ANS 01
کوئی دس گیارہ برس اُدھر کی بات ہے احمد ندیم قاسمی سے نیلوفر اقبال کے ہاں ایک طویل مکالمہ ہوا تھا۔ تب اور باتوں کے علاوہ اس کی سماجی حقیقت نگاری کی حقیقت بھی جاننا چاہی تھی کہ یار لوگ جب جب اس کے افسانے کی بات کرتے ہیں ساتھ ہی ترقی پسندوں کے اس رویے کا ذکر ہونے لگتا ہے جس میں ایک مخصوص زاویے سے سماج کو دیکھنا ہی حقیقت ٹھہرتا تھا۔ یوں گمان گزرنے لگتا ہے کہ جیسے ایک فارمولا قاسمی کے ہاتھ آگیا ہو گا بس اسی کے عین مطابق آنکھوں دیکھی کہانی افسانہ بن جاتی ہو گی۔ اس ملاقات میں ہی میں جان گیا تھا کہ جس طرح قاسمی کی ترقی پسندی ایک منزل پر جا کر اپنے ترقی پسند دوستوں سے مختلف ہو جاتی تھی اسی طرح حقیقت کا تصور بھی مختلف ہو گیا تھا اور اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ قاسمی کا فرد اور سماج سے رشتہ بالائی سطح پر نہیں بنتا تھا وہ تو کہیں گہرائی میں جا کر بنتا تھا، مضبوطی کے ساتھ اور اس میں روحانی سطح پر بھید بھنور اپنا کام دکھاتے رہتے تھے۔
خیر! ایک ملاقات کا ذکر ہو رہا تھا اور اگر میں بھول نہیں رہا تو اس باب میں قاسمی کا نقطہ نظر جو بنا اس کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ اس کے ہاں مجرد واقعہ نگاری اور مشاہدے کے وسیلے سے محض تصویر کشی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی اور یہ بھی کہ جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں فی الاصل حقیقت وہی نہیں ہوتی کہ وہ تو حقیقت کا ایک رُخ سے اظہار ہو سکتا، وہ رُخ جو ہمارے مشاہدے میں آیا یا آ سکتا تھا مگر ایک تخلیق کار کو لکھتے ہوئے خارجی حقیقت کے پیچھے کام کرنے والے تاریخی عمل کے ساتھ احساس کی سطح پر جڑنا ہوتا ہے۔ لگ بھگ یہ وہی بات تھی جو قاسمی نے اپنے ایک مضمون “حقیقت اور فنی حقیقت” میں کہی تھی جو بہت پہلے یعنی جون انیس سو ستاون کے نقوش میں چھپا تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ قاسمی عین آغاز ہی میں اپنے دوستوں سے اس باب میں مختلف ہو گیا تھا۔ اس الگ طرز احساس کا خود قاسمی کو بھی ادراک تھا تبھی تو اس نے کہا تھا:
“اگر ہم حقیقت پسندی اور صداقت پسندی کے فرق کو اپنے ذہنوں میں واضح کر لیں تو ادب و فن میں حقیقت کے اظہار سے متعلق ہماری تمام الجھنیں دور ہو سکتی ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جو ترقی پسند ادب کی تحریک کی ابتدا میں ایک حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا۔” — (حقیقت اور فنی حقیقت/احمد ندیم قاسمی)
یہ جو اوپر کی سطروں میں قاسمی کو اپنے ترقی پسند دوستوں کی ناقص حقیقت پسندی کا پول کھولتے ہوئے حجاب سا آگیا اور اسے “ابتدا میں ایک حد تک” کے اضافی الفاظ لکھنے پڑے تو اس کی تلافی اس کے قلم کی روانی نے یوں کر دی ہے کہ اگلے ہی جملے میں “ایک حد تک” ہونے والی غلطی ترقی پسندوں کے ہاں چلن بنتی دکھائی دیتی ہے۔ قاسمی نے حقیقت کے اس ناقص تصور کو کھلے لفظوں میں مسترد کر دیا تھا۔
قاسمی کی اسی تحریر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کے ہاں حقیقت کی کئی سطحیں تھیں۔ خود اسی کے الفاظ میں:
حقیقت جامد چیز نہیں ہوتی
ہر خارجی حقیقت کے اندر متعدد لہریں رواں ہوتی ہیں
اس کی ایک انفرادی حرکت ہوتی ہے
اس کا ماضی کی تاریخی حقیقتوں سے رشتہ ہوتا ہے
اور یہ مستقبل کے ساتھ بھی ایک رشتہ بناتی ہے
قاسمی نے حقیقت نگاری کو اس صداقت پسندی سے جوڑ ا جس میں حقیقت اور رومانیت کے درمیان موجود تضاد ختم ہو جاتا ہے۔ یوں قاسمی نے ایک تخلیق کار کو اپنے بنیادی وظیفے سے جڑنے کا قرینہ بتا دیا ہے۔ لگ بھگ یہ وہی نقطہ نظر بنتا ہے جس کے زہر اثر فیض نے منشی پریم چند کی حقیقت نگاری مسترد کیا تھا اور یہی وہ تخلیقی طرز عمل ہے جس میں ترقی پسندی کی لہر میں رومانیت کی لہر آمیز ہو کراس کے ہاں اپنا جادو جگانے لگی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ طرز احساس حقیقت کے باب میں اتنا راست اور جامع ہے کہ جس میں انسانی فہم کے تخلیقی عمل کے دوران اس بھید بھرے علاقے میں پہنچ جاتی ہے جہاں حقیقت مادے تک محدود رہتی ہے نہ مادی حقیقتوں کی نفی ہوتی ہے مگر فن پارے میں تیسری جہت کی گنجائش بھی نکل آیا کرتی ہے تاہم اس کا یہ اثر ضرور ہوا کہ اس طرز احساس نے قاسمی کے ہاں حقیقت اور رومان کو بہم کر کے جملے کی ساخت کو ٹھوس حقیقت نگاروں سے بہت مختلف بنا دیا تھا۔
صاحب، یہ جو قاسمی کے افسانوں پر بات کرنے کا ارادہ باندھ کر اس کی حقیقت نگاری کے تصور کو گرفت میں لینے کے جتن کرنے لگا ہوں تو اس کا سبب یہ ہے کہ میری نظر میں اس کے افسانے کا مزاج اس کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ قاسمی کے ہاں غالب رجحان رومانیت پسندی کا رہا ہے تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ کہانی لکھتے ہوئے کبھی کبھی وہ شعوری طور پر اس کے زیر اثر رہا ہے مگر یہ واقعہ ہے کہ یہ کہانیاں بھی جوں جوں آگے بڑھتی گئیں سماجی حقیقت نگاری کی لپک اپنا اثر گہرا کرتی گئی۔ ممکن ہے میری یہ بات آپ فوری طور پر ہضم نہ کر پائیں اسی لیے میں آپ کی توجہ قاسمی کے چند افسانوں کے آغاز کے جملوں کی ساخت کی طرف چاہوں گا:
“ڈوبتا ہوا سورج ایک بدلی سے چھو گیا تو شام کو آگ لگ گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شفق بدلی میں سما نہیں سکی اس لیے چھلک پڑی ہے۔” — (افسانہ “بھرم”/احمد ندیم قاسمی)
“درختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر کر رہ گئی ہیں۔ ہوا چلتی تو شاید ان کی رگوں میں اتری ہوئی برف جھڑ جاتی مگر ہوا بھی جیسے درختوں کے اس جھنڈ میں کہیں ٹھٹھری پڑی ہے۔ چاندنی میں کفن کی سی سفیدی ہے۔ فراخ اور ہموار لان پر ایک بلی دبے پاؤں بھاگی جا رہی ہے۔ وہ لان کے قوسی حاشیے پر اُگے ہوئے پھولوں پر ٹھٹھک کر رہ جاتی ہے اور اپنا ایک اگلا پنجہ اٹھا کر دم کو یوں حرکت دیتی ہے جیسے جادو کر رہی ہو۔” — (افسانہ “زلیخا”/احمد ندیم قاسمی)
“آسمان پر کفن سا سفید بادل چھا رہا تھا اور ہوا میں کافور کی سی بُو بسی ہوئی تھی۔” — (افسانہ “ماتم”/احمد ندیم قاسمی)
“انگڑائی کا تناؤ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ انگڑائی ٹوٹ گئی۔ باہیں ادھ کٹی شاخوں کی طرح لٹک گئیں اور گالوں کی شفق زردی میں بدل گئی۔ باہیں کٹی شاخوں کی طرح لٹک گئیں اور گالوں کی زردی شفق میں بدل گئی۔” – (افسانہ “اکیلی”/احمد ندیم قاسمی)
“اُن دنوں تم سچ مچ کنول کا پھول تھیں۔ تمہاری پتیوں پر اگر کوئی بوند گرتی تو صرف پھسل کر گر جانے کے لیے۔ تمہاری پنکھڑیوں کا ہلکا ہلکا گلابی رنگ جو مرمریں سفیدی میں مبہم سی جھلکی مارتا تھا بالکل شفق کے مشابہ تھا۔ تم ہنستی تھیں تو صرف اس لیے کہ تم ہنسنے پر مجبور تھیں، مگر تمہارا رونا تمہاری بے لوث ہنسی سے بھی زیادہ لذت آمیز تھا۔” : (افسانہ “بھری دنیا میں”/احمد ندیم قاسمی)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس ترقی پسند حقیقت نگار نے ڈوبتے ہوئے سورج کے بدلی سے چھڑ چھاڑ کے معاملے سے کوئی انقلابی معنی نہیں نکالے۔ درختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر تی رہیں تو اس کے کوئی نظریاتی معنی نہیں ہیں۔ آسمان پر کفن سا سفید بادل جھول رہا ہے تو اس میں بھی بالا دست طبقے کی قہاری کی طرف اشارہ خطا ہو گیا ہے۔ انگڑائی کا تناؤ ٹوٹتا ہے اور گالوں کی زردی شفق میں بدل جاتی ہے مگر یہ نعرے کی سرخی نہیں بنتی۔ کہانی بے لوث لذت سے لطف اندوز کرتی رہتی ہے تاہم صاف صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں رومانیت کی مٹھاس زیادہ ہو گئی ہے جو کہیں کہیں کَھلنے لگتی ہے۔
اور ہاں صاحب، یہ بات ماننے کی ہے کہ قاسمی کے جن افسانوں کی ابتدائی سطور اوپر دی گئی ہیں وہ اس کے معروف اور کامیاب تسلیم کیے جانے والے افسانے نہیں کہلائے جا سکتے اور یہ بھی مان لیا جانا چاہیے کہ الحمد للہ، کنجری، پرمیشر سنگھ، رئیس خانہ، بین، اور لارنس آف تھلیبیا وغیرہ جیسے قاسمی کے نمائندہ افسانوں میں اس طرح کا شعوری اہتمام نہیں ملتا۔
“شادی سے پہلے مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹھ تھے کھدر یا لٹھے کی تہبند کی جگہ گلابی رنگ کی سبز دھاریوں والی ریشمی خوشابی لنگی، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض جس کی آستینوں کی چنٹوں کا شمار سینکڑوں میں تک پہنچتا تھا” — (افسانہ “الحمد للہ”/احمد ندیم قاسمی)
“سرور گھر میں داخل ہوا تو ایک بہت بھاری خبر کے بوجھ سے اس کی کمر ٹوٹی جا رہی تھی، گلے کی رگیں پھول رہی تھیں، جیسے باتیں اس کے حلق میں آ کر لٹک گئی ہوں” — (افسانہ “کنجری”/احمد ندیم قاسمی)
“اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی کی جیب سے روپیہ گر پڑے، ابھی تھا اور ابھی غائب۔” — (افسانہ “پرمیشر سنگھ”/احمد ندیم قاسمی)
“پلنگ اتنا چوڑا تھا کہ کہ اس پر جو کھیس بچھا تھا وہ چار کھیسوں کے برابر تھا۔ اس کے وسط میں پلش کے ایک تکیے کے سہارے بڑے ملک صاحب کا جسم ڈھیر پڑا تھا” — (افسانہ “لارنس آف تھلیبیا”/احمد ندیم قاسمی)
آپ نے دیکھا صاحب کہ پہلے ہی جملے سے کہانی کا قضیہ سامنے آنے لگتا ہے۔ اس کے کردار متحرک ہو جاتے ہیں اور منظر واقعے سے جڑ جاتا ہے۔ قاسمی کے ان بڑے افسانوں کے ابتدائی جملوں وہ شعوری کوششیں کام نہیں کر رہی ہیں جو میں اس کے دوسرے اور قدرے غیر معروف افسانوں میں اوپر نشان زد کر آیا ہوں۔ تاہم جوں جوں آپ یہ معروف افسانے پڑھ کر آگے بڑھتے جائیں گے آپ محسوس کریں گے کہ قاسمی نے کہانی کو اپنی دھج سے آگے بڑھنے دیا ہے اور دونوں رویے غیر محسوس طریقے سے اسی بہاؤ میں آ کر آمیز ہو گئے ہیں۔ اس سارے معاملے سے میں نے اپنے تئیں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قاسمی دل سے قائل تھا کہ مجرد اور ٹھوس حقیقت نگاری سے تخلیقی عمل خام رہ جاتا ہے لہذا وہ بعض اوقات شعوری طور پر جملوں کی ساخت ایسی بنا لیا کرتا جو رومانیت پسندوں کو مرغوب رہی تھی۔تاہم جہاں کہیں بھی دونوں رویے کسی شعوری کوشش کے بغیر بہم ہوئے کہانی مکمل ہو گئی اور تخلیق عمل اپنی دھج دکھا گیا۔
ایک اور چیز جس نے قاسمی کے افسانوں کی تخلیقی فضا کو مختلف کیا وہ اس کی دیہات نگاری ہے۔ یہ بات علم میں رہنی چاہیے کہ قاسمی انیس صد سولہ میں انگہ میں پیدا ہوا۔ اس کے خاندان کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھا اور اگر آپ نے تھل کے اس بارانی علاقے کو نہیں دیکھ رکھا تو آپ گمان بھی نہیں باندھ سکیں گے کہ اس دور میں ایک معمولی کاشتکار کی زندگی کتنی تلخ ہو سکتی تھی۔ خود قاسمی نے اپنی کہانی کہتے ہوئے جیسی جھلک دکھائی ہے اس سے جیسا گمان بھی بنتا ہے ویسی ہی تصویر بنا لیں تو بھی آنسوؤں کا آنکھ کی پتلیوں تک اُمنڈ آنا یقینی ہو جاتا ہے۔
“مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی کے دکھ پر بہہ نکلتے ۔”
“پیاز یا سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔”
تاہم تلخ ہو جانے والی اس زندگی کی اپنی ایک لذت تھی۔ سسکتی ہوئی زندگی کے ساتھ ساتھ فرد سے فرد کی وابستگی کا جو ماحول ہم قاسمی کے افسانوں میں دیکھتے ہیں اس کے پیچھے نفسیاتی سطح پر قاسمی کی اپنی زندگی کی اٹھان، وجود کے ریشے ریشے میں اتر جانے والا تجربہ اور گہرا مشاہدہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اردو افسانے میں بلونت سنگھ کی دیہات نگاری بھی بہت اہم مگر اس کے ہاں دیہات کا سنگی چہرہ ابھرتا ہے، بیدی کے ہاں کا دیہات مجبوری میں پڑ چکے کرداروں کی لاچاری کے پیچھے رہ جاتا ہے۔ ان دونوں کا اپنا لطف ہے مگر قاسمی نے نہ تو اپنی دیہات نگاری میں کردار سازی کو نظر انداز کیا ہے نہ کردار نگاری کی للک میں دیہات کا چہرہ مسخ یا مدھم ہوا ہے۔ یوں اس کے افسانوں کا دیہات اس آنگن اور ان گلیوں کا سا ہو جاتا ہے جو خود قاسمی کی زندگی کا حصہ تھیں:
“عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے، بہرحال جب ہم اکٹھے ہوتے اور بارش ہونے لگتی تو اماں دہلیز کے پاس بیٹھ جاتیں۔ ہم تینوں ان کے آس پاس آ جاتے، باہر آنگن میں بلبلے ان گنت گنبدوں کا فرش بچھاتے اور آنگن کی بیریوں کے پتے اڑتے ہوئے اندر ہمارے پاس آ جاتے اور باہر گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے پرنالوں کے نیچے نہاتے اور چلاتے تو اماں ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرتیں اور روتیں اور بڑے دکھ سے آپ ہی آپ کہتیں “بوند بوند پانی کے ساتھ فرشتہ اترتا ہے۔ اے فرشتو !خدا کے دربار میں جا کر مجھ دکھیا کی طرف سے عرض کرو کہ میں نے جو دکھ بھوگے، سو بھوگے، ان میرے بچوں کو کوئی دکھ نہ دینا میں نے انہیں بڑی مشکل سے پالا پوسا ہے۔”
یاد رہے اس دکھیاری کا سرتاج انیس صد چوبیس میں مر چکا تھا- تو یوں ہے کہ قاسمی کے ہاں دیہات بھی اسی عورت کی صورت سامنے آتا ہے جس کا خیال رکھنے والا مر چکا ہے، جس کے آنگن میں چھم چھم محبت میں گندھے رشتوں کی بارش ہو رہی ہے اور جس کے پرنالوں سے دکھ کا چھاجوں پانی برس رہا ہے۔ قاسمی کے افسانوں کے حوالے سے اس بات کو ریکارڈ پر لانا بہت اہم ہو جاتا ہے کہ کہانی لکھتے ہوئے قاسمی کے ہاں محض دیہات نگاری ہی اس کا مطمع نظر نہیں تھی بلکہ یوں تھا کہ کہانی کا بنیادی خیال، کردار نگاری اور دیہی ماحول ایک دوسرے کا لازمی جزو ہو جاتے تھے۔ قاسمی کے ایک معروف افسانے کا یہ ٹکڑا دیکھئے اس میں خدا بخش کے ساتھ اس کا یار ہے جو شہر سے آیا ہے۔ اس کا چہیتا نوکر بشکو بھی ساتھ ہے۔ نام تو اس کا بھی خدا بخش تھا مگر وہ نوکر تھا لہذا اس کی الگ سے شناخت ضروری تھی۔ بڑے ملک صاحب کے بیٹے نے اسے بشکو کہا اور یہی اس کی پہچان بن گیا۔ اسی بشکو کے بازو پر وہ باز ہے جس کا نام لارنس آف عربیا کی طرز پر خدا بخش نے لارنس آف تھلیبیا رکھ چھوڑا ہے۔ کہانی کے اس حصے تک پہنچتے پہنچتے ہم جان چکے ہیں کہ یہ لوگ ڈھائی تین میل کا فاصلہ طے کر کے سرخی مائل مٹی سے لپے ہوئے ایک گھروندے کے پاس پہنچ چکے ہیں۔یہ بابا یارو کا گھر ہے جو بعد میں، بقول خدا بخش “بد ذات، کنگلی اور قلاش” نکلی تھی۔ لارنس آف تھلیبیا کی قاتلہ۔ خدا بخش نے چپکے سے اترنے اور آہستہ آہستہ گھر کے قریب جانے کی تجویز پیش کی۔ اس ٹکڑے میں دیکھئے کہانی کے کردار، منظرنامہ اور معنی کا بہاؤ کیسے ایک دوسرے کا لازمی جزو ہو گئے ہیں:
“ایک بار میں اور بشکو یونہی چپکے سے آئے اور بابا یارو کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بابا یارو اپنی رسیاں بٹنے میں مگن رہا، مائی بیگاں چولہے میں پھونکیں مارتی رہیں اور رنگی ٹوکے سے چارہ کترتی رہی، کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ پھر جب انہیں پتہ چلا تو بابا یارو اتنا شرمندہ ہوا کہ کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ منہ سے بس پھب پھب کر کے رہ گیا۔ مائی بیگاں اپنے بڑھاپے کو گالیاں دیتی رہی اور رنگی تو اتنا ہنسی کہ جب بابا کی پھٹکار پر بھی اس کی ہنسی رکنے میں نہ آئی تو وہ اندر کوٹھے میں بھاگ گئی۔” — (افسانہ “لارنس آف تھلیبیا”/احمد ندیم قاسمی)
اسی طرح قاسمی کے ایک اور افسانے “کنجری” میں کرداروں کا تعارف کراتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کمالاں کا دادا سہراب خان پچاس کے پیٹے میں پہنچا تھا تو ملتان کی ایک مشہور طوائف زرتاج کو بیوی بنا لایا تھا۔ گاؤں والے اس بارے میں بے خبر تھے کہ زرتاج کوٹھے والی تھی تاہم زرتاج کے ہاں سرور کی پیدائش کے موقعے پر موجود دایہ نے اسے پہچان لیا کہ یہ تو وہی ملتان والی کنجری تاجی تھی۔ بس پھر کیا تھا ایک لفظ سارے گاؤں میں گونج گیا۔ قاسمی نے جس طرح سہراب خان کو گاؤں سے نکل بھاگنے پر مجبور کیا ہے اس میں کہانی اپنی حقیقی رفتار سے چلی ہے، کردار اپنی شباہت بناتے چلے گئے ہیں اور دیہی زندگی کا چلن بھی پوری طرح اجاگر ہو گیا ہے۔
اب آئیے قاسمی کے افسانوں کے موضوعات کی طرف اور صاحب اس باب میں اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہو گا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔ یوں دیکھیں تو قاسمی کے کئی کردار ایک موضوع کو کھولتے اور اجتماعی دکھ بیان کرنے کے جتن کرتے ہوئے ایک انسان کی کہانی بھی بن جاتے ہیں۔ ایک ایسی کہانی جس میں کردار محض کسی ایک طبقے کے نمائندہ نہیں رہتے کئی ہزار انسانوں کی نمائندہ علامت بن جاتے ہیں۔ یہ جو میں نے قاسمی کی کہانی کے علامت بن جانے کی بات کی ہے تو اس سے کسی غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ قاسمی اس علامت نگاری سے بہت فاصلے پر رہا ہے جس کا چلن لگ بھگ دو دہائیوں کا مقبول فیشن رہا ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا تاہم موقع نکل آیا ہے تو کہتا چلوں کہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ علامت نگاروں کی پسپائی کے بعد علامت نگاری کے امکانات ختم ہو گئے ہیں اور بتاتا چلوں کہ قاسمی کو بھی اس کا احساس تھا جب ہی تواس نے ایک افسانہ نگار خاتون کی کتاب کے دیباچے میں اس کی ایک کہانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مکمل علامت بن جانے کی بات کی تھی۔اور سچ پوچھیں تو اس باب میں یہ بات درست ہے کہ افسانہ اپنے خارج میں مکمل ہو اور اپنے باطنی بہاؤ اور بھید بھنوروں میں کسی بڑی صورت حال کی علامت بن جائے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی قاسمی کے افسانوں کے موضوعات کی، اس بارے میں اس کے افسانوں کے مجموعے “نیلا پتھر” کے آغاز میں موجود سطور کی طرف آپ کی توجہ چاہوں گا۔ قاسمی کا کہنا تھا:
