Level | FA | Course | Education |
Semester | Autumn 2022 | Course Code | 312 |
Assignment no. 1
سوال نمبر:ا ثقافت سے کیا مراد ہے؟ انتقال ثقافت اور تشکیل ثقافت میں تعلیم کے کردار پر بحث کریں ۔ .
جواب: ثقافت:۔
ایک ماہر عمرانیات ٹائلو کے مطابق ثقافت ایک ایسی وحدت ہے جس میں علم ، عقائد ‘ آرٹ’ اخلاقیات ‘ قوانین ‘ رسوم ، غرض وہ تمام صلاحیتیں اور عادتیں بھی شامل ہیں تو ایک فردا یک معاشرے کے رکن کی حیثیت سے حاصل کرتا ہے ۔ ایک مفکرلٹن نے معاشرتی ورثے ہی کو ثقافت کا نام دیا ہے ۔اس کے خیال کے مطابق ” ہروہ چیز جو باؤاجداد سے حاصل کی جاتی ہے ثقافت کہلاتی ہے “اس میں مادی اور غیر مادی ہر دو قسم کے نمونے پائے جاتے ہیں ۔ زیادہ اہمیت رسم وروات اور عقائد کو دی جاتی ہے ۔ سدر لینڈ اور وڈورڈ کے قول کے مطابق ” ثقافت ہر اس چیز پرمشتمل ہے جو ایک نسل سے دوسرے نسل تک پہنچائی جاسکے ” کون کا کہ کہنا ہے کہ انس کے رہن سہن کے طر نیتوں کا وہ مجموعہ جو اکتساب کے ذریعے سے نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے ثقافت کیا تا ہے بارش نے ثقافت کو انسانی کارناموں کا مجموعہ کہا جبکہ سوبر نے ثقافت کی تعریف عمرانیات کے نقط نظر سے یوں کی ہے ” ثقافت سیکھے ہوۓ رویوں کے نمونے کا لگا تار تبدیل ہوتے رہنا اور سیکھے ہوۓ رویئے کی تخلیق کا نام ہے۔
اس میں خیالات اقرار علم اور مادی اشیاء شامل ہیں معاشرے کے افراد ان سیکھے ہوئے رویوں میں شرکت کرتے ہیں اور انہیں آپس میں منتقل کر تے ہیں مشہور امریکی ماہرتعلیم سٹینلے اور شورز نے ثقافت کے تمام اجزائے ترکیبی کوملحوظ رکھتے ہوۓ ثقافت کی یہ تعریف کی ہے “یافت خیالات انکارعقائد الفنون آرٹ’ جمالیاتی اشیاء سوچنے کی انداز روان اور اداروں کا ایسا تانا بانا ہے جس کے اندر معاشرے کا ہر فرد پیدا ہوتے ہی بچنس جا تا ہے ” لوگ روزی کس طرح کماتے ہیں؟ کو نے کھیل کھیلتے ہیں؟ کوئی کہانیاں لکھتے ہیں؟ کن مشاہیر کو مانتے ہیں ؟ کسی قسم کی موسیقی پسند کرتے ہیں؟ بچوں کی پرورش کس طرح کرتے ہیں؟ خاندان کی تنظیم کیسی ہے؟ رسل و رسائل کیا ہیں؟ مواصلات کے کون سے طریقے ہیں؟ یہ سب باتیں کسی معاشرے کی ثقافت میں شامل ہیں
۔ ثقافت ما حول کا وہ حصہ۔ ہے جسے انسانوں نے خود بنایا ہے۔
انتقال ثقافت اور تشکیل ثقافت:۔
تعلیم معاشرے کے ثقافتی ورثے کی ترسیل کا عمل ہے! تعلیم ایک ایسا عمل ہے کہ معاشرہ اس کے ذریعے سے اپنی فکری ، ثقافتی اور تہذیبی ورثے کو آنے والی نسلوں تک منتقل کر نے اور ا سے محفوظ رکھنے کا ان تمام کرتا ہے تعلیم ایسا نظام ہے جس سے معاشرہ ہنس سے معاشرہ اپنے افراد کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ ایک خاص طرز معاشرت کو کمانا اپنا لیتے ہیں اور ایک بامقصداجتماعی اور کا میاب انفرادی زندگی بسر کر سکتے ہیں تعلیم کی ایک اور تھر ایک یہ بھی کی گئی ہے کہ وہ زندگی تجر کا ایک ایس ائتمل ہے جس میں انسان یہ سیکھتا ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ماضی کے ثقافتی ورثے سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں کس طرح موجودہ اداروں کو کامیابی سے چلا سکتے ہیں اور کس ہوشمندی سے مستقبل کے منصوبے بنا سکتے ہیں۔
اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کا جا سکتا ہے کہ معاشرہ اپنی زندگی کو دوام بخشنے کے لیے تعلیم کو ایک زریعے کے طور پر استعمال کرتا ہے اس لیے ماہرین تعلیم کو ایک معاشرتی سرگرمی کا نام دیتے ہیں چناچہ معاشرے کے حوالے سے تعلیمی عمل کی درج ذیل تین اہم زمہ داریاں ہیں۔
1۔ ثقافتی ورثے کی منتقلی اور اس کا تحفظ –
۲۔ ثقافت میں موزوں ترمیم اور معاشرے کی تعمیر نو
3۔ تعلیم براۓ افراد
معاشرے کی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تعلیم جواہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
1۔ثقافتی ورشد کی آئندہ نسلوں تک منتقلی اور اس کا تحفظ :
ہر معاشرہ اپنے ثقافتی ورشک آنے والی نسلوں تک منتقل کر نے کی کوشش کرتا ہے معاشرہ کے افراد اپنی بقاء کے لیے جہاں افزائش نسل کو ایک ذریعے کے طور پر اپناتے ہیں وہاں اپنی حقیقی بتا، اس میں سمجھتے ہیں کہ ان کا ثقافتی ورنہ جس میں بالخصوص ان کے نظریات وعقائد ،رسم وروان دین و مذہب ، مقصد و نظر بی حیات اور اقدار و اخلاق کے نظام شامل ہیں آنے والی نسلوں تک اس طرح منتقل ہو کہ وہ اس پر یقین وایمان رکھتے ہوں اور اس ورثے کو اپنی زندگی کا ضروری جزو سمجھیں ۔
