Student Name:
Course: تاریخ اردو ادب 5602
Semester: Autumn, 2021
ASSIGNMENT No. 2
کورس: تاریخ اردو ادب 5602 سمسٹر خزاں 2021
ANS 01
آغاز جوانی تھا، جو دلی میں آ کر طالب علمی کی۔ طبیعت میں موزونیت خدا داد تھی۔ اس میں قوت بہم پہنچائی۔ ابتداء سے غربت اور مسکینی اور ادب کی پابندی طبیعت میں تھی۔ ساتھ اس کے خوش خلقی اور خوش مزاجی تھی، جس نے بزرگان دہلی کی صحبتوں تک رسائی دی تھی۔ مشاعرہ بھی کیا کرتے تھے۔ انہی سامانوں کا سبب تھا کہ سب شاعر اور معزز اشخاص اس میں شامل ہوتے تھے۔ دلی کا اس وقت ہ عالم تھا کہ خود وہاں کے گھرانے گھر چھوڑ چھوڑ کر نکلے جاتے تھے۔ اس لیے انہیں بھی شہر چھوڑنا پڑا۔ وطن یہاں تھا۔ مگر دلی میں خدا جانے کیا میٹھا ہے کہ خود کہتے ہیں۔
دلی کہیں ہیں جس کو زمانے میں مصحفی
میں رہنے والا ہوں اس اجڑے دیار کا
اسی طرح اپنے کلام میں اکثر جگہ دلی کے رہنے والے کا فخر کیا کرتے ہیں، غرض آصف الدولہ کا زمانہ تھا کہ لکھنو پہنچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں (جو دلی والوں کا معمولی ٹھکانا تھا) ملازم ہوئے۔ چنانچہ اکثر غزلوں میں بھی اس کے اشارے ہیں۔ ایک شعر ان میں سے ہے۔
تخت طاو۷س پہ جب ہووے سلیماں کا جلوس
مور چھل ہاتھ میں میں بال ہما کالے لوں
غرض وہاں کثرت مشق سے اپنی استادی کو خاص و عام میں مسلم الثبوت کیا۔ علمیت کا حال معلوم نہیں، مگر تذکروں اور خود ان کے دیوانوں سے ثابت ہے کہ زبان فارسی اور ضروریات شاعری سے با خبر تھے اور نظم و نثر کی کتابوں کو اچھی طرح دیکھ کر معلومات وسیع اور نظر بلند حاصل کی تھی۔
شوق کمال کا یہ حال تھا کہ لکھنو میں ایک شخص کے پاس کلیات نظیری تھی۔ اس زمانے میں کتاب کی قدر بہت تھی۔ مالک اس کا بہ سبب نایابی کے کسی کو عاریۃً بھی نہ دیتا تھا۔ ان سے اتنی بات پر راضی ہوا کہ خود آ کر ایک جزو لے جایا کرو۔ وہ دیکھ لو تو واپس کر کے اور لے جایا کرو۔ ان کا گھر شہر کے اس کنارے پر تھا اور وہ اس کنارے پر۔ چنانچہ معمول تھا کہ ایک دن درمیان وہاں جاتے، جز بدل کر لے آتے۔ ایک دفعہ جب وہاں سے لاتے تو پڑھتے آتے، گھر پر آ کر نقل یا خلاصہ کرتے اور جاتے ہوئے پھر پڑھتے جاتے۔ ہم لوگوں کے حال پر افسوس ہے کہ آج چھاپے کی بدولت وہ وہ کتابیں دکانوں میں پڑی ہیں، جو ایک زمانے میں دیکھنے کو نصیب نہ ہوتی تھیں، مگر بے پروائی ہمیں آنکھیں اٹھا کر نہیں دیکھنے دیتی۔ تعجب ہے۔ ان لوگون سے جو شکایت کرتے ہیں کہ پہلے بزرگوں کی طرح اب لوگ صاحب کمال نہیں ہوتے۔ پہلے جو لوگ کتاب دیکھتے تھے تو اس کے مضمون کو اس طرح دل و دماغ میں لیتے تھے، جس سے اس کے اثر دلوں میں نقش ہوتے تھے۔ آج کل کے لوگ پڑھتے بھی ہیں تو اس طرح صفحوں سے عبور کر جاتے ہیں، گویا بکریاں ہیں کہ باغ میں گھس گئی ہیں۔ جہاں منہ پڑ گیا ایک بکٹا بھر لیا، باقی کچھ خبر نہیں۔ ہوس کا چرواہا ان کی گردن پر سوار ہے وہ دبائے لیے جاتا ہے۔ یعنی امتحان پاس کر کے ایک سند لو اور کوئی نوکری لے کر بیٹھ رہو اور افسوس یہ ہے کہ نوکری بھی نصیب نہیں۔
محاورات قدیم میں انہیں میر سوز، سودا اورمیر کا ایک آخری ہمزبان سمجھنا چاہئے۔ وہ سید انشاء اور جرات کی نسبت دیرینہ سال تھے یا تو بڑھاپے نے پرواز کے بازو ضعیف کر دیے تھے یا قدامت کی محبت نئی شے کے حسن کو حسین کر کے نہ دکھاتی تھی۔ جیسے آزاد ناقابل کہ ہزار طرح چاہتا ہے، مگر اس کا دل نئی شائستگی سے کسی عنوان اثر پذیر نہیں ہوتا ۔ شیخ موصوف نے لکھنو میں صدہا شاگرد کیے، مگر یہ اب تک کسی تذکرے سے ثابت نہیں ہوا کہ وہ خود کس کے شاگرد تھے۔ انہوں نے بڑی عمر پائی اوراپنے کلام میں اشارے بھی کیے ہیں۔ بڑھاپے میں پھر شادی کی تھی۔ طبیعت کیرنگینی نے مسی کی مدد سے دانتوں کو رنگین کیا تھا۔ چنانچہ سید انشاء نے ان کی ہجو میں سب اشارے کیے ہیں۔ غرض جب تک زندہ رہے، لکھنو میں رہے اور وہیں1240ھ میں فوت ہوئے۔ سید انشائ، جرات، میر حسن وغیرہ شعراء ان کے ہم عصر ہیں۔
عام تذکرے گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تصنیفات میں چھ دیوان اردو کے تمام و کمال ہیں۔ جن میں ہزاروں غزلیں اور بہت سے قصیدے اور ابیات اور رباعیاں اور معمولی تضمینیں ہیں۔ چنانچہ ایک قصیدے کے دعائیے میں کہتے ہیں۔
مصحفی آج دعا مانگے ہے تجھ سے یا رب
اے کہ ہے ذات تری سب پہ غفور اور رحیم
یہ جو دیوان چھیوں اس کے ہیں مانند سہیل
بزم شاہان میں لباس ان کار ہے جلد ادیم
دوتذ کرے شعرائے اردو کے، ایک تذکرہ فارسی کا اور ایک دیوان فارسی لکھا، مگر راقم کے پاس جوان کے دیوان ہیں، ان میں سے ایک پر دیوان ہفتم لکھا ہے اور ایک دیوان اور ہے۔ اس میں سید انشاء کے جھگڑے بھی ہیں۔ یہ آٹھواں ہو گا کہ سب سے آخیر ہے۔
معاشرے کی زوال پذیری کا عکس ادب میں نظر آنا فطری ہے اور دبستان لکھنؤ کے شعرا کے یہاں خارجی مضامین کی فراوانی اسی بات پر دال ہے۔ لیکن اس زمانے میں بھی خواجہ حیدر علی آتش دبستان لکھنؤ کے دوسرے شعرا سے مختلف نظر آتے ہیں ان کا انداز بھی الگ ہے۔ اس لیے کلام میں بھی انفرادیت ہے۔ان کا کلام ایسا منجھا ہواہے کہ ان کے کتنے ہی مصرعے اور اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ جتنے اشعار آتش کے ضرب المثل ہیں اتنے کسی بھی دوسرے شاعر کے نہیں۔ مثلاً:
میں جا ہی ڈھونڈھتا تری محفل میں رہ گیا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
ہمارے بھی ہیں مہماں کیسے کیسے
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
آتش کو دبستان لکھنؤ کا نمائندہ شاعر نہیں کہا جا تا کیوں کہ اس دور میں تو ناسخ ہی اپنی شعری خصوصیات کے لحاظ سے لکھنؤ کی نیابت کر رہے تھے اور ان کی شاعری کا ڈنکا دور دور تک بج رہا تھا، لیکن دہلی اور لکھنؤ کے اتصال سے آتش نے نیا رنگ و آہنگ پید اکیا اور یہی ان کی شناخت بھی ہے جہاں ان کے یہاں داخلیت ہے وہیں لکھنؤ کی خارجیت بھی موجود ہے۔اسی لیے آتش کے اشعار جہاں ذہن پر دستک دیتے ہیں وہیں دل کے تاروں کو بھی چھیڑتے ہیں۔
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