“کسی بھی تخلیق کار کے لیے موضوعات کبھی کمیاب نہیں ہوتے۔ اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے آس پاس موضوعات کم ہو رہے ہیں تو یہ کمی دراصل خود اس کے اندر ہوتی ہے۔” — (گزارش/نیلا پتھر/احمد ندیم قاسمی)
قاسمی نے یہاں جو “کسی بھی تخلیق کار” کے الفاظ لکھے ہیں تو یقین جانئے اس سے مراد وہی تخلیق کار ہوں گے جو ساری عمر اپنے تخلیقی جذبوں کے ساتھ سچائی سے وابستہ رہتے ہیں۔ ( میرے قلم نے “سچائی” کی جگہ “ایمانداری” کا لفظ لکھ دیا تھا مگر میرا ما تھا ٹھنکا کہ اس لفظ سے تو کئی بے ایمانوں کی جبینیں شکن آلود ہو سکتی تھیں، لہذا اسے “سچائی” سے بدل لیا۔ممکن ہے میری یہ کوشش بھی خام نکلے کہ آج کل مطلق سچ کہیں نہیں ہوتا۔ صرف اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے جو” زمینی سچ” ہو۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ زمین پر رینگنے والے سچ کا راستہ اور اس سچ کی زندگی کا مقدر کس طرح متعین کیا جاتا ہے)۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے تخلیق کاروں کی وابستگیاں انہیں محدود موضوعات سے آگے دیکھنے ہی نہیں دیتیں۔ تاہم قاسمی نے یہ کیا ہے کہ ان حدوں کو توڑا ہے لہذا تخلیق بھی آخری عمر تک اس پر مہربان رہی ہے۔ میں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس خالص طرز عمل کی وجہ سے اس کے ہاں ایسے افسانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے جن میں کسی خاص نقطہ نظر کی تشریح کرنے کے بجائے کہانی کے اپنے وجود پر اکتفا اور اعتماد کرنے کا چلن اپنایا گیا ہے۔ اس سے قاسمی کے ہاں موضوعات کی رنگارنگی کا سماں بندھ گیا ہے۔ کہیں رشتے محترم ہو گئے ہیں تو کہیں خود انسانی وجود، کہیں ظالم اس کی نفرت کا نشانہ بنتا ہے تو کہیں وہ رویے جو جہالت کے مظاہر ہو گئے ہیں انہیں رد کیا گیا ہے۔ عورت کو بھی قاسمی نے بار بار اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور ہر بار، کم از کم میں نے تو یہی محسوس کیا ہے کہ، قاسمی مرد کرداروں کے مقابلے میں عورت کے ساتھ جا کھڑا ہوا ہے۔
صاحب اوپر میں کچھ افسانوں کو قاسمی کے کامیاب افسانے کہہ آیا ہوں اور کچھ کو اس درجے سے گرا دیا ہے تو یقین جانیے ایسا کرتے ہوئے میں نے قاسمی کی افسانہ نگاری کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دل ہی کے فیصلے کا کہا مانا ہے۔ میں ان افسانہ نگاروں میں سے نہیں ہوں جو قاسمی کے افسانے کا ذکر آنے پر اسے بہتر شاعر گرداننے لگیں، نہ ان شاعروں کو مانتا ہوں جو قاسمی کی شاعری کا ذکر درمیان میں چھوڑ کر اس کے افسانے کا قصیدہ لے بیٹھتے ہیں۔ ایک سے زیادہ تخلیقی جہات رکھنا میری نظر میں ایک غیر معمولی عطا ہے اور قاسمی غیر معمولی تخلیق کار تھا۔ پھر اس نے جتنی تعداد میں افسانے لکھے یہ بھی کوئی کم غیر معمولی بات نہیں ہے۔ افسانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سب کو ایک معیار کا نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو قاسمی کے قد کو گھٹا دے۔ کسی بڑے افسانہ نگار کے لیے اتنی بات ہی کافی ہوتی ہے کہ اس کے قلم سے چند ایسے فن پارے نکل آئیں، جن کے بغیر ذکر کے بغیر فن کی تاریخ نامکمل رہ جاتی ہو۔ تو یوں ہے صاحب کہ وہ افسانے جنہیں میں نے کامیاب کہا انہیں اس یقین کے ساتھ کامیاب مانا بھی ہے کہ ان کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا۔
ANS 02
اردو ڈراما کے ارتقا اور فروغ میں ’اندر سبھا‘ کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس مخطوطہ سے اس کی مَسرَحی (تھیٹریکل) پیشکشوں کے سلسلے میں بعض نئی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔انیسویں صدی میں اسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ اردو میں اس کی مختلف اشاعتوں کے ساتھ ہی اسے ہندی،سندھی، گورمکھی، گجراتی یہاں تک کہ عبرانی رسم خط میں بھی محفوظ کیا گیا ۔ یہی نہیں،کنڑ، تمل، تلگو،سنہالی، ملائے اور جرمن زبانوں میں اس کے ترجمے بھی شائع کیے گئے۔الفرڈ ناٹک منڈلی کے ذریعہ بمبئی میں ۱۸۶۴ ء میں اس کی اولین پیشکش کے بعد پارسی تھیٹریکل کمپنیوں کے مخزن نمائش کے اہم ترین ڈراما کی حیثیت سے اس نے بر صغیر سے باہر بھی اپنی کامیابی کی نمایاں مثالیں پیش کیں یہاں تک کہ جنوبی ایشیا کی مقبول عام ثقافت کے فروغ میں اسے کلیدی اہمیت حاصل ہو گئی(Hansen, p. 79) اور مَسرح عوامی میں اسے ایک رجحان کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ۱۸۶۴ء میں اس کی اولین پیشکش کے بعد اس کی دوسری یادگار پیشکش بمبئی میں ہی الفنسٹن ڈریماٹک کلب کے ذریعہ ۱۸۷۳ء میں ہوئی تھی۔اس کمپنی کے مالک و مختار کنور جی سہراب جی ناظر نے ۱۸۷۴ء میں اسے کلکتہ میں پیش کیا اور تب تک اس کے تمام اداکار مرد حضرات ہی ہوتے تھے لیکن ۱۸۷۰ء کے بعد سے اس کام کے لیے نوخیز خوبرو لڑکوں کا استعمال کیا جانے لگا۔اسی دوران اینگلو انڈین خواتین بھی ڈراموں میں اداکاری کے سلسلے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرنے لگی تھیں ۔پارسی ناٹک منڈلی نے ۱۸۷۴ء میں ایک طوائف لطیفہ بیگم کو سبز پری کے کردار میں پیش کیا تھا۔پھر امیر جان اور موتی جان نام کی دو پنجابی بہنیں بھی ’اندر سبھا‘ کی پیشکشوں میں اداکاری کرنے لگیں۔ ایمپرس وکٹوریہ ناٹک منڈلی اور بعد ازاں الفرڈ کمپنی کی مِس میری فِنٹَن بھی ’اندر سبھا‘ کی مقبول اداکارہ رہی ہے۔بمبئی کی انڈین لیڈیز تھیٹریکل کمپنی سے وابستہ ایک یہودی اداکارہ جمیلہ کا ذکر بھی موجود ہے جو سبز پری کا کردار ادا کرتی تھی۔لیکن کلکتہ میں تیار کیے گئے اس مخطوطہ پہ درج تاریخ کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخری دو دہوں کے دوران اور اس کے بعد بھی بغدادی یہودیوں نے نہ صرف بمبئی بلکہ کلکتہ میں بھی اس کی پیشکش میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہوگااور اس کے اداکاروں نیز اداکاراؤں میں بمبئی کی جمیلہ کے علاوہ کلکتہ کی یہودی برادری کے افراد بھی شامل رہے ہونگے۔
ٍ ’اندر سبھا‘ کی یہودی اداکارہ جمیلہ بیگم:
جمیلہ بیگم پارسی تھیٹر سے وابستہ اولین یہودی اداکاراؤں میں سے تھی اور NavrojiGolvala کے Ladies and Gentlemen Theatrical Clubسے وابستہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کا زمانہ انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کا تھا۔سبز پری کے اپنے کردار میں بے پناہ شہرت حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کر لی تھی جس میں ڈوسا بھائی ہتھی رام مینیجر اور ڈائرکٹر کے طور پہ کام کرتا تھا۔وہ خود ایک اعلی درجے کا فنکار بھی تھا۔ اس کی وجاہت کی وجہ سے جمیلہ اس پہ فریفتہ تھی اور دونوں ساتھ ہی رہتے بھی تھے۔ ان دونوں نے بمبئی کو خیرباد کہہ کر رنگون کو اپنا مستقر بنا لیا تھا اور وہاں ان کی کاوشوں سے ہی اردو ڈراموں پہ مبنی پارسی تھیٹر متعارف ہوا۔ لیکن چند برسوں میں ہی ان کے درمیان تلخیاں پیدا ہونے لگیں یہاں تک کہ ڈوسا بھائی کو جمیلہ کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔اردو کتب میں جمیلہ کا تذکرہ عبدالعلیم نامی(اردو تھیٹر، جلد ۴، انجمن ترقی اردو، کراچی) اور ان کے حوالے سے ابراہیم یوسف (اندر سبھا اور اندر سبھائیں، نظامی پریس ، لکھنٔو۔۱۹۸۰ئ) نے بھی کیا ہے ۔جمیلہ کے متعلق معلومات کا ماخذ پٹیل کی گجراتی تصنیف ’ پارسی ناٹک‘ ہے۔ ہندی میں سومناتھ گپت نے بھی اپنی کتاب ’پارسی تھیٹر‘ میں اسی کی بنیاد پہ جمیلہ کا ذکر کیا ہے۔Hansen (2018) نے دیگر بنیادی ماخذ کی روشنی میں یہ صراحت پیش کی ہے کہ ۱۸۸۴ء یا اس کے آس پاس جمیلہ اور ڈوسا بھائی رنگون چلے گئے تھے جہاں چند برسوں کے اندر ہی کسی پیشہ ورانہ یا ذاتی رنجش کی وجہ سے ڈوسا بھائی نے جمیلہ کا قتل کر دیا ۔اسے سزا بھی ملی لیکن چند ماہ میں ہی رہا بھی کر دیا گیا۔جمیلہ کے کلکتہ کے سفر کے سلسلے میں شواہد دستیاب نہیں ہیں۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کلکتہ میں لکھے گئے اس مخطوطہ کا تعلق بمبئی کی جمیلہ سے نہیں ہے ۔