مغربی ممالک میں جہاں جمہوریت کو فروغ دینا سرمایہ داری کے نظام کو رواج دینا فرد کی آزادی کے حق کو تسلیم کرنا نجی ملکیت و نجی کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنا جیسے نظریات ثقافت کے اجراۓ ترکیبی ہیں ، وہاں انہیں عقائد ونظریات کو بذرا یہ تعلیم آ نے والی نسلوں تک منظم طور پر منتقل کیا جاتا ہے ایک امریکی مفکر و بینا مل نے امریکہ کی ثقافت کا ذکر کرتے ہوئے کہا سرمایہ داری من حق وفنی تعلیم ، فرد کی خوشحالی ، جمہوریت نئی اقدار کا انجبرنا اور پرانی رسوم ترک کر نے کوامریکی ثقافت کے اجزائے ترکیبی کہا جا تا ہے “ماہر میں تعلیم ان ثقافتی اجزاء تعلیم کے ذریعے سے بچوں تک منتقل کر نے کا منصو بہ بناتے رہتے ہیں ۔ 2
2۔ثقافت میں موزوں ترمیم اور معاشرے کے تمیرنو:
تعلیم جہاں ثقافتی ورثے کو آنے والی نسلوں تک منتقل کر کے اس کا تحفظ کرتی ہے وہاں ثقافت میں موزوں ترمیم کر کے اس کی تشکیل نو بھی کرتی ہے ثقافت کے غیر موزوں عناصر جو سوسائٹی کی ضروریات کے پیش نظر قابل ترمیم ہوں ان میں مناسب رد و بدل کیا جا تا ہے تا کہ معاشرہ ترقی کر سکے اور دوسرے ترقی یافتہ معاشروں کے پہلو بہ پہلو چل سکے تعلیم اورمعاشرہ باہم مربوط میں تعلیم معاشرتی ترقی کا موجب ہوتی ہے اور معاشر تعلیم کی تشکیل نو کا سبب بنتاہے۔
پاکستان میں نظام تعلیم پر سی ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ ثقافت کے نا موزوں عناصر کو دور کرے اور دوسرے ثقافتوں سے موزوں عناصر کو اپنے اندر جذب کرے کیوں کہ “الحکمتہ میراث المومن ” دانائی مومن کی گمشدہ میراث ہے ہندی ثقافت کی جو غیر موزوں رسوم اور نا مناسب تہوار پاکستانی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں ان میں مناسب تبد یلی | نا ضروری ہے شادی اور مرگ کے موقع پر ادا کی جانے والی اکثر میں ہندی ثقافت سے ورثے کے طور پر لی میں اور وہ معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہیں جہیز کی رسم پر غیر ضروری توجہ مرگ کے موقع پرائی میں کی چند مثالیں میں جنہیں دور کر نا معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔
دوسرے اہم بات اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے وہ لوگوں کا طرزفکر ہے نا مناسب تہوار منانے اور غیر موزوں رسموں کے ادا کر نے سے زیادہ غیر موزوں وہ طر زفکر ہے جولوگوں کو ان رسموں کی طرف مائل کرتا ہے تہواروں یا رسوم اگر وہ غیر مفید میں اور ان کے ساتھ کوئی مذہبی یا نظریاتی وابستگی بھی نہیں ہے تو ان کے ادا کر نے کے لیے مالی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرتا اور اسے منانے یا ادا کرنے کے لیے کوشاں رہنا غلط طرز فکر ہے ۔ا سے بدلنے لے لیے مدرسہ بچوں کی تربیت کا پروگرام بنا سکتا ہے غلط رویوں عادات واطوار کے خلاف بچوں میں نفرت پیدا کی جاسکتی ہے اور بچوں کے ترمیم شد و طرزفکر سے معاشرے میں موزوں عادات واطوار انداز فکر اور رویے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
بدلتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر بھی معاشرے میں تبد میں لانے کی ضرورت ہے اگر معاشر ہ زرعی نوعیت کا ہے اور روایتی انداز سے کھیتی باڑی کرتا وہاں کی ثقافت کا حصہ ہے تو معاشرے کو زراعت کے جدید طریقہ کار ، جدید زرعی مشینری ، اچھے بیجوں اور کھاد کے استعمال وغیرہ کے متعلق متعارف کرایا جانا چاہیے سائنسی بنیکی مشق اور ترقی تر قیات کے پیش نظر معاشرے کے افراد کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جانی چاہیے تا کہ وہ جدید سائنسی اور نیکی ترقیات سے فائدہ اٹھا کر زندگی کی سہولیات میں اضافہ کر میں اس طرح معاشرے کی تمیر وترقی ہو سکے گی یہ کام بہتر طور پرتعلیم اورتعلیمی ادارے ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ مشہور امریکی فلسفی اور ماہر تعلیم جان ڈیوی اور اس کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ تعلیمی ادارے صرف اس لیے نہیں کہ جو کچھ انہیں معاشرتی ورثہ کے طور پر ماتا ہے وہ اس طرح آنے والی نسلوں تک قتل کر دیا جائے بلکہ علیم پر ایک تخلیقی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ افراد کی اس نہج پر تر بیت کی جاۓ کہ معاشرہ اور اس کے ثقافتی عناصر میں موزوں تبد میں ا ناممکن ہو ۔
