AIOU Course Code 5606-1 Solved Assignment Autumn 2021

Student Name:                            

Course:                                                                     اردو تنقید

Semester:                                                                Autumn, 2021

ASSIGNMENT No. 1

ANS 01

فارسی ایران کی زبان ہے۔ اہل ایران اپنی ذہانت، نفاست، شائستگی اور علم و فضل کے لئے مشہور ہیں۔ ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کا آغاز محمود غزنوی سے ہوا۔ اس کے بعد یہ زبان مسلسل ہندوستان میں جاری و ساری رہی اور فارسی کے مختلف مراکز وجود میں آئے۔ د لاہور ملتان اور دہلی وغیرہ فارسی کے بڑے مراکز شمار کئے جاتے تھے اس کے علاوہ اودھ کا خطہ جو ہمیشہ سے مردم خیز رہا ہے اس نے بھی فارسی زبان و ادب کی پیش رفت میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ اورنگ زیب کی وفات(1707) کے بعد جب ہندوستان میں مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو اس کا اثر فارسی پر بھی پڑا۔ جب شعراءو ادباءکی خاطر خواہ سرپرستی نہیں ہوی تو وہ مختلف درباروں کا رخ کرنے لگے۔ اس نازک دور میں سرزمین اودھ نے فارسی زبان وادب کی ترویج و اشاعت میں نمایاں خدمات انجام دیں۔

متعلقہ مضامین

لاک ڈاؤن کی مثالی شادیاں

جولائی 4، 2020

اللہ کے بندوں کے کام آئیں

جون 8، 2020

شب قدر کا فلسفہ: قرآن و سنت کی روشنی میں

مئی 30، 2019

پہلی جنگ آزادی کے بعدہندوستان میں نوابین اودھ کا عہد (1721 تا 1857) فارسی زبان و ادب کا عہد زریں کہا جا سکتا ہے۔ ”نوابین اودھ نے علم و ادب اور فنون لطیفہ سے دلچسپی کی سابقہ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انہیں ہر طرح فروغ و استحکام بخشا۔ اودھ کی سرزمین نے ایسے ایسے مایہ ناز ادیب اور شاعر پیدا کئے جو اپنی طرزنگارش، حسن بیانی، زبان کی صفائی، شیرینی اور سلاست و روانی میں ہر طرح سے ممتازوممیز تھے۔ “ اس دور میں فارسی کی متعدد اہم تصنیفات معرض وجود میں آئیں۔ اور فارسی زبان و ادب کے مختلف موضوعات پر گران قدر کتابیں تلیف ہوئیںان موضوعات میں فن ”تذکرہ نگاری“ بھی نہایت اہم ہے۔

اس سے پہلے کہ فارسی تذکرہ نگاری کی تاریخ بیان کی جائے مناسب یہ ہوگا کہ لفظ تذکرہ کی وضاحت کرتے ہوئے اس پرسیر حاصل بحث کی جائے۔

تذکرہ عربی زبان کا ایک لفظ ہے اس کا مادہ ذ(ذال)، ک(کاف)اور، ر (را) ہے

ذکر (ن) ذِکرا و تذکارا -اﷲ۔ اللہ کی پاکی و بزرگی بیا ن کرنا۔

لفلان حدیثا : ذکر کرنا، ازکرہ الشی: یاد دلانا

ا لتذکرہ : وہ چیز جس سے حاجت یاد آجائے (جمع) تذاکر…………….المنجد ص353 ذکریا آفسیٹ پریس دیوبند

        ”فارسی زبان میں لفظ تذکرہ کا استعمال(آنند راج کے مطابق) یاد داشت، یاد کرنا اور نصیحت کرنا کے لئے ہوتا ہے۔ فرہنگ نظامی کے مطابق تاریخ کی ایسی کتاب جس میںشعراءکے احوال واذکار مذکور ہوں تذکرہ کہلاتی ہے۔ فرہنگ نظامی ناظم الاطباءکے مطابق تذکرہ یادگار، یاد داشت اور سفرنامہ کو کہتے ہیںاور ایک ایسی کتاب کو کہتے ہیں جس میں شعراءکے حالات زندگی لکھے ہوں“۔ ….’ ’تذکرہ نویسی فارسی در ہند و پاکستان‘۔ 1968ء:ڈاکٹرعلی رضا نقوی: مطبع: مسسة مطبوعاتی علمی چاپ علی اکبر علمی تہران، ص :2“

لفظ تذکرہ عربی زبان کے لفظ ذکر سے ماخوذہے جس کے معنی یاد کرنا، یاد آنا، یاد دلانا اور تذکرہ کے معنی یاد دہانی اور سرگذشت کے ہیں، لیکن اصطلاح میں اس لفظ کا استعمال ایک ایسی کتاب کے لئے ہوتا ہے جس میں اشخاص کے احوال و آثار کا ذکرکیا گیاہو۔ صفوی دور سے پہلے ”تذکرہ دولت شاہ “کے علاوہ تمام فارسی ادب کی کتابوں میں تذکرہ لفظ کا استعمال ’یادگار‘ ’یادداشت ‘ اور ماضی کے کاموں کو یاد کرنے کے معنی کے لئے ہوتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ صفوی دور میں ہی اس لفظ کا استعمال ایک ایس کتاب کے لئے کیا جانے لگا جس میں شعراءکے مختصر احوال اور انکے اشعار مذکور ہوں۔

تذکرہ کی سب سے پہلی کتاب جس کا نام تذکرہ سے شروع ہوتا ہے ”تذکرة الاولیائ“ ہے اور اس کی تالیف آٹوھویں صدی ھجری کے ابتدائی دور میں فرید الدین عطارنے کی تھی۔ اس کتاب کے سلسلہ میں علی رضا نقوی اسی کتاب کے مقدمہ کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”دیگر باعث آن بود کہ چون دیدم کہ روزگاری پدید آمدہ است کہ الخیر شرو اشرار الناس اخیار الناس ر افراموش کردہ اند تذکرہ ¿ ساختم اولیاءرا ایں کتاب را ’تذکرة الاولیائ‘ نام نہادم تا اھل خسران روزگار اھل دولت را فراموش نکنندو گوشہ نشینان و خلوت گرفتگان را طلب کنند وبا ایشاںرغبت نمانید تا در نسیم دولت ایشاں بہ سعادت ازلی پیوستہ گردند“

فارسی کی دوسری کتاب کہ جس کا نام لفظ تذکرہ سے شروع ہوتا ہے وہ شیخ نصیر الدین طوسی کا رسالہ ’تذکرہ‘ (597-672ھ)ہے یہ بیس فصلوں پر مشتمل ایک رسالہ ہے جس میں لفظ تذکرہ کا استعمال ماضی کے کاموں کو یاد کرنا اور ان کی نصیحت کرنے کے لئے ہوا ہے۔

تذکرہ نام سے شروع ہونے والی فارسی کی تیسری کتاب ’تذکرة الشعرائ‘ ہے اس کتاب میں تذکرہ لفظ کا استعمال گذشتہ کاموں کے لئے کیا گیا ہے، اس کتاب کی تالیف 892ھ میں دولت شاہ سمرقندی نے کی تھی۔

بر صغیر ہند اور پاکستان میں تذکرہ لفظ کا استعمال ایسی کتابوں کے بارے میں ہوتا ہے جس میں لوگوں کے احوال اور انکے کارنامے لکھے گئے ہوں، جیسے : تذکرةالامراءکیول رام او ر تذکرہ علمائے ہند از احمد علی وغیرہ۔

تذکرہ کلاسیکی عہد میں لکھے جانے والی ایسی یادداشت ہے۔ تاریخی بیان اور وہ کتاب ہے جس میں شعرأکا حال لکھا جاتا ہے تذکرہ مذکر ہے، جمع ہے تذکرہ جات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:

اُردو ادب میں تنقیدی شعور بلاشبہ اوّل روز سے موجود تھا مگر اُردو تنقید کا باضابطہ اور باقاعدہ آغاز 19ویں صدی کے آخر میں ہوا۔ اُردو تنقید کی کہانی کا پہلا(episode) تذکرے ہیں۔ جن میں بیشتر فارسی میں ہیں۔18 ویں صدی تک تمام تذکرے فارسی میں لکھے گئے تاہم اُنیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کے اثرات سے اُردو میں بھی لکھے جانے لگے۔ “ ]۲[

تذکرہ بیاض کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ بیاض میں صرف منتخب اشعار ہوتے تھے جبکہ تذکرہ میں منتخب اشعار کے ساتھ خالق اشعار کے نام اور تخلص کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعراءکے نام اور تخلص میں ابجدی اور تہجی ترتیب کو ترجیح دی گئی بعد ازاں مختصر حالات زندگی اور کلام پر مختصر تبصرے کا بھی اضافہ ہوا اور یوں تذکرہ بیاض سے مختلف اور مختصر منزلیں طے کرتا ہوا نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی ماحول میں پرورش پانے لگا۔ وقت اور ماحول کے تقاضوں نے تذکروں پر ادبی تاریخ، تنقید اور سوانح نگاری کے گہرے اثرات مرتب کیے پھر یوں ہوا کہ اِن تین رنگوں کا مجموعہ نہ تو ادبی تاریخ کا نام پا سکا اور نہ ہی تنقید کہلا سکا اور نہ سوانح نگاری کے ضمن میں آسکا تو وہ تذکرے کے فن سے معروف ہوگیا اور شعرأکے مختصر حالاتِ زندگی، کلام پر سرسری تبصرہ اور انتخاب اشعار کو اِس فن کے عناصر ترکیبی میںشمار کیا گیا۔

تذکرہ نگاری کا بڑا مقصد قدیم شعر و ادب اور شعراءکے حالاتِ زندگی کو یکجا کیا جائے کہ یہ سرمایہ ادب اور نئی نسل کے لیے نمونہ رہے۔ تذکروں کی اہمیت کو جن لوگوں نے محسوس کیا اور جن کی کاوش اور لگن سے اُردو تذکروں پر جو کام ہوا اُن میں حافظ محمود شیرانی، سیّد محمد ایم اے، ابو اللیث صدیقی اور قاضی عبد الودود کے نام آتے ہیں۔ اِن بزرگوں کا کام تقسیم سے پہلے کا ہے تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں میں ۱۹۶۴ءتک سالنامہ نگار ’تذکروں کا تذکرہ نمبر‘ میں قابلِ ذکر کام نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’اُردو شعراءکے تذکرے اورتذکرہ نگاری‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

اُردو میں ادبی تنقید و سوانح اور تاریخ نگاری کے سلسلے کا تحقیقی کام دراصل تذکروں کے سہارے آگے بڑھا ہے۔ اگر یہ تذکرے یکے بعد دیگرے سامنے نہ آجائیں تو ہم ’اُردو زبان و ادب کے قدیم ورثے‘ اِس کی نوعیت، اس کے اسالیب اور اسالیب کی ارتقائی کڑیوں سے ناواقف ہوتے۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ ہمارے شعر و ادب کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور اِس میں ہمارے اسلاف نے کتنی قسمتی چیزیں یادگار چھوڑیں ہیں۔“ ]۳[

فارسی زبان کے دستیاب تذکروں میں محمد عوفی کا ’لباب الالباب‘ ایران میں فارسی کا پہلا تذکرہ قرار دیا جاتا ہے۔ بارہ ابواب پر مشتمل دو جلدوں میں منقسم یہ تذکرہ 617 اور 618ءکے درمیان تکمیل کو پہنچا۔ ’لباب الالباب‘ کے بعد ایران اور ہندوستان میں فارسی شاعروں کی بڑی تعداد میں تذکرے لکھے گئے۔

۱۷۰۷ءمیں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ایک بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہوئی جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ مغلیہ سلطنت انگریز کے ہاتھوں منتقل ہوگی۔ اِس تبدیلی سے دیگر شعبہ زندگی کی طرح زبان و ادب کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فارسی جسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، معزول حکومت کے ساتھ ہی معزول ہوگی اور فارسی کو اُردو کے لیے جگہ خالی کرنا پڑی اور پھر اُردو زبان میں بھی تذکرے لکھے جانے لگے۔

موجودہ تحقیق کے مطابق اُردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ نکات الشعراءہے جس کی تکمیل ۱۱۶۵ءمیں میر تقی میر کے ہاتھوں ہوئی۔

اُردو کے معروف تذکروں کا مختصر تعارف:

نکات الشعراءاز میر تقی میر

نکات الشعرائ‘ میں ۱۰۳شعراءکے حالاتِ زندگی اور نمونہ کلام کے ساتھ شاعر کے فنی محاسن اور فکر و فلسفہ پر بھی جامع رائے دی گئی ہے۔ فرمان فتح پوری نے نکات الشعراءکے حوالے سے لکھا ہے کہ:

ریختہ کی اقسام، اُس کی خصوصیات، لب و لہجہ اور شعری محاسن وغیرہ کا اجمال اور اہم ذکر اوّل اسی تذکرے میں آیا ہے اور تذکرے کے خاتمے پر میر نے جو کچھ لکھا ہے وہ اُردو شاعری کی تنقیدی تاریخ میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔“ ]۴[

تذکرہ ریختہ گویاں از سیّد فتح علی حسینی گردیزی

عربی اور فارسی کے عالم حسینی تصوف اور مذہب کے موضوعات پر بہت علم رکھتے تھے۔ اُردو میں اُن کا نام دو کتابوں ابطال الباطل اور ریختہ گویاں کی وجہ سے معروف ہوا۔

ریختہ گویاں میں ۹۷شعراءکے احوال بلحاظِ حروفِ تہجی قلمبند کیے گئے اور اُن تمام شعرأکی حد سے زیادہ تعریف کی گئی ہے جن شعرأکو ’نکات الشعرائ‘ میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

میر اور گردیزی دونوں نے تذکرے کے اختتام پر ایک ہی طرح کی عبارتیں لکھی ہیں ممکن ہے کہ ایک نے دوسرے سے فائدہ اُٹھایا ہے۔

ANS 02

تذکرہ کلاسیکی عہد میں لکھے جانے والی ایسی یادداشت ہے۔ تاریخی بیان اور وہ کتاب ہے جس میں شعرأکا حال لکھا جاتا ہے تذکرہ مذکر ہے، جمع ہے تذکرہ جات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:

              ”اُردو ادب میں تنقیدی شعور بلاشبہ اوّل روز سے موجود تھا مگر اُردو تنقید کا باضابطہ اور باقاعدہ آغاز 19ویں صدی کے آخر میں ہوا۔ اُردو تنقید کی کہانی کا پہلا(episode) تذکرے ہیں۔ جن میں بیشتر فارسی میں ہیں۔18 ویں صدی تک تمام تذکرے فارسی میں لکھے گئے تاہم اُنیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کے اثرات سے اُردو میں بھی لکھے جانے لگے۔ “ ]۲[

       تذکرہ بیاض کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ بیاض میں صرف منتخب اشعار ہوتے تھے جبکہ تذکرہ میں منتخب اشعار کے ساتھ خالق اشعار کے نام اور تخلص کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعراءکے نام اور تخلص میں ابجدی اور تہجی ترتیب کو ترجیح دی گئی بعد ازاں مختصر حالات زندگی اور کلام پر مختصر تبصرے کا بھی اضافہ ہوا اور یوں تذکرہ بیاض سے مختلف اور مختصر منزلیں طے کرتا ہوا نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی ماحول میں پرورش پانے لگا۔ وقت اور ماحول کے تقاضوں نے تذکروں پر ادبی تاریخ، تنقید اور سوانح نگاری کے گہرے اثرات مرتب کیے پھر یوں ہوا کہ اِن تین رنگوں کا مجموعہ نہ تو ادبی تاریخ کا نام پا سکا اور نہ ہی تنقید کہلا سکا اور نہ سوانح نگاری کے ضمن میں آسکا تو وہ تذکرے کے فن سے معروف ہوگیا اور شعرأکے مختصر حالاتِ زندگی، کلام پر سرسری تبصرہ اور انتخاب اشعار کو اِس فن کے عناصر ترکیبی میںشمار کیا گیا۔

       تذکرہ نگاری کا بڑا مقصد قدیم شعر و ادب اور شعراءکے حالاتِ زندگی کو یکجا کیا جائے کہ یہ سرمایہ ادب اور نئی نسل کے لیے نمونہ رہے۔ تذکروں کی اہمیت کو جن لوگوں نے محسوس کیا اور جن کی کاوش اور لگن سے اُردو تذکروں پر جو کام ہوا اُن میں حافظ محمود شیرانی، سیّد محمد ایم اے، ابو اللیث صدیقی اور قاضی عبد الودود کے نام آتے ہیں۔ اِن بزرگوں کا کام تقسیم سے پہلے کا ہے تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں میں ۱۹۶۴ءتک سالنامہ نگار ’تذکروں کا تذکرہ نمبر‘ میں قابلِ ذکر کام نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’اُردو شعراءکے تذکرے اورتذکرہ نگاری‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

              ”اُردو میں ادبی تنقید و سوانح اور تاریخ نگاری کے سلسلے کا تحقیقی کام دراصل تذکروں کے سہارے آگے بڑھا ہے۔ اگر یہ تذکرے یکے بعد دیگرے سامنے نہ آجائیں تو ہم ’اُردو زبان و ادب کے قدیم ورثے‘ اِس کی نوعیت، اس کے اسالیب اور اسالیب کی ارتقائی کڑیوں سے ناواقف ہوتے۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ ہمارے شعر و ادب کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور اِس میں ہمارے اسلاف نے کتنی قسمتی چیزیں یادگار چھوڑیں ہیں۔“ ]۳[

       فارسی زبان کے دستیاب تذکروں میں محمد عوفی کا ’لباب الالباب‘ ایران میں فارسی کا پہلا تذکرہ قرار دیا جاتا ہے۔ بارہ ابواب پر مشتمل دو جلدوں میں منقسم یہ تذکرہ 617 اور 618ءکے درمیان تکمیل کو پہنچا۔ ’لباب الالباب‘ کے بعد ایران اور ہندوستان میں فارسی شاعروں کی بڑی تعداد میں تذکرے لکھے گئے۔

       ۱۷۰۷ءمیں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ایک بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہوئی جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ مغلیہ سلطنت انگریز کے ہاتھوں منتقل ہوگی۔ اِس تبدیلی سے دیگر شعبہ زندگی کی طرح زبان و ادب کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فارسی جسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، معزول حکومت کے ساتھ ہی معزول ہوگی اور فارسی کو اُردو کے لیے جگہ خالی کرنا پڑی اور پھر اُردو زبان میں بھی تذکرے لکھے جانے لگے۔

       موجودہ تحقیق کے مطابق اُردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ نکات الشعراءہے جس کی تکمیل ۱۱۶۵ءمیں میر تقی میر کے ہاتھوں ہوئی۔

اُردو کے معروف تذکروں کا مختصر تعارف:

نکات الشعراءاز میر تقی میر

       ’نکات الشعرائ‘ میں۱۰۳شعراءکے حالاتِ زندگی اور نمونہ کلام کے ساتھ شاعر کے فنی محاسن اور فکر و فلسفہ پر بھی جامع رائے دی گئی ہے۔ فرمان فتح پوری نے نکات الشعراءکے حوالے سے لکھا ہے کہ:

              ”ریختہ کی اقسام، اُس کی خصوصیات، لب و لہجہ اور شعری محاسن وغیرہ کا اجمال اور اہم ذکر اوّل اسی تذکرے میں آیا ہے اور تذکرے کے خاتمے پر میر نے جو کچھ لکھا ہے وہ اُردو شاعری کی تنقیدی تاریخ میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔“ ]۴[

تذکرہ ریختہ گویاں از سیّد فتح علی حسینی گردیزی

       عربی اور فارسی کے عالم حسینی تصوف اور مذہب کے موضوعات پر بہت علم رکھتے تھے۔ اُردو میں اُن کا نام دو کتابوں ابطال الباطل اور ریختہ گویاں کی وجہ سے معروف ہوا۔

       ریختہ گویاں میں ۹۷شعراءکے احوال بلحاظِ حروفِ تہجی قلمبند کیے گئے اور اُن تمام شعرأکی حد سے زیادہ تعریف کی گئی ہے جن شعرأکو ’نکات الشعرائ‘ میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

       میر اور گردیزی دونوں نے تذکرے کے اختتام پر ایک ہی طرح کی عبارتیں لکھی ہیں ممکن ہے کہ ایک نے دوسرے سے فائدہ اُٹھایا ہے۔

مخزن نکات از محمد قیام الدین

       قیام الدین قائم تخلص کرتے تھے۔ فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۱۲۸شعرأکے احوال کے ساتھ تین حصوں یعنی متقدمین، متوسطین اور متاخرینِ شعرأکے عنوانات پر مشتمل ۱۱۶۸ءمیں اپنی تکمیل کو پہنچا۔

تذکرہ شعرائے اُردو از میر حسن دہلوی

       تین طبقوں میں تقسیم اِس تذکرے کا مختصر سا دیباچہ ہے۔ اِس کے بعد بادشاہِ وقت شاہ عالم آفتاب کا ذکر ہے۔ اشعار کا انتخاب بہت خوبصورت ہے۔ شعراءکے حالات ردیف وار درج ہیں۔ میر نے کسی کی تنقیص یا بے جا تعریف سے گریز کرتے ہوئے بے لاگ تنقید کی ہے۔

گلشنِ بے خار از محمد مصطفی خان

       یہ تذکرہ قدیم دکنی شعرأسے لے کر اُنیسویں صدی کے وسط تک تمام شعری تاریخ پر محیط ہے۔ اُردو کے دو سو سالہ سرمایہ کو اختصار کے ساتھ اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے ۱۸۳۴ءمیں شعراءکے مختصر حالات اور انتخاب کلام کے ساتھ مکمل ہوا۔

ریاض الصفحا از غلام ہمدانی مصحفی

       تذکرہ نگار نے ۱۲۲۹ءشعرا کا نہ صرف اپنے دَور کے بلکہ اِس سے پہلے کے دَور کے شعر کا بھی ذکر بلحاظِ حروفِ تہجی کیا ہے۔ فارسی بان کا یہ تذکرہ ریختہ گو شعرا کے تذکرے کے ساتھ ۱۲۳۶ءمیں مکمل ہوا۔

گلشنِ گفتار از حمید اورنگ آبادی:

       30 شعرأپر مشتمل ۱۱۶۵میں مکمل ہونے والے اس تذکرے کی اہمیت دو خاص سبب سے ہے۔ تذکرے میں بتایا ہے کہ شمالی ہند کی طرح دکن میں بھی تذکرہ نگاری کی رسم بارہویں صدی ہجری کے وسط میں پڑ گئی تھی۔دوسرے یہ کہ دکنی شعرأکے متعلق ایسی بہت سی معلومات ہیں جن سے شمالی ہند کے تذکرہ نگار پہلے واقف نہ ہے۔ انتخاب کلام میں متفرق اشعار کے بجائے پوری پوری غزلیں دی ہیں۔ یہ تذکرہ ’نصرتی‘ سے شروع ہوکر ’عزلت‘ کے ترجمے پر مکمل ہوتا ہے۔

تحفتہ الشعرأاز مرزا افضل بیگ قاقشال:

       فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۶۲شعرأکے تراجم کے ساتھ ۱۱۶۵ءمیں مکمل ہوا۔ اِس میں ریختہ گو اور فارسی گو دونوں شعرأشامل ہیں۔ تذکرے میں شعرأکی ترتیب میں کوئی اُصول نہیں برتا۔ شعرأکی تاریخ پیدائش اور وفات پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ تذکرے کے پہلے شاعر غلام حسین قادری اور آخر میں مرزا جان جاناں مظہر ہیں۔

چمنستان شعرأاز لچھمی نرائن شفیق:

       عربی، فارسی اور علوم متداولہ میں مہارت رکھنے والے مصنف نے یہ تذکرہ ۱۷۶۱ءمیں مکمل کیا۔ فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۳۱۳شعرأکے ذکر کے ساتھ بلحاظِ حروفِ ابجد مرتب ہوا۔ تذکرہ آرزو سراج خاں سے شروع ہو کر غلام سیّد غلام کے ذکر پر ختم ہوتا ہے۔

طبقات الشعرأاز قدرت اللہ شوق:

       طبقات الشعرأ۱۷۷۵ءمیں چار طبقات کی تقسیم کے ساتھ ۳۱۳شعرأکی تعداد سے مکمل ہوا۔ طبقہ اوّل میں ریختہ گوئی کے موجدین، شعرائے دکن اور اُن کے بعض معاصرین کا ذکر ہے طبقہ دوم میں ایہام گو شعرأکو جگہ دی گئی ہے۔

       طبقہ سوم میں شعرائے متاخرین اور بعض نو مشق شعرا مذکور ہیں۔ طبقہ چہارم میں شعرائے تازہ اور بعض تو شقان شامل ہیں۔ یہ تذکرہ امیر خسرو سے شروع ہوکر قدرت اللہ شوق کے تذکرے پر ختم ہوتا ہے۔

آبِ حیات از محمد حسین آزاد:

       ۱۸۸۰ءمیں وکٹوریہ پریس لاہور سے شائع ہونے والی یہ کتاب موضوع و مواد کے لحاظ سے دیباچے کے علاوہ پانچ اَدوار میں تقسیم کی گئی ہے۔ ہر دَور اپنے عہد کی زبان بلکہ اُس زمانہ کی شان دکھاتا ہے۔ آبِ حیات میں بیک وقت تحقیق، تنقید، اسلوب اور تاریخ کی ایسی خصوصیات ہیں جو پہلے تذکروں میں نظر نہیں آتیں۔ شعرأکی زندگی اور کلام کے متعلق مفید آراءبھی ملتی ہیں۔ یہ اسلوب آبِ حیات کو قدیم تذکرہ نگاری سے الگ کرتا ہے اور جدید تنقیدی بنیاد ڈالتا ہے۔ جو آگے چل کر حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی صورت میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔

       اُردو تنقید کے ارتقاءکو سمجھنے کے لیے تذکرہ نگاری کا مطالعہ ناگزیر ہے لیکن تذکرہ نگاری کو تنقید کے دائرے میں رکھا بھی جاسکتا ہے یا نہیں ملاحظہ ہو۔ تذکرہ نگاری پر اُبھرنے والی ضرب کاریاں اور کچھ موافق و مخالف آوازیں۔

کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:

              ”….اکثر شعرأکے کلام پر رائے زنی نہیں کی جاتی…. تذکروں میں ہر جگہ الفاظ کا سیلاب رواں ہے۔ یہ الفاظ کوئی خاص نقش دل و دماغ پر ثبت نہیں کرتے…. تذکرہ لویس تنقید کی ماہیئت، اُس کے مقصد، اُس کے صحیح پیرایہ سے بھی آشنا نہ تھے۔ اِس لیے ان تذکروں کی اہمیت صرف تاریخی ہے۔ یہ دُنیائے تنقید میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے…. عموماً ایسے اشعار چنے جاتے ہیں جو معیار پر پورا اُترتے ہیں …. تذکرہ نویسوں میں اتنی بھی ناقدانہ نظر نہ تھی کہ وہ اچھے اور برے اشعار میں تمیز کر سکیں۔“ ]۵[

رشید حسن خان کی رائے دیکھئے:

              ”بیشتر مطبوعہ تذکروں کے متن پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا …. تذکرے بے شمار غیر معتبر واقعات کا ’مال خانہ‘ بن گئے ہیں۔ صحت متن کے سلسلے میں اِن پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا …. بیشتر مطبوعہ تذکروں میں اشعار کے متن کا حال سب سے زیادہ مقیم ہے۔“ ]۶[

ابو الکلام قاسمی مشرقی شعریات اور اُردو تنقید کی روایت میں لکھتے ہیں:

              ”تذکروں میں اکثر طرفداری سے کام لیا گیا ہے…. شعر کے محاسن میں زیادہ تر صنائع لفظی و معنوی کو اہمیت دی گئی ہے…. اکثر شعراءکے اسلوب و سلیقہ شعر کے لیے مبہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے شاعری کی حیثیت واضح نہیں ہوتی۔“ ]۷[

ڈاکٹر فرمان فتح پوری ناقدین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

              ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جدید نقادوں نے قدیم تذکروں کا بالااستیاب مطالعہ نہیں کیا …. یقینا ایسے تذکرے بھی موجود ہیں۔ جن میں شعرأکے حالات کو احتیاط سے جمع کر کے شعرا کے اَدوار قائم کرنے، ہر دَور کی خصوصیت اُجاگر کرنے، شعرأکی ولدیت اور سکونت کی نشاندہی کرنے اساتذہ و تلامذہ کے نام دینے اور اُن کے سنین وفات و پیدائش کے اندراج کرنے میں خاص اہتمام سے کام لیا گیا ہے …. اِس طرح اگر خاص شاعر کے متعلق مختلف تذکروں کے اقتباسات جمع کریں تو ہمیں یقین ہے کہ اُس کی مکمل تصویر سامنے آجائے گی۔“ ]۸[

نور الحسن نقوی ’فن تنقید اُردو تنقید نگاری ‘میں کہتے ہیں:

              ”شعرائے اُردو کے تذکرے ہمارا قدیم اور بیش قیمت ادبی سرمایہ مکمل اور ہماری زبان میں تنقید کی بنیاد انھی کے ذریعے پڑی۔ اِن تذکروں میں تنقید کے جو نمونے ملتے ہیں انھیں باقاعدہ تنقید کہنا تو مشکل ہے البتہ انھیں اُردو تنقید کا پہلا نقش ضرور کہا جاسکتا ہے۔ “ ]۹