’اندر سبھا‘ کے جو قدیم نسخے دستیاب ہیں ان کے بماقبلہ اس مخطوطہ کے نقش ونگاررنگین اور جاذب نظرہیں۔ انیسویں صدی میں ہندوستان میںجو نو ٹنکیاں اور ڈرامے مقبول ہوتے تھے ان کے نسخے خواص کے لیے اہتمام کے ساتھ تیار کیے جاتے تھے۔مارچ ۱۸۸۷ ء میں کلکتہ میں لکھا گیا یہ نسخہ اپنی خطاطی اور تزئین و آرائش کی وجہ سے اسی سلسلے کی کڑی محسوس ہوتا ہے (Hansen, p. 103) ۔ ممکن ہے کہ خطاط نے اردو نسخہ سے یا اگر اردو سے نا واقف رہا ہو تو اس کے متن کو کسی سے پڑھوا کر عبرانی میں نقل کیا ہو۔ بمبئی کے ساتھ ہی کلکتہ بھی بغدادی یہودیوں کا اہم مرکز تھا۔وکٹوریہ تھیٹریکل کمپنی کے ذریعہ ۱۸۷۴ ء میں کلکتہ میں ’اندر سبھا‘ کی پیشکش نے اسے وہاں کے ثقافتی بازار کا ایک اہم حصہ بنا دیا تھا۔ بعید نہیں کہ اپنے تجارتی مزاج کی وجہ سے بغدادی یہودی فرقہ کے ذی حیثیت افراد نے اس کی پیشکش میں خاطر خواہ دلچسپی لی ہو۔ اس کی پر اہتمام خطاطی (خط شکستہ عبرانی) اور ترتیب و تزئین سے بھی اس ڈراما کے تئیںکلکتہ کے یہودی بغدادیوں کے ذوق و شوق کا اظہار ہوتا ہے۔ دراصل ’اندر سبھا‘ میں غیرمعمولی دلچسپی نے اسے رفتہ رفتہ انیسویں صدی کے ہندوستان کے تہذیبی مراکز کے ساتھ ہی بیرون ملک میں بھی اردو ثقافت کی نمائندگی کرنے والے ڈرامہ یا اوپیرا کی حیثیت عطا کر دی تھی۔
ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ کلکتہ میں موجود بغدادی یہودی فرقہ نے ’اندر سبھا‘ کی بے مثل شہرت کی وجہ سے ۱۸۸۵ ء سے ۱۸۹۰ء کے دوران اس کی پیشکش میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہوگا۔ڈاکٹر نور نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ مخطوطہ بغدادی یہودی فرقہ کے ہی کسی اداکار یا اداکارہ کے لیے یا اس کے ہی ذریعہ یا اس فرقہ کے کسی ہدایت کار نے تیار کیا ہوگا۔یہ مخطوطہ انیسویں صدی کے اواخر سے عبرانی میں پائے جانے والے ہندوستانی یہودی ادب کا حصہ بھی ہے۔ اس قسم کے دودیگر متون میں’ اندر سبھا‘ کا ایک منقش لیتھو گراف (مطبوعہ ۱۸۸۰ء یا اس سے قبل) ہے جو یروشلم میں ساسون (Sassoon) خانوادے کی ملکیت ہے اور دوسرا عبرانی رسم خط میں لکھا ہوا اردو ڈراما ’لیلی مجنوں‘ کا ایک نسخہ ہے جو یروشلم کے Jewish National and University Library میں محفوظ ہے(Hansen, p. 103)۔ساسون خانوادہ کا تعلق بمبئی سے تھا جس کا مورث اعلی David Sassoonبغداد میں سلطنت عثمانیہ کا خزانچی تھا۔ہندوستان میں ہجرت کے بعد اس نے بمبئی میں سکونت اختیار کی اورجلد ہی وہاں کے مشہورومعروف اور امیرترین سوداگر کی حیثیت سے اس کی شناخت قائم ہو گئی۔ وہ ہندوستان میں بغدادی یہودی فرقہ کا روح رواں بھی تھا۔ اس کا بیٹا David Solomon Sassoonمسودوں اور مخطوطات کا شوقین تھا۔ اس کے ذاتی کتب خانہ میں بارہ سو سے زیادہ مخطوطے موجود تھے۔ اب تک کُل چار یہود-اردو مخطوطوں کی نشاندہی کی گئی ہے (Rubin, 2016, p.1)جن میں ۵۴ صفحات پہ مبنی ’اندر سبھا‘ کے متذکرہ مخطوطہ کے علاوہ ۳۳ صفحات پر مبنی اس کا ۱۸۸۰ء کا لیتھو گرافک ایڈیشن، ۱۸۸۸ء میں بمبئی میں طبع ہونے والی ’لیلی مجنوں‘ کا عبرانی میں لیتھو گرافک ایڈیشن، ۳۱ متفرق صفحات پہ مبنی ’بول‘ کے عنوان سے شائع لیتھو گرافک پرچہ، اور ۳۱ ہی صفحات پر مبنی ایک ہزار الفاظ کی ’عبرانی-یہود-اردو فرہنگ‘ شامل ہیں۔ ہندوستان میں عبرانی طباعت کی روایتوں کے ذکر کے دوران موخرالذکر کو ’عبرانی-ہندوستانی فرہنگ‘ کے طور پہ متعارف کیا گیا ہے ۔اس کے جو صفحات موجود ہیں ان میں کسی قسم کی ترتیب نہیں ہے لیکن ان میں پائے جانے والے الفاظ اور جملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے زبان اردو سے ناآشنا یہودیوں کے لیے تیار
کیا گیاتھا۔بعید نہیںکہ ’اندرسبھا‘سے دلچسپی رکھنے والے بغدادی یہودی فرقہ کے کسی فرد نے اسے اپنے فرقہ کے اداکاروں کے لیے ہی تیار کیا ہو۔ Rubin نے اس فرہنگ کے تفصیلی مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں بمبئی اور کلکتہ میں بسنے والے بغدادی یہودیوں اور مقامی افراد سے ربط و ضبط کے پیش نظر بھی اس کی اہمیت مسلم ہے ۔ اس کتاب کی تحریر سے یہ بھی باور ہوتا ہے کہ اس کا کاتب اردو اور عبرانی سے بہت اچھی طرح واقف نہیں تھا۔اس پہلو سے دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسے تعلیم یافتہ اردو یا عبرانی داں کے ذریعہ نہیں لکھا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد کاروباری تھا، یعنی کسی طرح بغدادی یہود اردو پڑھنا اور بولنا سیکھ لیں۔ غالبا ً یہی وجہ ہے کہ اس میں الفاظ کے ساتھ ہی مختلف فقروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ANS 03
فنی تخلیق کا عمل اس وقت تکمیل کو پہنچتا ہے جب قوت حواس و ادراک سے پیدا ہونے والے احساسات و جذبات الفاظ و معانی کے لباس میں زیب تن ہو جائے یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ مشاہدات و تجربات کا جو عکس ذہن کے پردے پر نمودار ہوگا اسی کو ذہن ظاہر کرتا ہے۔ ڈراما کو اسی پس منظر میںدیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن دیگر اصناف سخن کے مقابل صنفِ ڈراما ایک مختلف چیز ہے۔ درحقیقت یہ کوئی کتابی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک عمل ہے جو اسٹیج کرکے دکھایا جاتا ہے۔ اس کے اہم فنی عناصر پلاٹ، مکالمے، کردار اور ماحول وغیرہ ہیں۔تعریف ڈراما یونانی لفظ ’’ڈرؤ‘‘ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے کرکے دکھانا یعنی عمل یا ایکٹ کرنا۔ اسی وجہ سے انگریزی میں ڈرامے کے لیے ’’ون ایکٹ یا ٹو ایکٹ‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔شیلڈن چینی کے بقول: ’’ڈراما اس یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’’میں کرتا ہوں‘‘ اور جس کا اطلاق ’’ کی ہوئی چیز پر ہوتا ہے‘‘(بحوالہ: اردو ڈراما اور ناول اصول و فن، طارق سعید، ص ۱۱ سنِ اشاعت ۲۰۱۶)بقول ارسطو: ’’ڈراما انسانی افعال کی ایسی نقل ہے جس میں الفاظ موزونیت اور نغمے کے ذریعے کرداروں کو محو گفتگو اور مصروف عمل ہو بہو ویسا ہی دکھایا جائے جیسے کہ وہ ہوتے ہیں۔ یا ان سے بہتر یا بدتر انداز میں پیش کیا جائے‘‘۔ (بحوالہ: اردو ڈراما اور ناول اصول و فن، طارق سعید، ص۱۲)بقول طارق سعید: ’’ڈراما کسی قصے یا واقعے کو اداکاروں کے ذریعے تماشائیوں کے روبرو پھر سے عملاً پیش کرنے کا نام ہے‘‘۔ (ایضاً ص ۱۲)مذکورہ تعریفات میں کرنا، کیا ہوا، کرکے دکھائی ہوئی چیز، جیسے الفاظ کی تکرار ڈرامے میں ’’عمل‘‘ کی اہمیت کی طرف مشیر ہے۔ ڈراما کے متعلق بات صاف ہے کہ یہ دیگر اصناف سے مختلف ہے اس کی تکمیل بغیر اسٹیج کے مشکل اور ناممکن ہے۔ ڈرامے کے وجود کے اسباب: ڈرامے کے وجود میں آنے کی محرک دو انسانی جبلتیں ہیں، پہلی اظہارِ ذات، اور دوسری لفّاظی۔ اظہار ذات سے مراد انسان کا اپنے احساسات و جذبات اور اپنی کیفیاتت کو دوسروں کے سامنے اظہار کرنا ہے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اپنی بات دوسروں کے سامنے رکھے اور اس سے لطف اندوز ہوں۔ لفّاظی کا مادّہ بھی انسانی فطرت میں ازل سے موجود ہے۔ بچوں کا توتلی زبان میں نقل اتارنا، پاؤں چلنا، کسی کو چڑھانے کے لئے اس کی آواز اور حرکات کی نقل کرنا انسانی فطرت ہے۔بقول ارسطو:’’انسان اسی وجہ سے دوسرے جانداروں سے ممتاز ہے کہ وہ سب سے زیادہ نقال ہے۔ اور اسی کی جبلت کی وجہ اپنی پہلی تعلیم پانا ہے‘‘۔ (اردو ڈراماا ور ناول اصول و فن، طارق سعید، ص ۱۴)ڈرامے کے فنّی عناصر: ڈرامانہ محض مکالمے میں لکھی ہوئی تحریر کا نام ہے، نہ محض واقعات و کردار کا مجموعہ نہ ہی تفریح ہے بلکہ اس کے اجزا میں پلاٹ ، کردار، مکالمہ اور زبان شامل ہیں۔ ساتھ ہی رنگ، صورت، روشنی، سایہ اور سکوت و خاموشی بھی اس کے اہم عناصر ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح عمارت کی تکمیل کے لیے نقشے کے بعد اینٹ، ریت، مٹی، سمنٹ، لوہا، لکڑی، کاری گری اور مزدور کی ضرورت ہوتی ہے۔ساتھ ہی مزید خوبصورت بنانے کے لیے رنگ و پنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔بقول ارسطو ڈرامے کے فنّی عناصر چھ ہیں:۱؎ پلاٹ ۲؎ کردار ۳؎ مکالمہ۴؎ زبان ۵؎ موسیقی ۶؎ آرائشعشرت رحمانی ان فنی عناصر کے متعلق لکھتے ہیں:’’ڈراما میں حسبِ ذیل فنّی لوازم یا اجزائے ترکیبی کا ہونا ضروری ہے اگرا ن میں سے ایک بھی کمزور یا غائب ہو تا ڈراما مکمل شکل اختیار نہیں کر سکتا ۔ ۱؎ پلاٹ(موضوع یا کہانی کامواد) یا نفسِ مضمون ، ۲؎ کہانی کا مرکزی خیال یا تھیم ۳؎ آغاز ۴؎ کردار و سیرت نگاری ۵؎ مکالمہ ۶؎ تسلسل، کشمکش اور تذبذب ۷؎ تصادم ۸؎ نقطہ ٔ عروج، کلائمکس‘‘۔ (عشرت رحمانی، اردو ڈراما کا ارتقاء ص۱۹)۱؎ پلاٹ واقعات کی منطقی ترتیب کو پلاٹ کہتے ہیں یعنی کہانی کو ترتیب دینا پلاٹ کہلاتا ہے۔ کہانی اور پلاٹ میں بنیادی فرق یہ ہوتاہے کہ پلاٹ میں اسباب و علل کا سہارا لیا جاتاہے اور کہانی میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی کو ’’ای ۔ایم فارسٹر‘‘ نے بہت بہترین اور آسان مثال سے سمجھایاہے اور یہ بات واضح ہے کہ تمثیل سے تفہیم میں تسہیل ہوتی ہے۔ مثال ملاحظہ ہو: ’’بادشاہ مرگیا اور رانی مر گئی‘‘ یہ ایک کہانی ہے۔ اسی کو اس طرح کہنا ’’بادشاہ مر گیا اس کے غم میں رانی مر گئی‘‘ یہ پلاٹ ہے۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ ڈرامے میں پلاٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ عمدہ اور اچھے پلاٹ میں واقعات کی ترتیب ایک خاص ڈھنگ کی ہوتی ہے۔ واقعات میں تسلسل، ربط اور ہم آہنگی ہوتی ہے۔ اگر واقعات مربوط ہو تو اکہرے پلاٹ کہلاتا ہے اور مربوط نہ ہو تو تہہ دار پلاٹ کہلاتا ہے۔ بقول امتیاز علی تاج پلاٹ تین طرح کے ہوتے ہیں ۱؎ سادہ ۲؎ مخلوط اور ۳؎ مرکب ملاحظہ ہو: سادہ پلاٹ کے ڈراموں میں واقعات کسی قابل قبول نقطۂ آغاز سے بڑھ کر براہ راست کسی ایسے انجام کو پہنچتے ہیں۔ جیسے بوجھ لینا مشکل نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سادہ پلاٹ کے بہترین ڈرامے عموماً وہ ہوتے ہیں جن میں ایک اٹل انجام کی طرف بے دریغ بڑھنے کا احساس پیدا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مخلوط پلاٹ میں ڈراما ہمواری کی طرح مڑتا ہے کہ نتیجہ توقع کے خلاف نکل آتاہے‘‘۔ (امتیاز علی تاج، رونق کے ڈرامے، دوم، لاہور، ۱۹۴۹، ص۶) یہ بات واضح ہے کہ امتیاز علی تاج نے ابتداً تین پلاٹ کا ذکر کیا ہے مگر تفصیل انہوں نے صرف دو ہی کی بیان کی ہے۔ ڈرامے کے پلاٹ کے متعلق ماہرین لکھتے ہیں کہ اکہرا اور سادہ پلاٹ زیادہ موزوں اور مناسب ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈرامے میں ابتداء، وسط اور آخر واضح طور پر ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے اکثر ناقدین نے پلاٹ کو چھ مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔ طارق سعید کی زبانی ملاحظہ ہو:’’۱؎ آغاز یا تمہید ۲؎ ابتدائی واقعہ ۳؎ عروج کی شروعات ۴؎ عروج یا منتہیٰ ۵؎ تنزل ۶؎ انجام‘‘۔ (اردو ڈراما اور ناول اصول و فن، طارق سعید، ص ۲۰)۱۔ آغاز: آغاز کا مقصد آئندہ آنے والے افعال و اعمال کے متعلق مناسب اشارات کرنا، مواد کے متعلق ضروری واقفیت پیدا کرنا، کرداروں کا تعارف کرانا تا کہ آنے والے واقعات کا سمجھنا آسان اور سہل ہوجائے کوئی الجھن اور دشواری نہ رہے۔۲۔ ابتدائی واقعہ: ابتدائی واقعہ ڈرامے کے عمل میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہیں سے سامعین کے روبرو ڈرامے کا پہلا منظر پیش ہوتا ہے اور ڈرامے میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے کیونکہ کسی بیان یا منظر سے تو ڈراما شروع نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کرداروں کے تعارف سے ہی آغاز کرنامناسب ہے۔ اس لیے ڈرامے کا آغاز ایک ایسے واقعہ کے عمل ہونا ضروری ہوتا ہے جس کے ذریعے سے سامعین کا پورا دھیان ڈرامے کی طرف مبذول کیا جا سکے۔۳۔ عروج: ڈراما اس مرحلہ میں پورے طور پر عروج پر ہوتاہے۔ جہاں ڈرامے کے دوسرے مرحلے میں واقعات کا انتخاب تھا۔ وہیں اس حصے میں ان واقعات کی ترتیب وار پیشکش کی جاتی ہے۔ اس سے پلاٹ میں عجیب قسم کا ایک الجھاؤ ظاہر ہوتا ہے اور سامعین پورے طور پر ڈرامے سے محظوظ ہوتے ہیں۔
۴۔ نقطہ عروج: ڈراما کے اس حصہ میں مختلف اوور متضاد قوتوں کی کشمکش عرووج و کمال پر پہنچ کر ایک ایسی حیثیت اختیار کر لیتی ہے کہ ان میں سے ایک کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے اور قصہ کا انجام نظر آنے لگتا ہے۔ بقول صفدر آہ ’’نقطہ عروج‘‘ غیر متوقع طور پر پلاٹ کے تصادم کو انتہائی کمال کے درجہ کو پہنچنا ہے۔ ان ہی کی زبانی ملاحظہ ہو:’’نقطہ عروج کے معنی ہیں پلاٹ کے تصادم کو خلافِ توقع انتہا کو پہنچ جانا جس سے ذہنی اور جذباتی توازن درہم برہم ہو جائے‘‘۔ (صفد آہ، ہندوستانی ڈراما، دہلی، ۱۹۶۲، ص۲۶۸)۵۔ تنزل: ڈرامے کے اختتام سے پہلے کا حصہ ’’تنزل‘‘ کہلا تا ہے۔ جسے مارڈن ڈرامے میں Anti-Climexکی حیثیت سے متعارف ہے۔ منتہیٰ حصہ میں چیزیں الجھی ہوئی لگتی ہے وہیں اس حصے میں چیزیں سنبھلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جو رفتہ رفتہ انجام کی طرف بڑھتا ہے۔ اور پلاٹ متعین ہو جاتا ہے۔۶۔ انجام: انجام پلاٹ کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ اسی حصہ میں ڈرامائی تصادم کے ایسے پہلو ظاہر ہوتے ہیں جن سے تکمیل کا احساس ہوتا ہے۔ اور اسی حصہ پر آکر ڈراما ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ’’تصادم‘‘ ڈراما کے فنی عناصر کا اہم جزو ہے البتہ اجزائے ترکیبی اس کا شمار نہیں ہوتا ۔ ڈراما خواہ المیہ ہو یا طربیہ اس کے بغیر اس کا وجود میں آنا مشکل ہے۔ تصادم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے یہ کبھی دو قوتوں میں ، دو ارادوں ، یا مقاصد کے درمیان ہوتا ہے، کبھی کرداروں میں ، کبھی کردارو ماحول، کبھی کردار و تقدیر میں ، کبھی ایک سوسائٹی کا دوسری سوسائٹی سے، کبھی نیکی اور بدی میں، کبھی موت اور زندگی میں، کبھی فرض اور محبت میں، کبھی عقائد سے اور کبھی کردار کے اندر کے متضاد رجحانات کا بھی ہوتا ہے۔۲؎ کردار: ’’کردار‘‘ ڈراما میں غیر معمولی اہمیت کردار ادا کرتا ہے۔ ڈراما کا سارا دار و مدار کردار پر ہی ہوتا ہے۔ ڈراما میں کردار تخلیق کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ظاہری سانچہ اور ڈھانچہ بنایا جائے۔ بلکہ نفیسات کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ کردار لکھتے وقت فنکار جس قدر اپنے داخلی جذبات و احساسات کی رنگ آمیزی جتنی کم کرے گا ڈراما اتنا ہی دلچسپ اور مؤثر ہوگا۔ کردار نگاری سے متعلق محمد حسن لکھتے ہیں: ’’ڈراما آپ محض اپنے لیے نہیں لکھتے قلم اٹھاتے ہی آپ کو مختلف کرداروں کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ اور ان میں اکثر کردار آپ کی تخلیق ہونے کے باوجود آپ کی ذات سے الگ اپنا ایک وجود رکھتے ہیں‘‘۔ (محمد حسن، ادبیات شناسی، نئی دہلی، ۱۹۸۹ء ص۔۱۴۸)کرداروں کے جذبات و نفسیات کو نمایاں کرنے اور ان کی شخصیت کو مؤثر بنانے میں مندرجہ ذیل صورتیں معاون ہوتی ہیں:۱۔ کسی کردار کی دوسرے کردار سے گفتگو۔۲۔ کسی کردار کے بارے میں دوسرے کرداروں کا اظہار خیال۔۳۔ واقعات اور ڈرامے کی اندرونی فضا سے کرداروں کی شخصیت پر روشنی پڑنا۔ کردارنگاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کرداروں کی زبانی ایسی گفتگو پیش کی جائے جو عین فطرت ہو۔ تماشائی یہ سمجھے کہ یہ بالکل عام انسانی کردار ہے۔ اور سامعین و ناظرین کی دلچسپی میں اضافہ کا سبب بنے اسی کو آغا حشر کاشمیری لکھتے ہیں: ’’جس طرح کھانے کو مزیدار بنانے کے لیے چٹنی کا استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح ڈرامے کو دلچسپ بنانے کے لیے اس میں بڑے عجیب و غریب کردار پیش کرنے پڑتے ہیں‘‘۔(آغاحشر کاشمیری اور ان کے ڈراموں کا تنقیدی مطالعہ، محمد شفیع، مالیگاؤں،۱۹۸۸ء، ص۔۱۳)
۳؎ مکالمہ: کردار کی طرح مکالمہ بھی ڈرامے میںاہم درجہ رکھتاہے۔ اسی کے ذریعہ کردار ایک دوسرے کردار سے یا سامعین سے مخاطب ہوتاہے، تبادلہ خیال کرتا ہے۔ اسٹیج ڈرامے میں حرکت و عمل اور اجسام کی موجودگی کے مقابلے میں مکالمے کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ ڈرامے میں ’’کیا کہا‘‘ سے زیادہ اہم ’’کیا کیا‘‘ ہوتا ہے بقول ارسطو مکالمہ ایک تاثر ہے وہ اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’تیسرا درجہ تاثرات کو حاصل ہے اس عنصر کا تعلق ان تمام سچی اور مناسب باتوں کے بیان کرنے سے ہے جن کا دارومدار مکالمے میں سیاست اور خطابت کے فنون پر ہے۔ تاثرات میں جو کچھ کہا جاتاہے سب شامل ہے۔(بیان کیا جاتاہے)خواہ وہ کسی امر کو مثبت طریقے پر ثابت کرنے یا منفی طریقے پر یا محض کسی عام رائے کا اظہار کرے‘‘۔ (عزیزاحمد، فنِ شاعری، دہلی ۱۹۷۷ء، ص ۵۶)مکالمہ میںمقتضائے حال اور کردار کے ذہنی سطح کا مکمل خیال رکھا جائے۔ مکالمے میں فطرت معاشرت کی عمدہ عکاسی کے لیے مختلف طبقات کی زبان پر دسترس بھی ضروری ہے۔ اسی طرح مکالمہ موزونیت، تکرار، بے ربطی اور ایہام سے پاک ہو۔۴؎ زبان: ڈرامے میں زبان کامسئلہ بہت ہی مختلف فیہ اور گنجلک ہے۔ ڈرامے میں زبان کی اہمیت دو چند اس لیے بھی ہے کہ ڈراما کرداروں کے عمل و گفتگو کے ذریعے وجود میں آتا ہے اور گفتگو کسی نہ کسی زبان میں ہوتی ہے۔ زبان کے متعلق ارسطو کا کہنا ہے ’’’الفا ظ کے ذریعے تاثرات کے ظاہر کرنے کو زبان کہتے ہیں‘‘”Languages with Pleasureble accessories”(ارسطو، بوطیقا، ترجمہ، عزیزاحمد، فنِ شاعری، دہلی ۱۹۷۷ء، ص ۴۳)ڈرامے کی زبان کی نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ڈرامے کی زبان کا انحصار اس کے موضوع پر ہوتاہے ۔ یا کسی ہلکے پھلکے سماجی مسئلہ پر کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ دونوں موضوع کی زبان میں قدرتاً فرق ہو جائے گا۔ ڈرامے کی زبان میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوگا کہ آیا ڈراما نظم کی شکل میں ہے یا نثر کی شکل میں کیونکہ دونوں کی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ ابتدائی ڈرامے کی زبان منظوم تھی بعدمیں رفتہ رفتہ اس نے نثر کی شکل اختیار کرلی۔ ڈرامے کی زبان صاف، سلیس اور آسان ہو، ایسا محسوس ہو کہ وہ ڈرامے کی زبان ہے، اس سے ڈرامے کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا ، عوام و خواص پر ہر ایک کی وہاں تک رسائی ہو پائے گی۔ قدیم یونانی ڈراما نگار اسکا ئی لیس کا خیال تھا کہ ڈرامے کی زبان بول چال کی زبان سے الگ ہونی چائیے۔ ارسطو بھی اسی خیال کا حامی تھا۔ لیکن یونان کے ہی دوسرے المیہ نگار کا کہنا تھا کہ ڈراما نگار کو چاہیے کہ ڈراما میں روزمرہ کی زبان استعمال کرے۔ کیونکہ ڈرامے کے تماشائی ہر طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ ڈراما نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس بات کو خیال رکھے کہ اس کے ڈرامے کے سامعین اور ناظرین کون لوگ ہو سکتے ہیں؟ ان کی زبان کیا ہے؟ ان کی تعلیمی اہلیت کیا ہے او ران کی پسند و ناپسند کیا ہے؟ ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ڈراما ترتیب دے اور زبان استعمال کرے۔۵؎ موسیقی: موسیقی بھی ڈرامے کے ایک اہم ترین حصہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ جس کاسیدھا اثر سامعین پر مرتب ہوتا ہے۔ ارسطو موسیقی کو پانچواں درجہ دیتا ہے۔ موسیقی کے ذریعہ سے ڈرامے میںخوشی اور غم کا اظہاار کیا جا سکتا ہے۔ کسی کو آگاہ اور خبردار کیا جاسکتا ہے۔ یا کسی پر موسیقی کے ذریعہ وحشت و دہشت کی کیفیت بھی طاری کرائی جا سکتی ہے۔۶؎ آرائش: آرائش ڈرامے میں اثر مرتب کرنے کے اعتبار سے اپنی الگ شناخت رکھتی ہے ارسطو آرائش کو چھٹا اور آخری درجہ دیتا ہے۔ وہ اس کو اہم جز کے طور پر شمار نہیں کرتا۔ اس بابت ارسطو کا خیال ہے کہ اس کا تعلق شاعر سے زیادہ کاریگر سے ہے۔خلاصہ: ’’ڈراما‘‘ مکالماتی تحریر، واقعات و کردار، تخیل کی معراج، اور تفریحی سامان کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس کا تانا بانا پلاٹ، کردار، مکالمہ، زبان، موسیقی، آرائش سے بنا جاتاہے۔ پلاٹ میں اکہرے کا ہونا زیادہ بہتر جانا جاتا ہے۔ ڈرامے میں ابتدا، وسط اور آخر کا واضح ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ڈراما کا سارا دارومدار کردار کی نوعیت و شخصیت پر ہوتا ہے۔ جس طرح کاکھانے کو مزیدار بنانے کے لیے چٹنی کا استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح ڈرامے کو دلچسپ بنانے کے لیے اس میں بڑے عجیب و غریب کردار پیش کیے جاتے ہیں۔ مکالمہ کی حیثیت ثانوی درجہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ڈرامے میں ’’کیا کہا‘‘ سے زیادہ اہم ’’کیا کیا‘‘ ہوتا ہے۔ ڈرامے کی زبان تماشائیوں کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔ صاف، سلیس، آسان ہو۔ موسیقی کے ذریعہ سے ڈرامے میں خوشی و غم کا اظہار ہوتا ہے۔ آرائش بھی ڈرامے میں اپنی ایک شناخت رکھتی ہے۔
ANS 04
اردو ڈراما کی تاریخ میں امتیاز علی تاج کی تخلیق ڈراما ”انار کلی کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔یہ ڈراما پہلی بار 1932میں شائع ہوا۔اس کے بعد اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس ڈرامے کی مقبولیت بر قرار ہے ۔بھارت میں انارکلی کی کہانی کی اساس پر ایک فلم” مغل اعظم “ بنائی گئی جسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا ۔اپنی نوعیت کے لحاظ سے انارکلی ایک ایسی رومانی داستان ہے جس کے حقیقی مآخذ کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت یا دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔خرافات،مفروضات،قیاس اور وہم و گمان کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے تحقیقی منظر نامے کو گہنا دیا ہے ۔ادب کے قارئین اس داستان کے سحر میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ حقائق کی تلاش میں پیہم ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں مگر نشان منزل کہیں نہیں ملتا۔وہی نور جہاں اور جہانگیر کے کبوتروں والا معاملہ ہے جو کبھی تھا ہی نہیں مگر آب حیات کا مطالعہ کرنے والے لوگ اب تک اسے کالنقش فی الجر قرار دیتے ہیں۔انار کلی کی پوری داستا ن ایسے واقعات سے لبریز ہے جو سرے سے کبھی وجود میں ہی نہیں آئے۔سرابو ں کی جستجو میں سرگرداں اور تحقیق سے گریزاں لوگوں کا یہ المیہ یہ ہے کہ وہ آئین نو سے خوف زدہ ہیں اور طرز کہن کی تقلید میں ان کی دلچسپی روز افزوں ہے ۔
ڈراما انارکلی ایک رومانی موضوع پر لکھی گئی داستان کی اساس پر استوار ہے ۔مطلق العنان مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنی منظور نظر کنیز انار کلی کے حسن و جمال اور رقص کا شیدائی ہے ۔نادرہ نامی یہ کنیز قصر شاہی میں اس قدر دخیل ہے کہ تما م امور میں بادشاہ اس کی رائے کو اہمیت دیتا ہے ۔اس کنیز سے بادشاہ نے جو پیمان وفا باندھا وہ اس کی زندگی میں بے حد اہم ہے ۔اس کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب بادشاہ کا بیٹا اور ولی عہد شہزادہ سلیم بھی اسی کنیز کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے جو اس کے باپ کے لیے راحت و آرام کا وسیلہ ہے ۔ ایک طرف تو جلال الدین اکبر کی ہیبت و سطوت کے سامنے یہ کنیز بے بس ہے تو دوسری طرف شہزادہ سلیم کی پر کشش شخصیت او رانداز دلر بائی نے اسے تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے ۔اس کے لیے جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن جاتا ہے ۔ایک طرف تو شہنشاہ جلال الدین اکبر اس کنیز کو اپنی ذاتی ملازمہ سمجھتے ہوئے اس پر بلا شرکت غیرے اپنا استحقاق جتاتا ہے تو دوسری طرف ولی عہد شہزادہ سلیم کی نگاہ انتخاب اس پر پڑ چکی ہے اور اس کہ اپنی شریک حیات بنانے پر تل گیا ہے ۔انارکلی نہایت راز داری سے کام لیتے ہوئے اپنے دونوں عشاق کے دل کی تسکین کا خیال رکھتی ہے ،لیکن عشق اور مشک کبھی چھپائے نہیں چھپ سکتے ۔یہ راز بالآخر ایک اور کنیز دلآرام کی سازش سے طشت از بام ہو جاتا ہے دلآرام جو شہزادہ سلیم سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے ،جب اسے قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا گیا تو وہ رقابت کی آگ میں جلنے لگی اور اس نے انار کلی اور شہزادہ سلیم سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔جلال الدین اکبر اور شہزادہ سلیم میں اس کنیزانار کلی کے حصول کے لیے محاذ آرائی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ دونوں کی افواج آمنے سامنے ہو جاتی ہیں اور ایک جنگ کے بعد شہزادہ سلیم اور انار کلی کو قید کر لیا جاتا ہے ۔شہزادہ سلیم تو محفوظ رہتا ہے مگر انار کلی کو جلال الدین اکبر کے احکامات کے تحت زندہ دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے ۔اس طرح اس پوری کہانی کو ایک المیہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے ایک پورے خاندان اور پوری سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا ۔جنرل مان سنگھ جیسے دلیر سپہ سالار اور معاملہ فہم سپاہی،اکبر جیسے سیاست دان اور منتظم کو اس رومانی داستان نے بے بس و لاچار بنا کر اضطراب میں مبتلا کر دیا ۔یہ تمام سوالات ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے لمحہ ءفکریہ ہیں۔وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ زیب داستاں کے لیے اس داستاں میں بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے ۔یہ سار ا افسانہ کذب و افترا ،بہتان طرازی ،الزام تراشی ،کردار کشی اور بدنیتی پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافی کی قبیح مثال ہے ۔خود امتیاز علی تاج نے اس ڈرامے کی حقیقت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو تاریخی واقعات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی افسانوی حیثیت کو واضح کیا ہے ۔اس سے یہ حقیقت معلو م ہوتی ہے کہ افسانے کبھی حقیقت نہیں بن سکتے ۔اس فرضی ،من گھڑت اور پشتارہءکذب و افترا ڈرامے کے پس منظر کے بارے میں کچھ چشم کشا حقائق پیش خدمت ہیں۔ان کی روشنی میں تا ریخی صداقتوں کی تفہیم اور درست نتائج تک رسائی کی ایک ممکنہ صورت پید ا ہو سکتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ انار کلی کا واقعہ 1599میں وقو ع پذیر ہوا ۔