آتش نے جا بجا اپنے کلام میں بندش کی صفائی معنی کی خوبصورتی فکر کی جولانی‘ زبان کی روانی کا ذکر کیا ہے اور اس میں کوئی کلام بھی نہیں ہے وہ خود ہی کہتے ہیں:
کھینچ دیتا ہے شبیہِ شعر کا خاکہ خیال
فکرِ رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرواز کا
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
لیکن آتش کی شاعری کا صرف یہ کمال نہیں ہے کہ وہ مرصع سازی کی نمائش کرتی ہے مرصع سازی سے تو زیور کا حسن چمک جاتا ہے لیکن مرصع سازی شعریت کی بدل نہیں ہو سکتی۔ آتش کی مرصع سازی کے پیچھے احساس کی ایک دنیا آباد ہے اوران کے اشعار میں یہ دنیا صاف نظر آتی ہے:
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
بہارِ گلستاں کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا سر آرزو کرتے
مری نماز جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
یہ شاعر ہیں الہٰی یا مصور پیشہ ہیں کوئی
نئے نقشے نرالی صورتیں ایجاد کرتے ہیں
خواجہ حیدر علی آتش کی پیدائش سنہ 1768ءکو فیض آباد میں ہوئی تھی۔ انہوں نے تعلیم وہیں کے مدرسے سے حاصل کی تھی مگر حالات کے جبر کے سبب وہ فیض آباد چھوڑ کر لکھنئو چلے آئے تھے۔ وہاں اس وقت شعرا کی کہکشاں موجود تھی اور ان شعرا کا تعلق دربار سے تھا۔لیکن آتش اپنے فقیرانہ مزاج کے سبب سرکار دربار سے وابستہ نہیں ہو سکے۔ بلکہ انہیں دربار میں بلایا بھی گیا تو نہیں گئے۔ اس کی بجائے انہوں نے درویشی اختیار کی اور اس درویشی کے سبب انہیں بے حد تکلیفوں کاسامنا کرنا پڑا۔فکری طور پر وہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے اور ٹوٹنے کی یہ کیفیت ان کی شاعری میں بدرجہٴ اتم موجود ہے، جس کی باز گشت ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔
ان کا پیدائشی نام حیدر علی تھا اور ان کے والدکا نام علی بخش تھا۔ سلسلہ نسب خواجہ عبداللہ احرار تک پہنچتا ہے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں دہلی آئے اور وہیں پرانے قلعے میں بس گئے۔ خواجہ علی بخش شجاع الدولہ بہادر کے عہد میں دہلی سے فیض آباد آئے اورمحلہ مغل پورہ میں قیام کیا۔ یہیں حیدر علی کی پیدائش ہوئی تھی جو بعد میں آتش کے نام سے معروف ہوئے۔ آتش نے مصحفی کی شاگردی اختیار کی تھی جن کالکھنؤ اوردہلی دونوں دبستانوں سے تعلق تھا۔ لیکن لکھنؤ کے شعرا کی گروہ بندیوں کے سبب مصحفی وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جو انہیں ملنا چاہئیے تھااور اس کی تپش ان کے دل میں تھی۔ یہی چنگاری انہوں نے اپنے شاگرد آتش کے دل میں منتقل کر دی۔
لیکن آتش بھی خود کودرباری نہ بنا سکے، اسی لیے وہ تصوف کی جانب راغب ہوگئے، قلندری اختیار کر لی اور مخصوص لباس پہن کر لکھنؤ کے بانکے بن گئے۔ اگرچہ آتش کی زندگی بہت ہی کلفتوں میں گزری لیکن خود پسندی اور انانیت کے سبب انہوں نے کہیں دستِ طمع دراز نہیں کیا۔ شاید آتش کے اشعار میں اسی لیے وہ خوبی پیدا ہوئی جو لکھنؤ کے کسی شاعر کے یہاں نظر نہیں آتی:
مگر اس کو فریبِ نرگسِ مستانہ آتاہے
الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
تصور سے کسی کے کی ہے میں نے گفتگو برسوں
رہی ہے ایک تصویرِخیالی رو برو برسوں
حسرتِ جلوہٴ دیدار لیے پھرتی ہے
پیشِ روزن پسِ دیوار لیے پھرتی ہے
موت مانگوں تو رہے آرزؤئے خواب مجھے
ڈوبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف کو
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
ANS 02
۔ ”سحرالبیان“ میں سادگی کا حسن ہے اور ”گلزار نسیم“ میں پرکاری کا جادو ہے، غر ضیکہ دونوں میں ساحری اور عشوہ طرازی موجود ہے۔مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں،
” ہمارے ملکِ سخن میں سےنکڑوں مثنویاں لکھی گئیں مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے نکلے جنہوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند پائی ۔ ایک” سحرالبیان“ اور دوسرے ”گلزار نسیم“ اور تعجب یہ ہے کہ دونوں کے رتبے بالکل الگ الگ ہیں۔“
مثنوی”گلزار نسیم“ پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنو کے دبستان شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے۔ نسیم حیدر علی آتش کے شاگر دتھے۔ اور اس مثنوی کی تصنیف کے دوران شاگرد کو قدم قدم پر استاد کی رہنمائی حاصل رہی آتش کی ہدایت پر ہی نسیم نے مثنوی کو مختصر کرکے نئے سرے سے لکھا او ر ایجاز و اختصار کا معجزہ کہلایا ۔بقول فرمان فتح پوری کہ،
” اس میں کردار نگاری ، جذبات نگاری اور تسلسل بیان کی کم و بیش وہ سبھی خصوصیات ہیں جو کہ ایک افسانوی مثنوی کے لئے ضروری خیال کی جاتی ہیں لیکن اس کی دلکشی کا راز دراصل اس کی رنگین بیانی، معنی آفرینی ، کنایاتی اسلوب، لفظی صناعی اور ایجاز نویسی میں پوشیدہ ہے ان اوصاف میں بھی اختصار ایجاز کا وصف امتیازی نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔“
پلاٹ:۔
”گلزارنسیم “ کے پلاٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ کا نام زین الملوک تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے کچھ عرصہ بعد پانچواں بیٹا پیدا ہواجس کا نام تاج الملوک تھا۔ اس بیٹے کے بارے میں نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہوگااو ر ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ طبیبوں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ ایک پھول ہے” گل بکاولی“ اُس سے اس کی بےنائی واپس آسکتی ہے بس اس طرح سارے قصے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔
گلزار نسیم کی ایک خصوصیت اس کے پلا ٹ کی پیچیدگی ہے یہ صرف تاج الملوک اور بکاولی کی کہانی نہیں نہ صرف ایک پھول حاصل کرنے کی کہانی ہے بلکہ اس میں کئی کہانیاں گُتھ گئی ہیں ۔ تاج الملوک کی شادی کے ساتھ ہی قصہ ختم ہو جانا چاہئے تھا مگر راجہ اندر اور چتراوت اس کہانی کو آگے لے جاتے ہیں دراصل یہ کہانی ایک استعارہ ہے کہ مقصد کے حصول میں کتنی دشواریاں ہوتی ہیں کس طرح آگ کے دریا میں گزرنا پڑتا ہے۔ پھر مقصد حاصل ہونے کے بعد ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ مگر ارادہ پختہ اور کوشش مستحکم ہو تو پھر ہاتھ آجاتا ہے۔
