ANS 01
عبداللہ حسین مرحوم صفِ اول کے ایک اہم ناول نگار تھے۔ ان کی پہلی اردو ناول’’ اداس نسلیں ‘‘ اردو کے چند اچھے ناولوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دو ناولیں ’’ باگھ ‘‘ اور ’’ نادار لوگ ‘‘ ہیں۔ ان کے چند افسانے بھی مقبول ہوئے۔ ۱۹۳۱ میں پیدا ہوئے اور ۴ جولائی ۲۰۱۵ میں وفات پائی۔ مندرجہ ذیل تحریر ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔( عبداللہ جاوید)
عبداللہ حسین کی ناول ’’ اداس نسلیں‘‘ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ’’ برٹش انڈیا ‘‘ سے متعلق ہے دوسرا ہندوستان کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے۔ اس حصہ کی ابتدا میر کے ایک نشتر سے ہوتی ہے
افسردگیٔ سوختہ جانا ہے قہر میرؔ
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے پیاس
تیسرا حصہ ’’ قرآنِ مجید کی ایک آیت سے شروع ہو تا ہے جس کا ترجمہ ہے۔ ’’ جب ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ تو وہ کہنے لگے کہ ہم ایمان والوں میں سے ہیں۔ ‘‘ ناول کی اس تقسیم کے بارے میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ در حقیقت یہ تقسیم غیر ضروری اور مصنوعی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مصنف نے اس تقسیم کے ذریعہ ناول کو اور خاص طور پر ناول کے پلاٹ کو قاری کے لئے زیادہ سے زیادہ قابلِ فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔ در حقیقت ناول ابتدا سے آ خر تک ایک اکائی ہے گو اس کا اختتام قدرتی نہیں بلکہ ایک قسم کی فنی ضرورت کے طور پر ہوتا ہے۔جب اس کے اختتام پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ناول کا موضوع ہندوستان ہے۔ ہندوستان جو برطانوی حکومت کے زیرِ نگیں تھا۔ ہندوستان جو آزادی کی جانب قدم بہ قدم رواں تھا اور ہندوستان جو آزادی کی بیش بہا دولت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے تاخت و تاراج ہو کر رہ گیا ۔
بادیٔ النظر میں یوں لگتا ہے کہ مصنف ہندوستان کی تاریخ لکھ رہا ہے لیکن تاریخ کو ناول میں تبدیل کر دینا یا ناول کو تاریخ بنا دینا، مصنف کی صلاحیتوں سے خارج ہے۔ در حقیقت موجودہ دور میں اردو زبان میں جو کچھ بھی ناول کے بہانے لکھا جا رہا ہے قرۃالعین حیدر کی عظیم تخلیق ’’آگ کا دریا‘‘ کے اثرات سے باہر نہیں ہو سکتا۔’’ اداس نسلیں ‘‘ ہو یا ’’ تلاشِ بہاراں‘‘ ’’ آگ کادریا ‘‘کا عکس قریب قریب ہر ناول میں جھلکنے لگتا ہے۔ ایک لحاظ سے ’’ تلاشِ بہاراں ‘‘ کو ہم آگ کا دریا کے اثر سے گریز کرنے کی کامیاب کوشش قرار دے سکتے ہیں۔’’ اداس نسلیں ‘‘ تو کسی بھی صورت میں ’’ آگ کا دریا ‘‘کی فنی خوشہ چینی کے الزام سے بری قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہی اس ناول کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا پلاٹ ’’ آگ کا دریا ‘‘ کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسلوب اور بیان کے اعتبار سے عبداللہ حسین ، قراۃالعین حیدر سے بہت کم متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم اس ناول کے چند ابواب ایسے بھی ہیں جن کو پڑھنے سے مس حیدر کی تحریروں کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے۔’’ روشن محل ‘‘ در اصل مس حیدر کے فنی حدود میں واقع معلوم ہوتا ہے۔’’ روشن محل ‘‘ کے درو دیوار اور سارا ماحول یہاں تک کہ اس کے رہنے والے قرۃ العین حیدر کی تصنیف سے قریبی طور پر منسلک معلوم ہوتے ہیں۔ یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ مصنف نے اس ناول کی تصنیف میں مختلف النوع فنی تجربات کئے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے تجربات ہر کسی کے بس کی بات نہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مصنف نے انواع و اقسام کے اسالیب فن کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس ناول کی فنی بو قلمونی در اصل ایک طرح کی خوشہ چینی کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ خوشہ چینی کسی مخصوص غرض سے نہیں کی گئی۔ بلکہ یوں لگتا ہے جیسے مصنف نے فن کے بے شمار لہلہاتے کھیتوں اور طرح طرح کے پھولوں اور پھلوں سے بھرے ہوئے باغوں پر چھاپا مارا ہے۔ یہ ناول ایک آئینہ خانہ ہے جس میں بے شمار عظیم مصنفوں کی تحریروں کا عکس اتر آیا ہے۔ یہاں پریم چند سے لے کر قرہ العین حیدر تک اردو کے گنے چنے مشہور ناول نگار جلوہ فرما نظر آتے ہیں۔ اردو کے علاوہ مشہور انگریزی اور امریکی ادیب بھی کہیں نہ کہیں اپنی جھلک دکھاتے اور پھر چھپ جاتے ہیں، خاص طور پر ’’ ہمینگوے ‘‘ تو بار بار اپنے وجود کا احساس دلاتا جاتا ہے۔ بے شمار مقامات ایسے ہیں جہاں ہمینگوے کی چھاپ واضح طور پر محسوس ہونے لگتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبداللہ حسین ایجاز و اختصار کے معاملے میں ہمینگوے کی تقلید کو شائد نا ممکن سمجھ کر اس سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عبداللہ حسین غیر ضروری تفاصیل اور جزئیات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کیونکہ اصل احساس اور بنیادی جذبہ کا ابلاغ نہیں ہوتا۔ اس ناول کے عنوان سے لے کر جزئیات تک جگہ جگہ ہمینگوے اور دوسرے گمشدہ نسل کے امریکی ادیبوں کا اثر صاف طور پر نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ اس ناول کو جس جس طرح بعض مقتدر اہلِ قلم نے سراہا ہے وہ کچھ نا قابلِ فہم معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ ناول در حقیقت سوائے طوالت اور غیر ضروری جزئیات نگاری کے کسی اور صفت کی حامل نہیں ہے۔ اس ناول کے بارے میں کہنا درست ہو گا کہ خارو خذف کے ایک عظیم انبار میں کہیں کہیں چند موتی چھپے ہوئے ملتے ہیں اور یہ موتی بھی ایسے موتی ہیں جو مانگے کی آب و تاب سے مزین ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ناول علی پور کا ’ ایلی ‘ کی مانند قطعی ناکام کوشش ہے۔ کیونکہ بہر حال اس کا موضوع ایک بہت بڑا موضوع ہے اور موضوع نے کسی نہ کسی طرح اس ناول کو تھوڑی بہت عظمت ضرور بخشی ہے۔ اردو کے ناولوں میں بہر نوع اس ناول کا ایک مقام ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ایک الم ناک حقیقت ہے کہ آگ کا دریا کے بعد اس ناول کا شائع ہونا یوں لگتا ہے جیسے ہم آگے کی جانب قدم اٹھانے کے بجائے پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ خواہ پلاٹ اور کہانی کے اعتبار سے خواہ زبان و بیان اور فن کے لحاظ سے ہم ناول کا موازنہ ’’ آگ کا دریا ‘‘ سے کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے مصنف نے ایک غیر ضروری کام انجام دیا ہو۔ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ’’ اداس نسلیں‘‘ اپنی تمام تر اداسیوں کے باوجود ایک طرح سے مثبت انداز میں ختم ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ مصنف کو تھوڑا بہت احساس ضرور ہے کہ
؎ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔
چونکہ کسی چیز کا کہیں اختتام نہیں زندگی ایک رواں دواں حقیقت ہے۔ انت کہیں نہ کہیں، اس لئے
’’ اداس نسلیں ‘‘ ہمیشہ اداس نہیں رہتیں، بلکہ اپنے اندر کچھ ایسی قوتیں چھپائے رکھتی ہیں جو بالآ خر مثبت اقدار کو آگے بڑھانے میں مدد دینے لگتی ہیں۔
