ANS 01
باغ وبہار میرامن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ میرامن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے ترجمہ کیا ہے۔[1][2] اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، “میرامن نے باغ وبہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔” نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں، “داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا”۔
اجمالی معلومات: مصنف, صنف …
اشاعت
یہ ترجمہ جان گلکرسٹ کی فرمائش پر میر امن نے کیا[3] اور پہلی بار اشاعت ہندوستانی پریس، کلکتہ سے ہوئی، کتاب کے دیباچے میں جان گلکرسٹ نے کتاب کو امیر خسرو کے قصہ چہار درویش کا ترجمہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ امیر خسرو کے قصے کے کا ترجمہ پہلے عطا حسین خان نے نو طرز مرصع کے عنوان سے کیا تھا، لیکن عربی و فارسی استعارے اور محاورے برقرار رکھے، اس نقص کو دور کرنے کے لیے، میر امن نے سادہ سہل زبان اور ریختہ کے محاورے میں منتقل کیا۔
اس پہلی اردو اشاعت میں 269 اردو کے اور 4 صفحات انگریوی کے تھے اور 19 صفحوں پر غلط نامہ (کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی)، کتاب میں اکثر مقامات پر اعراب کا استعمال کیا گیا ہے۔
کتاب کا دوسری بار اشاعت، پھر اسی ہندوستانی پریس، کلکتہ سے ہوئی، اب کی بار اعراب کی کثرت، قلت میں بدل گئی۔ اس دوسری اشاعت پر غلام اکبر نے نظر ثانی کی۔ یہ نسخہ کیپٹن طامس روبک کی زیر نگرانی چھپا۔ پہلی اور دوسری دونوں اشاعتوں کا انتساب بنگال انجینئرز کے جیمز مؤات (Mouat) کے نام ہے۔ جو فورٹ ولیم کالج میں اردو کے سبق استاد تھے۔
اسلوب
داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا۔ عوام اور خواص دونوں میں یہ داستان آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی آج سے پونے دو سو برس پہلے تھی۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا دلکش اسلوب اور دلنشین انداز بیان ہے جو اسے اردو زبان میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔
باغ و بہار کے مُصنّف میرامن دہلوی چونکہ فورٹ ولیم کالج سے متعلق تھے، اس لیے اس کی تصانیف بھی کالج کے متعینہ مقاصد کے تحت لکھی گئیں اور ان میں وہ تقاضے بالخصوص پیشِ نظر رہے جن کی نشان دہی ڈاکٹر جان گل کرائسٹ نے کی تھی۔ فورٹ ولیم کالج کے لیے جتنی کتابیں تالیف ہوئیں ان میں لکھنے والوں نے سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی کہ کتاب کی زبان سادہ اور سلیس ہو اور بول چال کی زبان اور روزمرہ محاورہ کا خیال رکھا جائے۔ چونکہ اس سے مقصود انگریز نو واردوں کو مقامی زبان و بیان اور تہذیب و معاشرت سے آشنا کرنا تھا۔ اس لیے فورٹ ولیم کالج کے لکھے گئے قصوں میں زبان و بیان پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ باغ وبہار کو مِنجملہ دوسری خوبیوں کے زبان و بیان کے لحاظ سے بھی فورٹ وِلیم کالج کی دوسری کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ باغ و بہار کی اس فوقیت کی پیش نظرسرسید کا یہ قول بہت مشہور ہوا کہ میر امن کا اردو نثر میں وہی مرتبہ ہے جو میر کا غزل گوئی میں۔
دہلی کی زبان
باغ و بہار اپنے وقت کی نہایت فصیح اور سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔ میر امن دہلی کے رہنے والے ہیں اور اُن کی زبان ٹھیٹھ دہلی کی زبان ہے۔ میر امن صرف دہلی کی زبان کو ہی مستند سمجھتے ہیں چنانچہ اس کو انہوں نے ہزار رعنائیوں کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ باغ و بہار کے دیباچے میں میر امن نے اپنے کو دلی کا روڑا اور پشتوں سے دلی میں رہائش کرنے اور دلی کے انقلاب کو دیکھنے کے ناطے خود کو زبان کا شناسا بتایا ہے اور اپنی زبان کو دلی کی مستند بولی کہا ہے۔ اردو کی پرانی کتابوں میں کوئی کتاب زبان کی فصاحت اور سلاست کے لحاظ سے باغ و بہار کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگرچہ زبان میں کئی تبدیلیاں ہو چکی ہیں، الفاظ و محاورات اور فقرات و تراکیب میں مختلف النوع تغیرات آ گئے ہیں اس وقت کی زبان اور آج کی زبان میں بڑا فرق ہے لیکن باغ و بہار اب بھی اپنی دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہے یہ دلکش اعجاز میر امّن کے طرزِ بیان اور اسلوبِ تحریر کا حصہ ہے۔ میر امن ہر کیفیت اور واردات کا نقشہ ایسی خوبی سے کھینچتے اور ایسے موزوں الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ کمال انشا پردازی کی داد دینا پڑتی ہے۔ نہ بے جا طول ہے نہ فضول لفاظی ہے۔
سادہ زبان
باغ و بہار کی عبارت کی سادگی اور روانی جہاں بجائے خود ایک طرح کا حسن و لطافت ہے اس میں اس اندیشہ کا امکان بھی کسی وقت نہیں ہوتا کہ یہ سادگی عبارت کو سپاٹ بنا دے اور سادگی کا یہ ہموار تسلسل پڑھنے والے کے لیے اکتاہٹ یا تھکاوٹ کا باعث بن جائے۔ میر امن کی سادگی کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن پر کسی جگہ بھی اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا بوجھ نہیں ڈالتی بقول کلیم الدین احمد، “باغ و بہار کی سادگی سپاٹ نہیں اس میں ناگوار نیرنگی نہیں یہاں سادگی و پرکاری بیک وقت جمع ہیں”۔