معاشرت کی تصویر کشی:۔
اگرچہ ” گلزار نسیم“ کا پلاٹ مکمل طور پر فرضی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعراپنے دور سے مواد حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ” گلزار نسیم“ میں نوابین اودھ کے عہد کی تہذیب نظر آتی ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیم نے نواب غازی الدین حیدر، نواب نصیر الدین حیدر، نواب محمد علی شاہ، نواب امجد علی شاہ کا زمانہ دیکھا تھا ۔ اس لئے اس عہد میں لکھنو میں جو رواج تھے ان کی جھلک ”گلزار نسیم“ مےں نظر آتی ہے۔ جب تاج الملوک اور بکاولی کی شادی ہوئی تو کچھ رسمیں ادا کی گئیں جن کا ذکر نسیم یوں کرتے ہیں
گل سے خوانوں میں زردہ لایا
ان غنچہ دہانور کو کھلایا
جب عقد کی انکے ساعت آئی
دو رشتوں میں ایک گرہ لگائی
حق پاکے جو رکھتی تھیں قدامت
بول اٹھیں مبارک و سلامت
ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنو کے نوابی دور میں گانا ، ناچ کے علاوہ حقہ ، پان، کھانے کا رواج تھا۔ اور بھی بہت سے رواج اور رسم مثنوی” گلزار نسیم “ میں ملتے ہیں
مرصع کاری ، بندش الفاظ:۔
مرصع کاری میں ” گلزار نسیم“ اپنی مثال آپ ہے اس کے لکھنے والے پنڈت دیا شنکر نسیم ، خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔ اور خود آتش کے خیا ل میں شاعری مرصع ساز کا کام ہے چنانچہ بندش الفاظ نگوں کے جڑے کی مثل ہیں ۔ دیا شنکر نسیم نے بھی بندش الفاظ کے معاملے میں اپنے استاد جیسی فنی مہارت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ دیا شنکر نسیم کی اس مثنوی میں اسی مرصع سازی کے نمونے جگہ جگہ بکھرے دکھائی دیتے ہیں مندرجہ زیل اشعار دیکھیں،
عریانی کے ننگ سے لے جائیں
ستار کی سب قسمیں کھائیں
ہم بستر آد می پری تھی
سائے کی بغل میں چاندنی تھی
منظر نگاری:۔
دیا شنکر نسیم کو منظر نگاری پر پورا عبور حاصل ہے لیکن مثنوی کو مختصر کرنے کے سلسلے میں بعض جگہوں پر اس کی کمی نظر آنے لگتی ہے یقینی طور پر اگر وہ اپنی مثنوی کو پوری طوالت کے ساتھ پیش کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔ اس کے باوجود ”گلزار نسیم“ میں عمدہ منظر نگاری کے نمونے موجود ہیں یہ نمونے مناظر میں بھی ہیں اور کیفیات میں بھی،
تاج الملوک کا گزر ایک ہولناک دشت میں ہوتا ہے دکھانا یہ ہے کہ ایک صحرا ہے بے برگ و گیاہ، سیع لق و دق جہاں کبھی کسی جانداز کا گزر نہیں ہوا چاروں طرف ایک ہو کا عالم طاری ہے اس بیان کے ساتھ ساتھ تناسب ِ لفظی موجود ہے اس میں عام نگاہیں الجھ کر رہ جاتی ہیں اور عکاسی و مصوری کا جو کمال اس میں صرف کیا گیا ہے بادی النظر میں معلوم نہیں ہوتا۔
اک جنگل میں جا پڑا جہاں گرد
صحرائے عد م بھی تھا جہاں گرد
سائے کو پتا نہ تھا شجر کا
عنقا تھا نام جانور کا
شب کو جنگل میں سانپوں کے اوس چاٹنے کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں
لہرا لہرا کے اوس چاٹی
بن میں کالوں نے رات کاٹی
راجہ جب لونڈیوں سے سوال کرتا ہے ،
پوچھا پریوں سے کچھ خبر ہے
شہزادی بکائولی کدھر ہے
تولونڈیوں کی طرف سے مناسب جواب نہ سوجھنے پر کیا کیفیت ہوئی اس کا منظر ملاحظہ ہو
آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی
منہ پھیر کے ایک مسکرائی
چتون کو ملا کے رہ گئی ایک
ہونٹوں کو ہلا کے رہ گئی ایک
اس سلسلے میں ایک اور دلچسپ منظر وہ ہے جب تاج الملوک پریوں کے کپڑے چرا لیتا ہے اوروہ شرمائی شرمائی بدن کو چراتی آگے بڑھتی ہیں، یہ منظر دیکھیں
جب خوب وہ شعلہ رو نہائیں
باہر بصد آب و تاب آئیں
پوشاک دھری ہوئی نہ پائی
جانا کہ حریف نے اُڑائی
جھک جھک کے بدن چراتی آئیں
رک رک کے قدم اُٹھاتی آئیں
کیفیت کی منظر نگاری دیکھیں بکاولی کی فراق میں حالت یوں بیان کی ہے۔
سنسان وہ دم بخود تھی رہتی
کچھ کہتی تو ضبط سے تھی کہتی
گرتی تھی جو بھوک پیاس بس میں
آنسو پیتی تھی کھا کے قسمیں
تاج الملوک اور گل بکاولی کا راز فاش ہونے پر ان کا کیا حال ہوتا ہے ذرا منظر دیکھیں،
دونوں کی رہی نہ جان تن میں
کاٹو تو لہو نہ تھا بد ن میں
جذبات نگاری:۔
پنڈت دیا شنکر نسیم کو جذبات نگاری میں ید طولیٰ حاصل ہے انہوں نے مختلف کرداروں کی جذبات کی عکاسی نہایت خوبی کے ساتھ کی ہے مثلا ً جب بکاولی کاپھول غائب ہوتا ہے تو گھبرائے ہوئے کہتی ہے۔
گھبرائی کہ ہیں کدھر گیا گل
گھبرائی کہ کون دے گیا جل
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون
ہے ہے مجھے خار دے گیا کون
ان اشعار میں بکاولی کی جذبات کی صحیح عکاسی کی گئی ہے بکائولی کا گھبرانا اور افسوس کرنا بالکل فطری ہے اس لئے ان کے جذبات میں صداقت موجودہے۔ اس طرح تاج الملوک اور بکائولی کی شادی ہوگئی تو دونوں خوشی کے مارے پھولے نہ سمائے،
راتوں کو گنتے تھے ستارے
دن گننے لگے خوشی کے مارے
اس طرح ایک اور جگہ بکائولی کی ماں نے جب تاج الملوک کے ساتھ اس کو اختلاط میں پایا تو اس کو سخت غصہ آیا ۔ اس نے اپنے غصے کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
حرمت میں لگایا داغ تو نے
لٹوائی بہار باغ تو نے
تھمتا نہیں غصہ تھامنے سے
چل دور ہو میر ے سامنے سے
غرضیکہ ”گلزارنسیم“ میں مختلف مقامات پر جذبات نگاری کی صحیح اور حسین تصویریں ملتی ہیں،
جزئیات نگاری:۔
پنڈت دیا شنکر نسیم نے مختلف واقعات کو موقع و محل کے اعتبار سے پیش کیا ۔ اس لئے اس میں بلاغت کی شان پیدا ہو گئی ہے مثلاً جب چاروں شہزادے گل بکاولی لے کر آئے تو اس کی مدد سے زین الملوک کی آنکھوں میں دوبارہ روشنی واپس آگئی اس وقت بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے جشن آراستہ کیا ۔ اس واقعے کو نسیم صاحب نے ان اشعار میں بیان کیا ہے۔
نور آگےا چشم آرزو میں
آیا پھر آب رفتہ جو میں
نیچے سے پلک کے پھول اُٹھایا
اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا
نسیم نے تاج الملوک اور زین الملوک کی ملاقات کا واقعہ مندرجہ ذیل اشعار میں بیان کیا ہے۔
دونوں میں ہوئیں چار آنکھیں
دولت کی کھلیں ہزار آنکھیں!