نعیم احمد خان اس ناول کا مرکزی کردار ہے یہ ایک مخصوص فرد ہے اور انفردیت کا ایسا ہی مالک ہے جیسا کہ خاص آدمی ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر انفرادیت کے باوجود وہ ایک نمائندہ کردار بھی ہے ایک سمبل ہے، ایک اشارہ ہے، ایک ایسا انسان ہے جو زندگی میں مرجاتا ہے اور مر کر زندہ ہو جاتا ہے۔ جب تک وہ زندگی میں موت سے ہم کنار رہتا ہے اس کا بھائی علی اس سے منحرف اور برگشتہ رہتا ہے۔ لیکن اس کی موت کے بعد علی، نعیم کی اولاد معنوی کے روپ میں زندہ رہتا ہے اور بٹوارہ کے بعد قافلہ کے ساتھ پاکستان آتے ہوئے وہ نعیم سے وہ سب کچھ حاصل کر لیتا ہے جو نعیم کی زندگی کے سارے تجربات کا نچوڑ ہے۔ پاکستان میں علی ایک نئی زندگی کی تعمیر شروع کرتا ہے اور اس سلسلہ میں وہ جس عورت کو اپنی رفیقِ حیات منتخب کرتا ہے وہ شیلا ہوتی ہے۔ اس طرح گویا نعیم حیات کی تجدیدی قوتوں کا نشان بن کر علی کے روپ میں منفی اقدار سے مثبت اقدار کی طرف رجعت کرتا ہے۔ نعیم کا کردار ایک ققنس کی مانند زندہ و جاوید کردار ہے۔ ققنس در حقیقت کبھی نہیں مرتا جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو دیپک راگ چھیڑ دیتا ہے اور اس کی منقار سے چنگاریاں برستی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ جل کر ایک مشت خاک میں بدل جاتا ہے، لیکن اس مشت خاک سے دوسرا ققنس جنم لیتا ہے۔ اس طرح حیات کا تسلسل نہ صرف قائم رہتا ہے بلکہ زندہ قوتوں کا نمود ہونے لگتا ہے اور تجدید حیات ہوتی ہے۔ نعیم اور علی کا کردار وںکاتضاد اور مشابہت در حقیقت مصنف کی تخلیقی قوتوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس مقام پر مصنف نے در اصل زبر دست کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ اس ناول کی عظمت کا دارو مدار نعیم اور علی کے کرداروں پر ہے۔ گو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ ہمینگوے کی مشہور تخلیق ’’ بوڑھا اور سمندر‘‘ میں سائٹیا گو (Santiago ) اور Mavalin کا کردار نعیم اور علی سے ایک عجیب مشابہت پیش کرتے ہیں۔ یہ کہنا شاید مناسب نہیں کہ عبداللہ حسین نے یہاں بھی خوشہ چینی کی ہے پھر بھی فکر کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو اس ناول کے تمام کردار Passive حقیقت رکھتے ہیں۔ یعنی ان پر طرح طرح کے واقعات گزرتے رہتے ہیں، وقت کا تموج ان کے خدوخال میں نمایاں تغیرات پیدا کرتا ہے۔ نعیم کا کردار بھی اس مفعولیت سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ نعیم کے والد کے کردار میں بھی یہی ایک خصوصیت سب سے زیادہ واضح دکھائی دیتی ہے۔ اگر دیہات کے باشندوں کی خصوصیت پیش کی جاتی کہ وہ زندگی کے مختلف النوع عوامل سے صلح کر لیتے ہیں اور جو کچھ ان پر گزرتی ہے اس کو قبول کر تے ہیں تو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہوتی، کیونکہ دیہاتیوں کی زندگی ایک طرح سے فطرت کے بالکل قریب تر ہے۔ دیہاتی ابھی تک ماقبل تاریخ کے انسان سے بہت زیادہ مشابہ ہے۔ کیونکہ اس کا واسطہ زمین سے ہے، مٹی جو سونا اگلتی ہے جس کی زرخیزی کا دارو مدار نہ صرف انسان کی مساعی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آسمان کی کر م فرمائی سے بھی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیہات میں انسان ابھی تک عوامل اور حالات کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں انسان غیر شعوری طور پر حقیقت پسندانہ رجحانات پیدا کر لیتا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ شہر کے رہنے والے دیہاتی زندگی کے بارے میں انتہائی رومانی انداز میں سوچتے ہیں جب کہ دیہاتی انسان خالص غیر رومانی اور حقیقت پسندانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس ناول میں دیہاتی کرداروں میں بعض ناگزیر عوامل کو قبول کرنے کا رجحان عام تھا۔اور یہ بات قابلِ اعتراض نہیں لیکن عذرا کے کردار میں اس قسم کے عناصر کا وجود نا قابل فہم ہے۔ در اصل عذرا کے کردار کی تشکیل اور اس کی نمو میں مصنف بری طرح ناکام ہوا ہے، خاص طور پر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ عذرا جو اس ناول کے ابتدا میں روشن محل کے ایک مخصوص پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر قہوہ پیتی ہے، اس عذرا سے مختلف ہوتی ہے جو نعیم کی بیوی کے طور پر ناظرین کے سامنے آتی ہے۔ عذرا کے بارے میں یہ احساس تو ضرور ہوتا ہے کہ وہ نعیم پر کسی نہ کسی طرح قابو حاصل کر لیتی ہے، یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ نعیم کو بربادی کے راستے پر بھی لے جانے کی ذمہ دار ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ عذرا پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ نعیم در حقیقت عذرا کے سامنے ایک عظیم اور تباہ کن احساس کمتری میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نعیم اس جھینپ کو کبھی دور نہ کر پایا جو اس نے اپنی ٹوپی کے پھندنے میں محسوس کی تھی، جو بار بار اس کی پیشانی پر گرجاتا اور جس کے بارے میں عذرا نے ہلکا سا اشارہ کر کے اس کو لال لال کر دیا تھا۔ نعیم روشن محل کے ہجوم ( Crowd ) میں اپنے آپ کو شامل نہیں کر سکا اور یہی اس کی بربادی کا سبب ہے۔ روشن محل کے لڑکے لڑکیوں کا گروپ قرۃالعین حیدر کی تحریر کی یاد دلاتا ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو ہمینگوے کے ناول The Sun Also Risesکی جانب بھی اشارہ کر سکتے ہیں۔ ناول کے آخری حصے میں یعنی ( بٹوارہ کے بعد) مصنف نے قارئین پر یہ احساس مسلط کرنے کی کوشش کی ہے کہ عذرا ایک عظیم عورت ہے، لیکن یہ بات کم از کم ناول کے واقعات سے ظاہر نہیں ہوتی۔عذرا کے کردار میں ایک طرح کی رومانیت ہے۔ رومانیت کے بارے میں ایک ناقد کا قول ہے کہ رومانیت ایک جھوٹ ہے اور اس کا علاج صرف یہ ہے کہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ عذرا کا کردار کسی قسم کے تجزیہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ، تاہم عذرا کے کردار میں کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جو اس کو دلکش بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ مخصوص نسوانی فطرت کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ لیکن یہ نسوانیت شہری لڑکیوں کی بنیادی رومانیت پسندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جس طرح ہنری جیمس کے مشہور ناول ’’A Potrail of a lady ‘‘ کی ہیروئین اہم موقعوں پر کوئی فیصلہ نہ کر کے قارئین کو جھلاہٹ کا احساس دلاتی ہے۔ اسی طرح عذرا نے اکثر موقعوں پر قوت فیصلہ کی کمی کا ثبوت دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس کے پاس قوتِ ارادی کی افراط ہے اور قوت فیصلہ کا فقدان۔ نعیم اور عذراا کی جنسی زندگی غیر فطری ہے۔ کبھی کبھی تو ملکہ وکٹوریہ کے عہد کی انگریزی ناولوں کا انداز جھلکتا ہے۔ شاید نعیم کے احساس کمتری کے علاوہ یہ خصوصیت بھی ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے کی ذمہ دار ہے۔عذرا کے مقابلہ میں شیلا کا کردار کسی قسم کی جھوٹی عظمت سے خالی ہونے کے باوجود جیتا جاگتا کردار ہے۔ نعیم ’’ لکڑ بند‘‘ ہونے کے باوجود شیلا کے سامنے کسی قسم کا احساس کمتری نہیں محسوس کرتا گو عذرا کو حاصل کرنے میں( شادی کرنے کے باوجود) تا عمر کامیاب نہیں ہوتا لیکن شیلا کو وہ بغیر شادی بیاہ، پلک جھپکنے میں فتح کر لیتا ہے۔ شیلا کے مقابلہ میں وہ ایک مکمل مرد دکھائی دیتا ہے۔ وہ مرد جو ابھی تک ما قبل تاریخ کے انواع کی خصوصیات کا حامل ہے ۔ اگرچہ ناول میں وہ شیلا سے فراراختیار کر کے عذرا کی رومانیت میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کا جسم، اس کی روح اور اس کے وجود کا رواں رواں شیلا کا طلبگار رہتا ہے۔ عبداللہ حسین نے پلاٹ کی تشکیل میں جس فنکاری سے کام لیا ہے وہ اس سلسلے میں قابلِ تعریف ہے کہ شہلا سے گریز کرنے کے باوجود نعیم ،علی کی شکل میں دوبارہ اس کو حاصل کر لیتا ہے اور علی اور شیلا ایک بار پھر ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع کرتے ہیں گویا شیلا جو نعیم کو اپنا سب کچھ لٹانے کے باوجود بھی حاصل نہیں کرتی بالآخر علی کی شکل میں حاصل کر لیتی ہے۔ اس طرح ناول کا پلاٹ حیران کن انداز میں ایک مکمل اکائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
کرداروں کے ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نعیم کے والد نیاز بیگ کا کردار بھی حقیقت پسندانہ انداز میں نہایت کامیابی کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے۔ قاری کے ذہن میں نیاز بیگ ایک حقیقی اور زندہ انسان کا روپ دھار لیتا ہے تاہم اس کی دو بیویوں کا مسئلہ غیر ضروری سا لگتا ہے۔ اور اس پر مصنف نے اپنی تخلیقی قوتیں ضائع کر ڈالی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نیاز بیگ کے کردار میں’’ دو جورو والا‘‘ ہونے کے سبب مزاح کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس کے کردار میں بنیادی طور پر ایک طرح کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اس لئے یہ مزاحیہ عنصر کچھ ناگوار سا لگتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عبداللہ حسین، نیاز بیگ میں MOCK HEROIC عناصر کو پیش کرنا چاہتے ہوں۔ نیاز بیگ کے علاوہ دوسرے چھوٹے بڑے اہم اور غیر اہم کردار اپنی جگہ خاصے اچھے ہیں۔ کہیں کہیں پر بے جان او رکھوکھلے کردار کا وجود ناول کی فنی خامی کے بجائے خوبی کا کردار اختیار کر لیتا ہے، کیونکہ ایسے کرداروں کے بغیر زندگی کا ابلاغ نا ممکن ہے۔ روشن آغا کی تصویر کشی ناول کی ابتدا میں بہت عمدہ ہے لیکن بعد میں ان کی جھلکیاں بہت مدھم معلوم ہوتی ہیں۔ بٹوارہ کے دوران میں ان کا پیدل سفر قابلِ تعریف ہے۔ کیونکہ اس طرح ان کا کردار جامد ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ناول کے آخر میں ان کے بیٹے کا ان سے مصلحت آمیز برتاؤ ایک تلخ حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس تلخی کا سبب وہ عظیم تغیر ہے جو تقسیم ہند کے بعد فسادات کے ڈرامہ کا آخری ایکٹ بن کر نمودار ہوتا ہے۔ بیشتر کردار ایسے بھی ہیں جن کی اہمیت کا دارو مدار ناول کے پلاٹ پر ہے یعنی ان کا تعلق کسی اہم یا غیر اہم واقعہ سے ہوتا ہے اور اس واقعہ کے ساتھ ہی ابھرتے اور ڈوب جاتے ہیں۔ یہ بھی فنی خامی نہیں ہے کیونکہ اس سے واقعات کا تسلسل اور بہاؤ کا احساس قوی تر ہو جاتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں تک جنگ کی تصویر کشی یا فسادات کے دوران میں مصیبت زدہ انسانوں کا ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کی تفاصیل کا تعلق ہے عبداللہ حسین نے ایک فنکار کی حیثیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ دوسری زبانوں میں جنگ کی حقیقت پسندانہ تصویرکشی کی کامیاب مثالیں ملتی ہیں خاص طور پر ہیمنگوے نے تو انسان اور معاشرے پر جنگ کے اثرات کو نہایت کامیابی کے ساتھ بلکہ خلاقانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اگر ہم اس بات سے چشم پوشی کریں کہ عبداللہ حسین نے ایک کامیاب چربہ اتارنے کی کوشش کی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو زبان میں انہوں نے جنگ کو ایک تلخ حقیقت کے طور پر قاری کے ذہن پر نقش کر دیا ہے۔ ناول کے اس حصہ میں ہمیں زندگی میں موت اور موت میں زندگی کا احساس ملتا ہے خاص طور پر مہندر سنگھ اور نعیم کی ملاقات اس احساس کو مرتب کرنے میں کافی حد تک کامیابی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
جہاں تک جنگ سے متعلق ابواب کا تعلق ہے، نعیم کے بعض ردِ عمل ناقابلِ فہم اور غیر منطقی معلوم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی اپنی رفیقِ خاص سے نفرت قطعی غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ناول نگار نے مصنوعی طور پر اس نفرت کے جذبہ کو نعیم کی شخصیت پر مسلط کر دیا ہے۔ گو کسی نہ کسی طرح اس نفرت کی وضاحت بھی کی گئی ہے، لیکن یہ سب کچھ محض نفسیاتی کتابوں سے ماخوذ احمقانہ توجیحات معلوم ہوتی ہیں۔ نعیم کا اپنے اس رفیق کو مروا دینا تو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ نعیم کے کردار کے سلسلے میں یہ واقعہ بے حد اہم ہونے کے باوجود ایک فنی کمزوری کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جہاں تک ہندوستان کی نیم معاشرتی، نیم سیاسی تصویر کشی کا تعلق ہے عبداللہ حسین زیادہ کامیاب نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے اسی سلسلہ میں جھلکیاں سی دکھانے کا انداز اختیار کیا ہے۔ جہاں تک جذباتی تاثرات کے اظہار کا تعلق ہے کہیں کہیں مصنف کو زبردست فنی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ خاص طور پر (Quit India ) ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک کے سلسلہ میں بھی عبداللہ حسین نے چند کامیاب جھلکیاں پیش کی ہیں، لیکن جہاں تک مسلم لیگ اور کانگریس کی کشا کش، تقسیم ہند اور اس کے اسباب کا تعلق ہے مصنف کوئی خاص مجموعی تاثر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو ئے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کا تاریخ کا مطالعہ ناقص ہے گو اس ناول میں مصنف نے اپنے کسی کردار سے یہ کہلوایا ہے کہ تاریخ در حقیقت علم ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر تقسیم ہند تک در اصل واقعات کڑی در کڑی ایک زنجیر کی شکل میں پیش آئے ہیں جب تک ہم ان واقعات کو ایک مکمل اور مربوط اکائی کی شکل میں نہیں دیکھ پاتے ہمارا شعور خاص طور پر سیاسی اور تاریخی شعور پختہ کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا اسی سلسلہ میں عبداللہ حسین بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔اور ان کی تصاو یرنہ صرف مدھم ہیں بلکہ ناول ایک ایسے سیاسی البم کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے جس میں سے اہم ترین تصاویر غائب ہیں۔ یوں بھی اس قسم کی تصویر نگاری در حقیقت ابلاغ کے فن میں کامیاب نہیں قرار دی جا سکتی۔ جہاں تک جذباتیت کا تعلق ہے عبداللہ حسین کی یہ سیاسی جھلکیاں یا تصاویرایک حد تک کامیاب کہلائی جا سکتی ہیں۔ اسی سلسلہ میں پھر وہی سوال ابھرنے لگتا ہے کہ ناول میں طرح طرح کے اسلوب اور فنی پیرایہ استعمال کئے گئے ہیں، مثال کے طور پر واقعاتی اور ٹھیٹ حقیقت پسندانہ اظہار کے پہلو بہ پہلو خالص رومانوی اور جذباتی انداز بیان بھی ملتا ہے۔ کہانی، پلاٹ، کردار اور موضوع ان تمام عناصر میں یہی بوقلموئی پائی جاتی ہے۔ اس کو فنی خامی بھی کہا جا سکتا ہے اور تضاد کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مصنف نے ابھی تک اپنی مخصوص راہ کا تعین نہیں کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کی تحریروں میں یا تو جذباتیت پوری طرح غلبہ پائے یا رومانیت۔
اس ناول کی سب سے بڑی کمزوری کا تعلق زبان سے ہے یوں لگتا ہے جیسے ناول طبع زاد نہیں بلکہ ترجمہ ہے اور ترجمہ بھی گھٹیا درجہ کا کیونکہ ہم اگر زبان کے اعتبار سے اس کا موازنہ قرۃ العین حیدر کی کتاب ’’ ہمیں چراغ ہمیں پروانے ‘‘ سے کرتے ہیں تو یہ تلخ احساس ہوتا ہے کہ جہاں مس حیدر نے ترجمے کو طبع زاد تخلیق کا روپ دیا ہے وہاں عبداللہ حسین نے اپنی ناول کو معمولی ترجمہ بنا کر چھوڑا۔ جملوں کے تسلسل کے سلسلہ میں عبداللہ حسین کو ابھی بہت زیادہ مشق کی ضرورت ہے یوں تو ہنری جیمس جیسا عظیم فنکار بھی بات کو گھما پھرا کر کہتا ہے لیکن عبداللہ حسین کی زبان سے صرف خام کاری کا احساس ہوتا ہے۔ زبان کی کمزوریوں کی نشان دہی کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ کتاب کا کوئی صفحہ الٹ لیا جائے اور کوئی سا جملہ منتخب کر لیا جائے۔
ANS 02
عبداللہ حسین مرحوم صفِ اول کے ایک اہم ناول نگار تھے۔ ان کی پہلی اردو ناول’’ اداس نسلیں ‘‘ اردو کے چند اچھے ناولوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دو ناولیں ’’ باگھ ‘‘ اور ’’ نادار لوگ ‘‘ ہیں۔ ان کے چند افسانے بھی مقبول ہوئے۔ ۱۹۳۱ میں پیدا ہوئے اور ۴ جولائی ۲۰۱۵ میں وفات پائی۔ مندرجہ ذیل تحریر ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔( عبداللہ جاوید)
عبداللہ حسین کی ناول ’’ اداس نسلیں‘‘ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ’’ برٹش انڈیا ‘‘ سے متعلق ہے دوسرا ہندوستان کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے۔ اس حصہ کی ابتدا میر کے ایک نشتر سے ہوتی ہے
افسردگیٔ سوختہ جانا ہے قہر میرؔ
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے پیاس
تیسرا حصہ ’’ قرآنِ مجید کی ایک آیت سے شروع ہو تا ہے جس کا ترجمہ ہے۔ ’’ جب ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ تو وہ کہنے لگے کہ ہم ایمان والوں میں سے ہیں۔ ‘‘ ناول کی اس تقسیم کے بارے میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ در حقیقت یہ تقسیم غیر ضروری اور مصنوعی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مصنف نے اس تقسیم کے ذریعہ ناول کو اور خاص طور پر ناول کے پلاٹ کو قاری کے لئے زیادہ سے زیادہ قابلِ فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔ در حقیقت ناول ابتدا سے آ خر تک ایک اکائی ہے گو اس کا اختتام قدرتی نہیں بلکہ ایک قسم کی فنی ضرورت کے طور پر ہوتا ہے۔جب اس کے اختتام پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ناول کا موضوع ہندوستان ہے۔ ہندوستان جو برطانوی حکومت کے زیرِ نگیں تھا۔ ہندوستان جو آزادی کی جانب قدم بہ قدم رواں تھا اور ہندوستان جو آزادی کی بیش بہا دولت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے تاخت و تاراج ہو کر رہ گیا ۔
