ANS 01
ادب a الفاظ اور زبان کے استعمال پر مبنی فنکارانہ اظہار ، تحریری اور زبانی دونوں. یہ کسی تعلیمی مضمون کا نام اور اس نظریہ کا نام بھی ہے جو ادبی کاموں کا مطالعہ کرتا ہے۔ لفظ ادب لاطینی زبان سے نکلتا ہے
ادبالفاظ اور زبان کے استعمال پر مبنی فنکارانہ اظہار ، تحریری اور زبانی دونوں. یہ کسی تعلیمی مضمون کا نام اور اس نظریہ کا نام بھی ہے جو ادبی کاموں کا مطالعہ کرتا ہے۔ لفظ ادب لاطینی زبان سے نکلتا ہے .
یہ اصطلاح ادبی پروڈکشن کی ترتیب کو بھی جانا جاتا ہے ، مثال کے طور پر کسی ملک ، زبان یا وقت کی۔ توسیع کے ذریعہ ، یہ کام کے سیٹ کا حوالہ دینے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو کسی خاص موضوع سے نمٹنے کے لئے ہوتا ہے۔
اس سے پہلے ادب کی اصطلاح موجود نہیں تھی ، سترہویں صدی میں کوئی بھی تحریری کام شاعری یا فصاحت کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ہسپانوی گولڈن ایج میں بھی ، طرح طرح کی تخلیقات کو اشعار کہا جاتا تھا ، چاہے وہ آیت ، نثر میں لکھے گئے ہوں یا ڈرامائی کام کے طور پر۔
اٹھارہویں صدی سے ، لفظ ‘ادب’ استعمال ہونا شروع ہوا ، تاہم ، یہ انیسویں صدی تک نہیں ہوا تھا کہ اس اصطلاح نے اس معنی کو اپنا لیا جس کے ساتھ آج کل یہ بات مشہور ہے۔
بعد میں ، 20 ویں صدی میں ، روسی زبان پرستی ، خاص طور پر رومن جاکوبسن نے ، ادب اور اس کی خصوصیات کی تعریف کی گئی چیز کا بغور مطالعہ کیا۔ اس طرح ، انہوں نے ایک پیغام پہنچانے کے لئے زبان کے شعری فعل اور تحریر کے جمالیات کو الگ کرنے میں کامیاب کیا۔
لہذا ، جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے اسے ادب نہیں سمجھا جاتا ، مثلا journal صحافتی نصوص یا علمی تحقیق زبان کے شعری فنکشن کو پورا نہیں کرتی ہیں ، حالانکہ وہ کوئی پیغام یا معلومات بانٹتے ہیں۔
ادب انسان کی ثقافت کا ایک خاص نمونہ ہے اور اس کے ہر اس مقام اور مقام کی خصوصیات ہیں جہاں اس نے ترقی کی ہے۔ نوادرات کے زمانے میں ، یونانی ادب میں ایسے کام تخلیق کیے گئے تھے جو بعد میں ادب کی تخلیق کو نشان زد کریں گے الیاڈ Y اوڈیسی، دونوں ہومر سے۔
ادب کے کچھ اہم کام تخلیق کرنے کے لئے مشہور مصنفین میں سے یہ ذکر کیا جاسکتا ہے۔
- ولیم شیکسپیئر یا ایڈگر ایلن پو (انگریزی ادب)۔
- میگوئل ڈی سروینٹس یا گیبریل گارسیا مرکیز (ہسپانوی زبان میں)۔
- جوہن ولف گینگ وان گویٹے یا فرینک کافکا (جرمن ادب)۔
- وکٹر ہیوگو یا البرٹ کیموس (فرانسیسی زبان میں ادب)۔
- فیوڈور دوستوفسکی یا لیو ٹالسٹائی (روسی زبان میں ادب)۔
جدیدیت ایک اصطلاح ہے جس کا چلن 1960 کے بعد ہوا ۔ عام طور سے جدیدیت کی تعریف تویہ ہے کہ یہ اپنے عہد کے مسائل یا اپنے عہد کی حسیت کو پیش کرنے کا نام ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پس منظر میں وجودیت کی فکری تحریک ہے اور سیاسی بنیادوں پر جدیدیت کی تحریک ، ترقی پسند تحریک کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئی ۔ ہر رجحان ابتداء میں انحراف ، بے سمتی اور تجرباتی دور میں ہونے کی وجہ سے خام کارانہ انداز رکھتا ہے ۔اردو شاعری میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کو مسلمہ طور پر جدید رجحانات کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بعض ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ اردو ادب میں جدید دور کا آغاز لاہور میں منعقدہ اردو کی پہلی کانفرنس سے ہوتا ہے اور بعض کے خیال میں سرسید کی ’’علی گڑھ تحریک‘‘ نے جدید اردو ادب کی داغ بیل ڈالی ۔ بعض دانشوروں کےیہاں ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کے آغاز یعنی 1936 ء کے بعد سے ہندوستانی شعراء کا مزاج بدلا اور بعض اہل قلم نے ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ سے اس کا رشتہ جوڑا۔ ان سارے حالات کی روشنی میں ہم جدید اردو ادب کے اولین معماروں اور علمبرداروں میں مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کو ہی تسلیم کرتے ہیں ۔ سرسید کی علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ شعراء سامنے آتے ہیں، جن کی مساعی نے اردو ادب میں آنے والے نئے ذہنوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہم عصر قدآور ہستیوں کے قدامت پسند اور محدود رجحاناتی پردے اٹھا کر انھیں وسیع و عریض میدانوں کی سیر کرائی اور کھلی اور تازہ فضاؤں میں سانس لینے کی راہیں ہموار کیں ۔ آج کل کے ادیبوں کی ذمہ داری اپنے پیشتر یا کسی بھی زمانے کے ادیبوں ، شاعروں سے مختلف ہے ۔ یہی ذمہ داری کا مختلف ہونا جدید ادب کا جواز بھی ہے اور بنیاد بھی۔روایتی شاعری جس میں رومانیت کو مرکزیت حاصل ہے ، آج بھی دلوں کو گرماتی اور خوابیدہ ذہنوں کو بیدار کرتی ہے ۔ہر جدید شاعر کے یہاں اس رنگ میں دوچار نہیں بلکہ بے شمار اشعار مل جاتے ہیں ۔ لفظیات کی ترتیب اور اسلوب بیان پر اگرچہ کہ قدرت پائی جاتی ہے لیکن مفہوم کے پردے میں وہی بات نظر آتی ہے ، جو قدامت پسند شعراءکے یہاں ملتی ہے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پرانے شعری مجسمے کو نیا لباس پہنا کر اور خوب سجا کر نئے روپ اور نئے رخ سے پیش کیا جارہا ہے جو قاری کوبراہ راست بھی اور بالواسطہ بھی متاثر کررہا ہے ۔ موجودہ شعری آہنگ چونکہ غنائیت کو راست پیش کرنا نہیں چاہتا اس لئے جدید استعاروں ، کنایوں اور تشبیہات ولفظیات کے ذریعے اپنا مدعا پیش کررہا ہے ،جس کو فوری سمجھنے سے عام قاری کا ذہن معذور ہے ۔روایتی شاعری اور فرسودہ شاعری دونوں میں فرق ہے ۔ جدید شعراء کے یہاں روایتی شاعری سے نہیں بلکہ فرسودہ شاعری سے بغاوت کا میلان نظر آتا ہے ،جو بے جان اور مہمل ہے اور جو جذبے اور احساس کی بیداری سے عاری ہے ۔ روایتی شاعری کے بعض مخصوص لفظیات جیسے عشق ، محبت ، دیدار ، آنسو ، وفا ، محبوب ، زلف ، انگڑائی ، نزاکت ، حسن ،گل و بلبل ، جنون ، قفس ، برق و آشیاں ، حسرت ، شراب ، جام ، مئے خانہ ، ساقی ، رند ، پژمردگی ، شکست ، احساس کمتری ، ناامیدی ، مایوسی ، شکوہ ، گلہ ، آہ ، نالے ،فغاں ، فریاد ، تنہائی ، چلمن ، پردہ ، نقاب ، کوٹھا ، زاہد ، آئینہ ، تصور ، خزاں ،بہار ، خار ، عکس ، دربار ، حرم سرا ، جبر حیات ، اکتاہٹ ، بے بسی ناکامی ، محرومی وغیرہ وغیرہ ۔آج کے جدید دور میں کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں شعراء کے سامنے زندگی کی قدر ، کھیت ، کھلیاں، کسان ، صنعتیں ، مزدور ، قید ، پھانسی ، بغاوت ، خون ، قتل جنگ ، سمندر ، طوفان ، ہل بان ، انقلاب ، چٹان ، آندھی ، موسم ، برسات ، بسنت ، سورج ، دھوپ ، آواز ، آگ ،سایہ ، عمارت ، شجر ، پتھر ، دیوار ، شہر ، جنگل ، ریت ، بازار ، سناٹا ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، سیاست ، اولوالعزمی ،جواں مردی ، ارادہ ، قوت ، جرم ، سزا ، دار ، چیخ وغیرہ وغیرہ جیسے عنوانات ہیں ۔ آج کا جدید شاعر آگے بڑھنے کا عزم رکھتاہے ۔ ہر نیا ذہن بیداری کا درس لے کر اٹھتا اور آگے بڑھتا ہے ۔ وسیع عزائم ، بلند حوصلگی اور عصری شعور ان کے یہاں بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔ اس کے باوجود بھی جدید شعراء نے سائنس اورٹیککنالوجی کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم مثلاً انتھراپولوجی اور سوشیالوجی وغیرہ سے خاطر خواہ اکتساب فیض نہیں کیا جتنا کرنا چاہئے تھا ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں کے جدید معمار اس کمی کو پورا کریں ۔جس طرح قدیم شاعری میں فرسودہ اور مہمل شاعری کی مخالفت کی گئی اسی طرح جدید شاعری میں بھی مخالفت کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ جدید ادب میں جدید لفظیات کے استعمال کے علاوہ بعض جدید اصناف کی ہیئتی ترکیبوں پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے ۔ اعتراض اس بات پر نہیں کہ جدید شاعری کو جدید تر اور ترقی پسند نہیں ہونا چاہئے بلکہ اعتراض کا اصل مقصد یہ ہے کہ ترقی پسندی کا ہمارے جدید شعراء نے غلط مفہوم لیا ۔ ان اعتراضات کی روشنی میں دو الگ الگ تحریکیں اور ان سے وابستہ شعراء دو زمروں میں منقسم ہوگئے ،جس کی مثالیں ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کی شکل میں ہمارے سامنے آئیں ۔ مجموعی طور پر جدید شاعری کے میلانات کا ہر سمت سے پُر جوش استقبال کیا جانے لگا جو تھکے ہوئے ذہنوں کو بیدار کرنے میں بڑے ممد و معاون ثابت ہوئے ۔
ANS 02
پاکستان اور بھارت کے معروف ادباء، شعراء اور نقادوں نے کہا ہے کہ ایک اچھے نقاد کے لئے خود ایک اچھا تخلیق کار ہونا بھی ضروری ہے۔ تنقید کرنے والا صرف کتابیں پڑھ کر نقاد نہیں بن سکتا اس کے لئے اُسے ادب سے بھی واقف ہونا ضروری ہے ۔ آج کی تنقید آج کی تخلیق سے وہ رشتے نہیں بنا پا رہی جو بنانا چاہئے۔
تنقید تخلیق کی طرح سماجی عمل ہے کوئی بھی لفظ فکر کے مربوط یا غیر مربوط نظام کے بغیر اپنا وجود نہیں رکھتا۔یہ معاشرے کے صحت مند ہونے کی دلیل ہے کہ لوگ جیتے جاگتے ادب سے زیادہ دلچسپی رکھیں۔ یہ بات پیر کی صبح آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ دسویں عالمی اُردو کانفرنس کے آخری دن ’’اُردو تنقید ایک جائزہ‘‘ کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے معروف ادیب وشاعر اور کئی کتابوں کے مصنف شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین سمیت انوار احمد، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، نجیبہ عارف اور سرور جاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہی۔
شمیم حنفی نے صدارتی خطاب میں کہاکہ وہی تنقید اچھی اور بامقصد ہوتی ہے جو تخلیقی لوگوںنے لکھی ہو ، جدیدیت کے تصور نے بھی بڑے نقاد پیدا کئے ہیں، ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ادب اپنے عقائد کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا اور تہذیبیں کبھی ایک رُخ پر سفر نہیں کرتیں بلکہ تہذیبیں دن کے اُجالے کی طرح دھیرے دھیرے پھیلتی ہیں اچانک مسلط نہیں کی جاتیں، انہوںنے کہاکہ یہ بات سچ ہے کہ ہم نے مغربی تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ ہمیں اپنی روایات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جبکہ ہمارے ہاں کثرت سے مغربی لکھاریوں کا ذکر ملتا ہے انہوں نے کہاکہ ہم تنگ نظر ہوتے جارہے ہیں ہمیں اپنی روایت پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔
تعصبات نے ادب ،تہذیب اور زندگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ قاضی افضال حسین نے کہاکہ پوری دُنیا کو زبان کی اصلاحت پر بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ طرزِ وجود کی بنیادی شکل کو ہم نے پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھا نہیں انہوں نے کہاکہ شعر جو شاعر نے بیان کئے ہوتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ پڑھنے والا اُس سے بہتر معنی بیان نہ کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ زبان کے کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے تبدیلی آتی نہیں بلکہ لائی جاتی ہے۔
ہماری حیثیت ادب میں تقریباً کنزیومر کی ہے۔ انوار احمد نے کہاکہ عموماً یہ بحث سننے میں آتی ہے کہ تخلیق مقدم ہے یا تنقید تو میں یہ کہوں گا کہ تخلیق ہی ہر حال میں مقدم ہے۔ تنقید کے تین منصب ہیں جن میں پہلا اصولِ تنقید، دوسرا عملِ تنقیداور تیسر نقد ِتنقیدہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم مغرب سے اس لئے متاثر ہورہے ہیں وہاں علم پروڈیوس ہورہا ہے اور مستقل تحقیقی کام ہورہاہے۔
ہمارے زمانے میں اُردو کے حوالے سے علم صرف اتنا تھا کہ ہم اپنے الفاظوں کے تلفظ کو درست طریقے سے ادا کرلیں۔ معاشرے میں جمہوریت ہویا نہ ہو زبان پر جمہور کا سکہ چلتا ہے۔انہوں نے کہاکہ آسان سے آسان تر گفتگو اور بات کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے کہاکہ ممتاز مفتی ،سجادظہیر اور دیگر کی کتابوں میں تنقید کا وسیع تناظر نظر آئے گا،جب تک تنقید سچائی کے ساتھ نہ ہو اُس کا اثر نہیں ہوگا۔
ترقی پسند تنقید کا جمالیات سے رشتہ نہیں ٹوٹا ہے تنقید میں نئی نئی بحث شامل ہوئی ہیں ، حسن عسکری اور کلیم الدین احمد نے ان بحث پر بات بھی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کی تنقید آج کے تخلیق کار سے وہ رشتے نہیں بناپارہی جو بنانے چاہئیں۔ نئی تحریر اور نئی تہذیب پر ہمیشہ گفتگوکرنے کی ضرورت ہوتی ہے تنقید ایک محاسباتی عمل ہے جس سے فکر اور قوتِ آگاہی میں فائدہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اُردو تنقید میں اپنی صنفی قوت میں اضافہ کیا ہے۔ انہوںنے اس یقین کا اظہار کیا کہ تنقید کا شاندار ماضی کروٹ لے گا۔ نجیبہ عارف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ تہذیب کامسئلہ کسی ایک طبقے تک نہیں یہ ہر فرد کا براہِ راست مسئلہ ہے تہذیب ہم میں سے ہر ایک کی اجتماعی اور انفرادی شناخت کا معاملہ ہے۔ تہذیب محض کسی سماج کے خاص گروہ پر مشتمل نہیںہوتی بلکہ یہ آدرشوں کامجموعہ ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ تہذیب تین اشیاء کا مجموعہ ہے جن میں تمدن ، تاریخ اور ثقافت شامل ہیں۔
تہذیب کی سمت متعین کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا صرف تاریخ ہی تہذیب نہیں ہوتی مگر یہ تہذیب کا حصہ ضرور ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ زندہ قومیں اپنے تہذیبی ارتقاء کاراستہ نہیں چھوڑتیں۔ تہذیب کا سفر ہمیشہ ارتقائی ہوتا ہے فوراً تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ سرورجاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ جب تنقید روبہٴ زوال ہوتی ہے تو ادب کی دیگر اصناف بھی زوال پذیر ہوتی ہیں۔
ترقی پسند ادب اب روبہٴ زوال ہے ترقی پسند ادیب کم نظر آتے ہیں جدیدیت پسند زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ تنقید اپنے منصب سے ہٹ گئی ہے انہوں نے کہاکہ ادبی رسائل کا حال دیکھا جائے تو وہ موصول ہونے والے ہر ادبی مواد کو من و عن شائع کردیتے ہیں اور معیار تک کا خیال نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہاکہ یہ تنقید کا کام تھا کہ وہ بتائے کہ افسانہ کیا ہے، شاعری کیا ہے اور دیگر اصنافِ سخن کیا ہیں، انہوں نے کہاکہ اب یہ سب چیزیں سماج سے الگ ہورہی ہیں لگتا ہے کہ ادب کا سماج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نقاد کی خصوصیات
اچھے نقاد کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہے
(i)نقاد کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے، معاصر ادبیات کے ساتھ ساتھ ماضی کے تخلیقی ورثہ کی اہمیت کا احساس بھی بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامیت کے دور میں اب نقاد کے لیے بین الاقوامی ادب سے بھی کچھ نہ کچھ واقفیت لازم ہے۔ انگریزی تراجم کے ذریے دنیا بھر کے ادب کا مطالعہ ممکن ہو چکا ہے۔
(ii) مطالعہ ادب میں غیر متعصبانہ رویہ بے حد ضروری ہے۔ بسا اوقات قومی ، نسلی ، لسانی، مذہبی ، سیاسی یا اسی نوعیت کے دیگر تعصبات کی بنا پر غیر ملکی تخلیقات کا مطالعہ درست تناظر میں نہیں ہوتا۔ لہذا تخلیقات سے کما حقہ استفاد ممکن نہیں رہتا۔ ادب انسان کی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا نقطہ عروج ہے ۔ لہذا ہر طرح کے تعصب ، نفرت، کدورت اور تنگ نظری سے ماورا ہو کر تخلیقات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
(iii) نقاد اپنی رائے کے اظہار میں خود مختار اور بے باک ہومگر اس کی تنقیدی رائے اور فیصلہ تحقیق اور اصناف سے متعلق اصولوں پینی ہونا چاہیے۔ عناد، بغض اور نفرت پڑی تنقید کانٹوں کا گلدستہ ثابت ہوتی ہے۔
(۱۷) ہمارے ہاں ان دنوں ادبی گروہ بندیوں کا بہت چرچا ہے نقاد کو ہر ممکن طریقہ سے اپنے گروہ کے تعقبات کے منفی اثرات کو تنقیدی آرا پر اثر انداز نہ ہونے دینا چا ہیے ۔ گروہی تنقید نا اہل کی تحسین ہوگی اور حق دار حق سے محروم رہے گا۔
(7) نقادجن اصناف سے متعلق تحقیقات اور تخلیق کاروں کے بارے میں قلم اٹھاتا ہے اسے ان اصناف کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ فنی قواعد تکنیکی لوازم اور ان کے اسلوب کی جمالیات سے گہری واقفیت ہونی ضروری ہے ورنہ برعکس صورت میں وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور اپنے قارئین کو بھی گمراہ کرے گا۔
(vi) آج کی تنقید محض لفظی موشگافیوں میں نہیں الجھتی بلکہ حسین تحلیل کے عمل کو زیادہ مؤثر اور معتبر بنانے کے
لیے فلسفہ، سائنس اور سماجی علوم سے بھی مدد لیتی ہے اس لیے نقاد کے لیے اگر تمام انسانی فکر، سائنسی اور سماجی علوم سے مکمل طور پر واقفیت ممکن نہیں تو کم از کم اسے ایک دو کے بارے میں ضرورعلم ہونا چاہے جیسے جمالیات، عمرانیات ، لسانیات، نفسیات، مارکسیت ، رومانیت، اساطیر وغیرہ میں سے ایک دو کا ضرور رمز شناس ہو۔
(vi) جس طرح اعلی تخلیق کے لیے ارفع اسلوب ضروری ہے اسی طرح قابل مطالعہ اور کار آمد تنقید کے لیے موزوں اسلوب کی ضرورت ہے ۔ اگر علمی تحریر سے اسلوب کی جمالیات کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے تاہم پیوست زدہ اسلوب سے تنقید کی خشکی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اردو میں صاحب اسلوب ناقدین بھی مل جاتے ہیں جیسے محمد حسین آزاد شبلی نعمانی ، فراق گورکھپوری ، محمد حسن عسکری ، آل احمد سرور ، سلیم احمد، مظفر علی سید وغیرہ ۔
(viii) تنقید باضابطہ فن ہے (بعض ناقدین کے بموجب فلسفہ علم اور سائنس ہے) لہذا اس کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں تخلیق کے اسلوب کا مطالعہ بھی بعض اصطلاحات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ نقاد جن علوم سے خصوصی شغف رکھتا ہے ان کی بھی اصطلاحات ہوتی ہیں اس لیے اصطلاحات سے قطعی طور پر بچ کرتنقید کرنا ممکن نہیں لیکن اس کے با وجود بار بار بلا ضرورت بوجھل اصطلاحات کے استعمال سے تنقیدی تحریر کو مشکل اور بوجھل بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ دوسری زبانوں کی نامانوس اصطلاحات کے اردو مترادف یا
تراجم تقریر کرتے وقت اصل اصطلاح ضرورھنی چا ہے تا کہ ان کی تفہیم میں الجھن نہ پیدا ہو۔
(ix) جس طرح تحلیل نفسی سے اور بعض اوقات تخلیقات کے ذریعہ سے تخلیق کار کی شخصیت کا مطالعہ کیا جا سکتا
ہے اسی طرح تنقیدی مقالات کا ژرف نگاہی سے مطالعہ کر کے نقاد کی شخصیت ، مزاج اور ذاتی پسند و نا پسند کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ خود سے نامطمین ، نا آسودہ ، غصیلے اور دشنامی مزاج کے حامل نقاد کا اسلوب اور تنقیدی فیصلے اس کی منفی شخصیت کے غماز ثابت ہو سکتے ہیں اس کے برعکس متوازن ذہن کے حامل اور معتدل مزاج فرد کی تنقیدی تحریر اور اسلوب بھی ان ہی خصوصیات کا حامل ہوگا۔
ANS 03
نقد کے معنی عربی میں اظہار عیوب اور نقائص اور ’’ تمییز الجید من الردی‘‘ کے آتے ہیں ، اس اعتبار سے دیکھیں تو نقد ذم کے ساتھ خاص ہے ۔ بخلاف تقریظ اور مدح کے ، لیکن ادبا کی اصطلاح میں ادب وشعر کی توضیح وتشریح اس انداز میں کرنا کہ ادبی شہ پارے غیر ادبی تخلیقات سے ممیز وممتاز ہوجائیں اور ان تشریحات کی روشنی میں ان پرمعیاری اورغیر معیاری ادب کا حکم لگایا جا سکے تنقید کہلاتا ہے ، اسی لیے توضیح وتشریح اور نقد میں فنی ، موضوعی اور دیگر خصائص حسن وعیب کا ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ اردو میں عام طور پر نقد کے لیے تنقید کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، جس کا ماخذ یونانی لفظ (CRITICISM) ہے ، جس کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں۔
تنقید کا یہ عمل تخلیق کو سنوارنے اور تخلیقی جوہر کو نکھارنے کے لیے ضروری ہے ، اسی لیے نقادوں کا خیال ہے کہ عظیم تخلیقات، ممتاز تنقیدی شعور کے بغیروجود پذیر نہیں ہو سکتیں، تخلیق کار کا تنقیدی شعور جتنا بالیدہ ہوگا، تخلیقی شعور اسی قدر وسعت اور گہرائی لیے ہوئے ہوگا، واقعہ یہ ہے کہ تنقیدی شعور کے بغیر تخلیقی سوتے خشک ہوجاتے ہیں اور ادب فکر واظہار کی سطح پر آگے نہیں بڑھ پاتا ، ایسے میں ادیب پرانی فکر ، پرانی روایت کے گرد گردش کرتا رہتا ہے ، ایسا ادب پر کشش نہیں ہوتا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پرانی چیزیں نقل کی جا رہی ہیں ۔
عربی شاعری اس لئے معیاری ہے کہ عرب شعراء کے یہاں تخلیقی شعور کے ساتھ تنقیدی شعور بھی پورے طور پر موجود ہے ،البتہ عہد جاہلیت میں تنقید کے جو رجحانات ملتے ہیں ، ان میں شعراء کے اقوال اور ذوق کو بنیادی حیثیت حاصل تھی اس کے لیے نہ کوئی اصول مقررتھا اور نہ ہی متعین تنقیدی پیمانے، شعراء کے درمیان برتری کی جو جنگ جاری رہتی تھی ، اس میں ایک دوسرے کی خامیوں پر رائے زنی کی جاتی تھی ، کبھی اس رائے زنی میں فنی نقائص وعیوب بھی سامنے آجاتے تھے ، لیکن عموما بس اقوال ہی ہوتے تھے اور قاری وسامع کی پسند، نا پسند ہی معیاری اور غیر معیاری تخلیق کے لیے کافی ہوا کرتی تھی، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دور میں تنقید کا پیمانہ صرف ذوق تھا ، کبھی دوسرے عیوب بھی بنیاد بنتے تھے ، لیکن ان کی حیثیت شاذ تھی۔
