں لیکن اس سہولت اور وثوق سے نہیں کہ جب قاعدے سے بھی استمداد ہو۔ اور یہ وہ عیوب ہیں جو مخاطب کے ذہن کو متکلم یا منشی کے ذہن کے قریب نہیں پہنچنے دیتے۔ قدمانے نے جو معائب کلام گنائے ہیں، مثلاً تنافر کلمات، ضعف تالیف، تعقید لفظی و معنوی، حشو و زیادت، شتر گربہ، ذم کا پہلو، تولی اضافت وغیرہ یہ سب ان مدات میں ایک طرح سے موجود ہیں جن کا ذکر ابھی آیا ہے۔ ان کو خواہ مزید علیہ سمجھئے، یہ سب وہ عیوب ہیں جو مخل فصاحت ہیں۔ تاثر کلام کے منافی ہیں۔ ان سے بچنا ہدایت کے بغیر نا ممکن ہوتا ہے۔ ہدایت کا ماخذ استاد کی اصلاح ہو یا فن کی کتابوں کا مطالعہ، بات ایک ہی ہے۔متقدمین نے جو قاعدے علم معانی کے تحت فصاحت سے متعلق وضع کئے، ان کا مطمح نظر زیادہ تر کلام کی لفظی حیثیت معلوم ہوتا ہے، نہ کہ اس کی معنوی حیثیت۔ قاعدہ وہی مفید اور واثق ہوتا ہے جو سائنٹیفک یا علمی اصول کی میزان میں پورا اترے۔ اس کی توضیح کے لئے میں ایک نہایت معمولی بات پیش کرتا ہوں۔ وہ ہے اسم ذات اور اسم صفت کی ترتیب، یعنی صفت و موصوف کی تقدیم و تاخیر کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں۔سوال یہ ہے کہ کلام میں صفت سے پہلے موصوف لایا جائے یا اس کا الٹ؟ فرانسیسی اور فارسی زبانوں میں موصوف پہلے لایا جاتا ہے اور صفت اس کے بعد، انگریزی اور اردو میں عمل اس کے بر عکس ہے۔ مثال کے لئے، اسپ مشکی کو لیجئے۔ یہ تو ہوئی فارسی کی ترکیب۔ اردو میں کہیں گے ’’مشکی گھوڑا۔‘‘ سطحی نظر کے نزدیک ان دونوں فقروں میں کوئی فرق نہیں پایا جائے گا لیکن سائنس کی نظر میں فرق موجود ہے، اور بڑا فرق ہے۔ علم نفسیات کی رو سے اس دو لفظی فقرے کا تجزیہ اس طرح ہوگا۔ جب ’’اسپ مشکی‘‘ یا ’’گھوڑا مشکی‘‘ کہا گیا تو پہلے گھوڑا سامعہ نے اخذ کیا یعنی سامع کا ذہن گھوڑے، محض گھوڑے کی طرف معاً راجع ہو گیا اور چونکہ گھوڑے کی کوئی خصوصیت اس کے علم میں نہیں آئی ہے، اس لئے کسی گھوڑے کی شکل ذہن پر اثر آفریں ہو جاتی ہے۔اغلباً سامع کا ذہن کمیت یا سبزہ گھوڑے کی طرف جائے گا کیونکہ ان رنگوں کے گھوڑے عموماً پائے جاتے ہیں اور روز مرہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب لفظ ’’مشکی‘‘ ایزاد کیا گیا تو تخیل کی رفتار میں مزاحمت ڈالی گئی۔ یا تو کمیت گھوڑے کا نقش لوح تخیل سے مٹا کر اس کی جگہ مشکی گھوڑے کا نقش کھینچا گیا یا اگر کمیت گھوڑے کا نقش ابھی مرتسم نہیں ہوا تھا تو اس ارتسام کا میلان روک دیا گیا۔ ان دونوں میں سے کوئی صورت ظہور پذیر ہو، ان میں سے ہر ایک مزاحمت کی منتج ہے۔ اس کے بر عکس اگر صفت کو پہلے اور موصوف کو بعد میں لائیں یعنی ’’مشکی گھوڑا‘‘ کہیں تو مغالطے اور مزاحمت کا امکان نہیں رہتا۔ ’’مشکی‘‘ ایک مجرد صفت کا حامل ہے اور کسی خاص تمثیل کا خالق نہیں۔ وہ ذہن کو اس خاص معروض کے تصور کے لئے تیار کر دیتا ہے جو مشکی رنگ کا ہے اور توجہ لگی رہتی ہے جب تک کہ معروض معلوم نہیں ہو جاتا۔ان دو الفاظ کی اس ترتیب سے یعنی صفت کو موصوف سے قبل لانے سے ذہن کے فعل کے ساتھ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، نہ مغالطے کا امکان پیدا ہوا۔ لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ترتیب زیادہ مؤثر یعنی فصیح ہے، اسی طرح ’’جوان‘‘ اور ’’مرد‘‘ کی ترتیب پر نظر ڈالیے۔ اگر مرد جوان کہا جائے تو پہلے ’’مرد‘‘ کی صورت ذہن میں بیٹھے گی اور ذہن بھٹکے گا۔ اس تلاش میں کہ مرد کس قسم کا ہے؟ جوان ہے بوڑھا ہے یا ادھیڑ ہے، یا مغالطے کا شکار ہوگا جب تک کہ ’’جوان‘‘ کا لفظ اخذ نہ کرے۔ لیکن’’جوانمرد‘‘ کہنے سے یہ دقتیں رفع ہو جاتی ہیں اور ذہن کسی قسم کے اختلال اور تذبذب میں مبتلا نہیں ہوتا۔

ANS 02

تنقید تخلیق کی طرح سماجی عمل ہے کوئی بھی لفظ فکر کے مربوط یا غیر مربوط نظام کے بغیر اپنا وجود نہیں رکھتا۔یہ معاشرے کے صحت مند ہونے کی دلیل ہے کہ لوگ جیتے جاگتے ادب سے زیادہ دلچسپی رکھیں۔ یہ بات پیر کی صبح آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ دسویں عالمی اُردو کانفرنس کے آخری دن ’’اُردو تنقید ایک جائزہ‘‘ کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے معروف ادیب وشاعر اور کئی کتابوں کے مصنف شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین سمیت انوار احمد، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، نجیبہ عارف اور سرور جاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہی۔