راجا نے ایک روز بکائولی کو اپنی محفل میں یاد کیا کیونکہ وہ ایک عرصہ سے غیر حاضر تھی نسیم اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے۔
ایک شب راجاتھا محفل آرا
یاد آئی بکائولی دل آرا
پوچھا پریوں سے کچھ خبر ہے
شہزادی بکائولی کدھر ہے
مکالمہ نگاری:۔
”گلزار نسیم“ میں کئی مقامات پر مکالمے بھی ملتے ہیں ، اگرچہ مثنوی میں یہ ایک مشکل کام گنا جاتا ہے چلتی ہوئی کہانی کے بہائو میں مکالمے ٹانکنا یقینی طور پر مشکل کا م ہی ہے ۔ لیکن دیا شنکر نسیم نے قصے میں کئی جگہ اپنے فنی کمال کا ثبوت دیتے ہوئے مکالمے پیش کئے ہیں،روح افزاءاور اس کی بہن کے مکالمے دیکھیں
روح افزءنے کہا بہن سے
بہتر کوئی جا نہیں چمن سے
گلگشت کریں چلو کہا خیر
کیا جانے کہ ہوگی سیر میں سیر
بولی وہ یوں کہ آشنا تمہارا
پیار انہیں پیاری کا ہے پیارا
راجا اندار نے بکائولی کے متعلق پوچھا تو پرےوں نے خاموشی اختےار کی ، اصرار پر بتاےا کہ،
ناتا پرےوں سے اس نے توڑا
رشتہ اِک آدمی سے جوڑا
وہ سن کے خفا ہوا کہا جائو
جس طرح سے بےٹھی ہو اُٹھا لائو
مافوق الفطرت عناصر:۔
قدیم دور کی مثنویوں کا ایک نمایاں عنصر مافوق الفطرت عناصر کا بیان ہے۔ یہ عناصر ان مثنویوں میں خاص طور سے داخل ہو جاتے ہیں جن کے پلاٹ فرضی ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ تاریخی واقعات کے پابند نہیں ہوتے ہیں چنانچہ یہ عناصر ”سحرالبیان“ میں بھی موجود ہیں اور “گلزار نسیم“ میں بھی مگر ” گلزارنسیم“ میں یہ عناصر زیادہ تعداد میں ملتے ہیں۔جو اسکے ساتھ محیر العقول انداز میں پیش کئے گئے ہیں یہ بیانات دلچسپ ضرور ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وہ مثنوی کے تصنع میں بھی اضافہ کرتے ہیں،
ڈرامائی عناصر:۔
”گلزار نسیم“ میں جابجا ڈرامائی عناصر موجودہیں نسیم نے اس مثنوی میں مکالمے پیش کئے ہیں ، جو ڈرامہ نگاری کی شان پیدا کر دیتے ہیں ، جب روح افزاءرہا ہو کر آئی تو جمیلہ اور بکائولی اس سے ملنے گئیں اور اس کا حال پوچھا نسیم نے اس موقع پر یوں مکالمہ پیش کیا ہے۔
روح افزاءسے ہوئیں بغلگیر
صورت پوچھی کہا کہ ”تقدیر“
دوسرے مصرعے میں مکالمہ نگاری کی شان موجود ہے، تاج الملوک دلبر بیسوا سے رخصت ہو رہا ہے اس موقعہ کی تصویر نسیم نے یوں کھینچی ہے۔
یہ کہہ کے اُٹھا کہ ”لوجان“
جاتے ہیں کہا ”خدا نگہبان”
غرضیکہ ”گلزارنسیم“ میں مختلف مقامات پر ڈرامائی شان موجود ہے۔
سیرت کشی یا کردار نگاری:۔
مثنوی”گلزار نسیم“ کے سارے کردار اگرچہ بڑی حد تک مصنوعی اور بناوٹی ہیں تاہم ان کرداروں کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں انہی خصوصیات کی بناءپر ہم ان کرداروں کو سمجھ سکتے ہیں اسی لئے ذیل کی سطروں میں کچھ کرداروں کی خصوصیات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
تاج الملوک:۔ مثنوی”گلزار نسیم“ کا ہیرو تاج الملوک ہے اسی کے گرد ساری مثنوی کے واقعات گردش کرتے ہیں مگر تاج الملوک ایک بد بخت شہزادہ ہے کیونکہ اس پر جب باپ کی نظر پڑتی ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے یوں اسے ملک بدر کیا جاتا ہے۔ نسیم نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے،
صاد آنکھوں کی دیکھ کر پسر کی
بینائی کے چہرے پر نظر کی
مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر نے چشم پوشی
تاج الملوک ایک حساس اور فرشناس انسان ہے جب بادشاہ کی بینائی جاتی رہی تو چاروں شہزادے گل بکائولی کے پیچھے روانہ ہوئے اس وقت تاج الملوک نے بھی اسے اپنا فرض سمجھا اور گل بکائولی کی تلاش میں روانہ ہوا۔ تاج الملوک ایک ذہین شہزادہ تھا اس کے مقابلے میں چاروں بھائی بے وقوف اور کم عقل تھے۔ تاج الملوک بہت موقع شناس تھا ۔ جب تلاشِ گل بکائولی میں سلطنت ارم کی سرحد تک پہنچا تو سرحد کا دیو انہیں کھانے کو دوڑا۔ لیکن اسی اثناءمیں وہاں سے کچھ اُونٹوں کا گزر ہوا۔ جن پر سامان خوردونوش لدا ہوا تھا۔ جن ان کو کچا کھانا چاہتا تھا لیکن تاج الملوک کے ذہن میں آیا کہ اس کو پکا کر کھلایا جائے تو یہ خوش ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے حلوہ پکایا ۔ اس واقعے کو پنڈت دیا شنکر نسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں،
حلوے کی پکا کر اک کڑھائی
شیرینی دیو کو چڑھائی!
ہرچند کہ تھا وہ دیو کڑوا
حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا
تاج الملوک نے موقع سے فائدہ اٹھایا ، اور اس سے کہا مجھے گل بکائو لی کی تلاش ہے۔اس کے علاوہ تاج الملوک بہت حوصلہ مند اور با ہمت نوجوان تھا اس نے گل بکائولی حاصل کرنے کے لئے بے شمار مصائب اُٹھائے مگر ہمت نہیں ہاری ۔ جب اسکے بھائیوں نے دھوکے سے اس سے گل بکائولی چھین لی تو اس نے ہمت نہیں ہاری اور ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا اور آخر میں ان کو اس کا صلہ بھی ملا۔ غرضیکہ تاج الملوک میں بے پنا ہ خوبیاں ہیں وہ ساری مثنوی پر چھایا ہوا ہے۔ اور نمایاں کردار ہے۔
بکاولی :۔ مثنوی”گلزار نسیم“ کی ہیروئین بکائولی ہے اس مثنوی میں دوسرا کردار اسی کا ہے ۔ بکائولی ایک پری ہے اس کا حسن چار دانگ عالم میں مشہور ہے۔ جب تاج الملوک اس کی خواب گاہ میں پہنچا تو وہ اس کے حسن کو دیکھ کر دنگ رہ گیا نسیم یوں کہتا ہے۔
پرد ہ وہ حجاب سے اُٹھایا
آرام میں اس پری کو پایا
بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی
چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی
بکائولی کی خوبی یہ ہے کہ وہ ذہین و ہوشیار ہے جب اس کا پھول چرایا گیا تو وہ اس کے تلاش میں گھر سے نکلی آخر کار زین الملوک کے شہر میں داخل ہو گئی بادشاہ کے پوچھنے پر اس نے خود کو غریب اور غریب زدہ بتایا اور اپنا نام فرخ اور باپ کا نام فیروز بتایا بادشاہ نے اُسے شہزادہ جان کر اپنا وزیر بنا لیا۔ بکائولی ایک وفادار بیوی بھی ہے جب زین الملوک وطن روانہ ہو رہاتھا تو بکائولی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے انکے ہمراہ جانے کے لئے تیار ہوگئی انہوں نے والدین سے اجازت چاہی
پردیسیوں سے جو کی نسبت
اب کیجئے ہنسی خوشی سے رخصت
بکائولی آخر وقت تک تاج الملوک کو نہیں بھولی اور آخر وقت تک تاج الملوک کا ساتھ دیا جب اس نے دھقان کے گھر میں دوبارہ جنم لیا تب اس نے تاج الملوک سے دوبارہ شادی کی۔ غرضیکہ بکائولی اپنے حسن ، عقلمندی اور وفاداری کی بناپر ایک کامیاب ہیروئن نظر آتی ہے۔
