ANS 01
ایک روایت کے مطابق ان کا تعلق جولاہوں کے خاندان سے تھا۔ وہ ایک مسلمان جولاہے کے بیٹے تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق وہ ایک برہمن بیوہ کے بطن سے پیدا ہوئے جس نے ذلت اور رسوائی سے بچنے کے لیے نومولود کو ایک تالاب کے کنارے پھینک دیا۔یہاں سے ایک مسلمان جولاہے نے ان کو اپنایا اور پرورش کی۔ بالغ ہونے کے بعد بھگت کبیر نے مسلمان مشائخ سے علم حاصل کیا۔ لیکن یہ تعلیم ان کی علم کی پیاس کو نہ بجھا سکی۔ مزید تحصیل علم کے لیے انہوں نے ایک ہندو رامانند کی شاگردی اختیار کر لی۔ ان کے یہ ہندو استاد وشنو جی کے پجاری تھے۔ دو طرز کی تعلیم کے حصول کے بعد دونوں مذاہب کا رنگ ان پر غالب آ گیا اور انہوں نے ہندوازم اور اسلام دونوں کو اپنانے کی کوشش کی۔بھگت کبیر نے عام بھگتوں کی روایت کے خلاف چلتے ہوئے شادی کر لی۔ ان کی اولاد بھی ہوئی۔متعصب ہندوئوں کو ان کا یہ عمل ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے بھگت کبیرکو بنارس سے دیس نکالا دے دیا۔ وہ ذات پات اور مذہبی تفریق کے سخت خلاف تھے۔ شاعر ہونے کے ناطے انہوں نے دوہے کہنا شروع کیے جو بہت جلد ہندوستان بھر میں معروف ہو گئے۔ اپنے دوہوں میں وہ بھگتی کے معارف بیان کرتے۔بھگت کبیر کو ہندو؛ ہندو سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان ان کو ایک ولی کامل کا درجہ دیتے ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ میں بھی کبیر کے دوہے اور اشعار شامل ہیں۔ پیدائش کی طرح ان کی وفات کے سن پر بھی مختلف معلومات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ 1448 عیسوی میں فوت ہوئے جبکہ دوسری مضبوط روایت کے مطابق ان کا سن وفات8 151ہے۔ کہتے ہیں جب بھگت کبیر کا انتقال ہوا تو ہندو اور مسلمانوں میں میت کے حصول پر جھگڑا ہو گیا۔ ہندو ان کی لاش کو جلانا چاہتے تھے جبکہ مسلمان ان کو دفنانے پر بضد تھے۔ اچانک ان کی لاش غائب ہو گئی اور اس کی جگہ چند پھول پائے گئے۔ کچھ پھولوں کو ہندوئوں نے جلا دیا اور کچھ کو مسلمانوں نے دفن کر دیااور قبر بنا دی جو آج تک بھارت کے شہر ماگھر میں موجود ہے۔ عقائد کے لحاظ سے وہ اللہ اور رام دونوں کو مانتے تھے۔ مسجد اور مندر کے وجود کی اہمیت کے قائل نہ تھے۔ خدا کے وجود کو ہر جگہ اور ہر چیز میں تسلیم کرتے تھے۔ ان کے مذہبی فلسفہ کے مطابق انسان کی نجات خدا سے محبت اور انسان سے دوستی میں مضمر ہے۔ ان کے پیروکار کبیر پنتھی کہلاتے ہیں۔ ان کے والد کا نام نیرو اور والدہ کا نام نیما یا نعیمہ تھا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ جولاہے تھے۔۔ ان کی شاعری میں کئی زبانوں کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ مشہور تنقید نگار سردار جعفری اپنی ایک تنقیدی کتاب میں بھگت کبیر کو میر اور غالب کے بعداردو کا تیسرا بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔ اردو کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو بھگت کبیر قلی قطب شاہ سے بھی پرانے شاعر ہیں۔ ان سے پہلے امیر خسرو کے علاوہ اور کوئی شاعر دکھائی نہیں دیتا۔
بھگت کبیر تاریخی کتابوں میں کبیر داس کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا زمانہ سکندر لودھی کا زمانہ تھا۔ سکندر لودھی نے ہی ایک روایت کے مطابق ان کو بنارس سے ماگھر منتقل ہونے کا مشورہ دیااور پھر اختلافات کی بنیاد پرسکندر لودھی نے ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سکندر نے کبیر کو تین مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی لیکن تینوں مرتبہ ناکام ہوا۔ پہلی مرتبہ آگ میں جلا کر، دوسری مرتبہ پانی میں ڈبوکر اور تیسری مرتبہ ہاتھی کے ذریعے کچل کر۔
بھگت کبیر کی عظمت کی گواہ اس کی عوامی شاعری ہے جس میں ہم کو ہندی بھگتی اور اسلامی تصوف دونوں کا رنگ یکجا دکھائی دیتا ہے۔ مذہبی دوہے لکھنے کے باوجود ان کا انداز فکر سیکولر تھاجو انسان کی فلاح و بہبود کا قائل تھا۔ کبیر کی فکر اور فلسفہ ٹیگور، اقبال اور دوسرے کئی اہل قلم کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔
اردو ادب میں افضل جھنجھانوی نے اپنی مثنوی “بکٹ کہانی” کے ذریعے ایک نئی صنف کا آغاز کیا جسے “بارہ ماسہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ افضل جھنجانوی کون تھے اور کہاں پیدا ہوئے اس بارے میں زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔ افضل کا ذکر سب سے پہلے قیام الدین قائم نے اپنے “مخزن نکات” میں کیا تھا اور انہیں دیارِ مشرق کا ساکن بتاتے ہوئے اپنی بات ختم کردی تھی۔یہی حال میر تقی میر کا رہا۔ انہوں نے اپنی تصنیف “نکات الشعراء” میں ان کا ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ قائم کے بعد اسپرنگس نے شاہان اودھ کی کتب کی فہرست شائع کی تو اس نے افضل کا مختصر ذکر کرتے ہوئے صرف اتنا لکھ دیا کہ وہ میرٹھ کے قریبی گائوں جھنجھانہ کے رہنے والے تھے۔ وہیں پروفیسر مسعود حسین خان کے مطابق افضل پانی پت کے رہنے والے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کو لے کر ادبی حلقوں میں ایک اختلاف پیدا ہوگیا۔
والہ نے افضل کو پانی پتی بتایا ہے۔ ان کے قول کے مطابق وہ نہ صرف ہندی اور فارسی کے باکمال شاعر تھے بلکہ فارسی نثر لکھنے پر بھی یکساں قدرت رکھتے تھے۔ معلمی ان کا پیشہ تھا اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ مجمع کثیر ان کے حلقہ ء درس میں شامل ہوتا تھا۔افضل کہاں پیدا ہوئے اس پر بحث ہوچکی لیکن یہ بات طے ہے کہ اردو ادب میں سب سے پہلے بارہ ماسہ کی صنف کا آغاز افضل کی “بکٹ کہانی” کے ذریعے ہوتا ہے۔ میر حسن کے مطابق ان کی مثنوی “بکٹ کہانی” کو کافی شہرتیں حاصؒ ہوئیں۔ حالات تو یہاں تک پہنچ گئے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی اس مثنوی کے اشعار کو زبانی یاد کرلیا۔
افضل ہندی زبان کے بھی بڑے ماہر تھے اور انہوں نے ہندی زبان میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ ان کی ہندی شاعری اب موجود نہیں ہے۔مولانا افضل ایک عالم بھی تھے لیکن ایک حادثے نے ان کی زندگی کو بدل دیا اور وہ شاعری کی نشستیں قائم کرنے لگے۔ ہوا یوں کہ انہیں ایک ہندو لڑکی سے عشق ہوگیا اور اس عشق کی وجہ سے زہد و تقوی کو خیرآباد کہا اور وارفتگی کے عالم میں عاشقانہ غزل کھنے لگے جن میں سے ایک غزل کا مطلع یہ ہے:
عالم خراب حسن قیامت نشان کست
دور کدام فتہ گراں است زمان کست
مولانا افضل کی یہ کیفیت دیکھ کر وہ عورت بے عزتی کے ڈر سے شہر متھرا جا بسی۔ مولانا کچھ عرصہ تک سر ٹکراتے رہے اور بالاخر پتہ حاصل کر کے اس کے شہر پہنچ گئے۔ وہاں ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ وہ لڑکی بخوشی ایک باغ میں سیر کر رہی ہے۔ افضل بے اختیار اس کی جانب بڑھے اور حسبِ حال یہ شعر پڑھا:
خوشا رسوائی و حال تباہے
مولانا کی یہ بے موقع کہی ہوئی بات لڑکی کو بہت بری لگی اور اس نے ان سے کہا کہ آپ کو شرم نہیں آتی؟ آپ کی داڑھی سفید ہو رہی ہے اور آپ اظہارِ محبت کر رہے ہیں۔ لڑکی کی اس بات کو سن کر مولانا نے اپنا حلیہ بدل دیا اور داڑھی منڈوا کر زنار پہنا اور مندر کے ایک پجاری کی صحبت اکتیار کر لی۔
جب پجاری کی وفات ہوگئی تو افضل اس مندر کے پجاری مقرر ہوئے۔ اتفاق سے ایک دن وہی لڑکی مندر میں تشریف لاتی ہے اور جب وہ پجاری کے پائوں چھونے کے لئے ہاتھ نیچے لاتی ہے تو افضل اس کے ہاتھ پکڑ کر آنکھوں سے لگا لیتے ہیں۔ اس پر وہ لڑکی انہیں پہچان لیتی ہے اور حیران رہ جاتی ہے کہ اس کے عشق میں وہ مندر کے پجاری بن گئے۔ بالاخر وہ لڑکی مسلمان ہوجاتی ہے اور افضل بھی اسلامی ماحول میں آ کر اس سے شادی کر لیتے ہیں اور باقی زندگی بخوشی گزارتے ہیں۔
ANS 02