سادگی بیان میں ایک اور خطرہ یہ ہے جس چیز کو سادگی سمجھا گیا ہے اس کا دامن کبھی کبھی عامیانہ پن کے کانٹوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ زبان کو سادگی کے دائرے میں رکھنے والے کو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ اس کی سادگی پر عمومیت اور بعض صورتوں میں عامیانہ پن کا سایہ نہ پڑ جائے۔ ہمارے سادہ نگاروں میں بیشتر اس لغزش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سید وقار عظیم ”ہماری داستان“ میں لکھتے ہیں، “میر امن کے طرز بیان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اُن کی سادگی ہمیشہ عمومیت اور ابتذال کے داغوں سے پاک رہی ہے اس سادگی کی ایک تہذیبی سطح ہے اور میر امن کبھی اس تہذیبی سطح سے نیچے نہیں اترتے۔”
الفاظ کا بر محل استعمال
لفظ کو اس کے صحیح مفہوم میں موقع و محل کی مناسبت سے استعمال کرنا اصل انشانشادازی ہے اور یہی میر امن کا فن ہے۔ ڈاکٹر ممتاز لکھتے ہیں، “میر امن کے ہاں ہر ایک بیان نہایت کامیاب ہے اس کے پاس الفاظ کا وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے اور پھر اس کے استعمال پر یہ قدرت کہ جو لفظ جہاں استعمال کر دیا وہ عبارت کا جزو ناگزیر بن گیا جو صفت کسی موصوف کے لیے استعمال کی وہ اس کا ایسا حصہ بن کر رہ گئی کہ گویا صرف اسی کے لیے وضع ہوئی تھی”۔
اعتدال کی روش
اردو زبان میں فارسی الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات کو بڑا دخل حاصل ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فارسی زبان کے اثرات سے بچ کر اردو لکھنا بہت دشوار ہے۔ لیکن میر امن نے اپنی تحریروں میں اعتدال کی روش کو اپنایا ہے۔ ان کی زبان کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عربی فارسی کے الفاظ کم اور ٹھیٹھ اردو کے الفاظ زیادہ ہیں۔ میر امن بدیسی لفظوں اور چیزوں کی شان و شوکت سے مرعوب ہو کر اپنے مقامی رنگ کو نہیں بھول جاتے۔ قدیم فارسی تشبیہوں اور استعاروں کے ساتھ ساتھ اپنے بے تکلف اور لطیف استعارات اور تشبیہات سے بھی انہیں محبت ہے۔ اس لیے انھوں نے بہت سے اشعار برج بھاشا کے بھی نقل کیے ہیں۔ اور کچھ الفاظ ہریانی کے بھی استعمال کیے ہیں۔ مثلاً، کبھو، کدھو، کسو، گزرایاں وغیرہ۔ مقامی الفاظ کے بے تکلف اور لطیف استعمال نے میر امن کے یہاں اخلاقیات کو ادب کا جزو بنا دیا ہے۔ وہ حکمت و دانش کی باتیں اور پند و نصیحت کی باتیں بھی اس خوبصورتی سے بیان کر جاتے ہیں کہ کانوں کی راہ سے سیدھا دل پر اثر کر جاتی ہیں۔ بقول سید وقار عظیم، “میر امن کو لفظوں کے صرف پر قدرت ہے وہ آسان ہندوستانی لفظوں سے مرکبات بنا کر اور ہندوستانی کے معمولی الفاظ استعمال کرکے اپنی بات کا وزن اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے”۔
روزمرہ محاورہ
کامیاب روزمرہ اور محاورے کا استعمال عبارت کی رفعتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ میر امن نے اپنی زبان میں روزمرہ اور محاورے کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ بول چال کے انداز کو تحریری اور گرائمر کی زبان پر ہر جگہ ترجیح دی ہے۔ اگرچہ میر امن ایک فرمائش کی تعمیل میں اپنی عبارت کو محاوروں سے مزین کر رہے تھے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ان کی بامحاورہ زبان اچھی داستان گوئی کے فطری عمل کی تابع معلوم ہوتی ہے۔ کہانی کی صورت حال اور افرادِ قصہ کی کیفیت کے اظہار سے محاورہ اس طرح پھب کر آتا ہے گویا متقضائے فطرت یہی تھا، اسی وجہ سے باغ و بہار میں اکثر یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ محاورہ آپ ہی اپنی شرح بھی ہوتا ہے اور عبارت کو سمجھنے کے لیے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بقول پرفیسر حمید احمد خان، “اردو نثر روزمرہ کی روانی اور ٹھیٹھ محاورے کے لطف سے پہلی مرتبہ باغ و بہار میں آشنا ہوئی”۔
ANS 02
الف لیلہ کا شمار دنیا کی مشہور ترین کہانیوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ الف لیلہ کو آٹھویں صدی عیسوی میں عرب اُدبا نے تحریر کیا اور بعد ازاں ایرانی، مصری اور ترک قصہ گویوں نے اس میں ترمیم و اضافے کیے۔ الف لیلہ کا پورا نام ’’الف لیلۃ و لیلہ‘‘ ہے ، جس کا اُردو ترجمہ ’’ایک ہزار ایک رات‘‘ ہے۔الف لیلہ کی سب سے پہلی کہانی کا نام ’’شہرزاد ‘‘ ہے ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ سمرقندکا ایک بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورتوں سے ہی بدظن ہوگیا۔ اُس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کروا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی بیٹی شہرزاد نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا ارادہ کیا اور اپنے والد کو بمشکل راضی کر کے شہریار سے شادی کر لی۔