3۔تعلیم براۓ تربیت افراد:
ماہرین تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم کی ایک اہم معاشرتی ذمہ داری افرادی نشو ونما اور تربیت ہے تعلیم کا ترقی پسندانہ نظر یہ بھی یہی ہے کہ معاشرے کی ترقی کے لیے فرد کی تخلیقی قوتوں کو اجا گر کے کے ان کی موزوں نشو و نما کی جاۓ اس نظریے کی رو سے افراد کی تربیت اس طرح کی جاۓ کہ ان میں قوت متخیل ،آزادی ، خود بیماری اور اعتمادذات جیسے جذبات نشو و نما پا میں ان کی جذباتی اور جسمانی تربیت ہو ۔ انہیں عرفان نفس حاصل ہو اور اس طرح وہ معاشرے کے اچھے فرداور مفید رکن بن سکیں۔
بچوں کی تربیت میں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے نظریات و عقائد امیدوں اور تمناؤں پر پورے اتر ہیں ۔ بعض اوقات باہر کا ماحول دیکھ کر بچے گھر کے ماحول سے نفرت شروع کر دیتا ہے بالخصوص جب ایک فردکالج یا یونیورسٹی کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتا ہے اور اس کے اپنے گھر کا ماحول دیہاتی اور فریبا نہ ہو تو اسے دونوں قسم کے ماحول کے درمیان بھی نہ پورا ہونے والا فاصلہ نظرآ تا ہے نظام تعلیم پر می ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ افراد کی اس طرح تربیت کرے کے وہ اپنے ماحول سے نفرت نہ کرے بلکہ اپنے ماحول کو ترقی دینے کی کوشش کرے اور اس کی تعمیر نو اور شکیل نو کے لیے کوشاں رہے اسی طرح ۲ جکل جولوگ بیرونی مملک میں ملازمت یا تعلیم کے لیے جاتے ہیں وہاں کا پچمکدار ماحول دیکھ کر وہاں ہی کے ہور ہتے ہیں اور اپنے ماحول سے نفرت کرنے لگتے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے اپنے ملک کے ساتھ وفاداریاں تک مشکوک ہو جاتی ہے تعلیم کا یہ منصب ہے کہ افراد معاشرہ میں حب الوطنی کے جذبات پیدا کرے، اپنے معاشرے ، ماحول اور ملک کے ساتھ سچے جذبات کی نشوونما کرے تا کہ اس طرح ایک اچھا مسلمان ، ایک اچھا انسان اور ایک اچھا پاکستانی بن سکے اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کے لیے ایک مفید اور کارآمد فر دبھی ثابت ہو۔
سوال نمبر:۲ برصغیر میں اسلامی نظام تعلیم کی خصوصیات اور موجودہ پاکستانی نظام تعلیم کی خصوصیات کا تقابلی جائزہ لیں۔
جواب: برصغیر میں اسلامی نظام تعلیم کی خصوصیات:
اسلامی نظام تعلیم جو دوسرے اسلامی ملکوں یا برنہ غیر میں قائم ہوا۔ اس کے چنداہم خصائس تھے۔
1۔تعلیم کا مرکز دین اسلام تھا۔ تعلیم کو ایک عبادت تصور کیا گیا اور اہل علم اس کی اشاعت عبادت سمجھ کر ہی کرتے رہے ۔
2۔ مسجد ، مکتب اور مدر سے کے علا و واہل علم کے مکانات ، کتب خانے تعلیمی مجالس، خانتا میں مقبرے اور حالات بھی تعلیم کے مراکز رہے ۔
۳۔ دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس کے لئے کارخانے ،تجارتی ادارے ، مار بین کی تربیت گا ہیں ، پیشہ ورانہ انجمنیں اور
صاحب علم وفن افراد سرگرم عمل رہے ۔
4۔ اسلامی تعلیم جمہوریت کی روت سے پوری طرح آشنا تھی علم پر کسی طبقے کی اجارہ داری نہیں تھی ۔ خاص و عام علم سیکھنے اور سکھانے کے مجاز تھے۔ معاشرے یا حکومت کی جانب سے حصول علم اور ترسیل علم پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔
5۔ اسلامی تعلیم عالم کی تھی۔ کوئی آبادی یا علاقہ مکتبوں اور مدرسوں میں خالی یا محروم نہ تھا۔
6۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم خان عوامی تھا۔ حکومت تعلیم کے فروغ کے لئے کثیر رو پیٹرچ کرتی تھی ۔ اور ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی تھیں لیکن کسی زمانے میں بھی نظام تعلیم حکومت کا تاج نہ تھا۔ حکومت کی طرف سے نگرانی صرف تعلیمی ضروریات فراہم کرنے کی حد تک تھی ۔