شمیم حنفی نے صدارتی خطاب میں کہاکہ وہی تنقید اچھی اور بامقصد ہوتی ہے جو تخلیقی لوگوںنے لکھی ہو ، جدیدیت کے تصور نے بھی بڑے نقاد پیدا کئے ہیں، ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ادب اپنے عقائد کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا اور تہذیبیں کبھی ایک رُخ پر سفر نہیں کرتیں بلکہ تہذیبیں دن کے اُجالے کی طرح دھیرے دھیرے پھیلتی ہیں اچانک مسلط نہیں کی جاتیں، انہوںنے کہاکہ یہ بات سچ ہے کہ ہم نے مغربی تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ ہمیں اپنی روایات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جبکہ ہمارے ہاں کثرت سے مغربی لکھاریوں کا ذکر ملتا ہے انہوں نے کہاکہ ہم تنگ نظر ہوتے جارہے ہیں ہمیں اپنی روایت پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔

تعصبات نے ادب ،تہذیب اور زندگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ قاضی افضال حسین نے کہاکہ پوری دُنیا کو زبان کی اصلاحت پر بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ طرزِ وجود کی بنیادی شکل کو ہم نے پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھا نہیں انہوں نے کہاکہ شعر جو شاعر نے بیان کئے ہوتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ پڑھنے والا اُس سے بہتر معنی بیان نہ کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ زبان کے کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے تبدیلی آتی نہیں بلکہ لائی جاتی ہے۔

ہماری حیثیت ادب میں تقریباً کنزیومر کی ہے۔ انوار احمد نے کہاکہ عموماً یہ بحث سننے میں آتی ہے کہ تخلیق مقدم ہے یا تنقید تو میں یہ کہوں گا کہ تخلیق ہی ہر حال میں مقدم ہے۔ تنقید کے تین منصب ہیں جن میں پہلا اصولِ تنقید، دوسرا عملِ تنقیداور تیسر نقد ِتنقیدہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم مغرب سے اس لئے متاثر ہورہے ہیں وہاں علم پروڈیوس ہورہا ہے اور مستقل تحقیقی کام ہورہاہے۔

ہمارے زمانے میں اُردو کے حوالے سے علم صرف اتنا تھا کہ ہم اپنے الفاظوں کے تلفظ کو درست طریقے سے ادا کرلیں۔ معاشرے میں جمہوریت ہویا نہ ہو زبان پر جمہور کا سکہ چلتا ہے۔انہوں نے کہاکہ آسان سے آسان تر گفتگو اور بات کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے کہاکہ ممتاز مفتی ،سجادظہیر اور دیگر کی کتابوں میں تنقید کا وسیع تناظر نظر آئے گا،جب تک تنقید سچائی کے ساتھ نہ ہو اُس کا اثر نہیں ہوگا۔

ترقی پسند تنقید کا جمالیات سے رشتہ نہیں ٹوٹا ہے تنقید میں نئی نئی بحث شامل ہوئی ہیں ، حسن عسکری اور کلیم الدین احمد نے ان بحث پر بات بھی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کی تنقید آج کے تخلیق کار سے وہ رشتے نہیں بناپارہی جو بنانے چاہئیں۔ نئی تحریر اور نئی تہذیب پر ہمیشہ گفتگوکرنے کی ضرورت ہوتی ہے تنقید ایک محاسباتی عمل ہے جس سے فکر اور قوتِ آگاہی میں فائدہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اُردو تنقید میں اپنی صنفی قوت میں اضافہ کیا ہے۔ انہوںنے اس یقین کا اظہار کیا کہ تنقید کا شاندار ماضی کروٹ لے گا۔ نجیبہ عارف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ تہذیب کامسئلہ کسی ایک طبقے تک نہیں یہ ہر فرد کا براہِ راست مسئلہ ہے تہذیب ہم میں سے ہر ایک کی اجتماعی اور انفرادی شناخت کا معاملہ ہے۔ تہذیب محض کسی سماج کے خاص گروہ پر مشتمل نہیںہوتی بلکہ یہ آدرشوں کامجموعہ ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ تہذیب تین اشیاء کا مجموعہ ہے جن میں تمدن ، تاریخ اور ثقافت شامل ہیں۔

تہذیب کی سمت متعین کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا صرف تاریخ ہی تہذیب نہیں ہوتی مگر یہ تہذیب کا حصہ ضرور ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ زندہ قومیں اپنے تہذیبی ارتقاء کاراستہ نہیں چھوڑتیں۔ تہذیب کا سفر ہمیشہ ارتقائی ہوتا ہے فوراً تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ سرورجاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ جب تنقید روبہٴ زوال ہوتی ہے تو ادب کی دیگر اصناف بھی زوال پذیر ہوتی ہیں۔

ترقی پسند ادب اب روبہٴ زوال ہے ترقی پسند ادیب کم نظر آتے ہیں جدیدیت پسند زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ تنقید اپنے منصب سے ہٹ گئی ہے انہوں نے کہاکہ ادبی رسائل کا حال دیکھا جائے تو وہ موصول ہونے والے ہر ادبی مواد کو من و عن شائع کردیتے ہیں اور معیار تک کا خیال نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہاکہ یہ تنقید کا کام تھا کہ وہ بتائے کہ افسانہ کیا ہے، شاعری کیا ہے اور دیگر اصنافِ سخن کیا ہیں، انہوں نے کہاکہ اب یہ سب چیزیں سماج سے الگ ہورہی ہیں لگتا ہے کہ ادب کا سماج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نقاد کی خصوصیات

اچھے نقاد کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہے

(i)نقاد کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے، معاصر ادبیات کے ساتھ ساتھ ماضی کے تخلیقی ورثہ کی اہمیت کا احساس بھی بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامیت کے دور میں اب نقاد کے لیے بین الاقوامی ادب سے بھی کچھ نہ کچھ واقفیت لازم ہے۔ انگریزی تراجم کے ذریے دنیا بھر کے ادب کا مطالعہ ممکن ہو چکا ہے۔

(ii) مطالعہ ادب میں غیر متعصبانہ رویہ بے حد ضروری ہے۔ بسا اوقات قومی ، نسلی ، لسانی، مذہبی ، سیاسی یا اسی نوعیت کے دیگر تعصبات کی بنا پر غیر ملکی تخلیقات کا مطالعہ درست تناظر میں نہیں ہوتا۔ لہذا تخلیقات سے کما حقہ استفاد ممکن نہیں رہتا۔ ادب انسان کی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا نقطہ عروج ہے ۔ لہذا ہر طرح کے تعصب ، نفرت، کدورت اور تنگ نظری سے ماورا ہو کر تخلیقات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

(iii) نقاد اپنی رائے کے اظہار میں خود مختار اور بے باک ہومگر اس کی تنقیدی رائے اور فیصلہ تحقیق اور اصناف سے متعلق اصولوں پینی ہونا چاہیے۔ عناد، بغض اور نفرت پڑی تنقید کانٹوں کا گلدستہ ثابت ہوتی ہے۔