دیگر کردار:۔ ”گلزار نسیم“ میں دیگر کردار بھی ہیں جو اہم نہیں ہیں مثلاً دلبر ایک بیسوا ہے جو لوگوں کو چوسر کھلاتی ہے اور ان کو شکست دے کر دولت کماتی ہے۔ محمودہ حمالہ دیونی کے ساتھ رہتی تھی جس کو وہ دم دلا سا دے کر اپنے ساتھ لے آتی تھی ۔ اس نے حمالہ سے تاج الملوک کی سفارش کی کہ وہ بکائولی حاصل کرنے میں مدد کرے۔
چتر اوت سنگل دیپ کے راجا کی بیٹی ہے جو تاج الملوک پر عاشق ہو گئی ہے۔ بہرام ایک وزیر زادہ ہے اور تاج الملوک کا دوست ہے۔ مگر سارے کردار ضمنی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے ان پر بحث ضروری نہیں ۔
اسلوب:۔
”گلزارِ نسیم“ ، ”سحرالبیان“ کے تقریباً نصف صدی بعد لکھی گئی اس وقت تک لکھنوی معاشرہ ایک واضح شکل اختیار کر چکا تھا ۔ اب زندگی کے لوازمات میں ہی نہیں بلکہ طرز فکر اور طرزِ گفتار میں بھی تکلف اور رنگینی آگئی تھی ۔ چنانچہ” گلزار نسیم“ پڑھتے ہوئے قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی زبان اور اسلوب وہ نہیں جو نصف صدی پہلے میرحسن نے ختیار کیاتھا۔ میرحسن کے اندازِ نگارش میں دہلوی اور لکھنوی دونوں دبستانوں کی آمیز ش ہے۔ جبکہ گلزارِ نسیم “ خالصتاً لکھنوی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ”سحرالبیان“ کے بنیادی اوصاف صفائی ، زبان ، لطف ، محاورہ ، جذبات نگاری اور منظر نگاری اور منظر کشی تھے۔ لیکن نسیم کے زمانے تک لکھنو کی زندگی اس قدر رنگین ہو گئی تھی کہ لوگ تحریر اور تقریر میں تکلف کو لازمی قرار دینے لگے تھے۔ چنانچہ نسیم اور ان کے ہمعصر شعراءکا رنگینی اور مرصع کاری کی طرف غالب رجحان ہے۔ نسیم کی اپنی طبیعت میں مرصع کاری اور ذوق جمال کے عناصر موجود تھے اس کے علاوہ انہوں نے مثنوی کے لئے جس قصے کا انتخاب کیا اس کے واقعات اس قدر مربوط حیران کن اور پراسرار تھے کہ انسان کی قوت متخیلہ کو تحریک ملتی تھی۔اس مثنوی کے بارے میں آزاد لکھتے ہیں
” لوگ اسے پڑھتے ہیں اور جتنی سمجھ آتی ہے اس پر لوٹے جاتے ہیں“
ANS 03
سب رس۔ اردو کی ادبی نثر کا پہلا شاہکار
کچھ دنوں پہلے تک شمس الدین ولیؔ دکنی کو اردو شاعری کا باوا آدم مانا جاتا تھا اور بعض کو اب بھی اس پر اصرار ہے لیکن تحقیق و تلاش سے اب یہ بات قطعی طو رپر ثابت ہو گئی ہے کہ ولی دکنی سے بہت پہلے اردو کے اچھے اچھے شاعر گزرے ہیں۔ اسی طرح اب تک اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی سے منسوب کی جاتی تھی اور اس کی ”کربل کتھا” اردو کی پہلی کتاب سمجھی جاتی تھی لیکن حال ہی میں یہ بات سامنے آئی کہ فضلی سے کہیں پہلے نثر میں بہت سی کتابیں لکھی گئی تھیں، مگر وہ سب پردہ خفا میں تھیں لیکن اب تحقیق و جستجو نے انھیں گمنامی سے نکالا، انہی میں سے ایک قابل قدر کتاب مُلّا وجہیؔ کی ”سب رس” ہے۔
جناب مُلّا وجہیؔ دور اول کے اردو نثر نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اردو نثر کا آغاز اگرچہ ۷۵۸ ہجری سے ہو چکا تھا، تاہم اس دور میں صرف ایک تصنیف ”معراج العاشقین” از حضرت گیسو دراز بتائی جاتی ہے۔ تاہم ”سب رس” کو اردو کی پہلی مستقل تصنیف سمجھا گیا ہے، جو انھوں نے ۱۰۴۸ہجری مطابق ۱۶۳۸ عیسوی میں تصنیف کی۔ مُلّا وجہیؔ عبداللہ شاہ والئی گولگنڈہ کا درباری شاعر اور نثر نگار تھا۔ ”قطب مشتری” ان کی مشہور مثنوی ہے جس میں انھوں نے سلطان قلی قطب شاہ کے عشق کو موضوع بنایا ہے۔
قطب شاہی بادشاہوں کے عہد میں دکنی یعنی قدیم اردو کو بہت فروغ ہوا۔ یہ لوگ علم و ہنر کے بڑے سر پرست تھے اور شعرا ء و علماء ان کے دربار کی رونق تھے۔ خود ان میں سے بعض بڑے پائے کے شاعر ہوئے ہیں۔ سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ جسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے، اس کا ضخیم کلیات اس کی قادرالکلامی اور وسیع النظری پر دلالت کرتاہے۔ اردو میں اس سے قبل کا ایسا پاکیزہ کلام دریافت نہیں ہوا ہے۔ اس کا بھتیجا اور جانشین محمد قطب شاہ بھی اردو کا بہت اچھا شاعر ہوا ہے۔ پھر اس کا جانشیں عبداللہ قطب ؔ شاہ بھی اپنے باپ دادا کی طرح اردو کا سخنور تھا۔ اس کے عہد میں علم کا بہت چرچا تھا اور بعض بڑے فاضل اور شاعر اس کے دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ فارسی لغت کی مشہور اور مقبول کتاب”برہان قاطع” اس کے عہد میں لکھی گئی اور طب کی بعض مشہور کتابیں اس زمانے کی تالیف ہیں اور اسی بادشاہ کے نام سے منسوب ہیں اور مُلّا نظام الدین احمد نے اپنی کتاب ”حدیقتہ السلاطین” میں اس کے حالات لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے عہد میں بہت سے علماء نے بھی اپنی کتابیں اسی بادشاہ کے نام سے معنون کی ہیں۔ اس سے اس کی علم پروری اور علمی ذوق کا پتہ لگتا ہے۔ مُلّا غواصیؔ، ابن نشاطیؔ، قطبی، مقیمیؔ اور جنیدیؔ وغیرہ سب اُسی کے دربار سے وابستہ تھے۔
کتاب ”سب رس” میں مُلّا وجہیؔ نے ایک عام اور عالمگیر حقیقت کو مجاز کے پیرائے میں بیان کیا ہے اور حسن و عشق کی کشمکش اور عشق و دل کے معرکے کو قصے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ”سب رس” کا دیباچہ پڑھنے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ اسی کی ایجاد ہے اور اس کے دماغ کی اپج ہے۔حالانکہ یہ بات نہیں۔ یہ پُر لطف داستان سب سے پہلے محمد یحییٰ ابن سیبک فتاحی نیشا پوری نے لکھی۔ یہ نیشا پورکا علاقہ خراساں کے مشاہیر میں ہے اور شاہ رخؔ مرزا کے عہد میں تھے اور فتاحی ؔ تخلص کرتے تھے۔ یہ بہت فاضل اور قادر الکلام شاعر تھے۔ علاوہ دیوان کے ان کی کئی تصنیفات بھی ہیں۔ ان میں سے ایک ”دستور العشاق” یعنی حسن و دل کا قصہ ہے۔ دستور العشاق قصہ مثنوی ہے جس میں پانچ ہزار اشعار ہیں۔ اس قصے کو مصنف نے ”شبستان خیال” اور ”حسن دل” کے نام سے الگ الگ بھی لکھا ہے لیکن یہ دونوں دستور عشاق کے بعد لکھی گئی ہیں۔ ”حسن و دل” جو بہت مشہور ہوئی، نثر میں دستور عشاق کا خلاصہ ہے۔ اس کی مسجع اور مقفیٰ اور صنائع بدائع کی اس میں خوب داددی ہے۔
ایک عرصے تک ”سب رس” کو طبع زاد کتاب کہا جاتا رہا ہے لیکن بعد میں جانچ پڑتال اور تحقیق سے ثابت ہوا کہ گرچہ وجہی ؔ نے اس قصے کو نہایت احسن انداز میں ایک تخلیقی صورت میں پیش کیا ہے لیکن اصل میں یہ تمثیلی قصہ فارسی کی مشہور کتاب”دستور العشاق” سے لیا گیا ہے جس کو فتاحی نیشاپوری نے تصنیف کیا گو کہ مُلّا وجہیؔ نے قصے کی اصل کی طرف کہیں اشارہ نہیں کیا ، مگر دونوں کتابوں کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وجہیؔ نے قصے کی واردات حرف بہ حرف فتاحیؔ سے لی ہے اور اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں کیا ہے تو یہ کہ جابجاموقع بے موقع پندو نصیحت اور موعظمت کا دفتر کھول دیا ہے جس کا اصل کتاب میں نام و نشان نہیں۔