7۔تعلیم کے لئے ایک طرف یہ آزادی تھی اور دوی طرف حکومت کی سر پرستی کا یہ عالم تھا۔ کہ وہ تعلیم کو اپنے تمام کاموں سے زیادہ اہم بجھتی تھی ۔ ار باب حکومت تعلیم کو تجارت نہ مجھے تھے ۔اور نہ خزانہ پر ایک بار، کیونکہ تعلیم دنیا وآخرت دونوں کو بنانے کا ایک موثر ذرا یہ ہے ۔ ۔ مسلمانوں کے ہاں تعلیم ہمیشہ مفت رہی بلکہ طلبہ کی بود و باش خوردونوش اور علاج معالبے کا بھی پورا انتظام کیا جاتا تھا اور جیب خرچ کے لئے طلبہ کو سرکاری ذریعے سے اور امرا ء کی طرف سے وظائف دیئے جاتے تھے ۔
9۔ اسلامی نظام تعلیم کی ایک اور خصوصیت شما گرداوراستادکا قلبی تعلق تھا۔ اسا تذ کا کر دار مثالی ہوتا تھا۔ ان کے ایثار وقربانی اور اخلاص و تعلیمی انباک سے طلبہ بے حد متاثر ہوتے ہیں اور ان خوبیوں کواشعار زندگی بنانے کی کوشش کر تے ۔
10۔ استادطلبہ کے ترک پینس اور اصلاح باطن کی مجر فکر کرتے تھے انہیں ہر وقت بی خیال دامن گیر رہتا تھا کہ طلبہ کا معیار محض باند نہ ہو بلکہ ان کا اخلاق بھی بلند ہو اور وہ اچھے انسان او را جتھے مسلمان بن کر نکلیں ۔
پاکستان میں نظام تعلیم کی خصوصیات:۔
نظام تعلیم میں مقاصد تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ کیونکہ مقاصد تعلیم ہی دراصل نظام تعلیم کی سمت اور غرض و غایت متعین کرتے ہیں ۔ ما را ملک ایک نظریاتی مملکت ہے ۔ جس کی بنیاد اسلامی فلسفہ حیات پر رکھی گئی ہے۔ اس میں ایک تیج اور اسلامی تعلیمات پربنی نظام تعلیم قائم کر نے کی
ضرورت ہے۔
الف) تمام پاکستانیوں کے دلوں میں عموما پاکستانی طلباء وطالبات کے دلوں میں خصوصاً اسلام سے گہری محبت پیدا کرنا ۔ ان کے نظریاتی اور روحانی تصورات کو مستحکم کرنا۔
ب) ہر طالب علم میں یہ شعور پیدا کرنا کہ پاکستانی قوم کا فرد ہونے کے ناطے وہ امت مسلمہ کا جزو ہے اور اس پر اازم ہے کہ وہ تمام دنیا کے مسلمان
بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردارادا کرے اور ساتھ ہی پوری دنیا میں اسلام کے پیغام کوموثر انداز میں کچھیلا نے میں مدددے ۔
(ج) ملک میں سائنسی شعبے کو ترقی دینا تا کہ اس کے نتیجے میں ملک معاشی خوشحالی حاصل کر سکے اوراپنی ضروریات کے سلسلے میں خودکفیل ہو ۔
(د) معیاری تعلیم فراہم کرے تا کہ تمام افراد اپنی اہمیت وصلاحیت کے مطابق ترقی کرسکیں اور ان کی مناسب تربیت کا انتظام ہو۔
(ر) تمام پاکستانی شہریوں کیلئے تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرے اور اقلیتوں کے لیے بھی مناسب سہولیات فراہم کرے
۔ (ق) ہر پاکستانی کو ایک نیا مسلمان بنے اور اپنے اخلاق و عادات کو قرآن وحدیث کی روشنی میں پروان چڑ ھانے میں مدد دے۔
ط) ایسے شہری پیدا کرے جو کہ پوری طرح سے تحریک پاکستان ،اس کی نظریاتی بنیادوں اور تاریخ و ثقافت سے آشنا ہوں ۔ اپنے ورثے کو قیمتی سرمایہ
سمجھتے ہوں اور پاکستان کے مستقبل اور وجود پر ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے قائم رہنے پر حکام یقین رکھتے ہوں ۔
(ظ) ہر طالب علم میں بی شعور پیدا کرتا کہ پاکستانی قوم کا فرد ہونے کے ناطے وہ امت مسلمہ کا جزو ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ تمام دنیا کے مسلمان بھائیوں کی فلاح و بہبود کیلئے اپنا کر دارا دا کرے اور ساتھ ہی پوری دنیا میں اسلام کے پیغام کو موثر انداز میں پھیلانے میں مدد دے ۔
سوال نمبر :3 تعلیم کا نفسیاتی اور اقتصادی پہلو مثالوں کے ذریعے واضح کر میں ۔
جواب: تعلیم کے نفسیاتی پہلو:۔
بچوں کی ضروریات دوقسم کی ہیں ۔ بنیادی اور ثانوی ۔ بنیادی ضروریات یہ ہیں کہ ۔خوراک لباس تحفظ نشو ونما صحت و صفائی آزادی اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول ۔ ہرفردان تقاضوں کی تکمیل چاہتا ہے۔ اور ان کا حصول انہیں اطمینان بخشتا ہے ۔ان میں سے کسی تقاضے کی عدم تکمیل اسے پریشان کر دیتی ہے ۔ مشال خوراک میسر نہ آئے تو بھوک کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ خوراک کے حصول کیلئے کوشاں رہتا ہے ۔ معاشرے میں اسے عزت کا مقام نہ ملے تو وہ بے چینی محسوس کرتا ہے اور عزت کے حصول کے لئے جدو جہد کرتا ہے ۔اس لئے ان تقاضوں کو بنیادی ضروریات کا درجہ حاصل ہے۔
علم نفسیات ان بنیادی ضروریات کے تعین میں اور متعاقہ نانوی ضروریات کو معلوم کر نے میں مدد کرتا ہے ۔ مقاصد تعلیم اور مقاصد مضامین کے تعین میں فرد کی ضروریات کا خیال رکھا جا تا ہے ۔ ترتیب مواد میں تعلیمی جائزہ کے عمل میں طریقہ ہائے تدریس کے استعمال میں، تعلیم وتعلم کے عمل کو زیادہ موثر بنانے میں بچوں کو بجھنے میں ان کی دلچسپیوں کے مطابق ان کوتعلیم دینے میں غرض یہ کہ ہر قایمی مرحلے پر تعلیمی نفسیات کے اصول : ماری رہنمائی کرتے ہیں۔