گوجر قوم کی زبان، گوجری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہند آریائی (Indo-European) زبانوں کے گروہ میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور کبھی خطۂ ہند کے متعدد علاقوں بشمول گجرات، کاٹھیاواڑ، دکن، راجستھان اور گنگا جمنا وغیرہ کے درمیانی علاقوں، پنجاب، سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے شمالی علاقوں، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر، ہماچل پردیش، کانگڑہ، آسام میں بولی جاتی تھی، جبکہ یہ زبان افغانستان اور روس کے کچھ علاقوں میں اور چین کے مسلم اکثریتی صوبے شِن جی یانگ (سنکیانگ) میں بھی گوجری بولنے والے موجود ہیں۔
بقول ہمارے فیس بک / واٹس ایپ دوست، فاضل گوجری و اردو شاعر، معلم محترم حق نوازاحمد چودھری کے ’’آزاد کشمیر میں عباس پور (موصوف کا اپنا علاقہ)، سہنسہ، نکیال، کوٹلی کے چند مضافات، باغ کے چند نواحات (یعنی چند نواحی علاقے)، حویلی (اکثریت گوجری بشمول پڑھے لکھے، چند کو چھوڑ کر) پھر چکوٹھی، لیپہ، مظفر آباد میں نیاز پورہ، کھاوڑہ، کہوڑی، پٹہکہ، نیلم میں چوگلی، سرگن ساوناڑ۔۔۔۔۔ان علاقوں میں گوجری بولی جاتی ہے مگر ان علاقوں میں (ناصرف) متوسط طبقہ گوجری بولتا ہے بلکہ بازار اور ہسپتال میں بھی۔۔۔۔یہ مشاہدہ ہے۔ مگر ان علاقوں کا پڑھا لکھا طبقہ اسی بیماری کا شکار ہے جو آپ نے ذکر کی۔۔۔استثنا بھی ہے۔
(یعنی خاکسار کے بقول اپنی مادری زبان چھوڑکر، اردو ، انگریزی اور دیسی زبانوں کی کھچڑی بنانا)، ہزارہ ڈویژن، خصوصاً ضلع مانسہرہ، بٹگرام، او ان کے ملحقہ علاقے۔۔۔ سوات کے علاقہ جات، پوشمال اور دیگر، چترال میں دروش اور اس سے ملحق علاقے، گلگت میں گوپس، پھنڈر، نلتر اور چند محدود علاقے۔۔۔۔ان میں گوجری بولی جاتی ہے، بازاروں میں بھی۔۔۔ گوجری بولنے میں سب زیادہ ہزارہ ڈویژن آگے ہے۔
جہاں بازار مساجد اور اجتماعات میں بھی گوجری بولی جاتی ہے۔‘‘ اس سے قطع نظر کہ گوجری بولنے والوں میں اپنی زبان کے احیاء کا جذبہ بیدار ہوچکا ہے اور متعدد تنظیمیں اور چند ویب سائٹس اس ضمن میں سرگرم عمل ہیں، یہ حقیقت بھی لائق توجہ ہے کہ آزاد جموں وکشمیر اور گردونواح میں گوجری باقاعدہ زبان کا درجہ رکھتی ہے، مگر گلگت بلتستان میں گوجری محض بول چال کی حد تک محدود ہے۔
شمالی علاقہ جات کی گوجری میں ایسے سیکڑوں اردو الفاظ بعینہ شامل ہیں: زندگی، گھاس، سڑک، دریا، پہاڑ، ذہن، ہاتھ، گھر، پھل، ناک، دانت، ماں، باپ، نانی، دَری، خیر، کاغذ، طبیعت، نوکری، قسمت، مرضی، جیت، بادشاہ، امانت، شرط، کہانی اور بکری وغیرہ (گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ مع تقابلی لغت از ڈاکٹر عظمیٰ سلیم، ناشر اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: ۲۰۱۷ء)۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے برعکس، ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ بقول ایک گوجری ادیب کے،’’پنجاب (پاکستان) کے (تمام) گوجر تقریباً ایک صدی پہلے گوجری زبان بولتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ زبان پنجابی میں بدل گئی۔
(یعنی پنجابی سے بدل گئی۔ لوگ گوجری چھوڑکر پنجابی بولنے لگے۔ س ا ص)۔ اس کے باوجود پنجاب کے عمررسیدہ لوگ اس زبان کو جانتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید انکشاف کیا کہ ’’شاہانِ گوجر کتاب میں مشہور مؤرخ اور عالِم مولانا عبدالمالک نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ مجھے خود بڑے بزرگوں نے یہ بات بتائی کہ پنجاب کے گوجر ہمارے ساتھ گوجری بولا کرتے تھے۔ اس زبان کے ابتدائی دور کا پتہ نہیں ملتا۔ لیکن چودھویں صدی عیسوی میں جنوبی ایشیا کے ممتاز شاعر امیر خسرو نے گوجری میں کچھ شعر لکھے ہیں۔
اسی طرح سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں گوجری نظم میں لکھی ہوئی کئی کتابوں کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔‘‘ امیر خسرو نے کہا تھا: گُجری کہ دَرحُسن ولطافت چومہی/آں دیگِ دہی بَرسرِتوچترشہی/ازہر دولت قندوشکر ریزد/ہرگاہ بگوئی ’دیہی لیو، دیہی‘۔ (گوجری ادب کی سنہری تاریخ)۔ کس قدر صاف زبان ہے ’دیہی لیویعنی دہی لو، یا، لے لو‘۔ اب آپ اسے گوجری کہیں، قدیم اردو کہیں یا ہندوی، بہرحال اپنے وقت کے عظیم سخنور نے ایک عام گوجری عورت کی شان بیان کرکے لسانیات کا ایک فن پارہ ہمارے لیے چھوڑا۔ امیر خسرو کی ہمہ جہت شخصیت اور ادبی مقام سے متعلق اردو میں تحقیق تشنہ ہے۔
ان سے ماقبل ہندوی (یعنی قدیم اردو) کے اولین صاحب دیوان شاعر مسعود سعد سلمان کے دو میں سے ایک بھی دیوان باقی نہیں، ورنہ ہم اپنی زبان کی قدامت، کوئی ایک ہزار سال قبل، غزنوی عہد میں بہ آسانی ثابت کرسکتے تھے۔ امیرخسرو کے بعد ، شاہ میراں جی، شاہ باجن، جانم چشتی، سنت کبیر اور اَمین گجراتی کے گوجری کلام پر تحقیق ہنو ز تشنہ ہے۔ (یہ تمام اسماء عموماً گجراتی اور قدیم اردو شاعری کے باب میں زیر بحث آتے ہیں۔ اس بابت آگے چل کر بات ہوگی)۔
’’بیسویں صدی میں گوجری ادب کا جدید دور شروع ہوا تو اولین نام نون پونچھی کا سامنے آیا، پھر سائیں قادربخش، علم دین بَن باسی، میاں فتح محمد درہالوی، مولانا مہرالدین قمرؔ، میاں نظام الدین لاروی، خدابخش زارؔ اور سَروَری کسانہ نے نمایاں مقام حاصل کیا۔‘‘ یہ عبارت اس ہیچ مدآں اردو قلم کار نے خود، گوجری میں لکھی گئی کتاب ’’گوجری ادب کی سنہری تاریخ‘‘ از ڈاکٹر رفیق انجم اعوان، ماہر معالج ِ اطفال، بامِ ثریا چنڈک، پونچھ (مقبوضہ کشمیر)، ناشر جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگوئجز، لال منڈی، سری نگر۔ کشمیر (مقبوضہ) و کنال روڈ، جموں (مقبوضہ)، مطبوعہ ۲۰۰۱ء سے، بغیر کسی کی مدد کے ترجمہ وتلخیص کرکے لکھی ہے۔
اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گوجری، اردو سے کس قدر قریب ہے۔ گوجری کے دیگر مشہور شعرا میں اسرائیل اثر، اقبال عظیم، اسماعیل ذبیح راجوروی، اسرائیل مہجور، رانا فضل حسین (بابائے گوجری)، صابر آفاقی، مخلص وجدانی، غلام یٰسین غلام، غلام احمد رضا اور حق نواز احمد (عرف حق نواز چودھری) بھی شامل ہیں، جن کی نظم ونثر عوام وخواص میں مقبول ہوچکی ہے۔ خاکسار کے کثیرلسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider] میں بھی مؤخرالذکر اور اُن کے والد ماجد کا گوجری کلام شایع ہوچکا ہے۔
ہندآریائی زبانوں کے تقابل کے بعد مرتب ہونے والی تحقیق کا خلاصہ نکتہ وار پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت تو روزاول سے مُسلّم ہے کہ دنیا کی اکثر زبانوں میں بنیادی الفاظ خصوصاً خونی رشتوں کے لیے مستعمل الفاظ یکساں یا مماثل ہیں۔ گوجری زبان کے ایسے بنیادی الفاظ، حیران کن طور پر اکثر ہندآریائی زبانوں کے ایسے الفاظ سے غیرمعمولی مشابہت کے حامل ہیں۔
گوجری زبان کا قدیم لفظ ’ماتر‘ بمعنی ماں، لاطینی اطالوی اور ہِسپانوی میں ’’مادر‘‘ہوگیا (دال اور رے دونوں ساکن)، یونانی میں مِتیرا، فرینچ میں میغ، چیک اور سلوواک میں ماتکا، سلووینی اور یوکرینی میں ماتی، لیٹوئین میں ماتے، بلغاری، مقدونی، بوسنیئن، سربئین اور کروشیئن میں مائکا، ولندیزی یعنی ڈَچ میں مُودَر، المانوی یعنی جرمن میں مُوٹَر (رے تقریباً معدولہ)، جبکہ انگریزی میں یہ لفظ ’’مدر‘‘ بن گیا۔
ANS 03
عربی اور فارسی زبانوں نے مل کر اردو زبان کی ترقی و نشو نما میں اہم کردار ادا کیا ،عربی و فارسی زبان کے بغیر اردو نا مکمل ہے اور انھیں کے باہمی امتزاج سے اردو زبان کا دامن وسیع تر ہوا ۔اسی طرح اردو کے فروغ میں دکن نے بھی اپنی بے لوث خدمات انجام دی ہیں ،ان کی خدمات کا دائرہ صدیوں پر محیط ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دکنی زبان نے اردو کا ڈھانچہ اور اردو کا لب و لہجہ متعین کیا ۔یہی نہیں دکن کی تہذیب و تمدن نے بھی اس زبان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ولی ؔکو پل اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دو تہذیبوں ،دکن کو شمال سے ملا کر دونوں کے اٹوٹ سنگم سے ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی ۔ولی ؔ کا شمالی ہند کا سفراردو زبان میں ایک نئے باب کی ابتدا لے کر آیا ۔اردو زبان کا دامن اس باب سے وسیع ہوتا چلا گیا۔ دکن کے شعرا نے اپنی مادری زبان میں شاعری ترک کی اور عوام کے ذوق کے مطابق اشعار کہنے لگے ۔آگے چل کر تراجم اور فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو میں ایک اور اہم تبدیلی لے کر رونما ہوا ۔دہلی میں مظہر جان جاناں اور لکھنؤ میں شیخ امام بخش ناسخ ؔ کی اصلاح زبان کی تحریکوں نے اردو کی قدیم روایت اور اس کی ساخت کو نقصان پہنچایا۔یہاں تک کہ دکنی زبان کو دیہاتی زبان کا نام دے کر اس زبان کی عظیم الشان روایت اور اس کی خدمات کے ساتھ بد دیانتی بھی کی گئی ۔لیکن اس کے باوجود بھی دکن کی شاعری کی عظمت کا اعتراف شمالی ہند کے شعراء نے کیا خصوصاً متوسط دور کے چند بلند پایہ شاعروں کی خدمات کا اعتراف کیاگیا جن میں ولی ؔاورنگ آبادی کی شاعری اوران کی خدمات کااعتراف شمالی ہند کے شعرا نے بھی کیا ہے ۔لیکن ستر ہویں صدی کے وسط سے دھیرے دھیرے دکنی ،زبان و ادب کے افق سے معدوم ہونے لگی۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد دوبارہ اس کا احیا حیدر آباد اور تلنگانہ شہر کی صورت میں آیا ۔لیکن زبان کبھی ختم نہیں ہوتی اور یہ زبان تو وہاں کی عوام میں رچی بسی تھی ۔اگر ہم دورِ جدید کا معائنہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ دور جدید میں دکنی اور اردو دونوں کی اپنی علیحدہ شناخت ہے اور یہی ان دونوں زبانوں کا خاصہ ہے ۔اگر ہم جغرافیائی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو آندھرا پردیش ،تلنگانہ ،کر ناٹک ،تمل ناڈو،مہاراشٹرااور کیرالہ کے بیش تر علاقوں میں بول چال اور خط و کتابت کا وسیلۂ اظہار دکنی زبان ہی ہے۔یہاں تک کہ دکن کے باشندے اپنے روز مرہ کے علاوہ تجارت ،کاروبار ،رسم و رواج، جلسوں ،محفلوں میں بھی بلا تکلف اسی زبان کا ہی استعمال کرتے ہیں ۔
دکنی شاعری کا ابتدا سے ہی ایک خاص انداز اور خاص پہچان رہی ہے جس کی جھلک ہمیں جدید دکنی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے مثلاً قدیم دکنی شاعروں کے یہاں ہمیں اہم خصوصیات جو نظر آتی ہیں ان میں حقیقت ،سادگی ،برجستگی اور روانی شامل ہے۔ اس کے علا وہ ان قدیم شعراء کے یہاں ہمیں تصنع ،بناوٹ ،تکلف اور صنائع وبدائع کا بے جا استعمال بھی نہیں ملتا ۔جدید دور کی دکنی شاعری میں بھی ہمیں سیاسی ،سماجی ،معاشی، معاشرتی مسائل کے علاوہ عشق و محبت کے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ دور جدید کے شاعروں نے نہ صرف غم ذات بلکہ غم کائنات کو بھی اپنے اشعار میں بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ہے ۔جب ہم بیسویں صدی کے جدید دکنی شعرا اور ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتے ہیں کہ قدیم شاعری کی تمام اوصاف جدید دکنی شاعری میں لا محالہ موجود ہیں ۔مقامی رسم و رواج اور تہذیب و تمدن اور ثقافت کا اہتمام اور تال میل ہمیں ان کی شاعری میں بخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔بیسویں صدی کے دکنی شعرا کی فہرست میں ہمیں پہلا نام ’رحیم صاحب میاں جی‘ کا ملتا ہے ان سے قبل ہمیں کسی اور شاعر کا کلام نہیں ملتا۔ رحیم صاحب میاں کی شخصیت ہمہ جہت تھی وہ اپنی بات چیت کے انداز، اپنے لطائف، انداز بیاں اور اپنے انوکھے پن سے محفلوں میں جان بھر دیتے تھے ۔ان کی شاعری بھی ان کی شخصیت ہی کی طرح تھی ،ان کی شاعری لطائف سے پُرہوتی جس کا کوئی سماجی یا اصلاحی مقصد نہیں تھا ۔ان کی شاعری کا اہم مقصد وقت گزاری اور لطف اندوزی تھا ۔
علی صاحب میاں کے علاوہ ایک اور اہم نام نذیر احمد دہقانی ؔ کا ملتا ہے جن کی شاعری کا دامن علی صاحب میاں کے نسبتاً زیادہ وسیع ہے۔ ان کے یہاں شاعری میں تخیل اور تفکر دونوں ہی عناصر بخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔دکنی شاعری پر جو خاموشی برسوں سے چھائی ہوئی تھی، وہ نذیر احمد دہقانی کی شاعری توڑتی نظر آتی ہے ۔ان کے کلام کا مجموعہ بھی ’’نوائے دہقانی ‘‘ کے نام سے دیکھنے کو ملتا ہے۔دہقانی کے بعد جدید دکنی شعرامیں علی صائب میاں نے دکنی شاعری کا آغاز کیا ،وہ دہقانی کے دکنی کلام سے بہت متاثر تھے ۔علی صائب میاں دکنی کے ممتاز و معتبر شاعرمانے جاتے ہیں۔ 1948میں ان کا دکنی مجموعہ کلام ’’گھوکروکے کانٹے ‘‘ شائع ہوا ۔آپ کی شاعری لسانی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہیں ۔علی میاں صائب کی شاعری کو ہم قدیم دکنی زبان کا مسلسل اور جدید دکنی دور کا آغاز کہہ سکتے ہیں ۔ان کی زیادہ تر نظمیں سماج و معاشرے کی آئینہ دار ہیں ۔
جدید دکنی شعرا میں مخدوم محی الدین کا نام سر فہرست ہے ان کا شمار جدید شعرا میں بڑے شاعروں میں کیا جاتا ہے ۔جنہوں نے اپنی شاعری سے اردو کو نئے لب و لہجے سے آشنا کرایا ۔انھوں نے ایک تعزیتی جلسے میں اپنی ایک نظم ’’پیلا دوشالہ ‘‘ پڑھی ،جس سے مزاحیہ نظموں میں ان کی شہرت ہوگئی ،ان کی شہرت کا یہ عالم ہو گیا کہ آج تک اس پایہ کی شہرت دکن کے کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہو سکیں۔
مخدوم محی الدین نے روایتی شاعری سے الگ اپنا راستہ بنایا۔ان کی شاعری میں ساغر و مئے کے تذکرے، روایتی محبت کی حکایتیں اور رقیبوں کی شکایتیں اور محبوب کی بے وفائیوں کا ذکر نہیں ملتا بلکہ محبت و محنت ان کا خاص موضوع ہے ۔
امجدؔ حیدر آبادی بھی دکن کے جدید شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری اور خاص طور سے رباعیوں سے دکنی اردو کی خدمات انجام دی ہے۔آپ حیدر آباد میں پیدا ہوئے ۔آپ اوائل عمر سے شعر کہنے لگے تھے ۔امجد ؔحیدرآبادی صوفی منش بزرگ تھے ان کی شاعری وجدانی کیفیات کی حامل ہے ۔
یوں تو امجد حیدرآبادی نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن آپ کو جو شہرت رباعیات لکھنے سے حاصل ہوئی وہ کسی اور صنف میں حاصل نہ ہو سکی اور حقیقت یہ ہے کہ رباعیات میں آج تک آپ کا کوئی ثانی نہیں ۔آپ اس فن میں ’’امام الفن ‘‘ کے درجہ پر فائز ہیں ۔آپ کی رباعیات کا اکثر و بیشتر محور قرآن و حدیث میں ہے۔ا مجدؔ حیدر آبادی کو ان کے عہد میں ہر لحاظ سے شہرت حاصل ہوئی ۔
جدید دکنی شاعری کا ایک پر وقار نام ناسر سرور ڈنڈا ہے ۔آپ کی شاعری میں غیر معمولی طور پر دکنی کا رنگ شامل ہے ۔آپ کی شاعری میں سیاسی سماجی اور معاشرتی شعور کا عنصر شامل ہے ۔آپ کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ آپ نے طنز و ظرافت کے پیراے میں ہنستے ہنساتے انسانیت کی دکھتی رگوں کو چھیڑا ہے ۔شاہ پور واڑی ،سنجیواریڈی ماما اور ادے نامادیشم ان کے سیاسی و سماجی شعور کی عمدہ نظمیں ہیں ۔
جدید دکنی شاعری میں سلیمان خطیب ؔکی خدمات کا انکار ممکن نہیں۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے موجودہ اردو اور دکنی کے امتزاج سے بہت کام لیا ہے اور یہی خصوصیت ان کی شاعری کو دیگر شعرا سے بھی منفرد بناتی ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور اہم وصف ان کی شاعری میں پوشیدہ ہے کہ ان کی شاعری کی زبان میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے ہیں جو قدیم دکنی شعرا کے یہاںدیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان کا شعری مجموعہ ’’کیوڑے کا بن ‘‘ خاص اہمیت رکھتا ہیں ۔
گلی نلگنڈوی کا نام بھی جدید دکنی شاعروں میں اہم نام ہیں۔ ان کی شاعری کے خاص موضوعات معاشرتی زندگی کے عام مسائل ہیں، ان کا خاص وصف یہ ہے کہ انھوں نے اپنی باتیں اپنی شاعری کے ذریعے دھیمے لب و لہجے کے پیراے میں کی ہے ۔دکنی شعرا میں بگٹر رائچوری کا دکنی کلام بہت مختصر ہے ۔لیکن ان کے کلام کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا ۔انھوں نے اپنی منظومات میں سماجی ،معاشی ،معاشرتی،اور تہذیبی زوال کی بہت عمدہ عکاسی کی ہیں ۔اس سلسلے میں ان کی نظم ’حیدر آباد نگینہ‘،’ اندر مٹی اوپر چونا‘خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔دکن کے ایک اور اہم نام شمشیر ؔکوڈنگل کا ہے جن کاتعلق ضلع محبوب نگر سے تھا ۔انھوں نے بھی اپنی شاعری میں ٹھیٹ دکنی کا استعمال کیا ہے ۔وہ اپنی شاعری کا مواد اپنے گردو پیش کے ماحول میں اکٹھا کرتے ہیں ۔انھوں نے اپنے کلام میں سماجی زوال اور نظم و نسق کے انتشار کو پیش کیا ہے ۔
محبوب نگر کے ایک اور اہم و مقبول عام شاعر چچا ؔ پالوری ہیں ۔انہوں نے دیہی زندگی اور وہاں کے مسائل کو قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا تھا جس کا ان کی شاعری پر بھی گہرا اثر ہوا ۔انھوں مجبور و محکوم ،بے بس و لاچار لوگوں کی حمایت اپنی شاعری میں کی ہیں ۔یہ دور حاضر کے صف اول کے شاعر ہیں ۔حفیظ خاں سپاٹ ؔ (مذاق ؔ) نے بھی دکنی کے وسیلہ سے طنز و مزاح پیدا کرنے کی سعی کی ۔ان کے یہاں سنجیدہ کلام بہت کم ملتا ہے۔ان کی مشہور نظم ’’فیشن کی گڑیاں ‘‘ ہے جس میں انھوں نے مغربی تہذیب کی بے جا تقلید پر طنز کیا ہے ۔
دکنی شاعری کی دنیا کا ایک اور چمکتا ستارہ شاذ ؔتمکنت تھے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں تخیل کی بلندی ،پر شکوہ الفاظ ،مخصوص نظامِ فکر اور ان کا اپنا ایک مخصوص انداز بیاں بھی ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری کی دنیا میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔شاذ ؔتمکنت کے یہاں موضوعاتی نظموں کا ذخیرہ ملتا ہے ۔شاذ ؔتمکنت کے ہم عصر شعرا میں اریب ؔ،شاہد ؔ،مخدوم ؔ اور وجد ؔ سے عالمی شہرت یافتہ شاعر تھے لیکن شاذ ؔتمکنت نے ان ممتاز شاعروں کے درمیان اپنی منفرد شناخت قائم کی۔
قاضی ؔسلیم بھی دکنی شاعری کے ایک اہم جدید شاعر ہیں ان کا تعلق اورنگ آباد سے ہے اب تک ان کے کئی مجموعہ کلام منظر عام پر آچکے ہیں ان میں سے ایک شعری مجموعہ کلام ’’نجات سے پہلے‘‘کو خاصی شہرت حاصل ہوئی ۔ قاضی سلیم ؔ کی شاعری میں ہمیں آزادی سے جینے ،گزرے ہوئے وقت کو پیچھے چھوڑ کر حال میں جینے اور غم ،فکر،پریشانی کے بجائے ہر مصیبت کا کھل کر سامنا کرنے کی ہمت افزائی اور امید ملتی ہے ۔
شاہد صدیقی نے اپنی غزلوں سے دکنی شاعری کو ایک نیا مقام عطا کیا ۔ان کی شاعری کی رونق نے دکنی شاعری کو ایک نئی جلا بخشی ۔ان کا شعری مجموعہ ’’چراغ منزل ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔شاہد صدیقی ایک شاعر تھے کہ جن کے اشعار میں جدّت و ندرت، فصاحت و بلاغت، اشارہ و کنایہ کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ دیکھنے کو مِلتا ہے جو انہیں عام شاعروں سے جُدا گانہ پہچان عطا کرتا ہے۔دکن کے جدید شعرا میں ایک اور اہم نام بشر نواز کا بھی ہے ۔ان کا ایک شعری مجموعہ ’’رائیگاں ‘‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔بشر نواز غزل اور نظم دونوں کے شاعر تھے ۔بشر نواز چھوٹی چھوٹی بحروںمیں بڑی بڑی باتیں کہہ دینے کا ہنر بخوبی جانتے تھے ۔ ان کے کلام میںہجر وفراق اور جدائی کا درد جا بجا بکھرا نظر آتا ہے۔ بشر نواز کی نظم نگاری میں عصری مسائل و حالات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی نظمیں ان کے جذبے اور شعری استدلال کو جاننے اورسمجھنے میں معاون ہیں۔
سلیمان اریب کی شاعری فطری ہے اور ان کی غزلوں میں موضوعات کی سطح پر ایک طرح کا تنوع ہے ،جس سے ا ن کے وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔سلیمان اریب نے اپنے ذوقِ جمال کا ثبوت پیش کرتے ہوئے بہت سارے اشعار ایسے بھی کہے ہیں جن میں جمالیاتی کیف وکم کی چاشنی ایک انوکھے ذائقے سے روشناس کراتی ہے۔ان کی شاعری بلاشبہ اردو ادب کے سرمایے میں اہم اضافہ ہے ۔عزیز قیسی کی شعری جہات میں تنوع بھی ہے اور کشادگی بھی ۔ جس میں شعریات کے سبھی پہلو روشن نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعرانہ بصیرت اور ہنرمندی سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔اسلوب بے حد سلیس اور سادہ ہے۔پیچیدہ تراکیب،ثقیل الفاظ، نادر تشبیہات اور استعارات سے وہ اپنی غزلوں اور نظموں کو بوجھل نہیں کرتے۔سیدھے سادے لفظوں میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں ۔عزیز قیسی کی نظموں میں حُسن بیان،ندرت خیال،وضع اسلوب،خوبیِ ادااور تشبیہات و استعارات کی بہترین مثالیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔
مغنی تبسم کا تعلق حیدرآباد سے ہے ۔انھوں نے بھی اپنی رنگ برنگی شاعری سے دکنی شاعری کے سرماے میں اہم اضافہ کیا ۔ان کا شعری مجموعہ ’’مٹی مٹی میرا دل ‘‘ کے نام سے منظر عام پر بھی آچکا ہے ۔مغنی تبسم نے غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ہے ۔ان کی نظموں اور غزلوں دونوں ہی میں معنویت سے بھر پور اشارات اور کہیں کہیں اشاراتی فضا بھی ملتی ہے۔ان کی ایسی نظمیں جس میں انھوں نے اشاریتی پیرایہ میں اپنے ماضی کو روشن کیا ہے ،وہاں اشاریت کی بہتات بھی ہے۔اس اختصار نے ان کے کلام میںاشاریت کو نکھاردیا ہے ۔۔بلاشبہہ مغنی تبسم جدید دکنی شعرا میں ایک انفرادی حیثیت کے حامل شاعر تھے، جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
سلیمان اطہر جاوید اردو کے معتبر نقاد ،محقق،کالم نگار ،مرقع نگار ہونے کے ساتھ ممتاز شاعر بھی ہے۔ان کا شعری مجموعہ’ آنگن آنگن‘ ،’دکھ کے پیڑ‘ ہیں۔ ان مجموعوں میں غزلوں کی تعداد تو کم ہے لیکن ان کی غزلیں اعلیٰ معیار کی ہیں ۔سلیمان اطہر جاوید کی غزلوں میں فنی لوازمات ،وسعت مضامین،منفرد موضوعات ،منفرد انداز بیان اور زبان کی دلکشی و رعنائی ایسی ہے جو اُن کو ممتاز شاعروں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔سلیمان اطہر جاوید کا ایک خاص رنگ یہ بھی ہے کہ انھوں نے روایتی تراکیب کو بحال رکھتے ہوئے بھی جدت طرازی سے کام لیا ہے آپ کے بیش تراشعار عوام میں مقبول ہونے کی سند رکھتے ہیں ۔قمر اقبال نے اپنے احساسات و جذبات کو اپنی غزلوں میں بڑے دلکش پیراے میں پیش کیا۔انھوں نے اپنے کلام میں شعری صنعتوں ،تشبیہات و استعارات کو انتہائی حسین اور دلکش انداز میں استعمال کر کے دلچسپ بنا دیا ۔
راہی فدائی کی شاعری میں فطرت کی بھی عکاسی ملتی ہیں ،انھیں چرندوں پرندوں سے بھی بہت لگاؤ تھا ان کی غزلوں میں جانوروں، پرندوں اورکیڑے مکوڑوں کا بھی ذکر ملتا ہے اور یہ ذکر بیانیہ نہیں بلکہ مسلسل استعاراتی انداز میں جلوہ گر ہیں اور یہ نئی جہت راہی فدائی کی غزلوں کی اہم خصوصیت ہے ۔راہی فدائی نے عربی و فارسی کے ساتھ ساتھ کلاسیکی شاعری کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا ۔ان کی غزلوں میں ہمیں کلاسیکی رنگ بھی نظر آتا ہے ۔ان کی غزلوں کا اپنا منفرد انداز ،اسلوب اور منفردلب و لہجہ تھا ۔بلاشبہ وہ دکن کے ممتاز غزل گو ہیں۔
وحید اختر بھی دکن کے بڑے قابل قدر جدید شعرا میں شمار ہوتے ہیں اور اپنی شاعری کے ذریعے انہوں نے جدید دکنی خزانے میں گراں قدر اضافے کئے ہیں ۔ نام وحید اختر اور تخلص ’’وحید ‘‘ ہے۔جدیدیت کے زیر اثر اردو شاعری کے موضوع ،اسلوب اور ہیئت تینوں سطحوں پر نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ترقی پسند شاعروں نے جہاں نظم پر اپنی توجہ خصوصا مرکوز کی وہیں دوسری طرف جدیدت پسند شاعروں نے نظم اور غزل دونوں صنفوں میں اپنے فکر وخیال کی ترجمانی کی اور نئے تجربے بھی کیے ۔ہیئت میں نیا پن لانے کے لئے آزاد نظم ،نثری نظم ،آزاد غزل اور نثری غزل کے امکانا ت پر بھی غور کیا گیا ۔
اس طرح بیسویں صدی کی ابتدا اور بالخصوص آزادی کے بعد دکنی زبان میں شاعری کرنے والوں کی لمبی فہرست سامنے آتی ہے جن میں سے اہم شعرا کی شاعری کا یہاں جائزہ پیش کیا گیا ۔ان کے علاوہ اور بھی دکن کے جدید شعراہیں جنھوں نے ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد دور جدیدیت کے زیر سایہ دکن کے اردو ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اورمسلسل اپنی غیر معمولی خدمات انجام دے بھی رہے ہیںجس سے دکن کے ادبی سرماے میں اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔جن میں سید حسینی نہری کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ان کا تعلق مراہٹ واڑہ سے ہے اور 1960 سے شاعری کر رہے ہیں ۔ ان کا شعری مجموعہ’’شب آہنگ ‘‘ کے نام شائع ہوا اور بیس سال کے بعد ’’شب تاب ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے ۔اسی طرح دکن کے اور بھی جدید شعرا ہوئے ہیں جنھوں نے 1960 کے بعد سے دکن میں اردو ادب کو قوت بخشی ہے ۔قمر اقبال ،سلیمان خمار ،جاوید ناصر، رؤف خلش، مصحف اقبال توصیفی ،حسن فرخ وغیرہ کا شمار دکنی زبان کے جدید شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے دکنی ادب کو نئے رنگ و آہنگ دیے اور طرح طرح سے دکنی ادب کو زینت بخشی ۔اس کے علاوہ دکن میں بعض شعرا حضرات ایسے بھی ہیںجو شہرت کی غرض سے ’’بگڑی ہوئی اردو‘‘ کو دکنی کے نام سے موسوم کر کے اسٹیج پر واہ واہی بٹورتے ہیں جب کہ بعض واقعی سنجیدہ ہیں جن کو دکنی زبان سے بے پناہ محبت ہیں اور جو اس زبان کی ترقی اور اس کے دامن کو وسیع کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ان شعرا کی شاعری میں ہمیں جدید دور کی خوبیوں کے ساتھ قدیم دور کی کلاسیکیت کا بھی احساس ہوتا ہے ،اس طرح ان کی شاعری میں نئے پرانے دونوں ہی اوصاف کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔
ANS 04
دکن میں اردو کی ابتداء علاء الدین خلجی اور ملک کافور کے حملوں سے ہوئی (۱۳۰۲۔۱۳۱۳ئ) مالوہ، اُجین اور منڈو کو فتح کرنے کے بعد شاہی لشکر نے دکن کا رخ کیا اور دیوگیر (دولت آباد) اور وار نگل پر قبضہ کرتا ہوا راس کماری تک پہنچ گیا۔ خلجیوں کے بعد جونا خان نے اپنے باپ غیاث الدین تغلق کے عہد میں (۱۳۲۱ئ) دیوگیر، وارنگل اور بیدر کو دوبارہ فتح کیا اور وہاں اپنے نائب متعین کر دیے۔ پھر جب جونا خان سطان محمد تغلق کے نام سے دہلی کے تخت پر بیٹھا تو اس نے ۱۳۲۷ء میں اپنا پایہ تخت دولت آباد منتقل کر دیا اور دہلی کے امراء اور عمال ، اہل حرفہ اور تُجار، علماء و فضلا اور شاہی لشکر کو ترکِ وطن کر کے دولت آباد میں سکونت اختیار کرنا پڑی۔ دو سال بعد بادشاہ خود تو دہلی واپس چلا گیا مگر دہلی کے بکثرت باشندے دکن ہی میں آباد ہو گئے۔ اس طرح دکن میں اردو کی داغ بیل پڑی۔ دکن میں اردو کے فروغ کا ایک سبب یہ ہوا کہ حسن گنگو ہی بہمنی نے دکنی اُمراء کی مدد سے ۱۳۴۷ء میں دولت آباد فتح کر لیا اور دہلی سے رشتہ توڑ کر خود مختار بہمنی سلطنت کی بنیاد رکھی (دکن میں اردو از نصیر الدین ہاشمی، ص ۲۴، لاہور ۱۹۴۰)
بہمنی فرمانرائوں نے اردو کو دفتروں کی سرکاری زبان قرار دیا۔ سید عین الدین گنج العلم حضرت نظام الدین اولیائؒ کے ایک سو مریدوں کے ہمراہ اسی زمانے میں دکن آئے، خواجہ محمد حسین گیسود راز نے بھی اسی عہد میں گلبرگہ میں سکونت اختیا رکی۔ بہمنی دور کے اردو ادیبوں میں سلطان احمد شاہ ثالث (۱۴۶۳ئ۔۱۴۸۲ئ) کاروباری شاعر نظامی قابل ذکر ہے۔ اُن سے ایک مثنوی ”کدم و پدم” منسوب ہے۔ اردو زبان اور ادب نے تین سو سال تک جتنی ترقی دکن میں کی اس کی نظیر پورے ملک میں نہیں ملتی۔ اسی لیے دکن کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے پُرکھوں نے اردو کو نکھارا، بنایا، سنوارا اور اس میں ادبی شان پیدا کی تو یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں ہے۔ قطب شاہی (گولکنڈہ ۱۵۱۸ئ۔ ۱۶۸۷ئ) اور عادل شاہی (بیجا پور ۱۴۸۹ئ۔ ۱۶۸۶ع) دور میں اردو کو دکن میں بہت فروغ ہوا اور وہ ملک کی مقبول زبان بن گئی۔
دکن پر ایرانی تہذیب کا اثر ہمایوں بہمنی اور محمود شاہ بہمنی کے وزیر خواجہ محمود گاواں کے زمانے ہی میں بڑھنے لگا تھا۔ محمود گاواں بڑا صاحب فضل و کمال تھا اور علم و فن کا قدر دان تھا ایرانی امیروں اور دانش وروں کو وہ خاص طو ر پر نوازتا تھا کیونکہ وہ خود بھی ایرانی تھا۔ چنانچہ گولکنڈہ اور بیجا پور کی فیاضیوں اور علم پروریوں کا شہرہ سن سن کر ایرانی علمائ، شعراء اور امراء دکن میں آتے اور دولت اور عزت سے سرفراز ہوتے۔دکنی شاعروں نے فارسی کی تقلید میں اردو میں غزل کی ابتداء کی۔ اردو کی سب سے قدیم غزل دکنی شاعر مشتاق کی ہے جو سلطان محمد شاہ بہمنی (وفات ۱۴۸۲ئ) کے آخری زمانہ میں تھا۔ غزل کے دو شعر یہ ہیں:
تجھ دیکھتے دل تو گیا ہور بیو اُپَر بے کَل گھڑی
دیکھے تو ہے جیئو کے اُوپر نَیں دیکھے تو کل گھڑی
آب حیات اور لب ترے جاں بخش و جاں پرور اَ ہے
مشتاق بو سے سوں پیا امرت بھری او کل گھڑی
(دکنی ادب کی تاریخ از ڈاکٹر محی الدین زور کراچی، ص۱۶)
لیکن دکنی شاعر عشق کا اظہار ابھی تک عورت کی زبان سے کرتاتھا، محبوب کو سجن، پیا اور پیئو پکارتا تھا اس کے جسم کو چندر بدن اور سورج مکھی سے تشبیہہ دیتا تھا اور سکھی سے دل کا درد بیان کرتا تھا۔
عادل شاہی دور: دسویں صدی ہجری میں اردو شاعری کی روایت
حسن شوقی:ولادت ۹۴۸ھ وفات ۱۰۴۲ھ اور ۱۰۵۰ھ کے درمیان متعین کی جاسکتی ہے۔جولائی ۱۹۲۹ء میں مولوی عبدالحق مرحوم نے رسالہ ”اردو” میں پہلی بار ایک قدیم شاعر کا تعارف شائع کیا اور اس کے ادبی کارناموں پر روشنی ڈال کر اس کی دو مثنویوں اور تین غزلوں سے اردو دان طبقے کو روشناس کرایا۔ شاعر کا نام حسن شوق تھا، اس کے بعد آج تک ہر تاریخ و تذکرہ میں اس شاعر کا ذکر کیا جاتارہا ہے۔ شہنشاہ اکبر کی فتح گجرات کے بعد وہاں کے اہل علم و ادب بھی انھیں دو سلطنتوں میں تقسیم ہو گئے۔ زوال کے بعد حسن شوقی بھی نظام شاہی سے عادل شاہی سلطنت میں چلا آیا۔ شوقی کا ذکر نہ کسی قدیم تذکرہ میں آتا ہے اور نہ کسی تاریخ میں۔ ہمارے پاس جو کچھ سرمایہ ہے وہ اس کی دو مثنویاں اور تیس غزلیں ہیں۔ شوقی نے اپنی غزل کے ایک مقطع میں اپنے نام کا اظہار قافیہ کی ضرورت سے اس طرح کیا ہے:
جن یو غزل سنایا جلتیاں کو پھر جلایا
وہ رند لا اُبالی شوقی حسن کہاں ہے
ابن نشاطی نے ”پھول بن”(۱۰۶۶ھ) میں شوقی کا ذکر کیا ہے:
حسن شوقی اگر ہوتے تو فی الحال
ہزاراں بھیجتے رحمت مُجہ اُپرال
سید اعظم بیجا پوری نے ”فتح جنگ” میں اس کی سلاست بیانی کی تعریف کی اور نصرتی نے ”علی نامہ” کے ایک قصیدہ میں اپنی شاعری کے قد کو حسن شوقی کی شاعری کے قد سے ناپ کر اپنی عظمت کا اظہار کیا:
دس پانچ بیت اس دھات میں کے ہیں تو شوقی کیا ہوا
معلوم ہوتا شعر گر کہتے تو اس بستار کا
ان شواہد کی روشنی میں شیخ حسن اور شوقی تخلص ٹھہرتا ہے۔ ان حوالوں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے زمانے میں مسلم الثبوت استاد کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کے مرنے کے بعد دکن کی ادبی فضائوں میں اس کا نام گونجتا رہا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ اور جگت گرو و جانم سے پہلے نظام شاہی سلطنت میں اردو کتنی ترقی کر چکی تھی۔ موجود مواد کی روشنی میں حسن شوقی ایک مثنوی نگار اور غزل گو کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔
حسن شوقی کی غزلیں اس روایت کا ایک حصہ ہیں جس کے مزار پر ولی دکنی کی غزل کھڑی ہے۔ ان غزلوں کو جدید معیار سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن یہ غزلیں اپنے مزاج کے اعتبار سے جدید غزل کی ابتدائی روایت اور رنگ روپ کا ایک حصہ ہیں۔ حسن شوقی کے ذہن میں غزل کا واضح تصور تھا۔ وہ غزلوں کو عورتوں سے باتیں کرنے اور عورتوں کی باتیں کرنے کا ذریعہ اظہار سمجھتا تھا۔ سب غزلوں میں بنیادی تصور یہی ہے۔ محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کرتاہے اور عشقیہ جذبات کے مختلف رنگوں اور کیفیات کو غزل کے مزا ج میں گھلاتا ملاتا نظر آتا ہے۔ اس کے ہاں غزل کے خیال، اسلوب، لہجہ اور طرزِ ادا پر فارسی غزل کا اثر نمایاں ہے۔شوقی نہ صرف اس اثر کا اعتراف کرتا ہے بلکہ ان شاعروں کا ذکر بھی کرتا ہے جن سے وہ متاثرہوا ہے یہاں خسرو و ہلالی بھی ملتے ہیں اور انوری و عنصری بھی:
حسن شوقی نے بھی فارسی غزل کے اتباع میں سوز و ساز کو اردو غزل کے مزاج میں داخل کیا اور آج سے تقریباً چار سو سال پہلے ایک ایسا روپ دیا کہ نہ صرف اس کے ہم عصر اس کی غزل سے متاثر ہوئے بلکہ آنے والے زمانے کے شعراء بھی اسی روایت پر چلتے رہے۔
ولی کی غزل روایت کے اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ اپنی غزلوں میں مٹھاس اور گھلاوٹ پیدا کرنے کے لیے شوقی عام طور پر رواں بحروں کا انتخاب کرتا ہے۔ شوقی کی غزل میں تصور عشق مجازی ہے۔ حسن شوقی کی غزل میں ”جسم” کا احساس شدت سے ہوتا ہے، وصال کی خوشبو اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ محبوب اور اس کی ادائیں حسن و جمال کی دل ربائیاں، آنکھوں کا تیکھا پن، خدوخال کا بانکپن ہوتا ہے، دانت، کلیوں جیسے ہونٹ، ہیرے کی طرح تل، سر و قدی، مکھ نور کا دریا، دل عاشق کو پھونک دینے والا سراپا اس کی غزل کے مخصوص موضوعات ہیں۔
حسن شوقی کو احساس ہے کہ وہ غزل کی روایت کو نیا رنگ دے کر آگے بڑھا رہاہے۔ ان کے اشعار کے مطالعے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ اردو غزل کی روایت کے وہ ابتدائی نقوش ہیں جہاں غزل کی روایت جم کر ، کھل کر پہلی بار اس انداز میں اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔
دسویں صدی کے تین اور شاعروں کے نام ہم تک پہنچتے ہیں جن کی استادی کا اعتراف ان کے بعد کی نسل نے کیا ہے۔ میری مراد محمود، فیروز اور ملاخیالی سے ہے جن کا ذکر محمدقلی قطب شاہ نے اپنی غزلوں میں کیا ہے۔ فیروز، محمود اور ملاخیالی گولکنڈہ کے شاعر تھے۔ حسن شوقی کی زندگی ہی میں یہ تینوں شعراء وفات پا چکے تھے۔ حسن شوقی نے ان کی روایت کو آگے بڑھایا۔ یہ باقاعدہ روایت بن کر شاہی، نصرتی، ہاشمی اور دوسرے شعرا سے ہوتی ہوئی ولی دکنی تک پہنچتی ہے۔ یہیں سے غزل کی ایک مخصوص روایت بنی ہے۔
حسن شوقی کا یہ شعر پڑھیے:
تجہ نین کے انجن کوں ہو زاہداں دوا نے
کوئی گوڑ ، کوئی بنگالہ کوئی سامری کتے ہیں
حسن شوقی کی زبان اس زمانے کی دکن کی عام بول چال کی زبان ہے۔ اس میں ان تمام بولیوں اور زبانوں کے اثرات کی ایک کھچڑی سی پکتی دکھائی دیتی ہے جو آئندہ زمانے ایک جان ہو کر اردو کی معیاری شکلیں متعین کرتے ہیں۔
یہ ہے قدیم اردو غزل کی روایت کا وہ دھارا جس کے درمیان شوقی کھڑا ہے۔ وہ اپنے اسلاف سے یہ اثر قبول کرتا ہے اور اسے ایک نیا اسلوب دے کر آنے والے شعرا تک پہنچا دیتاہے۔ یہی وہ اثر ہے جو حسن شوقی کو قدیم ادب میں ایک خاص اہمیت کا مالک بنا دیتا ہے۔
شوقی کی غزل میں مشتاق، لطفی، محمود، فیروز اور خیال کے اثرات ایک نئے روپ میں ڈھلتے ہیں اور پھر یہ نیا روپ شاہی، نصرتی ، ہاشمی، اشرف، سالک، یوسف، تائب، قریشی اور ایسے بہت سے دوسرے نامعلوم وگمنام شعراء کے ہاں ہوتا ولی کی غزل میںرنگ جماتا ہے۔
اسی رنگ کو دیکھ کر میں اردو کو پاک وہند کی ساری زبانوں کا ”عاد اعظم مشترک” کہتا ہوں۔ (ادبی تحقیق از ڈاکٹر جمیل جالبی)
قطب شاہی دور: قلی قطب شاہ (۱۴؍اپریل ۱۵۶۵ء ۔ ۱۰ دسمبر ۱۶۱۱ئ)
آزاد نے ”آب حیات” میں کیونکہ ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم قرار دیا ہے۔ اس لیے مدتوں تک غزل کی روایت /تاریخ اس سے شروع ہوتی رہی لیکن بعد کی تحقیقات نے اس کو غلط ثابت کیا، چنانچہ اب گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کے حکمران ابوالمظفر محمد علی قطب شاہ کوپہلا صاحب کلیات (۱۰۲۵ھ) شاعر سمجھا جاتا ہے۔ یہ گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کا پانچواں فرمانروا تھا۔ اس کا عہد حکومت ۵ جون ۱۵۸۰ء سے ۱۰ دسمبر ۱۶۱۱ء تک رہا۔ اس نے دکھنی کے علاوہ فارسی اور تیلگو میں ملا کر کل نصف لاکھ اشعار کہے۔ ڈاکٹر سیدہ جعفری نے لکھا ہے محمد قلی کا کلام اردو ادب میں جنسی شاعری کا پہلا نمونہ ہے۔ محمد قلی نے اپنے اشعار میں اپنی محبوبائوں اور پیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خصوصیات کو ظاہر کرنے اور ان کی شخصیت کے خدوخال کو واضح کرنے کے لیے جنسیات کی بعض اصطلاحوں سے مدد لی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری پر جس طرح غزل غالب ہے اسی طرح اس کی غزل پر عورت غالب ہے۔ اس کی شاعری ہندوانہ رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ عورت کے حسن اور جسم سے وہ کرشن کی طرح کھیلتا ہے۔ اُس کی غزلیں یا غزل نما نظمیں اپنے مجموعی تاثر کے لحاظ سے ہمارے خیال کو تھوڑی دیر کے لیے عرب شاعری کے تصور محبوب کی جانب لے جاتی ہیں۔ جس میں جسم وجنس کے عنصر کے غلبے کے ساتھ ساتھ کھل کر نام لینے کی روایت بھی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کا تینتیس سالہ دور اپنی ادبی سرگرمیوں، علمی کاوشوں اور فنی و تخلیقی کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ قطب شاہی کا یہ زریں دور ہے۔ جس پر اردو و تلنگی شاعری کی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی ہے۔ محمد قلی ایک پُرگو اور اردو زبان کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر ہے۔ تاریخی و تہذیبی اہمیت سے ہٹ کر محمد قلی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس کی دلچسپی کے د و مرکز نظر آتے ہیں۔ ایک مرکز ”مذہب” ہے اور دوسرا ”عشق” ہے۔ مذہب اس لیے عزیز ہے کہ اس کی مدد سے زندگی، حکومت، دولت ، عروج اور دنیوی اعزاز حاصل ہوا ہے اور عشق اس لیے عزیز ہے کہ اس سے زندگی میں رنگینی اور لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے عشق و مذہب دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
صدقے نبیؐ کے قطب شاہ جم جم کرو مولود تم
حیدر کی برکت تھی سدا جگ اُپر فرمان کرو
در نظر سامنے نہیں ہے یار
نین پانی تیرتا دلدار
شاعری کی حیثیت سے وہ حسن کا پرستار ہے، قدرتی مناظر کا حسن، عورتوں کا حسن و جمال اور مختلف رسومات کے حسین پہلو اس کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔
اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ
دکن ہی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ بھی اسی علاقے کی تھی۔ اس ضمن میں نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں:
”اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ” ماہ لقاچندا (۱۱۸۱ئ۔ ۱۲۴۰ئ) سمجھی جاتی تھی۔ اس کا دیوان پہلی مرتبہ (۱۲۱۳ھ۔ ۱۷۹۸ئ) میں مرتب ہوا ہے جو انڈیا آفس لندن کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔
شفقت رضوی نے ”دیوان ماہ لقاچندا بائی” مرتب کر کے شائع کر دیا ہے۔ (لاہور: ۱۹۹۰ئ) چندا اپنے وقت کی امیر ترین خواتین میں شمار ہوتی تھی۔ فن موسیقی، رقص اور محفل آرائی کے فن میں طاق تھی، عمر بھر شادی نہ کی، شاعری ، تاریخ، شہ سواری، تعمیرات سے خصوصی شغف تھا۔ نواب میر نظام علی خان آصف جاہ ثانی کی منظور نظر تھی۔ اس لیے چھوٹے موٹے کو منہ نہ لگاتی۔ الغرض تمام دکن میں اس کی شہرت تھی۔ حیدرآباد میں اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا۔ چنانچہ انتقال کے بعد اس میں دفن ہوئی۔
چندا کا دیوان ۱۲۵ غزلوں پر مشتمل ہے اور ہر غزل میں پانچ پانچ اشعار ہیں اور یہ مختصر دیوان اس کی تخلیقی شخصیت کا عکاس ہے۔ غزل حسب رواج مردانہ انداز و اسلوب میں کہتی تھی لیکن کبھی کبھی اشعار میں نسوانیت بھی آ جاتی ہے مگر ریختی والی کجرو نسوانیت نہیں۔
ثابت قدم ہے جو کوئی چندا کے عشق میں
صفت میں وہ عشق بازوں کے سالار ہی رہا
ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی
چاہتے ہیں جو بار بار شراب
ملایا کر تو اس کی انکھڑیوں سے آنکھ کم نرگس
نہ کر یوں دیدہ و دانستہ اپنے پرستم نرگس
اب جدید انکشاف سے پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النساء امتیاز قرار دی جانی چاہیے کیونکہ اس کا دیوان ۱۲۱۲ ھ میں یعنی چندا کے دیوان سے ایک سال پہلے مرتب ہوا ہے۔ لطیفہ یہ کہ تخلص کی بنا پر پہلے اسے مرد سمجھا جاتا رہا لیکن بعد میں اس کی مثنوی ”گلشن شعرائ” کی دستیابی سے علم ہوا کہ امتیاز عورت ہے۔
نصیرالدین ہاشمی کے بقول امتیاز کے شوہر کانام اسد علی تمنا تھا۔ یہ وہی شاعر ہے جس نے ”گل عجائب ” کے نام سے ”تذکرہ شعرائ” ۱۱۹۴ھ میں مرتب کیا۔ دیوان کے بارے میں نصیرالدین ہاشمی نے یہ معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ۱۵۶ صفحات پر مشتمل دیوان میں ۹۵ صفحات پر غزلیں ہیں۔ غزل کی زبان صاف اور مضامین روایتی ہیں جبکہ بات مردانہ لب و لہجہ میں کی جاتی ہے شاید اسی لیے پہلے اسے مرد جاناگیا۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو!