شہرزاد جانتی تھی کہ یہ شادی اس کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، لیکن سمجھ بوجھ اور عقل مندی بھی کسی چیز کا نام ہے چنانچہ شہرزاد نے عقل کا استعمال کیا اور پہلی رات ہی سے بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی۔ رات ختم ہوگئی، مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہرزاد کو ہلاک کرنے سے باز رہا۔ ہر رات شہرزاد کہانی شروع کرتی اور صبح کے قریب اسے ایک ایسے موڑ پر روکتی کہ اس میں ایک نئی کہانی کا تجسس پیدا ہو جاتا اور وہ اس قدر دلچسپ ہوتا کہ بادشاہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے شہرزاد کا قتل ملتوی کرتا چلا گیا۔یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گیا۔ اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور اُن کے ہاں دو بچے ہوگئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔بعض محققین کے مطابق الف لیلہ کی اکثر کہانیاں ، بابل ، فونیشیا، مصر اور یونان کی قدیم لوک داستانوں کو اپنا کر لکھی گئی ہیں اور انھیںحضرت سلیمان ، ایرانی سلاطین اور مسلمان خلفا پر منطبق کیا گیا ہے۔ ان کا ماحول آٹھویں صدی عیسوی کا ہے۔ محمد بن اسحاق نے ’’الفہرست‘‘ میں کہانیوں کی ایک کتاب ’’ہزار افسانہ ‘‘ کا ذکر کیا ہے، جو بغداد میں لکھی گئی تھی اور اس کی ایک کہانی بھی درج کی ہے، جو الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کتاب کا نام ہزارافسانہ تھا نیز اس میں ایک ہزار ایک داستانیں نہ تھیں بعد میں مختلف مقامات پراس میں اضافے ہوئے اور کہانیوں کی تعداد ایک ہزار ایک کرکے اس کا نام ’’الف لیلۃ و لیلہ ‘‘ رکھا گیا۔یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب اینٹونی گلانڈ نے اس کا ترجمہ کیا اسی سے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے۔اُردو میں یہ کتاب انگریزی سے ترجمہ ہوئی۔الف لیلہ کی کچھ مشہور کہانیوں کے نام ، ’’الہ دین۔ علی بابا۔ مچھیرا اور جن۔ سندباد جہازی۔ تین سیب۔ سمندری بوڑھااور شہر زاد‘‘ ہیں۔ ان مشہور کہانیوں میں سے ایک کہانی ’’حاتم طائی ‘‘بھی ہے ، جو ہر دلعزیز ہے۔ کہانی یہ ہے کہ یمن میں ’’طے ‘‘ نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی اپنی سخاوت اور خدمت خلق کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس کی سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں عرب کا حکمران نوفل تھا۔ نوفل بادشاہ ہونے کی حیثیت سے چاہتا تھا کہ ہر کوئی اس سے مدد طلب کرے اور اپنے مسائل کے حل کے لئے اس کے پاس آئے۔ نوفل ہر طرف حاتم کے چرچے دیکھ کر اُس سے حسد کرنے لگا اور ایک عرصے بعد یہ حسد دشمنی میں بدل گیا چنانچہ اس نے حاتم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فوج کے ساتھ حاتم کے علاقے پر حملہ کر دیا۔حاتم کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ اس کے علاقے پر حملہ کردیا ہے۔ حاتم نے یہ سوچ کر کہ اس کی وجہ سے خون خرابا ہوگا بے گناہ لوگ مارے جائیں گے۔ اس نے اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ حاتم اپنا شہر چھوڑ کر پہاڑوںمیں جا کر چھپ گیا۔ بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ جب شہر میں داخل ہوا ،تو کسی نے اس کی فوج کامقابلہ نہ کیا کیونکہ حاتم طائی شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بادشاہ نے حاتم کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے یہ اعلان کروادیا کہ جو شخص حاتم کوڈھونڈ کر لائے گا،اس کو بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔حاتم نے پہاڑ کی ایک کھوہ میں پناہ لے رکھی تھی۔ ایک روز اسی کھوہ کے قریب ایک بوڑھا لکڑہارا اور اس کی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔ وہ بہت غریب تھے اور مشکل سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ روز روز کی محنت و مشقت سے تنگ آئی ہوئی لکڑہارے کی بیوی حسرت سے بولی: کاش حاتم طائی ہمارے ہاتھ لگ جاتا، تو ہم اسے بادشاہ کے حوالے کرکے انعام پالیتے اور ہمیں روز روز کی اس مصیبت سے نجات مل جاتی۔لکڑہارا بولا: فضول بات مت سوچ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حاتم ہمارے ہاتھ لگ جائے اور ہم انعام حاصل کرکے آرام سے زندگی بسر کرسکیں۔ ہمارے نصیب میں تو صرف محنت اور مشقت لکھی ہے۔حاتم طائی کھوہ کے اندر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔ یہ سوچ کر حاتم دل میں خوش ہوا کہ چلو وہ اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی کسی کے کام آسکتا ہوں چنانچہ وہ کھوہ سے باہر آیا اور بوڑھے میاں بیوی سے بولامیں ہی حاتم ہوں۔ مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو اور اس کے حوالے کرکے انعام حاصل کرلو۔ جلدی کرو، اگر کسی اور نے مجھے دیکھ لیا، تو پھر تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔حاتم کی باتیںسن کر لکڑہارا بولا: بھائی، تمہارا بہت شکریہ، بے شک ہم غربت کے ستائے ہوئے ہیں، مگر ہم اتنے ظالم نہیں کہ تمہیں بادشاہ کے حوالے کرکے انعام حاصل کریں۔ ہم اسی طرح محنت مزدوری کرکے زندگی کے دن کاٹ لیں گے۔ اپنے آرام کی خاطر ہم یہ ظلم نہیں کریں گے۔حاتم نے کہا: ارے بھائی! یہ ظلم نہیں،تم مجھے زبردستی پکڑ کر تو نہیں لے جارہے ہو۔ میں تو اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جانے کو تیا رہوں۔ میرے اوپر تمہارا یہ احسان ہوگا کہ تم مجھے نیکی اور خدمت کا موقع دو گے۔حاتم نے ان کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی ،لیکن لکڑہارا کسی صورت تیار نہ ہوا، تو حاتم نے اس سے کہا: اگر تم میری بات نہیںمانتے تو میں خود بادشاہ کے پاس جاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے چھپایا ہوا تھا، پھر بادشاہ تمہیں سزا دے گا۔لکڑہارا اور حاتم اس بحث میں مصروف تھے کہ کچھ اور لوگ حاتم کو تلاش کرتے ہوئے ادھر نکلے۔ انہوں نے حاتم کو پہچان لیا اور اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بوڑھا اور اس کی بیوی بھی ان لوگوں کے پیچھے چل پڑے۔ بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص یہ دعویٰ کررہا تھا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے، وہی انعام کا مستحق ہے۔ بہت سارے دعویداروں کی وجہ سے بادشاہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ حاتم کو پکڑنے والا کون ہے؟آخر بادشاہ نے حاتم سے کہا: حاتم، تم ہی بتاؤ کہ تمہیں پکڑ کر لانے والا کون ہے تاکہ اسے انعام کی رقم دی جائے۔حاتم بولا: حضور والا! سچ تو یہ ہے کہ مجھے پکڑنے والا بوڑھا لکڑہارا ہے، جو چپ چاپ پیچھے کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ باقی لوگ انعام کے لالچ میں جھوٹ بول رہے ہیں۔لکڑا ہارا بولا: حضور والا! سچ تو یہ ہے کہ میں حاتم کو پکڑ کر نہیںلایا بلکہ یہ خود آیا ہے، پھر لکڑہارے نے بادشاہ سلامت کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح لکڑیاں کاٹتے وقت اس کی بیوی نے کہہ دیا تھا کہ اگر حاتم ان کو مل جائے، تو وہ اسے بادشاہ کے حوالے کرکے انعام پائیں اور مصیبت کی زندگی سے نجات پائیں۔ حاتم ہماری باتیں سن کر پہاڑ کی کھوہ سے نکل آیا اور اصرار کرنے لگا کہ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں اور انعام پائیں۔ ہم جب حاتم کو کسی طرح بھی لانے پر تیار نہ ہوئے تو وہ خود ہی آپ پاس آنے کے لیے چل پڑا۔ دوسرے لوگ تو ویسے ہی چل پڑے تھے۔ اب یہ سب انعام کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں۔بادشاہ کو جب حقیقت معلوم ہوئی ،تو اس نے حاتم سے کہا: حاتم! میں تمہاری شہرت سے تمہارا دشمن بن گیا تھا۔ مجھے اپنے کیے کا افسوس ہے۔ تم واقعی ایک عظیم انسان ہو۔ میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگتا ہوں۔اس کے بعد بادشاہ نے لکڑہارے کو انعام دیا اور جھوٹے دعویداروں کو سزا دی اور حاتم کا سارا علاقہ اسے واپس کرنے کا اعلان کیا۔بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مورخ محمد بن اسحاق نے کتاب ’’الفہرست ‘‘میں کہانیوں کی، جس کتاب کا ذکر (ہزار افسانہ)کے نام سے کیا ہے، وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں جو کہانی بطور نمونہ ہے وہ الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے۔
ANS 03
عہد وسطیٰ شعر کی نغمہ طرازیوں سے ایسا گونج اٹھا کہ ہم اب تک بھی میرؔ ، سوداؔ ، مومنؔ و غالبؔ پر سردھنتے ہیں لیکن دورِجدید کا تقاضہ یہ تھا کہ اردو، ادیب ، شاعری کی مسحورکن ترنم فضاؤں سے نثرکی صاف اورسلیس سرزمین پر اتریں۔ چنانچہ مولانا حالیؔ شبلی اورآزادؔ نے گو اپنی شاعرانہ تگ و دو کے شاہکار چھوڑے ہیں لیکن وہیں ان کے نثری کارنامے بھی کچھ کم شاندارنہیں ۔ اب اسے زمانے کی رفتار کہئیے یا روح العصراورپھرکچھ اور بہر کیف عہد وسطیٰ سے ادیبوں نے بجائے شاعری کے زیادہ نثر کی جانب مائل ہونے لگے۔ یوں سمجھئے کہ جدید نثر کی مثال تاریخ اورادب میں اس مصاحب کی سی ہے جو سب سے آخر دربارشاہی میں شرکت کرکے سب سے زیادہ دربار پر چھاگیا ہو۔ مولانا حالی ، علامہ اقبال اوراکبرؔ الٰہ آبادی کی اپنی طرز ادا ہے اردو شاعری میں نئی راہیں نکالی پھر بھی موضوعات کی جتنی وسعت نثر میں فروغ پائی وہ نظم نہ بن سکی۔ اورایسا ممکن بھی نہیں
ہے ۔ کیونکہ شاعری لطیف ترین جذبات کا اظہار ہوتی ہے جس میں سیاسیات ، عمرانیات تاریخ و تذکرے ، معاشیات و نفسیات اور سائینس و صحت جیسے موضوعات باربار نہیں پاسکتے۔ جدید نثر کی سب سے عظیم خوبی جذبات و خیالات کا آزادانہ اظہاررہتاہے۔ جس کے باعث تصنع اوربناوٹ کی گلکاریوں کے بجائے صفائی وسادگی ، تناسب صحت وحقائق زندگی کی سچی عکاسی ملتی ہے۔ لیکن دوہی ادیب ایسے ملتے ہیں جو باوصف ان خصوصیت کہ اپنے طرزتحریر میں یکتا و منفرد ہیں۔ وہ ہیں مولانا محمد حسین آزاد اورمولوی نذیر احمد دہلوی۔