بادیٔ النظر میں یوں لگتا ہے کہ مصنف ہندوستان کی تاریخ لکھ رہا ہے لیکن تاریخ کو ناول میں تبدیل کر دینا یا ناول کو تاریخ بنا دینا، مصنف کی صلاحیتوں سے خارج ہے۔ در حقیقت موجودہ دور میں اردو زبان میں جو کچھ بھی ناول کے بہانے لکھا جا رہا ہے قرۃالعین حیدر کی عظیم تخلیق ’’آگ کا دریا‘‘ کے اثرات سے باہر نہیں ہو سکتا۔’’ اداس نسلیں ‘‘ ہو یا ’’ تلاشِ بہاراں‘‘ ’’ آگ کادریا ‘‘کا عکس قریب قریب ہر ناول میں جھلکنے لگتا ہے۔ ایک لحاظ سے ’’ تلاشِ بہاراں ‘‘ کو ہم آگ کا دریا کے اثر سے گریز کرنے کی کامیاب کوشش قرار دے سکتے ہیں۔’’ اداس نسلیں ‘‘ تو کسی بھی صورت میں ’’ آگ کا دریا ‘‘کی فنی خوشہ چینی کے الزام سے بری قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہی اس ناول کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا پلاٹ ’’ آگ کا دریا ‘‘ کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسلوب اور بیان کے اعتبار سے عبداللہ حسین ، قراۃالعین حیدر سے بہت کم متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم اس ناول کے چند ابواب ایسے بھی ہیں جن کو پڑھنے سے مس حیدر کی تحریروں کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے۔’’ روشن محل ‘‘ در اصل مس حیدر کے فنی حدود میں واقع معلوم ہوتا ہے۔’’ روشن محل ‘‘ کے درو دیوار اور سارا ماحول یہاں تک کہ اس کے رہنے والے قرۃ العین حیدر کی تصنیف سے قریبی طور پر منسلک معلوم ہوتے ہیں۔ یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ مصنف نے اس ناول کی تصنیف میں مختلف النوع فنی تجربات کئے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے تجربات ہر کسی کے بس کی بات نہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مصنف نے انواع و اقسام کے اسالیب فن کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس ناول کی فنی بو قلمونی در اصل ایک طرح کی خوشہ چینی کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ خوشہ چینی کسی مخصوص غرض سے نہیں کی گئی۔ بلکہ یوں لگتا ہے جیسے مصنف نے فن کے بے شمار لہلہاتے کھیتوں اور طرح طرح کے پھولوں اور پھلوں سے بھرے ہوئے باغوں پر چھاپا مارا ہے۔ یہ ناول ایک آئینہ خانہ ہے جس میں بے شمار عظیم مصنفوں کی تحریروں کا عکس اتر آیا ہے۔ یہاں پریم چند سے لے کر قرہ العین حیدر تک اردو کے گنے چنے مشہور ناول نگار جلوہ فرما نظر آتے ہیں۔ اردو کے علاوہ مشہور انگریزی اور امریکی ادیب بھی کہیں نہ کہیں اپنی جھلک دکھاتے اور پھر چھپ جاتے ہیں، خاص طور پر ’’ ہمینگوے ‘‘ تو بار بار اپنے وجود کا احساس دلاتا جاتا ہے۔ بے شمار مقامات ایسے ہیں جہاں ہمینگوے کی چھاپ واضح طور پر محسوس ہونے لگتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبداللہ حسین ایجاز و اختصار کے معاملے میں ہمینگوے کی تقلید کو شائد نا ممکن سمجھ کر اس سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عبداللہ حسین غیر ضروری تفاصیل اور جزئیات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کیونکہ اصل احساس اور بنیادی جذبہ کا ابلاغ نہیں ہوتا۔ اس ناول کے عنوان سے لے کر جزئیات تک جگہ جگہ ہمینگوے اور دوسرے گمشدہ نسل کے امریکی ادیبوں کا اثر صاف طور پر نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ اس ناول کو جس جس طرح بعض مقتدر اہلِ قلم نے سراہا ہے وہ کچھ نا قابلِ فہم معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ ناول در حقیقت سوائے طوالت اور غیر ضروری جزئیات نگاری کے کسی اور صفت کی حامل نہیں ہے۔ اس ناول کے بارے میں کہنا درست ہو گا کہ خارو خذف کے ایک عظیم انبار میں کہیں کہیں چند موتی چھپے ہوئے ملتے ہیں اور یہ موتی بھی ایسے موتی ہیں جو مانگے کی آب و تاب سے مزین ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ناول علی پور کا ’ ایلی ‘ کی مانند قطعی ناکام کوشش ہے۔ کیونکہ بہر حال اس کا موضوع ایک بہت بڑا موضوع ہے اور موضوع نے کسی نہ کسی طرح اس ناول کو تھوڑی بہت عظمت ضرور بخشی ہے۔ اردو کے ناولوں میں بہر نوع اس ناول کا ایک مقام ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ایک الم ناک حقیقت ہے کہ آگ کا دریا کے بعد اس ناول کا شائع ہونا یوں لگتا ہے جیسے ہم آگے کی جانب قدم اٹھانے کے بجائے پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ خواہ پلاٹ اور کہانی کے اعتبار سے خواہ زبان و بیان اور فن کے لحاظ سے ہم ناول کا موازنہ ’’ آگ کا دریا ‘‘ سے کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے مصنف نے ایک غیر ضروری کام انجام دیا ہو۔ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ’’ اداس نسلیں‘‘ اپنی تمام تر اداسیوں کے باوجود ایک طرح سے مثبت انداز میں ختم ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ مصنف کو تھوڑا بہت احساس ضرور ہے کہ
؎ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔
چونکہ کسی چیز کا کہیں اختتام نہیں زندگی ایک رواں دواں حقیقت ہے۔ انت کہیں نہ کہیں، اس لئے
’’ اداس نسلیں ‘‘ ہمیشہ اداس نہیں رہتیں، بلکہ اپنے اندر کچھ ایسی قوتیں چھپائے رکھتی ہیں جو بالآ خر مثبت اقدار کو آگے بڑھانے میں مدد دینے لگتی ہیں۔
نعیم احمد خان اس ناول کا مرکزی کردار ہے یہ ایک مخصوص فرد ہے اور انفردیت کا ایسا ہی مالک ہے جیسا کہ خاص آدمی ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر انفرادیت کے باوجود وہ ایک نمائندہ کردار بھی ہے ایک سمبل ہے، ایک اشارہ ہے، ایک ایسا انسان ہے جو زندگی میں مرجاتا ہے اور مر کر زندہ ہو جاتا ہے۔ جب تک وہ زندگی میں موت سے ہم کنار رہتا ہے اس کا بھائی علی اس سے منحرف اور برگشتہ رہتا ہے۔ لیکن اس کی موت کے بعد علی، نعیم کی اولاد معنوی کے روپ میں زندہ رہتا ہے اور بٹوارہ کے بعد قافلہ کے ساتھ پاکستان آتے ہوئے وہ نعیم سے وہ سب کچھ حاصل کر لیتا ہے جو نعیم کی زندگی کے سارے تجربات کا نچوڑ ہے۔ پاکستان میں علی ایک نئی زندگی کی تعمیر شروع کرتا ہے اور اس سلسلہ میں وہ جس عورت کو اپنی رفیقِ حیات منتخب کرتا ہے وہ شیلا ہوتی ہے۔ اس طرح گویا نعیم حیات کی تجدیدی قوتوں کا نشان بن کر علی کے روپ میں منفی اقدار سے مثبت اقدار کی طرف رجعت کرتا ہے۔ نعیم کا کردار ایک ققنس کی مانند زندہ و جاوید کردار ہے۔ ققنس در حقیقت کبھی نہیں مرتا جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو دیپک راگ چھیڑ دیتا ہے اور اس کی منقار سے چنگاریاں برستی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ جل کر ایک مشت خاک میں بدل جاتا ہے، لیکن اس مشت خاک سے دوسرا ققنس جنم لیتا ہے۔ اس طرح حیات کا تسلسل نہ صرف قائم رہتا ہے بلکہ زندہ قوتوں کا نمود ہونے لگتا ہے اور تجدید حیات ہوتی ہے۔ نعیم اور علی کا کردار وںکاتضاد اور مشابہت در حقیقت مصنف کی تخلیقی قوتوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس مقام پر مصنف نے در اصل زبر دست کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ اس ناول کی عظمت کا دارو مدار نعیم اور علی کے کرداروں پر ہے۔ گو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ ہمینگوے کی مشہور تخلیق ’’ بوڑھا اور سمندر‘‘ میں سائٹیا گو (Santiago ) اور Mavalin کا کردار نعیم اور علی سے ایک عجیب مشابہت پیش کرتے ہیں۔ یہ کہنا شاید مناسب نہیں کہ عبداللہ حسین نے یہاں بھی خوشہ چینی کی ہے پھر بھی فکر کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو اس ناول کے تمام کردار Passive حقیقت رکھتے ہیں۔ یعنی ان پر طرح طرح کے واقعات گزرتے رہتے ہیں، وقت کا تموج ان کے خدوخال میں نمایاں تغیرات پیدا کرتا ہے۔ نعیم کا کردار بھی اس مفعولیت سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ نعیم کے والد کے کردار میں بھی یہی ایک خصوصیت سب سے زیادہ واضح دکھائی دیتی ہے۔ اگر دیہات کے باشندوں کی خصوصیت پیش کی جاتی کہ وہ زندگی کے مختلف النوع عوامل سے صلح کر لیتے ہیں اور جو کچھ ان پر گزرتی ہے اس کو قبول کر تے ہیں تو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہوتی، کیونکہ دیہاتیوں کی زندگی ایک طرح سے فطرت کے بالکل قریب تر ہے۔ دیہاتی ابھی تک ماقبل تاریخ کے انسان سے بہت زیادہ مشابہ ہے۔ کیونکہ اس کا واسطہ زمین سے ہے، مٹی جو سونا اگلتی ہے جس کی زرخیزی کا دارو مدار نہ صرف انسان کی مساعی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آسمان کی کر م فرمائی سے بھی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیہات میں انسان ابھی تک عوامل اور حالات کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں انسان غیر شعوری طور پر حقیقت پسندانہ رجحانات پیدا کر لیتا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ شہر کے رہنے والے دیہاتی زندگی کے بارے میں انتہائی رومانی انداز میں سوچتے ہیں جب کہ دیہاتی انسان خالص غیر رومانی اور حقیقت پسندانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس ناول میں دیہاتی کرداروں میں بعض ناگزیر عوامل کو قبول کرنے کا رجحان عام تھا۔