ANS 03

شعر کی تاثیر :حالی نے لکھا کہ شاعری کی تاثیر ہوتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے مےں مدد گار ہوسکتی ہے اور دنےا مےں اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہےں۔ اپنے خےال کی تائےد مےں انہوں نے کئی مثالےں پےش کی ہےں۔ قدےم ےونان مےں اےتھنس والوں کو بار بار شکست ہونے لگی تووہاں کے شاعر سولن نے درد انگےز اور ولولہ خےز اشعار پڑھے۔ جس سے اےتھنس والوں کی غےرت جاگ گئی۔ اور انہوں نے اپنے دشمن کو شکست دےدی ۔اےشےاءمےں شاعری سے بڑے اہم اور مفےد کام لئے گئے ۔عرب شاعر اعشیٰ کے تعلق سے ےہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنی شاعری مےں جس کسی کی مدح کرتا وہ عزےز و نےک نام ہوجاتا اور جس کی ہجو کرتا وہ ذلےل و خوار ہوجاتا۔ اس نے اےک خاتون کی لڑکےوں کے بارے مےں قصےدہ لکھا تا کہ اُن لڑکےوں کی آسانی سے شادی ہوسکے۔ اعشیٰ کا قصےدہ پڑھ کر بڑے بڑے عرب لوگوں نے ان لڑکےوں سے شادی کرلی۔ اس طرح مختلف واقعات سے حالی نے ثابت کےا کہ اچھی شاعری سے تبدےلی اور اصلاح کا کام لےا جاسکتا ہے۔ اس طرح حالی کے ان خےالات کی بہت لوگوں نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ شاعری کا کام تو لطف اندوزی ہے۔ لےکن حالی نے جو کچھ کہا تھا وہ وقت کا تقاضہ تھا۔ اس وقت شاعری کا مقصدی ہونا بہت ضروری تھا۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد لوگ حالی کے خےالات سے اتفاق کرنے لگے۔ حالی نے شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دےا اور لکھا کہ سوسائٹی (SOCIETY) کا مذاق اچھا ہوتو اچھی شاعری ہوگی ورنہ زمانے کا مزاج دےکھ کر شاعر بھی شاعری مےں مبالغہ آرائی کرنے لگےں گے۔ بری شاعری سے زمانے کا مزاج بگڑے گا اس لئے شاعر اور سماج دونوں کو اپنے مزاج کو سدھارنا ہوگا۔

شعر کی تعرےف:حالی نے اپنے مقدمہ مےں شعر کے بارے مےں مختلف ماہرےن کی تعرےفےں پےش کی ہےں۔ اور لکھا ہےکہ شاعری اےک قسم کی نقالی ہے۔ مصوری اور بت تراشی کی طرح شاعر بھی لفظوں کے ذرےعہ اےک پر اثر خےالی تصوےر پےش کرسکتا ہے۔ اےک محقق کی شعر کی تعرےف پےش کرتے ہوئے حالی لکھتے ہیں کہ جو خےال اےک غےر معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذرےعہ اس طرح ادا کےا جائے کہ سامع کا دل اس کو سن کر خوش ےا متاثر ہو وہ شعر ہے۔

شاعری کی تےن شرطےں:     حالی نے اپنے مقدمہ مےں شاعری کےلئے تےن شرطےں (1 تخےل(2 مطالعہ کائنات (3 تفحص الفاظ ‘ قراردی ہےں۔

(1 تخےل: تخےل کے بارے مےں حالی نے لکھا کہ انگرےزی مےں اسے (Imagination) کہتے ہےں ےہ اےسی صلاحےت ہے جو مشق سے حاصل نہےں ہوتی بلکہ خداداد ہوتی ہے لےکن اگر کسی مےں ےہ صلاحےت ہوتو اُسے مطالعہ کے ذرےعہ بڑھاےا جاسکتا ہے ۔ حالی نے انگرےزی اور عرب ماہرےن ادب کی تعرےفوں اور اشعار کی مثالوں کے ذرےعہ قوتِ متخےلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(2 مطالعہ کائنات : حالی اچھی شاعری کےلئے کائنات کا مطالعہ کو ضروری قرار دےتے ہےں۔ ہر فنکار کےلئے ےہ ضروری ہےکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اس وسےع و عرےض کائنات کا مشاہدہ کرے اور مختلف چےزوں سے متحد اور متحد چےزوں سے مختلف خصوصےتوں کو کائنات سے اخذ کرسکے۔ اور اس مطالعہ کے سرماےہ کو اپنے ےاد کے خزانے مےں رکھے اور وقتِ ضرورت انہےں اپنی شاعری مےں استعمال کرے۔

(3 تفحص الفاظ: حالی کہتے ہےںکہ شاعری کو بہتر بنانے کےلئے کلام مےں اچھے الفاظ استعمال کرنا چاہئے ۔جس طرح اےک مصور اپنی تصوےر کو خوبصورت بنانے کےلئے بہتر رنگوں کا استعمال کرتا ہے اسی طرح شاعر کو بھی سونچ سمجھ کر الفاظ استعمال کرنا چاہےے اور پےش کئے گئے خےالات کو کانٹ چھانٹ کر درست کرناچاہےے اس طرح شاعر کا کام انگو ٹھی مےں نگےنہ جڑنے کا کام ہو جائے۔

شعر کی خوبےاں:حالی شعر کی خوبےاں کرتے ہوئے اس مےں سادگی جوش اور اصلےت کے ہونے پر زور دےتے ہےں۔

(1سادگی :حالی کہتے ہےںکہ شعر کو سادہ اور آسان ہونا چاہےے تاکہ سننے والے اُسے سمجھ سکےں شاعری کا مقصد ترسےل ہوتا ہے اگر شاعر کا پےش کردہ خےال سامع ےا قاری تک نہ پہنچ سکے تو شاعری کا مقصد مکمل نہےں ہو سکتا اس لئے حالی سادگی پر زور دےتے ہےں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کو بھی عام بول چال کی زبان میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ورنہ شعر سادگی کے زیور سے محروم سمجھا جائے گا۔ حالی کہتے ہیں کہ اردو قصیدہ نگاری میں پر شکوہ الفاظ کے استعمال سے قصیدوں کی سادگی متاثر ہوئی ہے۔ وہ غزل اور مثنوی میں بھی سادگی کی حمایت کرتے ہیں۔

جوش : جوش سے حالی کی یہ مراد ہے کہ شعر میں مضمون اےسے بے ساختہ الفاظ اور موثر انداز میں پیش کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کردیا کہ اُسے شعر پیش کیا جائے۔ ایسا شعر پر اثر ہوتا ہے اور سننے والے کے دل پر اثر کرتا ہے۔ جوش سے مراد نہیں کہ مضمون کو جوشیلے الفاظ میں بیان کیا جائے بلکہ دھےمے الفاظ سے بھی چھری اور خنجر کا کام لیا جاسکتا ہے۔ عربی میں جوشیلی شاعری کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔

اصلیت :حالی کا خیال ہے کہ اچھے شعر کی بنیاد اصلیت پر ہوتی ہے۔ اگر شعر میں وہ بات بیان کی جائے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تو ایسا شعر جھوٹا خواب بن جائے گا۔ یعنی شاعری میں انسانی عقل اور مشاہدے پر مبنی باتیں بیان کی جانی چاہئے۔ حالی سے قبل اکثر شعراءنے شاعری میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا تا کہ شعر کی رونق بڑھائی جائے لیکن حالی کے زمانے میں زندگی مسائل سے دوچار تھی اس لئے حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ بری شاعری پر اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے حالی نے مسدس میں کہا کہ

برا شعر کہنے کی اگر کچھ سزا ہے

عبث جھوٹ بکنا اگر نا روا ہے

تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے

مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے

گہنگاروہاں چھوٹ جائینگے سارے

جہنم کو بھر دینگے شاعر ہمارے

شاعری میں جھوٹ سے بچنے کےلئے حالی اپنی نظم شعر سے خطاب میں کہتے ہیں کہ

وہ دن گئے کہ جھوٹ تھا ایمان شاعری                   قبلہ ہو اُس طرف تو نہ کیجئیو نماز تو

نیچرل شاعری :حالی نے شاعری کو فطرت سے قریب رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اور لکھا کہ قدیم دور کے شاعروں میں فطری شاعری زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ بعد میں شاعری میں مبالغہ آرائی شامل ہوتی گئی۔ حالی نے اپنے مقدمہ میں الفاظ لفظ اور معنی کا رشتہ اور وزن و قافیہ کی اہمیت بھی اجاگر کی ہے۔ اس کے بعد اپنے مقدمہ کے دوسرے حصہ میں اردو شاعری کی اصناف غزل‘مثنوی‘ قصیدہ‘ مرثیہ اور رباعی کی اصلاح کے بارے میں اپنے خیالات پیش کئے۔

غزل کی اصلاح :حالی نے غزل کی اصلاح کو سب سے زیادہ اہم اور ضروری قرار دیا ہے۔ کیونکہ غزل عوام میں مقبول ہے اور جو مقبول صنف ہو اس کی اصلاح بھی اہم ہوجاتی ہے۔ غزل پر حالی نے جو اعتراضات کئے ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ غزل میں عشق نہ بھی کیا ہو تو وہ غزل میں عاشقی کا دعویٰ کرتا ہے۔ غزل کے مضامین محدود ہیں۔ اس میںقدیم زمانے میں کہی گئی باتوں کو الٹ پلٹ کر بار بار بیان کیا جاتا ہے۔ غزل کے الفاظ میں شراب‘ ساقی‘ صراحی‘ جام وغیرہ کا ذکر اسطرح کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا اس برائی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ غزل میں محبوب کو مرد کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جو باعث شرم ہے ۔غزل کی زبان بھی ایک خاص دائرے سے باہر قدم نہیں رکھتی اور صنعتوں کے استعمال سے شعر کی تاثیر جاتی رہتی ہے۔ اسلئے حالی غزل میں موجود ان باتوں کو غلط سمجھتے ہوئے غزل کی اصلاح چاہتے ہیں۔ اور وہ غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ زندگی کے دیگر موضوعات اور مسائل پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ غزل میں حقیقی عشق پر زور دےتے ہیں جو ایک بندے کو خدا سے ہوتا ہے۔ غزل میں ایک ہی طرح کے الفاظ کی وہ مخالفت کرتے ہیں۔ حالی نے غزل پر اپنے زمانے کے اعتبار سے اعتراضات کئے تھے۔ لیکن حالی کے ان اعتراضات کو کچھ لوگوں نے تسلیم نہیں کیا۔

مثنوی :حالی نے مثنوی کو شاعری کی کارآمد صنف قرار دیا ہے۔ کیونکہ غزل یا قصیدہ میں قافیہ کی وجہہ سے پابندی ہوتی ہے اور ہر قسم کے مسلسل مضامین بیان نہیں کئے جاسکتے کیونکہ مثنوی کے ہر شعر میں قافیہ ردیف بدلتا رہتا ہے ۔ عرب شاعری میں مثنوی کا رواج نہیں تھا جبکہ فارسی میں کئی مثنویاں لکھی گئیں۔ اس لئے فارسی شاعری کو عرب شاعری پر فوقیت دی جاتی ہے۔ حالی اردو مثنوی پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مثنوی سے جےسے کام لیا جانا چاہئے تھا ویسا نہیں لیا جاسکا۔ مثنویوں میں صرف عشقیہ مضامین بیان کئے گئے۔ شاہی زندگی کے بیان تک مثنوی کو محدود کردیا گیا اور اس میں حقیقی یا عام زندگی کے واقعات اور مشاہدات نہیں ملتے۔ بلکہ مافوق الفطرت باتیں جےسے پری‘ دیو بھوت‘ پریت اور تعویز جادوئی گھوڑا وغیرہ نا ممکن باتوں کو مثنویوں میں پیش کیا گیا اور خوابوں کے محل تیار کروائے گئے۔ حالی مثنوی کی اصلاح کےلئے کہتے ہیں کہ

۱ مثنوی کے اشعار اسطرح مسلسل بیان ہونے چاہئےں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوں اور دونوں کے بیچ میں کہیں رکاوٹ محسوس نہ ہو۔

۲ حالی کہتے ہیں کہ مثنوی کی بنیاد نا ممکن اور فوق العادت باتوں پر نہ رکھی جائے کیونکہ اب علم اور سائنس کی ترقی سے اےسی فرسودہ باتوں کو رد کیا جارہا ہے اسلئے ان سے بچنا چاہئے۔

۳ مبالغہ شعر کو خوبصورت بنانے کےلئے ہوتا ہے اس لئے اسے اس مقصد کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے اور واضح جھوٹ بولنے کےلئے نہیں استعمال کرنا چاہئے۔

۴ حالی کہتے ہیں کہ موقع محل کے اعتبار سے بات کرنی چاہئے۔ اور پڑھنے والے کو بات سمجھ میں آنے میں کسی قسم کی رکاوٹ یا غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔

۵ مثنوی میں پیش کردہ کردار مقامات اور واقعات فطرت اور عادت کے موافق ہونے چاہئیں۔

۶ مثنوی میں جو خیال یا واقعہ بیان کیا گیا ہو اسکی تردید نہیں کرنی چاہئے۔ ایک مثنوی میں شاعر دھان اور سرسوں کے کھیتوں کو ساتھ ساتھ پیش کیا ہے یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ کیونکہ دھان خریف میں ہوتے ہیں اور سرسو ںربیع میں۔

۷ مثنوی میں جن باتوں کو تفصیل سے بیان کرنا چاہئے انہیں تفصیل سے بیان کرنا چاہئے۔ اور جن باتوں کو اشاروں میں بیان کرنا ہے انہیں اشاروں تک محدود رکھنا چاہئے۔ بے شرمی کی باتوں کو تفصیل سے بیان نہیں کرنا چاہئے۔ اسطرح حالی نے مثنوی کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔

قصیدہ :قصیدہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح (تعریف) یا ہجو (مذمت) کی جاتی ہے۔ عام طور پر قصیدے بادشاہوں یا بزرگان دین کی تعریف میں لکھے جاتے ہیں۔ اس میں پر شکوہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں عام طور پر قصیدے بادشاہوں کی تعریف میں انعام کے حصول کے لئے لالچ میں لکھے گئے اور اس میں بے جا تعریف بھی داخل ہوگئی۔ اسلئے حالی اس قسم کی قصیدہ نگاری کی مخالفت کرتے ہیں جس میں سچے جذبات کااظہار نہیں ہوتا ہو۔ حالی پر مقصدیت اور حقیقت نگاری کا اثر غالب تھا۔ اسلئے وہ جھوٹ کو برداشت نہیں کرتے تھے جبکہ قصیدہ نگاری کی شان بڑھانے کےلئے اردو شعراءنے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔

مرثےہ :  شاعری کی اصطلاح مےں مرثےہ اےسی نظم کو کہتے ہےں جس مےں امام حسےن ؓ کی شہادت اور واقعات کربلا بےان کئے جاتے ہےں لکھنو مےںانےس اور دبےر نے مرثےہ نگاری کو عروج پر پہنچاےا اس مےں سراپا نگاری جذبات نگاری اور کردار نگاری کی اچھی مثالیں ملتی ہےں۔ حالی مرثےہ کی تعرےف کرتے ہےں کےونکہ اس سے اعلیٰ اخلاق کا سبق ملتا ہے۔وہ مرثیے کی صنف کو استعمال کرنے اور قوم کے اعلٰی افراد کی وفات پر ان کی تعریف اور توصیف پر مبنی مرثیے لکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔حالی کے ےہ تنقےدی خےالات اپنے زمانے مےں کافی مقبول ہوئے اور آج بھی حالی کے ان خےالات کو اُردو تنقےد کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔

حالی کے تنقےدی نظرےات کا جائزہ:حالی نے مقدمہ شعر و شاعری مےں” ادب برائے زندگی“ کا نظرےہ پےش کےا ہے انہوں نے تاثےر پر زور دےا اور اچھے شاعر اور اچھی شاعری کے لئے کچھ پےمانے مقرر کئے انہوں نے شاعری کی اصنافِ غزل ‘ مثنوی‘ قصےدہ ‘ مرثےہ وغےرہ مےں اصلاح کی باتےں کہےں۔ حالی نے اس مقدمہ مےں زےادہ تر شعر کی اخلاقی اور سماجی حےثےت پر نظر ڈالی ہے۔ اس کی وجہہ ےہ ہےکہ حالی سے پہلے شاعری مےں صرف جمالےاتی پہلو پر نظر رکھی جاتی تھی۔ جب کہ رد عمل کے طور پر حالی شاعری کے جمالےاتی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس کے افادی اور اخلاقی پہلو پر زور دےا۔ لےکن کوئی بحث اور کوئی نظرےہ اس وقت تک مکمل نہےں ہوسکتا جب تک اس کا ہر پہلو اُجاگر نہ کےا جائے۔ مقدمہ مےں ےہ بات کھٹکتی ہے اس لئے حالی پر کی جانے والی تنقےدےں درست لگتی ہےں۔ حالی نے غزل کو صرف عشق و عاشقی تک محدود قرار دےا تھا جب کہ حالی کے زمانے مےں غالب نے فلسفےانہ اور حکےمانہ خےالات پےش کرتے ہوئے واضح کردےا تھا کہ غزل صرف عشق تک محدود نہےں ہے اسی طرح دےگر اصناف پر حالی کے خےالات سے اختلاف کی گنجائش ہے لےکن حالی نے جس طرح پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر تنقےدی خےالات پےش کئے وہ اُردو مےں کسی نے پےش نہےں کئے تھے اس لئے حالی کی کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کو اُردو مےں فن تنقےد کی پہلی کتاب قرار دےا جاتا ہے ۔ حالی کے مخالفےن بھی ان کی تنقےدی بصےرت کے معترف ہےں اور حالی کے بعد جو بھی نقاد وجود مےں آئے اور جو تنقےدی کتا بےں لکھی گئےں ان کا سہرا حالی کے سر جاتا ہے۔

حالی نے مقدمہ شعر و شاعری مےں رواں دلچسپ پر اثر اور مدلّل اسلوب اختےار کےا ہے ان کی تحرےر مےں سادگی ‘ سلاست اور روانی موجود ہے ۔ حالی نے تنقےدی خےالات کے اظہار کےلئے جو سادہ اسلوب اختےار کےا اس سے بھی ان کا مقدمہ مشہور ہوا۔

سوال: حالی نے شعر اور شاعری کی شرطو ں کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کیا؟

جواب: حالی کا تعارف: خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914) اُردو کے مشہور شاعر‘انشا پرداز ‘سوانح نگار اور نقاد گذرے ہیں۔غالب کے شاگرد تھے۔ اور سر سید کی اصلاحی تحریک میں حصہ لیا۔ ابتداءمیں قدیم طرز کی غزل گوئی کی۔ بعد میں ادب کی مقصدیت کے قائل ہوئے۔ انہوں نے انجمن پنجاب کے مشاعروں میں نظمیں سناتے ہوئے اُردو نظم گوئی کو فروغ دیا۔ مشہور مسدس” مدو جزر اسلام“1879ءمیں لکھی۔ سوانح نگاری میں آپ کی یاد گار کتابیں”حیات سعدی“1882۔یادگار غالب1897اور حیات جاوید1901۔مشہور ہیں۔ اپنی شاعری کے مجموعے کو ایک طویل مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ جس میں شاعری کے بارے میں اصولی بحثیں کیں۔ بعد میں یہ کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کے عنوان سے 1893ءمیں علٰحیدہ شائع ہوئی۔ اس کتاب کو بہت مقبولیت ملی۔ اور یہ کتاب اُردو تنقید کی پہلی باضابطہ کتاب سمجھی جاتی ہے ۔اور حالی کو اُردو کا پہلا نقاد کہا جاتا ہے۔

شعر کی تاثےر :حالی نے لکھا کہ شاعری کی تاثےر سے فائدہ اٹھانا چاہےے شاعری زندگی کو بہتر بنانے مےں مدد گار ہوسکتی ہے اور دنےا مےں اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہےں۔ اپنے خےال کی تائےد مےں انہوں نے کئی مثالےں پےش کی ہےں۔ قدےم ےونان مےں اےتھنس والوں کو بار بار شکست ہونے لگی تو سولن نے درد انگےز اور ولولہ خےز اشعار پڑھے۔ جس سے اےتھنس والوں کی غےرت جاگ گئی۔ اور انہوں نے اپنے دشمن کو شکست دےدی اےشےاءمےں شاعری سے بڑے اہم اور مفےد کام لئے گئے عرب شاعر اعشیٰ کے تعلق سے ےہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنی شاعری مےں جس کسی کی مدح کرتا وہ عزےز و نےک نام ہوجاتا اور جس کی ہجو کرتا وہ ذلےل و خوار ہوجاتا اس نے اےک خاتون کی لڑکےوں کے بارے مےں قصےدہ لکھا تا کہ اُن لڑکےوں کی آسانی سے شادی ہوسکے۔ اعشیٰ کا قصےدہ پڑھ کر بڑے بڑے عرب لوگوں نے ان لڑکےوں سے شادی کرلی۔ اس طرح سے مختلف واقعات سے حالی نے ثابت کےا کہ اچھی شاعری سے تبدےلی اور اصلاح کا کام لےا جاسکتا ہے۔ اس طرح حالی کے ان خےالات کی بہت لوگوں نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ شاعری کا کام تو لطف اندوزی ہے۔ لےکن حالی نے جو کچھ کہا تھا وہ وقت کا تقاضہ تھا۔ اس وقت شاعری کا مقصدی ہونا بہت ضروری تھا۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد لوگ حالی کے خےالات سے اتفاق کرنے لگے۔ حالی نے شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دےا اور لکھا کہ سوسائٹی (Society) کا مذاق اچھا ہوتو اچھی شاعری ہوگی ورنہ زمانے کا مزاج دےکھ کر شاعر بھی شاعری مےں مبالغہ آرائی کرنے لگےں گے۔ بری شاعری سے زمانے کا مزاج بگڑے گا اس لئے شاعر اور سماج دونوں کو اپنے مزاج کو سدھارنا ہوگا۔

شعر کی تعرےف:حالی نے اپنے مقدمہ مےں شعر کے بارے مےں مختلف ماہرےن کی تعرےفےں پےش کی ہےں۔ اور لکھا ہےکہ شاعری اےک قسم کی نقالی ہے مصوری اور بت تراشی کی طرح شاعر بھی لفظوں کے ذرےعہ اےک پر اثر خےالی تصوےر پےش کرسکتا ہے۔ اےک محقق کی شعر کی تعرےف پےش کرتے ہوئے حالی لکھتے ہیں کہ” جو خےال اےک غےر معمولی اور نرالے طور لفظوں کے ذرےعہ اس طرح ادا کےا جائے کہ سامع کا دل اس کو سن کر خوش ےا متاثر ہو وہ شعر ہے“۔

شاعری کی تےن شرطےں:     حالی نے اپنے مقدمہ مےں شاعری کےلئے تےن شرطےں (1 تخےل(2 مطالعہ کائنات (3 تفحص الفاظ قراردی ہےں۔

(1 تخےل: تخےل کے بارے مےں حالی نے لکھا کہ انگرےزی مےں اسے (Imagination) کہتے ہےں ےہ اےسی صلاحےت ہے جو مشق سے حاصل نہےں ہوتی بلکہ خداداد ہوتی ہے لےکن اگر کسی مےں ےہ صلاحےت ہوتو اُسے مطالعہ کے ذرےعہ بڑھاےا جاسکتا ہے ۔ حالی نے انگرےزی اور عرب ماہرےن ادب کی تعرےفوں اور اشعار کی مثالوں کے ذرےعہ قوتِ متخےلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(2 مطالعہ کائنات : حالی اچھی شاعری کےلئے کائنات کے مطالعہ کو ضروری قرار دےتے ہےں۔ ہر فنکار کےلئے ےہ ضروری ہےکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اس وسےع و عرےض کائنات کا مشاہدہ کرے اور مختلف چےزوں سے متحد اور متحد چےزوں سے مختلف خصوصےتوں کو کائنات سے اخذ کرسکے۔ اور اس مطالعہ کے سرماےہ کو اپنے ےاد کے خزانے مےں رکھے اور وقتِ ضرورت انہےں اپنی شاعری مےں استعمال کرے۔

(3 تفحص الفاظ: حالی کہتے ہےںکہ شاعری کو بہتر بنانے کےلئے کلام مےں اچھے الفاظ استعمال کرنا چاہےے جس طرح اےک مصور اپنی تصوےر کو خوبصورت بنانے کےلئے بہتر رنگوں کا استعمال کرتا ہے اسی طرح شاعر کو بھی سونچ سمجھ کر الفاظ استعمال کرنا چاہےے اور پےش کئے گئے خےالات کو کانٹ چھانٹ کر درست کرناچاہےے اس طرح شاعر کا کام انگو ٹھی مےں نگےنہ جڑنے کا کام ہو جائے۔

شعر کی خوبےاں:حالی شعر کی خوبےاں بیان کرتے ہوئے اس مےں سادگی جوش اور اصلےت کے ہونے پر زور دےتے ہےں۔

(1سادگی :حالی کہتے ہےںکہ شعر کو سادہ اور آسان ہونا چاہےے تاکہ سننے والے اُسے سمجھ سکےں شاعری کا مقصد ترسےل ہوتا ہے اگر شاعر کا پےش کردہ خےال سامع ےا قاری تک نہ پہنچ سکے تو شاعری کا مقصد مکمل نہےں ہو سکتا اس لئے حالی سادگی پر زور دےتے ہےں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کو بھی عام بول چال کی زبان میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ورنہ شعر سادگی کے زیور سے محروم سمجھا جائے گا۔ حالی کہتے ہیں کہ اردو قصیدہ نگاری میں پر شکوہ الفاظ کے استعمال سے قصیدوں کی سادگی متاثر ہوئی ہے۔ وہ غزل اور مثنوی میں بھی سادگی کی حمایت کرتے ہیں۔

شبلی کی سب سے اہم تنقیدی تصنیف” شعرالعجم“ ہے جس کی تمام جلدوں میں عمل تنقید غالب ہے۔“

 اس لحاظ سے ان کی تصنیف شعرالعجم خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے جس کی کل پانچ جلدیں ہیں ان میں چوتھی اور پانچویں جلد تنقیدی اعتبار سے زیادہ اہم ہے۔ جن میں نظریاتی ، اصولی اور عملی تنقید کے دلنشین مظاہر ہیں۔ شاعر ی کے مختلف پہلوئوں پر بصیرت افروز تنقیدی بحث اور اصناف ِ سخن کا تنقیدی تجزیہ ہے۔

تصور ِ شعر:۔

  شبلی شعر کو ذوقی اور وجدانی شے قرار دیتے ہیں اسی بناءپر اُن کے خیال میں شاعری کی جامع اور مانع تعریف آسانی سے نہیں کی جا سکتی بلکہ مختلف ذریعوں سے اور مختلف انداز میں اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ شعر العجم جلد چہارم میں شبلی کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں۔

” شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے اس لئے اس کی جامع مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جا سکتی اس بناءپر مختلف طریقوں سے اس حقیقت کا سمجھانا زیادہ مفید ہوگا کہ ان کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جائے۔“

  یوں شبلی نے مختلف مثالیں دے کر شاعری کی اہمیت واضح کی ہے ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے ۔ احساس سوچنے اور غور کرنے کا نام نہیں ، وہ اس سے مختلف قوت ہے۔ جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ بقول شبلی جب انسان کو کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے۔ عبادت بریلوی کہتے ہیں،

” ان کا خیال صحیح ہے کیونکہ احساس کے بغیر شاعری کوئی معنی نہیں رکھتی یہ احساس جب شدید ہوتا ہے تو فطری اور اضطراری طور پر انسان کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں ۔ اسکا نام شعر ہے۔ اس میں شاعرکی شعور کا دخل نہیں ہوتا۔“

 شبلی کے نزدیک یہ کم و بیش ایک ایسی کیفیت ہے جو شیر کو گرجنے ، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے ، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبلی شاعری میں جذبات کی اہمیت کے قائل ہیں۔ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات سے پیدا ہوتی ہے شاعری کا کام جذبات میں تحریک پیدا کرنا اور ان کو ابھارنا ہے۔ مگر اس کا مطلب ہیجان اور ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔ شبلی کے نزدیک شاعری کے لئے جذبات ضروری ہیں  اور وہ شاعری کو جذبات کے برانگیختہ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

شاعری اور جمالیاتی پہلو:۔

  شبلی کے خیال میں تمام عالم ایک شعر ہے زندگی میں شاعری بکھری پڑی ہے۔ جہاں زندگی ہے وہاں شاعری موجود ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے ایک یورپین مصنف کے حوالے سے وہ دیکھتے ہیں کہ ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے۔ شعر ہے ۔ اس بناءپر فلک نیلگوں ، نجم درخشاں ، نسیم سحر، تبسم گل، خرام صبا، نالہ بلبل، ویرانی دشت، شادابی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے اور ساری زندگی میں یہ شعریت پائی جاتی ہے۔ اور اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ شبلی کے شعر و شاعری پر مبنی تنقیدی نظریات شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زور دیتے ہیں، اسی لئے ڈاکٹر سید عبداللہ ”اشارات تنقید“ میں لکھتے ہیں۔ کہ

” یہ تو ظاہر ہے کہ شبلی کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطہ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج ، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکائو رکھتا ہے۔“

  شبلی کا مزاج فلسفیانہ ہے اور انہوں نے مغرب سے بھی کسی قدر استفادہ کیا ہے مگر جمالیاتی حس ہی کی وجہ سے تمام زیر غور مباحث میں ان کا رجحان مشرقی نظریہ تنقید کی طرف ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔

” شاید یہی وجہ ہے کہ وہ (شبلی) جمالیاتی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں چنانچہ ان کی تنقید میں جمالیاتی تنقید کی جھلک نظرآتی ہے۔“

  شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنون ِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً موسیقی ، مصوری ، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں۔ مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعر کے الفاظ سے ایک موثر منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے یہی حسن کاری کے احساس اور تاثر کو غیر شاعر کے لئے اثر انگیزبنانا شاعر ی کے جمالیاتی پہلو کا مظہرہے جو غائب کے جلوے دکھاتا ہے۔