کتاب”سب رس” اس دقیق اور رنگین طرز میں لکھی گئی ہے جس کو مقفّٰی اور مسجع کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ فارسی اور عربی میں اس انداز کی بہت سی کتابیں ملتی ہیں جن میں زیادہ تر مشہور مقامات بدیعی، مقامات حدیدی، مقامات حمیدی اور تاریخ اصناف وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن اردو زبان کی قدیم ادبیات میں بھی ایسی کتابیںملتی ہیں جو اس مرصع طرز بیان سے متاثر ہو کر لکھی گئیں۔ ان میں ”نو طرز مرصع” از تحسین اور فسانۂ عجائب” از مرزا رجب علی بیگ سرمدؔ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ دراصل رنگینی اور رنگین بیانی مسلمان قوم کی خاص خوبی ہے۔
مُلّا وجہی اپنے زمانے کا قادر الکلام شاعر ہی نہیں بلکہ بے مثل ادیب بھی تھا۔ نظم و نثر میں اس کی تصانیف اس کے علم و فضل اور کا بیّن ثبوت ہیں۔ اسلامی علوم والسنہ کے علاوہ ہندوستانی زبانوں میں بھی اسے کافی دسترس حاصل تھی۔ مرہٹی، گوجری یعنی گجراتی اور اردو کے ساتھ ساتھ برج بھاشا کے لٹریچر سے وہ آشنا تھا۔ امیر خسرو کے ہندی کلام سے بھی آگاہی رکھتا تھا۔ لہٰذا وجہیؔ کے ادبی ذوق یا مذاق کا کیا کہنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وجہیؔ کو زبان دانی، زبان تراشی اور لغت سازی میں قدرت حاصل تھی۔
کتاب ”سب رس” کی زبان تقریباً تین صدی پہلے کی زبان ہے اور وہ بھی دکن کے بہت سے الفاظ اور محاورات ایسے ہیں جو اب بالکل متروک ہیں اور خود اہل دکن بھی نہیں سمجھتے۔ عربی اور فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں اور بعض محاورات آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً شان نہ گمان، خالہ کا گھر، کہاں راجہ بھوگ اور کہاں گنگوا تیلی،گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے وغیرہ۔ علاوہ ازیں اردو زبان کی صرف و نحو اور بعض الفاظ کے تغیر و تبدل کابھی پتہ چلتا ہے۔ مذکر اور مؤنث کی جمع ”اں” سے آئی ہے جیسے باتاں، جھاراں اور کتاباں وغیرہ۔ بھائی کی جمع بھائیاں۔ ایسے افعال متعدی جن کی ماضی مطلق ، ماضی قریب، ماضی بعید، ماضی احتمالی کے ساتھ ”نے” آتاہے تو فعل ہر حالت میں مذکر ہی استعمال ہوتا ہے۔ خواہ فاعل مؤنث ہی کیوں نہ ہو لیکن دکن میں مذکر کے لیے مذکر اور مؤنث کے لیے مؤنث فعل ہوتا ہے، جیسے اس عورت نے کہی، لڑکی نے پانی پی۔ لیکن ”نے” کا استعمال بہت بے قاعدہ ہے۔ اس حرف کے استعمال کے قواعد بعد میں منضبط ہوئے۔ میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا وغیرہ کے زمانے میں بھی یہی بے قاعدگی پائی جاتی تھی۔ جیسے رقیب نے، روسیاہ نے اور بے نصیب نے وغیرہ۔
یوں تو ہر ملک اور ہرزبان میں تمثیلی قصے ملتے ہیں۔ جیسے سنسکرت زبان میں ”ہت ایدیش”، فارسی میں ”انوار سہیلی” اور منطق الطیر” اور عربی میں اخوان الصفا وغیرہ۔ اسی طرز کی مشہور کتابیں ہیں لیکن اس سلسلے میں ایک بات قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ جن ملکوں میں دیومالا یعنی علم الاصنام کا رواج رہاہے، وہاں کے مصنفین کو اس طرز کے قصے لکھنے میں اس دیو مالا سے بڑی مدد ملی ہے۔ یعنی جہاں دیوی دیوتا مانے جاتے ہیں وہاں کے تمثیلی ادب میں ان سے خوب کام لیا گیا ہے۔ مثلاً ہندی یا سنسکرت کے ادب میں جہاں دولت یا علم کو مجسم کرنے کی ضرورت پڑی وہاں لکشمی اور سرپرستی کے کردار پیش کر دیئے۔ فرانسیسی، انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں کے ادب میں یونانی دیو مالا سے کام لیا گیا ہے۔ جیسے حسن کو مجسم اور مشخص کر کے پیش کرنا ہے تو زہرہ (وینس) کو پیش کر دیا۔ عشق کو زندگی بخشنی ہے تو کیوپٹر کی شکل میں سامنے لے آئے۔ لیکن اسلامی ممالک میں چونکہ اصنام پرستی ممنوع ہے، اس لیے وہاں کے مصنفین کو ان غیر مجسم کیفیات کو مجسم اور جاندار بنانے کے لیے دقت پیش آئی، سوائے اس کے کہ وہ انہی کو مجسم بنا دیں۔ یعنی عشق کو عشق کہیں اور حسن کو حسن اور کوئی صورت ان میں جان ڈالنے کی نہ تھی۔
اگرچہ وجہیؔ کی کتاب”سب رس” بنیادی طو رپر ایک تمثیل ہے، لیکن اس میں داستان اور افسانے کی طرز بھی ملی جلی معلوم ہوتی ہے۔ وجہی نے اپنے خیالات کو داستان اور افسانے کی طرز پر پیش کیاہے۔ چنانچہ سب رس میں پلاٹ ، کردار اور ماحول وغیرہ بھی ہے۔
نثر اردو کی ابتدا، نظم اردو کی طرح دکن میں ہوئی۔ نثر اردو کا ابتدائی ترقی یافتہ نمونہ سب رس ہے جس میں نثری اسلوب نے ایک انگڑائی لی ہے۔ سب رس سے پہلے کے نثری نمونوں کو نوگفتار بچے کی زبان سے مناسبت دی جا سکتی ہے لیکن جو چیز سب رس کو ہماری نگاہ میں سب سے زیادہ قیمتی بناتی ہے وہ اس کے اسالیب ہیں اور جب ہم ان اسالیب کا موجودہ زبان سے مقابلہ کرتے ہیں تو آج کی زبان میں اور اس زمانے کی زبان میں بہت خفیف سا فرق معلوم ہوتاہے۔
زمانہ بدل گیا۔ ہندوستان میں مغل خاندانوںکی حکومت ختم ہو کر انگریزوں کی عملداری شروع ہوئی اور انگریزوں کو دیسی زبان سکھانے کی غرض سے ۱۸۵۵ء کو کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں آیا۔ چنانچہ سادگی اور سلاست کو عقیدے کے طو رپر فورٹ ولیم کالج میں اپنایا گیا۔ خاص طو رپر مصنف میر امنؔ نے اپنی کتاب ”باغ و بہار” میں اور حیدر بخش حیدریؔ نے ”توتا کہانی” میں اس اسلوب کے بہترین نمونے پیش کیے۔ فورٹ ولیم کالج کا وجود اردو نثر کی شاہراہ پر ایک بہت بڑا سنگ میل ہے لیکن فورٹ ولیم کالج کی نثر ماسوائے ”باغ و بہار” کے زندہ نثر نہ تھی۔ کیونکہ اس میں شخصی تحریروں کے بجائے ترجموں کے ذریعے قصہ کہانیاں لکھی گئیں مگر یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سادگی اور سلاست کے دروازے کھل گئے۔ اس آزادی سے مستفید ہو کر آئندہ لوگوں نے نثر کو ذریعہ اظہار بنایا۔ پھر مرزا غالبؔ نے انہی خطوط نویسی کے ذریعے نثر کو شخصی ترجمان بنایا اور اردو نثردیکھتے دیکھتے ایک زندہ نثر بن گئی بلکہ بہت شگفتہ اور زندگی سے قریب مضامین ادا کرنے لگی۔ مرزا غالب کے بعد سر سید احمد خاں کا دبستان آتا ہے اور یہ عقلی نثر کا دور ہے۔ یہ ایسا دبستان ہے کہ جس کا ہر فرد اردو نثر پر مستقل نقش چھوڑ گیا ہے۔ اس زمانے کی تقریباً تین کتابیں شعر العجم، مقدمہ شعروشاعری اور ابن الوقت وغیرہ مختلف مصنفوں کی مختلف موضوعات پر نمائندہ کتابیں ہیں، جو اپنے اپنے موضوع کے لحاظ سے ایسے منفرد اسلوب کی حامل ہیں جس نے نثر اردو کو آگے بلکہ تیز رفتاری سے آگے بڑھایا۔سر سید کے دور کے بعد رومانوی دور شروع ہوا جس میں نثر اردو نے بے پناہ ترقی کی اور یہ دور ۱۹۳۵ء تک چلا گیا۔ اس دور میں نثراردو سپاٹ پن اور سادگی محض کو ترک کر کے شاعری کے قریب تر آگئی۔ پھر ۱۹۳۵ء سے ترقی پسندانہ دور شروع ہوا، اسے نثر اردو کاسائنٹیفک دور بھی کہاجا سکتاہے۔ یہ اردو نثر کا طویل ارتقائی سفر جو صدیوں پر پھیلا ہواہے۔ کہنے کو تو ایک لمبا سفر ہے لیکن اردو نثر نے بہت تیز رفتاری سے ارتقائی مسافتوں کو طے کیا۔ لہٰذا خلاصہ یہ کہ اس طویل ارتقائی سفر کا نقطۂ آغاز مُلّا وجہیؔ کی کتاب”سب رس” ہی ہے، اگرچہ یہ اولین کوشش ہے لیکن بہترین کوشش ہے۔