اور یہ بات قابلِ اعتراض نہیں لیکن عذرا کے کردار میں اس قسم کے عناصر کا وجود نا قابل فہم ہے۔ در اصل عذرا کے کردار کی تشکیل اور اس کی نمو میں مصنف بری طرح ناکام ہوا ہے، خاص طور پر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ عذرا جو اس ناول کے ابتدا میں روشن محل کے ایک مخصوص پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر قہوہ پیتی ہے، اس عذرا سے مختلف ہوتی ہے جو نعیم کی بیوی کے طور پر ناظرین کے سامنے آتی ہے۔ عذرا کے بارے میں یہ احساس تو ضرور ہوتا ہے کہ وہ نعیم پر کسی نہ کسی طرح قابو حاصل کر لیتی ہے، یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ نعیم کو بربادی کے راستے پر بھی لے جانے کی ذمہ دار ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ عذرا پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ نعیم در حقیقت عذرا کے سامنے ایک عظیم اور تباہ کن احساس کمتری میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نعیم اس جھینپ کو کبھی دور نہ کر پایا جو اس نے اپنی ٹوپی کے پھندنے میں محسوس کی تھی، جو بار بار اس کی پیشانی پر گرجاتا اور جس کے بارے میں عذرا نے ہلکا سا اشارہ کر کے اس کو لال لال کر دیا تھا۔ نعیم روشن محل کے ہجوم ( Crowd ) میں اپنے آپ کو شامل نہیں کر سکا اور یہی اس کی بربادی کا سبب ہے۔ روشن محل کے لڑکے لڑکیوں کا گروپ قرۃالعین حیدر کی تحریر کی یاد دلاتا ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو ہمینگوے کے ناول The Sun Also Risesکی جانب بھی اشارہ کر سکتے ہیں۔ ناول کے آخری حصے میں یعنی ( بٹوارہ کے بعد) مصنف نے قارئین پر یہ احساس مسلط کرنے کی کوشش کی ہے کہ عذرا ایک عظیم عورت ہے، لیکن یہ بات کم از کم ناول کے واقعات سے ظاہر نہیں ہوتی۔عذرا کے کردار میں ایک طرح کی رومانیت ہے۔ رومانیت کے بارے میں ایک ناقد کا قول ہے کہ رومانیت ایک جھوٹ ہے اور اس کا علاج صرف یہ ہے کہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ عذرا کا کردار کسی قسم کے تجزیہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ، تاہم عذرا کے کردار میں کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جو اس کو دلکش بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ مخصوص نسوانی فطرت کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ لیکن یہ نسوانیت شہری لڑکیوں کی بنیادی رومانیت پسندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جس طرح ہنری جیمس کے مشہور ناول ’’A Potrail of a lady ‘‘ کی ہیروئین اہم موقعوں پر کوئی فیصلہ نہ کر کے قارئین کو جھلاہٹ کا احساس دلاتی ہے۔ اسی طرح عذرا نے اکثر موقعوں پر قوت فیصلہ کی کمی کا ثبوت دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس کے پاس قوتِ ارادی کی افراط ہے اور قوت فیصلہ کا فقدان۔ نعیم اور عذراا کی جنسی زندگی غیر فطری ہے۔ کبھی کبھی تو ملکہ وکٹوریہ کے عہد کی انگریزی ناولوں کا انداز جھلکتا ہے۔ شاید نعیم کے احساس کمتری کے علاوہ یہ خصوصیت بھی ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے کی ذمہ دار ہے۔عذرا کے مقابلہ میں شیلا کا کردار کسی قسم کی جھوٹی عظمت سے خالی ہونے کے باوجود جیتا جاگتا کردار ہے۔ نعیم ’’ لکڑ بند‘‘ ہونے کے باوجود شیلا کے سامنے کسی قسم کا احساس کمتری نہیں محسوس کرتا گو عذرا کو حاصل کرنے میں( شادی کرنے کے باوجود) تا عمر کامیاب نہیں ہوتا لیکن شیلا کو وہ بغیر شادی بیاہ، پلک جھپکنے میں فتح کر لیتا ہے۔ شیلا کے مقابلہ میں وہ ایک مکمل مرد دکھائی دیتا ہے۔ وہ مرد جو ابھی تک ما قبل تاریخ کے انواع کی خصوصیات کا حامل ہے ۔ اگرچہ ناول میں وہ شیلا سے فراراختیار کر کے عذرا کی رومانیت میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کا جسم، اس کی روح اور اس کے وجود کا رواں رواں شیلا کا طلبگار رہتا ہے۔ عبداللہ حسین نے پلاٹ کی تشکیل میں جس فنکاری سے کام لیا ہے وہ اس سلسلے میں قابلِ تعریف ہے کہ شہلا سے گریز کرنے کے باوجود نعیم ،علی کی شکل میں دوبارہ اس کو حاصل کر لیتا ہے اور علی اور شیلا ایک بار پھر ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع کرتے ہیں گویا شیلا جو نعیم کو اپنا سب کچھ لٹانے کے باوجود بھی حاصل نہیں کرتی بالآخر علی کی شکل میں حاصل کر لیتی ہے۔ اس طرح ناول کا پلاٹ حیران کن انداز میں ایک مکمل اکائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
کرداروں کے ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نعیم کے والد نیاز بیگ کا کردار بھی حقیقت پسندانہ انداز میں نہایت کامیابی کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے۔ قاری کے ذہن میں نیاز بیگ ایک حقیقی اور زندہ انسان کا روپ دھار لیتا ہے تاہم اس کی دو بیویوں کا مسئلہ غیر ضروری سا لگتا ہے۔ اور اس پر مصنف نے اپنی تخلیقی قوتیں ضائع کر ڈالی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نیاز بیگ کے کردار میں’’ دو جورو والا‘‘ ہونے کے سبب مزاح کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس کے کردار میں بنیادی طور پر ایک طرح کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اس لئے یہ مزاحیہ عنصر کچھ ناگوار سا لگتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عبداللہ حسین، نیاز بیگ میں MOCK HEROIC عناصر کو پیش کرنا چاہتے ہوں۔ نیاز بیگ کے علاوہ دوسرے چھوٹے بڑے اہم اور غیر اہم کردار اپنی جگہ خاصے اچھے ہیں۔ کہیں کہیں پر بے جان او رکھوکھلے کردار کا وجود ناول کی فنی خامی کے بجائے خوبی کا کردار اختیار کر لیتا ہے، کیونکہ ایسے کرداروں کے بغیر زندگی کا ابلاغ نا ممکن ہے۔ روشن آغا کی تصویر کشی ناول کی ابتدا میں بہت عمدہ ہے لیکن بعد میں ان کی جھلکیاں بہت مدھم معلوم ہوتی ہیں۔ بٹوارہ کے دوران میں ان کا پیدل سفر قابلِ تعریف ہے۔ کیونکہ اس طرح ان کا کردار جامد ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ناول کے آخر میں ان کے بیٹے کا ان سے مصلحت آمیز برتاؤ ایک تلخ حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس تلخی کا سبب وہ عظیم تغیر ہے جو تقسیم ہند کے بعد فسادات کے ڈرامہ کا آخری ایکٹ بن کر نمودار ہوتا ہے۔ بیشتر کردار ایسے بھی ہیں جن کی اہمیت کا دارو مدار ناول کے پلاٹ پر ہے یعنی ان کا تعلق کسی اہم یا غیر اہم واقعہ سے ہوتا ہے اور اس واقعہ کے ساتھ ہی ابھرتے اور ڈوب جاتے ہیں۔ یہ بھی فنی خامی نہیں ہے کیونکہ اس سے واقعات کا تسلسل اور بہاؤ کا احساس قوی تر ہو جاتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں تک جنگ کی تصویر کشی یا فسادات کے دوران میں مصیبت زدہ انسانوں کا ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کی تفاصیل کا تعلق ہے عبداللہ حسین نے ایک فنکار کی حیثیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ دوسری زبانوں میں جنگ کی حقیقت پسندانہ تصویرکشی کی کامیاب مثالیں ملتی ہیں خاص طور پر ہیمنگوے نے تو انسان اور معاشرے پر جنگ کے اثرات کو نہایت کامیابی کے ساتھ بلکہ خلاقانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اگر ہم اس بات سے چشم پوشی کریں کہ عبداللہ حسین نے ایک کامیاب چربہ اتارنے کی کوشش کی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو زبان میں انہوں نے جنگ کو ایک تلخ حقیقت کے طور پر قاری کے ذہن پر نقش کر دیا ہے۔ ناول کے اس حصہ میں ہمیں زندگی میں موت اور موت میں زندگی کا احساس ملتا ہے خاص طور پر مہندر سنگھ اور نعیم کی ملاقات اس احساس کو مرتب کرنے میں کافی حد تک کامیابی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
جہاں تک جنگ سے متعلق ابواب کا تعلق ہے، نعیم کے بعض ردِ عمل ناقابلِ فہم اور غیر منطقی معلوم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی اپنی رفیقِ خاص سے نفرت قطعی غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ناول نگار نے مصنوعی طور پر اس نفرت کے جذبہ کو نعیم کی شخصیت پر مسلط کر دیا ہے۔ گو کسی نہ کسی طرح اس نفرت کی وضاحت بھی کی گئی ہے، لیکن یہ سب کچھ محض نفسیاتی کتابوں سے ماخوذ احمقانہ توجیحات معلوم ہوتی ہیں۔ نعیم کا اپنے اس رفیق کو مروا دینا تو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ نعیم کے کردار کے سلسلے میں یہ واقعہ بے حد اہم ہونے کے باوجود ایک فنی کمزوری کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جہاں تک ہندوستان کی نیم معاشرتی، نیم سیاسی تصویر کشی کا تعلق ہے عبداللہ حسین زیادہ کامیاب نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے اسی سلسلہ میں جھلکیاں سی دکھانے کا انداز اختیار کیا ہے۔ جہاں تک جذباتی تاثرات کے اظہار کا تعلق ہے کہیں کہیں مصنف کو زبردست فنی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ خاص طور پر (Quit India ) ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک کے سلسلہ میں بھی عبداللہ حسین نے چند کامیاب جھلکیاں پیش کی ہیں، لیکن جہاں تک مسلم لیگ اور کانگریس کی کشا کش، تقسیم ہند اور اس کے اسباب کا تعلق ہے مصنف کوئی خاص مجموعی تاثر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو ئے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کا تاریخ کا مطالعہ ناقص ہے گو اس ناول میں مصنف نے اپنے کسی کردار سے یہ کہلوایا ہے کہ تاریخ در حقیقت علم ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر تقسیم ہند تک در اصل واقعات کڑی در کڑی ایک زنجیر کی شکل میں پیش آئے ہیں جب تک ہم ان واقعات کو ایک مکمل اور مربوط اکائی کی شکل میں نہیں دیکھ پاتے ہمارا شعور خاص طور پر سیاسی اور تاریخی شعور پختہ کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا اسی سلسلہ میں عبداللہ حسین بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔اور ان کی تصاو یرنہ صرف مدھم ہیں بلکہ ناول ایک ایسے سیاسی البم کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے جس میں سے اہم ترین تصاویر غائب ہیں۔ یوں بھی اس قسم کی تصویر نگاری در حقیقت ابلاغ کے فن میں کامیاب نہیں قرار دی جا سکتی۔ جہاں تک جذباتیت کا تعلق ہے عبداللہ حسین کی یہ سیاسی جھلکیاں یا تصاویرایک حد تک کامیاب کہلائی جا سکتی ہیں۔ اسی سلسلہ میں پھر وہی سوال ابھرنے لگتا ہے کہ ناول میں طرح طرح کے اسلوب اور فنی پیرایہ استعمال کئے گئے ہیں، مثال کے طور پر واقعاتی اور ٹھیٹ حقیقت پسندانہ اظہار کے پہلو بہ پہلو خالص رومانوی اور جذباتی انداز بیان بھی ملتا ہے۔ کہانی، پلاٹ، کردار اور موضوع ان تمام عناصر میں یہی بوقلموئی پائی جاتی ہے۔ اس کو فنی خامی بھی کہا جا سکتا ہے اور تضاد کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مصنف نے ابھی تک اپنی مخصوص راہ کا تعین نہیں کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کی تحریروں میں یا تو جذباتیت پوری طرح غلبہ پائے یا رومانیت۔
اس ناول کی سب سے بڑی کمزوری کا تعلق زبان سے ہے یوں لگتا ہے جیسے ناول طبع زاد نہیں بلکہ ترجمہ ہے اور ترجمہ بھی گھٹیا درجہ کا کیونکہ ہم اگر زبان کے اعتبار سے اس کا موازنہ قرۃ العین حیدر کی کتاب ’’ ہمیں چراغ ہمیں پروانے ‘‘ سے کرتے ہیں تو یہ تلخ احساس ہوتا ہے کہ جہاں مس حیدر نے ترجمے کو طبع زاد تخلیق کا روپ دیا ہے وہاں عبداللہ حسین نے اپنی ناول کو معمولی ترجمہ بنا کر چھوڑا۔ جملوں کے تسلسل کے سلسلہ میں عبداللہ حسین کو ابھی بہت زیادہ مشق کی ضرورت ہے یوں تو ہنری جیمس جیسا عظیم فنکار بھی بات کو گھما پھرا کر کہتا ہے لیکن عبداللہ حسین کی زبان سے صرف خام کاری کا احساس ہوتا ہے۔ زبان کی کمزوریوں کی نشان دہی کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ کتاب کا کوئی صفحہ الٹ لیا جائے اور کوئی سا جملہ منتخب کر لیا جائے۔
ANS 03
قرۃ العین حیدر کا شمار اُردو ادب کی اہم اور وقیع شخصیات میں ہوتا ہے۔وہ ایک غیر معمولی تخلیقی ذہن کی مالک تھیں۔اُن کا ادبی سرمایہ وسیع اور متنوع ہے۔اگر اُن کے علمی و ادبی کارناموں پر توجہ کی جائے تو اس میں فکشن کے حوالے سے افسانہ ،ناول اور ناولٹ سب سے نمایاں نظر آتے ہیں لیکن انھوں نے رپورتاژ اورتراجم(انگریزی سے اُردو اور اُردو سے انگریزی) کے علاوہ کچھ اہم ادبی کتابوں کی ترتیب و تہذیب میں بھی اپنی دل چسپی دکھائی ہے۔قرۃ العین حیدر کے حوالے سے اب تک انفرادی حیثیت سے یا جامعات میں جو تحقیقی و تنقیدی کام ہوئے اُن میں زیادہ تر فکری اور سماجی تناظرات پر توجہ صرف کی گئی ہے جب کہ خالص لسانیاتی بنیادوںپر ان کے اُسلوب کو منکشف کرنے کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس مقالے میں یہ کوشش کی جائے گی کہ لسانیاتی اصولوں سے مدد لیتے ہوئے ان کے ایک اہم ناول”گردشِ رنگ ِ چمن”(1) کی اُسلوبیاتی اور معنیاتی سطحوں کو دریافت کیا جائے۔
اُردو ادب کی موجود صورتِ حال میں “اُسلوب “اور” اُسلوبیات” کے مابین فرق کیا جانے لگا ہے۔اب اُسلوب کی بنیاد ادبی متصور ہوتی ہے جب کہ اُسلوبیات کا تمام تر دارومدار لسانیات پر اُستوار ہے۔ لسانیات ایک وسیع اور پیچیدہ موضوع ہے اس کی حدود اور وسعت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ادب کے علاوہ ،تاریخ، نفسیات، عمرانیات،بشریات،فلسفہ،منطق اور اساطیر کے ماہرین اورمحققین بھی اس میں گہری دل دلچسپی رکھتے ہیں۔لسانیات کا یہی تنوع اسے ایک ہمہ گیر مضمون بناتا ہےاورادب کی طرح اس کا دائرہ اثر بھی بین العلومی ہے۔ علم ِلسانیات کی رو سے معنی کا معروضی مطالعہ معنیات((Semantics کہلاتا ہے۔یہ انگریزی لفظ اصل میں یونانی زبان کی اصطلاح “Semantikos” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے معنی کی طرف اشارہ کرنا یا دلالت کرنا ہے۔علم فلسفہ اور منطق میں بھی معنیات کا عمل دخل بہت زیادہ ہے کیوں وہاں معنی کے تمام سلسلے منطقی اُصولوں کے تحت ابلاغ کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔فلسفہء لسان یا زبان کی تھیوری میں معنیات ایک کلیدی کردار رکھتی ہے۔معنیات صرف زبان میں موجود الفاظ ومرکبات سے ہی بحث نہیں کرتی بلکہ نشان،علامت یا کوئی بھی ایسی شئے جو معنی کا درجہ رکھتی ہو اس کی اقلیم میں شامل ہو جاتی ہے۔
معنیات کا فکری اور نظریاتی پہلو خا صی وسعتوں کا حامل ہے جس کی وجہ سے معنی کی تلاش،لفظ اور معنی کا آپسی رشتہ،زبان کی صوری،معنوی،رسمی اور منطقی کارکردگی،معانی کی اقسام،مترادفات،متضاد،استعاراتی اورتشبیہی تلازمات،لفظ کا تاریخی پس منظر اور تناظر،لفظ کے لغوی اور تعبیراتی معنوں کے معاملات بھی معنیات کے بنیادی مباحث کا حصہ ہیں۔ معنی کا ابہام اور دیگر معنوی تغیرات بھی معنیات میں شامل ہیں۔تاریخی لسانیات میں معنیات اس امر کا مطالعہ کرتی ہے کہ ایک لفظ سے پیدا ہونے والی معنوی تغیرات کی نوعیت کیا ہے اور اس کے اسباب کا تعین کن ذرائع سے ممکن بنایا جا سکتا ہے،تاہم جدید معنیات میں انھی پیدا ہونے والے معنوں کو ہم کئی اور حوالوں سے جانچ پرکھ کر کسی حتمی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔دورِ جدید میں معنیاتی سطحوں کو “معنی نما” اور ” خیال نما” کے طور پر دیکھنے کا رجحان ملتا ہے ان کا اصل کام معنی کی تعبیراتی حد بندیوں کا تعین کرنا ہے۔یہ بظاہر حیران کن امر ہے کہ معنیات کو لسانیات کی اہم شاخ ہونے کے باوجود کافی عرصے تک وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو اس کا جائز حق تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام اپنی تصنیف “عمومی لسانیات ایک تعارف “میں لکھتے ہیں:
“ماہرین ِ لسانیات نے بیسویں صدی کے وسط تک اس موضوع پر خاص توجہ نہیں دی۔ہوکٹ اور گلیسن کی کتابیں امریکہ میں اہم درسی کتابیں سمجھی جاتی رہی ہیں مگر ان میں معنیات کا ذکر نہیں ہے۔اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ انھوں نے اس موضوع کو لسانیات میں شامل ہی نہیں کیا۔آج بھی بہت سے ساختیاتی ماہرین معنی کے مطالعے کی اہمیت کے قائل نہیں ہیں بقول اسٹیفن اُلمان اِن منفی رویے کا سرا بلوم فیلڈ کی تعلیمات سے جا ملتا ہے۔” (2)
یہ سلسلہ زیادہ عرصہ قا ئم نہیں رہا کیوں کہ آنے والے لسانی ماہرین نے معنیات کا راستہ ہموار کردیا خصوصاً جب نوم چامسکی نے معنیات کو اپنی قواعد میں شامل کیا تو اسے بھی رفتہ رفتہ علم السنہ کی ایک شاخ کا درجہ حاصل ہو گیا اور زبان و ادب کے مطالعات میں اس کی اہمیت مسلمہ ہوگئی۔اس تمہید کے بعد معنیات کی تعریف پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہےتا کہ اس کے مزید پہلو اُجاگر ہو سکیں۔اس ضمن میں اردو اور انگریزی دونوں مآخذ سے رجوع لازمی ہے کیوں کہ معنیات کے تمام علمی مباحث انگریزی کے توسط سے اُردو میں روشناس ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر گیان چند اپنی تصنیف ” لسانی مطالعے” میں حد درجہ اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ لکھتے ہیں:”معنیات (semantics)میں لفظوں اور جملوں کے مفہوم سے بحث کی جاتی ہے”(3) اس تعریف کے بطون میں یہ نکتہ موجود ہے کہ جملوں میں مفہوم کی تلاش کا معاملہ لسانی حوالے سے طے پائے گا اور اس کی نوعیت زیادہ تر افادی ہو گی اگرچہ جدید لسانی حکما جمالیاتی عناصر کو بھی اس بحث میں شامل کرنے کی سفارش کر تے ہیں تاہم کوئی حتمی رائے تاحال سامنے نہیں آ ئی۔ڈاکٹر الہیٰ بخش اختر اعوان نے “کشاف اصطلاحاتِ لسانیات” میں معنیات کے بارے میں لکھا ہے:
“لسانیات کا وہ شعبہ جو معانی پر بحث کرتا ہےیعنی جو حوالے اور محول کے تعلق کو زیرِ غور لاتا ہے اور ان محولات (الفاظ یا لسانی علامات) کے معانی کی تاریخ اور ان میں آنے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتا ہے۔”(4)
معنیات کی تکنیکی بحث اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کیٹی ویلس((Katie Wales کی اُسلوبیاتی قاموس کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔ویلس نے معنیات کو درج ذیل چار حصوں میں منقسم کر دیا ہے تا کہ اس کی افادیت نکھر کر سامنے آ سکے:
(ا) لغوی معنیات ((Lexical Semantics
(2) جملے کی معنیات ((Sentence Semantics
(3) بیانیہ معنیات ((Narrative Semantics
(4) ادبی معنیات ((Literary Semantics (5)
ان تمام حوالہ جات کی روشنی میں یہ کہنا مناسب رہے گا کہ معنیات میں زبان کی لفظیات کا عمل زیرِ بحث آتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ معنی کا تعین ہم کیسے کر سکتے ہیں۔لسانیاتی فارم میں معنیات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور تخلیقی ادب میں اس کی معاونت زبان و بیان کے نئے در وا کرتی ہے۔معنیات کی وجہ سے زبان میں موجود نشان،علامت اور دیگر رموز کی گرہ کشائی ممکن ہو سکتی ہے۔معنیات کی ایک سادہ تعریف ڈیوڈ کرسٹل نے کی ہے اگر ایک نظر اسے بھی دیکھ لیا جائے تو تفہیمی عمل میں سہولت پیدا ہو گی:
“معنیات وہ علم ہے جو معنی یا لسانیاتی فارموں کے معنیوں کا مطالعہ کرتا ہے۔اس علم میں سب سے پہلے یہ بتایا جاتا ہے کہ ان فارموں کا آپس میں کیا رشتہ ہے،اس کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ لسانیاتی فارموں اور خارجی دنیا کے حقیقی مظاہر کے درمیان کیا رشتہ ہے جن کی جانب یہ فارمیں اشارہ کرتی ہیں گویا معنیات کو اسما اور اشیا کے درمیان رابطے کا علم بھی کہا جا سکتا ہے۔”(6)
ڈیوڈ کرسٹل خود بھی یہ مانتا ہے کہ یہ تعریف سادہ ہے لیکن اس کے باوجود معنیات کے وہ تمام لوازم یہاں موجود ہیں جو موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔اس کلاسیکی تعریف کا ذکر کرنا یوں بھی ضروری تھا تا کہ معنیات کا قدیم اور جدید تسلسل قائم رہ سکے۔معنیات کا جدید تصور اب نظریاتی اور فکری ماڈل کی بات کرتا ہے جہاں ہیئت کا معاملہ بھی شمولیت اختیار کرتا ہے اور پھریہ بحث معنی کی ثقافتی جہتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔لسانیات کا یہ علمی مظہر معنی کی پیداواری صلاحت کو پوری قوت سے منکشف کرتا ہے۔معنیات کے ان بنیادی اور کلیدی مباحث کے بعد اب قرۃ العین حیدر کے ناول “گردشِ رنگ ِچمن” کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہاں معنیات کی اطلاقی صورتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
لسانی انحراف یا فورگراونڈنگ کا استعمال
اُسلوبیاتی تنقید میں صرف تخلیقی متون کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے کیوں کہ یہاں تحریر کا مقصد براہِ راست اظہار نہیں ہوتا بلکہ ادبی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اشاروں اور کنایوں میں دل کی بات کہہ دی جاتی ہے۔تخلیقی اظہاریوں میں زبان جہاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تی ہے وہاں اس کی تخلیقیت متن کی جمالیاتی قدروں کو بھی منکشف کرتی چلی جاتی ہے۔زبان جب مقررہ لسانی ضابطوں سے انحراف کرتی ہے تو اس میں ندرت،تازگی اور وسعت آ جاتی ہے جس کی وجہ سے اظہار میں شدت اور جامعیت کی خصوصیات پیدا ہو نے لگتی ہیں۔تخلیقی زبان میں انحراف کا یہ عمل معنیاتی عدم مطابقت یا معنیاتی بے آہنگی بھی کہلاتا ہے۔لسانی انحراف یا فور گراؤنڈنگ کی جامع تعریف کے ضمن میں درج ذیل مثال روشنی فراہم کرتی ہے:
” فور گراؤنڈنگ ادبی متن کا انحراف ہوتا ہے۔عموماً تخلیقی فن پارہ زبان کے نارم اور مروجہ قواعد کو توڑ کر ایک اجنبیت کی تعمیر کرتا ہے۔یہ “اجنبیت” لسانی اور معنوی سطح پر موجود ہوتی ہے۔فور گراؤنڈنگ زبان کے نت انداز سے منفرد طرز ِ اظہار کو جنم دیتی ہے۔جس ادبی زبان کا استعمال جتنا زیادہ مروجہ قواعد سے ہٹا ہوا ہو گا اس زبان کی فورگراؤنڈنگ اتنی ہی زیادہ طاقت ور ہو گی۔فورگراؤنڈنگ نہ صرف فن پارے کو نت نئے لسانی ذائقوں کو آشنا کرواتی ہے بلکہ مروجہ زبان کے تخلیقی امکانات سے جمالیاتی سطح کو بھی زرخیز کرتی ہے۔” (7)
ANS 04
اکثر اوقات کسی نہ کسی افسانوی مجموعے کی تقریبِ پذیرائی میں ناقدین اس بات پر الجھ پڑتے ہیں کہ یہ کہانی ہے یا افسانہ اور ہر کوئی اپنی رائے تسلیم کروانے پربہ ضد دکھائی دیتا ہے۔ایک طرف توکہانی کا کینوس بہت وسیع ہے ، تو دوسری طرف اِس کا سفر بہت طویل ہے کہ کہانی اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ و تہذیب۔یہی وجہ ہے کہ ہر عہد کے ادب کا قاری کہانی مانگتا ہے ۔نذیر و راشد کے پند و نصائح ہوں کہ یلدرم و نیاز کے رومان، عصمت و منٹو کی جنسی حقیقت نگاری ہو یا رضیہ سجاد و رشید جہاں کی ترقی پسندی، بات کہانی کہے بغیر بنتی نہیں۔ کہانی اور افسانے میں فرق برقرار نہ رکھنا اور اِن کو مترادف اصطلاحات کے طورپربرتناایک واضح غلطی ہے۔کہانی دل چسپ واقعات کا سلسلہ ہے ۔ وہ داستان، ناول، افسانہ، قصہ، ڈراما، حکایت، تمثیل، لیجنڈ (قصص المشاہیر)، ایپک، کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے۔یہ سب کہانی کی مختلف شاخیں کہی جا سکتی ہیں، مگر اِن میں سے ہر صنفِ ادب کی الگ خصوصیات ہیں۔افسانہ ایک ایسی مختصر صنفِ ادب ہے جو زندگی کے کسی ایک رخ،ایک تاثر، ایک پہلو، ایک واقعے ، ایک موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔یہ وحدتِ تاثر کی حامل تحریر ہے جو نہ تو قصے اور ناول کی طرح ذیلی کرداروں کی حامل ہوتی ہے اور نہ ہی فکریات و موضوعات کے اجتماع سے برتاؤ کرتی ہے۔
مزید براں افسانہ چوں کہ از خود ایک مختصر تحریر ہے لہذا اِس کے ساتھ مختصر کا لفظ نتھی کر دینا بھی مناسب نہیں لگتا۔اِس میں کسی پہلو کو کھول کر بیان بھی نہیں کیا جاتا بلکہ سوچ کی تحریک پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے کہ قاری اُس موضوع پر خود بھی غور و فکر کرے جسے افسانہ نگار نے بیان کیا ہے۔ہنری جیمس نے افسانے کو ایک ایسی اکائی قرار دیاہے جس کا ایک حصہ دوسرےکے لیے ایسے ہی اہم ہوتاہے جیسے جسم کا ایک عضو دوسرے کے لیے۔پھر یہ بحث بھی آج تک جاری ہے کہ کہانی پن افسانے کے لیے کس حد تک ضروری ہے یا پھر ضروری ہے بھی کہ نہیں ۔ افسانے میںواضح کہانی اور مربوط واقعات ہوں یا نہ ہوں اورشاید افسانہ اِس حوالے سے بد نصیب صنفٖ ادب ہےجو سو سالہ تاریخ کے باوجود اپنی ہیئت کا تعین نہیں کر سکا۔ڈاکٹر رشید امجد نے خوب کہی:’’افسانے میں چاہے وہ نیا ہویا پرانا،کہانی پن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔اختلاف دراصل کہانی پن کی تعریف کاہے۔ہمارے پرانے افسانہ نگار واقعات کے تسلسل یا اجتماع کو کہانی کہتے ہیں۔ ہم خیال کی اکائی کو، اگر اُس میں ترتیب قائم ہے، کہانی سمجھتے ہیں۔خیال وقوعے ہی سے جنم لیتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وقوعہ ٹھوس سطح پر رہ جاتا ہے، جب کہ خیال اوپر اٹھ کر ارفع شکل اختیار کر لیتا ہے‘‘ ۔ ہمارے عہد کے ایک اہم افسانہ نگار و نقاد کے اِس بیان سے کئی غلط فہمیاں دور ہو جانی چاہییں۔
حضرت علامہ نے فرمایا تھا ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ ۔ یہ ایک لا فانی حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ ہمیشہ رو بہ تغیر رہتا ہے۔یہ الگ بات کہ وقت گزرنے کے ساتھ اِس کی تغیر پذیری، سست روی سے برق رفتار ہو گئی ہے۔معاشرہ اور سماج چوں کہ انسانوں سے مل کر تشکیل پاتاہے اور اِس کے رجحانات کا تعین انسان ہی کرتے ہیں، لہذا جدیدرجحانات یا جدیدیت کے رویے زندگی گریز نہیں ہوتے اور جدید رجحانات انسان اور زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔یہ الگ بات ہےکہ زندگی کے تیز رو ہونے کی وجہ سے آج تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔خود انسان اِن برق پا لمحوں کا ساتھ نہیں دے پا رہا جس کے نتیجے میں رومانویت کی نسبت جدیدیت میں یاسیت ہی اُس کے دامن گیر ہوئی ہے۔
جدیدرجحانات اکثر ہیئت سے زیادہ موضوع کو اہمیت دیتے ہیں۔اِن کا نیا پن نئی سوچ اور فکر کے نئے زاویوں میں مضمر ہے۔وہ موضوعاتی حوالے سے ادب کو متاثر کرتے ہیں۔ویسے بھی ہمارے ہاں ادب میں ہیئت کے تجربات قدرے کم ہوئے ہیں اور جو ہوئے ہیں ، اُن میں سے اکثر مغربی ادب کے زیرِ اثر ہوئے ۔البتہ ہمارے ادیب نے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پرانی ادبی سوچ کو بہت حد تک رد کیا ہے۔ایسی سوچ ،جس کا تعلق اُس مکتبِ فکر سے تھا جو یہ سمجھتا ہے کہ ادب صرف ذہنی انبساط کا ذریعہ ہے اور اِس کے ذریعے معاشرتی و سماجی تبدیلی کا کوئی مثبت کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔جدید رجحانات کا عمل فطری ہوتا ہے،اِس لیے کہ نظر نہیں نظریے، رویے اور معیارات بدلتے ہیں ۔ ہرجدید عہد میں ادبا کی ایک بڑی اکثریت ہوتی ہے جو طرزِ کہن کو چیلنج ضرور کرتی ہے۔
موجودہ عہد میں ہمارے افسانہ نگار بھی اب صرف واقعات پر انحصار نہیں کرتے بلکہ بہت حد تک اپنے تجربات اور مشاہدات پر اپنے افسانوں کے پلاٹ کی بنیاد رکھتے ہیں۔اِس لیے جو افسانہ تخلیق ہو رہا ہے وہ صرف راوی کا بیانیہ نہیں ہے ، اُس میں تخلیق کے موضوع کی ضرورت کے تحت اسلوبِ بیاں، پلاٹ، مکالمہ نگاری، کردار و سراپا نگاری وغیرہ کا تعین ہوتا ہے۔فی زمانہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ افسانہ نذیر احمدو راشد الخیری کی اصلاح پسندی، سجاد حیدریلدرم، نیاز فتح پوری، مجنوں گوکھپوری اور حجاب امتیاز علی کی رومانویت، ’’انگارے‘‘ اور عصمت و منٹو کی جنسی حقیقت نگاری یا پھر انتظار حسین اور انور سجاد کی علامت و تجرید کی پہیلی کے زیرِ اثر ہے۔افسانہ ہر رنگ میں لکھا جا رہا ہے۔اظہار کے انداز مختلف ضرور ہیں، مگر ایک چیزیک ساں ہے، وہ یہ کہ ہمارا ادیب ، ہماری بات کر رہا ہے، خواہ وہ ہمارے اندر کا انتشار ہو یا گرد و پیش میں روز افزوں سر اٹھاتے مسائل اور الجھنیں۔اِس کی پیش کش میں جہاں اُس کے فن کی کرافٹ شامل ہے، وہیںاِس کی بنیاد تخلیق کارکے مشاہدات و تجربات پر ہے ۔آج وہ اظہارِ ذات کے پردے میں بھی اپنے ماحول اور معاشرے ہی کو پیش کررہا ہوتا ہے۔بہ ہر حال افسانے کے ناقدین اِس بات سے بہ خوبی واقف ہیںکہ ہمارے جدیدافسانوی رجحانات میں موضوعات کا تنوّع اہم ترین ہے۔
آج کے افسانہ نگارپرکیچڑ اچھالنے والے حقیقتِ حال سے نا آشنا ہیں۔ہمارا تخلیق کار اب تخلیقی اور غیر مقلّد ہو چکا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ ہر داستان میں معدی کرب اور لندھور بن سعدان تلاش کیے جائیں۔ہر کہانی میںکوئی عشق ہو اور ہر عشق میں کوئی کہانی ہو۔اِس عہدِ ستم میں محبتیں بھی ضرورت کے تابع ہو گئی ہیں۔اب ہم یلدرم کی خارستان و گلستان اور ، نیاز کی کیوپڈ و سائیکی کی رومانوی حسن کاری سے لذت کے جام نہیں بھر سکتے۔ نئے افسانے کے رجحانات کا اندازہ کرنے کا واحد اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم نئے افسانہ نگاروں کے موضوعات اور اُن موضوعات کی پیش کش کے انداز کا جائزہ لیں۔
مذکورہ بالا ادوار کے بعد بھی ایک طویل فہرست ہے جن کا فسانہ اپنے عہد سے جڑا رہا۔فی زمانہ بھی افسانہ اپنی ڈکشن میں دھنک رنگ سہی ، موضوعاتی اعتبار سے اپنا عہد اُس کے وجود میں سانس لیتا محسوس ہو رہا ہے۔حقیقت نگاری کے بعد ردِ عمل کے طور پر جدیدیت کا جو رجحان 1960میں سامنے آیا تھا، اُس پر عدم ابلاغ کا الزام عاید کر کے اکثر ناقدین، بہ شمول شہزاد منظر ،نے کبھی کوئی کلمۂ خیر ادا نہیں کیا۔اُن کا خیال ہے کہ علامت اور تجرید ایک عہد کی ضرورت تھی اور اُس سے جتنا استفادہ کیاجانا چاہیے تھا وہ ہو چکاہے۔ اِس ڈکشن میں لکھنے والے خال خال ہیں۔ہمارا افسانہ نگار حقیقت کی تلخی کا ذائقہ آشنا ہو چکا ہے ۔اِسے آپ ترقی پسند تحریک کے دور رس اثرات کہہ لیجیے کہ افسانہ رومانویت اور ٹیگوریت کی بے مقصدو معانی اور بے سرو پا حسن کاری کے چنگل سے نکل آیا۔
ناول سے متعلق سلیم احمد نے کہا تھا کہ ناول نگار کو اپنا نقاد خود پیدا کرنا پڑے گا۔تقسیمِ ہند سے 1965کے درمیان ناول کاصرف ایک قابل ذکر تنقید نگارملتا ہے ۔ خوش قسمتی سے افسانے کی تنقید کا معاملہ مختلف ہے۔ اسے ہر عہد میں ناقدین میسر آئے ہیں، لہذا ہمارے ہاں افسانے کا مستقبل بے حد روشن اور امکانات سے بھر پور ہے۔
نذیر،راشداورشررکےناولوںکےتناظرمیںافسانےکے لیے جو راستہ ہم وار ہوا ،اُس کے فکری و اسلوبیاتی مقاصدکچھ اورتھے۔ افسانے کاسفر119سال بنتا ہے ۔ اِس سفر کے تمام نشیب و فراز اور پیچ و خم میں افسانے نے کسی طور وقت کے تقاضوں سے روگردانی نہیں کی ۔ ہماری ملکی تاریخ کی ہر ہر سیاسی، معاشی، سماجی اور معاشرتی کروٹ کو اِس نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ ہر تغیر و تبدّل کے رنگوں سے ایوانِ افسانہ کی تزئین و آرائش کی ہے۔ اگرچہ ایک ہی عہد میں دو مختلف تخلیقی رجحانات بھی دیکھے جا سکتے ہیں،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عہد بہ عہد افسانوں کا انتخاب کیا جائے تو ہم اپنی سیاسی و تہذیبی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔زیادہ تر رجحانات تو تحریک کی صورت اختیار نہیں کر پاتے ۔مذکورہ بالا ادبی رجحانات میںسے اکثر اُس دورکے سیاسی، معاشرتی اور سماجی میلانات کا نتیجہ تھے، جنہوں نے وقتی عروج حاصل کیا اوربعدا زاں زوال پذیر ہوئے ۔ ہمارے آج کے ادیب کا طرزِ احساس بھی ذہنی و فکری انتشار اور اقتصادی و معاشرتی عدم مساوات کے جنم سے تشکیل پا رہا ہے، جس کا اظہار وہ اپنی اپنی ڈکشن میں کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رومانویت،حقیقت نگاری، پھر تجرید و علامت ۔کئی ادبی دانشوروں کا خیال ہے کہ جب حقیقت نگاری عروج پر پہنچ گئی تو اِس میں اظہار کے مزید امکانات محدود ہو گئے، لہذا جدیدیت کے طور پر تجرید و علامت کا آغاز ہوا۔یوں چالیس سال بیت جانےکےباوجود تجریدوعلامت ہی کو جدیدیت خیال کرتے ہیں اور اُن کی نظر میں جدیدیت انتظار حسین اور انور سجادپردم توڑ چکی ہے۔یہ تعریف نظر ثانی کی متقاضی ہے۔انتظار حسین کو تو ما ضیٰ سے خاصا شغف تھا ۔ انہوں نے اساطیر اور داستانوں پر اپنے اسلوب کی بنیاد رکھی تھی۔ البتہ انور سجاد کو چوں کہ انگریزی ادب سے لگاؤ تھا تو تجرید و علامت کے سلسلے میں تحریک کا سبب انگریزی ادب ہی تھا۔ کیا ایسے میں افسانے کے جدید رجحانات بہتر اور نئی لسانی تشکیلات میں کوئی اہم کردار ادا کر رہے ہیں؟دراصل ہر وہ ادیب حقیقت نگارہےجومعروضی انداز سے اپنے گرد و پیش کواپنی تخلیقات میں پیش کررہا ہے۔
آج کےادیب کے مشاہدات، نظر کے زاویوں کی وسعت و گہرائی اپنے پیش روؤں سے کہیںزیادہ ہیں ، لہذاآج کا افسانہ اپنے تازہ تصو را ت ، گو ناگوں مشاہدات و تجربات، تہذیبوں کےملاپ اور انسانی المیوں کے باعث کہیں زیادہ عصری شعور کا حامل ہے۔اِس سے آگے جدیدیت کیا ہو گی؟یوں جدیدیت کو انتظار و سجاد پر ختم کر دینا یا اُن ہی سے منسوب کر دینا مضحکہ خیز ہے۔
اب افسانہ بیانیہ طرز کے اکہرے اظہاریے سے آگے نکل کر حال سے زیادہ ہم آہنگ ہوا ہے اور گردو پیش سے یگانگت محسوس کرتا ہے۔جدیدیت کی طرح حقیقت نگاری کو بھی1955 تک محدود کرنا(علامت اور تجرید سے پہلے کا دور) سراسر خلافِ حقیقت امر ہے کہ ہر عہد میں حقیقت نگاری کے معیارات اور تصورات بدلتے رہے ہیں۔حیران کن طور پر وہ زمانہ بھی تھا جب ما بعد الطبیعیاتی اور ماوائے عقل وشعور باتوں کو بھی حقیقت نگاری سمجھا جاتا تھا۔بعدا زاں عقل و شعور ، مذہب سے دوری اور جنسی رجحانات کے بیان کو حقیقت نگاری سمجھا گیا ۔مختصر یہ کہ حقیقت نگاری کے تصوارت ماحول، حالات و واقعات اور مشاہدات کے تابع ہوتے ہیں۔ہمارے عہد کا نمایاں ترین رجحان یہ ہے کہ افسانہ نگاروں کی بڑی جماعت انسان اور زندگی کو اہم ترین موضوع کے طور پر اپنے اپنے اسلوب میں پیش کر رہی ہے۔