تشکیل مقاصد تعلیم: ۔
میں یہ امر پیش نظر رکھا جا تا ہے کہ یہ مقاصد تعلیم بچے کی کون کون سی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔اگر مقصد تعلیم بچے و بہتر بنانا ہے تو بچے کو اس سے معاشرے میں اچھا مقام ملے گا ۔ اگر مقصد تعلیم اس میں اپنی تقریر کا انداز پیدا کرتا ہے تو وہ ظاہر خیالات سے اپنے ساتھیوں میں ممتاز ہوسکتا ہے۔ اگر مقصد تعلیم قوت استدال کو اجاگر کرتا ہے تو وہ بات کرنے کا سابقہ سیکھ لے اور معاشرے میں اچھا مقام حاصل کر لے گا۔ پیاس کی بنیادی ضروت ہے ۔ نصاب سازی کے عمل:۔
میں ہر مرحلے پر بچے کی ضروریات کو پیش نظر رکھا جا تا ہے ۔ اس مضمون کے انتخاب میں بچے کی بنیادی اور ثانوی ہر دو ضروریات کا خیال تھا جاتا ہے کہ کیا اس مضمون کے پڑھنے سے بچے کی فوری ضروریات پوری ہوں گے ، یا مستقبل قریب کی بامستقبل بعید کی ۔ یہ بھی خیال رکھا جا تا ہے کہ میٹس مضمون بچے کی عمر اور تجر بات کے مطابق ہے ۔ مواد کی ترتیب میں آسان سے مشکل سادی سے میدہ مادی مضمون پے کی عمر اور تجر بات کے مطابق ہے ۔ مواد کی ترتیب میں آسان سے مشکل سادہ سے پیچیدہ مادی سے غیر مادی مرئی سے غیر مرئی اور علوم سے غیر علوم تک کے نفسیاتی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا۔
طریقہ ہائے تدریس
میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ استاد بہت سے طریقوں کو جانتا ہو اور بچے کی ضروریات کے پیش نظر ان کے تعلیمی پس منظر کو سامنے رکھے ۔ پھران کے معاشرتی، معاشی اور گھر یلو حالات کا خیال تھے ۔ ان طریقہ ہائے تدریس میں سے جس وقت جوطریقہ موزوں ترین سمجھے اسے بروے کا راۓ ۔ تعلیم کو موثر بنانے کیلئے قانون مشق، قانون آمادگی اور قانون تاثیر جیسے نفسیاتی اصولوں کو کام میں لاۓ اور انفرادی اختلافات کے پیش نظر اگر استاد مناسب سمجھے طلبہ کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دے۔
تعلیم کا اقتصادی پہلو:
تعلیم کا ایک معاشرتی عمل ہے۔ اس لئے تعلیم وعلم میں جہاں بچے کی ضرورت کا خیال رکھا جا تا ہے وہاں معاشرہ کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا جا تا ہے معاشرہ میں چاہتا ہے کہ سکول میں جانے والے بچے روزی کا مما کراپنا پیٹ پالنے کی قابل ہو جائیں اور معاشی طور پر با عزت زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی معیشت کو بھی ترقی میں ۔ معاشرہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ تعلیم بچوں کے لئے حصول معاش کا ذرا یہ بھی ہے تا کہ وہ عزت کی روزی کماسکیں اور دوسروں پر او جبر نہ بنیں ۔
علم براۓ علم : علم براۓ حصول سرت معلم براۓ تعمیر، کردار اور علم برائے تشکیل معاشہ جیسے نظریات اپنی جگہ درست ہیں لیکن تعلیم کا اہم مقصد معاشی ترقی بھی ہے وہ دن گئے جب تعلیم محض پہنی ارتقاء سمجھا جا تا تھا اور بدل نہیں ملتا۔ ترقی یافتہ معاشرے ہوں یا ترقی پذیر معاشے اس بات کا اچھی طرح احساس رکھتے ہیں کہ تعلیم کا نتیجہ مادی منفعت کی صورت میں بھی ملتا ہے ۔ برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے بعد تعلیمی ترقی کا ایک نیا باب کھلا ۔۱۸۵۰ء کے بعد ہونے والی سائنسی ترقی اور سائنسی ایجادات اور ان سے حاصل ہونے والے جملہ فوائد ان اخراجات کا نتیجہ ہیں جواس میں برطانوی معاشرے نے تعلیم پر گئے ۔
کیا تعلیم وتربیت سے قومی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے؟ اس موضوع پرمحققین نے تحقیقات کیں جن سے مثبت نتائج برآمد ہوۓ ایک مصری ماہرتعلیم اور محقق پروفیسر سولو نے انداز و لگایا کہ اقتصادی ترقی میں مادی وسائل کا حصہ صرف دس فیصد ہے جب کہ باقی بانوے فیصد ترقی ٹیکنیکی اور سائنسی علوم کی مرہون منت ہے ۔ یورپ میں اکرسٹ نے ناروے کی ۱۹۵۰ء اور ۱۰۵۵ ، کی مجموعی قومی پیداوار کا مقابلہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ قومی پیداوار میں اضافہ کا تقریبا نوے فیصد حصہ سائنسی اور ٹیکنیکی تر قیات کی وجہ سے ہے ۔ پروفیسر ریڈ ویب اور پروفیسر سمتھ نے برطانیہ کی عنہ بیکاری پیداوار کے متعلق ۱۹۶۷، اور ۱۹۵۴ء کے شماریات کا موازنہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ حق پیداوار میں اضافہ کا ایک چوتھائی حصہ مادی وسائل کا مرہون منت ہے باقی تین چوتھائی اضافہ ق ایجادات اور سائنسی علوم کا مرہون منت ہے ان تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ اگر کو ، معاشرہ اپنے افراد کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے تو اسے مجموعی ترقی آمدنی میں اضافہ کی سورت میں اس کا بدل ملتا ہے ۔