شور صحرا میں مرے آنے کی کچھ دھوم سی ہے
عمل قیس کے اُٹھ جانے کی کچھ دھوم سی ہے
منہ پہ جب زلف کج خمدار جھکا
صبح روشن پہ گویا ابر گہر بار جھکا
ولی دکنی
ولی تک آتے آتے اردو شاعری کی روایت تین سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہو چکی تھی۔ ولی دکنی اردو شاعری کے نظام شمسی کا وہ سورج ہے جس کے دائرہ کشش میں اردو شاعری کے مختلف سیارے برسہا برس گردش کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ ولی دکنی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہاگیا۔ جو بھی آیا اس نے ولی کو خراج تحسین پیش کیا جس نے دیوان دیکھا لہلوٹ ہو گیا۔ جس نے پڑھا اس کی عظمت کا قائل ہو گیا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ولی محمد کو اصل نام تسلیم کرتے ہیں، جائے پیدائش اورنگ آباد اور سنہ ولادت ۱۶۶۸ء تسلیم کیا جاتا ہے۔ ۱۱۱۹ھ میں بمقام حیدر آباد انتقال کیا۔ ۱۳۳۳ سے ۱۳۳۸ھ کے درمیان ہے۔ جب ولی نے غزل کو اظہار کا ذریعہ بنایا اس وقت کم و بیش ساری دکنی روایت میں غزل کا تصور یہ تھا کہ اس سے صرف و محض عورتوں سے ”باتیں کرنے” یا ان کی باتیں کرنے کا کام لیا جاتا تھا، حسن و جمال، نازوادا، اٹھکھیلیاں، رنگ رلیاں، اقرار و انکارِ وصل، جنس و جسم ، خارجی پہلو ہی عام موضوعات تھے۔
ولی سے پہلے کسی گہرے تجربے، احساس یا حیات و کائنات کے شعور کا غزل میں پتہ نہیں ملتا۔ شاہی ، نصرتی اور ہاشمی کے ہاں بھی یہی عمل نظر آتا ہے اور محمد قلی قطب شاہ، وجہی، عبداللہ اور غواصی کے ہاں بھی یہی تصور ہے۔ لے دے کے محمود اور حسن شوقی کے ہاں اس تصور میں تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اور موضوعات کے حوالے سے ذرا تنوع پیدا ہو جاتا ہے۔ ولی نے اس روایت کو اپنا کر اس میں زندگی کے رنگا رنگ تجربات، تنوع اور داخلیت کو سمو کر غزل کے دائرے کو پوری زندگی پر پھیلا دیا۔ ولی نے قدیم روایت کے بہترین اور زندہ اجزاء کو اپنی شاعری میں سمیٹ لیا اور ان تمام آوازوں کو اپنی آواز میں جذب کر لیا۔ غزل کی یہ روایت جو آئندہ دور میں اپنے عروج کو پہنچی۔ اس کا سرچشمہ ولی کی غزل ہے۔اس کی غزل میں خارجیت اور داخلیت دونوں کا امتزاج ہے۔
ولی کے ہاں عشق میں ایک شائستگی ہے یہاں اردو غزل میں پہلی بار تصور عشق علوی سطح پر ابھر کر سامنے آتاہے۔ ولی کے تصور عشق میں وفاداری بشرطِ استواری کا عقیدہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
غرض کہ ولی کی شاعری میں اتنے پہلو، اتنے موضوعات ، اتنے تجرباتِ زندگی سمٹ آتے ہیں کہ جس پہلو سے اردو غزل کو دیکھیے اس کی واضح ابتداء ولی سے ہوتی ہے۔ ولی کی غزل میں اردو غزل کی کم و بیش وہ ساری آوازیں سنائی دیتی ہیں جو سراج سے لے کر داغ تک مختلف شاعروں کی انفرادیت کی نشانیاں بنیں اور جن سے آج تک بزم معنی کی شمع روشن ہے۔ اردو شاعری کے قدرتی راگ کو دریافت کرنے میں بھی اولیت کا سہرا ولی ہی کے سر بندھتا ہے۔ ولی عاشق مزاج اور جہاں گشت انسان تھا اور تمام دکھن کی سیر کے علاوہ دو مرتبہ دہلی میں بھی آیا۔ حسن پرستی اور آزادی اس کے خمیر میں تھی۔ حسن و جمال کی شاعری، ولی کی شاعری میں حسن و جمال کا موضوع بڑا اہم ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر سید عبداللہ نے ولی کو ”جمال دوست” شاعر کا لقب دیا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں ایک خاص شاطیہ رجحان پایا جاتا ہے جو کبھی بھی حد سے تجاوز نہیں کرتا۔ اُن کے ہاں خارجیت کا بھی ایک بھرپور نظارہ ہے۔ جہاں جہاں اُن کے دیدہ بینا کے لیے سامان نظارہ ملتا ہے۔ وہ لطف و سرور حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں اُن کی شاعری عراقی طرز کے زیادہ قریب ہے۔ ولی کے ہاں معاملات عشق کے بیان کی بجائے احساسات حسن کا بیان زیادہ ہے۔ ولی کا تصور محبوب بھی مختلف ہے۔ جو اسے مختلف ناموں سے پکارتا ہے۔ کبھی ”ساجن” کہتا ہے اور کبھی پیتم پیارے کبھی ”لالن” کہہ کہ پکارتا ہے تو کبھی ”من موہن” کبھی ”محشر نازوادا” کا خطاب دیتا ہے تو کبھی ”فتنہ” رنگین ادا کا، اس سے والہانہ محبت اور وارفتگی عشق کا پتہ دیتاہے ۔سراپانگاری، خوبصورت تشبیہات، زبان کی سلاست، شگفتگی اور ترنم اور تصوف کے موضوعات ولی کی غزل میں ایک خاص رنگ میں آتے ہیں جو اس سے پہلے کے شعرا کے ہاں موجود نہیں تھا۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو!
مسند گل منزل شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا
ہزار لاکھ خوباں میں سخن مرا چلے یوں کہ
ستاروں میں چلے جیوں ماہتاب آہستہ آہستہ
ولی اس گوہرکان حیا کی کیا کہوں خوبی
مرے گھر اس طرح آتا ہے جیوں سپنے میں راز آوے
پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا
شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا
پہنچی ہے ہر اک گوش میں فریاد ولی کی
لیکن وہ صنم سننے کو فریاد نہ آیا
پروفیسر محمد خان اشرف ولی کی شعری زبان کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے : ولی الفاظ کا نبض شناس تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کی صحت جسمانی اور معنوی ساخت صوتی خوبصورتی اور مدت حیات سے بخوبی واقف تھا۔
سراج اورنگ آبادی(۱۱مارچ ۱۷۲۱ ء وفات)
سراج ولی کے بعد اور دورِ میر و سودا سے پہلے کے درمیانی عرصے کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ جن کی پرگوئی، جوشِ طبع اور رنگ سخن کو کوئی دوسرا نہیں پہنچتا۔ سراج کے کلام سے یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ یہ ”آواز” اردو شاعری میں پہلی بار سنی جا رہی ہے۔ اس میں ایک ایسی خود سپردگی اور ایک ایسی سرشاری ہے جو اب تک کسی شاعر کے ہاں اس طرح سمٹ کر، جم کر سامنے نہیں آئی تھی۔ ولی کے بعد سراج کا نام دکنی غزل کے سلسلہ میں لیا جا سکتا ہے۔ اپنے زمانے کے مقبول شاعر تھے۔ راہ سلوک پرگامزن رہے اور کچھ برس جذب و مستی کے عالم میں گزرے۔ میر نے تذکرہ نکات الشعراء میں انھیں سید حمزہ کا شاگرد لکھا ہے۔
پوری اردو شاعری کے پس منظر میں سراج کی شاعری کو رکھ کر دیکھا جائے تو وہ اردو شاعری کے راستے پر ایک ایسی مرکزی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے میر، درد، مصحفی، آتش، مومن، غالب اور اقبال کی روایت کے راستے صاف نظر آ رہے ہیں۔ سراج ولی کی روایت کو بھی اپنے جذبہ عشق سے اتنا آگے لے جاتے ہیں کہ اُن کی شاعری کو پڑھتے وقت ہمیں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ہم ولی کے فوراً بعد کی نسل کے شاعر کا کلام پڑھ رہے ہیں۔ سراج کے کلام میں ولی سے زیادہ اچھے عشقیہ اشعار کی تعداد ملے گی۔ اگر اس کا مقابلہ دوسرے شعراء کے کلام سے کیا جائے تو سراج پھر بھی ہمیں مایوس نہیں کرتے۔
موضوعِ سخن کچھ ہو، عشق کی لہر سب میں یکساں دوڑ رہی ہے۔ اسی نے ان کے کلام میں گداختگی اور سوز کو جنم دیا ہے اور والہانہ پن نے اظہار بیان کی اس سادگی، بے ساختگی اور شگفتگی کو پختہ تر کیا ہے جو ولی سے شروع ہوتی ہے اور میر کے ہاں کمال کو پہنچتی ہے۔ سراج انگریزی شاعر لینگ لینڈ (Lang Land) کی طرح اردو شاعری میں مخصوص عشقیہ روایت کے بانی ہیں۔ سراج کی زبان عشقیہ شاعری کی فطری زبان ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو ایک بڑا ذخیرہ الفاظ اور انھیں استعمال کرنے کا سلیقہ دیا ہے۔ سراج نے اردو شاعری کو ایک نیا معیار دیا اور عشقیہ شاعری کی روایت کو ولی سے لے کر میر تک پہنچا دیا۔ گلشن بے خار (اور بعض اور تذکرات میں بھی) لکھا ہے کہ سراج ہندو دوشیزہ پر عاشق ہو گئے۔ شادی کیونکہ ممکن نہ تھی لہٰذا آتش عشق میں جلتے رہے حتیٰ کہ جذبہ رنگ لایا اور شادی ہو گئی مگر ”تاب وصل” نہ لاسکے اور شب زناف میں انتقال کر گئے۔ اس صدمہ سے نوبیاہتا بھی چل بسی مگر مستند حقائق اس کی تردید کرتے ہیں۔ ”منتخب دیوانہا” ۱۱۶۹ء کے دیباچہ میں انھوں نے اپنے بارے میں جولکھا وہی قابل توجہ ہے۔ سراج کا دیوان ۵۳۔۱۱۵۱ھ میں عبدالرسول خان نے مرتب کیا جبکہ عبدالستار سہروردی نے کلیات سراج مرتب کی۔ اشعار ملاحظہ ہو:
اے سراج ہر مصرع درد کا سمندر ہے
چاہے سخن میرا آگ میں جلا یجیے
میں چاہتا ہوں کہ ہوشیار ہوں
اب اس خواب غفلت سے بیدار ہوں
سراج الدین کی وفات پر سارے شہر میں سوگ منایا گیا۔ خاصی تعداد میں ان کے شاگرد موجود تھے جن میں ضیاء الدین پروانہ، مرزا محمود خان نثار ، محمد عطا ضیاء ، مرزا مغل کمتر، لالہ جے کشن بیجان، میرمہدی متین معروف ہیں۔
شاہ قاسم علی قاسم جن کا انتقال بارھویں صدی کے اواخر میں ہوا ایک پرگو شاعر تھے یہ دیکھنے کے لیے کہ ولی اور سراج کے بعد روایت ریختہ نے کتنی ترقی کی، قاسم کے دیوان کا مطالعہ ضروری ہے۔ قاسم کے زمانۂ حیات میں دکن کے معروف شعراء ایک طرف اور شمالی ہند کے آبرو، حاتم، آرزو، یک رنگی، ناجی، مظہر جانجاناں وغیرہ دوسری طرف نظر آتے ہیں۔ دونوں گروہ اب ایک زبان ہو رہے ہیں۔ اب گجرات میں بھی معیار سخن وہی ہے جو دکن اور شمال میں ہے۔ فارسی کا رواج تیزی سے کم ہو رہا ہے اور اب برعظیم کی تہذیب اس زبان کی طرف رجوع کر رہی ہے جسے اس نے اسی سر زمین پر اپنی صدیوں کی تخلیقی صلاحیتوں سے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ آج جب ہم میر، درد، غالب یا مومن کے اشعار پڑھیں اور پھر قلی قطب شاہ، نصرتی یا ہاشمی کے کلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں احساس ہو سکتاہے جسے ”آغاز” اور ”انتہا” سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن سطحی مطالعہ سے ہٹ کر ژرف نگاہی سے دکھنی ادب اور بالخصوص دکھنی غزل کا جائزہ لینے پر یہ واضح ہو گا کہ اس عہد کے ادب کی حیثیت محض تاریخی یا لسانی نہیں بلکہ وہ اس قابل ہے کہ جداگانہ مقام متعین کر کے انفرادی حیثیت میں اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
شمالی ہند(۱۰۵۰ئ۔۱۵۲۵ئ)
اردو شاعری میں امیر خسرو نے ایک طریقہ تو یہ اختیار کیا کہ ایک مصرع فارسی لکھا اورایک مصرع اردو۔ دوسرا طریقہ یہ کہ آدھا مصرع فارسی اور آدھا مصرع اردو رکھا۔ تیسرا طریقہ یہ کہ دونوں مصرعے اور کے لائے۔ اسی طرح بہت سی پہیلیاں، کہہ مکرنیاں اور انملیاں بھی اُن سے منسوب ہیں۔
حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر خسرو کا یہ شعر درج ہے:
گوری سووے سیج پہ اور مکھ پہ ڈارے کیس
چل خسرو گھر اپنے سانج بھئی چوندیس
آئی آئی ہماری بیاری آئی
ماری ماری براہ ماری آئی
ان اشعار ریختہ کو پڑھ کر زبان و بیان کے لہجے، آہنگ، طرز اور ساخت سے واضح طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو کلچر ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہیں اور اس امتزاج سے ایک ”تیسرے کلچر” کی بنیادیں استوار ہو رہی ہیں۔ اردو زبان کے خدوخال بھی اس کے ساتھ اجاگر ہوتے ہیں۔
حسن دہلوی (وفات ۱۳۳۷ئ)
ڈاکٹر جمیل جالبی نے ”تاریخ ادب اردو” (ص ۳۵) میں امیر خسرو کے ایک ہم عصر اور پیر بھائی امیر حسن، حسن دہلوی کی ایک غزل نقل کی ہے جس میں امیر خسرو کے انداز پر فارسی اور ہندوی کو ملایا گیا ہے۔ غزل کا ایک شعر پیش نظر ہے:
بس حیلہ کر دم اسے حسن بے جاں شدم از دم بدم
کیسے رہوں تجھ جیئو بن تم لے گئے سنگ لائے کر
مسعود سعد سلمان(۱۰۴۶ئ۔۱۱۲۱ئ)
ہندوی کے پہلے شاعر لاہور ہی کے رہنے والے ہیں۔امیر خسرو کی فارسی مثنوی ”تغلق نامہ” میں ایک فقرہ”ہے ہے تیر مارا” ملتا ہے جو ہندوی رنگ ڈھنگ ظاہر کرتا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسعود سعد سلمان کی زبان ہندوی سے خسرو کون سی زبان مراد لیتے ہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ ”اردو کا قدیم ترین نام ہندی یا ہندوی ہے”۔
مسعود سعد سلمان کا ہندوی دیوان ناپید ہے۔ اگر یہ دستیاب ہو جاتا ہے تو لسانی مسائل کی بہت سی گتھیاں سلجھ جاتیں اور اردو کی نشوونما اور رواج کی گمشدہ کڑیاں مل جاتیں۔
خواجہ مسعود سعد سلمان نے اپنے فارسی دیوان میں کت، مارا مار اور برشکال کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
امیر خسرو ابو الحسن یمین الدین (۱۲۵۳ئ۔ ۱۳۲۵ئ)
امیر سیف الدین کے بیٹے ابو الحسن خسرو کی پیدائش ضلع ایٹہ قصبہ ٹپیالی(یوپی) میں ہوئی۔ انہیں بلاشبہ عہد ساز شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید خاص تھے۔
اس انداز کی ایک اور مثال بابا فرید گنج شکر (متوفی ۱۲۲۹ئ) کے کلام سے پیش کی جا سکتی ہے:
وقت سحر وقت مناجات ہے
خیز رراں وقت کہ برکات ہے
باتن تنہا چہ روی زیر زمین
نیک عمل کن کہ وہی سات ہے
سید محمد فراقی(۱۶۸۵ئ۔ ۱۷۳۱ئ)
بنیادی طور پر دکنی زبان کا شاعر ہے جس کے پیرائیہ اظہار پر ریختہ نے اتنا اثر ڈالا کہ وہ آج بھی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ فراقی کی شاعری کی زبان ولی کے دورِ اول کی زبان سے مزاجاً قریب ہے۔ غزلوں میں عشق و محبت اور پند و نصائح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
فراقی کشتہ ہوں اس اَن کا جس دم کہ وہ ظالم
کمر سوں کھینچتا خنجر، چڑھاتا آستیں آوے
نصرتی:(م۱۰۸۵ھ) دکنی ادب کا عروج
دکنی غزل کے مزاج کے عین مطابق نصرتی کی غزل کا موضوع بھی عورت ہے جس سے وہ غزل کے اشعار میں اپنے عشق و محبت کے جذبات و خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔
چند غزلیں، ہندوی شاعری کی روایت میں ایسی بھی ہیں جن میں عورت اپنے عشق کی کیفیات کا اظہار کرتی ہے۔ نصرتی کے ہاں جسم کو چھونے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی حسرت ہے جو شاہی کے ہاں نہیں۔ نصرتی کے ہاں جسم کو چھونے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی حسرت ہے جو شاہی کے ہاں نہیں۔ نصرتی اور شاہی کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ صرف اس کے دربار کا ملک الشعرا تھا بلکہ اس کا جلیس بھی تھا۔ نصرتی سلطنت بیجا پور کے آخری دور کا سب سے بڑا شاعر ہے جس نے تین بادشاہوں محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ ثانی شاہی اور سکندر عادل شاہ کا دور حکومت دیکھا ہے۔
نصرتی کی زبان معیاری دکنی تھی جس کا اظہار بیان کا ایک نیا معیار ”شعر تازہ” کے نام سے خود نصرتی نے قائم کیا تھا۔
اگر دکن کی یہ سلطنتیں قائم رہتیں اور دکنی اردو کا یہ روپ قائم رہتا تو آج بھی نصرتی قدیم اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار پاتا لیکن ہوا یہ کہ مغلوں کی فتح کے بعد شمالی ہند کی زبان دکنی ادب کی روایت پر غالب آ گئی اور تیزی سے سارے برعظیم میں ادبی اظہار کا واحد معیار بن گئی۔ تاریخ کی ستم ظریفی نے نصرتی کو چھوٹا اور ولی کو بڑا بنا دیا۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو!
غزل فرمائے پر شاہی کھیا اے نصرتی جئوں توں
جگت گرپن پسند کرنے کوں کر کوشش اپس س سوں
یہی بات کر شکر حق لیا بجا
کھڑا رن پہ وہ شادیانے بجا
حوالہ جات
۱۔ فیروز اللغات از الحاج مولوی فیروز الدین
۲۔ ادبی تحقیق، ڈاکٹر جمیل جالبی
۳۔ اردو کی مختصر ترین تاریخ، ڈاکٹر سلیم اختر
۴۔ پنجاب میں اردو، حافظ محمود شیرانی
۵۔ دکن میں اردو، نصیرالدین ہاشمی
۶۔ آب حیات، مولانا محمد حسین آزاد
۷۔ تاریخ ادب اردو، ڈاکٹر جمیل جالبی
پنجاب یونیورسٹی میں کتابوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ مادر علمی کی مامتا کتاب اور خواب کی صورت میں انقلاب کی آواز ملتی ہے اور انقلاب کئی قسموں کے ہوتے ہیں۔ جیسے آدمی زندگیاں گزارتا ہے۔ تبدیلی اور انقلاب میں فرق ہے مگر ہم صرف فرقہ واریت میں مبتلا رہتے ہیں۔ کئی برسوں سے کتاب میلہ پنجاب یونیورسٹی میں لگتا ہے اور ہر برس پہلے سے مختلف منظر نامہ لے کے آتا ہے۔ پچھلے برس اردو صحافت کے افتخار، بہادر اور بے باک انسان ڈاکٹر مجید نظامی نے افتتاح کیا تھا۔ وہ کتابوں کے ہر سٹال پر گئے۔ کتابوں اور کتابی چہروں کا ایک کارواں تھا جو ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ وہ بہت دیر تک یونیورسٹی میں رہے۔ اس برس وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر آئے۔ دوستانہ انداز کوئی وزیر اختیار نہیں کر سکتا جسے کتاب سے رابطہ نہ ہو۔ وہ دیر تک گورنمنٹ کالج لاہور کو یاد کرتے رہے۔ ہمارا زمانہ ایک ہی تھا۔ میں نے کہا کہ آپ ممبران اسمبلی کے لیے لازم کروا دیں کہ وہ زندگی میں ایک کتاب ضرور پڑھیں اور پوری پڑھیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں خوش ہو گیا تھا کہ تم کہہ رہے ہو ممبران اسمبلی سے کتاب لکھوائیں۔ یہ تو آسان کام ہے وہ کوئی نہ کوئی کتاب کسی نہ کسی سے لکھوا لیں گے۔ البتہ ان کی جگہ کوئی دوسرا کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ میرے پاس بیٹھے ہوئے ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد نے کہا کہ پھر ان کتابوں کو پڑھے گا کون؟ اس بار انتظامات میں ڈاکٹر زاہد نے بڑی دلچسپی لی اور صورتحال بہتر ہو گئی۔ رونق بھی بہت تھی۔ رونق تو ہمیشہ بہت ہوتی ہے۔