اردو نثر نگاری میں مولوی نذیر احمد کی اہمیت دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہانھوں نے سب سے پہلے اردو زبان و ادب کو ناول سے روشناس کروایااور دوسرا دہلی کی اس بامحاورہ زبان کو اپنی تخلیقات میں اس طرح محفوظ کیا کہ اس کا ریکارڈ ہمیں انکی تخلیقات کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتا۔ طرزِ تحریر کا اندازہ کرنے کے لئے نذیر احمد کی نثری زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) تراجم (۲) مذہبی تصانیف (۳) ناول نگاری۔
مولوی نذیر احمد کی مترجمی زندگی بھی دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے ایک تو قرآن معظم کا مشہور و مقبول عام ترجمہ اور دوسرا متفرق تراجم جو انگریزی سے اردو زبان میں کئے گئے ۔ انگریزی تصانیف کے تراجم انکم ٹیکس، تعزیرات ہند، ضابطہ فوجداری کا تعلق آپ کے ابتدائی دور ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو زبان میں تراجم کا آغاز اس سے کافی عرصہ قبل ہوچکا تھا۔ چنانچہ سرزمین دکن میں ۱۸۰۱ء سے ۱۸۴۰ء تک کا عرصہ تراجم کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پھر فورٹ ولیم کالج دہلی کا دور جدید اور اواخر میں سائنٹفک سوسائٹی علی گڈھ کا قیام بھی اردو تراجم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ بجز سائنٹفک سوسائٹی علی گڈھ کے دوسری علمی و تہذیبی ادارے اردو تراجم کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ نہیں کے مساوی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اردو زبان ابھی ترجمہ کی صلا حیت نہیں رکھتی تھی۔ مولوی نذیر احمد پہلے ادیب ہیں جنھوں نے ترجمہ کے لئے زبانوں کو موزوں کیا اور انگریزی علمی و فنی اصطلاحات کو اردو سانچہ میں اس طرح ڈھالا کہ وہ اس کا ایک مستقل جزبن گئی ۔خصوصاً قانونی اصطلاحات اس قدر برجستہ ہیں کہ آج بھی قانون داں اصحاب بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ازالہ حیثیت عرفی ، استحصال بالجبر ، تحقیر اختیار جائز، مجرمانہ ثبوت جرم سابق، حبس دوام ، حبس بیجا، حفاظت خود اختیاری وغیرہ وغیرہ ۔ ان کے علاوہ وہ اصطلاحات بھی جو آج کل عموماً متروک الاستعمال ہیں لیکن اپنی جامعیت و معنویت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں ۔ بے نام کا پتہ ، مزاحمت بیجا ، شرک افعال، بیمہ ثبوت، متلزم سزا، عافیت ذاتی ، قانونی مخض المعراء وغیرہ ۔
معزز قارئین ایک ایسے دور میں جب کہ سرزمین ہند کو علوم و فنون (مغربی) کی ہوا تک نہ لگی ہو بلکہ عوام لفظ اصطلاح سے بھی واقف نہ تھے نذیر احمد کا انگریزی علمی اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرنا ایک نہایت ہی کٹھن امر تھا۔ اور خوبی تو اس بات کی ہے کہ نذیر احمد کے پاس تراجم کے کوئی اولیات نہ تھے پھر بھی جس حسن و خوبی سے انجام دیا آپ ہی کی شخصیت تھی۔ اردو تراجم کے بعد ان اصطلاحات کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انگریزی اصطلاحات میں جو تاثیر و قوت رہتی ہے وہ ان میں بھی جوں کی توں باقی ہے۔ دراصل اس کی کامیابی کا راز آپ کی عربی زبان پر وہ دسترس ہے جو نذیر احمد کے لئے انگریزی اصطلاحات کو اردو زبان میں منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہیں اہلیت بیان آپ کے ترجمہ قرآن میں بھی پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادرؒ اور حضرت شاہ رفیع الدینؒ کے تراجم منظر عام پر آچکے تھے لیکن ان کا انداز بیان کچھ اس طرح تھا کہ اس سے نہ صرف د ادائے مطلب کا ہی حق ادا ہوتا اورنہ اردو کی لسانی شان برقرار تھی۔ یوں سمجھئے کہ ان کا اسلوب نگاراس قدر اجنبی ہے کہ ان کی زبان سرے سے اردو ہی معلوم نہیں ہوتی ۔ برخلاف اس کے مولوی نذیر احمد کے تراجم میں ایک آیتہ کریمہ بھی ایسی نہیں ہے کہ جو ادائے مطلب میں کوتاہی برتے یا پھر بے ترتیبی ظاہر کرے۔ یوں بھی قرآن معظم کی جملہ صفات عالیہ میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس سے نہایت ہی معمولی سے معمولی مطلب سے بھی انتہائی فلسفیانہ نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ان دو انتہاؤں کو اس طرح ملا دینا کہ عبارت عام فہم بھی ہو اور باعتبار ادبیت محاوہ روزہ مرہ کی شان بھی، برقرار ہے۔ یہ صرف نذیر احمد کا ہی کارنامہ ہے ۔ ہاں بلاشبہ بعض جگہ ایسے محاورے بھی مستعمل ہوئے ہیں جو کلام الٰہی کی شایان شان نہیں ۔ لیکن اول تا آخر محاورہ روزمرہ کو فنکارانہ عبارت کے ساتھ برقرار رکھنا آپ ہی کا حصہ تھا۔ بحیثیت مجموعی آپ کا قرآنی ترجمہ نہ صرف بہ اعتبار تراجم کہ ادب و دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ آپ کی خصوصیت جس کو بعد کے مترجمین نے بھی تقلید کی ہے وہ یہ کہ مترجم نے جابجا اپنی جانب سے عبارتوں کا اضافہ کیا ہے اور امتیاز کے لئے اپنی خصوصی عبارت کو قوسین میں رکھا ہے یہ عبارتیں کہیں توسیع مطلب تو کہیں تسلسل کلام ، تو کہیں سابق و لاحق کلام کا تعلق بتلانے یا سلیقہاور پختگی ذوق کو ظاہرکرتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے ترجمہ کو بعد کے سارے مترجم ، زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