(۱۷) ہمارے ہاں ان دنوں ادبی گروہ بندیوں کا بہت چرچا ہے نقاد کو ہر ممکن طریقہ سے اپنے گروہ کے تعقبات کے منفی اثرات کو تنقیدی آرا پر اثر انداز نہ ہونے دینا چا ہیے ۔ گروہی تنقید نا اہل کی تحسین ہوگی اور حق دار حق سے محروم رہے گا۔

(7) نقادجن اصناف سے متعلق تحقیقات اور تخلیق کاروں کے بارے میں قلم اٹھاتا ہے اسے ان اصناف کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ فنی قواعد تکنیکی لوازم اور ان کے اسلوب کی جمالیات سے گہری واقفیت ہونی ضروری ہے ورنہ برعکس صورت میں وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور اپنے قارئین کو بھی گمراہ کرے گا۔

(vi) آج کی تنقید محض لفظی موشگافیوں میں نہیں الجھتی بلکہ حسین تحلیل کے عمل کو زیادہ مؤثر اور معتبر بنانے کے

لیے فلسفہ، سائنس اور سماجی علوم سے بھی مدد لیتی ہے اس لیے نقاد کے لیے اگر تمام انسانی فکر، سائنسی اور سماجی علوم سے مکمل طور پر واقفیت ممکن نہیں تو کم از کم اسے ایک دو کے بارے میں ضرورعلم ہونا چاہے جیسے جمالیات، عمرانیات ، لسانیات، نفسیات، مارکسیت ، رومانیت، اساطیر وغیرہ میں سے ایک دو کا ضرور رمز شناس ہو۔

(vi) جس طرح اعلی تخلیق کے لیے ارفع اسلوب ضروری ہے اسی طرح قابل مطالعہ اور کار آمد تنقید کے لیے موزوں اسلوب کی ضرورت ہے ۔ اگر علمی تحریر سے اسلوب کی جمالیات کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے تاہم پیوست زدہ اسلوب سے تنقید کی خشکی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اردو میں صاحب اسلوب ناقدین بھی مل جاتے ہیں جیسے محمد حسین آزاد شبلی نعمانی ، فراق گورکھپوری ، محمد حسن عسکری ، آل احمد سرور ، سلیم احمد، مظفر علی سید وغیرہ ۔

(viii) تنقید باضابطہ فن ہے (بعض ناقدین کے بموجب فلسفہ علم اور سائنس ہے) لہذا اس کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں تخلیق کے اسلوب کا مطالعہ بھی بعض اصطلاحات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ نقاد جن علوم سے خصوصی شغف رکھتا ہے ان کی بھی اصطلاحات ہوتی ہیں اس لیے اصطلاحات سے قطعی طور پر بچ کرتنقید کرنا ممکن نہیں لیکن اس کے با وجود بار بار بلا ضرورت بوجھل اصطلاحات کے استعمال سے تنقیدی تحریر کو مشکل اور بوجھل بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ دوسری زبانوں کی نامانوس اصطلاحات کے اردو مترادف یا

تراجم تقریر کرتے وقت اصل اصطلاح ضرورھنی چا ہے تا کہ ان کی تفہیم میں الجھن نہ پیدا ہو۔

(ix) جس طرح تحلیل نفسی سے اور بعض اوقات تخلیقات کے ذریعہ سے تخلیق کار کی شخصیت کا مطالعہ کیا جا سکتا

ہے اسی طرح تنقیدی مقالات کا ژرف نگاہی سے مطالعہ کر کے نقاد کی شخصیت ، مزاج اور ذاتی پسند و نا پسند کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ خود سے نامطمین ، نا آسودہ ، غصیلے اور دشنامی مزاج کے حامل نقاد کا اسلوب اور تنقیدی فیصلے اس کی منفی شخصیت کے غماز ثابت ہو سکتے ہیں اس کے برعکس متوازن ذہن کے حامل اور معتدل مزاج فرد کی تنقیدی تحریر اور اسلوب بھی ان ہی خصوصیات کا حامل ہوگا۔

ANS 03

 تخلیقی عمل مبہم،پیچیدہ اور پراسرار عمل ہے۔اس کے ابہام،پیچیدگی اور پراسراریت کی دریافت و بازیافت ایک مشکل امر ہے۔لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس پر  تفکر کے در بھی وا نہ کیے جائیں اور ان راستوں کی کھوج بھی نہ کی جائے جن پر چل کر تخلیقی عمل کے بعض پراسرار گوشوںکو کسی حد تک بے نقاب کیا جا سکے۔ چناں چہ تنقید یہ بیڑا اٹھاتی ہے اور تفکر کی وہ راہ فراہم کرتی ہے جو تخلیقی عمل کو سمجھنے میں معاونت کرتی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا اس ضمن میں لکھتے ہیں:

 ’’تنقید ادب کی تقویم و تشریح کا نام ہے ۔لیکن کیا تنقید ادب کی پراسرریت کو پوری طرح گرفت میں لینے میںکامیاب ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے ؟غالباًنہیں،وجہ یہ کہ پراسراریت ، خدو خال اور حدود سے ماورا ہے۔اگر اس کو خدوخال عطا کر دیے جائیں یا اس کی حدود کا تعین ہو جائے تو پراسراریت از خود ختم ہو جائے گی چوں کہ یہ ختم نہیں ہوتی یا ختم نہیں ہو سکتی اس لیے تنقید صرف ایک حد تک ہی ادب کااحاطہ کرنے میںکامیاب ہوتی ہے۔‘‘   ۱؎

           تنقید تخلیقی عمل کی باز آفرینی کس حد تک کر پاتی ہے،یا نہیں کر پاتی یہ ایک طویل بحث ہے۔لیکن اتنا سب مانتے ہیں کہ اس کے بغیر تخلیقی عمل کوسمجھا نہیں جا سکتا۔ لفظ ’’تنقید‘‘ کا مصدر عربی لفظ ’’نقد‘‘ہے۔عربی اور فارسی میں اس عمل کے لیے انتقاد ،تنقاد اور تناقدہ جب کہ نقاد کے لیے منتقد جیسے الفاظ استعمال ہوتے رہے  ہیں۔لیکن تنقید کا لفظ عربی اور فارسی کی ادبی تاریخ میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتایہ لفظ خالصتاً اردو والوں کی ایجاد ہے۔اس کے اولین استعمال کے متعلق شمس الرحمن فاروقی ر قم طراز ہیں:

  ’’تنقید کا لفظ ہمارے یہاں سب سے پہلے مہدی افادی نے ۱۹۱۰ میں استعمال کیا،بلکہ انھوں نے ایک قدم بڑھ کر  ’’تنقیدعالیہ ‘‘کی اصطلاح بنائی، جو ا ن کے خیال میں کسی انگریزی اصطلاح High Criticism کا ترجمہ تھی۔‘ ۲؎