یورپی سیاح ولیم فنچ جو 1618میں لاہور پہنچا،اس نے اپنی یاد داشتوں میں اس المیے کا ذکر بڑے دردناک انداز میں کیا ہے ۔اس نے پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اس من گھڑت واقعے کے ذریعے مغل شہنشاہ اکبر کو بد نام کیا جائے ۔اس نے اکبر کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔انگریزوں کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ مشرقی تہذیب و تمدن کی رسوائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اس کے بعد 1618میں ایک اور یورپی سیاح ایڈورڈ ٹیری لاہور آیا ،اس نے بھی اپنے پیش رو سیاح ولیم فنچ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس فرضی داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا۔دراصل یہ ایک سازش تھی جسے مسلسل آگے بڑھایا جا رہا تھا ۔چار سال بعد یعنی 1622میں یورپ سے سیاحت کی غرض سے آنے والے ایک اور سیاح ہربرٹ نے بھی اس قصے کو اپنی چرب زبانی سے خوب بڑھا چڑھا کر بیا ن کیا ۔اس کے باوجود کسی نے ان بے سروپا الزامات اور ہف وات پر کان نہ دھر ا ۔اس زمانے میں ادب کے سنجیدہ قارئین نے اس قسم کے عامیانہ نوعیت کے بیانات کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا۔ پورے دو سو سال تک بر صغیر کے لوگ اس قصے سے لا علم رہے کسی غیر جانب دار مورخ کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا ۔نور الدین جہانگیر نے تزک جہانگیری میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا۔اس عہد کے ممتاز مورخ والہ داغستانی اور خافی خان جو اکبر اور جہانگیر کی معمولی نوعیت کی لغزشوںپر بھی نظر رکھتے تھے ،انھوں نے بھی کسی مقام پر اس قصے کو ذکر نہیں کیا۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام قصہ محض تخیل کی شادابی ہے ۔یورپی سیاحوں نے اپنی منفی سوچ کو بروئے کا لاتے ہوئے سازش کا جو بیج بویاوہ رفتہ رفتہ نمو پاتا رہا ۔1864میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی تصنیف ” تحقیقات چشتی “ میں انار کلی اور اکبر کے اس رومان کا ذکر کیا ہے ۔1882میں کنہیا لال ہندی نے اپنی تصنیف ”تاریخ لاہور “ میں انار کلی ،اکبر اور سلیم کے اس المیہ قصے کا احوال بیان کیا ہے ۔یہ سلسلہ مقامی ادیبوں کے ہاں ایک طویل عرصے کے بعداس قصے کی باز گشت سنائی دینے لگی ۔سید محمد لطیف نے بہت بعد میں انار کلی اور اکبر کے اس المیے کا ذکر اپنی تصنیف (History of Lahore )میں کیا ہے ۔یہ انگریزی کتاب 1892میں شائع ہوئی۔تاریخ حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انار کلی ،اکبراور سلیم کا یہ رومانی المیہ جسے ابتدا میںیورپی سیاحوں نے محض تفنن طبع کے لیے اختراع کیا ،آنے والے دور میں اس پر لوگوں نے اندھا اعتماد کرنا شروع کر دیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کو خرافات کے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔دروغ گوئی کے اس طوفان بلا خیز میں بسیط حقائق اب عنقا ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔اس لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں ادبی تحقیق پر مائل ادیب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دیکھیے اب خفاش ، افسانہ طراز ،چربہ ساز او رکفن دزد عناصر کیا گل کھلاتے ہیں اور نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے ہاںتحقیق کی روشنی میں موضوعات کو جانچنے کی روایت اب توجہ طلب ہے ۔
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
آثار قدیمہ،تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوت اس تمام المیہ ڈرامے کو جھوٹ کا پلند قرار دیتے ہیں ۔وہ دیوار جس کے بارے میں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ اس میں انار کلی کو زندہ دفن کیا گیا ۔اس کے آثار لاہور شہر
میں کہیں موجود نہیں ۔انار کلی کے تنازع پر جنرل مان سنگھ اور شہزادہ سلیم کی مسلح افواج کے درمیان جو خونریز جنگ ہوئی اس کے میدان جنگ ،مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں۔یہ بھی معلوم نہیں کہ شہزادہ سلیم اپنے ساتھ جو لشکر جرار لایا اس کی فوری بھرتی کیسے ممکن ہو سکی ۔جنرل مان سنگھ تو مغل افواج کی کمان کر رہا تھا شہزادہ سلیم نے ایک بڑی فوج کہاں سے حاصل کی او راس کی تنخواہ اور قیام و طعام کا بندوبست کیسے ہوا ؟جنرل مان سنگھ کی کامیابی کے بعد شہزادہ سلیم کی حامی اور اکبر کی مخالف فوج پرکیا گزری؟کیا اکبر کی سراغ رسانی اس قدر کم زور تھی کہ اسے دلآرام کے علاوہ کسی سراغ رساں نے اس بات کی مخبری نہ کی کہ ولی عہد شہزادہ ایک کنیز کے چنگل میں پھنس کر بغاوت پرآماد ہ ہو سکتا ہے ۔کیا اکبر اعظم کا نظا م سلطنت اس قدر کم زور تھا کہ اسے اپنے خلاف سازش اور بغاوت کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔یہ سب سوال ایسے ہیں جو اس قصے کو نہ صرف من گھڑت ثابت کرتے ہیں بلکہ اسے یورپی سیاحوں کی بد نیتی اور ذہنی افلاس پر مبنی ایک صریح جھوٹ قرا ردیتے ہیں ۔
لاہورسول سیکرٹیریٹ میںجو انارکلی کے نام سے موسوم ہے وہ انار کلی کا مقبرہ نہیں بلکہ زین خان کوکہ کی صاحب ذادی ”صاحب جمال “کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ شہزادہ سلیم کی منکوحہ تھی ۔ اس کا مقبرہ شہزادہ سلیم نے اپنے عہد میں تعمیر کروایا ۔امتیاز علی تاج نے ولیم فنچ کے بیان کو بنیاد بنا یا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ اور تخلیق ادب کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں ۔ فرد کی اجتماعی زندگی مختلف نوعیت کے حالات کی امین ہوتی ہے ۔ زندگی میں تغیر و تبدل کا ایک نظام موجود ہے اور اجتماعی زندگی انہی قوانین کے زیر اثر رہتی ہے ۔وادی ءخیال کو مستانہ وار طے کرنے والوں کہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ شعور و ذہن کا ارتقاتاریخ کے ایک ایسے مسلسل عمل کی جانب متوجہ کرتا ہے جو فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرنے کا مﺅثر ترین وسیلہ ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے تاریخ او ر تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں بلاشبہ مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کی ہے ۔ان کے اسلوب میں تاریخی شعور کا جو منفرد انداز جلوہ گر ہے وہ زندگی کی ایسی معنویت کا مظہر ہے جو نئی بصیرتوں کی امین ہے ۔ہیگل نے لکھا ہے۔”چونکہ انسانی آزادی اور حساس آزادی ایک چیز ہے لہذا آزادی کا ارتقا کا شعور ذہن کا ارتقا ہے۔ اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں ۔ اس لیے فلسفہ تاریخ صرف انسانی عمل ہی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔“(1)
تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہو ا کرتا ہے یہ ڈراما اسی جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں ۔سکندر ،دارا اور اکبر سب تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔اور ان کے نام پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ جاتی ہے اور سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔
ڈرامہ انارکلی امتیاز علی تاج نے 1922میں مکمل کیا۔ اس کی اشاعت دس سال بعد ہوئی۔اس ڈرامے کو تاریخ کا معتبر حوالہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس ڈرامے کے اہم پہلو حسب ذیل ہیں:
پلاٹ
سید امتیاز علی تاج کو زبان و بیان پر خلاقانہ دستر س حاصل تھی ۔ ڈراما انارکلی کا پلاٹ سادہ اور مؤثر ہے۔ تخلیقی عمل میں ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے امتیاز علی تاج نے نہ صرف کہانی کا تسلسل برقرار رکھا ہے بلکہ پلاٹ کی ضروریات کے مطابق کشمکش، حیرت و استعجاب اور جستجو کا بھی خیا ل رکھا ہے ۔قاری ہر لمحہ اس فکر میں رہتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔ امتیاز علی تاج کو مورخ سمجھناایک غلطی ہوگی۔ایک ڈراما نگار اور فکشن رائٹر سے تاریخی حقائق کی چھان پھٹک اور سچے واقعات کی تحقیق کی توقع رکھنا نہ صرف نا مناسب ہے بلکہ ادبی اسلوب کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے ۔وہ ایک صاحب طرز نثر نگار تھے ۔انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کے اعجاز سے ڈراما انار کلی میں جس طرح تخیل کی جولانیا ں دکھائی ہیں وہ اس ڈرامے کو لا زوال بنا چکی ہیں ۔اگرچہ ڈراما انار کلی کا پلاٹ تاریخی صداقتوں سے معرا ہے مگر اسلوبیاتی حوالے سے یہ پلاٹ اس قدر پر تاثیر اور جان دار ہے کہ قاری اس کی گرفت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔
مکالمہ نگاری