نذیراحمد کا دراصل سرمایہ کمال آپ کی ناول نگاری ہے۔ مولوی عبدالحق کیا خوب فرماتے ہیں ’’مرحوم نذیر احمد اگرمراۃ العروس کے سوا کوئی دوسری کتاب بھی نہ لکھتے تب بھی اردو کے باکمال ادیبوں میں شمار ہوتے اور آپ کی حیات جاودانی کے لئے صرف یہی ایک کتاب کافی ہوتی۔ واقعی نذیر احمد کی ادبی انفرادیت جس نقطہ کمال پر آپ کے ناول نگاری میں ملتی ہے نہ تراجم میں ہے اور نہ مذہبی تصانیف میں آپ کے ناول صرف مخصوص طرز ادا کی بناء پر اردو زبان و ادب میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ بلاشبہ ایک ایسے دور میں جبکہ اردو زبان ناول کی فضا سے روشناس ہی نہ تھی نذیر احمد کا ناول نگاری میں ید طولیٰ حاصل کرلینا اردو ادب میں ایک معرکہ عظیم ہے ۔ لیکن وہیں فنی نقطہ نظر سے نذیر احمد کے ناول خامیوں سے مبرا نہیں بلکہ بعض تو انہیں ناول ہی تسلیم کرنے سے تردید کی ہے لیکن نوزائیدہ اردو نثر کے ابتدائی دور ہی میں ایک نئے فن کی داغ بیل ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اس دور کی زندگی کی سچی تصویر ہمیں نذیر احمد کے ناول کے بجز کہیں اور نہیں ملتی۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود زندگی ہمارے روبرو مجسم ہوکر آگئی ہے اور چلتی پھرتی باتیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے ان گنت پہلوؤں پر نذیر احمد نے جس صداقت اور وضاحت سے روشنی ڈالی ہے اس کی نظیر اس دور کی شاعری میں اور نہ تاریخ میں ملتی ہے۔
حیات النذیر میں رقم طراز ہیں کہ بعض افراد نے دہلی میں ’’مراۃ العروس‘‘ کے کردار اصغری و اکبری کا مسکان ڈھونڈنے آ نکلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سچ مچ ضرور اصغری و اکبری بھی ہوگزرے ہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود نذیر احمد کی حقیقت۱ نگاری پر ایک برجستہ اور جامع تبصرہ ہے ۔ غالباً اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسا کوئی بھی واقعہ موجود نہیں کہ کسی ادیب کے افسانوں کو لوگ یقینی سمجھنے لگے ہوں۔ درحقیقت یہ صرف نذیر احمد کی قوت بیانی اور طرز اداکا ہی جادو تھا کہ لوگوں نے اصغری و اکبری کو سچ مچ کے انسان سمجھ بیٹھے اگر اس کا مطالعہ کریں تو اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ اس کے تمام کردار ہمیں بالکلیہ جانے پہچانے قریب تر محسوس ہونے لگتے ہیں بلکہ اس کے باوجود ہم سے وہ کسی قدر دوری پر بھی معلوم ہوتے ہیں یہی کسی قدر دوری ہی ہے جو ناول کی جان اور صحیح کردار کی عکاسی کی علامت ہے جس سے زندگی نیم حقیقی و ہم افسانوی معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا نذیر احمد کے ناولوں کو پڑھنے کے بعد قاری یوں محسوس کرنے لگتا ہے کہ انھیں متعارف انسانوں کا دھوکہ ہوتا ہے گویا انھوں نے ایسے انسانوں کو خوب دیکھا اور ان کی لطف صحبت اٹھاتے رہے ہیں۔ زندگی کی ایسی عجیب و غریب عکاسی کی نظیر ہمیں اردو ادب میں بمشکل دستیاب ہے وہ دراصل نذیر احمد کی سیرت نگاری اور ساتھ ساتھ زبان پر قدرت طرز ادا کا بانکپن ہے ۔ آپ کی عظیم ادبی شخصیت کا اندازہ آپ کے ناول کے کمالات اور واقعات ہیں جن میں آپ کا علم ایک خاص قوتِ حس لے کر اٹھتا ہے اور زندگی کی نکھری تصاویر پیش کرتا ہے۔
نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں فنی اور جمالیاتی قدر و قیمت کو پیش نظر رکھا۔ ایک ایسے دور میں جبکہ مسلم معاشرہ روبہ زوال تھا اسلامی روایات دم توڑ رہی تھیں آپ کے ناول قوم میں ترقی اخلاقی سماجی اور سیاسی بیداری پیدا کئے۔ یہ ایک عظیم معرکہ تھا یاد رہے کہ کوئی آرٹ اس وقت تک انسانی روح کی تسکین نہیں کرسکتا جب تک وہ اخلاقی عناصر کا حامل نہ ہو۔ ٹالسٹائی اپنی ڈائری کے ۱۸۹۶ء کے اوراق میں لکھتے ہیں ’’انتہائی جمالیاتی کیف ہمیں کبھی مکمل تسکین نہیں دیتا اور نہ انسان اس کے علاوہ کچھ اور بھی چاہتا ہے اور وہ مکمل تسکین صرف اس چیز سے پاتا ہے جو اخلاقی حیثیت سے اچھی ہو ‘‘ اس طرح نذیر احمد کے ناولوں کی اہمیت بھی سب سے زیادہ اسی اخلاقی قدر و منزلت پر موقوف ہے ۔ آپ نے محض عوامی دلچسپی کے لئے ناول نہیں لکھے بلکہ آپ کا مطمع نظر قوم کی اصلاح و فلاح بہبود تھا۔ اس لئے وہ کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قوم غیر شعوری طور پر اس کی حالت سے آگاہ ہوکر اصلاح و ترقی پر آمادہ ہوجائے کیونکہ ناول نگاری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ زندگی کے ذریعہ کردار کو نہیں بلکہ کردار کے ذریعہ زندگی کو بنائیں۔
نذیر احمد کے ناول کے کردار اس قدر سادے اور واضح ہوتے ہیں کہ قاری بہت جلد سمجھ لیتا ہے لیکن جب یہی کردار مزاحیہ یا طنزیہ رنگ اختیار کرجاتے ہیں تو اور بھی دلچسپ بن جاتے ہیں ۔ مرزا ظاہر دار بیگ اور ابن الوقت اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ زندگی بسر کرنے کا انداز سکھانا نذیر احمد کی تصانیف کا سب سے بڑا مقصد ہے۔اور اس کی ترقی و ترویج میں ان کی زبان نے جو کچھ کیا وہ محتاج بیان نہیں۔