تعلیم کا اقتصادی پہلو: دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم کی ترقی سے افراد کی انفرادی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے؟ اس موضوع پر بھی تحقیقات ملی ہیں جن کے نتائج مثبت ہوں اور حوصلہ افزا ، بھی۔
ایک متفق پینسٹن نے تعلیمی اقتصادیات کے موضوع پر تحقیقات کیں اور معلوم کیا کہ ۱۹۶۰ ، میں امریکہ میں وہ ترکھان جو ہائی سکول تک تعلیم یافتہ تھے ان تر کھانوں سے جو صرف پرائمری پاس تھے ۔ ۹۰۰ ڈالرسالا نہ زیادہ کماتے ۔ بجلی کا کام کرنے والوں میں یہ فرق پانچ سو ڈالر کا تھا اور ہتھیار سازوں میں پرسو ڈالر ما انہ کا تھا۔ تھوڑ رشلر نے امریکہ میں ابتدائی ، نانوی اور کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے وا! ایک شخص اپنی زندگی میں ایک ایسے شخص سے ایک لاکھ میں ہزار ڈالرزیادہ کھا تا ہے جس نے سرف ثانوی در بے تک تعلیم حاصل کی تھی جب کہ کالج کی تعلیم ہر اس شخس کا کل تیرہ ہزار دوسو ڈالر خرچ ہوا اس طرح کا لج کی تعلیم کی وجہ سے زائد آمد نی زائد خرچ سے تقریبا دس گنا تھی ، ۔ سٹینلے ٹرومین نے بی انداز الگایا کہ روس میں صرف ایک سال کی ابتدائی تعلیم والے ہنرمند کی آمدنی ان پڑھ مزدور سے میں فیصد زیادہ ہے جبکہ چار سال کی پرائمری تعلیم سے اضافے کی شرح ۷۹ فیصد ہوتی ہے اور سات نو اور تیرہ سال کی تعلیم سے آمدنی میں اضافے کی شرح بالترتیب ۲۳۵ فیصد ۲۸۰ فیصد اور ۳۴۰ فیصد ہوتی ہے ۔ ارنس : یڈ لے نے ۱۹۷۶ء میں پاکستان میں تعلیم کے نفع بخش ہونے کا اندازہ لگایا۔ اس نے معلوم کیا کہ گیارہ سے بیس سال کے میٹرک پاس مزدور پیشہ لوگوں کی سالانہ آمدنی ان پڑھے مزدوروں سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے اور پرائمری پاس مزدوروں کی نسبت تقریبا اڑھائی گنا زیادہ ہے جبکہ اکیس اور میں برس کے گر یجو یٹ مزدور پیشہ لوگ اس عمر کے ان پڑھ مزدوروں سے تقریبا پندرہ گنا زیادہ کماتے ہیں ۔ ۴۱ تا ۶۰ برس عمر کے گر یجو بیت مزدوراس عمر کے ان پڑھے مزدوروں سے تقریبا ستر گنا زیادہ کماتے ہیں ۔اسی طرح گیارہ برس س ۲۵ برس تک کے میٹرک پاس مزدور پیشہ لوگ پرائمرے پاس مزدور پیشہ لوگوں کے مقابلے میں تقر یبارو سے اڑھائی گنا زیادہ کماتے ہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی تعلیم ایک پیداواری اکائی ہے آمدنی تعلیم کی ترقی کے ساتھ بتدریج بڑھتی ہے اور بڑ ہوتری کی سید شرح کالج تک کی پیشہ وارا تعلیم کے بعد نسبتا زیادہ ہوتی ہے۔
تعلیم کے اقتصادی پہلو میں یہ بحث کی گئی ہے کہ تعلیم کی ایک اہم ذمہ داری معاشرے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ چونکہ معاشر تعلیم برائے حصول معاش کا تقاضا کرتا ہے اور گذشتہ بحث میں یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ تعلیم فرداور قوم کی معیشت کو ترقی دیتی ہے اس لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس قسم کی تعلیم دی جائے جس سے معاشرے میں اقتصادی ترقی کی شرح میں زیادہ اضافہ ہو ۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے زمین ایک قدرتی وسیلہ ہے تربیت یافتہ کہ مان بھی معاشرے کی افرادی قوت میں کیونکہ وہ نے بیجوں ، جدید آلات زراعت اور کاشتکاری کے موزوں طریقوں کا استعمال کر کے اس میں پیداوار کی مقدار کو بڑھا سکتے ہیں اس طرح و ا پنی آمدنی بڑھانے کے ساتھ ساتھ مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کر کے معاشرے کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں ۔ان کہ مانوں کی نسبت ہر لحاظ سے بہتر کہ مان ہوں جوروایتی طریق کار سے اپنی بڑوں کے ساتھ کھیتوں پر کام کر کے کاشت کاری کا فن سیکھتے ہیں ۔
سوال نمبر : اسلامی نظام تعلیم میں استاد کا مقام ومرتبہ بیان کر میں ۔
جواب: استادکارتبہ و مقام:
استاد کی عزت و تکریم یا عدم عزت و تکریم کا انحصار دو چیزوں پر تھاوہ مقام یا خطبہ اس میں اپنے فرائض نہیں انجام و بتا۔ مثال پرانے فارس میں استاد کی بڑی عزت کی جاتی تھی ۔ میر وایت اسلام سے پہلے بھی وہاں موجو دتھی تعلیمی منزل جس میں استاد درس و تدریس کا فرایند انجام دیتا۔ چونکہ ابتدائی منزل میں استاد و دزیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتا تھا اس لئے اس کی بہت زیادہ عزت و تکریم کی جاتی ۔اساتذہ کے پانچ درجے تھے ۔ منی معلم ( پرائمری ٹیچر ) مودب ( ثانوی نیچر ) مدرس ( پیشہ ور یا اعلی جماعتوں کا ٹیچر ) شیخ ( خصوصی ) ماہر اور امام ( اخلی در جوں کا مذہبی استاد ) ۔
عباسی دور میں اسا تند و خاص لباس زیب تن کرنے لگے تھے ۔ سر پر عمامہ، بدن پر کر تہ اور واسکٹ ، اور ٹانگوں میں کھلا پیشیوار پہنتے تھے اور پورے لباس کو جے اور عبا سے ڈھانچتے تھے ۔اس کے اوپر چادر اوڑھتے اور سر پر پگڑی ، اساتذہ کی تنظیمیں قائم تھیں جنہیں نقابت کہتے تھے ۔ان تنظیموں کا کام اساتذہ کے مدارت کا تعین اور پیشہ ورانہ ضابطہ ہاۓ اخلاق ولمی معیارات قائم کرنا اوران کا تحفظ تھا۔ اس قسم کی تنظیمیں بہت بااثر تھیں ۔
راہنمائی: استادکا مرتبہ رہنما کا تھا۔ الغزالی اور ابن سینا کے نزدیک پیش علمی کی یہی معراج تھی ۔ ابن سینا نے اس پرزوردیا کہ بچوں کو ایسی تعلیم مہیا کی جائے جس کے وہ اہل ہیں اور جس کا وہ بھی میان رکھتے ہیں ۔استاد کا میفرض ہے کہ وہ طالبعلم کی خوبیوں ( استعداد ) کا پتہ چلاتے رہیں اور موزوں ترین علم کے مطالعے کی جانب اسے راغب کرے۔
علمی یا ذہنی آزادی: اسلامی تاریخ کی سنہری صدیوں میں مذہب نے ہمیشہ آزادی ،تجسس اور تحقیق کی حمایت کی اور علم وفضیات کی قدروانی کی ۔ طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ آزادانہ بحث وتحیس کر سکتے تھے ۔ آزادان تحقیق علمی جستجو کے دروازے کتب خانوں اور خانما ، اور سلاطین کے دربانوں میں بھی کھلے تھے ۔
یہ مقامات علمی تحقیق و تنقید کے مراکز تھے ۔ جو علما ءان سے متعلق ہوتے انہیں فیاضانہ وظائف دیئے جاتے ۔
سوال نمبر : ۵ تعلیم اور مختلف معاشرتی اداروں کا باہمی تعلق تفصیل سے بیان کریں۔
جواب: تعلیم اور معاشرتی ادارے:
تعلیم کی ضرورت واہمیت سے یہ بات واضح ہوگی کہ انسان معاشرے میں کامیاب انفرادی اور گروہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تعلیم حاصل کر: بہت ضروری ہے۔ تعلیم کے لیے کچھ تو با قاعدہ اور منظم ادرے قائم کیے جاتے ہیں جن کو ہم سکول، کالج اور یو نیورسٹیاں کہتے ہیں لیکن کچھ ادارے جو متعین تو نہیں ہوتے لیکن عما وہ قلیمی مقصد کے حصول میں معاون ہیں ان اداروں میں گھر، خاندان ، معاشرہ ،مسجد اور دیگر معاشرتی ادارے شامل ہیں۔ جن کا تعلیمی ماحول کے ساتھ گہرا وا ط موجود ہوتا ہے۔
تعلیم اور گھر :
انسان کے لیے سب سے پہلے تعلیم وتربیت کا ادارہ گھر ہی ہے ۔ پیدائش کے بعد 5 سال تک بچے کی تقریبا تمام تر بیت گمر کی چاردیواری تک محدود ہوتی ہے ۔ گھر کے ماحول سے بچہ جواثر قبول کرتا ہے وہ بہت اہم ہوتا ہے ۔ گھر میں ماں باپ، بہن بھائی ، دادا دادی اور دوسرے عزیز واقارب مختلف طریقوں سے بچے کے معلم کا کام سرانجام دیتے ہیں ۔ مدرسے میں داخل ہونے کے باوجود گھر کی اہمیت موجود ہے ۔ کیونکہ مدرسے میں تھوڑے سے وقت میں انہیں لکھنا ، پڑھنا ۔ ان کی جسمانی عملی اوراخلاقی تربیت کرنا بھی گھر کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے گھر کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی
مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کریں ۔
1۔کھانے پینے ، ورزش ،رہائش، پابندی سے نہانے ، کپڑے بدلنے اور کھیل کود کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی کرنا۔
2- بچے کی عادات واطوار پر نظر رکھنا اور آہستہ آہستہ پسندیدہ عادات و معلومات کا پابندکرنا اور ان کی تربیت کرنا ۔
3 ۔ تعلیم وتربیت میں مدر سے کی ہدایات پر عمل پیرا ہونا اور تعاون کرنا ۔
4۔ گھر کی زندگی پاکیزہ ہواور اہل خانہ کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنا ۔
5۔ فرصت کے اوقات میں گھر کے کام کاج کرنا اور اس کے لیے بچے کومحنت و مشقت کے ساتھ ذمہ داری کا احساس دلوانا ۔
6۔ دوستوں کے ساتھ کھیلا اور عزیز واقارب سے ملنا تا کہ معاشرتی تربیت ہولیکن ماحول کے برے اثرات سے بچنا۔
7۔ بچے کی تعلیم میں دینی تعلیم وتربیت پر بھی توجہ دینا ۔
ان تمام ذمہ داریوں کو صرف اور صرف گھر میں انجام دیا جاسکتا ہے ۔لیکن ہمارے معاشرے میں بعض وجوہات کی بنا پر بہت کم لوگ یہ ذمہ داری ادا کر تے ہیں۔
(2) مدرس:
مدرسه و د ادارہ ہے جو بچوں کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑ ھانے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے اور سی ادارہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہونے کے سلسلے میں بڑا موثر خصر ہے۔ مدرسہ ایک منظم ادارہ ہوتا ہے اور بچوں کا اس کے ساتھ گھر جیسا سلوک ہوتا ہے اس مدرسہ سے بچے کی سیرت وکردار و شخصیت پر جوفتوش بنتے ہیں و ہ اس کو گلی زندگی میں کارآمد اصولوں کے طور پر سامنے آ تے ہیں ۔ مدرسہ کو مندرجہ ذیل پہلوؤں پر بہت توجہ دینا چاہئے ۔
1۔ بچے کے اندر دین و مذہب کے ساتھ وطن کی محبت بھی پیدا کرنا۔
22۔ مختلف علوم وفنون کی مہارت بچوں میں پیدا کرنا۔اسی طرح ان کو نظم وتربیت کے ساتھ معلومات پہنچانا اور مہارت پیدا کرنا ۔
3- اصلاح و تربیت کرنا فیملی علمی ، جسمانی یا اخلاقی حیثیت سے جوخرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں ان کی اصلاح کرنا۔
4۔ بچوں کے اندر برے بھلے کی تمیز حق سے محبت ، باطل سے نفرت ، نیکی کا پرچار اور برائی سے منع کرنا ۔
5۔ بچپن اور جوانی ، کتابی اور عملی دنیا۔ مدر سے اور معاشرے کے درمیان موجو دوریاں ختم کرنا تا کہ بچے کامیابی کے ساتھ ملی زندگی گزارسکیں۔
6- انسانیت کے مفید تجربات اور ثقافتی ورنی کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا اور مدرسہ کے لیے ضروری ہے کہ ان چیزوں میں مناسب اضافہ کر کے نئ نسل تک منتقل کرے ۔
7۔ بچوں کے اندر نمل کرنے کے جذبے کے ساتھ دوسروں تک منتقل کرنا ۔ یہ جذ بہ بھی پیدا کیا جاۓ
۔ 8۔ معاشرے کوعلم فضل کی کسوٹی فراہم کرنا تا کہ معاشرے مدرسہ کی حقیقت کو بہم سمجھ سکیں۔
9- مدرسہ کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو انفرادی توجہ دے اور ذہنی اور معاشرتی فرق کوختم کرنے کی کوشش کرے ۔
(3) قریبی ماحول:
بچہ جس ماحول میں بڑا ہوتا ہے، جس طرح کے مناظر سے دو چار ہوتا ہے اس سے بھی اس کی تربیت اور تعلیم پراثر پڑتا ہے۔ بچہ جن بچوں کے ساتھ کھیلتا ، اٹھتا بیٹھتا ہے ۔ ان سب کے مجموعی اثر کو ضرور قبول کرتا ہے ۔ ماحول اگر اچھا ہوگا تو مدرسہ اور گھر دونوں کی محنت اور زیادہ رنگ لاۓ گی ورنہ دونوں کو بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔
معاشرہ:
معاشرہ میں عموما جن چیزوں کا رواج ہوتا ہے افراد ان کو لامحالہ طور پر اپنا لیتے ہیں کیونکہ انسان عام طور پر اپنے معاشرہ اور ماحول کی پیداوار ہوتا ہے ۔انسانی معاشرے میں موجود ادارے جن سے افراد ساری زندگی کچھ نہ کچھ سکھتے رہتے ہیں اور ان کے کچھ نہ کچھ اثرات قبول کر تے رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے تعلیم کے لیے ان باتوں کا خیال رکھیں ۔
1۔ بچوں کے اند رقومی اخلاق پیدا ہوں ۔ تا کہ برے عناصر بھر کر معاشرے کو بگاڑ کی طرف نہ لے جاسکیں ۔
2-افراداوراداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں ۔اچھے کاموں میں ان کے ساتھ تعاون اور برے کام سے منع کرنا ضروی ہے ۔
3۔ معاشرہ میں موجود مظلوم افراد، پسماندہ اور مجبور افراد کے لیے سہارا بنا اور ان کی صلاحتوں کو بروئے کارلاکیں ۔
ان تمام اداروں کے لیے ضروری ہے کہ اپنا کردار تعلیمی خدمات اور انسانی زندگی کو سنوارنے کے لیے ادا کر میں ۔اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سے ادارے تعلیم کو متاثر کرتے ہیں اور انسانی زندگی کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے گردوپیش میں نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ معا شرے میں کئی اصلاحی اور فلاحی تنظیمیں بھی کام کرتی ہیں اور ملوں اور شہروں میں میادارے کس قسم کی تعلیم کی ترویج میں کوشاں ہیں ۔