عصر جاہلی میں اس کا م کے لئے سوق عکاظ میں باضابطہ سرخ رنگ کاخیمہ نصب ہوتا، نابغہ ذبیانی فیصل ہوتا، شعراء آتے اور اپنا کلام سنا جاتے، نابغہ اس پر رائے زنی کرتا ، اور اپنا فیصلہ سناتا ، ایک بار اعشیٰ میمون اور حسان بن ثابت نے بھی اس خیمے میں اپنا کلام پیش کیا ، نابغہ نے اعشیٰ کے اشعار کو سراہا اور حسانؓ بن ثابت کے بارے میں کہا کہ اگر اعشیٰ کا کلام میرے سامنے نہ آتا تو میںتمہارے بارے میں جن وانس کے بڑے شاعر ہونے کا اعلان کرتا، حضرت حسانؓ کو غصہ آگیا اور فرمایا میں تم سے اور تمہارے باپ سے بڑا شاعر ہوں ، نابغہ نے کلام کی فنی خوبیوں اور خامیوں پر بات نہیں کی ، صرف اتنا کہا کہ تم اعشیٰ کے اس شعر کے مقابل شعر نہیں کہہ سکتے ۔
فاِنَّکَ کَاللیلِ المُذیِ ھُو مُدْرِکِی
واِنْ ظَنَنْتَ اَن المُتَنائی عَینُکَ وَاسع
اسی طرح ایک موقع سے امرؤ القیس اور علقمہ بن عبدہ دونوں بڑے شاعر ہونے کے دعوے دار تھے ،حَکم امرؤ القیس کی بیوی ام جندب کو بنایا گیا ، ام جندب کی تجویز پر دونوں نے گھوڑے کی تعریف میں قصیدہ کہا۔ امرؤ القیس کے قصیدہ کا مطلع تھا ۔
خَلِیْلِی مَرابی علیٰ اُمّ جُنْدُبِ
نَقْضِی لِبانات الفُوأدِ المُعَذّبِ
علقمہ بن عبدہ التمیمی نے اسی قافیہ وردیف میں قصیدہ کہا ، جس کا مطلع تھا:
ذَھَبْتُ مِنَ الھِجْرَانِ فِی غَیْرِ مَذْھبِ
وَلَمْ یَکُ حَقاً کُلَّ ھٰذا التجّنبِ
ام جندب نے فیصلہ دیا کہ علقمہ بڑا شاعر ہے ، اس لیے کہ امرؤ القیس گھوڑے کو مارمار کر بھگاتا ہے اور علقمہ کی فکر میں گھوڑا ہوا کی طرح بھاگتا ہے۔ ام جندب نے جس شعرکی بنیاد پر علقمہ کو بڑا کہا وہ درج ذیل ہے۔
فِلِسوطِ الھوب وللسَاقِ دُرَّۃُ ٗ
ولِلزجر منہ وقعُٗ اخرج مِنعَبِ
فاَدْرَکَھُنَّ ثَانِیاً مِن عِنانِہِ
یَمُرّ کَمُرّ الرائحِ المُتَحَلِّبِ
ظاہر ہے یہ تنقید فنی نہیں، فکری ہے، حالانکہ ادبی تنقید میں فیصلہ کرتے وقت فکر وفن دونوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ، لیکن عہد جاہلیت کے تنقیدی نمونے ہمیں اس سے خالی نظر آتے ہیں ۔
جاہلی شعراء میں زہیر بن سلمیٰ حضرت عمرؓ کی نظر میں اس لیے ممتاز تھا کہ وہ اپنے مدحیہ اشعار میں مبالغہ سے گریز کرتا تھا اور واقعتا جو اوصاف ممدوح میں ہوتے اسی کا ذکر کرتا ، حضرت عمر ؓ کے نزدیک اس کے ممتاز ہونے کی ایک وجہ اس کے کلام کی روانی بھی تھی ۔ فرمایا :
’’اِنَّہ اَشْعَرُ الشُّعَرَائِ لِانّہُ کَانَ لَا یُعاظِلُ فِی الکَلَامِ وَکَانَ یتجّنب وَحْشِیَ الشِعْرِ وَلَمْ یَمْدَحُ اَحداً الا بِمَا ھُو فیہ۔
اس دور میں جو تنقیدیں کی گئیں ان میں بعض اتنی مبہم ہیں کہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ مثلا ربیعہ الحذار الاسدی زبرقان کے اشعار پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارے اشعار گرم گوشت کی طرح نیم پختہ اور نیم خام ہیں ، نہ پورا پک سکا کہ اسے کھا لیا جائے اور نہ کچا ہی ہے کہ کسی دوسرے کام میں لایا جا سکے ۔
شِعْرُکَ کُلھُمْ لَمْ یَنْضَجْ فَیُوْکَلْ وَلَا تَرَکَ نیئاً فَیَنْتَفَعُ
ابن عبدہ کے اشعار کو وہ ایک ایسے گھڑے کی طرح قرار دیتا ہے ، جس کا ڈھکن اتنی مضبوطی سے بند ہے کہ پانی کا کوئی قطرہ بھی اس سے باہر نہیں آسکتا ۔
تنقید کے متعین پیمانے نہ ہونے کے با وجود واقعہ یہ ہے کہ دو ر جاہلی کی شاعری فن کی پختگی کے اعتبارسے اعلیٰ شاعری کی بہترین مثال ہے ، فنی اعتبار سے یہ دور فکر کی بلندی ، منظر کشی اور فنی اعتبار سے بام عرج پر پہونچا ہوا نظر آتا ہے، طہٰ حسین کو یقین نہیں آتا کہ تنقیدی پیمانے نہ ہونے کے باوجود عرب ایسی شاعری کس طرح کرتے تھے، چنانچہ ان کا خیال ہے کہ جاہلی قصائد اکثر بعد کے گڑھے ہوئے ہیں۔
دور جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ شعراء کے نام ان کی شاعری کی خصوصیات کے اعتبار سے رکھتے تھے ، مہلہل بن ربعہ اس لیے مہلہل تھا کہ اس کی شاعری میں لطافت کا عنصر غالب تھا اور غریب ونامانوس الفاظ سے اجتناب کرتا تھا ، ھلھلہ کے معنی کپڑے کے باریک بُننے کے آتے ہیں ، اس لیے اس مناسبت سے وہ مہلہل کہلایا، نابغہ نے اشعار کی فصاحت کی وجہ سے نابغہ نام پایا ، مثالوں کی کثرت کی وجہ سے کعب غنوی ، ’’کعب الامثال‘‘ ہو گیا ، اور گھوڑے کی تعریف کے غلبہ نے طفیل غنوی کو ’’طفیل الخیل‘‘ بنادیا ، اوباش رندبلا نوش اور شاہی خاندان سے تعلق کی وجہ سے امرؤ القیس،’’ الملک الضلیل‘‘ ہو گیا ۔
دور جاہلیت میں تنقیدی پیمانے نہ ہونے کے باوجود تنقیدی شعور بہت پختہ تھا، اسی وجہ سے وہ الفاظ کے غلط استعمال ، قافیہ کے حسن وقبح کو فورا پکڑتے تھے ، مشہور شاعر طرفہ نے مسیب بن علس کے ایک شعر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اونٹ کی اونٹنی بنادیا ، معاملہ صرف یہ تھا کہ اس نے اونٹ کی صفت کے طور پر’’ صعیدیہ‘‘ کا لفظ استعمال کر لیا تھا ۔
اسی طرح نابغہ نے ایک شعر میں ’’ الاسود‘‘ کے قافیہ کے ساتھ ’’بالید‘‘ باندھا تھا ، جس میں ایک پرپیش تھا اور دوسرے پر زیر ، عربی تنقید کے اعتبار سے یہ اقواء تھا جو مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے ، چنانچہ جب مدینہ میں ایک لڑکی نے اسے سنایا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اس واقعہ کو وہ اتنی اہمیت دیتا تھا کہ کہنے لگا : میں مدینہ سے پلٹا تو سب سے بڑا شاعر تھا۔
اس پورے دور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ نثر میں تنقید کا وجود نہیں ہے ، ساری توجہ فخروحماسے ، معلقات ، قصائد، تمثیلی ، غنائی اور قصصی اشعار پر مرکوز رہی ، نثر قابل اعتنا نہیں تھا ۔ جنسی غزل جسے نسیب اور تشبیب بھی کہا جاتا ہے پر زور صرف کیا جاتا رہا، جو جاہلی معاشرے کی عکاس اورشعراء کے ذاتی جذبات واحساسات کی ترجمان ہوتے ، اس دور کے نامور شعرامیں امرؤ القیس ، عنترہ بن شداد ، مہلہل بن ربیعہ تغلبی، عمر و بن کلثوم تغلبی، طرفہ بن العبد ، لبید بن ربیعہ، درید بن الصمۃ ، اعشی، لبید ، طفیل الغنوی، اوس بن حجر، ابو داؤد الایادنی، خنسائ، جلیلہ، سعدی بن الشمرول، شبامہ بن غدیر، مسیب بن علس ، اوس بن حجر ، زہیر بن ابی سلمہ ، نابغہ ذبیانی، عروۃ بن الورد، مرقش الاکبر، امیہ بن ابی الصلت کے نام لیے جا سکتے ہیں ، یہ مختلف اصناف سخن کے نامور شعراء ہیں
دور جاہلی کا اختتام طلوع اسلام سے ہوتا ہے ، اسلام نے زندگی گذارنے کے لیے جو صالح قدریں فراہم کیں ، وہ زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہیں ، ادب وشاعری اور تنقید کے بھی اس نے اصول دنیا کو دیے ، قرآن کریم میں شعراء کے سلسلے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
وَالشُعْرَائُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاؤوْن ۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھَیْمُوْن۔ وَاَنَّھُمْ یَقُوْلَوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْن (الشعرائ: ۲۳۶۔۲۳۴)
شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں ،کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں۔
علامہ جار اللہ زمخشری اپنی مشہور ومعروف تفسیر کشاف میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَمَعْنَاہُ اَنْ لَا یَتَّبِعَھُمْ عَلیٰ بَاطِلِھِمْ وَکِذْبِھِمْ وَفُضُوْلِ قَوْلِھِمْ وَمَا ھُم عَلَیْہِ مِنَ الھجاء ومَزِیْق الاَعْراض وَالْقَدْحِ فِیْ الاَنْسابِ وَمَدْحِ مَنْ لَا یَسْتَحِقُّ المَدْحَ وَلَا یَسْتَحْسِنُ ذَلکَ مِنْھُمْ وَلَا یَطْرَب عَلی قَوْلِھم اِلا الغاؤوُن۔ (ص۲؍۱۳۵)
’’اس کے معنی یہ ہیں کہ شعراء کی باطل گوئی ، کذب بیانی ، فضول گوئی ، ہجو، آبروریزی ، نسب میں عیب جوئی ، نا اہل کی مدح وغیرہ میں ان کی اتباع اور اسے مستحسن صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں ؛جو بہکے ہوئے ہیں ۔‘‘
ادب وشاعری میں ان خرابیوں کی وجہ سے ہی بقول حضرت عائشہ ؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ ابغض الحدیث تھا ، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ پیٹ کا پیپ سے بھر جانا بہتر ہے اس بات سے کہ تمہارا پیٹ شعر سے بھر جائے ۔(لِان یَّمْلِی جَوْفَ اَحَدِکُمْ قیحا خَیْرُ لَّہُ مِنْ اَن یَّمْتَلِی شِعْرا) مسند احمد کی ایک روایت میں جس کے اسناد پر محدثین نے کلام کیا ہے ، یہ بھی ہے کہ جس نے عشاء کے بعد شعر گوئی کی اس کی اس رات کی نماز قبول نہیں ہوتی ’’وَمَنْ قَرَضَ بَیْتَ شِعْرِ بَعْدَ العِشَاء لَمْ تُقْبَلْ صَلوٰۃُ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ‘‘ اور اسی وجہ سے قرآن کریم نے نبی کے شایان شان شاعری کو نہیں قرار دیا ۔ وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہُ (یٰسین) ہم نے ان کو نہ شعر سکھایا اور نہ یہ ان کے لیے مناسب ہے۔
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا نہ میں شاعر ہوں اور نہ ہی مجھے یہ زیب دیتا ۔ (اِنِّی لستُ بِشَاعِرٍ وَلَا یَنْبَغِی لِی)
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا ادبی وشعری سرمایہ اور ساری تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتیں اسلام کے منافی ہیں ، قرآن کریم نے شعراء کی مذمت کے معا بعد ان شعراء کا استثناء کیا ہے جو ان صفات سے مزین نہیں ہیں ، بلکہ وہ اللہ کو یاد کرنے والے اور ایمان وعمل صالح کی صفت سے مزین ہیں اور وہ ادب وشعر کا استعمال مظلومی کے بعد انتقام کے لیے کرتے ہیں ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُو اللّٰہَ کَثِیْراوَّانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا (الشعرائ:۲۳۷)
سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا ۔
علامہ جار اللہ زمخشری لکھتے ہیں:
اُسْتُثْنَی الشُعَرَاء المؤمنون الصالحون الَّذِیْنَ یَکْثُرُوْنَ ذِکْرَ اللہِ وَتِلَاوَۃَ الْقُرْآنِ وَکَان ذالک اَغْلَبَ عَلَیْھِمْ مِنَ الشِّعْرِ وَاِذَا قَالُوْ شِعْراً
ان مؤمینین صالحین شعراء کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جو بکثرت اللہ کا ذکر اور تلاوت کرتے ہیں ، اور یہ چیز ان کے اوپر شعر کے مقابلے
قَالُوْہ فِیْ تَوحِیْدِ اللہ وَالثنائِ عَلَیْہِ وَالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ وَالزُھْدِ وَالأدابِ الحَسَنَۃِ وَصُلَحَائِ الْاُمَّۃِ وَمَا لا باْسَ بِہِ مِنَ المَعَانِی الَّتی لَا یَتَلَطّخُوْنَ فِیْھَا بِذَنْبٍ وَلَا یَتَلبّسُوْنَ بِشَائِنَۃٍ وَلَامَنْقَصَۃٍ وَکَانَ ھِجَاؤھُم عَلیٰ سَبِیْل الانتصارِ مِمَّنْ یَھجُو ھُمْ (کشاف۳؍۱۴۵)
میں غالب رہتی ہے اور جب وہ کوئی شعر کہتے ہیں تو وہ توحید الٰہی ، اس کی ثنا، حکمت وموعظت دنیا سے بے رغبتی، آداب حسنہ ، صحابہ ، صلحاء امت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں کہتے ہیں اور ایسا شعر کہتے ہیں ،جس میں گناہ کی آمیزش نہیں ہوتی اور نہ ہجو اور مذمت کا شائبہ ہوتا ہے اور ان کے ہجو کے اشعار ان لوگوں سے انتقام کے طور پر ہوتے ہیں۔
ان خصوصیات کے ساتھ جو اشعار کہے جاتے ہیں اس کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ زبان کا جہاد ان کے قلوب کو نیزوں کی طرح چھلنی کرتا ہے۔
وَالّذی نَفْسِی بِیَدِہِ لَکَانَ مَا تَرمُونَھُم بِہ نَضْح النُبُلِ
قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ زبان کا جہاد ان کے قلوب کو نیزوں کی طرح چھلنی کرتا ہے۔
ایک اور موقع سے ارشاد فرمایا :
خَلِّ عَنْہ یَا عُمَرُ! فَھِیَ اُسْرَعُ مخصومٍ مِن نُضُحِ النُبُلِ
عمر! اس کو چھوڑ دو کیونکہ یہ نیزہ کے زخم سے زیادہ سریع الاثر ہے۔
ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ہجو کا حکم دیا اور فرمایا :
اُھجو قریشَا ، فَاِنّہ اَشَدُّ عَلَیْھِمْ مِنْ رَشْقِ النُبُلِ۔
قریش کی ہجو کرو اس لیے کہ یہ ان کے لیے نیزے کے زخم سے زیادہ سخت ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرَا۔ وَاِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً۔
بے شک بعض بیان جادو کا اثر رکھتا ہے اور بعض شعر پر از حکمت ہوتا ہے۔
ان روایات واحادیث سے شعر کی تاثیر اور غیر معمولی اثر کا پتہ چلتا ہے ، اور اس کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تنقید میں اس کی توضیح ہونی چاہیے کہ اس ادب نے سماج کو کس قدر متاثر کیا اور اس کے کس قدر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔
عہد اسلامی اور عہد نبوی میں شاعری کا زور تھا ، قصے اور مسامرۃ کی مجلسیں بھی منعقد ہوتی تھیں ، مرثیہ خوانوں اور حدی خوانوں کا بھی اپنا سُر اور لے تھا اور ان کے ذریعہ بھی مقفع مسجع عبارتیں وجود میں آجاتی تھیں، لیکن ان کی طرف توجہ کم تھی اور تنقید کی کسوٹی جس درجہ کی بھی تھی اس پر اسے نہیں پرکھا جاتا تھا ، البتہ شعر وشاعری وجہ
تفاخر بھی تھا اور وجہ تنازع بھی، عشق وہجر کے قصے وصال کی باتیں ، محبوبہ کے فراق کی بے کلی وبے بسی کا اظہار، شاعری کے ذریعہ ہی ہوتا تھا اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار پر تنقید مقصدیت کے اعتبار سے کیا ، اور شاید پہلی بار ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کا تصور سامنے آیا۔
اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو ایک آدمی بڑا شاعر ہو سکتا ہے ، اس کی شاعری میں فنی پہلوبھی غالب ہے ، لیکن وہ مقصدی شاعری نہیں ہے ، بلکہ اس نے فحش اور عریاں مضامین کو نظم کر دیا ہے ، اس لیے ہم انہیں فن کے اعتبار سے ممکن ہونے کے باوجود مقصدیت سے دور ہونے کی وجہ سے اس پرادبی شہہ پارے کا حکم نہیں لگا سکتے ، بہ تفریق پہلی بار آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے سامنے آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیہ بن صلت کے اشعار اس کی بہن فارعہ کی زبانی سن کر ارشاد فرمایا : اس کا شعر ایمان لے آیا، لیکن اس کے قلب نے کفر کیا (آمنَ شِعْرُہُ کَفَرَ قَلْبُہ)
ان ارشادات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام بنیادی طور پر شعر وادب کا مخالف نہیں ہے ،مقصد نیک نہ ہوتو شاعری شیطان کا آلۂ طرب ہے اور مقصد نیک ہو تو وہ تائید الٰہی کا ذریعہ ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے جو تنقیدی اصول سامنے آتے ہیں ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کلام میں چرب زبانی ، بے جا تکلف ، فخریہ اور متکبرانہ جملے سے احتراز ، سادگی، سنجیدگی ، سہل نگاری ، ایجاز اور لوگوں کی ذہنی سطح سے قریب تر الفاظ کا انتخاب ہونا چاہیے، اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کَفَاکَ اللّہ مَا اَھَمَّکَ (اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورت پوری کرے) عَصِمَکَ اللّٰہُ مِنَ الْمَکَارہْ (اللہ تمہیں برائیوں سے بچائے ) جیسے جملوں کو سن کر ھٰذِہٖ الْبَلَاغَۃکہہ کر بلیغ ہونے کی سند عطا فرمائی ۔ بہت مسجع عبارت جو نفس مطلب تک پہونچنے میں مخل ہو کو ناپسند فرمایا (اسَجْعَاً کَسَجْعِ الکھّانَۃِ (کیاکاہنوں کی طرح مسجع عبارت میں بات کرتے ہو۔) بے جا تکلف وتصنع کو بھی پسند نہیں فرمایااور اسے ہلاکت کا سبب قرار دیا ۔ ھَلَکَ المُتَنَطِّعُوْنَ (بناوٹ سے باتیں کرنے والے ہلاک ہوئے) اور اِیَّاکَ وَالتَشَادُقَ (کلام میں بے جا تکلف سے بچو) کہہ کر واضح کر دیا کہ یہ کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے ۔
ان اصولوں کی روشنی میں جن حضرات کی شاعری سامنے آئی، انہیں بارگاہ رسالت سے پسندیدگی کی سند ملی ، حمزہ بن عبد المطلب ، علی بن ابی طالب، کعب بن مالک ، حسان بن ثابت، عبد اللہ رواحہ، عبیدہ بن الحارث عہد نبوی کے ممتاز شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔
اس پورے دور کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کی شاعری پرمقصدیت غالب ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو حق کے موافق ہے وہ خوب ہے اور جو حق کے مخالف ہے اس میں کوئی خیر نہیں۔
اِنّھا الشِعْرُ کَلَام’‘ مؤلف’‘ فَمَا وافقَ الحَقُّ مِنْہُ فَھُوَ حَسَن’‘ ومَالَمْ یُوَافِقِ الحَقَّ مِنْہُ فَلَا خُیْرَ فِیْہِ۔
فرمایا شعر کلام ہی ہے ، کلام اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی (اِنَّمَا الشِّعْرُ کَلَام فَمِنَ الکَلامِ خَبِیْث’‘ وطیب) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی وجہ سے صحابہ کرام میں ادبی ذوق، صالح قدروں کے ساتھ پروان چڑھا ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ دینی علوم کے ساتھ اشعار کی بہترین پارکھ اور نسب کی بڑی جانکارتھیں، خود بھی فصیح گفتگو کرتی تھیں ، موسیٰ ابن طلحہ کا بیان ہے:
مَارَأیتُ اَحَداً اَفْصَحُ مِنْ عَائِشَۃَ میں نے عائشہ ؓ سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا ۔
ہشام بن عروۃ فرماتے ہیں:
مَا رَأیْتَ اَحَداً مِنَ النَّاسِ اَعْلَمُ بِالْقُرآنِ وَلَا بِفَرِیْضَۃٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَحَرَامٍ وَلَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِیْثِ الْعَرَبِ وَلَا النَسَبِ مِنْ عَائِشَۃَ۔ میںنے لوگوں میں سے کسی کو حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ قرآن میراث، حلال وحرام، شعر، واقعات عرب اور نسب کا جانکار نہیں دیکھا۔
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی طرف بھی بہت سے اشعار منسوب ہیں ، طبری میں حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے اس کی تردید کی ہے ان کا خیال ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا ، لوگ دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں ۔ مَا قَالَ اَبُو بَکَرٍ شِعْراً قَطُّ وَلٰکِنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ عَلَیْہِ اس بات سے قطع نظر ان کا ذوق شعری انتہائی بالیدہ تھا اور شعراء کے ما بین معرکہ کی روداد یں اور اشعار انہیں کثرت سے یاد تھے، کئی موقعوں پر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اشعار سنائے اور اس معرکہ کی پوری روداد سناڈالی۔
حضرت عمر فاروق کا موقف شاعری کے سلسلے میں دوسرے صحابہ کرام کی بہ نسبت زیادہ واضح تھا ، انہوں نے اپنے صاحب زادہ کو نصیحت کیا تھا کہ ادبی ذوق میں نکھار پیدا کرنے کے لیے اچھے اشعار یاد کرو، کیونکہ اس کے بغیر ادبی ذوق نہیں نکھرتا۔
وَاحْفَظْ مَحَاسِنَ الْشِعْرِلِحُسْنِ اَدَبِکَ وَمَنْ لَمْ یَحْفَظْ مَحَاسِنَ الشِّعْرِ لَمْ یُوَدِّ حَقّاً وَلَمْ یُحْسِن اَدَبَاً۔(تاریخ القصۃ والنقد:۱۱۶)
وہ چاہتے تھے کہ لوگ اشعار یاد کریں اس کے رموز ونکات سے واقفیت بہم رکھیں ، کیونکہ اس سے اخلاق بلند ہوتا ہے، رائے درست ہوتی ہے اور علم الانساب کی معرفت بھی اس کے ذریعہ ہوتی ہے ، انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو اپنے دور خلافت میں لکھا ۔
’’مُرْ مِنْ قَوْمِکَ بِتَعَلُّمِ الْشِعْرِ فَاِنَّہُ یَدُلُّ عَلَی مَعَالِ الْاَخْلَاقِ وَصَوَابِ الرَایِ وَمَعْرِفَۃِ الَانْسَابِ‘‘(تاریخ القصۃ والنقد : استاذ السباعی ، بیومی مطبوعۃ مصر ۱۹۵۶،۱۱۶)
یہ حضرت عمرؓ کی تنقیدی بصیرت ہی کی بات ہے کہ انہوں نے نابغہ ذبیانی کو اشعر العرب اور زہیر بن ابی سلمیٰ کو اشعر الشعراء کاخطاب دیا؛ کیوں کہ ان کے خیال میں زہیر تعقیدات ، غرابت الفاظ اور مدح بے جا سے اجتناب کرتا ہے ۔ (’’اِنَّہُ یُعَاظِلُ بَیْنُ الْقُوْلِ وَلَا یَتَّبَعَ حُوشَی الکَلامِ وَلَا یَمْدَحُ الرَجُلَ اِلّا بِمَا ھُوَ فِیْہِ۔(الشعر والشعراء اول :۷۶، العمدہ اول:۹۸)اس سلسلے کی تفصیلات ابو الفرج اصفہانی کی کتاب ’’الاغانی‘‘ اور ابن قتیبہ کی کتاب ’’الشعروالشعراء ‘‘میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح حضرت حسانؓ، ابو ذوئب الھذلی کو زندہ شاعروں میں بڑا شاعر سمجھتے تھے اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے حطیہ کو اشعر الشعراء کا خطاب دیا تھا ، دیگر صحابہ کرام میں حضرت عثمان غنیؓ کی فصاحت وبلاغت اور الفاط کی مو ز ونیت ضرب المثل تھی ، حضرت علیؓ نثر ونظم دونوں کے مرد میدان تھے ، مشہور مؤرخ اورناقد حسن زیات کے بقول وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ فصیح اللسان واقع ہوئے تھے ، ان کے بعض اشعار حدیثوں میں مذکور ہیں ، جس سے ان کے تخیل کی بلندی اور حسن الفاظ کے انتخاب کا پتہ چلتا ہے ، جنگ خیبر میں آپ کا یہ رجزیہ شعر بہت مشہور ہوا۔جس کا مفہوم ہے کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ، میں خوفناک گھنے جنگل کے شیرکی طرح ہوں۔
اَنَاالذی سَمَتْنِی اُمِّی حیدرۃً
کَلَیْثِ غاباتٍ کریہِ النَظْرَۃِ
(خلفاء راشدین اول: ۳۳۵ معین الدین ندوی)
ان تفصیلات کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد میں تنقید صرف ذوقی چیز نہیں رہ گئی تھی؛ بلکہ تنقید کی بنیادیں سامنے آنے لگی تھیں ، فکر کی پاکیزگی، مقصدیت ، الفاظ کے دروبست ، تنافر حروف اور غرابت الفاظ سے اجتناب بحر کے اعتبار سے رواں ، جدت خیال وغیرہ کو بھی اشعار پر حکم لگاتے وقت سامنے رکھا جانے لگاتھا، اس سلسلے میں عہد جاہلیت میں حضرت حسان کے پسندیدہ شعر پر حضرت خنساؓ کی مشہور تنقید کتابوں میں ملتی ہے ۔ حضرت حسانؓ کا شعر تھا۔
لَنَا الجَفَنَاتُ الغُرّ یَلْمَعْنَ فِی الضُحیٰ
وَاَسْیَافُنَا یَقْطُرْنَ مِنْ نجدۃٍ دماً
اس ایک شعر میں حضرت خنساء نے سات کمیاں نکالیں ، انہوں نے کہا کہ جفنات کے بجائے جفان اور غر کے بجائے بیض کہنے سے معنی میں وسعت پیدا ہو جاتی ، کیونکہ جفنات جمع قلت اور غر صرف پیشانی کی صباحت سے عبارت ہے ، اسی طرح ضحی کے بجائے دجیٰ اسیاف کے مقابلے میں سیوف یقطرن کے بجائے یسلن اور دم کے بجائے دماء کا استعمال زیادہ مناسب تھا ، یلمعن عارضی چمک کو کہتے ہیں اس لیے یشرقن مناسب تھا ، کیونکہ اشراق میں زیادہ پائیداری ہے ۔
ان تنقیدی اصولوں کے سامنے آنے سے بڑا فائدہ یہ ہو اکہ عربی شاعری تعقیدات ، فحش استعارے کنایے ، اور ثقیل اور گنجلک اسلوب سے بڑی حد تک پاک ہو گئی، اور اشعار کی تنقید میں ان پیمانوں کا خیال رکھا جانے لگا۔
اموی دور میں نقد شعر میں تھوڑی پیش رفت ہوئی، بقول احمد امین : تنقید نے ادب کے شانہ بشانہ ترقی کی ،اسی دور میں جریر وفرزدق اور اخطل اپنی باہمی رقابت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کی غرض سے عربی شاعری کو نئے الفاظ وتعبیرات سے مالا مال کر رہے تھے ، لوگوں میں اچھے شعر کو سمجھنے اور اس سے لطف اٹھانے کا خصوصی ملکہ پیدا ہو رہا تھا،اور تنقید کے اصول ومبادی سامنے آنے لگے تھے۔ عرب تنقید نگاروں نے عہد جاہلی سے لیکر عہد اموی تک فن تنقید میں جو مراحل آئے اسے المرحلۃ التاثریہ سے تعبیر کرتے ہیں، عہد عباسی سے عربی تنقید میں نیا مرحلہ شروع ہوتاہے ، جسے المرحلۃ التعلیلیہ کہاجاتا ہے، یہ مرحلہ اس اعتبار سے ممتاز ہے کہ اس دور میں تنقید کے اصول واضح طور پر مرتب کیے گیے ، منہجی اور غیر منہجی تنقید کے نمونے سامنے آئے ، اس مرحلہ کو آگے بڑھانے میں جن لوگوں نے نمایاں حصہ لیا ، ان میں محمد ابن سلام الجمحی ابن قتیبہ، ابن معتز اور قدامہ بن حعفر کے نام سر فہرست ہیں ۔
ابن سلام الجمحی (م۲۳۱ھ) نے پہلی بار متقدمین اور معاصرین کی تنقیدی آرا وافکار کو اپنی کتاب ’’طبقات فحول الشعرائ‘‘ میں پیش کیا ، اور شعراء کے دس طبقات مقرر کیے اور ان کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھ کر عملی تنقید کی بنیاد ڈالی ، مسئلہ انتحال کو بھی پہلی بار ابن سلام نے ہی اٹھایا۔
ابن قتیبہ (م۲۷۶ھ) نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اپنی کتاب ’’الشعروالشعراء ‘‘میں نقد شعر کے قواعد وضع کیے اور اشعار کو چار زمرے میں تقسیم کیا ، اور معیار حسن لفظی اور معنوی کو قرار دیا ، انہوں نے لکھا کہ پہلی قسم ان اشعار کی ہے جس میں حسن لفظی اور معنوی دونوں ہوتا ہے، دوسری قسم ان اشعار کی ہے جن میں حسن لفظی تو ہے ، لیکن معنی غیر معیاری ہیں ، تیسری قسم میں مضمون تو معیاری ہوتے ہیں لیکن الفاظ میں ترسیل کی کمی ہوتی ہے اورجن اشعار میں لفظ ومعنی دونوں معیاری ہوں تو وہ شعرکی چوتھی قسم ہے۔
اسی دور میںابو العباس مبرد (۲۸۶۔۲۱۰) کی کتاب ’’کامل‘‘ ابن معتز کی کتاب ’’البدیع‘‘ اور ابن طبا طبا کی کتاب ’’عیار الشعر‘‘ سے تنقید میں فنی معیار کی اہمیت اور عربی زبان وادب کے محاسن تفصیل سے سامنے آئے۔
تیسری صدی ہجری کے نصف اخیر میں ارسطو کی کتابRhetoricsکا ترجمہ’’ الخطابۃ‘‘ اور Poeticsکا ترجمہ ’’کتاب الشعر‘‘کے نام سے سامنے آیا ، جس نے پہلی بار عربی تنقید میں فلسفیانہ عنصر کی شمولیت کا دروازہ کھولا، گوجا حظ نے عربی تنقید پر اس کے اثرات سے انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ عربوں نے ارسطوکے خیالات کو سمجھا ہی نہیں اور اس کے افکار کی باریکیوں تک عربوں کی رسائی نہیں ہو سکی۔
لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قدامہ بن جعفر (م۳۳۷) کی کتاب ’’نقد الشعر‘‘ میں یونانی فلسفہ کا عنصر غالب ہے اور اسے عربی شاعری پر منطبق کرنے کی انہوں نے مسلسل کوشش کیں ، اس طرز عمل سے تنقید کے فن اور منہج کو کافی نقصان پہونچا ، سید قطب نے قدامہ کی اس کوشش کو تنقید کے اعتبار سے ناکام قرار دیا ہے ، ان کے نزدیک ابن بشر الآمدی اور ابو الحثم جرجانی کی خدمات قدامہ بن جعفر سے زیادہ وقیع ہیں۔
ابن بشر الآمدی(۳۷۱) اور علی بن عبد العزیز الجرجانی (م۳۹۲ھ) نے بالترتیب اپنی کتاب ’’الموازنۃ بین الطائیین‘‘ ابی تمام والبحتری اور الوساطۃ بین المتنبی وخصومہ کے ذریعہ فنی منہج کی بازیافت کی ، جس سے تعبیری ومعنوی قدروں کی اہمیت سامنے آئی، الفاظ کے محاسن وعیوب اور معانی سے بحث کرکے پسند ونا پسند کا ایک معیار قائم کیا۔ اس کے با وجود ایک زمانے تک صورت حال یہ رہی کہ نقادان فن اور علماء بلاغت میں تمیز نہیں کیا جاتا تھا، تنقیدی آرا بلاغت کے عام مباحث کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہو گئے تھے کہ ان میں حد فاصل کھینچنا مشکل تھا، ابو ہلال عسکری کی کتاب الصنا عین اور عبد القاہرجرجانی (م۱۰۷۸ھ) کی کتاب دلائل الاعجازاوراسرار البلاغۃ کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ ابن رشیق القیروانی (م۴۶۳ھ) کی ’’العمدۃ فی صناعۃ الشعر ونقدہ‘‘ ادبی تنقید اور بلاغت کو ایک ساتھ جمع کرنے کی عمدہ کوشش ہے شوقی ضیف کے بقول ابن رشیق نے قدیم نقاد ان فن کی آرا اور تعلیقات کی تلخیص اس کتاب میںعمدہ انداز میں پیش کیا ہے ۔
ابن خلدوں کے بقول:
ھُوَ الکِتَابُ الذّی اِنْفَرَدَ بِصَنَاعَۃِ الشِعْرِ واِعطائِ حَقِّھا وَلَم یَکْتُبْ فِیْھا اَحَد’‘ قَبْلہٗ وَلَا بَعْدَہٗ مِثْلَہُ۔
یہ کتاب صنعت شعری اور اس کی تفصیلات پر ایسی کتاب ہے جو اس سے پہلے اور بعد کسی نے نہیں لکھی ۔
ابن رشیق کے بعد چھٹی صدی ہجری تک اس میدان میں سنا ٹا نظر آتا ہے ، ساتویں صدی ہجری میں ابن اثیر (۶۳۷ھ) کی کتاب ’’المثل السائر فی ادب الکاتب والشاعر‘‘ سامنے آئی اس کتاب نے تنقید کے سمندر کے پر سکون سطح میں تھوڑا تموج پیدا کیا ، حازم القرطاجنی کی کتاب منھاج البلغاء وسراج الادباء بھی قابل قدر کوشش ہے، جس نے تنقید کو روبہ زوال ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ANS 04
فارسی زبان چونکہ ہند و ایرانی زبانوں کے خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہے اس نسبت سے اردو اور فارسی زبان میں فطری رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ہند و بیرونِ ہند کی بے شمار زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات بھی اس زبان میںشامل ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ احسن معلوم ہوتا ہے کہ ’اردو زبان نے دیگر زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات اور مرکبات کو اس خوش اسلوبی کے ساتھ قبول کیا ہے گویا یہ تمام الفاظ و اصطلاحات اس زبان کی اپنی ہوں‘ ۔ اس زبان نے دوسری زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات کو ’نا‘ کبھی نہیں کہا۔ غالباً اسی اخذ و اشتقاق اور اپنا لینے کی بنیاد پر اردو زبان کو مخلوط زبان یا ساجھی وِراثت کی زبان کہا جاتا ہے۔ صاحبِ املا نامہ، مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’اردو دنیا کی ان چندانتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذو استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے۔اس کے ذخیرۂ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے تو ایک چوتھائی حصہ جو در اصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز وافتخار کا ضامن ہے، سامی و ایرانی مآخذ یعنی عربی وفارسی زبانوں سے لیا گیا ہے۔‘‘
(املا نامہ ،مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ، ص 13)
اردو کی یہی خصوصیات زبانوں کی سطح پر اسے سیکولر شکل عطا کرتی ہے۔ اردو زبان اور لسانیات کے دیباچے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
’’اردو کا ایک نام سیکولرازم یعنی ’ غیر فرقہ واریت‘ اور ’بقائے باہم ‘ بھی ہے۔ اردو نے صدیوں سے اس کی مثال قائم کی ہے اور ہر طرح کی تنگ نظری اور دقیانوسیت کے خلاف محاذ باندھا ہے۔‘‘
(اردو زبان اور لسانیات: گوپی چند نارنگ، رام پور رضا لائبریری 2006 ، ص 11 )
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اردو زبان نے لسانی، ادبی اور عام بول چال کی سطحوںپر عربی اور فارسی زبانوں کے اثرات قبول کئے ہیں ۔ اردو زبان نے عربی کے مقابلے میں فارسی زبان کا رنگ اور ڈھنگ کہیں زیادہ اختیار کیا ہے۔ نیز جہاں تک عربی رنگ و ماحول کی بات ہے تو وہ بھی بذریعہ فارسی اپنایا ہے۔ اس کی وجہ جگ ظاہر ہے کہ عرب تاجروں کا آنا جانا ہمارے یہاں برسوں سے ہوتا رہا ہے ،لیکن یہ آنا جانا بس تجارتی سطح تک محدود رہا ہے۔ اس کے برعکس فارسی زبان بولنے والے ہندستان میںحکومتی سطح تک پہنچے ۔ یہ الگ تاریخی بحث ہے کہ یہ لوگ اس ملک میں کس حیثیت سے داخل ہوئے؟ یہاں یہ پہلو دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ انگریزوں نے کم و بیش دو سو سال تک اس ملک پر حکومت کی لیکن انہوں نے کبھی اس ملک کو اپنا وطن تسلیم نہیں کیا جبکہ ’آریوں اور مغلوں‘ نے اس ملک میں رہائش اختیار کی تو یہیں کے ہو رہے۔
اردو میں دخیل الفاظ
چونکہ اپنی اور پرائی ہر زبان سے استفادہ کرنا اردو کا شیوہ رہا ہے ایسے میں یہ بات قدرے آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ ’اردو زبان میں مستعار اور دخیل الفاظ کا بڑا ذخیرہ ہے‘۔ پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں :
’’زبان جتنا دوسری زبانوں سے لے گی اتنی ہی سرمایہ دار ہوگی۔‘‘
(خواب باقی ہیں ، آل احمد سرور، ایجوکیشن بُک ہائوس یونیورسٹی مارکیٹ، علی گڑھ 1991، ص 338 )
دخیل الفاظ کی نسبت اردو میں مستعار الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں: زندگی، زندہ دلی، شادی اور برات، بالٹی، دال وغیرہ۔ یہ سب الفاظ اردو زبان کے ساتھ ہی بول چال میں اس طرح سے گھل مل گئے ہیں کہ آج ان میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
لسانی سطح پر پڑنے والے اثرات
اردو زبان سنسکرت کی ایک ترقی یافتہ شکل سورسینی اَپ بھرنش پر پڑنے والے مختلف زبانوں کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔ یہ نتیجہ باہر سے آنے والی ترک، عرب، ازبک، ایرانی اور انگریز قوموں کے مقامی لوگوں سے باہم اختلاط کی وجہ سے ہے۔ چونکہ ہندوستان میںباہر سے آنے والوںمیں بیشتر لوگوں کا تعلق عرب، فارس اور ترکی سے تھا۔ جو یہاںکی خوش گوارآب و ہواکی بنا پر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حسنِ اتفاق کہ انہیں یہاں حکومت کرنے کا بھی موقع مل گیا،جسے یہ لوگ سیکڑوں برس تک بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چلاتے رہے۔ ا ن کے حکومتی طریقۂ کاراور عوام سے باہم اختلاط کے اثرات یہاں کے ہر شعبے پر پڑے، جس میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ جو مقامی، مضافاتی اورباہر سے آنے والوں کے درمیان رابطے کی بھی زبان تھی لیکن چونکہ حکومت کی زبان فارسی تھی اس لیے مقامی زبانوں جن میں اردو فارسی سے نسبتاً قریب تھی اس پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔
صوتی سطح پر فارسی کے اثرات
اردو کا صوتی نظام اگرچہ مختلف زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اردو چوں کہ ایک ہند آریائی زبان ہے اس لیے اس میں خالص ہندی نژاد آوازوں کی تعداد زیادہ ہے، مثلاً ٹ، ڈ،ڑ،بھ، پھ، تھ، دھ۔لیکن اس کے صوتی نظا م پر چار لسانی خاندانوں کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں ۔
الف: عربی و فارسی کے اثرات: خ ، ز، ف، ق، غ، خالص عربی و فارسی آوازیں ہیں ،جو ان زبانوں سے براہِ راست مستعار عمل کے ذریعے اردو میں در آئی ہیں ۔ یہ آوازیں اصل کی رو سے اگرچہ اپنی شناخت یا اپنی آوازیں رکھتی ہیں ، لیکن اردو زبان میں ان کی ایک ہی آوازیں ہو گئی ہیں ۔اردو نے ایسا ہندوستانی نہج پر کیا ہے۔ ہاں مدارس میں آج بھی ان حروف کی قرات ان کی اصل آوازوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔
ب: ژ، آواز خالص فارسی ہے، جو اس زبان کے مستعار الفاظ کے ذریعے اردو کے صوتی نظام کا ایک حصہ بن گئی ہے۔یہ آواز صرف فارسی الفاظ مثلاً مژدہ، مژگاں ، ژالہ، پژمردہ، اژدہا وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔ اب یہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے۔
ج: کوزی آوازیں جیسے ٹ، ڈ، ڑ، وغیرہ خالص دراوڑی آوازیں ہیں جو بالواسطہ طور پر اردو میں مستعار الفاظ کے ذریعے در آئی ہیں۔
و: ہا کاری آوازیں خالص دیسی آوازیں ہیں جو اردو کے صوتی نظام کا بنیادی حصہ ہیں ۔
اس کے علاوہ اردو زبان میں بے شمار فارسی کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات موجودہیں ۔ یہ سب آج بھی اسی روانی کے ساتھ بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ذیل میں چند الفاظ بطور مثال پیش کیے جارہے ہیں:
چشم، اشک، نماز ، بہشت، برزخ، عدالت،اناج، آب پاشی، آرائش، آداب و تسلیمات،انگشتری، بریانی، مرغ مسلم وغیرہ۔
اردو زبان میں بعض الفاظ اس طرح سے در آئے ہیں کہ وہ حقیقت میں عربی الاصل تھے ،لیکن ان پر فارسی زبان کے لاحقے یا سابقے لگا کر انھیں اردو بنا لیا گیا ہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دیکھیں :
لفظ ’شان ‘ کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہ لگایا اور شاندار بنا لیا گیا۔ اسی طرح لفظ ’نقش ‘ پر خلافِ قاعدہ تائے وحدت لگا کر ’ نقشہ کشی، نقش کشی، نقشہ نویس اور نقشہ باز‘ بنا لیا گیا۔
یوں تو اردو کے صوتی نظام پرعربی و فارسی کے علاوہ زبانوں کے بھی اثرات نمایاں ہیں، لیکن یہاں صرف فارسی زبان کے تعلق سے بات کرنا مقصود ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جیسے حرف ’’ ز‘‘ جو فارسی زبان سے اردو میں منتقل ہوا ہے۔
صرفی سطح پر اردو زبان پر پڑنے والے اثرات اس طرح ہیں۔ ذیل میں واحد سے جمع بنانے کا قاعدہ دیکھیں:
استاذ سے اساتذہ۔ اخبار سے اخبارات ۔ مشکل سے مشکلات۔ تخیل سے تخیلات وغیرہ۔
مرکبات توصیفی، اضافی
مرکبات کے معاملے میں بھی اردو زبان پر فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں ۔ جیسے مردُم شماری، شیر خوار اور گرانقدر وغیرہ ۔
اسی طرح نحوی سطح پر جیسے اضافت وغیرہ بھی فارسی سے ہی مستعار ہیں ۔ مرکبِ اضافی کی مثالیں جیسے لبِ دریا، زیرِ لب، زیرِ انتظام ، دردِ دل، چراغِ محفل، شمرِ محفل اور باغِ عدن وغیرہ۔
اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت (نستعلیق)
اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت’نستعلیق‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھی فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ خواجہ میر علی تبریزی نے ’خطِ نسخ‘ اور ’تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسم ِ خط دریافت کیا جو ’’نستعلیق کہلایا۔ مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں :
’’ایران کے ایک عالم خواجہ میر علی تبریزی نے عربی کے دورسومِ خط ’نسخ’ اور’ تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسمِ خط ایجاد کیا جو ’نستعلیق‘ کہلایا ۔ اردو کے لیے آج یہی رسم ِ مروج ہے اور یہ اردو کا اپنا رسمِ خط بن گیا ہے۔‘‘
(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ،ایجوکیشنل ہائوس علی گڑھ 2012، ص 196 )
اردو ادب پر فارسی کے اثرات
اردو زبان پر فارسی زبان و ادب کے اثرات کس طرح یا کس حد تک پڑے ،اس کو قدرے آسانی سے سمجھنے کے لئے ہم اردو ادب کو دو زمروں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ شعری ادب اور نثری ادب۔
شعری ادب: دورِ حاضر کے شاعروں میں یا ماضی قریب کی شاعری میں مغربی یا جدید رجحانات صاف نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو زبان کا شعری سرمایہ مکمل طور سے فارسی زبان و ادب سے متاثر ہے بلکہ شعری اصناف براہِ راست فارسی سے ہی مستعار ہیں۔ مثال کے طور پر مثنوی، رباعی، قطعہ،قصیدہ وغیرہ۔ اردو میں مرثیہ لکھنے کا رواج فارسی سے ہی آیا ہے۔ فارسی میں مثنوی کی روایت بہت مقبول رہی ہے۔ اردو زبان میں بھی یہ صنف وہیں سے آئی ہے۔ اس کے علاوہ اصول اور موضوعات کی سطح پر بھی فارسی کے اثرات ملتے ہیں ۔ برِّصغیرہر اعتبار سے خوش نصیب خطہ رہا ہے۔ یہاں ہر طرح کا موسم، ندیاں اور جھرنے اورپہاڑ،چرند و پرند اور درند اور انسانوں میں کالے اور گورے، چپٹی ناک سے لے کر لمبی ناک والے سب کچھ پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔ بلکہ ندیوں کے معاملے میں تو یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی گود میں سب سے زیادہ ندیاں بہتی ہیں ۔ ڈاکٹر محمداقبال نے اس بات کو اس طرح کہا ہے ؎
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
لیکن یہاں کے شعرا نے اپنے کلام میں ’طوطا ، مینا اور کوئل‘ کی جگہ بلبل و عندلیب کا ذکر کیا ہے۔ مقامی درختوں جیسے ’تاڑ، چنار، نیم، برگد اور لپٹس ‘ کی جگہ سَروکا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ندیوں کے معاملے میں ’راوی، جہلم،گھاگھرا، سریوـ‘ یا دیگر ندیوں کی جگہ نیل و فرات اور دجلہ کا ذکر کیا ہے۔ شاعر نے ہندوستانی پھولوں جیسے ’بیلا، چمپا،، موتیا،گیندا اور رات کی رانی کی جگہ ایرانی پھولوں کا ذکر کیا ہے۔ لاجونت کی جگہ نرگس کا ذکر کرتا ہے۔ کوئل و پپیہے کی جگہ بلبل و قمری کا ذکر کرتا ہے۔ ہمالیہ و ہندو کش کی جگہ طور و کوہِ قاف کا ذکر کرتا ہے۔ عشق و عاشقی کا ذکر کرتا ہے تو لیلیٰ و مجنوں کی بات کرتا ہے۔ اسی طرح اردو شاعروں نے خمریات پر قلم اُٹھایا تو ایرانی شاعر ’عمر خیام‘ کو اپنا ماخذ و مرجع بنایا۔ اس معاملے میں تو ہندوستان کی دیگر زبانوں نے بھی استفادہ کیاہے۔ ہندی شاعر ’ ہری ونش رائے بچن ‘ کی ’مدھوشالا‘ اس کی بہترین مثال ہے۔
اس کے علاوہ اردو زبان کے مشاہیر شعرا نے بزبانِ فارسی سخن بھی فرمایا ہے۔ اردو زبان کا شاعرِ اعظم ’مرزا غالب ‘ بقول کسے اپنی اردو شاعری کے مقابلے میں اپنے فارسی اشعار پرکہیںزیادہ نازاں تھا۔ اپنی فارسی دانی پر بھی اسے کمال درجہ فخر تھا ۔ جبکہ یہ عجیب طُرفہ تماشہ ہے کہ آج اس کا وجود بڑی حد تک اس کی اردو شاعری کی وجہ سے ہے۔ کم از کم اردو زبان و ادب کا مجھ جیسا طالب علم غالب کو ان کے اردو کلام کی وجہ سے ہی جانتا ہے۔
اسی طرح اردو زبان کے ایک اور مشہورشاعر ڈاکٹر محمداقبال نے تو فارسی کے کئی دیوان چھوڑے ہیں۔ ’اسرارِ خودی‘ ان کا پہلا فارسی شعری مجموعہ ہے۔ محمد اقبال کو بھی اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ اردو زبان و ادب کے مقابلے میں فارسی زبان وا دب کا دائرۂ کار قدرے وسیع ہے۔ نیز وہ زبان و ادب سے جو کام لیناچاہتے ہیں اس کے لیے یہی فارسی زبان ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ’ سید عبد اللہ‘ اپنے ایک مضمون ’تشریحِ اقبال‘ میں لکھتے ہیں :
’’اقبال کی زبان حکیمانہ اصطلاحوں اور ترکیبوں سے پُر ہے۔ عام خصوصیات کے اعتبار سے اقبال پر حافظ، فگانی، جلال اسیر،سالک یزدی، رضی دانش،ابو طالب کلیم اور طالب آملی وغیرہ کا بڑا اثر ہے۔ لیکن حکیمانہ مضامین کے لیے انھوں نے رومی، خاقانی،بیدل ااور طالب کی زبان استعمال کی ہے۔‘‘ ( آثارِ اقبال ص 267)
اردو کے شعری سرمائے میں درج ذیل لفظیات کا استعمال خوب ملتا ہے:
رخِ زیبا، چہرہ یار، قامت زیبا، دراز قامت، دراز گیسو، موجِ تبسم، روبہ قضا، ماہِ نَو، صورتِ طائوس، چشمہ آتش، چشمِ سوزن، چشمِ آہو، رنگِ یاقوت وغیرہ۔
ایک زمانے تک اردو زبان کا ہر شاعر فارسی میں ضرور کلام موزوں کرتا تھا ۔ بلکہ فارسی زبان میں سخن کر کے اپنے شعری کمالات کو پرکھتا تھا۔ سامنے والا بھی اسی سے اس کی لیاقت کا اندازہ کرتا تھا۔ جس طرح مشاہیر شعرا نے فارسی زبان میں غزلیں کہی ہیں اسی طرح آج بھی لوگ بزبان فارسی کلام موزوں کررہے ہیں ، اگرچہ پہلے کی طرح نہیں۔ بارہا کہا جاتا ہے کہ اردو زبان و ادب کو سمجھنے نیز کلاسیکی ورثے کی سُن گُن کے لیے ناگزیر ہے کہ فارسی زبان و ادب سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ چونکہ اردو زبان و ادب کا بیشتر سرمایہ عربی و فارسی سے مستعار ہے اس لیے اردو الفاظ اور جملوں کی درست قرأت کے لیے ان زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔
نثری ادب: شعری سرمائے کے مقابلے میں اردو کا نثری سرمایا اول روز سے ہی مغربی ادب سے متأثر رہا ہے۔ فورٹ ولیم کالج ، ورنا کولر سوسائٹی ، علی گڑھ تحریک، انجمنِ پنجاب کی تحریک اور دہلی کالج سے لیکر مختلف دبستانوں تک مغربی زبان و ادب کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں لیکن یہاں بھی فارسی زبان و ادب کے اثرات موجود ہیں۔ میر امّن کے تراجم اس کی مثال ہیں۔ دکنی نثر پاروں میں بھی فارسی کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ صوفیائے کرام کی تحریریں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کلی طور پر فارسی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو زبان کا نمائندہ شاعر میرتقی میر جنھیں اردو شاعری کا خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے مختلف شاعروں کی سوانح حیات کو ’بزبانِ فارسی‘ ترتیب دیا۔ اس سے اس زبان کی مقبولیت اور رواج کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عام بول چال:
عام بول چال میں بھی فارسی زبان کی لفظیات کا استعمال بڑی روانی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بول چال کے کئی ایسے الفاظ ہیں جنھیں فارسی لاحقے اور سابقے یا اس کے بغیر بھی عام بول چال میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ذیل میں چند مثالیں دیکھیں:
بہشت،نماز، پنج سورہ، پنج تن،مشت،ہفتہ، دوشنبہ، بریانی، دسترخوان، باورچی خانہ، غسل خانہ، نعمت خانہ، میز پوش، سفید پوش، پان دان، سُرمہ دانی، صراحی،بُت، سخن، دندان،ابرو، عارض، گیسو، نماز پنجگانہ، جائے نماز، نیم جان، نیم گرم، نیم حکیم،نا بینا، پر نوروغیرہ۔ اسی طرح بے شمار ایسے الفاظ ہیں جو فارسی کی نسبت سے اردو زبان میں داخل ہوئے ہیں۔ مذکورہ بالا الفاظ اردو زبان میں اس طرح رائج ہیں جیسے اس کے اپنے ہوں ۔ ان لفظیات کو ایک عام آدمی بھی بڑی خوبی کے ساتھ بولتا اور سمجھتاہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے شعری اور نثری سرمائے کے ساتھ ہی عام بول چال پر بھی فارسی زبان و ادب کے گہرے اثرات ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ تین چار سو سالوں تک عظیم ہندوستان پر فارسی سرکاری زبان کے طور پر رائج رہی ہے۔ نیز پورا خطہ اس کی تہذیب و تمدن کے زیرِ اثر رہا ہے۔ مغلیہ سلطنت کی یہ سرکاری زبان تھی ۔ اس کے علاوہ برِ صغیر کے مسلمانوں نے مذہبی عقیدے کے طور پر عربی زبان کے بعد اسی زبان کو اپنایا۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بالخصوص مدارسِ اسلامیہ میں فارسی زبان کی باضابطہ تعلیم و تدریس آج بھی ہوتی ہے۔ سعدی کی گلستاں وبوستاں اور گلزارِ دبستاںکئی نسلوں نے پڑھی ہے۔ یہ کتابیں آج بھی بعض مدارس کے نصاب میں شامل ہیں۔ عدلیہ اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں آج بھی فارسی کی بے شمار لفظیات کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طورپرفردِ جرم، مو قعۂ واردات،عدالت، دفعات، وکیل اور عدالتی حکم نامہ وغیرہ۔
ANS 05
تخلیقی عمل مبہم،پیچیدہ اور پراسرار عمل ہے۔اس کے ابہام،پیچیدگی اور پراسراریت کی دریافت و بازیافت ایک مشکل امر ہے۔لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس پر تفکر کے در بھی وا نہ کیے جائیں اور ان راستوں کی کھوج بھی نہ کی جائے جن پر چل کر تخلیقی عمل کے بعض پراسرار گوشوںکو کسی حد تک بے نقاب کیا جا سکے۔ چناں چہ تنقید یہ بیڑا اٹھاتی ہے اور تفکر کی وہ راہ فراہم کرتی ہے جو تخلیقی عمل کو سمجھنے میں معاونت کرتی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’تنقید ادب کی تقویم و تشریح کا نام ہے ۔لیکن کیا تنقید ادب کی پراسرریت کو پوری طرح گرفت میں لینے میںکامیاب ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے ؟غالباًنہیں،وجہ یہ کہ پراسراریت ، خدو خال اور حدود سے ماورا ہے۔اگر اس کو خدوخال عطا کر دیے جائیں یا اس کی حدود کا تعین ہو جائے تو پراسراریت از خود ختم ہو جائے گی چوں کہ یہ ختم نہیں ہوتی یا ختم نہیں ہو سکتی اس لیے تنقید صرف ایک حد تک ہی ادب کااحاطہ کرنے میںکامیاب ہوتی ہے۔‘‘ ۱؎
تنقید تخلیقی عمل کی باز آفرینی کس حد تک کر پاتی ہے،یا نہیں کر پاتی یہ ایک طویل بحث ہے۔لیکن اتنا سب مانتے ہیں کہ اس کے بغیر تخلیقی عمل کوسمجھا نہیں جا سکتا۔ لفظ ’’تنقید‘‘ کا مصدر عربی لفظ ’’نقد‘‘ہے۔عربی اور فارسی میں اس عمل کے لیے انتقاد ،تنقاد اور تناقدہ جب کہ نقاد کے لیے منتقد جیسے الفاظ استعمال ہوتے رہے ہیں۔لیکن تنقید کا لفظ عربی اور فارسی کی ادبی تاریخ میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتایہ لفظ خالصتاً اردو والوں کی ایجاد ہے۔اس کے اولین استعمال کے متعلق شمس الرحمن فاروقی ر قم طراز ہیں:
’’تنقید کا لفظ ہمارے یہاں سب سے پہلے مہدی افادی نے ۱۹۱۰ میں استعمال کیا،بلکہ انھوں نے ایک قدم بڑھ کر ’’تنقیدعالیہ ‘‘کی اصطلاح بنائی، جو ا ن کے خیال میں کسی انگریزی اصطلاح High Criticism کا ترجمہ تھی۔‘ ۲؎
لفظ ’’تنقید‘‘عربی صرف و نحو کے اعتبار سے غلط سہی مگر اب اردو میں اس قدر رائج و مقبول ہے کہ اس کا نعم البدل ممکن نہیں۔ انگریزی میں تنقید کے لیے Criticismاور ناقد کے لیے Critic کے الفاظ ملتے ہیں۔لفظ Criticism کی اصل یونانی لفظ ”Krinein” ہے۔جس کا مفہوم(To Judge)یعنی جانچنا ہے۔لفظ Criticismکی مزید توضیح پیش کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں :
’’بعض محقیقن کی نظر میںCriticism کا مآخذ عربی لفظ غربال (چھلنی) ہے جو لفظ Garble کا معرب ہے،غربال کی اصل لاطینی ہے اور اس کا تعلق لفظCret سے ہے جس کے معنی پھٹکنا یا چھان پھٹک کرنا ہیں۔‘‘ ۳؎
تنقید کیا ہے؟یہ سوال نہ صرف عمل تنقید کی گرہ کشا ئی کرتاہے بلکہ اسی سوال میں تخلیقی عمل کے گہرے اور سر بستہ بھیدوں تک رسائی کا راز بھی مضمر ہے۔تنقید ی عمل کو آسان عمل ہرگزتصور نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ایک مکمل علم کی حیثیت رکھتا ہے۔اور ہر علم کی طرح اس کے بھی بہت سے قواعد و ضوابط ہیں جن سے آگاہی کے بغیر اس ذمہ دارانہ عمل سے پوری طرح انصاف ممکن نہیں ۔یعنی تنقید مختصراًوہ کلام ہے جو تخلیق کے متعلق تجزیاتی رائے پر مبنی ہوتا ہے ۔اس میں تعریف و تحسین ،تنقیص و تقریظ، تجزیہ و تحلیل ،محاسن و معائب، فکری مواد و شعری بیان، فنی لوازم و شعری محاسن،تشریح و توضیح،توارد و اختراع،جدت و روایت،فصاحت و بلاغت ،رموز و علائم،ابلاغ و ترسیل اور قدر و مقام جیسے تمام اہم امور زیر بحث آتے ہیں۔ تنقید کو عمل جراحی سے بھی تعبیر کیا جاتا رہاہے۔تاہم عمل جراحی اور تنقید میں یہ فرق بہرحال موجود ہے کہ جراحت کا عمل صحت مند انسان پر نہیں آزمایا جا سکتا اور جراحت کے عمل کے لیے مرض کا قبل از جراحت معلوم ہونا از بس لازم ہے جب کہ تنقید تخلیق پر عمل جراحی اس لیے بروئے کار لاتی ہے تاکہ اس کی صحت مندی کا تجزیاتی ادراک کر سکے۔ بہ قول آل احمد سرور:
’’یہ(تنقید) تخلیق پر عرف عام میںعمل جراحی بھی کرتی ہے مگر یہ عمل شاعرانہ طور پر ہوتا ہے اور اسی فضا(تخلیقی عمل)کے اندر رونما ہوتاہے۔‘‘ ۴؎
اس عمل جراحی کے دوران بعض اوقات کچھ نقائص بھی ضرور سامنے آجاتے ہیں جن کی نشان دہی تنقید کے لیے لازمی ہو جاتی ہے۔اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تنقید خود دائرہ تنقیص میں آجاتی ہے اور مورد الزام ٹھہرتی ہے۔تا ہم اس عمومی رائے سے کہ تنقید صرف عیب جوئی ہے، کسی طرح اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن ادب کی پوری تاریخ میں ہمیں یہ مناظر بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں کہ تخلیق کار تنقیدی عمل سے کچھ زیادہ متفق نہیں رہے ۔جس کا سبب بڑی حد تک معائب و نقائص کی نشان دہی ہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیش تر نقاد بھی صرف تنقیص ہی کو تنقید تصور کر لیتے ہیں جب کہ فل الحقیقت تنقیداس تخلیقی عمل کو گرفت میں لینے کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی ادب پارہ با معنی اور مسرت کی ترسیل کا باعث بنتا ہے۔یہیں سے وہ سب بنیادی سوالات ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔جن کے جوابات کی تلاش تنقید کے وجود کاجوازفراہم کرتی ہے۔یہ بنیادی سوال کئی ہو سکتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیںکہ ادب پارہ کیا ہوتا ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیے؟ادب پارہ ترسیل کے فرائض کیسے سر انجام دیتا ہے؟ادب پارہ بامعنی کیسے بنتا ہے ؟ادب پارے سے مسرت کا حصول کیوں کر ممکن ہوتا ہے؟وہ کیا عمل ہے جو ادب پارے کوایک غیر منقسم کل میںتبدیل کر دیتا ہے؟اور اس غیر منقسم کل میں عیوب و نقائص کیوں کر در آتے ہیں؟۔
یہی سب سوالات تنقید کے تجزیاتی عمل کی راہ ہموار کرتے ہیں انھی جوابات تک رسائی کے لیے تنقیدتخلیق کے کل کو اس کے اجزاء میں تقسیم کرتی ہے۔یہیں تخلیق ،تخلیق مکرر کے مراحل طے کرتی ہے۔یہیں اجزاء کی تحلیل و ترکیب کا تعین ہوتا ہے۔یہیں خیال اور لفظ کی ثنویت و وحدت کے راز عیاں ہوتے ہیں۔یہیں حسن اپنے قیام کا انکشاف کرتا ہے اور یہیں قبح تمام پردے چاک کر کے اپنی برہنگی ظاہر کرتا ہے۔یہی عمل عرف عام میں تنقید کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تنقید کے دائرہ کار کو کسی ایک ادب پارے تک محدود نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ تنقید ادب سازی کے عمل سے متعلق غور و فکر سے حاصل ہونے والی بصیرت کا علم ہے۔اس لیے اس کے دائرہ کار میں تمام تر ادبیات کے ساتھ تاریخ،فلسفہ،عمرانیات،نفسیات،لسانیات،ہم عصر زندگی اور ثقافت و تہذیب سب شامل ہیں۔
تنقید بھی ادب کی طرح اپنے گہرے مفاہیم میں خیر کل کی تلاش ہے۔اور اس تلاش کے لیے جو روشنی درکار ہے اس کے اکتساب کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔یہ اکتسابی عمل ایک مسلسل عمل ہے اس لیے یہ تصور کرلینا کہ تنقید اپنے اصول وضوابط طے کر چکی ہے،سراسر غلط ہے۔کیوں کہ ہر نیا عہد بلکہ ہر نئی انسانی بصیرت تغیرات کے ایک سلسلے کو راہ دیتی ہے اور اس نئے سلسلے میں خیر کل کے معنی و مفاہیم میں بھی انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں سامنے آتی ہیں۔جن تک رسائی سابقہ علوم سے حاصل کی ہوئی روشنی میں ممکن نہیں رہتی۔نتیجتاًنئی بصیرتوں تک پہنچنا لازم ٹھہرتا ہے۔لہذا تنقید کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہر لمحہ زندگی سے مکالمہ جاری رکھے اور اس کی ہر تبدیلی پرغور و فکر کرتے ہوئے خود کو اس کے مطابق ڈھالتی رہے ۔کیوں کہ تخلیقی عمل ہم عصر زندگی سے لا تعلق نہیں ہوتا اور اپنے ارد گرد موجود صورت حال سے نہایت غیر محسوس انداز میں اثرات قبول کرتا رہتا ہے۔اور تنقید آگے بڑھے نہ بڑھے تخلیق آگے بڑھتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر تنقید گزشتہ تخلیقات کی گرہ کشائی میں تو کامیاب رہتی ہے۔ مگر معاصر ادبیات اس کی گرفت میں نہیں آتے۔اسی لیے تنقید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رفتار کو تخلیق کی رفتار کے مساوی رکھے۔لیکن تنقید کے لیے یہ کام نسبتاً دشوار اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی رفتار تخلیق کی طر ح کسی وجدانی لہر کے برعکس علم کی پابند ہوتی ہے۔اس لیے عموماً اس کی جست وجدان کی جست کے مقابلے میں کچھ کم پڑتی ہے ۔مگر اسے تنقید کی کمی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔کیوں کہ علم کی رفتار وجدان کے مقابلے میںسست رو سہی مگر دیر پا ضرور ہوتی ہے ۔المختصر وجدانی زبان کو یا علم کو علمی اور منطقی زبان میں پیش کر دینے کا عمل تنقید کہلاتا ہے۔
تنقید کی اہمیت یہی ہے کہ وہ بالواسطہ ابلاغ کو بلاواسطہ ابلاغ میں بدل کر قاری تک اس علم اور مسرت کی رسائی ممکن بناتی ہے جو زندگی کی گہری تفہیم کے لیے لازم ہے تخلیق ہمیشہ ابہام کی دھند میں ملفوف ہوتی ہے جس تک پہنچنا ہر قاری کے بس کی بات نہیں ہوتی تنقید ابہام کی اس دھند کو کم کرنے میں قاری کی معاونت کرتی ہے۔تاہم تنقید کی اہمیت صرف اس عمل ہی میں نہیں ہے ۔بلکہ وہ قاری کے لیے یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ آخر ابہام کی دھند میں ملفوف تخلیق تک پہنچنا ضروری کیوں ہے ؟تخلیق سے کس بصیرت اور مسرت کا حصول ممکن ہے؟نیز جو مسرت تخلیق سے حاصل ہو رہی ہے کیا وہ کسی دوسرے ذریعے سے ممکن نہیں؟یقیناًادب کا نعم البدل ادب کے علاوہ کچھ اورنہیں ہوسکتا۔ لہذا کسی ایسے علم کا تصور ممکن نہیں جو ادبی بصیرت و مسرت کا قائم مقام کہلا سکے اور یہ بات پوری طرح صاف ہے کہ ادب سے حاصل ہونے والی بصیرت و مسرت کا کردار بہ حوالہ زندگی دیگر تمام علوم سے مختلف ہے یہی اختلاف تنقید پوری وضاحت وصراحت کے ساتھ پیش کرتی ہے اس طرح زندگی سے ایک جمالیاتی فاصلے کے ذریعے تعلق استوار کرنے والے ادب کو تنقید ایک علمی اور منطقی ارتباط کے حصول میں کامیابی سے پہنچا دیتی ہے۔یعنی تنقید ادب کے جمالیاتی حظ کو علمی معنوں کے ساتھ رائج کرنے میں اور زندگی سے اس کی وابستگی و پیوستگی ثابت کرنے میں وہ کلیدی کردار ادا کرتی ہے جس کے بغیر ادب کو ایک بامعنی سرگرمی قرار دینا کسی طور ممکن نہیں۔
تنقید کی ایک اوراہم بحث تنقید اور ادب میں سے کسی ایک کی اولیت سے متعلق ہے۔اور یہی بحث تنقید اور ادب کے بنیادی تعلق کے مباحث بھی سمیٹتی نظر آتی ہے۔ ایک بات تو صاف ہے کہ ادب تخلیق کے بعد احتیاج تنقید سے بالا تر نہیں ہو سکتا۔عموماًتنقید کے دائرہ کار کو یہیںتک محدود تصور کیا جاتا ہے۔یعنی تنقید کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ادب پارے کہ محاسن و معائب ،تشریح و توضیح اور مقام و مرتبہ کا تعین کرے ۔مگر بہ طور ایک شعور کے تنقید تخلیقی عمل کے دوران اور تخلیق سازی کے مراحل میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور کس طرح معاون و مدد گار ہوتی ہے ان سوالات پر غور و خوض یقیناً تنقید کے دائرہ کار میں توسیع کرتا ہے ، ادب اور تنقید کے باہمی تعلق کی نئی جہات کو بھی سامنے لاتاہے۔اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے تقدم کا منطقی جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ڈاکٹرسجاد باقر رضوی نے لکھا ہے :
’’تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیںاس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت حاصل ہے ،اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں توپتہ چلے گاکہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لیے ممدو معاون ہوتی ہیں ۔تنقیدی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کیے جاتے ہیں مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لیے جاتے ہیں تو آئندہ فنی تخلیق کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ ۵؎
قریباً ہر تخلیق کار تخلیقی سرگرمی کے دوران بہت سارے ایسے فیصلے کرتا چلا جاتا ہے۔جو اس کی تخلیق کے ابلاغ سے متعلق ہوتے ہیں،اور یہ فیصلے تخلیق کار کے اس شعور کے عکاس ہوتے ہیں جسے اس کا تصور ابلاغ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ہر تخلیق کار کے ذہن میں تخلیق سے متعلق بھی شعور کی کوئی سطح ضرور موجود ہوتی ہے۔اور وہ کسی نہ کسی خاص سطح پر اپنی تخلیق کے ابلاغ کا متمنی بھی ہوتا ہے۔ یہی دو باتیں وجدانی وفور کے باوجود اس کے تخلیق کو شعور کا پابند رکھتی ہے اور وہ بیداری کی ارفع ترین سطح پر اپنی ہی وجدانی کیفیت کا تجزیہ بھی کرتا رہتا ہے ۔اور یعنی تخلیق کو کسی بھی مرحلے پر شعور کی گرفت سے آزاد نہیں ہونے دیتا اور وہ ضروری ترامیم کرتا چلا جاتا ہے جو اس کے تصور ِتخلیق اور تصورِابلاغ سے متصادم ہوتے ہیں۔ یہی عمل تخلیق مکمل ہونے کے بعد بھی اکثر تخلیق کار آزماتے ہیں ۔اگر اس سارے عمل پر غور کیا جائے تو اسے تنقیدی بصیرت سے خالی قرار نہیں دیا جاسکتا لہذا تخلیق کے بعد عمل تنقید سے ایک مرحلہ قبل بھی تنقید موجود ہوتی ہے اس مرحلے میں وہ متن سازی میں تخلیق کے پہلو بہ پہلو اتنا ہی اہم کردار سر انجام دیتی ہے جتنا کہ خود تخلیقی عمل ادا کررہا ہوتا ہے۔ٹی ایس ایلیٹ نے غلط نہیں کہا ہے کہ جب ایک تخلیقی ذہن دوسرے سے بہتر ہوتا ہے تو اکثر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو بہتر ہوتا ہے وہ تنقیدی صلاحیت رکھتا ہے ۔
تخلیق ،تخلیق کار کے ان تجربات پر مشتمل ہوتی ہے جو وہ زندگی سے حاصل کرتا ہے۔مگر ایسا ممکن نہیں ہے کہ تخلیق کار زندگی کو جیسی کہ وہ ہے قبول کر رہا ہوکیوں کہ ایسی صورت میں وہ زندگی سے مطمئن ہوتا ہے اور اطمینان تخلیقی محرک نہیں بن سکتا۔تخلیقی سرگرمی ادبی ہو یا غیر ادبی ہمیشہ ضرورت کے تابع ہوتی ہے جب کہ ضرورت بے اطمینانی سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم زندگی سے جس قدر غیر مطمئن ہوتے ہیں اسی قدر اسے بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں اور تخلیق اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔تخلیق کار ہمہ وقت زندگی کو تنقیدی نقطئہ نظر سے دیکھتا رہتا ہے یہیں اس کے تصورِزندگی اور حقیقت زندگی کے بیچ وہ ٹکرائو پیدا ہوتا ہے جو تخلیق کا محرک بنتا ہے ۔بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہیں وہ خام مواد تخلیق کار کو میسر آتا ہے جو تخلیق کی صورت گری کرتا ہے ۔لہذا تنقید ایک تیسرے مرحلے پر بھی کار آمد ہوتی ہے جہاں وہ تخلیق کار کو تخلیق کے لیے خام مواد فراہم کرتی ہے ۔بہ ظاہر یہ تیسرا مرحلہ تخلیق پر تنقید کے تقدم کا اظہار کرتا ہے مگر ذرا سا غور کرنے پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تمام تر انسان زندگی پر اس مرحلے والی تنقید کو استعمال کرتے ہیں مگر اس کے با وجود ان میں سے معدودے چند ہی ادب تخلیق کر پاتے ہیں۔یعنی یہ تنقیدی مواد زندگی کے حوالے سے انسان کا نقطئہ نظر تو تشکیل دے سکتا ہے مگر تخلیق پیدا نہیں کر سکتا لہذا تخلیق کا تقدم بہ ہر صورت قائم رہتا ہے۔ البتہ پہلی صورت کی تنقید بعد میں بیان کی گئیں دونوں صورتوں کی تنقید پر فوقیت رکھتی ہے اور یہی تنقید تخلیق میں پہلی دونوں صورتوں کو بھی واضح کر دیتی ہے۔آل احمد سرور لکھتے ہیں:
’’تخلیقی ادب پر کوئی تنقید،تخلیقی ادب سے بے نیاز نہیں کرسکتی۔دونوں کے درمیان کوئی خلیج نہیں ہے تخلیقی ادب میں تنقیدی شعور کی کار فرمائی ہوتی ہے۔تنقید اس کو واضح کر دیتی ہے۔‘‘ ۶؎
تنقید کے دائرہ کار کے حوالے سے اسے دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتاہے۔جو بلا شبہ درج ذیل ہیں۔ ۱۔ نظری ۲۔ عملی پہلے حصے میں تنقیدادب سے متعلق تمام تر ضروری مباحث اٹھاتے ہوئے ان اصولوں تک رسائی کی کوشش کرتی ہے جن کی مدد سے تخلیق کو بہتر سے بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ادب کو سمجھنے کے لیے تنقید دیگر علوم سے مدد لیتی ہے اور بہ طور ایک انسانی سرگرمی کے زندگی میں اس کی اہمیت اور معنویت کا تعین کرتی ہے۔حسن،خیر اور صداقت کے معیارات پر ادب کو پرکھتی ہے ۔تخلیقی عمل کو سمجھنے کے جتن کرتی ہے ۔اس قواعد تک رسائی کی کوشش کرتی ہے جو ادب کے پس منظر میں کار فرما رہتی ہے اور یہیں سے ان آفاقی اصولوں تک پہنچتی ہے جن پر تمام ادبی فیصلوں کا دارومدار ہوتا ہے۔المختصر ادب سازی کے عمل پر تنقیدی غورو فکر کا نام نظری تنقید ہے۔
دوسرے حصے میں تنقید اپنے پہلے حصے میں قائم کیے گئے آفاقی معیارات پر کسی ادب ،کسی ادیب یا کسی ادبی معاملے کی جانچ پرکھ کرتی ہے۔یہ حصہ اصولوں کے استعمال سے متعلق ہے۔کسی چیز کو اچھا یا برا قرار دینا عمل ہے جب کہ اچھے یا برے کی پرکھ کے معیا ر کا تعین نظر ہے۔عملی تنقید در حقیقت نظری تنقید کے مقرر کردہ اعلیٰ و ادنیٰ ، معیاری و غیر معیاری ،حسین و قبیح ،وقتی و دائمی اور علاقائی و عالمی معیارات کے تناظر میں ادب پارے کو جانچنے ،پرکھنے اور تجزیہ کرنے کا کام کرتی ہے۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ نظری تنقید،عملی تنقید سے مبرا بھی ہو سکتی ہے لیکن عملی تنقید ہر صورت میں نظری تنقید کی محتاج ہوتی ہے ۔فہیم اعظمی رقم طراز ہیں :
’’تنقید کا ایک عمل اصولوں پر تنقید ہے اور دوسرا عمل ان اصولوں کی روشنی میں ادب پاروں کی تنقید کرنا ہے جسے عملی تنقید بھی کہا جاسکتا ہے دونوں کے لیے تنقید کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے لیکن دونوں الگ الگ عمل ہیں۔‘‘ ۷؎
تنقید کو کسی ایک محدود دائرے میں مقید نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے اصول و ضوابط میں روز افزوں تبدیلی و ارتقا کا عمل جاری ہے۔بہ قول ایلیٹ ہر نئی نسل اپنے ساتھ نیا تنقیدی شعورلے کر آتی ہے اور ہر نئے فن پارے کی تخلیق پچھلی قائم کردہ تمام درجہ بندیوں کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔یعنی ہر نیا فن پارہ اپنے لیے نئے تنقیدی نظام کا متقاضی ہوتا ہے اور ہر نئی نسل کے لیے پرانے تنقیدی معیارات اطمینان بخش نہیں ہو سکتے ۔کیوں کہ پرانے تنقیدی اصولوں کی روشنی میں آج کی تخلیقات کو پرکھنا مبنی بر انصاف نہیں ،بلکہ ذیادتی کے مترادف ہے ۔جب کہ آج کے تنقیدی اصول و معیارات پر اگر قدیم ادب کو پرکھا جائے گا تو حیرت انگیز نتائج سامنے آسکتے ہیں۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج کی تنقید کا معیار بہت بلند و ارفع ہے۔زمانی تغیرات نے تنقید کی صورت کو مزید نکھارا اور سنوارا ہے کئی دبستانوں کا سفر اور ان میں نت نئے اضافے ،کلاسیکی ،رومانوی،جمالیاتی ،تاثراتی ،نفسیاتی اور مارکسی سے لے کر ساختیاتی ،پس ساختیاتی ،جدید اور ما بعد جدید دبستانوں تک کے مراحل تنقید نے جس خوش اسلوبی سے ادا کیے ہیں وہ اس کی لچک دار ہستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس کی ہمہ گیر وسعت پر دلالت کرتے ہیں۔اور اس امر کی پیشن گوئی بھی کرتے ہیں کہ تا حال اس کی اختتامی سرحد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