البتہ محاورہ روز مرہ سے نذیراحمد نے انداز بیان کا تعلق کسی قدر تفصیل طلب ہے۔ سب سے پہلے یاد رہے کہ محاورے کے دو جز ہوتے ہیں اصلی مفہوم اورمجازی مفہوم دونوں آپس میں زنجیر کی کڑی کی طرح ایک دوسرے سے ایسے مربوط ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ عموماً ادیب زیادہ تر محاورے کے مجازی مفہوم کو بروے کار لاتا ہے ۔ وہ زبان کی مجازی دنیا میں تب ہی رسائی حاصل کرسکتا ہے جب کہ اس میں اعلیٰ قوت تنقید موجود ہو جس کی دخل اندازی صرف زبان کے مجازی پہلو ہی سے نمایاں ہوتی ہے۔ داخلی زبان یا بامحاورہ زبان تفکر تعقل اور تنقید ہی جس کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بے محاورہ یامعروضی زبان میں ان کا فقدان ہوتا ہے۔
فرنیکائزگوون محاورہ کے تعلق سے لکھتے ہیں یہ ایک داخلی حقیقت کا بالواسطہ ارتباطی اور دانستہ تمثیلی اظہار ہے۔ اسی طرح نذیر احمد کے ناول میں بھی اسی حقیقت نگاری کے خدو قال زیادہ نمایاں ہیں یہی داخلی انفرادیت ہے جو انھیں صاحب طرز ادیب کے زمرہ میں ایک وقیع حیثیت عطا کرتی ہے۔
آخرمیں نذیراحمد کے ناولوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہوئے آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔ نذیر احمد کے دوناول لڑکیوں کے لئے ہیں ان کا موضوع تعلیم ، تہذیب اور اخلاق ہے ۔ مراۃ العروس دو سگی بہنوں کا قصہ ہے جس میں ایک سمجھ داراورمتین اوردوسری پھوہڑ اوربدمزاج ۔ قصہ تمام تر اصلاحی ہے لیکن ان کے شگفتہ طرزبیانی مزاح کے لطف کی رنگارنگی سے اس میں دلآویزی پیدا ہوگئی ہے۔ بنات النعش میں افسانوی عنصر تقریبا مفقود ہے موضوع ایک بدمزاج اور پھوہڑ امیرزادی کی اصلاح ہے۔ اس کی آئے دن کی بدعنوانیوں سے تنگ آکر اصغری کے پاس بھیجا جاتا ہے جو پہلے ناول مراۃ العروس کی ہیروئین ہے ۔ نئی زندگی سے متاثر ہوکر وہ ایک سنجیدہ اور سمجھدار بن جاتی ہے۔ توبتہ النصوح تمام تر ایک انگریزی ناول سے ماخوذ ہے ۔ ابن الوقت کا موضوع ہنگامی ہے اس لئے آج ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ لیکن نذیر احمدکے زمانے میں یہ ایک نہایت ہی اہم سوال تھا ۔ نذیر احمد انگریزی تعلیم اور تہذیب کے مخالف تو نہیں تھے لیکن انہیں پسند بھی نہ تھا کہ مسلمان معاشرہ اپنی تہذیب کو چھوڑ کر انگریزیت اختیار کریں بعض کا خیال ہے کہ ابن الوقت کا اشارہ سرسید کی جانب ہے۔ اس کے پڑھنے سے یہ خیال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ یہ ناول دراصل ایک تاریخی واقعہ پر مبنی ہے ۔ جان نثاران کی بہترین تخلیق ہے جو خطوط رسانی کے فرائض کے بارے میں دلچسپ پیرائے میں پیش کی گئی ہے۔ فسانہ مبتلاً ایک طبع زاد ناول ہے جس میں تعدد ازدواج کے برے نتائج کو ایک قصہ کے پیرایہ میں دکھایا گیا ہے ۔ ’’ایامی‘‘ ایک اصلاحی ناول ہے جس میں بیوہ کے عقد ثانی کی ضرورت کو ایک قصہ کے پیرایہ میں سلیس زبان میں پیش کیا گیا ہے۔
ANS 04
داستانیں ہوں یا ناول اور افسانہ کردار اساسی حیثیت رکھتا ہے۔کردار جس قدر توانا اور مضبوط ہو گا ، کہانی اسی قدر جان دار پختہ اور دلچسپ ہو گی۔ڈاکٹر میمونہ انصاری کی اس راۓکیتائیدمیںکوٸامرمانعنہیںکہانیسویںصدیکےناولوںمیںغالبرجحانکردارنگاریکاہے اور یہ رجحان۔۔۔فرد پرستی کی نفسیات سے ابھرا تھا۔ یہی سبب ہے کہ انیسویں صدی کے ناولوں میں واقعہ اپنی جگہ پر بہت اہمیت نہیں رکھتا بلکہ واقعہ کردار کے تابع ہے۔۔۔(رسوا ایک مطالعہ ، ص٢٥)۔اس کے بالعکس ڈاکٹر احسن فاروقی کردار اور واقعہ کو برابر اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہ کردار واقعہ یا قصہ کا حامل ہوتا ہے۔” فردوسِ بریں” کی بنیادی شناخت اس کے کردار ہی ہیں اور یہ کردار بہت مضبوط ہیں،ان کے بر محل مکالموں نے ناول کے تاثر کو اور بہتر بنا دیا ہے۔مکالمے کہیں مختصر اور کہیں طویل ہیں مگر قصے کو آگے بڑھانے اور منطقی انجام تک پہنچانے میں بے حد معاون ہوتے ہیں۔
ناول نگار کی فنی چابک دستی کا ایک امتحان یہ ہوتا ہے کہ اس نے کہانی کے کرداروں کو کس حد تک جان دار بنایا ہے اور کس حدتک ان کی سیرت اور شخصیت میں کوٸایساامتیازیپہلوہےجسکیبناپروہزندگیکےرنگمیںڈوبےہوۓہونےکےباوجود لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں جن سے ہمیں ہر وقت سابقہ پڑتا رہتا ہے، سید وقار عظیم نے ناول کی کہانی میں کرداروں کی دو صورتوں کی جانب اشارہ کیا ہے:
١۔ کردار ہمیں کہانی کے شروع میں جیسا نظر آتا ہے،وہ ماضی کے واقعات نے اسے بنایا ہے۔ماحولياتی کے گوناں گوں اثرات نے اس کی شخصیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا ہے اور اس شخصیت کی انفرادی خصوصیتیں ہیں جو اس کے لیے خاص ہیں۔کہانی کے اگلے حصوں میں کردار جو کچھ کہتا اور کرتا ہے وہ اس کے مزاج کی اس مخصوص ساخت کے مطابق ہوتا ہے۔
٢۔ ہماری شناسائی ان سے ان کی زندگی کے اس دورمیں ہوتی ہے جب ماحوليات نے ان پر پورا اثرنہیں کیا ہے۔ ماحول آہستہ آہستہ ان پر اپنا اثر ڈال رہا ہےاور آہستہ آہستہ ان کی سیرت کی تشکیل و تعمیرہو رہی ہے۔ایسے کرداروں کو ہم پوری کہانی میں برابر ایک سا رنگ قبول کرتا محسوس کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ کہانی ختم ہوتی ہے تو یہ کردار بھی اپنے پورے قدوقامت کو پہنچے ہوۓنظرآتےہیں۔”(مقدمہ۔فردوسبریں،ص١٧)،سید