لفظ ’’تنقید‘‘عربی صرف و نحو کے اعتبار سے غلط سہی مگر اب اردو میں اس قدر رائج و مقبول ہے کہ اس کا نعم البدل ممکن نہیں۔     انگریزی میں تنقید کے لیے Criticismاور ناقد کے لیے Critic کے الفاظ ملتے ہیں۔لفظ Criticism کی اصل یونانی لفظ ”Krinein”   ہے۔جس کا مفہوم(To Judge)یعنی جانچنا ہے۔لفظ Criticismکی مزید توضیح پیش کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں :

’’بعض محقیقن کی نظر میںCriticism کا مآخذ عربی لفظ غربال (چھلنی) ہے جو لفظ Garble کا معرب  ہے،غربال کی اصل لاطینی ہے اور اس کا تعلق لفظCret سے ہے جس کے معنی پھٹکنا یا چھان پھٹک کرنا ہیں۔‘‘   ۳؎

 تنقید کیا ہے؟یہ سوال نہ صرف عمل تنقید کی گرہ کشا ئی کرتاہے بلکہ اسی سوال میں تخلیقی عمل کے گہرے اور سر بستہ بھیدوں تک رسائی کا راز بھی مضمر ہے۔تنقید ی عمل کو  آسان عمل ہرگزتصور نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ایک مکمل علم کی حیثیت رکھتا ہے۔اور ہر علم کی طرح اس کے بھی بہت سے قواعد و ضوابط ہیں جن سے آگاہی کے بغیر اس ذمہ دارانہ عمل  سے پوری طرح انصاف ممکن نہیں ۔یعنی تنقید مختصراًوہ کلام ہے جو تخلیق کے متعلق تجزیاتی رائے پر مبنی ہوتا ہے ۔اس میں تعریف و تحسین ،تنقیص و تقریظ، تجزیہ و تحلیل ،محاسن و معائب،  فکری مواد و شعری بیان، فنی لوازم و شعری محاسن،تشریح و توضیح،توارد و اختراع،جدت و روایت،فصاحت و بلاغت ،رموز و علائم،ابلاغ و ترسیل اور قدر و مقام جیسے تمام اہم امور زیر  بحث آتے ہیں۔     تنقید کو عمل جراحی سے بھی تعبیر کیا جاتا رہاہے۔تاہم عمل جراحی اور تنقید میں یہ فرق بہرحال موجود ہے کہ جراحت کا عمل صحت مند انسان پر نہیں آزمایا جا سکتا اور جراحت  کے عمل کے لیے مرض کا قبل از جراحت معلوم ہونا از بس لازم ہے جب کہ تنقید تخلیق پر عمل جراحی اس لیے بروئے کار لاتی ہے تاکہ اس کی صحت مندی کا تجزیاتی ادراک کر سکے۔ بہ  قول آل احمد سرور:

 ’’یہ(تنقید) تخلیق پر عرف عام میںعمل جراحی بھی کرتی ہے مگر یہ عمل شاعرانہ طور پر ہوتا ہے اور اسی فضا(تخلیقی عمل)کے  اندر رونما ہوتاہے۔‘‘      ۴؎

اس عمل جراحی کے دوران بعض اوقات کچھ نقائص بھی ضرور سامنے آجاتے ہیں جن کی نشان دہی تنقید کے لیے لازمی ہو جاتی ہے۔اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تنقید خود  دائرہ تنقیص میں آجاتی ہے اور مورد الزام ٹھہرتی ہے۔تا ہم اس عمومی رائے سے کہ تنقید صرف عیب جوئی ہے، کسی طرح اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن ادب کی پوری تاریخ میں ہمیں یہ  مناظر بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں کہ تخلیق کار تنقیدی عمل سے کچھ زیادہ متفق نہیں رہے ۔جس کا سبب بڑی حد تک معائب و نقائص کی نشان دہی ہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیش تر نقاد  بھی صرف تنقیص ہی کو تنقید تصور کر لیتے ہیں جب کہ فل الحقیقت تنقیداس تخلیقی عمل کو گرفت میں لینے کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی ادب پارہ با معنی اور مسرت کی ترسیل کا باعث بنتا  ہے۔یہیں سے وہ سب بنیادی سوالات ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔جن کے جوابات کی تلاش تنقید کے وجود کاجوازفراہم کرتی ہے۔یہ بنیادی سوال کئی ہو سکتے ہیں جن میں سے چند یہ  ہیںکہ ادب پارہ کیا ہوتا ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیے؟ادب پارہ ترسیل کے فرائض کیسے سر انجام دیتا ہے؟ادب پارہ بامعنی کیسے بنتا ہے ؟ادب پارے سے مسرت کا حصول کیوں کر  ممکن ہوتا ہے؟وہ کیا عمل ہے جو ادب پارے کوایک غیر منقسم کل میںتبدیل کر دیتا ہے؟اور اس غیر منقسم کل میں عیوب و نقائص کیوں کر در آتے ہیں؟۔

یہی سب سوالات تنقید کے تجزیاتی عمل کی راہ ہموار کرتے ہیں انھی جوابات تک رسائی کے لیے تنقیدتخلیق کے کل کو اس کے اجزاء میں تقسیم کرتی ہے۔یہیں تخلیق ،تخلیق  مکرر کے مراحل طے کرتی ہے۔یہیں اجزاء کی تحلیل و ترکیب کا تعین ہوتا ہے۔یہیں خیال اور لفظ کی ثنویت و وحدت کے راز عیاں ہوتے ہیں۔یہیں حسن اپنے قیام کا انکشاف کرتا  ہے اور یہیں قبح تمام پردے چاک کر کے اپنی برہنگی ظاہر کرتا ہے۔یہی عمل عرف عام میں تنقید کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔    تنقید کے دائرہ کار کو کسی ایک ادب پارے تک محدود نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ تنقید ادب سازی کے عمل سے متعلق غور و فکر سے حاصل ہونے والی بصیرت کا علم ہے۔اس  لیے اس کے دائرہ کار میں تمام تر ادبیات کے ساتھ تاریخ،فلسفہ،عمرانیات،نفسیات،لسانیات،ہم عصر زندگی اور ثقافت و تہذیب سب شامل ہیں۔