 دل میں احساسات اور تاثرات یا حسن کاری کی جو لہریں اُٹھتی ہیں انہیں الفاظ کے سانچے میں ڈھال دینا شاعری کا مقصد ہے۔ اس سلسلے میں شبلی نے صاف صاف لکھا ہے کہ اصلی شاعر وہی ہے جس کو سامعین سے کچھ غرض نہ ہو ۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ شاعر عوام کو سامنے رکھ کر شاعری نہیں کرتا ۔ اس کی مخصوص کیفیات اسے شعر کی تخلیق کے لئے مجبور کرتی ہیں۔

ANS 04

ڈاکٹر وزیر آغا نے جب اپنی ادبی زندگی کا آغا ز کیا اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ ایک نو وارد ادیب کی حیثیت سے وہ اس تحریک کے مثبت پہلوو¿ں سے متاثر بھی ہوئے اور وہ اثرات ان کی ابتدائی نگارشات میں نظر بھی آتے ہیں۔ مثلاً ان کی پہلی نظم ’دھرتی کی آواز‘ اور نظم ’ننھے مزدور‘ میں طبقاتی امتیاز اور کشمکش کو ظاہر کیا گیاہے، اسی طرح ان کی پہلی کتاب ’مسرت کی تلاش‘ میں بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا:’دولت کی ناروا تقسیم نے انسان کو طبقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے اوریوں جنگ، قحط، بادشاہت اور سرمایہ داری کو معرض وجود میں لاکر فرد اور سماج کو ایک ایسی غلط روش پر گامزن کردیا ہے کہ آج انسان اس کے خلاف پورے عزم اور شد ت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘ لیکن ترقی پسند تحریک زندگی کی ایک قاش کا صرف ایک ہی رخ دیکھنے پر مُصر تھی جبکہ وزیر آغا پوری زندگی کے بھید کو سمجھنے کی جستجو میں تھے۔ اس لئے ان کے لئے محض خارجی عوامل کی بنیادوں پر لکھتے چلے جانا ممکن نہ تھا اور وہ پوری زندگی کے اسرار کو سمجھنے کی دھن میں مگن ہوگئے۔ ان کی تخلیقات کی طرح ان کی تنقید بھی اسی جستجو سے عبارت ہے۔وزیر آغا شروع میں نصیر آغا کے قلمی نام سے ’ادبی دنیا‘ میں مضامین لکھتے رہے۔ ’محبت کا تدریجی ارتقا‘ ان کا پہلا مضمون تھا جو ان کے نام کے ساتھ شائع ہوا۔ 1954 میں ان کی پہلی کتاب ’مسرت کی تلاش‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب کے ساتھ وزیر آغا کے ہاں دو فکری تجسس نمایاں ہوئے۔ ایک زندگی کو اس کی ’کلیت‘ (TOTALITY) میں دیکھنے کی خواہش دوسرا مسرت کی ماہیت کی تلاش اور جستجو۔یہی دو تجسس آگے چل کر پھیلاو¿ کی صورت اختیار کر گئے۔مسرت کی ماہیت کی تلاش میں انہوں نے ’اردو ادب میںطنز و مزاح‘ لکھی۔ اس کتاب کو لکھتے وقت وزیر آغا انسان کے دو طبعی رجحانات سے آشنا ہوئے۔ ایک تشدد اور دفاع کا اور دوسرا پھیلاو¿ اور آفاقیت کا۔ آرتھر کوئسلر کے خیال میں ہنسی اور طنز پہلے رجحان کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں جب کہ ’المیہ‘ دوسرے رجحان میں سامنے آتاہے۔ یہ در اصل ’عام طنز و مزاح‘ اور ’تخلیقی فن پارے‘ کا بنیادی فرق ہے۔ وزیر آغا نے ’عام طنز و مزاح‘ سے ہٹ کر انشائیہ نگاری شروع کی اور نمائش دنداں کے مقابلے میں زیر لب تبسم اور داخلی شگفتگی و تازگی پر زور دیا تاکہ جذبے کا اخراج نہ ہو بلکہ مسرت ہماری رگ و پے میں سرایت کر جائے۔ تخلیقی سطح پر اب گویا مسرت کی ماہیت کی تلاش اور پوری زندگی کی جستجو کے سفر ایک ہوگئے تھے۔ ’نظم جدید کی کروٹیں‘ کے مضامین میں ڈاکٹر وزیر آغا نے مختلف شعرا کی اصل بنیادیں دریافت کیں۔ فیض کے بارے میں وزیر آغا کا مضمون ’انجماد کی ایک مثال‘ خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور ترقی پسندوں کی طرف سے نظریاتی بنیادوں پر (ادبی بنیادوں پر نہیں) اس کی مخالفت کی گئی۔ تاہم اس کتاب کا سب سے اہم اور سب سے زیادہ مشہور ہونے والا مضمون میرا جی کے بارے میں تھا۔ ’دھرتی پوجا کی ایک مثال۔ میراجی۔۔ ‘اس مضمون کو سنجیدہ ادبی حلقوںنے سراہا جبکہ مخالفین نے وزیر آغا کی اصطلاح ’دھرتی پوجا‘ کو بطور الزام وزیر آغا کے ماتھے پر سجادیا۔ انہیںدھرتی پوجا کی تبلیغ کا مجرم قرار دیا گیا۔

 قطع نظر اس سے کہ مخالفین کے الزام کا تجزیہ کیا جائے تو وزیر آغا ’ارض وطن‘ سے محبت کے مجرم ہی قرار پاتے ہیں، اس مضمون کی اصل اہمیت یہ تھی کہ وزیر آغا کا فکری سفر صاف آگے کو بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی تک ان کاادبی تصور یہ تھا کہ جس طرح مجسمہ ساز پتھر سے مجسمہ نہیں تراشتابلکہ پتھر سے فاضل مواد کو ہٹاکر اس میں موجود تخلیق کوآشکار کرتاہے۔ اسی طرح ادیب بھی دو چیزوں کے بُعد میں نیا ربط تلاش کرتاہے۔ یہ زندگی میں کلیت دیکھنے کی ہی ایک صورت ©تھی، لیکن میراجی کے بارہ میں اپنے مضمون میں وزیر آغا نے ثنویت کے انوکھے تصور سے آگاہی حاصل کی۔

ایک حدیث قدسی ہے! ”میں ایک مخفی خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ میں جانا جاو¿ں“ نور کے مقابلے میں اگر تاریکی نہ ہو تو نور کی پہچان ممکن نہیں۔ یزداں اور اہر من، ین اور یانگ، پرش اور پرکرتی، آدم اور حوا —— ان سب کے باہمی ربط اور اختلاف سے زندگی کی ایک نئی صورت ابھری۔ ثنویت کا یہ تصور وزیر آغا کی شہرہ آفاق تصنیف ’اردو شاعری کا مزاج‘ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آیا، گویا کائنات میں یکسریکتائی کا عالم نہیں بلکہ ہر پارٹیکل کا اینٹی پارٹیکل موجود ہے اور دونوں کی بقا کا انحصار ایک دوسرے کے وجود پر ہے۔

  ’اردو شاعری کا مزاج‘ کا بنیادی نظریہ ہیگل کی جدلیات،THESIS‘اور ANTITHESIS کے تصادم اور ملاپ سے SYNTHESIS کے وجود میں آنے کے نظرےے پر قائم تھا۔ مارکس نے معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے اسے اپنایا مگر وزیر آغا نے اسے ادبی اور ثقافتی تناظر میں منطبق کیا۔ ہیگل نے ثنویت کے دونوں پہلوو¿ں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔دونوں کو ایک دوسرے کا حریف قرار دینے کی بجائے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کا درجہ دیا ۔ یہ بہت بڑی حقیقت تھی مگر اس سے مروجہ اخلاقیات کو شدید دھچکا پہنچا اور مذہبی دنیا میں ایک کہرام برپا ہوا۔ ثنویت کی دونوں متضاد حقیقتیں ٹکراتی ہیںاور ان میں ملاپ بھی ہوتاہے اور پھر دونوں کے مضبوط اجزا مل کر ایک تیسری صورت(SYNTHESIS) اختیار کر لیتے ہیں۔ گویا ہر SYNTHESIS ایک نئی ثنویت کا آغاز ہے۔ وزیر آغا نے اسی بنیاد پر ’اردو شاعری کامزاج‘ میں بر صغیر کی ثقافتی اورادبی تاریخ کا جائزہ لیا۔ آریائی اور دراوڑی تہذیبوں کے تصادم اور ملاپ سے ’ہندی آریائی‘ تہذیب نے جنم لیا اور گیت کی ادبی صنف کو فروغ ملا۔ مسلمانوں کی آمد سے مسلم ہندی تہذیب مرتب ہونے لگی اورغزل کی ادبی صنف کو فروغ ملا اور پھر جب انگریزوں نے یہاں کانظام حکومت سنبھالا تو نظم کی صنف ابھر کر سامنے آئی (مغربی تہذیب اور ہماری تہذیب کا ٹکراو¿ تو شاید ابھی بھی جاری ہے)۔

وزیر آغا نے صرف ہیگل کے نظام فکر کو ادبی اور ثقافتی سطح پر منطبق کرکے نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس سے آگے کا سفر بھی کیا۔ ’اردو شاعری کامزاج‘ میں ہیگل کے DIALECTICS سے ہٹ کر دو نئے اور اہم نکات سامنے آئے۔ ایک یہ کہ عناصر کے ٹکراو¿ اور ملاپ کے بعد SYNTHESIS کے وجود میں آنے سے پہلے ’کچھ عرصہ کے لئے پیچھے ہٹنے کا عمل‘ ہوتاہے۔ دوسرا یہ کہ پیچھے ہٹنے کی حالت میں ایک ’جست‘ وجود میں آتی ہے۔ جیسے جمپ لگانے والا پہلے تھوڑا سا پیچھے کو ہٹتاہے اور پھر آگے کی طرف جمپ لگاتا ہے۔ ’پیچھے ہٹنے اور پھر جست بھرنے‘ کے اہم نکات نے آگے چل کر وزیر آغا کے تنقیدی نظام فکر میں اہم کردار ادا کیا۔

’اردو شاعری کامزاج‘ کے بعد وزیر آغا کے متفرق مضامین جرائد میں چھپتے رہے۔ یہ مضامین مختلف مجموعوں میں یکجا کئے گئے۔ ان مجموعوں میں ’تنقید اور احتساب‘ ’نئے مقالات‘ ،’تنقید اور مجلسی تنقید‘ ،’نئے تناظر‘، ’دائرے اور لکیریں‘ اور ’انشائیہ کے خدو خال‘ شامل ہیں۔ تنقیدی مضامین کے ان مجموعوں میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے اب تک کے ادبی موقف کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور عملی تنقید کے عمدہ نمونے پیش کئے۔

’انشائیہ کے خدو خال‘ کے مضامین طویل عرصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں انشائیہ کی صنف کے خدو خال کو نمایاں کرنے اور ان کی تفہیم کے لئے قابل قدر کوشش کی گئی ہے۔ اس مجموعے کا ایک مضمون ’اردو انشائیہ کی کہانی‘ ایک اعلیٰ درجے کامضمون ہے۔ اس میں انشائیہ کے خلاف محاذ کھولنے کے اصل پس منظر، مخالفین کی اصل حقیقت اور انشائیہ کی قابل قدر پیش رفت کو مربوط اور مدلل طریقے سے پیش کیا گیاہے۔ اس کتاب کو اگر انشائیہ کی بوطیقا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

متفرق مضامین کے مجموعوں سے ہٹ کر ’اردو شاعری کا مزاج‘ کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’تخلیقی عمل‘ بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں انہوں نے یہ موقف پیش کیا کہ مخالف عناصر کے متصادم ہونے سے پہلے انجماد یا خلا پیدا ہوتاہے جس کی وجہ سے مخالف عنصر اس کی طرف لپکتا ہے۔ اس کی مثال ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول ایسے ہی ہے جیسے ہوا کا دباو¿ کم ہو جائے تو باہر سے ہوائیں امڈ آتی ہیں۔ اس کے بعد دونوں عناصر میں ٹکراو¿ اور ملاپ کی صورت بنتی ہے۔ وزیر آغا اس جست کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے کائنات ’عدم‘ کے اندر سے برآمد ہوئی تھی۔ گویا وزیر آغا کے نزدیک ایسے تخلیقی عمل سے گزر کرآ نے والی تخلیق نہ تو ایسی موجود حقیقت ہے جسے فنکار نے محض دریافت کیا ہے اور نہ ہی وہ مختلف چیزوں کا آمیزہ ہے بلکہ ایک بالکل نئی چیز ہے۔

اپنے موقف کی وضاحت میں وزیر آغا نے مذہبی روایات، اساطیر اورکوزہ گروں کے تخلیقی عمل تک کا گہری نظر سے جائزہ لیا ہے اور بڑی محنت سے انہیں اپنے موقف پر منطبق کردکھایاہے۔ ’تخلیقی عمل‘ کے اپنے موقف کو ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب ’تصورات عشق و خرد‘ میں زیادہ وسعت کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ شاید اسی لئے اقبالیات پر لکھی گئی بے شمار ایک جیسی کتابوں کے ہجوم میں یہ کتاب الگ سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کتاب میں وزیر آغا نے مخالف قوتوں کے ٹکراو¿ کے بعد پیدا ہونے والی ’بے ہیئتی‘ کو مزید واضح کیا ہے۔ تخلیقی عمل میں ’بے ہیئتی‘ کی حالت کی مثال اس شخص سے دی گئی تھی جسے کسی اندھے کنویں میں بند کردیا جائے اور وہ روشنی کی جھلک پانے کے لئے بے چین ہو۔ جیسے ہی اسے کنویں سے رہائی ملے اور دور سے روشنی نظر آئے وہ دیوانہ وار اس روشنی کی طرف جائے گا —— ’تصورات عشق و خرداقبال کی نظر میں‘ اس تمثیل کو زیادہ بامعنی اور واضح کردیتی ہے۔ حضرت یوسف ؑ کو حضرت یعقوبؑ کی بینائی کادرجہ حاصل ہے۔ حضرت یوسفؑ کا اندھے کنویں کی قید سے باہر آنا دراصل حضرت یعقوبؑ کی بینائی کا واپس آناہے۔ وزیر آغا کے بقول تخلیقی عمل کے دوران ہر تخلیقی کار کو ’بینائی‘ حاصل ہوتی ہے ۔ یہ ’بینائی‘ وہ جست ہے جو بے ہیئتی سے نکلنے کا ذریعہ بھی ہے اور اس کا ثمرہ بھی!

’تصورات عشق و خرد‘ کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی قابل ذکر تنقیدی کتاب ’تنقید اورجدید اردوتنقید‘ ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں مغربی تنقید کا جائزہ لیا گیاہے اور ساختیات و مابعد ساختیات جیسے تازہ ترین موضوعات پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں اردو تنقید کا جائزہ لیا گیاہے۔ محمد حسن، خلیل الرحمن اعظمی اور محمد علی صدیقی تک ناقدینِ اردو کا ذکر کیا گیاہے۔

اردو تنقید ایک عرصہ تک مارکسی تنقید، نفسیاتی تنقید، عمرانی تنقید،ادبی تنقید وجودی تنقید کے خانوں میں تقسیم رہی ہے۔ اب اس میں ساختیاتی اور پس ساختیات تنقید کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ اس طرح کسی ایک نظرےے کی عینک پہن کر فن پارے کو دیکھا جاتاہے جو فن پارہ اپنے پسندیدہ نظرےے سے ہم آہنگ ہو اسے عظیم قرار دے دیا جاتا ہے اور جو فن پارہ اپنے نظرےے کے مطابق نہ ہو اسے مسترد کردیا جاتا ہے۔تنقید کے مختلف دبستان در اصل دریا سے نکالی گئی نہریں ہیں۔ ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن یہ بہت محدود ہو جاتے ہیں۔ وزیر آغا نے یک رخی تنقید کے مقابلے میں امتزاجی تنقید کا رستہ اختیار کیا ہے۔ یوں وہ اپنی الگ نہر نکالنے کی بجائے تمام دریاو¿ں کو سمندر میں گرنے دیتے ہیں ’تنقید اور جدید اردو تنقید‘ میںامتزاجی تنقید کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاہے۔

آخر میں مجھے ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک ادھوری کتاب کا ذکر کرنا ہے۔ ” آشوب آگہی“ سلسلے کے چند مضامین ”اوراق“ میں شائع ہوئے تھے اور انہیں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ تاحال وزیر آغا نے اپنی یہ ادھوری کتاب مکمل نہیں کی مگر اسی تسلسل میں انہوں نے ”اوراق“ کا ایک اداریہ لکھا اور ایک مضمون ایک ادبی تنظیم کی تقریب میں پڑھا (یہ مضمون بھی بعد میں اوراق کے اداریہ میں شامل کر لیا گیا) میں اسی مضمون کا ایک حصہ ” آشوب آگہی“ کے تسلسل میں پیش کرنا چاہتا ہوں:

”مسکراہٹ ہمیشہ منفی نوعیت کی کھسیانی مسکراہٹ نہیں ہوتی اس کا ایک روپ وہ معنی خیز مسکراہٹ بھی ہے جو مونا لیزا کے لبوں پر نمودار ہو تو اپنی تخلیقی صلاحیت کے احساس سے منور ہو جائے اور گوتم کے ہونٹوں پر آئے تو پہچان اور عرفان سے عبارت دکھائی دے۔ہرمن ہیسے نے گوبند کے لمحہ¿ انکشاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایک روز اپنے دوست سدھیارتھ کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے تھا کہ یکایک اس نے دوست کے چہرے میں سینکڑوں چہروں کو گذرتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ گذرنے کے باوجود گذر نہیں رہے تھے۔ اس نے مچھلی کا کھلا ہوا منہ دیکھا اور پھر مچھلی کو مرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ایک نوزائیدہ بچے کا چہرہ دیکھا جس پر لاتعداد جھریاں تھیں پھر اس نے ایک قاتل کو دیکھا جو کسی کے پیٹ میں چھرا گھونپ رہا تھا۔

اسی لمحے اس نے قاتل کو پابجولا ںحالت میں اس طور دیکھا کہ جلّاد اس کا سر قلم کر رہا تھا۔ اس نے ایسی لاتعداد صورتوں کا نظارہ کیا جو ایک دوسری کے ساتھ محبت اور نفرت کے لاکھوں رشتوں میں منسلک تھیں۔ وہ بیک وقت ایک دوسری کو ختم بھی کر رہی تھیں اور اپنی ہی راکھ سے دوبارہ جنم بھی لے رہی تھیں یہ تمام صورتیں رُکتی تھیں، چلتی تھیں کھلتی اور مرجھاتی تھیں۔ ایک دوسری میں ضم ہوتی تھیں اور ان سب پر شیشے کا ایک لطیف اور مہین سا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ یہ غلاف در اصل سدھیار تھ کی ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔مسکراہٹ جو جاننے اور پہچاننے کے عمل سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہ مسکراہٹ ہی زندگی کا حاصل ہے لیکن یہ مسکراہٹ صرف اس وقت جنم لیتی ہے جب انسان ”دیکھنے “ پر قادر ہو جاتا ہے“۔

  ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری کو اگر ان کے فکری ارتقاءکے تسلسل میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جس نوجوان نے اس صدی کی پانچویں دہائی میں مسرت کی تلاش شروع کی تھی چار دہائیوں کے اپنے فکری سفر میں اس نے اسے تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ مسرت جو جاننے اور پہچاننے کے عمل سے پیدا ہو تی ہے ڈاکٹر وزیر آغا کا نصیب ہے کیونکہ بلاشبہ وہ ”دیکھنے “ پر قادر ہیں۔

کل اور جزو کا فرق۔۔ کل میں جزو اور جزو میں کل کا منظر۔ کل کے روبرو جز کا اپنا تشخص برقرار رکھنا۔ یہ سارے مراحل زندگی کو سمجھنے کی وزیر آغا کی کوشش تھے اس عہد میں جب کہ ساختیاتی فکر نے ساختیہ کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے اور دوسری طرف طبعیات میں QUARKS کی دریافت کے ساتھ ایٹم کے پارٹیکلز کی ماہیئت کے بارے میں نئے سرے سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وزیر آغا کو گویا اپنے تصورات کو اپنے ہی سوالات کے ساتھ زیادہ بہتر طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقعہ مل گیا ہے۔

ANS 05

کلیم الدین احمد کی ناقدانہ حیثیت مابہ النزاع رہی ہے۔ ایک عالم اُنھیں عظیم ناقد تسلیم کرتا ہے اور دوسرا طبقہ اُن کی ناقابلِ فراموش خدمات کا مُنکر ہے۔ بعض لوگوں کا رویّہ بین بین ہے۔ ایسے عالم میں ایک عام قاری کی مشکلات میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے اِنکار مشکل ہے کہ کلیم الدین احمد کی ناقدانہ تحریریں شاعروں، ادیبوں، ناقدین اور عام قارئین کی توجّہ کھینچنے میں کامیاب رہی ہیں۔ کلیم الدین احمد کی مختصر سے مختصر تحریرنے اردو ادب میں کئی بار طوفان کھڑا کیا۔ حالیؔ کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا ناقداتنا Well-discussed   ہو۔ کلیم الدین احمد کے خیالات سے ہمارا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اُن کے خلوص، ادب کو ایک مکمّل اکائی سمجھنے کی خو‘ اور شرح وبسط کے ساتھ شعر وادب کے مشتملات کا انصاف پسندانہ جائزہ ایسی صفات ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُردو تنقید کی بزم میں کلیم الدین احمد کی شناخت انھی اوصاف کی وجہ سے ہے۔

        کلیم الدین احمد کی کتاب ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کا شمار اردو کی اُن اہم ترین کتابوں میں ہوتا ہے جس کے مشتملات پر ہزار ہزار بحثیں ہوئی ہیں۔ اردو تنقید پر عمومی تبصرہ، تذکروں کے بارے میں کلیم الدین احمد کا تاثر یا اُردو کے مشہور ناقدین کے ادبی مقام کے حوالے سے گفتگو ہو، اُردو کے علمی حلقے میں ان تمام امور پر بھرپور بحث ہوئی اور کلیم الدین احمد کے ناقدانہ فیصلے سے اتّفاق اور اختلاف کرنے والوں کی صفیں بھی تیار ہوتی رہیں۔ کسی زبان میں شاید ایسی کم کتابیں لکھی جاتی ہیں جن کے ہر صفحے پر ایک تنازعہ پیدا ہو اور اُسے سلجھا نے کے لیے ایک حلقہ سرگرم رہے۔ ان معنوں میں کلیم الدین احمد خوش نصیب ناقدین میں شمار  کیے جائیں گے۔ کیوں کہ اُن کی کتاب پر اور اُن کے ادبی فیصلوں پر کافی غور وفکر کیا گیا۔ نتائج کے معاملے میں آج بھی لوگوں کے درمیان خاصا اختلاف ہے لیکن حقیقت سے اِنکار کرنے کی گنجایش نہیں کہ کلیم الدین احمد اردو کے عظیم ناقدین میں سے ایک ہیں اور اُن کی کتاب ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ اردو تنقید کی چنندہ کتابوں میں سے ایک ہے۔

        کلیم الدین احمد نے جب یہ کتاب لکھی، اس سے قبل وہ ’اردوشاعری پر ایک نظر‘ جیسی معرکہ آرا کتاب لکھ چکے تھے جس کے مباحث سے اچھے خاصے تنازعات قائم ہو چکے تھے۔ اپنے والد کی نظموں کے مجموعے ’’گلِ نغمہ‘‘ کے پیشِ لفظ میں اردو غزل کے تعلق سے وہ مشہور زمانہ فقرہ بھی اس وقت تک لکھ چکے تھے جس میں غزل کو نیم وحشی صنفِ سخن کہا گیا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ اُن کی تنقید میں شِدّت اور زور ہے، وہ رعایت سے کام نہیں لیتے اور کسی بھی بڑے سے بڑے مصنّف کے بارے میں کسی ایسے جملے کو لکھنے سے نہیں گھبراتے، جس سے مختلف طرح کی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس پس منظر میں ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کی اشاعت پہلی بار 1942ء میں عمل میں آئی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس کتاب کو 1957ء میں ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا۔ پھر اپنی وفات سے فوراً پہلے اُنھوں نے اِس کتاب کا آخری ایڈیشن بھی تیار کرلیا جس میں ترمیم و اضافے موجود ہیں۔ آج ہمارے پاس یہی 1983ء کی کتاب موجود ہے جو 480؍ صفحات پر مشتمل ہے اور آج اسے ہی گفتگو کا موضوع بنانا ہے۔

        ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کتاب کا خاکہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کا لکھنے والے کی نگاہ میں اردو کی مکمل ادبی تاریخ ہے۔ اُردو تنقید کی تاریخ لکھتے ہوئے کلیم الدین احمد نے قدیم تذکروں سے لے کر دورِ حاضر کے ممتاز نقّادشمس الرحمان فاروقی تک کا دور شامل کیا ہے۔ اس دوران جو ادبی تحریکیں پیدا ہوئیں اور اُن کے زیرِاثر جو ادب لکھا گیا، اِن تمام امور کو بھی اُنھوں نے گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ ابتدا میں ایک مختصر تر پیشِ لفظ ہے جس میں تنقید کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بہ ظاہر یہ مکمل کتاب کا ڈھانچہ ہے۔ اس ڈھانچے میں جو داخلی خامیاں ہوں گی اُنھیں کلیم الدین احمد نے جدید اشاعتوں میں ترمیم و اضافے کے مرحلے میں دور کرلیا۔ اس طرح یہ کتاب ایک اَیسی شاہ راہ ہے جس پر کلیم الدین احمد کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جائیے، کہیں کوئی رکاوٹ یا پریشانی نہیں پیدا ہوگی۔ اگر اُن کے خیالات سے آپ کو اتّفاق ہے تو الگ لطف آئے گا لیکن آپ اُن کی باتوں سے متّفق نہیں ہیں، تب بھی اُن کے اعتراض اور شدّت بیان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک قاری کے طور پر یہ لطف ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ یا کلیم الدین احمد کی دوسری کتابوں کے پڑھنے والے کو ہی میسَّر آسکتا ہے۔

        کلیم الدین احمد نے تنقید کی گفتگو کرتے ہوئے سب سے پہلے تذکروں کی طرف توجّہ کی ہے۔ وہ میرؔ، میرحسنؔ، مصحفیؔ، گردیزیؔ، شیفتہؔ، لالہ سری رام جیسے تذکرہ نگاروں کے تذکروں پر اپنی گفتگو مرکوز رکھتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کلیم الدین احمد تذکروں کی دنیا کے گہرے واقف کار ہیں۔ وہ اِن کی خوبیاں اور خامیاں دونوں جانتے ہیں۔ تذکروں کی بھیڑ میں وہ اچھے اور خراب تذکروں کی درجہ بندی بھی کرتے ہیں۔ تذکروں کو وہ تین حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ شاعر کی زندگی، شاعر کی شخصیت اور شاعر کے کلام پر تنقید۔ اسی میں وہ چوتھی شق کا اضا فہ بھی کرتے ہیں جسے وہ نمونۂ کلام مانتے ہیں۔ وہ مثالیں دے کر شاعر کی زندگی، شاعر کی شخصیت اور شاعرانہ مرتبے کے تعین پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تذکروں میں جہاں کہیں بھی تھوڑی بہت روشنی ملتی ہے، کلیم الدین احمد اُس کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ تذکرہ نگاروں کی کاہلی، شعرا کے حالات جمع کرنے میں محنت کرنے کے بجاے قناعت کرلینے کی عادت، انشاپردازی کا موقع بہ موقع استعمال، ادبی سیاست کی آزمایش اور تنقید کو صرف زبان اور محاورہ، عروض اور بیان تصور کرلینے کو کلیم الدین احمد فضول بات مان لیتے ہیں۔ تذکروں میں جو اشعار کا خزینہ موجود ہے، اُسے انھوں نے اہم مانا ہے لیکن یہ واضح کیا ہے کہ یہ انتخابِ کلام ہر اعتبار سے نمایندہ نہیں لیکن اس کی اہمیت تاریخی ہے اور کئی بار گمنام شعرا کے بہترین اشعار تذکروں کے صفحات پر مل جاتے ہیں۔

        ’’آبِ حیات‘‘ کو کلیم الدین احمد نے ’’نئے تذکرے‘‘ کے خانے میں رکھا ہے۔ ’’آبِ حیات‘‘ کے علاوہ اُنھوں نے حکیم عبدالحیٔ کی ’’گلِ رعنا‘‘ اور عبدالسلام ندوی کی ’’شعرالہند‘‘کو بھی گفتگو کے مرکز میں جگہ دی ہے۔ محمد حسین آزاد کے تعلق سے اُن کی تنقید تفصیلی ہے اور بجا طور پر اُنھوں نے اس کتاب کو جانچنے کے لیے خاصا وقت صرف کیا ہے۔ ’’آبِ حیات‘‘ کی انشا پردازی اور غیر ضروری عبارت آرائی کی مذمّت کرتے ہوئے محمد حسین آزاد کی خامیوں پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ آزاد کی ذہانت اور خوبیوں کے وہ قائل ہیں لیکن تنقید کی بہترین کتاب کے طور پر ’’آبِ حیات‘‘ کو وہ مقام عطا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ رنگینیِ زبان کے باعث  ’’آبِ حیات‘‘ نے کس طرح کے ادبی مسائل پیدا کیے ہیں اور ایک ناقد کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے میں محمد حسین آزاد کس طرح بھٹک گئے ہیں، اس پر کلیم الدین احمد نے واضح اور دوٹوک گفتگو کی ہے۔ اس طرح قدیم تذکرے ہوں یا جدید، کلیم الدین احمد ہمیں دونوں کی حدود سے واقف کراتے ہیں اور اردو تنقید کے طالب علم کو ایک نئے آسمان کی تلاش کے لیے تذکروں سے الگ کسی دوسری دنیا میں جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

        ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کا سب سے اہم حصّہ اردو کے اہم، قابلِ قدر اور متنازعہ ناقدین کی خدمات کا جائزہ ہے۔ اس حصّے میں پرانے اور نئے دونوں ناقدین شامل ہیں۔ حالیؔ، شبلیؔ، عبدالحقؔ، آلِ احمد سرور، اختر حسین راے پوری، مجنوں گورکھ پوری، رشید احمد صدیقی، احتشام حسین، محمد حسن، شمس الرحمان فارقی، عزیز احمد، سردار جعفری، فراق گورکھپوری اور محمد حسن عسکری جیسے ناقدین کی خدمات پر کہیں مختصر اور بعض اوقات تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ اس جائزے میں بالعموم اس مصنف کے احوال اور خدمات کا تجزیہ کرتے ہوئے کلیم الدین احمد نے سخت گیر اصول اپنائے ہیں۔ قدرشناسی کا کام تویہاں ہو جاتا ہے لیکن سخت گیری کی وجہ سے مسلّمات پر ضرب پڑتی ہے اور پڑھنے والے کو ان حقائق پر یقین کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب ’’میری تنقید ایک بازدید‘ میں خود بھی لکھا ہے : ’’اردو  تنقید کے جس حصّے کا شدید ردِّعمل ہوا، وہ حالی سے متعلق ہے‘‘۔ اس مرحلے میں کلیم الدین احمد کا مشہور جملہ ہر جگہ زیرِ بحث رہتا ہے، ملاحظہ کریں : ’خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنا، دماغ و شخصیت اوسط، یہ تھی حالیؔ کی کُل کائنات‘۔ دشواری یہ ہوئی کہ کلیم الدین احمد کے سخت گیر اور تنقیدی جملے تو لوگوں کے ذہن میں گونج پیدا کرتے رہے لیکن کسی نے یہ غور ہی نہیں کیا کہ کلیم الدین احمد نے ۲۰؍ صفحات میں حالیؔ کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالنے اور مقدمۂ شعروشاعری کے مختلف حصّوں سے درجنوں مثالیں دینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ نتائج کی تندی اور سخت گیری کو عام طور پر محسوس کیا گیا لیکن اُنھوں نے جس طرح حالیؔ کی کتاب کا مرحلہ وار جائزہ لیا، اُس پر لوگوں کی نظر نہیں گئی۔ کلیم الدین احمد کے انکاریہ جملوں سے ایک ایسی خفگی پیدا ہوئی جس نے حالیؔ کے سلسلے سے اُن کے تعارفی جملوں پر بھی نظر نہ ٹھہرنے دی۔ اور یہ مان لیا گیا کہ کلیم الدین احمد نے حالیؔ کا شدت کے ساتھ اِنکار کیا ہے اور وہ حالیؔ کی خدمات کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ یہ سچائی نہیں ہے۔

        حالیؔ کی کتاب ’مقدمۂ شعر وشاعری‘ کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے کلیم الدین احمد نے جو نتیجہ اخذ کیا، اُسے ابتداً یوں لکھا ہے  :  ’’حالیؔ نے سب سے پہلے جزئیات سے قطع نظر کرکے بنیادی اُصول پر غور و فکر کیا۔ شعر و شاعری کی ماہیت پر کچھ روشنی ڈالی اور مغربی خیالات سے استفادہ کیا۔ اپنے زمانہ، اپنے ماحول، اپنے حدود میں حالیؔ نے جو کچھ کیا، وہ بہت تعریف کی بات ہے۔ وہ اردو تنقید کے بانی بھی ہیں اور اُردو کے بہترین نقّاد بھی‘‘۔ اسی اہمیت اور اعتراف کے بعد کلیم الدین احمد نے حالیؔ کی کتاب کے حصّۂ اوّل میں جو بنیادی باتیں موجود ہیں، اُن کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ کلیم الدین احمد کا کہنا ہے کہ شعر وشاعری کی اہمیت کا صحیح اندازہ حالیؔ کو نہیں ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ حالیؔ افلاطون کے ہم خیال ہیں اور شاعری کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ شعر کی تاثیر پر بحث کرتے ہوئے حالیؔ یہ سمجھتے ہیں کہ شعر کا مقصد جذبات کو بھڑکانا ہے۔ کلیم الدین احمد وضاحت کرتے ہیں کہ شاعری کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے۔ جذبات کی تہذیب و ترتیب کے علاوہ روحانی تسکین کے لیے بھی شاعری کار گرہو سکتی ہے۔ حالیؔ کو اس کی خبر نہیں۔ کلیم الدین احمد کی شکایت بجا ہے کہ حالیؔشاعری کی اہمیت کے جدید تر نظریوں سے ناواقف ہیں۔

        اخلاق اور شاعری جیسے اہم موضوع پر حالیؔ کی باتوں کو پیش کرنے کے بعد کلیم الدین احمد حالیؔ کی بحث کو ایک سادہ سی گفتگو مانتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِن باتوں میں کوئی نیاپن یا گہرائی نہیں ہے۔ حالیؔ کے نظریۂ اخلاق کو کلیم الدین احمد بے حد محدود مانتے ہیں اور شاعری کے تعلق سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے خود حالیؔ کے ایک قطعے کو مثال بنا کر اخلاق اور شاعری میں اعتدال اور توازن کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ شعر کی ماہیت کے تعلق سے حالیؔ کی جو بحث ہے، اُس میں میکالے کاقول حالیؔ نے نقل کیا ہے۔ کلیم الدین احمد پہلا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ میکالے کی نقّاد کے بہ طور کوئی حیثیت نہیں اور نقّالی کو شاعری سمجھنا بھول ہے۔ کلیم الدین احمد نے ٹھیک یاد دلایا ہے کہ میکالے نے یہ بات ارسطو سے اخذکر کے اپنے ذاتی تصوّر کے طور پر پیش کردیا ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس قول کی تردید کی ہے اور حالیؔ کے ساتھ ساتھ میکالے کو بھی شاعری کی اہمیت سے پورے طور پر واقف نہیں ہونے کی بات واضح کردی ہے۔

        حالیؔ نے شاعری کے لیے جن تین شرطوں کی بات رکھی ہے، اُن میں حالیؔ کے مشاہدات کا کلیم صاحب نے جائزہ لیا ہے۔ تخیُّل، کائنات کا مطالعہ اور تفحُّصِ الفاظ کے سلسلے سے حالیؔ کا تجزیہ کلیم الدین احمد پیش کرتے ہیں اور حالیؔ کے خیالات کی حدود کا ہمیں احساس کرا دیتے ہیں۔ حالیؔ نے اِن باتوں کے لیے مغربی مصنّفین سے اخذ واستفادہ کیا ہے لیکن کلیم الدین احمد کا کہنا ہے  :  ’’حالیؔ خیالات تو اخذ کرلیتے ہیں لیکن اُن پر کافی غور وفکر نہیں کرتے، اُن کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ بعض باتوں میں تضاد ہے‘‘۔ حالیؔ نے ’الفاظ اور شاعری‘ میں اُن کے استعمال پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ لیکن کلیم الدین احمد کا یہ اعتراض ہے کہ حالیؔ اِن کی ناگزیریت کو نہیں سمجھتے۔ اسی لیے وہ شاعر ہونے کے باوجود اِن مباحث میں ایک تماشائی بنے رہتے ہیں۔ حالیؔ کی مثال پر کلیم الدین احمد نے پھبتی کسی ہے  :  ’’شاعری کو مستری سمجھنا بھی اسی بے خبری کی خبر دیتا ہے، الفاظ اور معنی کی بحث میں بھی حالیؔ کے خیالات کو وہ ناکافی اور بعض اوقات لاعلمی پر محمول قرار دیتے ہیں۔ تفصیلی گفتگو کے بعد وہ واضح کرتے ہیں کہ شاعری کی جن شرطوں کے بارے میں حالیؔ نے بحث کی، اُن کی داخلی پیچیدگیوں سے وہ واقف نہیں ہیں اور اِن امور کی سطحی تاویل پیش کر کے وہ اپنا ناقدانہ فریضہ ادا کردیتے ہیں۔

        کلیم الدین احمد نے حالیؔ کے اس مشہور جملے ’’شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ ہو، جو ش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔ ‘‘ کا بھی وضاحت کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ یہ قول مِلٹن کا ہے اور ترجمے میں حالیؔ سے جو غلطی ہوئی ہے، اُس کی بھی اُنھوں نے نشان دہی کی ہے۔ پھر حالیؔ کی ایک ایک تعریف کا علاحدہ علاحدہ جائزہ لیا ہے۔ حالیؔ نے سادگی کی جو تعریف کی ہے اُس پر کلیم الدین احمد کی تنقید یہ ہے  :  ’’سادگی یہ ٹھہری تو مِلٹن کی نظمیں شعر کے زمرے سے خارج ہو جائیں گی اور شیکسپئر کی شاعری کا بیش تر حصّہ بھی۔ ’غالب اور اقبال کے بیش تر اشعار کا شمار بھی اشعار میں نہ ہوگا۔ ‘‘ حالیؔ نے نیچرل شاعری کی جو بحث کی ہے، اُس کے بھی مضمرات کا کلیم الدین احمد نے جائزہ لیا ہے۔ حالیؔ کے فرمودات کی کمیوں کا کلیم الدین احمد نے وضاحت کے ساتھ تجزیہ کیا ہے اور حالیؔ کی حدود کا احساس دِلایا ہے۔ مغرب سے استفادہ کی کو ششوں کو سرا ہنے کے ساتھ ساتھ کلیم الدین احمد حالیؔ کی اپنی صلاحیت اور مغرب سے اثر لینے کی حدودواضح کرنے سے غافل نہیں ہوتے۔

        حالیؔ کی تنقیدی اہمیت کا جائزہ لینے کے بعد کلیم الدین احمد نے اُن کی نثر کی تعریف کی ہے۔ سرسید کے اثر سے زبان کی سادگی کا جو ایک سلسلہ شروع ہوا تھا، حالیؔ اُسی کی ایک کڑی ہیں۔ کلیم الدین احمد نے بجاطور پر حالیؔ کو داد دی۔ :  ’حالیؔ نے صاف اور سادہ طرز ایجاد کی لیکن اُس طرز میں بے رنگی نہیں، پھسپھساپن نہیں۔ اس میں ایک ثقافت ہے، ایک جاذبیت ہے، ایک رنگینی بھی ہے اور پھر یہ تنقیدی مسئلوں پر بحث کرنے کے لیے موزوں بھی ہے‘۔ اگر سنجیدگی سے کلیم الدین احمد کی گفتگو پر غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حالیؔ کے ادبی نتائج پرانھوں نے اصولی اور عملی بحث کرنے کے بعد اپنی رائے دی۔ مقدمۂ شعر وشاعری میں حالیؔ نے اکثر بنیادی خیالات مغرب کے چراغوں سے جلائے تھے۔ اکثر مقامات پر حالیؔ مغرب کے اُن دانش وروں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ حالیؔ کے مقابلے کلیم الدین احمد کے پاس نہ صرف اُن مغربی اطلاعات کے بارے میں زیادہ گہرا علم ہے بلکہ اُن امور پر مغرب میں بھی جو گفتگو ہوئی، کلیم الدین احمد اِسے ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے حالیؔ کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود اُن کے ادبی اصولوں پر وہ آمَنّاوصدّقنا نہیں کہہ سکتے۔ ’’مقدمۂ شعر وشاعری‘‘ پر کلیم الدین احمد کے اعتراضات ۹۹؍ فیصدی اُنھیں سوالوں پر ہیں جو مغرب سے متعلق ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ حالیؔ کا کمزور علاقہ ہے اور کلیم الدین احمد کی سب سے بڑی مضبوطی، اِسی لیے کلیم الدین احمد نے حالیؔ کی عزّت اور احترام کے اظہار کے باوجود اپنا مشہور معتر ضانہ جملہ پورے طور پر ثابت کردیا ہے۔

        ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کو عام طور پر ترقی پسند ادب کے سخت گیر مُحاسبے کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ترقی پسندی کے دورِ عروج میں ہی کلیم الدین احمد نے اس تحریک سے متعلق اہم ناقدین کے ادبی نظریات اور ناقدانہ حیثیت پر شدّت کے ساتھ اپنا تنقیدی وار کیا تھا کلیم الدین احمد نے ترقی پسند تحریک کے اغراض ومقاصد اور ادبی نقطۂ نظر کا تقریباً 40؍ صفحات میں جائزہ لیا ہے۔ تحریک کے زمانے میں جن ناقدین کو عروج حاصل ہوا، اُن میں اخترحسین راے پوری، مجنوں گورکھ پوری احتشام حسین اور محمد حسن کی ادبی خدمات کا وضاحت کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اُسی عہد کے ایک اہم ناقد جنھیں لبرل (Liberal) ترقی پسند کہا جا سکتا ہے، آلِ احمد سرور کی ناقدانہ حیثیت متعیّن کرنے میں بھی کلیم الدین احمد نے اپنا اچھا خاصا زورِ قلم صرف کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک پر دو ناقدین عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی کتابوں کا محاسبہ بھی اس کتاب کا اہم حصّہ ہے۔ ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے اس حصّے میں جہاں مصنف نے ترقی پسند نظریات اور ناقدین کو زیرِنگاہ رکھا ہے، اُس کی ادبی تاریخ نویسی کے نقطۂ نظر سے خاص اہمیت ہے۔ اس لیے اس کتاب کے ناقدانہ جائزے کا کام اُس وقت تک پورا نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ترقی پسندی کے تعلق سے لکھے گئے جزو کو بحث میں شامل نہیں کیا جاتا۔ کلیم الدین احمد نے ترقی پسند ادبی تحریک کے نظریاتی امور سے سب سے پہلے بحث کی ہے۔ ترقی پسند نظریات اور ادب میں اُن کے نفاذ کو کلیم الدین احمد صحیح نہیں مانتے۔ ادب اور پروپیگنڈا، ادب اور غیر ادب جیسے سوالوں کو اٹھاتے ہوئے کلیم الدین احمد نے ترقی پسند نعروں کی حقیقت کا جائزہ لیا ہے۔ وہ ترقی پسند ادب کی دنیا کو محدود مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ترقی پسند چند الفاظ، خیالات اور بندھے ٹکے فقروں کے دام میں گرفتار ہیں۔ زندگی کی حقیقتیں، تاریخی حقیقت، نامیاتی اور جدلیاتی حقیقت، حسن اور افادہ، ماحول، سماج، ادب اور زندگی کا تعلق جیسے مجموعۂ الفاظ تنقید کا فریضہ ادا نہیں کرسکتے۔ جو اہرلال نہرو، احمد علی، مولوی عبدالحق، پروفیسرعبدالعلیم کے اِقتباسات کو سامنے رکھتے ہوئے کلیم الدین احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ترقی پسند ناقدین نے اپنے نظریات کو اردو زبان میں نافذ کرنے کے عمل میں جو تحریریں پیش کی ہیں، اُن میں اکثر تنقیدی اعتبار سے معمولی ہیں۔

        کلیم الدین احمد نے ترقی پسند فلسفے پر بھی اپنے تنقیدی تاثرات رقم کیے ہیں۔ اشتراکیت اور مارکسزم کو کلیم الدین احمد نے اپنے تجزیے کی بنیاد بنایا۔ ادب کا روٹی سے کیا تعلق ہے اور کیا انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت روٹی ہے؟ ان موضوعات پر کلیم الدین احمد نے خاصی توجہ دی ہے۔ یہ بحث چند صفحات پر مشتمل ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد ایک ماہرِ بشریات (Anthropologist) ہیں اور انسان کے جسم، دل اور دماغ کو کیا چاہیے اور کیا نہیں چاہیے، ان پر بڑی عالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔ یہیں کلچر، تہذیب اور ادب کے رشتے سے بعض سوالوں کو کلیم صاحب نے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مباحث اور ترقی پسند ادیبوں کی دلیلوں سے کلیم الدین احمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ترقی پسند نظریۂ تنقید میں یہ صلاحیت نہیں کہ اچھے اور بُرے ادب کے بنیادی فرق کو سمجھ سکے۔ دانتے (Dante) کی ڈوائن کامیڈی (Divine Comedy) کو مثال بنا تے ہوئے اُنھوں نے بجا طور پر یہ سوال قائم کیا ہے کہ اس کتاب کو کسی عام ترقی پسند تحریر کے مساوی سمجھنا، نہ صرف ناقدانہ بے انصافی ہے بلکہ ادب شناسی کے معاملے میں ایک بھول بھی ہے۔ اُن کا یہ پوچھنا بجا ہے کہ ایک دانتے کی تحریر ہی نہیں اور بھی شہکار تخلیقات موجود ہیں لیکن کیا صرف اُنھیں اس لیے راندۂ درگاہ قرار دے دیا جائے کیونکہ وہ سامنتی اور سرمایہ دارانہ دور میں وجود میں آئیں۔ یہ سوال اصل میں روایت کے صحیح تجزیے سے جڑا ہوا بھی ہے۔

        کلیم الدین احمد نے مارکس اور لینن کے خیالات کی اہمیت اور خدمات کو تسلیم کیا ہے لیکن اُن کا سوال ہے کہ ’’ یہ حضرات نہ تو ادیب تھے اور نہ نقّاد، اس لیے اُن کی رائیں کسی تماشائی کی رایوں سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتیں ‘‘۔ یہاں کلیم الدین احمد ایک بنیادی نکتہ اٹھاتے ہیں۔ آخر کون سے اصول کِن چیزوں پر نافذ کیے جا سکتے ہیں ؟ اور نقّاد کا حق یا صلاحیت کن لوگوں کو حاصل ہے؟ کیا سیاسیات کا علم رکھنے والوں کو اخلاقیات کی بنیادی بحث میں کوئی رول انجام دینے کا استحقاق حاصل ہے یا ایک ادبی ناقد موسیقی کو سمجھنے کے لیے بنیادیں طے کر سکتا ہے؟ اگر ایسے لوگ اِن امور پر گفتگو کر بھی لیں تو کیا اس بحث کو پایۂ استناد حاصل ہونا چاہیے؟ جواب واضح ہے کہ نہیں۔ مارکس اور لینن سماج اور تاریخ کے جتنے بڑے عالم ہوں، سیاست کے بہترین تجربہ کرنے والے لوگوں میں شمار کیے جائیں لیکن ادب کے بنیادی نکات اور ضروری مسئلوں کو وہ جاننے والے ہرگزنہیں۔ کلیم الدین احمد بجاطور پر اُنھیں ’’تماشائی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ترقی پسند نظریے پر گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے انھوں نے مشہور مفکّر برگساں (Bergson) کے ادب اور آرٹ سے متعلق خیالات کو مختصراً ترجمہ کر کے پیش کردیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے بہ قولِ کلیم الدین احمد ’’کاش ترقی پسند نقّاد انھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ‘‘

        ترقّی پسند اصولوں پر تفصیل سے گفتگو کرنے کے بعد کلیم الدین احمد نے چند ترقی پسند ناقدین کے نظر یات اور تنقیدی خدمات پر بھی غور و فکر سے کام لیا ہے۔ اصولی بحث کے بعد یہ لازمی ہے کہ اطلاقی (applied) پہلوؤں پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ ترقی پسند ناقدین میں سب سے پہلے اُنھوں نے اخترحسین راے پوری کے سلسلے سے گفتگو شروع کی ہے۔ راے پوری کی مشہور کتاب ’’ادب اور انقلاب‘‘ میں جس تبلیغی انداز میں ہنگامہ پروری کے ساتھ شعر وادب کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، کلیم الدین احمد نے اس کی سخت خبر لی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اختر حسین راے پوری عام مارکسی خیالات کی تعبیروتشریح سے ایک قدم آگے نہیں بڑھتے۔ ادب کیا ہے؟ موضوع اور ہیئت کی اہمیت کتنی ہے؟ شاعر کا ماحول اور اُس کی شخصیت کا رشتہ کیا ہے؟ان سب سوالوں کی گُتھّیوں کو راے پوری سلجھا نہیں سکے۔ اسی لیے کلیم الدین احمد نے اُنھیں کوئی اہم ناقد نہیں تسلیم کیا۔

        کلیم صاحب نے مجنوں گورکھ پوری کو بھی ترقی پسند ناقد کے طور پر اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ مجنوں نے ادب کے ترقی پسندانہ نظریات کے تعلق سے جو تحریریں پیش کی ہیں، کلیم الدین احمد نے انھیں کا جائزہ لیا ہے۔ مجنوں دورانِ تنقید اردو کے ادیبوں سے مغربی ادب کے اہم لکھنے والوں کا جو موازنہ کرتے ہیں، اُن کو کلیم الدین احمد لاعلمی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ کولرج اور چوسر کے تعلق سے کلیم الدین احمد نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مجنوں کو ان سے واقفیت ہی نہیں۔ مشہور مارکسی خیالات کو مجنوں جس طرح بار بار لکھتے ہیں، کلیم الدین احمد اس سے بھی نالاں ہیں۔ مجنوں کے دو ۲ اقتباسات پیش کرنے کے بعد کلیم الدین احمد نے دکھایا ہے کہ مجنوں گورکھ پوری مارکس کے اقتصادی تصّورات کو کوئی آخری شَے نہیں مانتے اور اقتصاد یات کُل زندگی نہیں بلکہ اُس کا صرف ایک عنصر ہے، جیسے خیالات یہ واضح کرتے ہیں کہ مجنوں گورکھ پوری بنیادی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ لیکن مارکسی تصوّرات کے بے وجہ دباو میں وہ اپنے ذہن سے پورے طور پر کام نہیں لیتے۔

        ترقی پسند نقادوں میں کلیم الدین احمد نے احتشام حسین پر زیادہ سختی کے ساتھ لکھا ہے۔ اُس زمانے میں ترقی پسند ادب کو سمجھنے اور اُس کی تعبیر کے لیے احتشام حسین کی بڑی شہرت تھی۔ آج بھی احتشام حسین اشتراکی ناقدین میں سرِ فہرست تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے اپنے جائزے میں سب سے پہلے احتشام صاحب کے اُن خیالات کو پیش کیا ہے جو مارکسی تصورات سے متعلق ہیں۔ کلیم صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احتشام صاحب مارکس کے اصولوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ ادب میں افادیت، اخلاقیات، شعرفہمی اور فنون کے تعلق سے احتشام صاحب جب بھی گفتگو کرتے ہیں، بنیادی باتوں کے بجاے مشہور اشتراکی خیالات کی تکرار پیش کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے مثالیں دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انصاف پسندی کا دامن احتشام حسین اکثر چھوڑ دیتے ہیں۔ ترقی پسند ادیبوں کے جائزے میں وہ جانب داری سے کام لیتے ہیں۔ جسے کلیم الدین احمد ناقدانہ روگردانی تصور کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کو شکایت ہے کہ اختشام حسین اصولِ تنقید پر زیادہ محنت نہیں کرتے۔ اُن کی خواہش ہے کہ جس طرح وہ اشتراکیت کو ادبی تجزیے میں بنیاد سمجھتے ہیں، اُنھیں چاہیے تھا کہ مارکسی ادبی اصولوں کی بھی ایک کتاب تیار کریں۔ کلیم الدین احمد احتشام حسین کی شخصیت میں کسی بڑے اور عہد ساز ناقد کا جلوہ نہیں دیکھتے۔ اس لیے ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ میں اُن کی تحریروں پر شدید ردِّعمل موجود ہے۔

        ترقی پسند ناقدین میں محمد حسن کا حالاں کہ کلیم الدین احمد نے احتشام حسین کے پیروؤں میں شمار کیا لیکن اُنھیں دوسرے ترقی پسند لکھنے والوں کے مقابلے زیادہ متوازن تسلیم کیا ہے کلیم الدین احمد کے خیال میں محمد حسن نے ترقی پسند تنقید کے یک رُخے پن کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد حسن کے یہاں مارکسی تنقید کا غرور نہیں۔ لیکن متن کو گہرائی سے سمجھنے کے معاملے میں محمد حسن دوسرے ترقی پسندوں کی طرح ہی کوتاہی برتتے ہیں۔

        ترقی پسند ادب کی تنقید کے تعلق سے ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کا ضمیمۂ دوم بہت اہمیت رکھتا ہے جس میں ترقی پسند ادب عنوان کی دومشہور کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی ان کتابوں کا کلیم الدین احمد نے بہترین ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ عزیز احمد کی کتاب کی انھوں نے جُزوی طور پر تعریف کی ہے۔ اُن کے خیال میں اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ’’مارکسی باتوں کی وہ مہمل تکرار نہیں جو دوسری ترقی پسند تنقیدوں کی خصوصیت ہے۔ ‘‘ عزیز احمد کے بارے میں اُن کی رائے ہے کہ’ وہ بندھے ٹکے فقرے دہرانے پر قناعت نہیں کرتے اور ذہن کو مارکسی فلسفہ کے ہاتھ بیچ نہیں دیتے‘۔ عزیز احمد کا یہ کہنا کہ ’روس کے انقلاب کے پہلے کا ادب اہم ہے‘ اس پر کلیم الدین احمد خوش ہوتے ہیں اور عزیز احمد کو اِن لفظوں میں داد دیتے ہیں۔ ’’یہ بصیرت ترقی پسندوں میں کم نظر آتی ہے۔ ‘‘ اقبال کے تعلق سے ترقی پسند ناقدین کے معتر ضانہ رویّوں کے خلاف جس سوجھ بوجھ سے عزیز احمد نے اپنی گفتگو کی ہے، کلیم الدین احمد اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں عزیز احمد کی آرا سے کلیم الدین احمد اتفاق نہیں کرتے۔ ڈی۔ ایچ۔ لورنس اور فرائڈ کا عزیز احمد نے منٹو اور عصمت چغتائی کی خدمات کے جائزے میں ذکرکیا ہے۔ کلیم الدین احمد کُھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ عزیز احمد ان مغربی مصنّفین سے آگاہ نہیں۔ فیضؔ اور راشد کی شاعرانہ کمزوری تو عزیز احمد سمجھ پاتے ہیں لیکن جوش، قاضی عبدالغفار، کرشن چندر، مجاز اور مخدوم محی الدین کی غیرناقدانہ تعریف کرنے کے لیے کلیم الدین احمد انھیں قابلِ مذمّت سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ عزیز احمد پر گفتگو ختم کرتے ہوئے اُنھوں نے ایک دِل فریب جملہ بھی نقش کیا ہے  :  ’’مارکسی تنقید کے ریگستان میں یہ سبزہ زار سے کم نہیں۔ ‘‘

        علی سردار جعفری کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ پر کلیم الدین احمد کا تبصرہ زیادہ سخت ہے۔ سردار جعفری نے اس کتاب میں جو اصولی بحث کی ہے، اُسے کلیم الدین احمد نے مختلف سیاسی اور سماجی مفکرین سے مستعار قرار دیا ہے۔ سردار جعفری نے جسں سنسنی خیزی کو ادبی تنقید میں رواج دیا اور جانب دارانہ یا منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کی تعریف یا تنقید کو شعار بنایا، اُسے کلیم الدین احمد نے سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ کلیم الدین احمد کے ترقی پسند ادب کے سلسلے سے خیالات کا ایک تتمہ ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ کی دوسری جلد میں دکھائی دیتا ہے جہاں وہ جوش، مجاز، سردارجعفری اور فیض کی ترقی پسند شاعری کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے ترقی پسندی کے بنیادی انسلاکات پر چوٹ کرتے ہیں۔ تنقید ہو یا شاعری، اکثر معاملات میں اُنھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کلیم الدین احمد کے ناقدین اکثر اس امرکو تحریک سے اُن کی دشمنی سمجھتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کے جہانِ تنقید کے واقف کار کے لیے یہ بتانا مشکل نہیں کہ پسند اور ناپسند یا دوستی اور دشمنی کی سطحی بنیادوں پر اُنھوں نے اپنی تنقید کی عمارت قائم نہیں کی تھی۔ اُردو شاعری پر ایک نظر، اور اردو تنقید پر ایک نظر، کتابوں کی تحریر کا زمانہ  1939ء؁ سے 1942ء؁ ہے۔ اُس زمانے میں ترقی پسند تحریک ابھی ابتدائی دور میں تھی۔ کسی نئی تحریک کے لیے سب سے مشکل اُس کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے جب اُس کے موئدین جلدبازی میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ادب فہمی کے اصول و ضوابط قائم کرنے کے دوران میں انصاف کا خون کرنے سے بھی جھجکتے نہیں۔ 1936ء؁ سے 1956ء؁ تک ترقی پسند تحریک کے ابتدائی بیس برسوں میں شدّتِ پسندی اور ادبی فتوے دینے کا رجحان اس قدر عام تھا کہ اُس زمانے کے ناوابستہ ادیبوں اور شاعروں کی قدر شناسی کا مسئلہ اُلجھ کر رہ گیا۔ تحریک کے زور میں انصاف کی طرف کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ اس پس منظر میں کلیم الدین احمد کی تنقید ایک ادبی مجاہدہ ہے۔ اگر اُنھوں نے اس قدر شدّتِ بیان کے ساتھ مفصّل تجزیوں کے ساتھ ترقی پسند شعرو ادب کے سرخیلوں کا جائزہ نہ لیا ہوتا تو آج نہ جانے کیا صورتِ حال ہوتی۔ کلیم الدین احمد نے پوری ترقی پسندی کو ایک ادبی توازن اور اعتدال کے ساتھ کام کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ تر

 

 

 

 

 

 

Student Name:                            

Course:                                                                     اردو تنقید

Semester:                                                                Autumn, 2021