کچھ دنوں پہلے تک شمس الدین ولیؔ دکنی کو اردو شاعری کا باوا آدم مانا جاتا تھا اور بعض کو اب بھی اس پر اصرار ہے لیکن تحقیق و تلاش سے اب یہ بات قطعی طو رپر ثابت ہو گئی ہے کہ ولی دکنی سے بہت پہلے اردو کے اچھے اچھے شاعر گزرے ہیں۔ اسی طرح اب تک اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی سے منسوب کی جاتی تھی اور اس کی ”کربل کتھا” اردو کی پہلی کتاب سمجھی جاتی تھی لیکن حال ہی میں یہ بات سامنے آئی کہ فضلی سے کہیں پہلے نثر میں بہت سی کتابیں لکھی گئی تھیں، مگر وہ سب پردہ خفا میں تھیں لیکن اب تحقیق و جستجو نے انھیں گمنامی سے نکالا، انہی میں سے ایک قابل قدر کتاب مُلّا وجہیؔ کی ”سب رس” ہے۔®
جناب مُلّا وجہیؔ دور اول کے اردو نثر نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اردو نثر کا آغاز اگرچہ ۷۵۸ ہجری سے ہو چکا تھا، تاہم اس دور میں صرف ایک تصنیف ”معراج العاشقین” از حضرت گیسو دراز بتائی جاتی ہے۔ تاہم ”سب رس” کو اردو کی پہلی مستقل تصنیف سمجھا گیا ہے، جو انھوں نے ۱۰۴۸ہجری مطابق ۱۶۳۸ عیسوی میں تصنیف کی۔ مُلّا وجہیؔ عبداللہ شاہ والئی گولگنڈہ کا درباری شاعر اور نثر نگار تھا۔ ”قطب مشتری” ان کی مشہور مثنوی ہے جس میں انھوں نے سلطان قلی قطب شاہ کے عشق کو موضوع بنایا ہے۔
قطب شاہی بادشاہوں کے عہد میں دکنی یعنی قدیم اردو کو بہت فروغ ہوا۔ یہ لوگ علم و ہنر کے بڑے سر پرست تھے اور شعرا ء و علماء ان کے دربار کی رونق تھے۔ خود ان میں سے بعض بڑے پائے کے شاعر ہوئے ہیں۔ سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ جسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے، اس کا ضخیم کلیات اس کی قادرالکلامی اور وسیع النظری پر دلالت کرتاہے۔ اردو میں اس سے قبل کا ایسا پاکیزہ کلام دریافت نہیں ہوا ہے۔ اس کا بھتیجا اور جانشین محمد قطب شاہ بھی اردو کا بہت اچھا شاعر ہوا ہے۔ پھر اس کا جانشیں عبداللہ قطب ؔ شاہ بھی اپنے باپ دادا کی طرح اردو کا سخنور تھا۔ اس کے عہد میں علم کا بہت چرچا تھا اور بعض بڑے فاضل اور شاعر اس کے دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ فارسی لغت کی مشہور اور مقبول کتاب”برہان قاطع” اس کے عہد میں لکھی گئی اور طب کی بعض مشہور کتابیں اس زمانے کی تالیف ہیں اور اسی بادشاہ کے نام سے منسوب ہیں اور مُلّا نظام الدین احمد نے اپنی کتاب ”حدیقتہ السلاطین” میں اس کے حالات لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے عہد میں بہت سے علماء نے بھی اپنی کتابیں اسی بادشاہ کے نام سے معنون کی ہیں۔ اس سے اس کی علم پروری اور علمی ذوق کا پتہ لگتا ہے۔ مُلّا غواصیؔ، ابن نشاطیؔ، قطبی، مقیمیؔ اور جنیدیؔ وغیرہ سب اُسی کے دربار سے وابستہ تھے۔
کتاب ”سب رس” میں مُلّا وجہیؔ نے ایک عام اور عالمگیر حقیقت کو مجاز کے پیرائے میں بیان کیا ہے اور حسن و عشق کی کشمکش اور عشق و دل کے معرکے کو قصے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ”سب رس” کا دیباچہ پڑھنے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ اسی کی ایجاد ہے اور اس کے دماغ کی اپج ہے۔حالانکہ یہ بات نہیں۔ یہ پُر لطف داستان سب سے پہلے محمد یحییٰ ابن سیبک فتاحی نیشا پوری نے لکھی۔ یہ نیشا پورکا علاقہ خراساں کے مشاہیر میں ہے اور شاہ رخؔ مرزا کے عہد میں تھے اور فتاحی ؔ تخلص کرتے تھے۔ یہ بہت فاضل اور قادر الکلام شاعر تھے۔ علاوہ دیوان کے ان کی کئی تصنیفات بھی ہیں۔ ان میں سے ایک ”دستور العشاق” یعنی حسن و دل کا قصہ ہے۔ دستور العشاق قصہ مثنوی ہے جس میں پانچ ہزار اشعار ہیں۔ اس قصے کو مصنف نے ”شبستان خیال” اور ”حسن دل” کے نام سے الگ الگ بھی لکھا ہے لیکن یہ دونوں دستور عشاق کے بعد لکھی گئی ہیں۔ ”حسن و دل” جو بہت مشہور ہوئی، نثر میں دستور عشاق کا خلاصہ ہے۔ اس کی مسجع اور مقفیٰ اور صنائع بدائع کی اس میں خوب داددی ہے۔®
ایک عرصے تک ”سب رس” کو طبع زاد کتاب کہا جاتا رہا ہے لیکن بعد میں جانچ پڑتال اور تحقیق سے ثابت ہوا کہ گرچہ وجہی ؔ نے اس قصے کو نہایت احسن انداز میں ایک تخلیقی صورت میں پیش کیا ہے لیکن اصل میں یہ تمثیلی قصہ فارسی کی مشہور کتاب”دستور العشاق” سے لیا گیا ہے جس کو فتاحی نیشاپوری نے تصنیف کیا گو کہ مُلّا وجہیؔ نے قصے کی اصل کی طرف کہیں اشارہ نہیں کیا ، مگر دونوں کتابوں کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وجہیؔ نے قصے کی واردات حرف بہ حرف فتاحیؔ سے لی ہے اور اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں کیا ہے تو یہ کہ جابجاموقع بے موقع پندو نصیحت اور موعظمت کا دفتر کھول دیا ہے جس کا اصل کتاب میں نام و نشان نہیں۔
کتاب”سب رس” اس دقیق اور رنگین طرز میں لکھی گئی ہے جس کو مقفّٰی اور مسجع کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ فارسی اور عربی میں اس انداز کی بہت سی کتابیں ملتی ہیں جن میں زیادہ تر مشہور مقامات بدیعی، مقامات حدیدی، مقامات حمیدی اور تاریخ اصناف وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن اردو زبان کی قدیم ادبیات میں بھی ایسی کتابیںملتی ہیں جو اس مرصع طرز بیان سے متاثر ہو کر لکھی گئیں۔ ان میں ”نو طرز مرصع” از تحسین اور فسانۂ عجائب” از مرزا رجب علی بیگ سرمدؔ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ دراصل رنگینی اور رنگین بیانی مسلمان قوم کی خاص خوبی ہے۔
ANS 04