ڈراما انار کلی کے مکالمے پتھروں سے بھی ااپنی تاثیر منوالیتے ہیں۔مثلاً اکبر کا یہ کہنا ” آہ ! میرے خواب ۔ وہ ایک عورت کے عشووں سے بھی ارزاں تھے ۔ فاتح ہند کی قسمت میں ایک کنیز سے شکست کھانا لکھا تھا ۔“
مکالموں میں جذبات کا ایک سیل رواں ہے جو امڈا چلا آتا ہے ۔ قاری اس سیل رواں میں بہتا چلا جاتا ہے ۔ کرداروں کا دبنگ لہجہ بادل کی طرح کڑکتا ہے اور بجلی کی طرح چمک کر نگاہوں کو خیرہ کر دیتا ہے ۔کرداروں کی خود کلامی قاری کو مسحورکردیتی ہے ۔یہ خود کلامی داخلی کرب اور جذباتی شکست و ریخت کا پورا احوال سامنے لاتی ہے ۔ مثلاً:
انارکلی : ” میری ا ماں ! میں خوش ہونے والاسے دل کہاں سے لاﺅں ؟ تمھیں کیسے سمجھاﺅں کہ میں کیوں غمگین ہوں؟“
سلیم : سب کچھ ہو چکا ، انھیں سب معلوم ہوگیا ۔ محبت بچھڑ گئی ، آرزوئیں اجڑ گئیں“
انارکلی کی ایک اور خود کلامی قابل توجہ ہے،اس میں وہ اپنے گلے میں اپنی ہی باہیں ڈال کر مرگ آرزو کا ماتم کرتی نظر آتی ہے ۔اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے اور تڑپ کر پکار اٹھتی ہے :
”ٹوٹ جا۔ نیند ٹوٹ جا ، میں تھک گئی ، سانس ختم ہو جائیں گے“
اکبر کی خود کلامی میں اندیشہ ہائے دور دازاور مستقبل کے حادثات اور تفکرات کے متعلق نہایت پر اسرار گفتگو ہے جو قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے اس قسم کی خود کلامی کے ذریعے اپنے اسلوب کی تاثیر کو دو آتشہ کر دیا ہے ۔قاری پہلے تو اس تما م کیفیت کو حیرت سے دیکھتا ہے س کے بعد وہ گہری سو چ :میں ڈوب جاتا ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے اکبر کی خود کلامی کالفظی مرقع جس انداز پیش کیا ہے وہ اس بادشاہ کے اندرونی کرب اور ذہنی پریشانی کو صحیح کیفیت میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے :
” میرے دماغ میں شعلے بھڑک رہے ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کیا کر بیٹھوں گا،مگر وہ اس صدمے کی طرح مہیب ہو گا ۔“
سید امتیاز علی تاج کو نفسیاتی کیفیات اور قلبی احساسات کے بیان پر جو قدرت حاصل ہے وہ ان کے اسلوب کا نمایاں ترین وصف ہے ۔مثال کے طور پر خود کلامی کرنے والے کردار در اصل اپنے داخلی کرب اور اندرونی کش مکش کو اپنے مکالمات کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔شہزادہ سلیم کی خود کلامی سن کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شہزادہ کن اندیشوں کے نرغے میں ہے :
”کیسی گہری اور اندھیری کہر ،جس میں خون کے جلتے ہوئے دھبے ناچ رہے ہیں او راس پار زرد چہرہ،پھٹی ہوئی آنکھیں اور سلیم !سلیم !کی فریاد “
جس وقت انار کلی کو اکبر کے حکم کے تحت قلعہ لاہور کے زندان کے عقوبت خانے میں قید کیا جاتا ہے تو وہ بے بسی کے عالم میں سلیم کو پکارتی ہے ۔اس کی یہ دردناک آواز قاری کی روح پر گہرا اثر مرتب کرتی ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے ان ہراساں شب و روز کا احوال بیان کرتے ہوئے تمام نفسیاتی پہلوﺅں کہ پیش نظر رکھا ہے :
”آجاﺅ!تمھاری انار کلی تمھیں دیکھے بغیر نہ گزر جائے “
سید امتیاز علی تاج نے ڈراما انار کلی میںمکالمہ نگاری کے فن کو اوج کمال تک پہنچا دیا ہے ۔تمام کردار موقع اور محل کی مناسبت سے جو گفتگو کرتے ہیں وہ نہ صرف ان کے حسب حال ہوتی ہے بلکہ اسے سن کر قاری کی آنکھیں بھی پر نم ہو جاتی ہیں۔سید امتیاز علی تاج نے فنی تجربوں کے اعجاز سے ڈراما نگاری کو نئے امکانات سے آشنا کیا ۔کردار نگار ی اور مکالمہ نگاری میں انھوں نے جو منفرد تجربات کیے ہیں ان سے اردو ڈراما کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے ۔ڈرامہ نگاری میں نت نئے تجربات ان کی ادبی زندگی کا عشق قرار دیئے جا سکتے ہیں۔انھوں نے ڈرامہ نگاری میں پائے جانے والے جمود اور یکسانیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اور افکار تازہ کی ایسی شمع فروزاں کی جس کی ضیاپاشیوں سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات روشن تر ہوتے چلے گئے ۔ شہنشاہ ہند جلال الدین اکبرکی خود کلامی اور ذہنی کیفیت کے بیان میں ایک بلند پایہ تخلیق کار کی حیثیت سے سید امتیاز علی تاج نے اپنے نادر اسلوب سے قاری کو محو حیرت کر دیا ہے ۔جب شہزادہ سلیم انار کلی کی محبت میں اپنے باپ سے آمادہءپیکار ہو جاتا ہے تو اکبر کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔اسے یہ دیکھ کر شدید رنج ہوتا ہے کہ ایک رقاصہ نے اس کے بیٹے کو بغاوت پر آمادہ کر لیا ۔وہ فرط غم سے نڈھال ہو کر اپنے بیٹے سے کہتا ہے ؛
”کیا معلوم تھا یوں ہو گا شیخو !میرے مظلوم بچے !میرے مجنون بچے !اپنے باپ کے سینے سے چمٹ جا!اگر ظالم باپ سے دنیا میں ایک بھی راحت پہنچی ہے تیرے سر پر اس کا ایک بھی احسان باقی ہے تو میرے بچے اس وقت میرے سینے سے چمٹ جا اور تو بھی آنسو بہا اور میں بھی آنسو بہاﺅں گا“
سید امتیاز علی تاج نے ڈراما کے اسلوب اورہیئت کے جمالیاتی پہلوﺅں پر بھر پور توجہ دی ہے ۔ان کے اسلوب میں جدت ،تنوع اور صد رنگی کی کیفیت قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے ان کی انفرادیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔یہ انفرادیت کئی لحاظ سے ایک دلکش تجربے کے روپ میں ڈرامے کو معراج کمال تک پہنچا دیتی ہے ۔اس میں عصری آگہی ،اجتماعیت ،لفظی مرقع نگاری اور نفسیاتی شعور کے اعجاز سے قاری کے دل میں تخلیق کار کے ساتھ ایک گہرا ربط پیدا ہو جاتا ہے ۔اکبر کا یہ مکالمہ کس قدر کرب ناک ہے ۔اس کو سید امتیاز علی تاج نے کس قدر پر تاثیر انداز میں پیش کیا ہے :
”آہ !میرے خواب ۔وہ ایک عورت کے عشوﺅں سے بھی ارزاں تھے ۔فاتح ہند کی قسمت میں ایک عورت سے شکست کھانا لکھا تھا ۔“
سید امتیاز علی تاج نے ڈراما انار کلی کو موضوع ،مواد ،حسن بیان ،مکالمہ نگاری اور کردار نگاری کے انتہائی دلکش انداز کی بدولت ابد آشنا بنا دیا ہے ۔ان کی نیت طیبہ نے اس تخلیق کو وہ منفرد مقام عطا کیا ہے کہ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام نصیب ہو گئی ہے ۔سید امتیاز علی تاج نے معاشرتی زندگی کی بے سمتی اور فکری کجی کے متعد د پہلوﺅں کو اس ڈرامے میں ہدف تنقید بنایا ہے ان کی موزوں طبع نے ہر کردار کو لا زوال بنا دیا ہے ۔اکبر جو اس ڈرامے کا سب سے بڑا المیہ کردار ہے اس کے بارے میں یہ طے ہے کہ سید امتیاز علی تاج نے اسے اس تمام المیے میں اہم ترین مقام دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پورا ڈراما ہی اکبر کا المیہ بن کر سامنے آتا ہے ۔اس ڈرامے میں حسن و رومان کے تذکرے اپنی جگہ ،رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارو ں کی دلکشی بجا لیکن ایک مطلق العنان شہنشاہ کی ہزیمت اور وہ بھی ایک ا دنیٰ کنیز اور اپنے لخت جگر کے ہاتھوں اسے اکبر کا لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ بنا دیتا ہے ۔اکبر کے ان الفاظ پر غور کریں جو وہ اپنے لخت جگر سے کہتا ہے :
”مجھے چھو مت !ایک دفعہ باپ کہہ دے ۔صرف ابا کہہ کر پکار لے !میں تجھے خنجر لا دوں ۔ہاں خنجر لا دوں ،بیٹا یہ بد نصیب باپ جسے سب شہنشاہ کہتے ہیں،اپنا سینہ شگاف کر دے گا ،خنجر اس کے سینے میں گھونپ دینا،پھر دیکھ لے گا اور دنیا بھی دیکھے گی کہ اکبر باہر سے کیا ہے اور اندر سے کیا ہے۔“
سید امتیاز علی تا ج نے ڈراما انار کلی میں المیہ کی جو کیفیات پیش کی ہیں ان میں نفسیاتی ،اخلاقی اور تاریخی المیہ کو بہ طور خاص اجا گرکیا گیا ہے ۔یہ ڈراما ہر اعتبار سے اکبر کا المیہ ہے جو قدم قدم پر غم و اندہ سے دوچار نظر آتا ہے ۔اس کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہجوم یاس کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اس کا دل گھبرا گیاہے ۔جب اس کی کوئی امید بر نہیں ٓاتی اور سکون قلب کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ جھنجلا جاتا ہے اور بے رحمانہ انتقام پر اتر آتا ہے ۔یہی اس کا المیہ ہے ۔جب وہ یہ فیصلہ صادر کرتا ہے تو وہ کس قدر شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے :
”جس طرح اس نے میری اولاد کو مجھ سے جدا کیا ،یوں ہی وہ اپنی ماں سے جدا ہو گی ۔جس طرح اس نے مجھے عذاب میں ڈالا یوں ہی وہ عذاب میں مبتلا کی جائے گی ۔جس طرح اس نے میرے ارمانوں اور خوابوں کو کچلاہے ،یوں ہی اس کا جسم کچلا جائے گا ۔لے جاﺅ!اکبر کا حکم ہے ،سلیم کے باپ کا ،ہندوستان کے شہنشاہ کا ،لے جاﺅ اس حسین فتنے کو ،اس دل فریب قیامت کو لے جاﺅ!گاڑ دو، زندہ دیوار میں گاڑ دو۔
۔مجید امجد نے سچ کہا تھا :
مرمریں قبر کے اندر تہہ ظلمات کہیں
ملخ و مور کے جبڑوں میںسلاطیں کے بدن
آج بھی قہقہے جشن مناتے ہوئے نادانو ں کے
جب کسی ٹوٹتی محراب سے ٹکراتے ہیں
مرقد شاہ کے مینار لرزجاتے ۔
superb