ASSIGNMENT No. 1

ANS 01

فارسی ایران کی زبان ہے۔ اہل ایران اپنی ذہانت، نفاست، شائستگی اور علم و فضل کے لئے مشہور ہیں۔ ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کا آغاز محمود غزنوی سے ہوا۔ اس کے بعد یہ زبان مسلسل ہندوستان میں جاری و ساری رہی اور فارسی کے مختلف مراکز وجود میں آئے۔ د لاہور ملتان اور دہلی وغیرہ فارسی کے بڑے مراکز شمار کئے جاتے تھے اس کے علاوہ اودھ کا خطہ جو ہمیشہ سے مردم خیز رہا ہے اس نے بھی فارسی زبان و ادب کی پیش رفت میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ اورنگ زیب کی وفات(1707) کے بعد جب ہندوستان میں مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو اس کا اثر فارسی پر بھی پڑا۔ جب شعراءو ادباءکی خاطر خواہ سرپرستی نہیں ہوی تو وہ مختلف درباروں کا رخ کرنے لگے۔ اس نازک دور میں سرزمین اودھ نے فارسی زبان وادب کی ترویج و اشاعت میں نمایاں خدمات انجام دیں۔

متعلقہ مضامین

لاک ڈاؤن کی مثالی شادیاں

جولائی 4، 2020

اللہ کے بندوں کے کام آئیں

جون 8، 2020

شب قدر کا فلسفہ: قرآن و سنت کی روشنی میں

مئی 30، 2019

پہلی جنگ آزادی کے بعدہندوستان میں نوابین اودھ کا عہد (1721 تا 1857) فارسی زبان و ادب کا عہد زریں کہا جا سکتا ہے۔ ”نوابین اودھ نے علم و ادب اور فنون لطیفہ سے دلچسپی کی سابقہ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انہیں ہر طرح فروغ و استحکام بخشا۔ اودھ کی سرزمین نے ایسے ایسے مایہ ناز ادیب اور شاعر پیدا کئے جو اپنی طرزنگارش، حسن بیانی، زبان کی صفائی، شیرینی اور سلاست و روانی میں ہر طرح سے ممتازوممیز تھے۔ “ اس دور میں فارسی کی متعدد اہم تصنیفات معرض وجود میں آئیں۔ اور فارسی زبان و ادب کے مختلف موضوعات پر گران قدر کتابیں تلیف ہوئیںان موضوعات میں فن ”تذکرہ نگاری“ بھی نہایت اہم ہے۔

اس سے پہلے کہ فارسی تذکرہ نگاری کی تاریخ بیان کی جائے مناسب یہ ہوگا کہ لفظ تذکرہ کی وضاحت کرتے ہوئے اس پرسیر حاصل بحث کی جائے۔

تذکرہ عربی زبان کا ایک لفظ ہے اس کا مادہ ذ(ذال)، ک(کاف)اور، ر (را) ہے

ذکر (ن) ذِکرا و تذکارا -اﷲ۔ اللہ کی پاکی و بزرگی بیا ن کرنا۔

لفلان حدیثا : ذکر کرنا، ازکرہ الشی: یاد دلانا

ا لتذکرہ : وہ چیز جس سے حاجت یاد آجائے (جمع) تذاکر…………….المنجد ص353 ذکریا آفسیٹ پریس دیوبند

        ”فارسی زبان میں لفظ تذکرہ کا استعمال(آنند راج کے مطابق) یاد داشت، یاد کرنا اور نصیحت کرنا کے لئے ہوتا ہے۔ فرہنگ نظامی کے مطابق تاریخ کی ایسی کتاب جس میںشعراءکے احوال واذکار مذکور ہوں تذکرہ کہلاتی ہے۔ فرہنگ نظامی ناظم الاطباءکے مطابق تذکرہ یادگار، یاد داشت اور سفرنامہ کو کہتے ہیںاور ایک ایسی کتاب کو کہتے ہیں جس میں شعراءکے حالات زندگی لکھے ہوں“۔ ….’ ’تذکرہ نویسی فارسی در ہند و پاکستان‘۔ 1968ء:ڈاکٹرعلی رضا نقوی: مطبع: مسسة مطبوعاتی علمی چاپ علی اکبر علمی تہران، ص :2“

لفظ تذکرہ عربی زبان کے لفظ ذکر سے ماخوذہے جس کے معنی یاد کرنا، یاد آنا، یاد دلانا اور تذکرہ کے معنی یاد دہانی اور سرگذشت کے ہیں، لیکن اصطلاح میں اس لفظ کا استعمال ایک ایسی کتاب کے لئے ہوتا ہے جس میں اشخاص کے احوال و آثار کا ذکرکیا گیاہو۔ صفوی دور سے پہلے ”تذکرہ دولت شاہ “کے علاوہ تمام فارسی ادب کی کتابوں میں تذکرہ لفظ کا استعمال ’یادگار‘ ’یادداشت ‘ اور ماضی کے کاموں کو یاد کرنے کے معنی کے لئے ہوتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ صفوی دور میں ہی اس لفظ کا استعمال ایک ایس کتاب کے لئے کیا جانے لگا جس میں شعراءکے مختصر احوال اور انکے اشعار مذکور ہوں۔

تذکرہ کی سب سے پہلی کتاب جس کا نام تذکرہ سے شروع ہوتا ہے ”تذکرة الاولیائ“ ہے اور اس کی تالیف آٹوھویں صدی ھجری کے ابتدائی دور میں فرید الدین عطارنے کی تھی۔ اس کتاب کے سلسلہ میں علی رضا نقوی اسی کتاب کے مقدمہ کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”دیگر باعث آن بود کہ چون دیدم کہ روزگاری پدید آمدہ است کہ الخیر شرو اشرار الناس اخیار الناس ر افراموش کردہ اند تذکرہ ¿ ساختم اولیاءرا ایں کتاب را ’تذکرة الاولیائ‘ نام نہادم تا اھل خسران روزگار اھل دولت را فراموش نکنندو گوشہ نشینان و خلوت گرفتگان را طلب کنند وبا ایشاںرغبت نمانید تا در نسیم دولت ایشاں بہ سعادت ازلی پیوستہ گردند“

فارسی کی دوسری کتاب کہ جس کا نام لفظ تذکرہ سے شروع ہوتا ہے وہ شیخ نصیر الدین طوسی کا رسالہ ’تذکرہ‘ (597-672ھ)ہے یہ بیس فصلوں پر مشتمل ایک رسالہ ہے جس میں لفظ تذکرہ کا استعمال ماضی کے کاموں کو یاد کرنا اور ان کی نصیحت کرنے کے لئے ہوا ہے۔

تذکرہ نام سے شروع ہونے والی فارسی کی تیسری کتاب ’تذکرة الشعرائ‘ ہے اس کتاب میں تذکرہ لفظ کا استعمال گذشتہ کاموں کے لئے کیا گیا ہے، اس کتاب کی تالیف 892ھ میں دولت شاہ سمرقندی نے کی تھی۔

بر صغیر ہند اور پاکستان میں تذکرہ لفظ کا استعمال ایسی کتابوں کے بارے میں ہوتا ہے جس میں لوگوں کے احوال اور انکے کارنامے لکھے گئے ہوں، جیسے : تذکرةالامراءکیول رام او ر تذکرہ علمائے ہند از احمد علی وغیرہ۔

تذکرہ کلاسیکی عہد میں لکھے جانے والی ایسی یادداشت ہے۔ تاریخی بیان اور وہ کتاب ہے جس میں شعرأکا حال لکھا جاتا ہے تذکرہ مذکر ہے، جمع ہے تذکرہ جات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:

اُردو ادب میں تنقیدی شعور بلاشبہ اوّل روز سے موجود تھا مگر اُردو تنقید کا باضابطہ اور باقاعدہ آغاز 19ویں صدی کے آخر میں ہوا۔ اُردو تنقید کی کہانی کا پہلا(episode) تذکرے ہیں۔ جن میں بیشتر فارسی میں ہیں۔18 ویں صدی تک تمام تذکرے فارسی میں لکھے گئے تاہم اُنیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کے اثرات سے اُردو میں بھی لکھے جانے لگے۔ “ ]۲[

تذکرہ بیاض کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ بیاض میں صرف منتخب اشعار ہوتے تھے جبکہ تذکرہ میں منتخب اشعار کے ساتھ خالق اشعار کے نام اور تخلص کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعراءکے نام اور تخلص میں ابجدی اور تہجی ترتیب کو ترجیح دی گئی بعد ازاں مختصر حالات زندگی اور کلام پر مختصر تبصرے کا بھی اضافہ ہوا اور یوں تذکرہ بیاض سے مختلف اور مختصر منزلیں طے کرتا ہوا نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی ماحول میں پرورش پانے لگا۔ وقت اور ماحول کے تقاضوں نے تذکروں پر ادبی تاریخ، تنقید اور سوانح نگاری کے گہرے اثرات مرتب کیے پھر یوں ہوا کہ اِن تین رنگوں کا مجموعہ نہ تو ادبی تاریخ کا نام پا سکا اور نہ ہی تنقید کہلا سکا اور نہ سوانح نگاری کے ضمن میں آسکا تو وہ تذکرے کے فن سے معروف ہوگیا اور شعرأکے مختصر حالاتِ زندگی، کلام پر سرسری تبصرہ اور انتخاب اشعار کو اِس فن کے عناصر ترکیبی میںشمار کیا گیا۔

تذکرہ نگاری کا بڑا مقصد قدیم شعر و ادب اور شعراءکے حالاتِ زندگی کو یکجا کیا جائے کہ یہ سرمایہ ادب اور نئی نسل کے لیے نمونہ رہے۔ تذکروں کی اہمیت کو جن لوگوں نے محسوس کیا اور جن کی کاوش اور لگن سے اُردو تذکروں پر جو کام ہوا اُن میں حافظ محمود شیرانی، سیّد محمد ایم اے، ابو اللیث صدیقی اور قاضی عبد الودود کے نام آتے ہیں۔ اِن بزرگوں کا کام تقسیم سے پہلے کا ہے تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں میں ۱۹۶۴ءتک سالنامہ نگار ’تذکروں کا تذکرہ نمبر‘ میں قابلِ ذکر کام نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’اُردو شعراءکے تذکرے اورتذکرہ نگاری‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

اُردو میں ادبی تنقید و سوانح اور تاریخ نگاری کے سلسلے کا تحقیقی کام دراصل تذکروں کے سہارے آگے بڑھا ہے۔ اگر یہ تذکرے یکے بعد دیگرے سامنے نہ آجائیں تو ہم ’اُردو زبان و ادب کے قدیم ورثے‘ اِس کی نوعیت، اس کے اسالیب اور اسالیب کی ارتقائی کڑیوں سے ناواقف ہوتے۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ ہمارے شعر و ادب کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور اِس میں ہمارے اسلاف نے کتنی قسمتی چیزیں یادگار چھوڑیں ہیں۔“ ]۳[

فارسی زبان کے دستیاب تذکروں میں محمد عوفی کا ’لباب الالباب‘ ایران میں فارسی کا پہلا تذکرہ قرار دیا جاتا ہے۔ بارہ ابواب پر مشتمل دو جلدوں میں منقسم یہ تذکرہ 617 اور 618ءکے درمیان تکمیل کو پہنچا۔ ’لباب الالباب‘ کے بعد ایران اور ہندوستان میں فارسی شاعروں کی بڑی تعداد میں تذکرے لکھے گئے۔

۱۷۰۷ءمیں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ایک بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہوئی جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ مغلیہ سلطنت انگریز کے ہاتھوں منتقل ہوگی۔ اِس تبدیلی سے دیگر شعبہ زندگی کی طرح زبان و ادب کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فارسی جسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، معزول حکومت کے ساتھ ہی معزول ہوگی اور فارسی کو اُردو کے لیے جگہ خالی کرنا پڑی اور پھر اُردو زبان میں بھی تذکرے لکھے جانے لگے۔

موجودہ تحقیق کے مطابق اُردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ نکات الشعراءہے جس کی تکمیل ۱۱۶۵ءمیں میر تقی میر کے ہاتھوں ہوئی۔

اُردو کے معروف تذکروں کا مختصر تعارف:

نکات الشعراءاز میر تقی میر

نکات الشعرائ‘ میں ۱۰۳شعراءکے حالاتِ زندگی اور نمونہ کلام کے ساتھ شاعر کے فنی محاسن اور فکر و فلسفہ پر بھی جامع رائے دی گئی ہے۔ فرمان فتح پوری نے نکات الشعراءکے حوالے سے لکھا ہے کہ:

ریختہ کی اقسام، اُس کی خصوصیات، لب و لہجہ اور شعری محاسن وغیرہ کا اجمال اور اہم ذکر اوّل اسی تذکرے میں آیا ہے اور تذکرے کے خاتمے پر میر نے جو کچھ لکھا ہے وہ اُردو شاعری کی تنقیدی تاریخ میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔“ ]۴[

تذکرہ ریختہ گویاں از سیّد فتح علی حسینی گردیزی

عربی اور فارسی کے عالم حسینی تصوف اور مذہب کے موضوعات پر بہت علم رکھتے تھے۔ اُردو میں اُن کا نام دو کتابوں ابطال الباطل اور ریختہ گویاں کی وجہ سے معروف ہوا۔

ریختہ گویاں میں ۹۷شعراءکے احوال بلحاظِ حروفِ تہجی قلمبند کیے گئے اور اُن تمام شعرأکی حد سے زیادہ تعریف کی گئی ہے جن شعرأکو ’نکات الشعرائ‘ میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

میر اور گردیزی دونوں نے تذکرے کے اختتام پر ایک ہی طرح کی عبارتیں لکھی ہیں ممکن ہے کہ ایک نے دوسرے سے فائدہ اُٹھایا ہے۔

ANS 02

تذکرہ کلاسیکی عہد میں لکھے جانے والی ایسی یادداشت ہے۔ تاریخی بیان اور وہ کتاب ہے جس میں شعرأکا حال لکھا جاتا ہے تذکرہ مذکر ہے، جمع ہے تذکرہ جات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:

              ”اُردو ادب میں تنقیدی شعور بلاشبہ اوّل روز سے موجود تھا مگر اُردو تنقید کا باضابطہ اور باقاعدہ آغاز 19ویں صدی کے آخر میں ہوا۔ اُردو تنقید کی کہانی کا پہلا(episode) تذکرے ہیں۔ جن میں بیشتر فارسی میں ہیں۔18 ویں صدی تک تمام تذکرے فارسی میں لکھے گئے تاہم اُنیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کے اثرات سے اُردو میں بھی لکھے جانے لگے۔ “ ]۲[

       تذکرہ بیاض کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ بیاض میں صرف منتخب اشعار ہوتے تھے جبکہ تذکرہ میں منتخب اشعار کے ساتھ خالق اشعار کے نام اور تخلص کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعراءکے نام اور تخلص میں ابجدی اور تہجی ترتیب کو ترجیح دی گئی بعد ازاں مختصر حالات زندگی اور کلام پر مختصر تبصرے کا بھی اضافہ ہوا اور یوں تذکرہ بیاض سے مختلف اور مختصر منزلیں طے کرتا ہوا نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی ماحول میں پرورش پانے لگا۔ وقت اور ماحول کے تقاضوں نے تذکروں پر ادبی تاریخ، تنقید اور سوانح نگاری کے گہرے اثرات مرتب کیے پھر یوں ہوا کہ اِن تین رنگوں کا مجموعہ نہ تو ادبی تاریخ کا نام پا سکا اور نہ ہی تنقید کہلا سکا اور نہ سوانح نگاری کے ضمن میں آسکا تو وہ تذکرے کے فن سے معروف ہوگیا اور شعرأکے مختصر حالاتِ زندگی، کلام پر سرسری تبصرہ اور انتخاب اشعار کو اِس فن کے عناصر ترکیبی میںشمار کیا گیا۔

       تذکرہ نگاری کا بڑا مقصد قدیم شعر و ادب اور شعراءکے حالاتِ زندگی کو یکجا کیا جائے کہ یہ سرمایہ ادب اور نئی نسل کے لیے نمونہ رہے۔ تذکروں کی اہمیت کو جن لوگوں نے محسوس کیا اور جن کی کاوش اور لگن سے اُردو تذکروں پر جو کام ہوا اُن میں حافظ محمود شیرانی، سیّد محمد ایم اے، ابو اللیث صدیقی اور قاضی عبد الودود کے نام آتے ہیں۔ اِن بزرگوں کا کام تقسیم سے پہلے کا ہے تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں میں ۱۹۶۴ءتک سالنامہ نگار ’تذکروں کا تذکرہ نمبر‘ میں قابلِ ذکر کام نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’اُردو شعراءکے تذکرے اورتذکرہ نگاری‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

              ”اُردو میں ادبی تنقید و سوانح اور تاریخ نگاری کے سلسلے کا تحقیقی کام دراصل تذکروں کے سہارے آگے بڑھا ہے۔ اگر یہ تذکرے یکے بعد دیگرے سامنے نہ آجائیں تو ہم ’اُردو زبان و ادب کے قدیم ورثے‘ اِس کی نوعیت، اس کے اسالیب اور اسالیب کی ارتقائی کڑیوں سے ناواقف ہوتے۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ ہمارے شعر و ادب کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور اِس میں ہمارے اسلاف نے کتنی قسمتی چیزیں یادگار چھوڑیں ہیں۔“ ]۳[

       فارسی زبان کے دستیاب تذکروں میں محمد عوفی کا ’لباب الالباب‘ ایران میں فارسی کا پہلا تذکرہ قرار دیا جاتا ہے۔ بارہ ابواب پر مشتمل دو جلدوں میں منقسم یہ تذکرہ 617 اور 618ءکے درمیان تکمیل کو پہنچا۔ ’لباب الالباب‘ کے بعد ایران اور ہندوستان میں فارسی شاعروں کی بڑی تعداد میں تذکرے لکھے گئے۔

       ۱۷۰۷ءمیں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ایک بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہوئی جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ مغلیہ سلطنت انگریز کے ہاتھوں منتقل ہوگی۔ اِس تبدیلی سے دیگر شعبہ زندگی کی طرح زبان و ادب کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فارسی جسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، معزول حکومت کے ساتھ ہی معزول ہوگی اور فارسی کو اُردو کے لیے جگہ خالی کرنا پڑی اور پھر اُردو زبان میں بھی تذکرے لکھے جانے لگے۔

       موجودہ تحقیق کے مطابق اُردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ نکات الشعراءہے جس کی تکمیل ۱۱۶۵ءمیں میر تقی میر کے ہاتھوں ہوئی۔

اُردو کے معروف تذکروں کا مختصر تعارف:

نکات الشعراءاز میر تقی میر

       ’نکات الشعرائ‘ میں۱۰۳شعراءکے حالاتِ زندگی اور نمونہ کلام کے ساتھ شاعر کے فنی محاسن اور فکر و فلسفہ پر بھی جامع رائے دی گئی ہے۔ فرمان فتح پوری نے نکات الشعراءکے حوالے سے لکھا ہے کہ:

              ”ریختہ کی اقسام، اُس کی خصوصیات، لب و لہجہ اور شعری محاسن وغیرہ کا اجمال اور اہم ذکر اوّل اسی تذکرے میں آیا ہے اور تذکرے کے خاتمے پر میر نے جو کچھ لکھا ہے وہ اُردو شاعری کی تنقیدی تاریخ میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔“ ]۴[

تذکرہ ریختہ گویاں از سیّد فتح علی حسینی گردیزی

       عربی اور فارسی کے عالم حسینی تصوف اور مذہب کے موضوعات پر بہت علم رکھتے تھے۔ اُردو میں اُن کا نام دو کتابوں ابطال الباطل اور ریختہ گویاں کی وجہ سے معروف ہوا۔

       ریختہ گویاں میں ۹۷شعراءکے احوال بلحاظِ حروفِ تہجی قلمبند کیے گئے اور اُن تمام شعرأکی حد سے زیادہ تعریف کی گئی ہے جن شعرأکو ’نکات الشعرائ‘ میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

       میر اور گردیزی دونوں نے تذکرے کے اختتام پر ایک ہی طرح کی عبارتیں لکھی ہیں ممکن ہے کہ ایک نے دوسرے سے فائدہ اُٹھایا ہے۔

مخزن نکات از محمد قیام الدین

       قیام الدین قائم تخلص کرتے تھے۔ فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۱۲۸شعرأکے احوال کے ساتھ تین حصوں یعنی متقدمین، متوسطین اور متاخرینِ شعرأکے عنوانات پر مشتمل ۱۱۶۸ءمیں اپنی تکمیل کو پہنچا۔

تذکرہ شعرائے اُردو از میر حسن دہلوی

       تین طبقوں میں تقسیم اِس تذکرے کا مختصر سا دیباچہ ہے۔ اِس کے بعد بادشاہِ وقت شاہ عالم آفتاب کا ذکر ہے۔ اشعار کا انتخاب بہت خوبصورت ہے۔ شعراءکے حالات ردیف وار درج ہیں۔ میر نے کسی کی تنقیص یا بے جا تعریف سے گریز کرتے ہوئے بے لاگ تنقید کی ہے۔

گلشنِ بے خار از محمد مصطفی خان

       یہ تذکرہ قدیم دکنی شعرأسے لے کر اُنیسویں صدی کے وسط تک تمام شعری تاریخ پر محیط ہے۔ اُردو کے دو سو سالہ سرمایہ کو اختصار کے ساتھ اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے ۱۸۳۴ءمیں شعراءکے مختصر حالات اور انتخاب کلام کے ساتھ مکمل ہوا۔

ریاض الصفحا از غلام ہمدانی مصحفی

       تذکرہ نگار نے ۱۲۲۹ءشعرا کا نہ صرف اپنے دَور کے بلکہ اِس سے پہلے کے دَور کے شعر کا بھی ذکر بلحاظِ حروفِ تہجی کیا ہے۔ فارسی بان کا یہ تذکرہ ریختہ گو شعرا کے تذکرے کے ساتھ ۱۲۳۶ءمیں مکمل ہوا۔

گلشنِ گفتار از حمید اورنگ آبادی:

       30 شعرأپر مشتمل ۱۱۶۵میں مکمل ہونے والے اس تذکرے کی اہمیت دو خاص سبب سے ہے۔ تذکرے میں بتایا ہے کہ شمالی ہند کی طرح دکن میں بھی تذکرہ نگاری کی رسم بارہویں صدی ہجری کے وسط میں پڑ گئی تھی۔دوسرے یہ کہ دکنی شعرأکے متعلق ایسی بہت سی معلومات ہیں جن سے شمالی ہند کے تذکرہ نگار پہلے واقف نہ ہے۔ انتخاب کلام میں متفرق اشعار کے بجائے پوری پوری غزلیں دی ہیں۔ یہ تذکرہ ’نصرتی‘ سے شروع ہوکر ’عزلت‘ کے ترجمے پر مکمل ہوتا ہے۔

تحفتہ الشعرأاز مرزا افضل بیگ قاقشال:

       فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۶۲شعرأکے تراجم کے ساتھ ۱۱۶۵ءمیں مکمل ہوا۔ اِس میں ریختہ گو اور فارسی گو دونوں شعرأشامل ہیں۔ تذکرے میں شعرأکی ترتیب میں کوئی اُصول نہیں برتا۔ شعرأکی تاریخ پیدائش اور وفات پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ تذکرے کے پہلے شاعر غلام حسین قادری اور آخر میں مرزا جان جاناں مظہر ہیں۔

چمنستان شعرأاز لچھمی نرائن شفیق:

       عربی، فارسی اور علوم متداولہ میں مہارت رکھنے والے مصنف نے یہ تذکرہ ۱۷۶۱ءمیں مکمل کیا۔ فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۳۱۳شعرأکے ذکر کے ساتھ بلحاظِ حروفِ ابجد مرتب ہوا۔ تذکرہ آرزو سراج خاں سے شروع ہو کر غلام سیّد غلام کے ذکر پر ختم ہوتا ہے۔

طبقات الشعرأاز قدرت اللہ شوق:

       طبقات الشعرأ۱۷۷۵ءمیں چار طبقات کی تقسیم کے ساتھ ۳۱۳شعرأکی تعداد سے مکمل ہوا۔ طبقہ اوّل میں ریختہ گوئی کے موجدین، شعرائے دکن اور اُن کے بعض معاصرین کا ذکر ہے طبقہ دوم میں ایہام گو شعرأکو جگہ دی گئی ہے۔

       طبقہ سوم میں شعرائے متاخرین اور بعض نو مشق شعرا مذکور ہیں۔ طبقہ چہارم میں شعرائے تازہ اور بعض تو شقان شامل ہیں۔ یہ تذکرہ امیر خسرو سے شروع ہوکر قدرت اللہ شوق کے تذکرے پر ختم ہوتا ہے۔

آبِ حیات از محمد حسین آزاد:

       ۱۸۸۰ءمیں وکٹوریہ پریس لاہور سے شائع ہونے والی یہ کتاب موضوع و مواد کے لحاظ سے دیباچے کے علاوہ پانچ اَدوار میں تقسیم کی گئی ہے۔ ہر دَور اپنے عہد کی زبان بلکہ اُس زمانہ کی شان دکھاتا ہے۔ آبِ حیات میں بیک وقت تحقیق، تنقید، اسلوب اور تاریخ کی ایسی خصوصیات ہیں جو پہلے تذکروں میں نظر نہیں آتیں۔ شعرأکی زندگی اور کلام کے متعلق مفید آراءبھی ملتی ہیں۔ یہ اسلوب آبِ حیات کو قدیم تذکرہ نگاری سے الگ کرتا ہے اور جدید تنقیدی بنیاد ڈالتا ہے۔ جو آگے چل کر حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی صورت میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔

       اُردو تنقید کے ارتقاءکو سمجھنے کے لیے تذکرہ نگاری کا مطالعہ ناگزیر ہے لیکن تذکرہ نگاری کو تنقید کے دائرے میں رکھا بھی جاسکتا ہے یا نہیں ملاحظہ ہو۔ تذکرہ نگاری پر اُبھرنے والی ضرب کاریاں اور کچھ موافق و مخالف آوازیں۔

کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:

              ”….اکثر شعرأکے کلام پر رائے زنی نہیں کی جاتی…. تذکروں میں ہر جگہ الفاظ کا سیلاب رواں ہے۔ یہ الفاظ کوئی خاص نقش دل و دماغ پر ثبت نہیں کرتے…. تذکرہ لویس تنقید کی ماہیئت، اُس کے مقصد، اُس کے صحیح پیرایہ سے بھی آشنا نہ تھے۔ اِس لیے ان تذکروں کی اہمیت صرف تاریخی ہے۔ یہ دُنیائے تنقید میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے…. عموماً ایسے اشعار چنے جاتے ہیں جو معیار پر پورا اُترتے ہیں …. تذکرہ نویسوں میں اتنی بھی ناقدانہ نظر نہ تھی کہ وہ اچھے اور برے اشعار میں تمیز کر سکیں۔“ ]۵[

رشید حسن خان کی رائے دیکھئے:

              ”بیشتر مطبوعہ تذکروں کے متن پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا …. تذکرے بے شمار غیر معتبر واقعات کا ’مال خانہ‘ بن گئے ہیں۔ صحت متن کے سلسلے میں اِن پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا …. بیشتر مطبوعہ تذکروں میں اشعار کے متن کا حال سب سے زیادہ مقیم ہے۔“ ]۶[

ابو الکلام قاسمی مشرقی شعریات اور اُردو تنقید کی روایت میں لکھتے ہیں:

              ”تذکروں میں اکثر طرفداری سے کام لیا گیا ہے…. شعر کے محاسن میں زیادہ تر صنائع لفظی و معنوی کو اہمیت دی گئی ہے…. اکثر شعراءکے اسلوب و سلیقہ شعر کے لیے مبہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے شاعری کی حیثیت واضح نہیں ہوتی۔“ ]۷[

ڈاکٹر فرمان فتح پوری ناقدین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

              ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جدید نقادوں نے قدیم تذکروں کا بالااستیاب مطالعہ نہیں کیا …. یقینا ایسے تذکرے بھی موجود ہیں۔ جن میں شعرأکے حالات کو احتیاط سے جمع کر کے شعرا کے اَدوار قائم کرنے، ہر دَور کی خصوصیت اُجاگر کرنے، شعرأکی ولدیت اور سکونت کی نشاندہی کرنے اساتذہ و تلامذہ کے نام دینے اور اُن کے سنین وفات و پیدائش کے اندراج کرنے میں خاص اہتمام سے کام لیا گیا ہے …. اِس طرح اگر خاص شاعر کے متعلق مختلف تذکروں کے اقتباسات جمع کریں تو ہمیں یقین ہے کہ اُس کی مکمل تصویر سامنے آجائے گی۔“ ]۸[

نور الحسن نقوی ’فن تنقید اُردو تنقید نگاری ‘میں کہتے ہیں:

              ”شعرائے اُردو کے تذکرے ہمارا قدیم اور بیش قیمت ادبی سرمایہ مکمل اور ہماری زبان میں تنقید کی بنیاد انھی کے ذریعے پڑی۔ اِن تذکروں میں تنقید کے جو نمونے ملتے ہیں انھیں باقاعدہ تنقید کہنا تو مشکل ہے البتہ انھیں اُردو تنقید کا پہلا نقش ضرور کہا جاسکتا ہے۔ “ ]۹