اس میں شبہ نہیں ہو سکتا کہ ہر اردو داں اردو سے محبت کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے، اردو زبان کے کچھ غیر معمولی اوصاف جو کسی دیگر ہندوستانی زبان میں نہیں پائے جاتے۔ ان دیگر زبانوں میں ہندی بھی شامل ہے جس کا صوتی کردار سنسکرت کی آمیزش کی وجہ سے نسبتاً اکھڑ سا ہے۔ علاوہ ازیں ہندی میں عربی اور فارسی کی لفظیات نہ کے برابر ہیں، لہذا جو شیرینی اور اور سلاست اردو تحریر و تقریر کا خاصہ ہے، ہندی اس سے تقریباً محروم ہے۔ اردو سے اسی محبت کی وجہ ہے کہ اردو والوں کو ہر لمحہ اپنی زبان کے زوال پذیر ہونے یا قطعاً فوت ہو جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ پچھلے دس بارہ سال میں تو اردو کے مر جانے کے خطرے سے متعلق جتنے مضامین لکھے گئے، اگر کسی علمی یا ادبی موضوع پر لکھے گئے ہوتے تو اردو زبان و ادب کو کافی فروغ ملتا۔
بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ ملک میں اردو کے فروغ کے مقصد سے قائم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی تعداد اتنی ہے کہ گننے بیٹھیں تو دفتر کے دفتر صرف ہوں۔ لیکن ساتھ ساتھ بڑی بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ کسی ادارے کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں جس کے تحت زبان کو واقعتاً فروغ دیا جا سکے۔
اردو کی بقا کے لئے اردو کو روزگار سے جوڑنے کا نعرہ بھی ڈھول پیٹ پیٹ کر لگایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اب اس نعرے نے ایک باضابطہ سیاسی مطالبے کی شکل اختیار کر لی ہے، لیکن میں اپنے دوست شجاع خاور کے شعر میں تصرف کرتے ہوئے کہوں گا؎
بات سب اردو سے روزی کی کیا کرتے ہیں
بولتا کوئی نہیں ہے کہ یہ ہوگا کیسے
آج تک کسی جانب سے ایسا کوئی منصوبہ سامنے نہیں لایا گیا جو اردو کو روزگار سے جوڑنے میں کارگر ثابت ہو سکے۔ جہاں تک اردو اداروں کا تعلق ہے تو پرائیویٹ اردو اداروں کی بات تو جانے ہی دیجیے، کیونکہ ان میں بیشتر اس قسم کی “ذاتی” تنظیمیں ہوتی ہیں جن کا وجود کاغذ تک محدود ہوتا ہے اور جن کا مقصد سرکاری فنڈ حاصل کر کے چھوٹے موٹے پروگرام اور استقبالیے منعقد کرنے تک محدود ہے۔ رہے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے جن کے پاس تھوڑے بہت تعمیری کام کرنے کے وسائل ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں تو ان کی سرگرمیاں بھی ادنی سیمینار، استقبالیہ اور اجرائے کتب تقریبات اور مشاعروں تک محدود رہتی ہیں۔
مشاعرہ تو پھر بھی ایک بہت اہم ادبی سرگرمی ہے اور اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اردو شاعری جیسی شاعری دنیا کی کسی زبان میں نہیں ہے اور اردو مشاعرے جیسی ادبی تقریب دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ غیر اردو داں حضرات کے لئے بھی مشاعرہ ایک نہایت پرکشش تفریح ہے، جس کے لئے باذوق و بےذوق کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ اردو کی دیکھا دیکھی ہندی نے بھی کوی سمیلن کی بدعت شروع کی، لیکن مولوی مدن تو اردو میں ہی پائے جاتے ہیں۔
اجرائے کتب کا کردار محض اشتہاری ہو گیا ہے۔ اور رہے سیمینار تو اس سے زیادہ تضیعِ اوقات و زر کا دوسرا کوئی وسیلہ شاید ہی ہو۔ ایک تو اردو کا ہر ادیب اور مدرس دنیا کے ہر موضوع پر مقالہ لکھ دیتا ہے۔ موضوعات کا اختصاص اور کسی بھی قسم کے اسپیشلائزیشن کا اردو والوں کے یہاں کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ جس شخص نے سعادت حسن منٹو پر تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہو، وہ نہایت اطمینان سے چند منٹوں میں “فلسفہ کلام اقبال” یا “غالب کی شاعری پر کلام بیدل کا اثر” جیسے ادق موضوعات پر مقالہ لکھ کر لے آئے گا۔ اب اس مقالے کی کوالٹی یا افادیت کیا ہوگی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سیمینار ویسے بھی کوئی عوامی چیز نہیں ہے اور اس کا فائدہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کوئی نہایت اہم موضوع منتخب کر کے اس موضوع کے دو تین یا چار ماہرین (اس سے زیادہ تعداد میں کسی موضوع کے ماہرین ہوتے بھی نہیں ہیں) اس موضوع پر اپنی اپنی تحقیق یا خیالات و تاثرات رقم کریں جن پر موازنہ اور بحث کے بعد کوئی نیا علمی نظریہ قائم ہو سکے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ دئے ہوئے موضوع پر درجن بھر مقالے لکھ اور پڑھ دئے جاتے ہیں اور سیمینار کے اختتام پر مقالہ نگار اپنا اپنا لفافہ سنبھال کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ کسی سیمینار کے بعد کسی نئے نظریے کی پیدائش یا قائمی کا اعلان کیا گیا ہو۔ سیمینار میں پڑھے گئے مقالات کی اشاعت بھی بہت کم ہی ہو پاتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبان کا فروغ اس کی لغات یعنی vocabulary سے ہوتا ہے۔ جس زبان میں جتنے زیادہ مضامین اور موضوعات کے اظہار کی قوت ہوتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ طاقتور اور اہم زبان سمجھی جاتی ہے۔ آٹھویں سے سولہویں صدی کے نصف تک کا زمانہ اسلامی تاریخ کا دور زریں کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب مسلمانوں نے نہ صرف یونانی فلسفہ مغرب تک پہنچایا بلکہ الجبرا سے لے کر کیمیا تک مختلف سائنسی علوم میں خود بھی عظیم الشان کارنامے انجام دئے۔
یورپی زبانوں خصوصاً انگریزی، فراسی اور جرمن نے مختلف عرصوں میں اپنی اپنی زبان کو تمام سائنسی علوم کے لئے وسیع کر لیا۔ اس حد تک کہ اب یورپ کی دو چار ہی زبانیں ٹکنالوجی کے میدانوں میں انگریزی کی دست نگر ہیں۔ لیکن ایک چینی زبان کو چھوڑ کر تمام ایشیائی زبانیں انگریزی کی محتاج ہیں۔ انگریزی پڑھے بغیر آپ پائلٹ تک نہیں بن سکتے۔ عربی زبان کی ترقی بھی سترھویں صدی تک آکر تقریباً رک گئی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ علوم ہیں جن کے موجد عرب خود تھے انگریزی، فرانسیسی اور جرمن کے محتاج ہو گئے۔ اس ضمن میں سب سے عظیم کارنامہ انجام دیا ہے ایران نے۔ انہوں نے زبان کے فروغ کی اہمیت کو بہت جلد محسوس کر لیا تھا اورتمام علوم جديدہ کے تقاضوں کے مطابق فارسی کی توسیع کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے سائنسدانوں نے فارسی میڈیم کے ذریعے ایٹم بم تک بنا لیا۔ زبان کے فروغ و توسیع کی اس سے بڑی مثال کم از کم اردو کے لئے کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اگر ‘عالمی کانفرنسوں’ جیسی متنازع اور لایعنی سرگرمیوں کو چھوڑ کر تمام سائنسی علوم کے اردو داں ماہرین کو جمع کرے اور سائنس اور ٹکنالوجی کی ہر اصطلاحات کے عام فہم اردو متبادل اختراع کئے جائیں تو بہت جلد بیشتر مضامین اردو میں پڑھے اور پڑھائے جانے لگیں گے۔ اس کے بعد نہ صرف اردو کے ذریعے روزگار کے مواقع از خود پیدا ہوں گے بلکہ زبان کو ہمیشگی مل جائے گی۔