وقار عظیم کا کہنا یہ ہے کہ ’’فردوس بریں‘‘ کے کرداروں کی ساخت دونوں طرح کے فنی عمل سے ہوئی ہے اور ناول نگار کی کامیابی یہ ہے کہ جس طرح پلاٹ کے کسی حصے کی طرف سے اس کے دل میں (بعض اوقات متحیرومتعجب ہو جانے کے باوجود) شبہ یا بے یقینی پیدا نہیں ہوتی،اسی طرح کردار بھی جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ ان کے مزاج کی بنیادی خصوصیتوں سے ہم آہنگ ہے ۔(ایضاً ص١٧۔١٨)،
وقار عظیم بعض خوببوں کی بنا پر زمرد کوحسین کے مقابلے میں زیادہ پر کشش کردار قرار دیتے ہیں وہ خوبیاں ان کے نزدیک اس کا حسن و جمال نہیں بلکہ اس کی مستقل مزاجی،دور اندیشی ،مصلحت بینی،ضبط ،تحمل،احتیاط اور پاک دامنی ہیں۔تاہم میری راۓمیں”فردوسِبریں”کاسبسےتواناکردارحسینکاہےجواپنیمحبتکےحصولکےلیےتڑپتاہے۔اسکی بے قراری اس ایک پل چین نہیں لینے دیتی۔وہ خواہش مند ہے کہ اسے زمرد کا قرب حاصل ہو جاۓ۔اسمقصدکےلیےوہکچھبھیکرنےکوتیارہے،زمردایکجامدکردارہےجبکہحسینپارےکیطرحایکمتحرکاورفعالکردارہے۔وصالکیلذتیںاپنیجگہمگروصالکےبعدفراقایکسچےاور دردِ دل رکھنے والے محب کے لیے بہر حال ایک تکلیف دہ امر ہے۔ جنت میں حسیں کا قیام عارضی تھا۔اسے بتایا گیا کہ یہاں ہمیشہ کے لیے آنے والوں کو معاملات و متعلقاتِ حیات سے ناتا توڑنا پڑتا ہے۔حسین کو یہ بات سن کر بہت رنج ہوتا ہے کہ اسے یہ حسین و جمیل مقام چھوڑ کر ایک بار پھر اپنی دنیا میں لوٹنا پڑے گا۔اس پر حسین آبدیدہ و ہو گیا اور نہایت ہی جوشِ دل سے ایک آہِ سرد کھینچ کر بولا:
” آہستہ ! روۓگلسیرندیدموبہارآخرشد ! مجھےتوابھیتیرےوصالکالطفنہیںحاصلہوامگرزمردمجھسےتوابنہجایاجاۓگا۔اباسوقت سے میں ہر وقت تیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے رہوں گا تاکہ کوٸمجھےتجھسےجدانہکرخدے”یہسنکرزمردبھیآبدیدہہوگییاوربولی:”حسین ! یہامرتمہارےاختیارسےباہرہے۔جبوقتآۓگاخبربھینہہوگیاورایکادنیٰغنودگیتمہیںسختعالممیںپونچادےگی۔۔۔”حسین (رو کر)” پھر تو مجھ سے تمہارے فراق کی مصیبت نہ برداشت کی جاۓگی۔جاتےہیاپنےآپکوہلاککرڈالوںگااورتمسےچھوۓایکگھڑیبھینہگزریہوگیکہپھرتمہارےپاسآپہنچوںگا “( فردوسِبریں،ص١٢٣)،
غمِ فراق کی ایکہ صورت داستان کے آغاز میں دکھائی گئی ہے جب زمرد اور حسین حج کے لیے گھر سے نکلتے ہیں مگر زمرد نے اچانک اس مقام پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا جہاں اس کے بھائی موسیٰ کی قبر تھی۔گھاٹیاں عبور کرتے بالآخر وہ قبر پر پہنچ جاتے ہیں ،فاتحہ خوانی کے معاً بعد زمرد کی حالت شدتِ غم کے باعث غیر ہونے لگتی ہے۔ حسین اسے دلاسا دیتا رہا مگر اپنی دگرگوں حالت کو دیکھ کر زمرد نے حسین سے کہا کہ حسین مجھے اپنی زندگی کی امید نہیں۔حسین بھیگی آنکھوں سے کہنے لگا:
“میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا اور جس کسی کے ہاتھ سے یہ وصیت پوری نہیں ہو گی وہ تمہارے ساتھ میری ہڈیوں کو بھی ان ہی پتھروں کے نیچے دباۓگا۔” (ص٥٤)،
یعنی حسین کسی صورت اپنی محبوبہ کی جدائی برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اس کی خاطر وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے ۔۔حسین لذت ِ وصال کا قائل ہے۔حسین اسکے ساتھ مرنے کو تیارہے مگر زمرد اپنی پاک دامنی کی خبر لوگوں تک پہنچانے کے لیے اسے زندہ دیکھنا چاہتی تھی۔حسین اس سے وعدہ تو کر لیتا ہے مگر وہ افسردگی کی سخت گرفت سے خود کو آزاد نہیں کرا پاتا، حسین سمجھتا ہے کہ وہ جوکچھ حاصل کرنا چاہتا ہے شیخ علی وجودی اس ضمن میں اس کا رہبر بن سکتا ہے۔وجودی اپنی مسحور کن شخصی اور ماورائی قوتوں کا حامل ہونے کی بنا پر حسین کو خود سے دور نہیں ہونے دیتا،اس لیے کہ وہ حسین کی جذباتی طبیعت سے خوب واقف تھانجم الدین نیشا پوری اور نصر بن احمد کے بعد وجودی سے اس کی عقیدت اور پھر نفرت دونوں انتہاٶںپرتھیںوہانکیاصلیتجانلینےکےبعدانسےجوسلوککرتا ہے وہ بھی ناولہ میں تجسس پیداکرنے کا وسیلہ ہے۔۔
” فردو س بریں‘‘ کے جملہ کردار ناول کو وقت اور وسعت عطا کرنے کا موجب ہیں۔مذکورہ کرداروں کے ساتھ طور معنی،بلغان خاتون،ہلاکو خان بھی اہم ہیں۔شرر ایک ایسے ناول نویس ہیں جنھوں نے اپنے ناولوں کا خام مواد تاریخ کے جھروکوں سے حاصل کیا اور اپنے تاریخی شعور کو بڑی ہنرمندی سے اپنے فکر و فن کا حصہ بنایا،وہ اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ وہ تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ ادب تخلیق کرنے جا رہے ہیں سو انھوں نے تاریخی حقائق کو ادب کی حساسیت اور لطافت پر حاوی نہیں ہونے دیا،اپنی منشا کے مطابق نتائج اخذ کرنے پر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر یہ طے ہے کہ انھوں نے اردو ناول کو موضوعاتی اعتبارسے آگے بڑھایا اور اس ضمن میں انھیں کردارسازی پر کامل عبوربھی حاصل تھا۔