ANS 03

شعر کی تاثیر :حالی نے لکھا کہ شاعری کی تاثیر ہوتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے مےں مدد گار ہوسکتی ہے اور دنےا مےں اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہےں۔ اپنے خےال کی تائےد مےں انہوں نے کئی مثالےں پےش کی ہےں۔ قدےم ےونان مےں اےتھنس والوں کو بار بار شکست ہونے لگی تووہاں کے شاعر سولن نے درد انگےز اور ولولہ خےز اشعار پڑھے۔ جس سے اےتھنس والوں کی غےرت جاگ گئی۔ اور انہوں نے اپنے دشمن کو شکست دےدی ۔اےشےاءمےں شاعری سے بڑے اہم اور مفےد کام لئے گئے ۔عرب شاعر اعشیٰ کے تعلق سے ےہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنی شاعری مےں جس کسی کی مدح کرتا وہ عزےز و نےک نام ہوجاتا اور جس کی ہجو کرتا وہ ذلےل و خوار ہوجاتا۔ اس نے اےک خاتون کی لڑکےوں کے بارے مےں قصےدہ لکھا تا کہ اُن لڑکےوں کی آسانی سے شادی ہوسکے۔ اعشیٰ کا قصےدہ پڑھ کر بڑے بڑے عرب لوگوں نے ان لڑکےوں سے شادی کرلی۔ اس طرح مختلف واقعات سے حالی نے ثابت کےا کہ اچھی شاعری سے تبدےلی اور اصلاح کا کام لےا جاسکتا ہے۔ اس طرح حالی کے ان خےالات کی بہت لوگوں نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ شاعری کا کام تو لطف اندوزی ہے۔ لےکن حالی نے جو کچھ کہا تھا وہ وقت کا تقاضہ تھا۔ اس وقت شاعری کا مقصدی ہونا بہت ضروری تھا۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد لوگ حالی کے خےالات سے اتفاق کرنے لگے۔ حالی نے شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دےا اور لکھا کہ سوسائٹی (SOCIETY) کا مذاق اچھا ہوتو اچھی شاعری ہوگی ورنہ زمانے کا مزاج دےکھ کر شاعر بھی شاعری مےں مبالغہ آرائی کرنے لگےں گے۔ بری شاعری سے زمانے کا مزاج بگڑے گا اس لئے شاعر اور سماج دونوں کو اپنے مزاج کو سدھارنا ہوگا۔

شعر کی تعرےف:حالی نے اپنے مقدمہ مےں شعر کے بارے مےں مختلف ماہرےن کی تعرےفےں پےش کی ہےں۔ اور لکھا ہےکہ شاعری اےک قسم کی نقالی ہے۔ مصوری اور بت تراشی کی طرح شاعر بھی لفظوں کے ذرےعہ اےک پر اثر خےالی تصوےر پےش کرسکتا ہے۔ اےک محقق کی شعر کی تعرےف پےش کرتے ہوئے حالی لکھتے ہیں کہ جو خےال اےک غےر معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذرےعہ اس طرح ادا کےا جائے کہ سامع کا دل اس کو سن کر خوش ےا متاثر ہو وہ شعر ہے۔

شاعری کی تےن شرطےں:     حالی نے اپنے مقدمہ مےں شاعری کےلئے تےن شرطےں (1 تخےل(2 مطالعہ کائنات (3 تفحص الفاظ ‘ قراردی ہےں۔

(1 تخےل: تخےل کے بارے مےں حالی نے لکھا کہ انگرےزی مےں اسے (Imagination) کہتے ہےں ےہ اےسی صلاحےت ہے جو مشق سے حاصل نہےں ہوتی بلکہ خداداد ہوتی ہے لےکن اگر کسی مےں ےہ صلاحےت ہوتو اُسے مطالعہ کے ذرےعہ بڑھاےا جاسکتا ہے ۔ حالی نے انگرےزی اور عرب ماہرےن ادب کی تعرےفوں اور اشعار کی مثالوں کے ذرےعہ قوتِ متخےلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(2 مطالعہ کائنات : حالی اچھی شاعری کےلئے کائنات کا مطالعہ کو ضروری قرار دےتے ہےں۔ ہر فنکار کےلئے ےہ ضروری ہےکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اس وسےع و عرےض کائنات کا مشاہدہ کرے اور مختلف چےزوں سے متحد اور متحد چےزوں سے مختلف خصوصےتوں کو کائنات سے اخذ کرسکے۔ اور اس مطالعہ کے سرماےہ کو اپنے ےاد کے خزانے مےں رکھے اور وقتِ ضرورت انہےں اپنی شاعری مےں استعمال کرے۔

(3 تفحص الفاظ: حالی کہتے ہےںکہ شاعری کو بہتر بنانے کےلئے کلام مےں اچھے الفاظ استعمال کرنا چاہئے ۔جس طرح اےک مصور اپنی تصوےر کو خوبصورت بنانے کےلئے بہتر رنگوں کا استعمال کرتا ہے اسی طرح شاعر کو بھی سونچ سمجھ کر الفاظ استعمال کرنا چاہےے اور پےش کئے گئے خےالات کو کانٹ چھانٹ کر درست کرناچاہےے اس طرح شاعر کا کام انگو ٹھی مےں نگےنہ جڑنے کا کام ہو جائے۔

شعر کی خوبےاں:حالی شعر کی خوبےاں کرتے ہوئے اس مےں سادگی جوش اور اصلےت کے ہونے پر زور دےتے ہےں۔

(1سادگی :حالی کہتے ہےںکہ شعر کو سادہ اور آسان ہونا چاہےے تاکہ سننے والے اُسے سمجھ سکےں شاعری کا مقصد ترسےل ہوتا ہے اگر شاعر کا پےش کردہ خےال سامع ےا قاری تک نہ پہنچ سکے تو شاعری کا مقصد مکمل نہےں ہو سکتا اس لئے حالی سادگی پر زور دےتے ہےں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کو بھی عام بول چال کی زبان میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ورنہ شعر سادگی کے زیور سے محروم سمجھا جائے گا۔ حالی کہتے ہیں کہ اردو قصیدہ نگاری میں پر شکوہ الفاظ کے استعمال سے قصیدوں کی سادگی متاثر ہوئی ہے۔ وہ غزل اور مثنوی میں بھی سادگی کی حمایت کرتے ہیں۔

جوش : جوش سے حالی کی یہ مراد ہے کہ شعر میں مضمون اےسے بے ساختہ الفاظ اور موثر انداز میں پیش کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کردیا کہ اُسے شعر پیش کیا جائے۔ ایسا شعر پر اثر ہوتا ہے اور سننے والے کے دل پر اثر کرتا ہے۔ جوش سے مراد نہیں کہ مضمون کو جوشیلے الفاظ میں بیان کیا جائے بلکہ دھےمے الفاظ سے بھی چھری اور خنجر کا کام لیا جاسکتا ہے۔ عربی میں جوشیلی شاعری کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔

اصلیت :حالی کا خیال ہے کہ اچھے شعر کی بنیاد اصلیت پر ہوتی ہے۔ اگر شعر میں وہ بات بیان کی جائے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تو ایسا شعر جھوٹا خواب بن جائے گا۔ یعنی شاعری میں انسانی عقل اور مشاہدے پر مبنی باتیں بیان کی جانی چاہئے۔ حالی سے قبل اکثر شعراءنے شاعری میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا تا کہ شعر کی رونق بڑھائی جائے لیکن حالی کے زمانے میں زندگی مسائل سے دوچار تھی اس لئے حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ بری شاعری پر اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے حالی نے مسدس میں کہا کہ

برا شعر کہنے کی اگر کچھ سزا ہے

عبث جھوٹ بکنا اگر نا روا ہے

تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے

مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے

گہنگاروہاں چھوٹ جائینگے سارے

جہنم کو بھر دینگے شاعر ہمارے

شاعری میں جھوٹ سے بچنے کےلئے حالی اپنی نظم شعر سے خطاب میں کہتے ہیں کہ

وہ دن گئے کہ جھوٹ تھا ایمان شاعری                   قبلہ ہو اُس طرف تو نہ کیجئیو نماز تو

نیچرل شاعری :حالی نے شاعری کو فطرت سے قریب رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اور لکھا کہ قدیم دور کے شاعروں میں فطری شاعری زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ بعد میں شاعری میں مبالغہ آرائی شامل ہوتی گئی۔ حالی نے اپنے مقدمہ میں الفاظ لفظ اور معنی کا رشتہ اور وزن و قافیہ کی اہمیت بھی اجاگر کی ہے۔ اس کے بعد اپنے مقدمہ کے دوسرے حصہ میں اردو شاعری کی اصناف غزل‘مثنوی‘ قصیدہ‘ مرثیہ اور رباعی کی اصلاح کے بارے میں اپنے خیالات پیش کئے۔

غزل کی اصلاح :حالی نے غزل کی اصلاح کو سب سے زیادہ اہم اور ضروری قرار دیا ہے۔ کیونکہ غزل عوام میں مقبول ہے اور جو مقبول صنف ہو اس کی اصلاح بھی اہم ہوجاتی ہے۔ غزل پر حالی نے جو اعتراضات کئے ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ غزل میں عشق نہ بھی کیا ہو تو وہ غزل میں عاشقی کا دعویٰ کرتا ہے۔ غزل کے مضامین محدود ہیں۔ اس میںقدیم زمانے میں کہی گئی باتوں کو الٹ پلٹ کر بار بار بیان کیا جاتا ہے۔ غزل کے الفاظ میں شراب‘ ساقی‘ صراحی‘ جام وغیرہ کا ذکر اسطرح کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا اس برائی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ غزل میں محبوب کو مرد کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جو باعث شرم ہے ۔غزل کی زبان بھی ایک خاص دائرے سے باہر قدم نہیں رکھتی اور صنعتوں کے استعمال سے شعر کی تاثیر جاتی رہتی ہے۔ اسلئے حالی غزل میں موجود ان باتوں کو غلط سمجھتے ہوئے غزل کی اصلاح چاہتے ہیں۔ اور وہ غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ زندگی کے دیگر موضوعات اور مسائل پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ غزل میں حقیقی عشق پر زور دےتے ہیں جو ایک بندے کو خدا سے ہوتا ہے۔ غزل میں ایک ہی طرح کے الفاظ کی وہ مخالفت کرتے ہیں۔ حالی نے غزل پر اپنے زمانے کے اعتبار سے اعتراضات کئے تھے۔ لیکن حالی کے ان اعتراضات کو کچھ لوگوں نے تسلیم نہیں کیا۔

مثنوی :حالی نے مثنوی کو شاعری کی کارآمد صنف قرار دیا ہے۔ کیونکہ غزل یا قصیدہ میں قافیہ کی وجہہ سے پابندی ہوتی ہے اور ہر قسم کے مسلسل مضامین بیان نہیں کئے جاسکتے کیونکہ مثنوی کے ہر شعر میں قافیہ ردیف بدلتا رہتا ہے ۔ عرب شاعری میں مثنوی کا رواج نہیں تھا جبکہ فارسی میں کئی مثنویاں لکھی گئیں۔ اس لئے فارسی شاعری کو عرب شاعری پر فوقیت دی جاتی ہے۔ حالی اردو مثنوی پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مثنوی سے جےسے کام لیا جانا چاہئے تھا ویسا نہیں لیا جاسکا۔ مثنویوں میں صرف عشقیہ مضامین بیان کئے گئے۔ شاہی زندگی کے بیان تک مثنوی کو محدود کردیا گیا اور اس میں حقیقی یا عام زندگی کے واقعات اور مشاہدات نہیں ملتے۔ بلکہ مافوق الفطرت باتیں جےسے پری‘ دیو بھوت‘ پریت اور تعویز جادوئی گھوڑا وغیرہ نا ممکن باتوں کو مثنویوں میں پیش کیا گیا اور خوابوں کے محل تیار کروائے گئے۔ حالی مثنوی کی اصلاح کےلئے کہتے ہیں کہ

۱ مثنوی کے اشعار اسطرح مسلسل بیان ہونے چاہئےں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوں اور دونوں کے بیچ میں کہیں رکاوٹ محسوس نہ ہو۔

۲ حالی کہتے ہیں کہ مثنوی کی بنیاد نا ممکن اور فوق العادت باتوں پر نہ رکھی جائے کیونکہ اب علم اور سائنس کی ترقی سے اےسی فرسودہ باتوں کو رد کیا جارہا ہے اسلئے ان سے بچنا چاہئے۔

۳ مبالغہ شعر کو خوبصورت بنانے کےلئے ہوتا ہے اس لئے اسے اس مقصد کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے اور واضح جھوٹ بولنے کےلئے نہیں استعمال کرنا چاہئے۔

۴ حالی کہتے ہیں کہ موقع محل کے اعتبار سے بات کرنی چاہئے۔ اور پڑھنے والے کو بات سمجھ میں آنے میں کسی قسم کی رکاوٹ یا غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔

۵ مثنوی میں پیش کردہ کردار مقامات اور واقعات فطرت اور عادت کے موافق ہونے چاہئیں۔

۶ مثنوی میں جو خیال یا واقعہ بیان کیا گیا ہو اسکی تردید نہیں کرنی چاہئے۔ ایک مثنوی میں شاعر دھان اور سرسوں کے کھیتوں کو ساتھ ساتھ پیش کیا ہے یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ کیونکہ دھان خریف میں ہوتے ہیں اور سرسو ںربیع میں۔

۷ مثنوی میں جن باتوں کو تفصیل سے بیان کرنا چاہئے انہیں تفصیل سے بیان کرنا چاہئے۔ اور جن باتوں کو اشاروں میں بیان کرنا ہے انہیں اشاروں تک محدود رکھنا چاہئے۔ بے شرمی کی باتوں کو تفصیل سے بیان نہیں کرنا چاہئے۔ اسطرح حالی نے مثنوی کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔

قصیدہ :قصیدہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح (تعریف) یا ہجو (مذمت) کی جاتی ہے۔ عام طور پر قصیدے بادشاہوں یا بزرگان دین کی تعریف میں لکھے جاتے ہیں۔ اس میں پر شکوہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں عام طور پر قصیدے بادشاہوں کی تعریف میں انعام کے حصول کے لئے لالچ میں لکھے گئے اور اس میں بے جا تعریف بھی داخل ہوگئی۔ اسلئے حالی اس قسم کی قصیدہ نگاری کی مخالفت کرتے ہیں جس میں سچے جذبات کااظہار نہیں ہوتا ہو۔ حالی پر مقصدیت اور حقیقت نگاری کا اثر غالب تھا۔ اسلئے وہ جھوٹ کو برداشت نہیں کرتے تھے جبکہ قصیدہ نگاری کی شان بڑھانے کےلئے اردو شعراءنے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔

مرثےہ :  شاعری کی اصطلاح مےں مرثےہ اےسی نظم کو کہتے ہےں جس مےں امام حسےن ؓ کی شہادت اور واقعات کربلا بےان کئے جاتے ہےں لکھنو مےںانےس اور دبےر نے مرثےہ نگاری کو عروج پر پہنچاےا اس مےں سراپا نگاری جذبات نگاری اور کردار نگاری کی اچھی مثالیں ملتی ہےں۔ حالی مرثےہ کی تعرےف کرتے ہےں کےونکہ اس سے اعلیٰ اخلاق کا سبق ملتا ہے۔وہ مرثیے کی صنف کو استعمال کرنے اور قوم کے اعلٰی افراد کی وفات پر ان کی تعریف اور توصیف پر مبنی مرثیے لکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔حالی کے ےہ تنقےدی خےالات اپنے زمانے مےں کافی مقبول ہوئے اور آج بھی حالی کے ان خےالات کو اُردو تنقےد کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔

حالی کے تنقےدی نظرےات کا جائزہ:حالی نے مقدمہ شعر و شاعری مےں” ادب برائے زندگی“ کا نظرےہ پےش کےا ہے انہوں نے تاثےر پر زور دےا اور اچھے شاعر اور اچھی شاعری کے لئے کچھ پےمانے مقرر کئے انہوں نے شاعری کی اصنافِ غزل ‘ مثنوی‘ قصےدہ ‘ مرثےہ وغےرہ مےں اصلاح کی باتےں کہےں۔ حالی نے اس مقدمہ مےں زےادہ تر شعر کی اخلاقی اور سماجی حےثےت پر نظر ڈالی ہے۔ اس کی وجہہ ےہ ہےکہ حالی سے پہلے شاعری مےں صرف جمالےاتی پہلو پر نظر رکھی جاتی تھی۔ جب کہ رد عمل کے طور پر حالی شاعری کے جمالےاتی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس کے افادی اور اخلاقی پہلو پر زور دےا۔ لےکن کوئی بحث اور کوئی نظرےہ اس وقت تک مکمل نہےں ہوسکتا جب تک اس کا ہر پہلو اُجاگر نہ کےا جائے۔ مقدمہ مےں ےہ بات کھٹکتی ہے اس لئے حالی پر کی جانے والی تنقےدےں درست لگتی ہےں۔ حالی نے غزل کو صرف عشق و عاشقی تک محدود قرار دےا تھا جب کہ حالی کے زمانے مےں غالب نے فلسفےانہ اور حکےمانہ خےالات پےش کرتے ہوئے واضح کردےا تھا کہ غزل صرف عشق تک محدود نہےں ہے اسی طرح دےگر اصناف پر حالی کے خےالات سے اختلاف کی گنجائش ہے لےکن حالی نے جس طرح پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر تنقےدی خےالات پےش کئے وہ اُردو مےں کسی نے پےش نہےں کئے تھے اس لئے حالی کی کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کو اُردو مےں فن تنقےد کی پہلی کتاب قرار دےا جاتا ہے ۔ حالی کے مخالفےن بھی ان کی تنقےدی بصےرت کے معترف ہےں اور حالی کے بعد جو بھی نقاد وجود مےں آئے اور جو تنقےدی کتا بےں لکھی گئےں ان کا سہرا حالی کے سر جاتا ہے۔

حالی نے مقدمہ شعر و شاعری مےں رواں دلچسپ پر اثر اور مدلّل اسلوب اختےار کےا ہے ان کی تحرےر مےں سادگی ‘ سلاست اور روانی موجود ہے ۔ حالی نے تنقےدی خےالات کے اظہار کےلئے جو سادہ اسلوب اختےار کےا اس سے بھی ان کا مقدمہ مشہور ہوا۔

سوال: حالی نے شعر اور شاعری کی شرطو ں کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کیا؟

جواب: حالی کا تعارف: خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914) اُردو کے مشہور شاعر‘انشا پرداز ‘سوانح نگار اور نقاد گذرے ہیں۔غالب کے شاگرد تھے۔ اور سر سید کی اصلاحی تحریک میں حصہ لیا۔ ابتداءمیں قدیم طرز کی غزل گوئی کی۔ بعد میں ادب کی مقصدیت کے قائل ہوئے۔ انہوں نے انجمن پنجاب کے مشاعروں میں نظمیں سناتے ہوئے اُردو نظم گوئی کو فروغ دیا۔ مشہور مسدس” مدو جزر اسلام“1879ءمیں لکھی۔ سوانح نگاری میں آپ کی یاد گار کتابیں”حیات سعدی“1882۔یادگار غالب1897اور حیات جاوید1901۔مشہور ہیں۔ اپنی شاعری کے مجموعے کو ایک طویل مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ جس میں شاعری کے بارے میں اصولی بحثیں کیں۔ بعد میں یہ کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کے عنوان سے 1893ءمیں علٰحیدہ شائع ہوئی۔ اس کتاب کو بہت مقبولیت ملی۔ اور یہ کتاب اُردو تنقید کی پہلی باضابطہ کتاب سمجھی جاتی ہے ۔اور حالی کو اُردو کا پہلا نقاد کہا جاتا ہے۔

شعر کی تاثےر :حالی نے لکھا کہ شاعری کی تاثےر سے فائدہ اٹھانا چاہےے شاعری زندگی کو بہتر بنانے مےں مدد گار ہوسکتی ہے اور دنےا مےں اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہےں۔ اپنے خےال کی تائےد مےں انہوں نے کئی مثالےں پےش کی ہےں۔ قدےم ےونان مےں اےتھنس والوں کو بار بار شکست ہونے لگی تو سولن نے درد انگےز اور ولولہ خےز اشعار پڑھے۔ جس سے اےتھنس والوں کی غےرت جاگ گئی۔ اور انہوں نے اپنے دشمن کو شکست دےدی اےشےاءمےں شاعری سے بڑے اہم اور مفےد کام لئے گئے عرب شاعر اعشیٰ کے تعلق سے ےہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنی شاعری مےں جس کسی کی مدح کرتا وہ عزےز و نےک نام ہوجاتا اور جس کی ہجو کرتا وہ ذلےل و خوار ہوجاتا اس نے اےک خاتون کی لڑکےوں کے بارے مےں قصےدہ لکھا تا کہ اُن لڑکےوں کی آسانی سے شادی ہوسکے۔ اعشیٰ کا قصےدہ پڑھ کر بڑے بڑے عرب لوگوں نے ان لڑکےوں سے شادی کرلی۔ اس طرح سے مختلف واقعات سے حالی نے ثابت کےا کہ اچھی شاعری سے تبدےلی اور اصلاح کا کام لےا جاسکتا ہے۔ اس طرح حالی کے ان خےالات کی بہت لوگوں نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ شاعری کا کام تو لطف اندوزی ہے۔ لےکن حالی نے جو کچھ کہا تھا وہ وقت کا تقاضہ تھا۔ اس وقت شاعری کا مقصدی ہونا بہت ضروری تھا۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد لوگ حالی کے خےالات سے اتفاق کرنے لگے۔ حالی نے شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دےا اور لکھا کہ سوسائٹی (Society) کا مذاق اچھا ہوتو اچھی شاعری ہوگی ورنہ زمانے کا مزاج دےکھ کر شاعر بھی شاعری مےں مبالغہ آرائی کرنے لگےں گے۔ بری شاعری سے زمانے کا مزاج بگڑے گا اس لئے شاعر اور سماج دونوں کو اپنے مزاج کو سدھارنا ہوگا۔

شعر کی تعرےف:حالی نے اپنے مقدمہ مےں شعر کے بارے مےں مختلف ماہرےن کی تعرےفےں پےش کی ہےں۔ اور لکھا ہےکہ شاعری اےک قسم کی نقالی ہے مصوری اور بت تراشی کی طرح شاعر بھی لفظوں کے ذرےعہ اےک پر اثر خےالی تصوےر پےش کرسکتا ہے۔ اےک محقق کی شعر کی تعرےف پےش کرتے ہوئے حالی لکھتے ہیں کہ” جو خےال اےک غےر معمولی اور نرالے طور لفظوں کے ذرےعہ اس طرح ادا کےا جائے کہ سامع کا دل اس کو سن کر خوش ےا متاثر ہو وہ شعر ہے“۔

شاعری کی تےن شرطےں:     حالی نے اپنے مقدمہ مےں شاعری کےلئے تےن شرطےں (1 تخےل(2 مطالعہ کائنات (3 تفحص الفاظ قراردی ہےں۔

(1 تخےل: تخےل کے بارے مےں حالی نے لکھا کہ انگرےزی مےں اسے (Imagination) کہتے ہےں ےہ اےسی صلاحےت ہے جو مشق سے حاصل نہےں ہوتی بلکہ خداداد ہوتی ہے لےکن اگر کسی مےں ےہ صلاحےت ہوتو اُسے مطالعہ کے ذرےعہ بڑھاےا جاسکتا ہے ۔ حالی نے انگرےزی اور عرب ماہرےن ادب کی تعرےفوں اور اشعار کی مثالوں کے ذرےعہ قوتِ متخےلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(2 مطالعہ کائنات : حالی اچھی شاعری کےلئے کائنات کے مطالعہ کو ضروری قرار دےتے ہےں۔ ہر فنکار کےلئے ےہ ضروری ہےکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اس وسےع و عرےض کائنات کا مشاہدہ کرے اور مختلف چےزوں سے متحد اور متحد چےزوں سے مختلف خصوصےتوں کو کائنات سے اخذ کرسکے۔ اور اس مطالعہ کے سرماےہ کو اپنے ےاد کے خزانے مےں رکھے اور وقتِ ضرورت انہےں اپنی شاعری مےں استعمال کرے۔

(3 تفحص الفاظ: حالی کہتے ہےںکہ شاعری کو بہتر بنانے کےلئے کلام مےں اچھے الفاظ استعمال کرنا چاہےے جس طرح اےک مصور اپنی تصوےر کو خوبصورت بنانے کےلئے بہتر رنگوں کا استعمال کرتا ہے اسی طرح شاعر کو بھی سونچ سمجھ کر الفاظ استعمال کرنا چاہےے اور پےش کئے گئے خےالات کو کانٹ چھانٹ کر درست کرناچاہےے اس طرح شاعر کا کام انگو ٹھی مےں نگےنہ جڑنے کا کام ہو جائے۔

شعر کی خوبےاں:حالی شعر کی خوبےاں بیان کرتے ہوئے اس مےں سادگی جوش اور اصلےت کے ہونے پر زور دےتے ہےں۔

(1سادگی :حالی کہتے ہےںکہ شعر کو سادہ اور آسان ہونا چاہےے تاکہ سننے والے اُسے سمجھ سکےں شاعری کا مقصد ترسےل ہوتا ہے اگر شاعر کا پےش کردہ خےال سامع ےا قاری تک نہ پہنچ سکے تو شاعری کا مقصد مکمل نہےں ہو سکتا اس لئے حالی سادگی پر زور دےتے ہےں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کو بھی عام بول چال کی زبان میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ورنہ شعر سادگی کے زیور سے محروم سمجھا جائے گا۔ حالی کہتے ہیں کہ اردو قصیدہ نگاری میں پر شکوہ الفاظ کے استعمال سے قصیدوں کی سادگی متاثر ہوئی ہے۔ وہ غزل اور مثنوی میں بھی سادگی کی حمایت کرتے ہیں۔

شبلی کی سب سے اہم تنقیدی تصنیف” شعرالعجم“ ہے جس کی تمام جلدوں میں عمل تنقید غالب ہے۔“

 اس لحاظ سے ان کی تصنیف شعرالعجم خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے جس کی کل پانچ جلدیں ہیں ان میں چوتھی اور پانچویں جلد تنقیدی اعتبار سے زیادہ اہم ہے۔ جن میں نظریاتی ، اصولی اور عملی تنقید کے دلنشین مظاہر ہیں۔ شاعر ی کے مختلف پہلوئوں پر بصیرت افروز تنقیدی بحث اور اصناف ِ سخن کا تنقیدی تجزیہ ہے۔

تصور ِ شعر:۔

  شبلی شعر کو ذوقی اور وجدانی شے قرار دیتے ہیں اسی بناءپر اُن کے خیال میں شاعری کی جامع اور مانع تعریف آسانی سے نہیں کی جا سکتی بلکہ مختلف ذریعوں سے اور مختلف انداز میں اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ شعر العجم جلد چہارم میں شبلی کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں۔

” شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے اس لئے اس کی جامع مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جا سکتی اس بناءپر مختلف طریقوں سے اس حقیقت کا سمجھانا زیادہ مفید ہوگا کہ ان کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جائے۔“

  یوں شبلی نے مختلف مثالیں دے کر شاعری کی اہمیت واضح کی ہے ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے ۔ احساس سوچنے اور غور کرنے کا نام نہیں ، وہ اس سے مختلف قوت ہے۔ جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ بقول شبلی جب انسان کو کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے۔ عبادت بریلوی کہتے ہیں،

” ان کا خیال صحیح ہے کیونکہ احساس کے بغیر شاعری کوئی معنی نہیں رکھتی یہ احساس جب شدید ہوتا ہے تو فطری اور اضطراری طور پر انسان کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں ۔ اسکا نام شعر ہے۔ اس میں شاعرکی شعور کا دخل نہیں ہوتا۔“

 شبلی کے نزدیک یہ کم و بیش ایک ایسی کیفیت ہے جو شیر کو گرجنے ، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے ، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبلی شاعری میں جذبات کی اہمیت کے قائل ہیں۔ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات سے پیدا ہوتی ہے شاعری کا کام جذبات میں تحریک پیدا کرنا اور ان کو ابھارنا ہے۔ مگر اس کا مطلب ہیجان اور ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔ شبلی کے نزدیک شاعری کے لئے جذبات ضروری ہیں  اور وہ شاعری کو جذبات کے برانگیختہ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

شاعری اور جمالیاتی پہلو:۔

  شبلی کے خیال میں تمام عالم ایک شعر ہے زندگی میں شاعری بکھری پڑی ہے۔ جہاں زندگی ہے وہاں شاعری موجود ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے ایک یورپین مصنف کے حوالے سے وہ دیکھتے ہیں کہ ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے۔ شعر ہے ۔ اس بناءپر فلک نیلگوں ، نجم درخشاں ، نسیم سحر، تبسم گل، خرام صبا، نالہ بلبل، ویرانی دشت، شادابی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے اور ساری زندگی میں یہ شعریت پائی جاتی ہے۔ اور اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ شبلی کے شعر و شاعری پر مبنی تنقیدی نظریات شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زور دیتے ہیں، اسی لئے ڈاکٹر سید عبداللہ ”اشارات تنقید“ میں لکھتے ہیں۔ کہ

” یہ تو ظاہر ہے کہ شبلی کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطہ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج ، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکائو رکھتا ہے۔“

  شبلی کا مزاج فلسفیانہ ہے اور انہوں نے مغرب سے بھی کسی قدر استفادہ کیا ہے مگر جمالیاتی حس ہی کی وجہ سے تمام زیر غور مباحث میں ان کا رجحان مشرقی نظریہ تنقید کی طرف ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔

” شاید یہی وجہ ہے کہ وہ (شبلی) جمالیاتی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں چنانچہ ان کی تنقید میں جمالیاتی تنقید کی جھلک نظرآتی ہے۔“

  شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنون ِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً موسیقی ، مصوری ، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں۔ مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعر کے الفاظ سے ایک موثر منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے یہی حسن کاری کے احساس اور تاثر کو غیر شاعر کے لئے اثر انگیزبنانا شاعر ی کے جمالیاتی پہلو کا مظہرہے جو غائب کے جلوے دکھاتا ہے۔