تنقید بھی ادب کی طرح اپنے گہرے مفاہیم میں خیر کل کی تلاش ہے۔اور اس تلاش کے لیے جو روشنی درکار ہے اس کے اکتساب کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔یہ اکتسابی  عمل ایک مسلسل عمل ہے اس لیے یہ تصور کرلینا کہ تنقید اپنے اصول وضوابط طے کر چکی ہے،سراسر غلط ہے۔کیوں کہ ہر نیا عہد بلکہ ہر نئی انسانی بصیرت تغیرات کے ایک سلسلے کو راہ دیتی  ہے اور اس نئے سلسلے میں خیر کل کے معنی و مفاہیم میں بھی انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں سامنے آتی ہیں۔جن تک رسائی سابقہ علوم سے حاصل کی ہوئی روشنی میں ممکن نہیں رہتی۔نتیجتاًنئی  بصیرتوں تک پہنچنا لازم ٹھہرتا ہے۔لہذا تنقید کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہر لمحہ زندگی سے مکالمہ جاری رکھے اور اس کی ہر تبدیلی پرغور و فکر کرتے ہوئے خود کو اس کے مطابق ڈھالتی  رہے ۔کیوں کہ تخلیقی عمل ہم عصر زندگی سے لا تعلق نہیں ہوتا اور اپنے ارد گرد موجود صورت حال سے نہایت غیر محسوس انداز میں اثرات قبول کرتا رہتا ہے۔اور تنقید آگے بڑھے نہ  بڑھے تخلیق آگے بڑھتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر تنقید گزشتہ تخلیقات کی گرہ کشائی میں تو کامیاب رہتی ہے۔ مگر معاصر ادبیات اس کی گرفت میں نہیں آتے۔اسی لیے تنقید کے  لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رفتار کو تخلیق کی رفتار کے مساوی رکھے۔لیکن تنقید کے لیے یہ کام نسبتاً دشوار اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی رفتار تخلیق کی طر ح کسی وجدانی لہر کے برعکس علم کی پابند  ہوتی ہے۔اس لیے عموماً اس کی جست وجدان کی جست کے مقابلے میں کچھ کم پڑتی ہے ۔مگر اسے تنقید کی کمی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔کیوں کہ علم کی رفتار وجدان کے مقابلے میںسست رو  سہی مگر دیر پا ضرور ہوتی ہے ۔المختصر وجدانی زبان کو یا علم کو علمی اور منطقی زبان میں پیش کر دینے کا عمل تنقید کہلاتا ہے۔

     تنقید کی اہمیت یہی ہے کہ وہ بالواسطہ ابلاغ کو بلاواسطہ ابلاغ میں بدل کر قاری تک اس علم اور مسرت کی رسائی ممکن بناتی ہے جو زندگی کی گہری تفہیم کے لیے لازم ہے  تخلیق ہمیشہ ابہام کی دھند میں ملفوف ہوتی ہے جس تک پہنچنا ہر قاری کے بس کی بات نہیں ہوتی تنقید ابہام کی اس دھند کو کم کرنے میں قاری کی معاونت کرتی ہے۔تاہم تنقید کی  اہمیت صرف اس عمل ہی میں نہیں ہے ۔بلکہ وہ قاری کے لیے یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ آخر ابہام کی دھند میں ملفوف تخلیق تک پہنچنا ضروری کیوں ہے ؟تخلیق سے کس بصیرت اور  مسرت کا حصول ممکن ہے؟نیز جو مسرت تخلیق سے حاصل ہو رہی ہے کیا وہ کسی دوسرے ذریعے سے ممکن نہیں؟یقیناًادب کا نعم البدل ادب کے علاوہ کچھ اورنہیں ہوسکتا۔ لہذا کسی  ایسے علم کا تصور ممکن نہیں جو ادبی بصیرت و مسرت کا قائم مقام کہلا سکے اور یہ بات پوری طرح صاف ہے کہ ادب سے حاصل ہونے والی بصیرت و مسرت کا کردار بہ حوالہ زندگی دیگر  تمام علوم سے مختلف ہے یہی اختلاف تنقید پوری وضاحت وصراحت کے ساتھ پیش کرتی ہے اس طرح زندگی سے ایک جمالیاتی فاصلے کے ذریعے تعلق استوار کرنے والے ادب کو  تنقید ایک علمی اور منطقی ارتباط کے حصول میں کامیابی سے پہنچا دیتی ہے۔یعنی تنقید ادب کے جمالیاتی حظ کو علمی معنوں کے ساتھ رائج کرنے میں اور زندگی سے اس کی وابستگی و پیوستگی  ثابت کرنے میں وہ کلیدی کردار ادا کرتی ہے جس کے بغیر ادب کو ایک بامعنی سرگرمی قرار دینا کسی طور ممکن نہیں۔

     تنقید کی ایک اوراہم بحث تنقید اور ادب میں سے کسی ایک کی اولیت سے متعلق ہے۔اور یہی بحث تنقید اور ادب کے بنیادی تعلق کے مباحث بھی سمیٹتی نظر آتی ہے۔  ایک بات تو صاف ہے کہ ادب تخلیق کے بعد احتیاج تنقید سے بالا تر نہیں ہو سکتا۔عموماًتنقید کے دائرہ کار کو یہیںتک محدود تصور کیا جاتا ہے۔یعنی تنقید کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ادب  پارے کہ محاسن و معائب ،تشریح و توضیح اور مقام و مرتبہ کا تعین کرے ۔مگر بہ طور ایک شعور کے تنقید تخلیقی عمل کے دوران اور تخلیق سازی کے مراحل میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور کس  طرح معاون و مدد گار ہوتی ہے ان سوالات پر غور و خوض یقیناً تنقید کے دائرہ کار میں توسیع کرتا ہے ، ادب اور تنقید کے باہمی تعلق کی نئی جہات کو بھی سامنے لاتاہے۔اور ان دونوں  میں سے کسی ایک کے تقدم کا منطقی جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ڈاکٹرسجاد باقر رضوی نے لکھا ہے :

  ’’تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیںاس بحث  میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت حاصل ہے ،اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں توپتہ چلے گاکہ یہ دونوں  صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لیے ممدو معاون ہوتی ہیں ۔تنقیدی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار  ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کیے جاتے ہیں مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لیے جاتے ہیں تو آئندہ فنی تخلیق کی  رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘      ۵؎

قریباً ہر تخلیق کار تخلیقی سرگرمی کے دوران بہت سارے ایسے فیصلے کرتا چلا جاتا ہے۔جو اس کی تخلیق کے ابلاغ سے متعلق ہوتے ہیں،اور یہ فیصلے تخلیق کار کے اس شعور  کے عکاس ہوتے ہیں جسے اس کا تصور ابلاغ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ہر تخلیق کار کے ذہن میں تخلیق سے متعلق بھی شعور کی کوئی سطح ضرور موجود ہوتی ہے۔اور وہ کسی نہ کسی خاص سطح پر اپنی  تخلیق کے ابلاغ کا متمنی بھی ہوتا ہے۔ یہی دو باتیں وجدانی وفور کے باوجود اس کے تخلیق کو شعور کا پابند رکھتی ہے اور وہ بیداری کی ارفع ترین سطح پر اپنی ہی وجدانی کیفیت کا تجزیہ بھی  کرتا رہتا ہے ۔اور یعنی تخلیق کو کسی بھی مرحلے پر شعور کی گرفت سے آزاد نہیں ہونے دیتا اور وہ ضروری ترامیم کرتا چلا جاتا ہے جو اس کے تصور ِتخلیق اور تصورِابلاغ سے متصادم ہوتے  ہیں۔ یہی عمل تخلیق مکمل ہونے کے بعد بھی اکثر تخلیق کار آزماتے ہیں ۔اگر اس سارے عمل پر غور کیا جائے تو اسے تنقیدی بصیرت سے خالی قرار نہیں دیا جاسکتا لہذا تخلیق کے بعد عمل  تنقید سے ایک مرحلہ قبل بھی تنقید موجود ہوتی ہے اس مرحلے میں وہ متن سازی میں تخلیق کے پہلو بہ پہلو اتنا ہی اہم کردار سر انجام دیتی ہے جتنا کہ خود تخلیقی عمل ادا کررہا ہوتا ہے۔ٹی  ایس ایلیٹ نے غلط نہیں کہا ہے کہ جب ایک تخلیقی ذہن دوسرے سے بہتر ہوتا ہے تو اکثر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو بہتر ہوتا ہے وہ تنقیدی صلاحیت رکھتا ہے ۔

ANS 04

فارسی زبان چونکہ ہند و ایرانی زبانوں کے خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہے اس نسبت سے اردو اور فارسی زبان میں فطری رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ہند و بیرونِ ہند کی بے شمار زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات بھی اس زبان میںشامل ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ احسن معلوم ہوتا ہے کہ ’اردو زبان نے دیگر زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات اور مرکبات کو اس خوش اسلوبی کے ساتھ قبول کیا ہے گویا یہ تمام الفاظ و اصطلاحات اس زبان کی اپنی ہوں‘ ۔ اس زبان نے دوسری زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات کو ’نا‘ کبھی نہیں کہا۔ غالباً اسی اخذ و اشتقاق اور اپنا لینے کی بنیاد پر اردو زبان کو مخلوط زبان یا ساجھی وِراثت کی زبان کہا جاتا ہے۔ صاحبِ املا نامہ، مقدمہ میں لکھتے ہیں :

’’اردو دنیا کی ان چندانتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذو استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے۔اس کے ذخیرۂ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے تو ایک چوتھائی حصہ جو در اصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز وافتخار کا ضامن ہے، سامی و ایرانی مآخذ یعنی عربی وفارسی زبانوں سے لیا گیا ہے۔‘‘

(املا نامہ ،مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ، ص 13)

 اردو کی یہی خصوصیات زبانوں کی سطح پر اسے سیکولر شکل عطا کرتی ہے۔ اردو زبان اور لسانیات کے دیباچے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :

’’اردو کا ایک نام سیکولرازم یعنی ’ غیر فرقہ واریت‘ اور ’بقائے باہم ‘ بھی ہے۔ اردو نے صدیوں سے اس کی مثال قائم کی ہے اور ہر طرح کی تنگ نظری اور دقیانوسیت کے خلاف محاذ باندھا ہے۔‘‘

(اردو زبان اور لسانیات: گوپی چند نارنگ، رام پور رضا لائبریری 2006 ، ص 11 )

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اردو زبان نے لسانی، ادبی اور عام بول چال کی سطحوںپر عربی اور فارسی زبانوں کے اثرات قبول کئے ہیں ۔ اردو زبان نے عربی کے مقابلے میں فارسی زبان کا رنگ اور ڈھنگ کہیں زیادہ اختیار کیا ہے۔ نیز جہاں تک عربی رنگ و ماحول کی بات ہے تو وہ بھی بذریعہ فارسی اپنایا ہے۔ اس کی وجہ جگ ظاہر ہے کہ عرب تاجروں کا آنا جانا ہمارے یہاں برسوں سے ہوتا رہا ہے ،لیکن یہ آنا جانا بس تجارتی سطح تک محدود رہا ہے۔ اس کے برعکس فارسی زبان بولنے والے ہندستان میںحکومتی سطح تک پہنچے ۔ یہ الگ تاریخی بحث ہے کہ یہ لوگ اس ملک میں کس حیثیت سے داخل ہوئے؟ یہاں یہ پہلو دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ انگریزوں نے کم و بیش دو سو سال تک اس ملک پر حکومت کی لیکن انہوں نے کبھی اس ملک کو اپنا وطن تسلیم نہیں کیا جبکہ ’آریوں اور مغلوں‘ نے اس ملک میں رہائش اختیار کی تو یہیں کے ہو رہے۔

اردو میں دخیل الفاظ

چونکہ اپنی اور پرائی ہر زبان سے استفادہ کرنا اردو کا شیوہ رہا ہے ایسے میں یہ بات قدرے آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ ’اردو زبان میں مستعار اور دخیل الفاظ کا بڑا ذخیرہ ہے‘۔  پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں :

’’زبان جتنا دوسری زبانوں سے لے گی اتنی ہی سرمایہ دار ہوگی۔‘‘

(خواب باقی ہیں ، آل احمد سرور، ایجوکیشن بُک ہائوس یونیورسٹی مارکیٹ، علی گڑھ 1991، ص 338 )

دخیل الفاظ کی نسبت اردو میں مستعار الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں: زندگی، زندہ دلی، شادی اور برات، بالٹی، دال وغیرہ۔  یہ سب الفاظ اردو زبان کے ساتھ ہی بول چال میں اس طرح سے گھل مل گئے ہیں کہ آج ان میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

لسانی سطح پر پڑنے والے اثرات

اردو زبان سنسکرت کی ایک ترقی یافتہ شکل سورسینی اَپ بھرنش پر پڑنے والے مختلف زبانوں کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔ یہ نتیجہ باہر سے آنے والی ترک، عرب، ازبک، ایرانی اور انگریز قوموں کے مقامی لوگوں سے باہم اختلاط کی وجہ سے ہے۔ چونکہ ہندوستان میںباہر سے آنے والوںمیں بیشتر لوگوں کا تعلق عرب، فارس اور ترکی سے تھا۔ جو یہاںکی خوش گوارآب و ہواکی بنا پر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حسنِ اتفاق کہ انہیں یہاں حکومت کرنے کا بھی موقع مل گیا،جسے یہ لوگ سیکڑوں برس تک بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چلاتے رہے۔ ا ن کے حکومتی طریقۂ کاراور عوام سے باہم اختلاط کے اثرات یہاں کے ہر شعبے پر پڑے، جس میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ جو مقامی، مضافاتی اورباہر سے آنے والوں کے درمیان رابطے کی بھی زبان تھی لیکن چونکہ حکومت کی زبان فارسی تھی اس لیے مقامی زبانوں جن میں اردو فارسی سے نسبتاً قریب تھی اس پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔

صوتی سطح پر فارسی کے اثرات

اردو کا صوتی نظام اگرچہ مختلف زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اردو چوں کہ ایک ہند آریائی زبان ہے اس لیے اس میں خالص ہندی نژاد آوازوں کی تعداد زیادہ ہے، مثلاً ٹ، ڈ،ڑ،بھ، پھ، تھ، دھ۔لیکن اس کے صوتی نظا م پر چار لسانی خاندانوں کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں ۔

الف:  عربی و فارسی کے اثرات:  خ ،  ز،  ف،  ق،  غ،  خالص عربی و فارسی آوازیں ہیں ،جو ان زبانوں سے براہِ راست مستعار عمل کے ذریعے اردو میں در آئی ہیں ۔ یہ آوازیں اصل کی رو سے اگرچہ اپنی شناخت یا اپنی آوازیں رکھتی ہیں ، لیکن اردو زبان میں ان کی ایک ہی آوازیں ہو گئی ہیں ۔اردو نے ایسا ہندوستانی نہج پر کیا ہے۔ ہاں مدارس میں آج بھی ان حروف کی قرات ان کی اصل آوازوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔

ب:  ژ،  آواز خالص فارسی ہے، جو اس زبان کے مستعار الفاظ کے ذریعے اردو کے صوتی نظام کا ایک حصہ بن گئی ہے۔یہ آواز صرف فارسی الفاظ مثلاً مژدہ، مژگاں ، ژالہ، پژمردہ، اژدہا وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔ اب یہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے۔

ج:  کوزی آوازیں جیسے ٹ،  ڈ،  ڑ،  وغیرہ خالص دراوڑی آوازیں ہیں جو بالواسطہ طور پر اردو میں مستعار الفاظ کے ذریعے در آئی ہیں۔

و:  ہا کاری آوازیں خالص دیسی آوازیں ہیں جو اردو کے صوتی نظام کا بنیادی حصہ ہیں ۔

اس کے علاوہ اردو زبان میں بے شمار فارسی کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات موجودہیں ۔ یہ سب آج بھی اسی روانی کے ساتھ بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ذیل میں چند الفاظ بطور مثال پیش کیے جارہے ہیں:

 چشم، اشک، نماز ، بہشت، برزخ، عدالت،اناج، آب پاشی، آرائش، آداب و تسلیمات،انگشتری، بریانی، مرغ مسلم وغیرہ۔

اردو زبان میں بعض الفاظ اس طرح سے در آئے ہیں کہ وہ حقیقت میں عربی الاصل تھے ،لیکن ان پر فارسی زبان کے لاحقے یا سابقے لگا کر انھیں اردو بنا لیا گیا ہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دیکھیں :

لفظ  ’شان ‘  کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہ لگایا اور شاندار بنا لیا گیا۔ اسی طرح لفظ ’نقش ‘ پر خلافِ قاعدہ تائے وحدت لگا کر ’ نقشہ کشی، نقش کشی، نقشہ نویس اور نقشہ باز‘  بنا لیا گیا۔

یوں تو اردو کے صوتی نظام پرعربی و فارسی کے علاوہ زبانوں کے بھی اثرات نمایاں ہیں، لیکن یہاں صرف فارسی زبان کے تعلق سے بات کرنا مقصود ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جیسے حرف ’’ ز‘‘ جو فارسی زبان سے اردو میں منتقل ہوا ہے۔

صرفی سطح پر اردو زبان پر پڑنے والے اثرات اس طرح ہیں۔ ذیل میں واحد سے جمع بنانے کا قاعدہ دیکھیں:

استاذ سے اساتذہ۔ اخبار سے اخبارات ۔ مشکل سے مشکلات۔ تخیل سے تخیلات وغیرہ۔

 مرکبات  توصیفی، اضافی

مرکبات کے معاملے میں بھی اردو زبان پر فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں ۔ جیسے مردُم شماری، شیر خوار اور گرانقدر وغیرہ ۔

اسی طرح نحوی سطح پر جیسے اضافت وغیرہ بھی فارسی سے ہی مستعار ہیں ۔ مرکبِ اضافی کی مثالیں جیسے لبِ دریا، زیرِ لب، زیرِ انتظام ، دردِ دل، چراغِ محفل، شمرِ محفل اور باغِ عدن وغیرہ۔

اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت  (نستعلیق)

اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت’نستعلیق‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھی فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ خواجہ میر علی تبریزی نے ’خطِ نسخ‘ اور ’تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسم ِ خط دریافت کیا جو ’’نستعلیق کہلایا۔ مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں :

’’ایران کے ایک عالم خواجہ میر علی تبریزی نے عربی کے دورسومِ خط ’نسخ’ اور’ تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسمِ  خط ایجاد کیا جو ’نستعلیق‘ کہلایا ۔ اردو کے لیے آج یہی رسم ِ مروج ہے اور یہ اردو کا اپنا رسمِ خط بن گیا ہے۔‘‘

(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ،ایجوکیشنل ہائوس علی گڑھ 2012، ص 196 )

اردو ادب پر فارسی کے اثرات

اردو زبان پر فارسی زبان و ادب کے اثرات کس طرح یا کس حد تک پڑے ،اس کو قدرے آسانی سے سمجھنے کے لئے ہم اردو ادب کو دو زمروں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ شعری ادب اور نثری ادب۔

شعری ادب: دورِ حاضر کے شاعروں میں یا ماضی قریب کی شاعری میں مغربی یا جدید رجحانات صاف نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو زبان کا شعری سرمایہ مکمل طور سے فارسی زبان و ادب سے متاثر ہے بلکہ شعری اصناف براہِ راست فارسی سے ہی مستعار ہیں۔ مثال کے طور پر مثنوی، رباعی، قطعہ،قصیدہ وغیرہ۔  اردو میں مرثیہ لکھنے کا رواج فارسی سے ہی آیا ہے۔ فارسی میں مثنوی کی روایت بہت مقبول رہی ہے۔ اردو زبان میں بھی یہ صنف وہیں سے آئی ہے۔ اس کے علاوہ اصول اور موضوعات کی سطح پر بھی فارسی کے اثرات ملتے ہیں ۔  برِّصغیرہر اعتبار سے خوش نصیب خطہ رہا ہے۔  یہاں ہر طرح کا موسم، ندیاں اور جھرنے اورپہاڑ،چرند و پرند اور درند اور انسانوں میں کالے اور گورے، چپٹی ناک سے لے کر لمبی ناک والے سب کچھ پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔ بلکہ ندیوں کے معاملے میں تو یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی گود میں سب سے زیادہ ندیاں بہتی ہیں ۔ ڈاکٹر محمداقبال  نے اس بات کو اس طرح کہا ہے          ؎

گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں

لیکن یہاں کے شعرا نے اپنے کلام میں ’طوطا ، مینا اور کوئل‘ کی جگہ بلبل و عندلیب کا ذکر کیا ہے۔ مقامی درختوں جیسے ’تاڑ، چنار، نیم، برگد اور لپٹس ‘ کی جگہ سَروکا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ندیوں کے معاملے میں ’راوی، جہلم،گھاگھرا، سریوـ‘  یا دیگر ندیوں کی جگہ نیل و فرات اور دجلہ کا ذکر کیا ہے۔ شاعر نے ہندوستانی پھولوں جیسے ’بیلا، چمپا،، موتیا،گیندا اور رات کی رانی کی جگہ ایرانی پھولوں کا ذکر کیا ہے۔ لاجونت کی جگہ نرگس کا ذکر کرتا ہے۔ کوئل و پپیہے کی جگہ بلبل و قمری کا ذکر کرتا ہے۔ ہمالیہ و ہندو کش کی جگہ طور و کوہِ قاف کا ذکر کرتا ہے۔ عشق و عاشقی کا ذکر کرتا ہے تو لیلیٰ و مجنوں کی بات کرتا ہے۔ اسی طرح اردو شاعروں نے خمریات پر قلم اُٹھایا تو ایرانی شاعر ’عمر خیام‘ کو اپنا ماخذ و مرجع بنایا۔  اس معاملے میں تو ہندوستان کی دیگر زبانوں نے بھی استفادہ کیاہے۔ ہندی شاعر ’ ہری ونش رائے بچن ‘ کی ’مدھوشالا‘ اس کی بہترین مثال ہے۔

اس کے علاوہ اردو زبان کے مشاہیر شعرا نے بزبانِ فارسی سخن بھی فرمایا ہے۔ اردو زبان کا شاعرِ اعظم ’مرزا غالب ‘  بقول کسے اپنی اردو شاعری کے مقابلے میں اپنے فارسی اشعار پرکہیںزیادہ نازاں تھا۔ اپنی فارسی دانی پر بھی اسے کمال درجہ فخر تھا ۔ جبکہ یہ عجیب طُرفہ تماشہ ہے کہ آج اس کا وجود بڑی حد تک اس کی اردو شاعری کی وجہ سے ہے۔ کم از کم اردو زبان و ادب کا مجھ جیسا طالب علم غالب کو ان کے اردو کلام کی وجہ سے ہی جانتا ہے۔

اسی طرح اردو زبان کے ایک اور مشہورشاعر ڈاکٹر محمداقبال نے تو فارسی کے کئی دیوان چھوڑے ہیں۔  ’اسرارِ خودی‘ ان کا پہلا فارسی شعری مجموعہ ہے۔ محمد اقبال کو بھی اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ اردو زبان و ادب کے مقابلے میں فارسی زبان وا دب کا دائرۂ کار قدرے وسیع ہے۔ نیز وہ زبان و ادب سے جو کام لیناچاہتے ہیں اس کے لیے یہی فارسی زبان ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ’ سید عبد اللہ‘  اپنے ایک مضمون ’تشریحِ اقبال‘  میں لکھتے ہیں :

’’اقبال کی زبان حکیمانہ اصطلاحوں اور ترکیبوں سے پُر ہے۔ عام خصوصیات کے اعتبار سے اقبال پر حافظ، فگانی، جلال اسیر،سالک یزدی، رضی دانش،ابو طالب کلیم اور طالب آملی وغیرہ کا بڑا اثر ہے۔ لیکن حکیمانہ مضامین کے لیے انھوں نے رومی، خاقانی،بیدل ااور طالب کی زبان استعمال کی ہے۔‘‘ ( آثارِ اقبال ص 267)

اردو کے شعری سرمائے میں درج ذیل لفظیات کا استعمال خوب ملتا ہے:

رخِ زیبا، چہرہ یار، قامت زیبا، دراز قامت، دراز گیسو، موجِ تبسم، روبہ قضا، ماہِ نَو، صورتِ طائوس، چشمہ آتش، چشمِ سوزن، چشمِ آہو، رنگِ یاقوت وغیرہ۔

ایک زمانے تک اردو زبان کا ہر شاعر فارسی میں ضرور کلام موزوں کرتا تھا ۔ بلکہ فارسی زبان میں سخن کر کے اپنے شعری کمالات کو پرکھتا تھا۔ سامنے والا بھی اسی سے اس کی لیاقت کا اندازہ کرتا تھا۔ جس طرح مشاہیر شعرا نے فارسی زبان میں غزلیں کہی ہیں اسی طرح آج بھی لوگ بزبان فارسی کلام موزوں کررہے ہیں ، اگرچہ پہلے کی طرح نہیں۔  بارہا کہا جاتا ہے کہ اردو زبان و ادب کو سمجھنے نیز کلاسیکی ورثے کی سُن گُن کے لیے ناگزیر ہے کہ فارسی زبان و ادب سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ چونکہ اردو زبان و ادب کا بیشتر سرمایہ عربی و فارسی سے مستعار ہے اس لیے اردو الفاظ اور جملوں کی درست قرأت کے لیے ان زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔

نثری ادب: شعری سرمائے کے مقابلے میں اردو کا نثری سرمایا اول روز سے ہی مغربی ادب سے متأثر رہا ہے۔ فورٹ ولیم کالج ، ورنا کولر سوسائٹی ، علی گڑھ تحریک،  انجمنِ پنجاب کی تحریک اور دہلی کالج سے لیکر مختلف دبستانوں تک مغربی زبان و ادب کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں لیکن یہاں بھی فارسی زبان و ادب کے اثرات موجود ہیں۔ میر امّن کے تراجم اس کی مثال ہیں۔ دکنی نثر پاروں میں بھی فارسی کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ صوفیائے کرام کی تحریریں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کلی طور پر فارسی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو زبان کا نمائندہ شاعر میرتقی میر جنھیں اردو شاعری کا خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے مختلف شاعروں کی سوانح حیات کو ’بزبانِ  فارسی‘  ترتیب دیا۔ اس سے اس زبان کی مقبولیت اور رواج کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *