ANS 01
پریم چند کے افسانوں میں بھی ہمیں اسی سچی زندگی کی تعمیر نظر آتی ہے۔ان کے افسانوں کی فضا ہمیں بہت مانوس نظر آتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے افسانوں کا پلاٹ ہمارے معاشرے کے گوناگوں پہلووں سے اخذ کیا ہے۔ ان افسانوں میں دیہاتی زندگی ہنستی بولتی اور سسکتی بلبلاتی نظر آتی ہے۔ گاؤں کے تو ہم پرست ،جاہل مرد، عورت، مغرور، چودھری، کنجوس،بنیٔے، رشوت خور، نمبردار وغیرہ اپنی ذہنی و نفسیاتی کیفیات و خصو صیات کے ساتھ ان افسانوں میں اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ مقدمہ بازی، مارپیٹ، عصمت فروشی، جہیز کی لعنت، بیوہ عورتوں پر توڑے جانے والے مظالم جیسے کتنے ہی سنگین مسائل حقیقت کے ساتھ ان افسانوں میں اُجاگر ہوئے ہیں۔
پریم چندنے اپنے افسانوں میں بہت سے کردار پیش کئے جو حقیقت سے بہت قریب نظر آتے ہیں یہ کردار تخیل کی دنیا کے نہ ہو کر حقیقی زندگی کے جیتے جاگتے کرداریا تصویریں ہیں۔ یہ کردار مصنف کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بلکہ کہانی میں پیش آنے والے واقعات کے مطابق ارتقا کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہ کردار جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں پریم چند کی زندگی کا بڑا حصہ اسی کے درمیان گزرا تھا اور انہوں نے اس طبقے کے افراد کی نفسیات کا گہرا مشاہدہ کیا تھا لہٰذا انہوں نے ان کرداروں کی جو تصویر پیش کی ہے وہ سچی اور حقیقت سے قریب تر ہے۔ امیر، غریب۔ مہاجن، وکیل، کسان، پٹواری اور زمیندار کی جو تصویریں پریم چند نے پیش کی ہیں وہ پریم چند کے گہرے مشاہدے اور حقیقت پسندی کی وجہ سے زندگی کی حرارت سے معمور نظر آتی ہے۔
پریم چند کی حقیقت نگاری کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے عورتوں، خاص طور پر بیوہ عورتوں کی دوسری شادی کرنے پر نہ زور دیا بلکہ خود بھی دوسری شادی کرکے ایک مثال پیش کی۔ اس بات کی مثال ہمیں افسانہــ’’بدنصیب ماں‘‘ میں ملتی ہے۔ اس افسانے میں پریم چند نے عورت کی بے کسی، بے بسی، مجبوری اور لا چاری کو موضوع بنا کر اس حقیقت کو پیش کیا ہےکہ کس طرح سے شوہر کے مرنے کے بعد چاروں بیٹوں کا سلوک اپنی ماں کی جانب پھر جاتا ہے اور وہ ہر چیز پر قابض ہو جاتے ہیں۔ پریم چند نے روایت سے بغاوت کی اور نہایت ہی جرأت سے کام لیا۔ پریم چند کے ایک ہم عصر علامہ راشد الخیر کی تخلیقات بھی بڑی آگہی اور سماجی شعور کے ساتھ منظر عام پر آئی ہیں۔ انھوں نے بھی اُن ہی موضوعات کا انتخاب کیا جن کا پریم چند نے کیا تھا۔ انھوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ذریعے عورتوں کی اصلاح و ترقی کی کوشش کی۔ عورتوں کی زبوںحالی اور اُن کے دُکھ درد کو اپنے قلم سے پیش کیا۔ مسلم گھرانوں میں غلط رسم و رواج، رسومات پر تنقید کی۔ جب کہ پریم چند نے ملک کے مذاہب وہ ہندوں ہو یا مسلم دونوں کو اپنے کرداروں میں ڈھال کرتنقید کی ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے منشی پریم چند نے اپنا یہ فرض سمجھا کہ غریب محنت کش انسانوں کے دُکھ درد کو پیش کریں۔ پریم چند نے اس حوالے سے بہت سے افسانے لکھے وہ کسان کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ یہی کسان جو شہری زندگی کے لئے عیش و آرام کی دنیا فراہم کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس وہی شہری ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ پریم چند نے ’’بے غرض محسن‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا،جس میں اس کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے یہ اقتباس ملاخط ہو:
’’تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا آدمی لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور ڈنڈون کرکے زمین پر بیٹھ گیانذر نہ نیاز۔
اس کی یہ گستاخی دیکھ کر
ہیرامن کو بخار چڑھ آیا۔ کڑک کر بولے:
ابھی کسی زمیندار سے پالا نہیں پڑا ہے ایک ایک کی ہیکڑی پھلادوں گا۔۔۔۔
تخت سنگھ نے ہیرامن کی طرف غور سے دیکھ کر جواب دیا۔
میرے سامنے بیس زمیندار آئے اور چلے گئے مگر ابھی تک کسی نے اس طرح سے دھمکی نہیں دی۔
یہ کہہ کر اس نے لاٹھی اُٹھائی اور اپنے گھر چلا آیا‘‘۔
بے غرض محسن
ایک اسامی اور زمیندار کے درمیان میں جو حد فاصل ہے وہ کتنا حقیقت پسندانہ ہے اگر ہیرامن کو زمیندارہونے کانشہ ہے تو تخت سنگھ کو اپنے عزت نفس کا پورا خیال ہے یہاں پریم چند نے حقیقت نگاری کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔
پریم چند نے اپنے افسانوں کو حقیقت سے قریب کیا، انہوں نے عوامی زندگی کی ترجمانی، محنت کش طبقہ کے احساسات، جذبات اور ان کے مسائل کو پیش کیا۔ انھوں نے معاشرہ کی اصلاح کے لئے اپنی تمام ممکنہ فنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ پریم چند کی حقیقت نگاری کی بہترین مثال ان کا افسانہ ــ’’ کفن‘‘ ہے۔ ان کا یہ افسانہ ایک نئے طرز کی بے باک اور بے رحم حقیقت کا نمونہ ہے۔ اس میں پریم چند نے سماج کی بگڑتی ہوئی حالت، بے کسی کا عالم، غریبی اور مفلسی کی حالت اور انسانی زندگی کی بے قدری، غلامی اور مجبوری کے دور ہندوستان کے عوام کی بھر پور ترجمانی کی ہے اور وہ یہ دکھانا چا ہتے ہیں کہ استحصال اور ظلم و جبر کی قوتیں کس طرح انسان کو بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
پریم چندکی حقیقت نگاری کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے زندگی کو جیسا پایا کم و کاست ویسا ہی بیان کردیا۔ مثلاً وہ ہندوستانی دیہات کو جنت کا ٹکڑا بنا کر پیش کر سکتے تھے مگر پریم چند نے انھیں ویساہی دکھایا جیسے وہ اصلیت میں تھے۔ ان کی حقیقت نگاری ان کے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ ہے۔ اسی خصوصیت سے انھیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کر دیا افسانہ نگاری کے فن میں پریم چند نے جو شہرت حاصل کی وہ لوگوں کے حصے میں کم ہی آتی ہے۔ ان کے افسانے قومی، سیاسی اور سماجی رجھانات کے آئینہ دار ہیں۔
پریم چند ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
ـ’’ افسانہ حقائق کی فطری مصوری کو ہی اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ اس میں تخیلی باتیں کم اور تجربات زیادہ ہوتے ہیں ۔‘‘
اور ایک خط میں بھی لکھا ہے
’’ میری قصّے اکثر کسی نہ کسی مشاہدے یا تجربے پر مبنی ہوتے ہیں۔
ANS 02
برصغیر میں اردو افسانے کا ذکر دو ناموں کے سوائے ادھورا ہے۔ وہ نام ہیں کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو تو قارئین کا ایک حلقہ جنسی لذت کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے مگر وہ اپنی تحاریر میں جن نفسیاتی اور معاشرتی پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں، ان پر فکر انگیزی کی اشد ضرورت ہے۔
کرشن چندر اور منٹو نے تقسیم ہند کے درد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے اپنی کہانیوں میں جا بجا بیان بھی کیا ہے۔ کرشن چندر کی کہانیوں کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی کہانیوں میں طبقاتی سوال کو اٹھاتے رہے ہیں، لہٰذا ان کے کردار، مل مزدور، کسان، نمک کی کان میں کام کرنے والے، نچلے طبقے کے لوگ اور جاگیردار رہے ہیں۔ کرشن چند کا جنم 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ میں ہوا۔
کرشن چندر کا اپنا خالص اسلوب انہیں اپنے دور کے دیگر افسانہ نگاروں پر غالب کر دیتا ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے نثر میں شاعری کی ہے۔ اس کی اہم وجہ ان کے ارد گرد کا وہ ماحول بھی تھا جو انہیں بچپن سے ہی جنت نظیر وادی، کشمیر میں ملا۔ جہاں بہتے دریاؤں سے لے کر، سر سبز میدان، آبشار اور فطرت سے بھرے ایسے مناظر تھے جو ان کے افسانوں میں کسی پینٹنگ کی مانند نظر آتے ہیں۔
ان کے ہاں موضوعات کی ہمہ گیریت تھی۔ یہ موضوعات ان کے پاس ایسے تھے جیسے پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں۔
ڈاکٹر اقبال آفاقی اپنی کتاب “اردو افسانہ” میں کرشن چندر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “کرشن چندر کے قلم میں پہاڑی ندی کا سا تیز بہاؤ ہے اور میدان میں بہنے والے دریا کا سا پھیلاؤ بھی۔ وہ دونوں کے درد پہچانتا ہے، تبھی اس نے “درد گردہ” کی نرس مس جائے جیسے شفیق اور مہربان کردار تخلیق کیے۔ کرشن چندر کے ادراک کا کینوس بہت وسیع ہے، سرینگر سے لاہور، کلکتہ اور نیچے بمبئی تک پھیلا ہوا۔
“اس کی وجہ فطری وسیع المشربی، بلند خیالی اور رواداری جیسی اقدار پر ایمان ہے۔ ان کے ہاں تکنیک کے تجربات بھی ملتے ہیں، مثلاً ان کا افسانہ “کچرا بابا” ایک سورئیلی تصویر اور پھر مثبت اور منفی تکنیک کے تجربات کا قابل ذکر مثال ہے۔ وہ ہر طرح کے موضوعات اور کرداروں پر کہانیاں کسی مذہبی یا نسلی تعصب یا نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر فطری بہاؤ میں لکھتا چلا جاتا ہے”۔
اپنی کہانیوں میں حقیقت نگاری کو پیش کرنے لیے انہوں نے اپنے تخلیق کردہ کرداروں کا سہارا لیا ہے۔ جدید افسانہ نگاری میں بھی انہوں نے لوک ادب سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے بلکہ لوک ادب کے عنصر کو اپنی کہانیوں میں شامل کر کے انہیں اور بھی جاندار طریقے سے بیان کیا ہے۔ یہی ان کی ایک ایسی خاصیت ہے جو کہ انہیں باقی افسانہ نگاروں سے ممتاز بناتی ہے۔ جس کی مثالیں ہمیں “کالا سورج” اور “پانی کا درخت” میں نظر آتی ہیں۔
ویسے تو ہمارے آس پاس کئی کردار موجود ہوتے ہیں مگر انہیں کہانی کے سانچے میں ڈھالنے کا فن کرشن چندر کو بخوبی آتا ہے۔ ان کے افسانے ایک ایسا طلسم کدہ ہیں جس کے سحر کو محسوس کرنے اور اس کا حصہ بننے کو جی چاہتا ہے۔ یہ عنصر ان کی تحریر میں بیان کی گئی تشبیہات اور استعاروں میں واضح عکساں ہے۔ انہوں نے اگر کسی گاؤں کی کہانی بیان کی ہے تو اس میں تشبیہات اور استعارے بھی اسی ماحول کی مطابقت سے رکھے ہیں۔
ان کی افسانے ایک ایسا طلسم کدہ ہیں جس کے سحر کو محسوس کرنے اور اس کا حصہ بننے کو جی چاہتا ہے۔
دیہی اور شہری دونوں زندگیاں ان کے زیر مشاہدہ رہیں۔ ان کی کمال فن تحریر کا ہی یہ خاصا ہے کہ جب دیہی زندگی کی لفظوں میں عکسبندی کی تو خالص دیہی زندگی کی سوندھی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جس کی اہم ترین مثال ان کا افسانہ “پانی کا درخت” ہے جو کہ انہوں نے نمک کے ان مزدوروں کے بارے میں لکھا ہے جن کے لیے میٹھا پانی نایاب ہو جاتا ہے۔
پانی کا درخت میں بانو چاہتے ہوئے بھی اپنے محبوب کے ساتھ نہیں رہ پاتی کیونکہ گاؤں میں میٹھا پانی دستیاب نہیں ہوتا اور وہ اس شخص سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیتی ہے جہاں میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اس افسانے میں پانی زندگی کی علامت نہیں ہے بلکہ خود ایک زندگی ہے اور اس کی عدم موجودگی موت ہے۔
“میں نے اس کے بالکل قریب آ کر اسے دونوں شانوں سے پکڑ لیا اور غور سے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس نے ایک لمحہ میری طرف دیکھ کر آنکھیں جھکا لیں۔اس کی نگاہوں میں میری محبت سے انکار نہیں تھا بلکہ پانی کا اقرار تھا۔ میں نے آہستہ سے اس کے شانے چھوڑ دیے اور الگ ہو کے کھڑا ہو گیا۔ یکا یک مجھے محسوس ہوا کہ محبت سچائی خلوص اور جذبے کی گہرائی کے ساتھ ساتھ تھوڑا پانی بھی مانگتی ہے۔ بانو کی جھکی ہوئی نگاہوں میں اک ایسے جانکسل شکایت کا گریز تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو: جانتے ہو ہمارے گاؤں میں کہیں پانی نہیں ملتا۔ یہاں میں دو دو مہینے نہا نہیں سکتی۔
“مجھے اپنے آپ سے اپنے جسم سے نفرت ہو گئی ہے۔ بانو چپ چپ زمین پر چشمے کے کنارے بیٹھ گئی۔ میں اس تاریکی میں بھی اس کی آنکھوں کے اندر اس کی محبت کے خواب کو دیکھ سکتا تھا جو گندے بدبو دار جسموں پسوؤں، جوؤں اور کھٹملوں کی ماری غلیظ چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی محبت نہ تھی۔ اس محبت سے نہائے ہوئے جسموں، دھلے ہوئے کپڑوں اور نئے لباس کی مہک آتی تھی۔ میں بالکل مجبور اور بے بس ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ رات کے دو بجے۔
“بانو اور میں۔ دونوں چپ چاپ کبھی ایسا سناٹا جیسے ساری دنیا کالی ہے کبھی ایسی خاموشی جیسے سارے آنسو سو گئے ہیں۔ چشمے کے کنارے بیٹھی ہوئی بانو آہستہ آہستہ گھڑے میں پانی بھرتی رہی۔ آہستہ آہستہ پانی گھڑے میں گرتا ہوا بانو سے باتیں کرتا رہا اس سے کچھ کہتا رہا، مجھ سے کچھ کہتا رہا۔ پانی کی باتیں انسان کی بہترین باتیں ہیں۔”
رومان، منظرنگاری، عشق و محبت اور المیہ، ان کے افسانون میں جابجا نظر آتے ہیں۔ “اندھا چھتر پتی” کا کردار اپنی آنکھوں کا نور اس لیے رو رو کر گنوا دیتا ہے کہ اس کی محبوبہ کا لالچی باپ اپنی بیٹی مکھنی کا رشتہ گاؤں کے نمبردار سے طے کر لیتا ہے۔ یہ کہانی بھی اسی طبقاتی فرق کو بیان کرتی ہے جو آج بھی ہمارے معاشرے میں مروج ہے۔
بٹوارے کے موضوع پر لکھا گیا ناول “غدار” بیج ناتھ کا ایک ایسا قصہ ہے جسے اچانک پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ جسے محض اس لیے غدار قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کسی کا قتل نہیں کرتا۔ اپنی حاملہ کتیا سے کہتا کہ وہ لوٹ جائے اسے انسان کچھ نہیں کریں گے کیونکہ اس کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی مسلک۔ یہ تمام معاملات انسان سے وابستہ ہیں۔ اس ناول میں انہوں اپنے لوگوں اور اپنی دھرتی سے بچھڑنے کے درد کو بیان کیا ہے۔
کرشن چندر کے تخلیق کردہ کردار ہمیشہ ظلم و بربریت کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر لکھی گئی ان کی کہانی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ منظر نگاری کو کسی بھی طرح کہانی سے الگ نہیں کرتے۔
گو کہ انہوں نے کئی فلموں کے لیے بھی مکالمے لکھے مگر ان کی حقیقی پہچان افسانوں کی کتابیں اور ناول ہیں۔ جن کی تعداد لگ بھگ پچاس ہے۔ ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘، ’شکست’ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کافی مقبول ہوئے۔
ANS 03
کہانیوں کی شہرت غلام عباس کی شخصیت سے بے نیاز ہو گئی تھی۔ یعنی پڑھنے والوں کو وہ کہانیاں یاد تھیں لیکن غلام عباس کا نام انہیں یاد نہ تھا۔ غلام عباس نے افسانہ نگاری کے کئی مراتب طے کیے لیکن افسوس یہ رہا کہ ایک افسانے”آنندی‘‘ کی غیر معمولی شہرت نے غلام عباس کے بقیہ کارناموں پر ایک طرح سے پردہ ڈال دیا۔ بالخصوص ہندوستان میں تو غلام عباس آنندی ہی کے حوالے سے جانے جاتے تھے‘‘۔
”ندیم احمد نے غلام عباس اور اُردو افسانے کی بڑی خدمت انجام دی ہے کہ انہوں نے غلام عباسؔ کے بارے میں چند اہم تنقیدی مضامین یکجا کر دیے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ پُوری چھان بین اور محنت کے بعد اُنہوں نے غلام عباس کے تمام افسانے بھی اس کتاب میں جمع کر دیے ہیں۔ یہ کتاب غلام عباس پر بڑی حد تک حرفِ آخر کا حکم رکھتی ہے‘‘۔کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے یعنی تمہید‘ ندیم احمد کا مقدمہ‘ اپنے بارے میں از غلام عباس‘غلام عباس از پریم ناتھ در‘ غلام عباس کے افسانے از محمد حسن عسکری‘ غلام عباس از ن۔م۔ راشد‘ غلام عباس کا افسانوی ادب از فیصل جعفری اور غلام عباس :جاڑے کی چاندگی از آفتاب احمد خاں۔
کتاب کے مرتّب ندیم احمد کا مختصر تعارف بھی اندرون سرورق درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے: ”ندیم احمد1979ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اِن دنوں وہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر اور شعبے کے صدر ہیں۔ محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی سے اثر پذیری نے انہیں نظری تنقید کی طرف مائل کیا۔ ان کا شمار نئی نسل کے ان نمائندہ نقادوں میں ہوتا ہے جنہیں نظری تنقید کے مسائل سے دلچسپی ہے اور جو ادب اور تہذیب کے آپسی رشتوں کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور عالمی ادب پر ان کی نظربڑی گہری ہے۔ کلاسیکی شعریات کے علمیاتی اور وجودیاتی تصورات پر زبردست قابو رکھنے والے ندیم احمد کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ”بازیافت‘‘ 2005ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے انشاء اللہ خاں انشاء کے فن اور شخصیت پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں ”غزالِ شب‘‘ (2013ئ) ‘تعصبات اورتنقید (2014ئ) نہایت ہی اہم ہیں۔ کلیاتِ غلام عباس کے ذریعہ ندیم احمد نے ترتیب و تہذیب کا ایک ایسا معیار قائم کیا ہے جس کی مثال ڈھونڈے سے ہی ملے گی‘‘۔
یہ کتاب ہمیں امین اختر فاروقی اُردو ماہنامہ شب خون‘ 313رانی منڈی الٰہ آباد کی وساطت سے موصول ہوئی ہے جو غالباً شمس الرحمان فاروقی صاحب کے عزیز ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فاروقی صاحب کی طبیعت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں ہے‘ اُن کے لیے دُعائے صحتیابی۔ خاک کی مہک از ڈاکٹر ناصر عباس نیّر یہ ہمارے مہربان دوست اور جدید اردو ادب کے نامور نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت700روپے رکھی ہے۔ اس کے حوالے سے سب سے پہلے دو فروعی سی باتیں: پہلی تو یہ کہ کتاب کے نام ”خاک کی مہک‘‘ میں عیبِ تنافر پایا جاتا ہے اور اس لیے اسے خاکی مہک ہی پڑھا جائے گا۔ دوسرے‘ خاک فارسی کا لفظ ہے اور مہک اُردو کا۔ اگر ڈاکٹر صاحب اس کا نام مٹی کی مہک رکھتے تو یہ خالص اردو میں بھی ہوتا اور ہلکی سی ایسٹریشن کی خوبصورتی بھی‘ دو ”میموں‘‘ کی وجہ سے اس میں آ جاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم شاعروں کے ساتھ ساتھ نثر نویسوں کو بھی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک برادرانہ بے تکلّفی بھی ہے‘ اس لیے اس کا فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ تنقید کی بھاری بھرکم زبان لکھتے لکھتے انہیں یہ عام فہم زبان لکھتے ہوئے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ نقاد حضرات کے بارے میں زیادہ تر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تنقید کے علاوہ شاعری یا فکشن وغیرہ میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے ہوں گے‘ جیسے کہ ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی ہیں جو تنقید کے ساتھ ساتھ شاعر اور ایک مانے ہوئے فکشن رائٹر بھی ہیں۔ ناصر عباس نیّر کا چونکہ پہلے کوئی افسانہ کسی رسالے وغیرہ میں پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اس لیے یکدم اس افسانوی مجموعے کا آ جانا ایک خوشگوار حیرت کا باعث ضرور ہے۔ کتاب کا انتساب خاک کے اس ٹکڑے کے نام‘ جس کی مہک نے یہ کہانیاں لکھوائی ہیں اس میں کوئی مقدمہ یا دیباچہ شامل نہیں ہے۔ آغاز میں مولانا جلال الدین رومی کا یہ شعر درج ہے ؎ در بہاراں کے شود سرسبز سنگ خاک شد تا گل روید رنگ رنگ اس کے بعد ورجینیا وولف کا یہ قول جو ان کی کسی تحریر سے اخذ کیا گیا ہے: فکشن مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو شاید ذرا سا اٹکا ہوا ہے‘ مگر چاروں طرف سے زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ وابستگی مُشکل ہی سے سمجھی جاتی ہے۔ کتاب میں کل9کہانیاں ہیں جبکہ آخری کہانی بعنوان حکایات جدید و مابعد جدید کے عنوان سے ہے جس میں چار کہانیاں شامل ہیں یعنی بش سنگھ مرا نہیں تھا۔ بُو آئی کہاں سے‘ ستّر سال اور غار اور واللہ اعلم۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور ان افسانوں میں سے مختصر اقتسابات دیئے گئے ہیں جبکہ آخر میں مصنف کا مختصر تعارف درج ہے۔ افسانے مجموعی طور پر دلچسپ اور قاری کو بعض معاملات پر سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آج کا مطلع میں سانس لے نہیں سکتا‘ ہوا مخالف ہے رُکا ہوا ہوں کہ خود راستہ رکاوٹ ہے
سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ بظاہر ہندوستان اور پاکستان کے پاگل خانوں کے تبادلے کی کہانی ہے مگر دراصل کہانی میں منٹو نے تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت اور دونوں ملکوں کی مضحکہ خیز پالیسوں کو قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے اس کہانی میں انسان کی اپنی مٹی سے محبت کی شدت کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ محبت جو سیاست اور مذہب کی لگائی دیواروں اور باڑوں کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار کا اصل نام بشن سنگھ ہے مگر وہ اپنے علاقے سے بے پناہ محبت کی وجہ سے وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ بن جاتا ہے۔ وہ اس ملک میں جہاں اُسکا وطن’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ نہیں تھا، جانے کی بجائے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر اردو افسانے کی صنف مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ اُ ن کے افسانوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اُنہیں اپنی زندگی میں کچھ افسانوں کی وجہ سے مقدموں کی پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ انہوں نے اپنے کچھ افسانوں پر لگے فحاشی کے الزام کے خلاف نہایت موثر مضامین لکھے ہیں جو کہ اپنے طور پر اردو ادب کا شاہکار ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف تھا کہ کہیں اُنہیں جیل نہ ہو جائے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ڈرپوک آدمی ہوں، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ زندگی جو بسر کر رہا ہوں جیل سے کم تکلیف دہ نہیں۔ اگر اس جیل کے اندر ایک اور جیل پیدا ہو جائے اور مجھے اس میں ٹھونس دیا جائے تو چٹکیوں میں دم گھٹ جائے۔ ‘‘
ANS 04
سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ بظاہر ہندوستان اور پاکستان کے پاگل خانوں کے تبادلے کی کہانی ہے مگر دراصل کہانی میں منٹو نے تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت اور دونوں ملکوں کی مضحکہ خیز پالیسوں کو قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے اس کہانی میں انسان کی اپنی مٹی سے محبت کی شدت کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ محبت جو سیاست اور مذہب کی لگائی دیواروں اور باڑوں کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار کا اصل نام بشن سنگھ ہے مگر وہ اپنے علاقے سے بے پناہ محبت کی وجہ سے وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ بن جاتا ہے۔ وہ اس ملک میں جہاں اُسکا وطن’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ نہیں تھا، جانے کی بجائے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔سعادت حسن منٹو ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر اردو افسانے کی صنف مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ اُ ن کے افسانوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اُنہیں اپنی زندگی میں کچھ افسانوں کی وجہ سے مقدموں کی پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ انہوں نے اپنے کچھ افسانوں پر لگے فحاشی کے الزام کے خلاف نہایت موثر مضامین لکھے ہیں جو کہ اپنے طور پر اردو ادب کا شاہکار ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف تھا کہ کہیں اُنہیں جیل نہ ہو جائے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ڈرپوک آدمی ہوں، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ زندگی جو بسر کر رہا ہوں جیل سے کم تکلیف دہ نہیں۔ اگر اس جیل کے اندر ایک اور جیل پیدا ہو جائے اور مجھے اس میں ٹھونس دیا جائے تو چٹکیوں میں دم گھٹ جائے۔ ‘‘ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ جو کسی سیاسی پارٹی کا کارکن ہے نہ کسی مذہبی گروہ کا کارندہ اور نہ ہی ہوش و خرد کی دنیا کا باسی ۔اُس کا احتجاج اُس دور کا منظر نامہ کچھ اِس طرح د کھائی دیتاہے کہ ہر انسان ایک بار دہل جاتا ہے ۔افسانے کی چند آخری سطریں :”سورج نکلے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی ادھر اُدھر کے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا، اوندھے منہ لیٹا تھا۔ ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا اور ادھر ویسی ہی تاروں کے پیچھے پاکستان ۔درمیان میں زمین کے اُس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا ،ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔ ”
میٹرک میں تین بار اردو میں فیل ہونے والا سعادت حسن کتابیں پڑھنے کی خاطر پیسے چوری کرتے کرتے آخر ایک دن امرتسر ریلوے اسٹیشن کے ایک بُک سٹال سے انگلش ناول چوری کرتے پکڑاگیا۔یہ چھوٹی چھوٹی چوریاں کیسے کیسے افسانوں کا شاخسانہ بنیںگی،کون جانتا تھا کہ وکٹر ہیوگو ،آسکر وائلڈ ،چی خوف اور گورکی کے علاوہ کئی دوسرے مغربی اور روسی ادیبوں کے تراجم کرتے کرتے سعادت حسن ۔۔۔منٹو کے قالب میں ڈھل جائے گا؟
جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے ظلم پر پہلی کہانی”تماشہ ”نے منٹو کو اعتماد بخشا ۔اُس نے اپنی ذہنی اُلجھنوں ،سوچوں ،اور معاشرے کے بدبودار زخموں کو اپنے قلم کی نوک سے کریدنا شروع کیا ۔یہ کرید گہری ہوتی چلی گئی ،قلم نشتر بن گیا، درد کی لہریں پورے بدن میں پھیل گئیں، لوگ تلملا اُٹھے۔”ٹھنڈا گوشت” ”کھول دو””کالی شلوار”اور ”دھواں” نے سب کی آنکھوں میں دھواں بھر دیا۔ منٹو سلگتا رہا ۔۔ مقدمے جھیلتا رہا اور اُس کا قلم نشتر زنی کرتا رہا، وہ جج نہیں بنا، اپنے کرداروں پر کوئی لیبل چسپاں نہیںکیا ۔وہ انسانی فطرت ،انسانی نفسیات ،عمل رد عمل،خاص طور پر گرے پڑے کرداروں کے حوالے سے ہمارے سامنے لاتا رہا ۔اُس کے کاٹ دار نوکیلے جملے روتے روتے ہنسا دیتے ہیں ،ہنستے ہنستے رُلا دیتے ہیں ۔دوغلا سماج ،سیاست دان،مذہبی جنونی سب ہی اُس کے قلم کی زد میں رہے ۔منافقت کے خلاف وہ بولتا رہا، وہ لکھتا رہا۔ ڈرامے اور فلمیں بھی لکھیں لیکن مختصر افسانے کونیا روپ دیا ۔مختصر افسانہ دیکھنے میں آسان لیکن لکھنے میںبے حد مشکل ہے ۔جس میں نہ تاریخیں ہیں نہ کلیئے ہیں۔ یہ تو کسی کردار، کسی واقعے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری کو ایک روزن سے پوری دنیا نظر آجائے ۔یہ لکھاری کا کمال ہے کہ وہ ایک آئینے میں کتنی کامیابی کے ساتھ کتنے عکس دکھاسکتا ہے اور منٹو کے افسانوں نے نہ صرف آئینہ بن کر آئینہ دکھایا بلکہ پسِ آئینہ بھی بہت کچھ دکھا دیا ۔
منٹو نجانے کس طرح اور کیسے علی گڑھ یونیورسٹی تک پہنچ ہی گیا۔ وہیں دوسرا افسانہ ”انقلاب پسند”1935میں یونیورسٹی میگزین میں چھپا۔ انڈین پروگریسوس رائٹر ز ایسوسی ایشن کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ بمئبی میں ”مصور”کے ایڈیٹر رہے ۔فلمی دنیا کی چمک دمک کے پیچھے چھپے اندھیرے نے منٹو کے کئی زندہ و جاوید افسانوں کو جنم دیا۔ اشوک کمار کے ساتھ گہرا دوستانہ تھا ۔لیکن حسد اور گروہ بندی کی سیاست نے منٹو کی حساس طبیعت پر گہرا اثر ڈالا ۔تقسیم کے مسائل ،قتل وغار ت ، اور انسان کے شیطانی رویّے منٹو کو پریشان کرنے لگے۔1948ء میں پاکستان آگیا ۔کلیم کے نام پر یہاں لوٹ مار مچی ہوئی تھی، منٹو الگ تھلگ رہا ۔ مالی مشکلات اور متلون مزاجی نے دھیرے دھیرے منٹو کو الکوحل کا بہت زیادہ عادی بنا دیا ۔وہ ماضی میں گزرے اچھے برے دنوں کی یاد سے باہر نہ آسکا۔ نئی دنیا پر قدم جماتے جماتے اُس کا جسم تھکنے لگا۔دل و دماغ کی تازگی پژمُردگی میں ڈھلنے لگی۔پاکستان سے اُس کا لگائو بھی اٹل تھا۔ سو وہ یہیں جم کر لکھتا رہا ،کبھی کمانے کو،کبھی رُلانے کو ،کبھی خود کو، کبھی زمانے کو آزمانے کو۔
عوام کی پذیرائی کے باوجود کچھ تنگ نظر افراد کی وجہ سے مقدمات میں الجھنا پڑا ۔ایڈیٹر نے چھاپنا بند کردیا ۔پبلیشر نظریں چُرانے لگے۔اخبار”مغربی پاکستان ”میں منٹو کا کالم ”چشم روزن”بند کروادیاگیا ۔۔۔”روزنامہ آفاق” میں چھپنے والے کچھ خاکے کچھ” مشاہیر ”کو ناراض کر گئے، سو وہ بھی بند ہوگئے ۔جو بعد میں ”گنجے فرشتے”کے نام سے ایک مجمو عے کی شکل میں آئے۔ان خاکوں کے حوالے سے اپنے ایک مقدمے کے دوران منٹو نے کہا تھا، ”میرے پاس ایسا کوئی کیمرا نہیں جس کے ذریعے میں حشر کاشمیری کے چہرے پر موجود چیچک کے نشان مٹا سکوںیا اُس کی لچھے دار گفتگو سے فحاشی نکال سکوں۔ ”ایک اور مقدمے کے دوران کہا، ”ایک لکھاری تب ہی قلم اُٹھا تا ہے جب اُس کا احساس زخمی ہوتا ہے۔”
منٹو نہ تو درباری لکھاری بن کر،عہدوں اور مرا عات کا لالچی تھا اور نہ ہی ادھار لئے تخلیقی سَوتے خشک ہونے پر تنقید نگار بن کر اہم افراد کی تعریفوں کے پل باندھ کر پار چڑھنے کا شوقین تھا ۔اُسے کسی ازم سے لگائو تھا نہ لاگ ۔۔۔۔۔وہ تو ایک جراح تھا جس کا نشتر ہر پھوڑے ،ہر ناسور کے آپریشن کے لئے بے قرار رہتا تھا ۔یہ تمام جینوئن تخلیق کاروں کا المیہ ہوتا ہے کہ جیتے جی اُنھیں مار دیا جاتا ہے اور مارنے کے بعد اُن کے ناموں کے ساتھ جڑ کر اپنے مُردوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تنگ نظر سماجی ٹھیکے داروں اور حاسدوں کی نفرت نے منٹو کو اندر سے توڑ دیا وہ اس حد تک ٹوٹا کہ اُس کی کرچیاں اُس کی تحریروں میں جا بجا بکھر گئیں ، سب کو لہو لہان کرنے لگیں ۔وہ ہر شے سے بے نیاز ،ہر نصیحت اور تنقید سے بے پر وا مصروف کار رہا ۔YMCA ہال لاہور میں چراغ حسن حسرت کا ایک خاکہ پڑھتے ہوئے اُسے باقاعدہ ہال سے باہر چلے جانے کو کہاگیا۔وہ اڑ گیا آخر اُس کی بیگم صفیہ اُسے کسی طرح باہر لے گئی ۔مالی مسائل کے باعث وہ ہر طرح کی تحریر ،ہر کسی کے کہنے پر لکھنے کو تیار تھا ۔ایڈوانس لیتااُسی وقت بیٹھ کے لکھتا اور غائب ہوجاتا ۔یہ منٹو اُس منٹو سے قطعی مختلف تھا جو1950ء میں گورنمنٹ کالج ہال میں چمک دار آنکھوں ،شاداب چہرے اور نفیس لباس میں ملبوس ”میں کہانی کیسے لکھتا ہوں”پڑھنے آیا تھا ۔پھر حلقہ ارباب ِ ذوق میں اپنا آخری افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ”پڑھنے والا منٹو زرد چہرے ، سرمئی بالوں،اور میلے اورکوٹ کے ساتھ اپنا سایہ لگ رہا تھا ۔وہ چڑ چڑا ہو چکا تھا۔ شگفتہ کاٹ دار جملوں کی جگہ وہ تنقید کرنے والوں کو خوب سنا دیتا یہاں تک کہ اُن دوستوں کو بھی ناراض کر بیٹھا جن سے وہ مالی امداد لیتا تھا ۔حد درجہ حساسیت نے اُسے عظیم لکھاری تو بنا دیا لیکن ایک نازک مزاج انسان کو لے ڈوبی۔
مظلوم اور ظالم دونوں ہی اُس کے نزدیک ایک بہت بڑی شطرنج کی بساط کے مہرے تھے ۔سو وہ انسانی سطح پر ان سب کی پیروی کرتا رہا، انسانیت کا کفارہ ادا کرتا رہا۔ اُس نے صرف کردار تخلیق کئے ،فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ۔منٹو چونکہ کرداروں اور واقعات کو نفسیاتی سطح پر برتتا تھا ،اس لئے اُس دور کے حوالے سے تھوڑا شدت کی جانب مائل ہوگیا ۔وہ دور حقیقت پسندی کا دور تھا ۔اردو افسانے کاکینوس بھی فرد سے سماج تک پھیل چکا تھا ۔رشید جہاں کا افسانوی مجموعہ ”عورت” اور احمد علی کی کتاب” ہماری گلی” چھپ چکے تھے۔ ”انگارے ”اور” شعلے” کے افسانے ہندوستا ن کی سماجی ،سیاسی ،و مذہبی زندگی کے عجیب و غریب پہلوئوں کو بے نقاب کر رہے تھے۔سگمنڈ فرائڈ سے لکھاری بہت متاثر تھے۔منٹو پر چونکہ روسی اور مغربی تراجم نے بھی اثر ڈالا تھا اس لئے اُس کو ڈی ایچ لارنس کا مشرقی پرتَو بھی کہا جاتا ہے۔
منٹواپنے خاکے میں لکھتا ہے ۔
”ہم اکٹھے پیدا ہوئے تھے اور شاید مریں بھی اکٹھے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے۔ یہ خیال مجھے پریشان کرتا ہے کیونکہ میں نے خلوص دل سے کوشش کی ہے کہ ہماری دوستی قائم رہے۔”
لیکن یہاں منٹو فیل ہوگیا۔ اپنے میٹرک کے امتحان کی طر ح، وہ دور بہت دور اندر تک دو حصوں میں بٹ گیا اور آخرٹوٹ گیا ۔ جانے سے کچھ عرصہ پہلے صفیہ کی گود میں سر رکھے اُس نے بے حد کرب کے ساتھ کہا تھا، ”صفیہ اب یہ ذلت ختم ہوجانی چاہئے” اُس دور اندیش باریک بین کو شاید اندازہ نہ ہو سکا کہ مستقبل نے اُس کے لئے عزت کا کتنا بلند مینار تعمیر کر رکھا ہے ۔