 دل میں احساسات اور تاثرات یا حسن کاری کی جو لہریں اُٹھتی ہیں انہیں الفاظ کے سانچے میں ڈھال دینا شاعری کا مقصد ہے۔ اس سلسلے میں شبلی نے صاف صاف لکھا ہے کہ اصلی شاعر وہی ہے جس کو سامعین سے کچھ غرض نہ ہو ۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ شاعر عوام کو سامنے رکھ کر شاعری نہیں کرتا ۔ اس کی مخصوص کیفیات اسے شعر کی تخلیق کے لئے مجبور کرتی ہیں۔

ANS 04

ڈاکٹر وزیر آغا نے جب اپنی ادبی زندگی کا آغا ز کیا اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ ایک نو وارد ادیب کی حیثیت سے وہ اس تحریک کے مثبت پہلوو¿ں سے متاثر بھی ہوئے اور وہ اثرات ان کی ابتدائی نگارشات میں نظر بھی آتے ہیں۔ مثلاً ان کی پہلی نظم ’دھرتی کی آواز‘ اور نظم ’ننھے مزدور‘ میں طبقاتی امتیاز اور کشمکش کو ظاہر کیا گیاہے، اسی طرح ان کی پہلی کتاب ’مسرت کی تلاش‘ میں بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا:’دولت کی ناروا تقسیم نے انسان کو طبقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے اوریوں جنگ، قحط، بادشاہت اور سرمایہ داری کو معرض وجود میں لاکر فرد اور سماج کو ایک ایسی غلط روش پر گامزن کردیا ہے کہ آج انسان اس کے خلاف پورے عزم اور شد ت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘ لیکن ترقی پسند تحریک زندگی کی ایک قاش کا صرف ایک ہی رخ دیکھنے پر مُصر تھی جبکہ وزیر آغا پوری زندگی کے بھید کو سمجھنے کی جستجو میں تھے۔ اس لئے ان کے لئے محض خارجی عوامل کی بنیادوں پر لکھتے چلے جانا ممکن نہ تھا اور وہ پوری زندگی کے اسرار کو سمجھنے کی دھن میں مگن ہوگئے۔ ان کی تخلیقات کی طرح ان کی تنقید بھی اسی جستجو سے عبارت ہے۔وزیر آغا شروع میں نصیر آغا کے قلمی نام سے ’ادبی دنیا‘ میں مضامین لکھتے رہے۔ ’محبت کا تدریجی ارتقا‘ ان کا پہلا مضمون تھا جو ان کے نام کے ساتھ شائع ہوا۔ 1954 میں ان کی پہلی کتاب ’مسرت کی تلاش‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب کے ساتھ وزیر آغا کے ہاں دو فکری تجسس نمایاں ہوئے۔ ایک زندگی کو اس کی ’کلیت‘ (TOTALITY) میں دیکھنے کی خواہش دوسرا مسرت کی ماہیت کی تلاش اور جستجو۔یہی دو تجسس آگے چل کر پھیلاو¿ کی صورت اختیار کر گئے۔مسرت کی ماہیت کی تلاش میں انہوں نے ’اردو ادب میںطنز و مزاح‘ لکھی۔ اس کتاب کو لکھتے وقت وزیر آغا انسان کے دو طبعی رجحانات سے آشنا ہوئے۔ ایک تشدد اور دفاع کا اور دوسرا پھیلاو¿ اور آفاقیت کا۔ آرتھر کوئسلر کے خیال میں ہنسی اور طنز پہلے رجحان کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں جب کہ ’المیہ‘ دوسرے رجحان میں سامنے آتاہے۔ یہ در اصل ’عام طنز و مزاح‘ اور ’تخلیقی فن پارے‘ کا بنیادی فرق ہے۔ وزیر آغا نے ’عام طنز و مزاح‘ سے ہٹ کر انشائیہ نگاری شروع کی اور نمائش دنداں کے مقابلے میں زیر لب تبسم اور داخلی شگفتگی و تازگی پر زور دیا تاکہ جذبے کا اخراج نہ ہو بلکہ مسرت ہماری رگ و پے میں سرایت کر جائے۔ تخلیقی سطح پر اب گویا مسرت کی ماہیت کی تلاش اور پوری زندگی کی جستجو کے سفر ایک ہوگئے تھے۔ ’نظم جدید کی کروٹیں‘ کے مضامین میں ڈاکٹر وزیر آغا نے مختلف شعرا کی اصل بنیادیں دریافت کیں۔ فیض کے بارے میں وزیر آغا کا مضمون ’انجماد کی ایک مثال‘ خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور ترقی پسندوں کی طرف سے نظریاتی بنیادوں پر (ادبی بنیادوں پر نہیں) اس کی مخالفت کی گئی۔ تاہم اس کتاب کا سب سے اہم اور سب سے زیادہ مشہور ہونے والا مضمون میرا جی کے بارے میں تھا۔ ’دھرتی پوجا کی ایک مثال۔ میراجی۔۔ ‘اس مضمون کو سنجیدہ ادبی حلقوںنے سراہا جبکہ مخالفین نے وزیر آغا کی اصطلاح ’دھرتی پوجا‘ کو بطور الزام وزیر آغا کے ماتھے پر سجادیا۔ انہیںدھرتی پوجا کی تبلیغ کا مجرم قرار دیا گیا۔

 قطع نظر اس سے کہ مخالفین کے الزام کا تجزیہ کیا جائے تو وزیر آغا ’ارض وطن‘ سے محبت کے مجرم ہی قرار پاتے ہیں، اس مضمون کی اصل اہمیت یہ تھی کہ وزیر آغا کا فکری سفر صاف آگے کو بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی تک ان کاادبی تصور یہ تھا کہ جس طرح مجسمہ ساز پتھر سے مجسمہ نہیں تراشتابلکہ پتھر سے فاضل مواد کو ہٹاکر اس میں موجود تخلیق کوآشکار کرتاہے۔ اسی طرح ادیب بھی دو چیزوں کے بُعد میں نیا ربط تلاش کرتاہے۔ یہ زندگی میں کلیت دیکھنے کی ہی ایک صورت ©تھی، لیکن میراجی کے بارہ میں اپنے مضمون میں وزیر آغا نے ثنویت کے انوکھے تصور سے آگاہی حاصل کی۔

ایک حدیث قدسی ہے! ”میں ایک مخفی خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ میں جانا جاو¿ں“ نور کے مقابلے میں اگر تاریکی نہ ہو تو نور کی پہچان ممکن نہیں۔ یزداں اور اہر من، ین اور یانگ، پرش اور پرکرتی، آدم اور حوا —— ان سب کے باہمی ربط اور اختلاف سے زندگی کی ایک نئی صورت ابھری۔ ثنویت کا یہ تصور وزیر آغا کی شہرہ آفاق تصنیف ’اردو شاعری کا مزاج‘ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آیا، گویا کائنات میں یکسریکتائی کا عالم نہیں بلکہ ہر پارٹیکل کا اینٹی پارٹیکل موجود ہے اور دونوں کی بقا کا انحصار ایک دوسرے کے وجود پر ہے۔

  ’اردو شاعری کا مزاج‘ کا بنیادی نظریہ ہیگل کی جدلیات،THESIS‘اور ANTITHESIS کے تصادم اور ملاپ سے SYNTHESIS کے وجود میں آنے کے نظرےے پر قائم تھا۔ مارکس نے معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے اسے اپنایا مگر وزیر آغا نے اسے ادبی اور ثقافتی تناظر میں منطبق کیا۔ ہیگل نے ثنویت کے دونوں پہلوو¿ں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔دونوں کو ایک دوسرے کا حریف قرار دینے کی بجائے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کا درجہ دیا ۔ یہ بہت بڑی حقیقت تھی مگر اس سے مروجہ اخلاقیات کو شدید دھچکا پہنچا اور مذہبی دنیا میں ایک کہرام برپا ہوا۔ ثنویت کی دونوں متضاد حقیقتیں ٹکراتی ہیںاور ان میں ملاپ بھی ہوتاہے اور پھر دونوں کے مضبوط اجزا مل کر ایک تیسری صورت(SYNTHESIS) اختیار کر لیتے ہیں۔ گویا ہر SYNTHESIS ایک نئی ثنویت کا آغاز ہے۔ وزیر آغا نے اسی بنیاد پر ’اردو شاعری کامزاج‘ میں بر صغیر کی ثقافتی اورادبی تاریخ کا جائزہ لیا۔ آریائی اور دراوڑی تہذیبوں کے تصادم اور ملاپ سے ’ہندی آریائی‘ تہذیب نے جنم لیا اور گیت کی ادبی صنف کو فروغ ملا۔ مسلمانوں کی آمد سے مسلم ہندی تہذیب مرتب ہونے لگی اورغزل کی ادبی صنف کو فروغ ملا اور پھر جب انگریزوں نے یہاں کانظام حکومت سنبھالا تو نظم کی صنف ابھر کر سامنے آئی (مغربی تہذیب اور ہماری تہذیب کا ٹکراو¿ تو شاید ابھی بھی جاری ہے)۔

وزیر آغا نے صرف ہیگل کے نظام فکر کو ادبی اور ثقافتی سطح پر منطبق کرکے نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس سے آگے کا سفر بھی کیا۔ ’اردو شاعری کامزاج‘ میں ہیگل کے DIALECTICS سے ہٹ کر دو نئے اور اہم نکات سامنے آئے۔ ایک یہ کہ عناصر کے ٹکراو¿ اور ملاپ کے بعد SYNTHESIS کے وجود میں آنے سے پہلے ’کچھ عرصہ کے لئے پیچھے ہٹنے کا عمل‘ ہوتاہے۔ دوسرا یہ کہ پیچھے ہٹنے کی حالت میں ایک ’جست‘ وجود میں آتی ہے۔ جیسے جمپ لگانے والا پہلے تھوڑا سا پیچھے کو ہٹتاہے اور پھر آگے کی طرف جمپ لگاتا ہے۔ ’پیچھے ہٹنے اور پھر جست بھرنے‘ کے اہم نکات نے آگے چل کر وزیر آغا کے تنقیدی نظام فکر میں اہم کردار ادا کیا۔

’اردو شاعری کامزاج‘ کے بعد وزیر آغا کے متفرق مضامین جرائد میں چھپتے رہے۔ یہ مضامین مختلف مجموعوں میں یکجا کئے گئے۔ ان مجموعوں میں ’تنقید اور احتساب‘ ’نئے مقالات‘ ،’تنقید اور مجلسی تنقید‘ ،’نئے تناظر‘، ’دائرے اور لکیریں‘ اور ’انشائیہ کے خدو خال‘ شامل ہیں۔ تنقیدی مضامین کے ان مجموعوں میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے اب تک کے ادبی موقف کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور عملی تنقید کے عمدہ نمونے پیش کئے۔

’انشائیہ کے خدو خال‘ کے مضامین طویل عرصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں انشائیہ کی صنف کے خدو خال کو نمایاں کرنے اور ان کی تفہیم کے لئے قابل قدر کوشش کی گئی ہے۔ اس مجموعے کا ایک مضمون ’اردو انشائیہ کی کہانی‘ ایک اعلیٰ درجے کامضمون ہے۔ اس میں انشائیہ کے خلاف محاذ کھولنے کے اصل پس منظر، مخالفین کی اصل حقیقت اور انشائیہ کی قابل قدر پیش رفت کو مربوط اور مدلل طریقے سے پیش کیا گیاہے۔ اس کتاب کو اگر انشائیہ کی بوطیقا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

متفرق مضامین کے مجموعوں سے ہٹ کر ’اردو شاعری کا مزاج‘ کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’تخلیقی عمل‘ بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں انہوں نے یہ موقف پیش کیا کہ مخالف عناصر کے متصادم ہونے سے پہلے انجماد یا خلا پیدا ہوتاہے جس کی وجہ سے مخالف عنصر اس کی طرف لپکتا ہے۔ اس کی مثال ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول ایسے ہی ہے جیسے ہوا کا دباو¿ کم ہو جائے تو باہر سے ہوائیں امڈ آتی ہیں۔ اس کے بعد دونوں عناصر میں ٹکراو¿ اور ملاپ کی صورت بنتی ہے۔ وزیر آغا اس جست کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے کائنات ’عدم‘ کے اندر سے برآمد ہوئی تھی۔ گویا وزیر آغا کے نزدیک ایسے تخلیقی عمل سے گزر کرآ نے والی تخلیق نہ تو ایسی موجود حقیقت ہے جسے فنکار نے محض دریافت کیا ہے اور نہ ہی وہ مختلف چیزوں کا آمیزہ ہے بلکہ ایک بالکل نئی چیز ہے۔

اپنے موقف کی وضاحت میں وزیر آغا نے مذہبی روایات، اساطیر اورکوزہ گروں کے تخلیقی عمل تک کا گہری نظر سے جائزہ لیا ہے اور بڑی محنت سے انہیں اپنے موقف پر منطبق کردکھایاہے۔ ’تخلیقی عمل‘ کے اپنے موقف کو ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب ’تصورات عشق و خرد‘ میں زیادہ وسعت کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ شاید اسی لئے اقبالیات پر لکھی گئی بے شمار ایک جیسی کتابوں کے ہجوم میں یہ کتاب الگ سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کتاب میں وزیر آغا نے مخالف قوتوں کے ٹکراو¿ کے بعد پیدا ہونے والی ’بے ہیئتی‘ کو مزید واضح کیا ہے۔ تخلیقی عمل میں ’بے ہیئتی‘ کی حالت کی مثال اس شخص سے دی گئی تھی جسے کسی اندھے کنویں میں بند کردیا جائے اور وہ روشنی کی جھلک پانے کے لئے بے چین ہو۔ جیسے ہی اسے کنویں سے رہائی ملے اور دور سے روشنی نظر آئے وہ دیوانہ وار اس روشنی کی طرف جائے گا —— ’تصورات عشق و خرداقبال کی نظر میں‘ اس تمثیل کو زیادہ بامعنی اور واضح کردیتی ہے۔ حضرت یوسف ؑ کو حضرت یعقوبؑ کی بینائی کادرجہ حاصل ہے۔ حضرت یوسفؑ کا اندھے کنویں کی قید سے باہر آنا دراصل حضرت یعقوبؑ کی بینائی کا واپس آناہے۔ وزیر آغا کے بقول تخلیقی عمل کے دوران ہر تخلیقی کار کو ’بینائی‘ حاصل ہوتی ہے ۔ یہ ’بینائی‘ وہ جست ہے جو بے ہیئتی سے نکلنے کا ذریعہ بھی ہے اور اس کا ثمرہ بھی!

’تصورات عشق و خرد‘ کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی قابل ذکر تنقیدی کتاب ’تنقید اورجدید اردوتنقید‘ ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں مغربی تنقید کا جائزہ لیا گیاہے اور ساختیات و مابعد ساختیات جیسے تازہ ترین موضوعات پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں اردو تنقید کا جائزہ لیا گیاہے۔ محمد حسن، خلیل الرحمن اعظمی اور محمد علی صدیقی تک ناقدینِ اردو کا ذکر کیا گیاہے۔

اردو تنقید ایک عرصہ تک مارکسی تنقید، نفسیاتی تنقید، عمرانی تنقید،ادبی تنقید وجودی تنقید کے خانوں میں تقسیم رہی ہے۔ اب اس میں ساختیاتی اور پس ساختیات تنقید کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ اس طرح کسی ایک نظرےے کی عینک پہن کر فن پارے کو دیکھا جاتاہے جو فن پارہ اپنے پسندیدہ نظرےے سے ہم آہنگ ہو اسے عظیم قرار دے دیا جاتا ہے اور جو فن پارہ اپنے نظرےے کے مطابق نہ ہو اسے مسترد کردیا جاتا ہے۔تنقید کے مختلف دبستان در اصل دریا سے نکالی گئی نہریں ہیں۔ ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن یہ بہت محدود ہو جاتے ہیں۔ وزیر آغا نے یک رخی تنقید کے مقابلے میں امتزاجی تنقید کا رستہ اختیار کیا ہے۔ یوں وہ اپنی الگ نہر نکالنے کی بجائے تمام دریاو¿ں کو سمندر میں گرنے دیتے ہیں ’تنقید اور جدید اردو تنقید‘ میںامتزاجی تنقید کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاہے۔

آخر میں مجھے ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک ادھوری کتاب کا ذکر کرنا ہے۔ ” آشوب آگہی“ سلسلے کے چند مضامین ”اوراق“ میں شائع ہوئے تھے اور انہیں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ تاحال وزیر آغا نے اپنی یہ ادھوری کتاب مکمل نہیں کی مگر اسی تسلسل میں انہوں نے ”اوراق“ کا ایک اداریہ لکھا اور ایک مضمون ایک ادبی تنظیم کی تقریب میں پڑھا (یہ مضمون بھی بعد میں اوراق کے اداریہ میں شامل کر لیا گیا) میں اسی مضمون کا ایک حصہ ” آشوب آگہی“ کے تسلسل میں پیش کرنا چاہتا ہوں:

”مسکراہٹ ہمیشہ منفی نوعیت کی کھسیانی مسکراہٹ نہیں ہوتی اس کا ایک روپ وہ معنی خیز مسکراہٹ بھی ہے جو مونا لیزا کے لبوں پر نمودار ہو تو اپنی تخلیقی صلاحیت کے احساس سے منور ہو جائے اور گوتم کے ہونٹوں پر آئے تو پہچان اور عرفان سے عبارت دکھائی دے۔ہرمن ہیسے نے گوبند کے لمحہ¿ انکشاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایک روز اپنے دوست سدھیارتھ کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے تھا کہ یکایک اس نے دوست کے چہرے میں سینکڑوں چہروں کو گذرتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ گذرنے کے باوجود گذر نہیں رہے تھے۔ اس نے مچھلی کا کھلا ہوا منہ دیکھا اور پھر مچھلی کو مرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ایک نوزائیدہ بچے کا چہرہ دیکھا جس پر لاتعداد جھریاں تھیں پھر اس نے ایک قاتل کو دیکھا جو کسی کے پیٹ میں چھرا گھونپ رہا تھا۔

اسی لمحے اس نے قاتل کو پابجولا ںحالت میں اس طور دیکھا کہ جلّاد اس کا سر قلم کر رہا تھا۔ اس نے ایسی لاتعداد صورتوں کا نظارہ کیا جو ایک دوسری کے ساتھ محبت اور نفرت کے لاکھوں رشتوں میں منسلک تھیں۔ وہ بیک وقت ایک دوسری کو ختم بھی کر رہی تھیں اور اپنی ہی راکھ سے دوبارہ جنم بھی لے رہی تھیں یہ تمام صورتیں رُکتی تھیں، چلتی تھیں کھلتی اور مرجھاتی تھیں۔ ایک دوسری میں ضم ہوتی تھیں اور ان سب پر شیشے کا ایک لطیف اور مہین سا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ یہ غلاف در اصل سدھیار تھ کی ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔مسکراہٹ جو جاننے اور پہچاننے کے عمل سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہ مسکراہٹ ہی زندگی کا حاصل ہے لیکن یہ مسکراہٹ صرف اس وقت جنم لیتی ہے جب انسان ”دیکھنے “ پر قادر ہو جاتا ہے“۔

  ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری کو اگر ان کے فکری ارتقاءکے تسلسل میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جس نوجوان نے اس صدی کی پانچویں دہائی میں مسرت کی تلاش شروع کی تھی چار دہائیوں کے اپنے فکری سفر میں اس نے اسے تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ مسرت جو جاننے اور پہچاننے کے عمل سے پیدا ہو تی ہے ڈاکٹر وزیر آغا کا نصیب ہے کیونکہ بلاشبہ وہ ”دیکھنے “ پر قادر ہیں۔

کل اور جزو کا فرق۔۔ کل میں جزو اور جزو میں کل کا منظر۔ کل کے روبرو جز کا اپنا تشخص برقرار رکھنا۔ یہ سارے مراحل زندگی کو سمجھنے کی وزیر آغا کی کوشش تھے اس عہد میں جب کہ ساختیاتی فکر نے ساختیہ کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے اور دوسری طرف طبعیات میں QUARKS کی دریافت کے ساتھ ایٹم کے پارٹیکلز کی ماہیئت کے بارے میں نئے سرے سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وزیر آغا کو گویا اپنے تصورات کو اپنے ہی سوالات کے ساتھ زیادہ بہتر طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقعہ مل گیا ہے۔

ANS 05

کلیم الدین احمد کی ناقدانہ حیثیت مابہ النزاع رہی ہے۔ ایک عالم اُنھیں عظیم ناقد تسلیم کرتا ہے اور دوسرا طبقہ اُن کی ناقابلِ فراموش خدمات کا مُنکر ہے۔ بعض لوگوں کا رویّہ بین بین ہے۔ ایسے عالم میں ایک عام قاری کی مشکلات میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے اِنکار مشکل ہے کہ کلیم الدین احمد کی ناقدانہ تحریریں شاعروں، ادیبوں، ناقدین اور عام قارئین کی توجّہ کھینچنے میں کامیاب رہی ہیں۔ کلیم الدین احمد کی مختصر سے مختصر تحریرنے اردو ادب میں کئی بار طوفان کھڑا کیا۔ حالیؔ کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا ناقداتنا Well-discussed   ہو۔ کلیم الدین احمد کے خیالات سے ہمارا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اُن کے خلوص، ادب کو ایک مکمّل اکائی سمجھنے کی خو‘ اور شرح وبسط کے ساتھ شعر وادب کے مشتملات کا انصاف پسندانہ جائزہ ایسی صفات ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُردو تنقید کی بزم میں کلیم الدین احمد کی شناخت انھی اوصاف کی وجہ سے ہے۔

        کلیم الدین احمد کی کتاب ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کا شمار اردو کی اُن اہم ترین کتابوں میں ہوتا ہے جس کے مشتملات پر ہزار ہزار بحثیں ہوئی ہیں۔ اردو تنقید پر عمومی تبصرہ، تذکروں کے بارے میں کلیم الدین احمد کا تاثر یا اُردو کے مشہور ناقدین کے ادبی مقام کے حوالے سے گفتگو ہو، اُردو کے علمی حلقے میں ان تمام امور پر بھرپور بحث ہوئی اور کلیم الدین احمد کے ناقدانہ فیصلے سے اتّفاق اور اختلاف کرنے والوں کی صفیں بھی تیار ہوتی رہیں۔ کسی زبان میں شاید ایسی کم کتابیں لکھی جاتی ہیں جن کے ہر صفحے پر ایک تنازعہ پیدا ہو اور اُسے سلجھا نے کے لیے ایک حلقہ سرگرم رہے۔ ان معنوں میں کلیم الدین احمد خوش نصیب ناقدین میں شمار  کیے جائیں گے۔ کیوں کہ اُن کی کتاب پر اور اُن کے ادبی فیصلوں پر کافی غور وفکر کیا گیا۔ نتائج کے معاملے میں آج بھی لوگوں کے درمیان خاصا اختلاف ہے لیکن حقیقت سے اِنکار کرنے کی گنجایش نہیں کہ کلیم الدین احمد اردو کے عظیم ناقدین میں سے ایک ہیں اور اُن کی کتاب ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ اردو تنقید کی چنندہ کتابوں میں سے ایک ہے۔

        کلیم الدین احمد نے جب یہ کتاب لکھی، اس سے قبل وہ ’اردوشاعری پر ایک نظر‘ جیسی معرکہ آرا کتاب لکھ چکے تھے جس کے مباحث سے اچھے خاصے تنازعات قائم ہو چکے تھے۔ اپنے والد کی نظموں کے مجموعے ’’گلِ نغمہ‘‘ کے پیشِ لفظ میں اردو غزل کے تعلق سے وہ مشہور زمانہ فقرہ بھی اس وقت تک لکھ چکے تھے جس میں غزل کو نیم وحشی صنفِ سخن کہا گیا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ اُن کی تنقید میں شِدّت اور زور ہے، وہ رعایت سے کام نہیں لیتے اور کسی بھی بڑے سے بڑے مصنّف کے بارے میں کسی ایسے جملے کو لکھنے سے نہیں گھبراتے، جس سے مختلف طرح کی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس پس منظر میں ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کی اشاعت پہلی بار 1942ء میں عمل میں آئی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس کتاب کو 1957ء میں ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا۔ پھر اپنی وفات سے فوراً پہلے اُنھوں نے اِس کتاب کا آخری ایڈیشن بھی تیار کرلیا جس میں ترمیم و اضافے موجود ہیں۔ آج ہمارے پاس یہی 1983ء کی کتاب موجود ہے جو 480؍ صفحات پر مشتمل ہے اور آج اسے ہی گفتگو کا موضوع بنانا ہے۔

        ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کتاب کا خاکہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کا لکھنے والے کی نگاہ میں اردو کی مکمل ادبی تاریخ ہے۔ اُردو تنقید کی تاریخ لکھتے ہوئے کلیم الدین احمد نے قدیم تذکروں سے لے کر دورِ حاضر کے ممتاز نقّادشمس الرحمان فاروقی تک کا دور شامل کیا ہے۔ اس دوران جو ادبی تحریکیں پیدا ہوئیں اور اُن کے زیرِاثر جو ادب لکھا گیا، اِن تمام امور کو بھی اُنھوں نے گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ ابتدا میں ایک مختصر تر پیشِ لفظ ہے جس میں تنقید کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بہ ظاہر یہ مکمل کتاب کا ڈھانچہ ہے۔ اس ڈھانچے میں جو داخلی خامیاں ہوں گی اُنھیں کلیم الدین احمد نے جدید اشاعتوں میں ترمیم و اضافے کے مرحلے میں دور کرلیا۔ اس طرح یہ کتاب ایک اَیسی شاہ راہ ہے جس پر کلیم الدین احمد کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جائیے، کہیں کوئی رکاوٹ یا پریشانی نہیں پیدا ہوگی۔ اگر اُن کے خیالات سے آپ کو اتّفاق ہے تو الگ لطف آئے گا لیکن آپ اُن کی باتوں سے متّفق نہیں ہیں، تب بھی اُن کے اعتراض اور شدّت بیان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک قاری کے طور پر یہ لطف ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ یا کلیم الدین احمد کی دوسری کتابوں کے پڑھنے والے کو ہی میسَّر آسکتا ہے۔

        کلیم الدین احمد نے تنقید کی گفتگو کرتے ہوئے سب سے پہلے تذکروں کی طرف توجّہ کی ہے۔ وہ میرؔ، میرحسنؔ، مصحفیؔ، گردیزیؔ، شیفتہؔ، لالہ سری رام جیسے تذکرہ نگاروں کے تذکروں پر اپنی گفتگو مرکوز رکھتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کلیم الدین احمد تذکروں کی دنیا کے گہرے واقف کار ہیں۔ وہ اِن کی خوبیاں اور خامیاں دونوں جانتے ہیں۔ تذکروں کی بھیڑ میں وہ اچھے اور خراب تذکروں کی درجہ بندی بھی کرتے ہیں۔ تذکروں کو وہ تین حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ شاعر کی زندگی، شاعر کی شخصیت اور شاعر کے کلام پر تنقید۔ اسی میں وہ چوتھی شق کا اضا فہ بھی کرتے ہیں جسے وہ نمونۂ کلام مانتے ہیں۔ وہ مثالیں دے کر شاعر کی زندگی، شاعر کی شخصیت اور شاعرانہ مرتبے کے تعین پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تذکروں میں جہاں کہیں بھی تھوڑی بہت روشنی ملتی ہے، کلیم الدین احمد اُس کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ تذکرہ نگاروں کی کاہلی، شعرا کے حالات جمع کرنے میں محنت کرنے کے بجاے قناعت کرلینے کی عادت، انشاپردازی کا موقع بہ موقع استعمال، ادبی سیاست کی آزمایش اور تنقید کو صرف زبان اور محاورہ، عروض اور بیان تصور کرلینے کو کلیم الدین احمد فضول بات مان لیتے ہیں۔ تذکروں میں جو اشعار کا خزینہ موجود ہے، اُسے انھوں نے اہم مانا ہے لیکن یہ واضح کیا ہے کہ یہ انتخابِ کلام ہر اعتبار سے نمایندہ نہیں لیکن اس کی اہمیت تاریخی ہے اور کئی بار گمنام شعرا کے بہترین اشعار تذکروں کے صفحات پر مل جاتے ہیں۔

        ’’آبِ حیات‘‘ کو کلیم الدین احمد نے ’’نئے تذکرے‘‘ کے خانے میں رکھا ہے۔ ’’آبِ حیات‘‘ کے علاوہ اُنھوں نے حکیم عبدالحیٔ کی ’’گلِ رعنا‘‘ اور عبدالسلام ندوی کی ’’شعرالہند‘‘کو بھی گفتگو کے مرکز میں جگہ دی ہے۔ محمد حسین آزاد کے تعلق سے اُن کی تنقید تفصیلی ہے اور بجا طور پر اُنھوں نے اس کتاب کو جانچنے کے لیے خاصا وقت صرف کیا ہے۔ ’’آبِ حیات‘‘ کی انشا پردازی اور غیر ضروری عبارت آرائی کی مذمّت کرتے ہوئے محمد حسین آزاد کی خامیوں پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ آزاد کی ذہانت اور خوبیوں کے وہ قائل ہیں لیکن تنقید کی بہترین کتاب کے طور پر ’’آبِ حیات‘‘ کو وہ مقام عطا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ رنگینیِ زبان کے باعث  ’’آبِ حیات‘‘ نے کس طرح کے ادبی مسائل پیدا کیے ہیں اور ایک ناقد کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے میں محمد حسین آزاد کس طرح بھٹک گئے ہیں، اس پر کلیم الدین احمد نے واضح اور دوٹوک گفتگو کی ہے۔ اس طرح قدیم تذکرے ہوں یا جدید، کلیم الدین احمد ہمیں دونوں کی حدود سے واقف کراتے ہیں اور اردو تنقید کے طالب علم کو ایک نئے آسمان کی تلاش کے لیے تذکروں سے الگ کسی دوسری دنیا میں جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

        ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کا سب سے اہم حصّہ اردو کے اہم، قابلِ قدر اور متنازعہ ناقدین کی خدمات کا جائزہ ہے۔ اس حصّے میں پرانے اور نئے دونوں ناقدین شامل ہیں۔ حالیؔ، شبلیؔ، عبدالحقؔ، آلِ احمد سرور، اختر حسین راے پوری، مجنوں گورکھ پوری، رشید احمد صدیقی، احتشام حسین، محمد حسن، شمس الرحمان فارقی، عزیز احمد، سردار جعفری، فراق گورکھپوری اور محمد حسن عسکری جیسے ناقدین کی خدمات پر کہیں مختصر اور بعض اوقات تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ اس جائزے میں بالعموم اس مصنف کے احوال اور خدمات کا تجزیہ کرتے ہوئے کلیم الدین احمد نے سخت گیر اصول اپنائے ہیں۔ قدرشناسی کا کام تویہاں ہو جاتا ہے لیکن سخت گیری کی وجہ سے مسلّمات پر ضرب پڑتی ہے اور پڑھنے والے کو ان حقائق پر یقین کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب ’’میری تنقید ایک بازدید‘ میں خود بھی لکھا ہے : ’’اردو  تنقید کے جس حصّے کا شدید ردِّعمل ہوا، وہ حالی سے متعلق ہے‘‘۔ اس مرحلے میں کلیم الدین احمد کا مشہور جملہ ہر جگہ زیرِ بحث رہتا ہے، ملاحظہ کریں : ’خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنا، دماغ و شخصیت اوسط، یہ تھی حالیؔ کی کُل کائنات‘۔ دشواری یہ ہوئی کہ کلیم الدین احمد کے سخت گیر اور تنقیدی جملے تو لوگوں کے ذہن میں گونج پیدا کرتے رہے لیکن کسی نے یہ غور ہی نہیں کیا کہ کلیم الدین احمد نے ۲۰؍ صفحات میں حالیؔ کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالنے اور مقدمۂ شعروشاعری کے مختلف حصّوں سے درجنوں مثالیں دینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ نتائج کی تندی اور سخت گیری کو عام طور پر محسوس کیا گیا لیکن اُنھوں نے جس طرح حالیؔ کی کتاب کا مرحلہ وار جائزہ لیا، اُس پر لوگوں کی نظر نہیں گئی۔ کلیم الدین احمد کے انکاریہ جملوں سے ایک ایسی خفگی پیدا ہوئی جس نے حالیؔ کے سلسلے سے اُن کے تعارفی جملوں پر بھی نظر نہ ٹھہرنے دی۔ اور یہ مان لیا گیا کہ کلیم الدین احمد نے حالیؔ کا شدت کے ساتھ اِنکار کیا ہے اور وہ حالیؔ کی خدمات کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ یہ سچائی نہیں ہے۔

        حالیؔ کی کتاب ’مقدمۂ شعر وشاعری‘ کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے کلیم الدین احمد نے جو نتیجہ اخذ کیا، اُسے ابتداً یوں لکھا ہے  :  ’’حالیؔ نے سب سے پہلے جزئیات سے قطع نظر کرکے بنیادی اُصول پر غور و فکر کیا۔ شعر و شاعری کی ماہیت پر کچھ روشنی ڈالی اور مغربی خیالات سے استفادہ کیا۔ اپنے زمانہ، اپنے ماحول، اپنے حدود میں حالیؔ نے جو کچھ کیا، وہ بہت تعریف کی بات ہے۔ وہ اردو تنقید کے بانی بھی ہیں اور اُردو کے بہترین نقّاد بھی‘‘۔ اسی اہمیت اور اعتراف کے بعد کلیم الدین احمد نے حالیؔ کی کتاب کے حصّۂ اوّل میں جو بنیادی باتیں موجود ہیں، اُن کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ کلیم الدین احمد کا کہنا ہے کہ شعر وشاعری کی اہمیت کا صحیح اندازہ حالیؔ کو نہیں ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ حالیؔ افلاطون کے ہم خیال ہیں اور شاعری کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ شعر کی تاثیر پر بحث کرتے ہوئے حالیؔ یہ سمجھتے ہیں کہ شعر کا مقصد جذبات کو بھڑکانا ہے۔ کلیم الدین احمد وضاحت کرتے ہیں کہ شاعری کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے۔ جذبات کی تہذیب و ترتیب کے علاوہ روحانی تسکین کے لیے بھی شاعری کار گرہو سکتی ہے۔ حالیؔ کو اس کی خبر نہیں۔ کلیم الدین احمد کی شکایت بجا ہے کہ حالیؔشاعری کی اہمیت کے جدید تر نظریوں سے ناواقف ہیں۔

        اخلاق اور شاعری جیسے اہم موضوع پر حالیؔ کی باتوں کو پیش کرنے کے بعد کلیم الدین احمد حالیؔ کی بحث کو ایک سادہ سی گفتگو مانتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِن باتوں میں کوئی نیاپن یا گہرائی نہیں ہے۔ حالیؔ کے نظریۂ اخلاق کو کلیم الدین احمد بے حد محدود مانتے ہیں اور شاعری کے تعلق سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے خود حالیؔ کے ایک قطعے کو مثال بنا کر اخلاق اور شاعری میں اعتدال اور توازن کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ شعر کی ماہیت کے تعلق سے حالیؔ کی جو بحث ہے، اُس میں میکالے کاقول حالیؔ نے نقل کیا ہے۔ کلیم الدین احمد پہلا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ میکالے کی نقّاد کے بہ طور کوئی حیثیت نہیں اور نقّالی کو شاعری سمجھنا بھول ہے۔ کلیم الدین احمد نے ٹھیک یاد دلایا ہے کہ میکالے نے یہ بات ارسطو سے اخذکر کے اپنے ذاتی تصوّر کے طور پر پیش کردیا ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس قول کی تردید کی ہے اور حالیؔ کے ساتھ ساتھ میکالے کو بھی شاعری کی اہمیت سے پورے طور پر واقف نہیں ہونے کی بات واضح کردی ہے۔

        حالیؔ نے شاعری کے لیے جن تین شرطوں کی بات رکھی ہے، اُن میں حالیؔ کے مشاہدات کا کلیم صاحب نے جائزہ لیا ہے۔ تخیُّل، کائنات کا مطالعہ اور تفحُّصِ الفاظ کے سلسلے سے حالیؔ کا تجزیہ کلیم الدین احمد پیش کرتے ہیں اور حالیؔ کے خیالات کی حدود کا ہمیں احساس کرا دیتے ہیں۔ حالیؔ نے اِن باتوں کے لیے مغربی مصنّفین سے اخذ واستفادہ کیا ہے لیکن کلیم الدین احمد کا کہنا ہے  :  ’’حالیؔ خیالات تو اخذ کرلیتے ہیں لیکن اُن پر کافی غور وفکر نہیں کرتے، اُن کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ بعض باتوں میں تضاد ہے‘‘۔ حالیؔ نے ’الفاظ اور شاعری‘ میں اُن کے استعمال پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ لیکن کلیم الدین احمد کا یہ اعتراض ہے کہ حالیؔ اِن کی ناگزیریت کو نہیں سمجھتے۔ اسی لیے وہ شاعر ہونے کے باوجود اِن مباحث میں ایک تماشائی بنے رہتے ہیں۔ حالیؔ کی مثال پر کلیم الدین احمد نے پھبتی کسی ہے  :  ’’شاعری کو مستری سمجھنا بھی اسی بے خبری کی خبر دیتا ہے، الفاظ اور معنی کی بحث میں بھی حالیؔ کے خیالات کو وہ ناکافی اور بعض اوقات لاعلمی پر محمول قرار دیتے ہیں۔ تفصیلی گفتگو کے بعد وہ واضح کرتے ہیں کہ شاعری کی جن شرطوں کے بارے میں حالیؔ نے بحث کی، اُن کی داخلی پیچیدگیوں سے وہ واقف نہیں ہیں اور اِن امور کی سطحی تاویل پیش کر کے وہ اپنا ناقدانہ فریضہ ادا کردیتے ہیں۔

        کلیم الدین احمد نے حالیؔ کے اس مشہور جملے ’’شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ ہو، جو ش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔ ‘‘ کا بھی وضاحت کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ یہ قول مِلٹن کا ہے اور ترجمے میں حالیؔ سے جو غلطی ہوئی ہے، اُس کی بھی اُنھوں نے نشان دہی کی ہے۔ پھر حالیؔ کی ایک ایک تعریف کا علاحدہ علاحدہ جائزہ لیا ہے۔ حالیؔ نے سادگی کی جو تعریف کی ہے اُس پر کلیم الدین احمد کی تنقید یہ ہے  :  ’’سادگی یہ ٹھہری تو مِلٹن کی نظمیں شعر کے زمرے سے خارج ہو جائیں گی اور شیکسپئر کی شاعری کا بیش تر حصّہ بھی۔ ’غالب اور اقبال کے بیش تر اشعار کا شمار بھی اشعار میں نہ ہوگا۔ ‘‘ حالیؔ نے نیچرل شاعری کی جو بحث کی ہے، اُس کے بھی مضمرات کا کلیم الدین احمد نے جائزہ لیا ہے۔ حالیؔ کے فرمودات کی کمیوں کا کلیم الدین احمد نے وضاحت کے ساتھ تجزیہ کیا ہے اور حالیؔ کی حدود کا احساس دِلایا ہے۔ مغرب سے استفادہ کی کو ششوں کو سرا ہنے کے ساتھ ساتھ کلیم الدین احمد حالیؔ کی اپنی صلاحیت اور مغرب سے اثر لینے کی حدودواضح کرنے سے غافل نہیں ہوتے۔

        حالیؔ کی تنقیدی اہمیت کا جائزہ لینے کے بعد کلیم الدین احمد نے اُن کی نثر کی تعریف کی ہے۔ سرسید کے اثر سے زبان کی سادگی کا جو ایک سلسلہ شروع ہوا تھا، حالیؔ اُسی کی ایک کڑی ہیں۔ کلیم الدین احمد نے بجاطور پر حالیؔ کو داد دی۔ :  ’حالیؔ نے صاف اور سادہ طرز ایجاد کی لیکن اُس طرز میں بے رنگی نہیں، پھسپھساپن نہیں۔ اس میں ایک ثقافت ہے، ایک جاذبیت ہے، ایک رنگینی بھی ہے اور پھر یہ تنقیدی مسئلوں پر بحث کرنے کے لیے موزوں بھی ہے‘۔ اگر سنجیدگی سے کلیم الدین احمد کی گفتگو پر غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حالیؔ کے ادبی نتائج پرانھوں نے اصولی اور عملی بحث کرنے کے بعد اپنی رائے دی۔ مقدمۂ شعر وشاعری میں حالیؔ نے اکثر بنیادی خیالات مغرب کے چراغوں سے جلائے تھے۔ اکثر مقامات پر حالیؔ مغرب کے اُن دانش وروں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ حالیؔ کے مقابلے کلیم الدین احمد کے پاس نہ صرف اُن مغربی اطلاعات کے بارے میں زیادہ گہرا علم ہے بلکہ اُن امور پر مغرب میں بھی جو گفتگو ہوئی، کلیم الدین احمد اِسے ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے حالیؔ کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود اُن کے ادبی اصولوں پر وہ آمَنّاوصدّقنا نہیں کہہ سکتے۔ ’’مقدمۂ شعر وشاعری‘‘ پر کلیم الدین احمد کے اعتراضات ۹۹؍ فیصدی اُنھیں سوالوں پر ہیں جو مغرب سے متعلق ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ حالیؔ کا کمزور علاقہ ہے اور کلیم الدین احمد کی سب سے بڑی مضبوطی، اِسی لیے کلیم الدین احمد نے حالیؔ کی عزّت اور احترام کے اظہار کے باوجود اپنا مشہور معتر ضانہ جملہ پورے طور پر ثابت کردیا ہے۔

        ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کو عام طور پر ترقی پسند ادب کے سخت گیر مُحاسبے کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ترقی پسندی کے دورِ عروج میں ہی کلیم الدین احمد نے اس تحریک سے متعلق اہم ناقدین کے ادبی نظریات اور ناقدانہ حیثیت پر شدّت کے ساتھ اپنا تنقیدی وار کیا تھا کلیم الدین احمد نے ترقی پسند تحریک کے اغراض ومقاصد اور ادبی نقطۂ نظر کا تقریباً 40؍ صفحات میں جائزہ لیا ہے۔ تحریک کے زمانے میں جن ناقدین کو عروج حاصل ہوا، اُن میں اخترحسین راے پوری، مجنوں گورکھ پوری احتشام حسین اور محمد حسن کی ادبی خدمات کا وضاحت کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اُسی عہد کے ایک اہم ناقد جنھیں لبرل (Liberal) ترقی پسند کہا جا سکتا ہے، آلِ احمد سرور کی ناقدانہ حیثیت متعیّن کرنے میں بھی کلیم الدین احمد نے اپنا اچھا خاصا زورِ قلم صرف کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک پر دو ناقدین عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی کتابوں کا محاسبہ بھی اس کتاب کا اہم حصّہ ہے۔ ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے اس حصّے میں جہاں مصنف نے ترقی پسند نظریات اور ناقدین کو زیرِنگاہ رکھا ہے، اُس کی ادبی تاریخ نویسی کے نقطۂ نظر سے خاص اہمیت ہے۔ اس لیے اس کتاب کے ناقدانہ جائزے کا کام اُس وقت تک پورا نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ترقی پسندی کے تعلق سے لکھے گئے جزو کو بحث میں شامل نہیں کیا جاتا۔ کلیم الدین احمد نے ترقی پسند ادبی تحریک کے نظریاتی امور سے سب سے پہلے بحث کی ہے۔ ترقی پسند نظریات اور ادب میں اُن کے نفاذ کو کلیم الدین احمد صحیح نہیں مانتے۔ ادب اور پروپیگنڈا، ادب اور غیر ادب جیسے سوالوں کو اٹھاتے ہوئے کلیم الدین احمد نے ترقی پسند نعروں کی حقیقت کا جائزہ لیا ہے۔ وہ ترقی پسند ادب کی دنیا کو محدود مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ترقی پسند چند الفاظ، خیالات اور بندھے ٹکے فقروں کے دام میں گرفتار ہیں۔ زندگی کی حقیقتیں، تاریخی حقیقت، نامیاتی اور جدلیاتی حقیقت، حسن اور افادہ، ماحول، سماج، ادب اور زندگی کا تعلق جیسے مجموعۂ الفاظ تنقید کا فریضہ ادا نہیں کرسکتے۔ جو اہرلال نہرو، احمد علی، مولوی عبدالحق، پروفیسرعبدالعلیم کے اِقتباسات کو سامنے رکھتے ہوئے کلیم الدین احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ترقی پسند ناقدین نے اپنے نظریات کو اردو زبان میں نافذ کرنے کے عمل میں جو تحریریں پیش کی ہیں، اُن میں اکثر تنقیدی اعتبار سے معمولی ہیں۔

        کلیم الدین احمد نے ترقی پسند فلسفے پر بھی اپنے تنقیدی تاثرات رقم کیے ہیں۔ اشتراکیت اور مارکسزم کو کلیم الدین احمد نے اپنے تجزیے کی بنیاد بنایا۔ ادب کا روٹی سے کیا تعلق ہے اور کیا انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت روٹی ہے؟ ان موضوعات پر کلیم الدین احمد نے خاصی توجہ دی ہے۔ یہ بحث چند صفحات پر مشتمل ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد ایک ماہرِ بشریات (Anthropologist) ہیں اور انسان کے جسم، دل اور دماغ کو کیا چاہیے اور کیا نہیں چاہیے، ان پر بڑی عالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔ یہیں کلچر، تہذیب اور ادب کے رشتے سے بعض سوالوں کو کلیم صاحب نے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مباحث اور ترقی پسند ادیبوں کی دلیلوں سے کلیم الدین احمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ترقی پسند نظریۂ تنقید میں یہ صلاحیت نہیں کہ اچھے اور بُرے ادب کے بنیادی فرق کو سمجھ سکے۔ دانتے (Dante) کی ڈوائن کامیڈی (Divine Comedy) کو مثال بنا تے ہوئے اُنھوں نے بجا طور پر یہ سوال قائم کیا ہے کہ اس کتاب کو کسی عام ترقی پسند تحریر کے مساوی سمجھنا، نہ صرف ناقدانہ بے انصافی ہے بلکہ ادب شناسی کے معاملے میں ایک بھول بھی ہے۔ اُن کا یہ پوچھنا بجا ہے کہ ایک دانتے کی تحریر ہی نہیں اور بھی شہکار تخلیقات موجود ہیں لیکن کیا صرف اُنھیں اس لیے راندۂ درگاہ قرار دے دیا جائے کیونکہ وہ سامنتی اور سرمایہ دارانہ دور میں وجود میں آئیں۔ یہ سوال اصل میں روایت کے صحیح تجزیے سے جڑا ہوا بھی ہے۔

        کلیم الدین احمد نے مارکس اور لینن کے خیالات کی اہمیت اور خدمات کو تسلیم کیا ہے لیکن اُن کا سوال ہے کہ ’’ یہ حضرات نہ تو ادیب تھے اور نہ نقّاد، اس لیے اُن کی رائیں کسی تماشائی کی رایوں سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتیں ‘‘۔ یہاں کلیم الدین احمد ایک بنیادی نکتہ اٹھاتے ہیں۔ آخر کون سے اصول کِن چیزوں پر نافذ کیے جا سکتے ہیں ؟ اور نقّاد کا حق یا صلاحیت کن لوگوں کو حاصل ہے؟ کیا سیاسیات کا علم رکھنے والوں کو اخلاقیات کی بنیادی بحث میں کوئی رول انجام دینے کا استحقاق حاصل ہے یا ایک ادبی ناقد موسیقی کو سمجھنے کے لیے بنیادیں طے کر سکتا ہے؟ اگر ایسے لوگ اِن امور پر گفتگو کر بھی لیں تو کیا اس بحث کو پایۂ استناد حاصل ہونا چاہیے؟ جواب واضح ہے کہ نہیں۔ مارکس اور لینن سماج اور تاریخ کے جتنے بڑے عالم ہوں، سیاست کے بہترین تجربہ کرنے والے لوگوں میں شمار کیے جائیں لیکن ادب کے بنیادی نکات اور ضروری مسئلوں کو وہ جاننے والے ہرگزنہیں۔ کلیم الدین احمد بجاطور پر اُنھیں ’’تماشائی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ترقی پسند نظریے پر گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے انھوں نے مشہور مفکّر برگساں (Bergson) کے ادب اور آرٹ سے متعلق خیالات کو مختصراً ترجمہ کر کے پیش کردیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے بہ قولِ کلیم الدین احمد ’’کاش ترقی پسند نقّاد انھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ‘‘

        ترقّی پسند اصولوں پر تفصیل سے گفتگو کرنے کے بعد کلیم الدین احمد نے چند ترقی پسند ناقدین کے نظر یات اور تنقیدی خدمات پر بھی غور و فکر سے کام لیا ہے۔ اصولی بحث کے بعد یہ لازمی ہے کہ اطلاقی (applied) پہلوؤں پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ ترقی پسند ناقدین میں سب سے پہلے اُنھوں نے اخترحسین راے پوری کے سلسلے سے گفتگو شروع کی ہے۔ راے پوری کی مشہور کتاب ’’ادب اور انقلاب‘‘ میں جس تبلیغی انداز میں ہنگامہ پروری کے ساتھ شعر وادب کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، کلیم الدین احمد نے اس کی سخت خبر لی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اختر حسین راے پوری عام مارکسی خیالات کی تعبیروتشریح سے ایک قدم آگے نہیں بڑھتے۔ ادب کیا ہے؟ موضوع اور ہیئت کی اہمیت کتنی ہے؟ شاعر کا ماحول اور اُس کی شخصیت کا رشتہ کیا ہے؟ان سب سوالوں کی گُتھّیوں کو راے پوری سلجھا نہیں سکے۔ اسی لیے کلیم الدین احمد نے اُنھیں کوئی اہم ناقد نہیں تسلیم کیا۔

        کلیم صاحب نے مجنوں گورکھ پوری کو بھی ترقی پسند ناقد کے طور پر اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ مجنوں نے ادب کے ترقی پسندانہ نظریات کے تعلق سے جو تحریریں پیش کی ہیں، کلیم الدین احمد نے انھیں کا جائزہ لیا ہے۔ مجنوں دورانِ تنقید اردو کے ادیبوں سے مغربی ادب کے اہم لکھنے والوں کا جو موازنہ کرتے ہیں، اُن کو کلیم الدین احمد لاعلمی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ کولرج اور چوسر کے تعلق سے کلیم الدین احمد نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مجنوں کو ان سے واقفیت ہی نہیں۔ مشہور مارکسی خیالات کو مجنوں جس طرح بار بار لکھتے ہیں، کلیم الدین احمد اس سے بھی نالاں ہیں۔ مجنوں کے دو ۲ اقتباسات پیش کرنے کے بعد کلیم الدین احمد نے دکھایا ہے کہ مجنوں گورکھ پوری مارکس کے اقتصادی تصّورات کو کوئی آخری شَے نہیں مانتے اور اقتصاد یات کُل زندگی نہیں بلکہ اُس کا صرف ایک عنصر ہے، جیسے خیالات یہ واضح کرتے ہیں کہ مجنوں گورکھ پوری بنیادی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ لیکن مارکسی تصوّرات کے بے وجہ دباو میں وہ اپنے ذہن سے پورے طور پر کام نہیں لیتے۔

        ترقی پسند نقادوں میں کلیم الدین احمد نے احتشام حسین پر زیادہ سختی کے ساتھ لکھا ہے۔ اُس زمانے میں ترقی پسند ادب کو سمجھنے اور اُس کی تعبیر کے لیے احتشام حسین کی بڑی شہرت تھی۔ آج بھی احتشام حسین اشتراکی ناقدین میں سرِ فہرست تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے اپنے جائزے میں سب سے پہلے احتشام صاحب کے اُن خیالات کو پیش کیا ہے جو مارکسی تصورات سے متعلق ہیں۔ کلیم صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احتشام صاحب مارکس کے اصولوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ ادب میں افادیت، اخلاقیات، شعرفہمی اور فنون کے تعلق سے احتشام صاحب جب بھی گفتگو کرتے ہیں، بنیادی باتوں کے بجاے مشہور اشتراکی خیالات کی تکرار پیش کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے مثالیں دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انصاف پسندی کا دامن احتشام حسین اکثر چھوڑ دیتے ہیں۔ ترقی پسند ادیبوں کے جائزے میں وہ جانب داری سے کام لیتے ہیں۔ جسے کلیم الدین احمد ناقدانہ روگردانی تصور کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کو شکایت ہے کہ اختشام حسین اصولِ تنقید پر زیادہ محنت نہیں کرتے۔ اُن کی خواہش ہے کہ جس طرح وہ اشتراکیت کو ادبی تجزیے میں بنیاد سمجھتے ہیں، اُنھیں چاہیے تھا کہ مارکسی ادبی اصولوں کی بھی ایک کتاب تیار کریں۔ کلیم الدین احمد احتشام حسین کی شخصیت میں کسی بڑے اور عہد ساز ناقد کا جلوہ نہیں دیکھتے۔ اس لیے ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ میں اُن کی تحریروں پر شدید ردِّعمل موجود ہے۔

        ترقی پسند ناقدین میں محمد حسن کا حالاں کہ کلیم الدین احمد نے احتشام حسین کے پیروؤں میں شمار کیا لیکن اُنھیں دوسرے ترقی پسند لکھنے والوں کے مقابلے زیادہ متوازن تسلیم کیا ہے کلیم الدین احمد کے خیال میں محمد حسن نے ترقی پسند تنقید کے یک رُخے پن کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد حسن کے یہاں مارکسی تنقید کا غرور نہیں۔ لیکن متن کو گہرائی سے سمجھنے کے معاملے میں محمد حسن دوسرے ترقی پسندوں کی طرح ہی کوتاہی برتتے ہیں۔

        ترقی پسند ادب کی تنقید کے تعلق سے ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کا ضمیمۂ دوم بہت اہمیت رکھتا ہے جس میں ترقی پسند ادب عنوان کی دومشہور کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی ان کتابوں کا کلیم الدین احمد نے بہترین ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ عزیز احمد کی کتاب کی انھوں نے جُزوی طور پر تعریف کی ہے۔ اُن کے خیال میں اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ’’مارکسی باتوں کی وہ مہمل تکرار نہیں جو دوسری ترقی پسند تنقیدوں کی خصوصیت ہے۔ ‘‘ عزیز احمد کے بارے میں اُن کی رائے ہے کہ’ وہ بندھے ٹکے فقرے دہرانے پر قناعت نہیں کرتے اور ذہن کو مارکسی فلسفہ کے ہاتھ بیچ نہیں دیتے‘۔ عزیز احمد کا یہ کہنا کہ ’روس کے انقلاب کے پہلے کا ادب اہم ہے‘ اس پر کلیم الدین احمد خوش ہوتے ہیں اور عزیز احمد کو اِن لفظوں میں داد دیتے ہیں۔ ’’یہ بصیرت ترقی پسندوں میں کم نظر آتی ہے۔ ‘‘ اقبال کے تعلق سے ترقی پسند ناقدین کے معتر ضانہ رویّوں کے خلاف جس سوجھ بوجھ سے عزیز احمد نے اپنی گفتگو کی ہے، کلیم الدین احمد اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں عزیز احمد کی آرا سے کلیم الدین احمد اتفاق نہیں کرتے۔ ڈی۔ ایچ۔ لورنس اور فرائڈ کا عزیز احمد نے منٹو اور عصمت چغتائی کی خدمات کے جائزے میں ذکرکیا ہے۔ کلیم الدین احمد کُھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ عزیز احمد ان مغربی مصنّفین سے آگاہ نہیں۔ فیضؔ اور راشد کی شاعرانہ کمزوری تو عزیز احمد سمجھ پاتے ہیں لیکن جوش، قاضی عبدالغفار، کرشن چندر، مجاز اور مخدوم محی الدین کی غیرناقدانہ تعریف کرنے کے لیے کلیم الدین احمد انھیں قابلِ مذمّت سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ عزیز احمد پر گفتگو ختم کرتے ہوئے اُنھوں نے ایک دِل فریب جملہ بھی نقش کیا ہے  :  ’’مارکسی تنقید کے ریگستان میں یہ سبزہ زار سے کم نہیں۔ ‘‘

        علی سردار جعفری کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ پر کلیم الدین احمد کا تبصرہ زیادہ سخت ہے۔ سردار جعفری نے اس کتاب میں جو اصولی بحث کی ہے، اُسے کلیم الدین احمد نے مختلف سیاسی اور سماجی مفکرین سے مستعار قرار دیا ہے۔ سردار جعفری نے جسں سنسنی خیزی کو ادبی تنقید میں رواج دیا اور جانب دارانہ یا منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کی تعریف یا تنقید کو شعار بنایا، اُسے کلیم الدین احمد نے سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ کلیم الدین احمد کے ترقی پسند ادب کے سلسلے سے خیالات کا ایک تتمہ ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ کی دوسری جلد میں دکھائی دیتا ہے جہاں وہ جوش، مجاز، سردارجعفری اور فیض کی ترقی پسند شاعری کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے ترقی پسندی کے بنیادی انسلاکات پر چوٹ کرتے ہیں۔ تنقید ہو یا شاعری، اکثر معاملات میں اُنھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کلیم الدین احمد کے ناقدین اکثر اس امرکو تحریک سے اُن کی دشمنی سمجھتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کے جہانِ تنقید کے واقف کار کے لیے یہ بتانا مشکل نہیں کہ پسند اور ناپسند یا دوستی اور دشمنی کی سطحی بنیادوں پر اُنھوں نے اپنی تنقید کی عمارت قائم نہیں کی تھی۔ اُردو شاعری پر ایک نظر، اور اردو تنقید پر ایک نظر، کتابوں کی تحریر کا زمانہ  1939ء؁ سے 1942ء؁ ہے۔ اُس زمانے میں ترقی پسند تحریک ابھی ابتدائی دور میں تھی۔ کسی نئی تحریک کے لیے سب سے مشکل اُس کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے جب اُس کے موئدین جلدبازی میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ادب فہمی کے اصول و ضوابط قائم کرنے کے دوران میں انصاف کا خون کرنے سے بھی جھجکتے نہیں۔ 1936ء؁ سے 1956ء؁ تک ترقی پسند تحریک کے ابتدائی بیس برسوں میں شدّتِ پسندی اور ادبی فتوے دینے کا رجحان اس قدر عام تھا کہ اُس زمانے کے ناوابستہ ادیبوں اور شاعروں کی قدر شناسی کا مسئلہ اُلجھ کر رہ گیا۔ تحریک کے زور میں انصاف کی طرف کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ اس پس منظر میں کلیم الدین احمد کی تنقید ایک ادبی مجاہدہ ہے۔ اگر اُنھوں نے اس قدر شدّتِ بیان کے ساتھ مفصّل تجزیوں کے ساتھ ترقی پسند شعرو ادب کے سرخیلوں کا جائزہ نہ لیا ہوتا تو آج نہ جانے کیا صورتِ حال ہوتی۔ کلیم الدین احمد نے پوری ترقی پسندی کو ایک ادبی توازن اور اعتدال کے ساتھ کام کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ترقی پسندی کی آندھی کو اگر کلیم الدین احمد نے تنہا اپنی تنقیدوں سے رُخ موڑنے پر مجبور نہ کیا ہوتا تو آج نہ جانے کتنی ادبی افرا تفری اب بھی قائم ہوتی۔

قی پسندی کی آندھی کو اگر کلیم الدین احمد نے تنہا اپنی تنقیدوں سے رُخ موڑنے پر مجبور نہ کیا ہوتا تو آج نہ جانے کتنی ادبی افرا تفری اب بھی قائم ہوتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *